Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 49

سورة الأنبياء

الَّذِیۡنَ یَخۡشَوۡنَ رَبَّہُمۡ بِالۡغَیۡبِ وَ ہُمۡ مِّنَ السَّاعَۃِ مُشۡفِقُوۡنَ ﴿۴۹﴾

Who fear their Lord unseen, while they are of the Hour apprehensive.

وہ لوگ جو اپنے رب سے بن دیکھے خوف کھاتے ہیں اور قیامت ( کے تصور ) سے کانپتے رہتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ ... Those who fear their Lord in the unseen. This is like the Ayah: مَّنْ خَشِىَ الرَّحْمَـنَ بِالْغَيْبِ وَجَأءَ بِقَلْبٍ مُّنِيبٍ Who feared the Most Gracious in the unseen and came with a repenting heart. (50:33) إِنَّ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُم بِالْغَيْبِ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ كَبِيرٌ Verily, those who fear their Lord unseen, theirs will be forgiveness and a great reward. (67:12) ... وَهُم مِّنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ and they are afraid of the Hour. means, they fear it. Then Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

49۔ 1 یہ متقین کی صفات ہیں، جیسے سورة بقرہ کے آغاز میں اور دیگر مقامات پر بھی متقین کی صفات کا تذکرہ ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٤] اگرچہ یہ کتاب سب لوگوں کے لئے نازل کی گئی تھی۔ مگر اس سے فائدہ اور نصیحت تو صرف ان لوگوں کو حاصل ہوتا ہے جو اللہ پر بن دیکھے ایمان لاتے ہیں اور اس کی ہدایت کے طالب ہوتے ہیں اور آخرت کے دن اللہ کے حضور پیش ہونے اور اپنے اعمال کی باز پرس سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اور انھیں بروقت یہی فکر دامنگیر رہتی ہے اور باز پرس کی فکر نہیں۔ اس دنیا میں انتہائی محتاط زندگی گزارنے پر آمادہ کرتی رہتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بالْغَيْبِ : اس کے دو معنی ہیں، ایک یہ کہ وہ اپنے رب کو دیکھے بغیر اس کا شدید خوف رکھتے ہیں اور دوسرا یہ کہ لوگوں کی نگاہوں سے غائب ہونے کی حالت میں بھی وہ اپنے رب سے بہت ڈرتے ہیں۔ ان کے کسی عمل سے مقصود نہ ریا ہے اور نہ لوگوں کی طعن تشنیع سے بچنا، بلکہ ان کے ہر عمل کا باعث صرف اپنے رب کی خشیت ہے۔ وَهُمْ مِّنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُوْنَ : یہ جملہ اسمیہ ہے جس میں دوام پایا جاتا ہے، ” اشفاق “ کا معنی ہے کسی آنے والے حادثے کا شدید کھٹکا، یعنی انھیں ہر وقت قیامت کا کھٹکا لگا رہتا ہے اور وہ ہمیشہ اس سے ڈرتے رہتے ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

الَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ بِالْغَيْبِ وَہُمْ مِّنَ السَّاعَۃِ مُشْفِقُوْنَ۝ ٤٩ خشی الخَشْيَة : خوف يشوبه تعظیم، وأكثر ما يكون ذلک عن علم بما يخشی منه، ولذلک خصّ العلماء بها في قوله : إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] ( خ ش ی ) الخشیۃ ۔ اس خوف کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل پر طاری ہوجائے ، یہ بات عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ؛۔ إِنَّما يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبادِهِ الْعُلَماءُ [ فاطر/ 28] اور خدا سے تو اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحب علم ہیں ۔ میں خشیت الہی کے ساتھ علماء کو خاص کیا ہے ۔ غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے ساعة السَّاعَةُ : جزء من أجزاء الزّمان، ويعبّر به عن القیامة، قال : اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] ، يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] ( س و ع ) الساعۃ ( وقت ) اجزاء زمانہ میں سے ایک جزء کا نام ہے اور الساعۃ بول کر قیامت بھی مراد جاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ [ القمر/ 1] قیامت قریب آکر پہنچی ۔ يَسْئَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ [ الأعراف/ 187] اے پیغمبر لوگ ) تم سے قیامت کے بارے میں پوچھتے ہیں ۔ شفق الشَّفَقُ : اختلاط ضوء النّهار بسواد اللّيل عند غروب الشمس . قال تعالی: فَلا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ [ الانشقاق/ 16] ، والْإِشْفَاقُ : عناية مختلطة بخوف، لأنّ الْمُشْفِقَ يحبّ المشفق عليه ويخاف ما يلحقه، قال تعالی: وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ [ الأنبیاء/ 49] ، فإذا عدّي ( بمن) فمعنی الخوف فيه أظهر، وإذا عدّي ب ( في) فمعنی العناية فيه أظهر . قال تعالی: إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنا مُشْفِقِينَ [ الطور/ 26] ، مُشْفِقُونَ مِنْها [ الشوری/ 18] ، مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا [ الشوری/ 22] ، أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا[ المجادلة/ 13] . ( ش ف ق ) الشفق غروب آفتاب کے وقت دن کی روشنی کے رات کی تاریکی میں مل جانے کو شفق کہتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَلا أُقْسِمُ بِالشَّفَقِ [ الانشقاق/ 16] ہمیں شام کی سرخی کی قسم ۔ الاشفاق ۔ کسی کی خیر خواہی کے ساتھ اس پر تکلیف آنے سے ڈرنا کیونکہ مشفق ہمیشہ مشفق علیہ کو محبوب سمجھتا ہے اور اسے تکلیف پہنچنے سے ڈرتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَهُمْ مِنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُونَ [ الأنبیاء/ 49] اور وہ قیامت کا بھی خوف رکھتے ہیں ۔ اور جب یہ فعل حرف من کے واسطہ سے متعدی تو اس میں خوف کا پہلو زیادہ ہوتا ہے اور اگر بواسطہ فی کے متعدی ہو تو عنایت کے معنی نمایاں ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے إِنَّا كُنَّا قَبْلُ فِي أَهْلِنا مُشْفِقِينَ [ الطور/ 26] اس سے قبل ہم اپنے گھر میں خدا سے ڈرتے رہتے تھے ۔ مُشْفِقُونَ مِنْها [ الشوری/ 18] وہ اس سے ڈرتے ہیں ۔ مُشْفِقِينَ مِمَّا كَسَبُوا [ الشوری/ 22] وہ اپنے اعمال ( کے وبال سے ) ڈر رہے ہوں گے ۔ أَأَشْفَقْتُمْ أَنْ تُقَدِّمُوا[ المجادلة/ 13] کیا تم اس سے کہ ۔۔۔ پہلے خیرات دیا کرو ڈر گئے ہو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٩) جو پرہیزگار اپنے پروردگار سے بغیر دیکھے اس کی خوشنودی کے لیے نیک اعمال کرتے ہیں اور وہ لوگ عذاب قیامت سے بھی ڈرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

52. The Hour of Resurrection.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :52 جس کا ابھی اوپر ذکر گزرا ہے ، یعنی قیامت ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 14 ۔ اسی لئے وہ معصیت سے اجتناب کرتے ہیں کیونکہ اس روز تمام اعمال کا محاسبہ ہوگا اور ہر اچھے برے عمل کا بدلہ دیا جائے گا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

الذین یخشون ربھم بالغیب (١٢ : ٩٤) ” جو بےدیکھے اپنے رب سے ڈریں “۔ اس لیے کہ جو لوگ اللہ سے ڈریں اور انہوں نے اللہ کو دیکھا ہی نہ ہو اور وھم من الساعۃ مشفقون (١٢ : ٩٤) ” اور ان کو اس گھڑی کا کھٹکا لگا ہوا ہو “۔ اور اس کے لیے تیاری اور عمل کرتے ہوں تو ایسے ہی لوگ اس روشنی سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور راہ ہدایت اختیار کرتے ہیں اس لیے ایسے لوگوں کے لیے کتاب نصیحت بن جاتی ۔ یہ ان کو اللہ کی طرف مڑنے کی یاد دہانی کراتی رہتی ہے۔ اس کے ذریعے لوگوں کے اندر ان کا تذکرہ ہوتا ہے گویا وہ ان کی پہچان بن جاتی ہے۔ یہ تھی حضرت موسیٰ اور ہارون کی شان وھذا ذکر مبرک (١٢ : ٠٥) ” اب یہ بابرکت ذکر ہم نے نازل کیا ہے “۔ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے ‘ کوئی عجیب چیز نہیں ہے۔ یہ تو ایک ایسا واقعہ ہے جو پہلے ہوتا رہا ہے۔ یہ اللہ کی معلوم و معروف سنت ہے۔ افانتم لہ منکرون (١٢ : ٠٥) ” پھر کیا تم اسے قبول کرنے سے انکاری ہو “۔ آخر اس میں تمہیں کیا چیز انوکھی لگ رہی ہے۔ کیا اس سے قبل اللہ کے رسول نہیں آتے رہے۔ حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہم السلام) کے قصے پر ایک نہایت ہی سرسری نظر ڈالنے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قصے کی ایک مکمل کڑی یہاں دی جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) عربوں کے جداکبر ہیں۔ خانہ کعبہ کے بانی ہیں ‘ جس کو قریش نے بتوں سے بھر رکھا تھا اور رات اور دن ان کی بندگی اور پرستش کرتے تھے حالانکہ حضرت ابراہیم تو مشہور ہی اس لیے تھے کہ انہوں نے بت توڑے تھے۔ یہاں ان کے قصے کو پیش کرنے کا مطلب بھی یہ ہے کہ تم بتوں کی پرستش کرتے ہو ‘ جبکہ وہ بت شکن تھے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے حالات زندگی کی یہ کڑی بہت ہی مشہور ہے۔ اس کے کئی مناظر یہاں پیش کیے گئے ہیں۔ ان مناظر کے درمیان بیشک چھوٹے چھوٹے گیپ بھی ہیں۔ آغاز اس سے ہوتا ہے کہ ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے رسالت اور ہدایت عطا کردی تھی اور وہ عقیدہ توحید پر قائم تھے۔ ” رشدہ “ سے مراد ہی عقیدہ توحید ہے کیونکہ اس فضا میں سب سے بڑی ہدایت تھی ہی عقیدہ توحید کی طرف ہدایت۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(49) متقی وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار سے بن دیکھے ڈرتے ہیں اور وہ قیامت کا خطرہ رکھتے ہیں اور قیامت سے خائف ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ سے چونکہ ڈرنے والے ہیں اس لئے قیامت سے بھی ڈرتے ہیں کہ دیکھئے اس دن کیا ہو اور اللہ تعالیٰ کیسا معاملہ فرمائے۔