Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 6

سورة الأنبياء

مَاۤ اٰمَنَتۡ قَبۡلَہُمۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَا ۚ اَفَہُمۡ یُؤۡمِنُوۡنَ ﴿۶﴾

Not a [single] city which We destroyed believed before them, so will they believe?

ان سے پہلے جتنی بستیاں ہم نے اجاڑیں سب ایمان سے خالی تھیں ۔ تو کیا اب یہ ایمان لائیں گے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Not one of the towns of those which We destroyed, believed before them; will they then believe! None of the peoples to whom Messengers were sent were given a sign at the hands of their Prophet and believed. On the contrary, they disbelieved and We destroyed them as a result. Would these people believe in a sign if they saw it! Not at all! In fact, إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُوْمِنُونَ وَلَوْ جَأءَتْهُمْ كُلُّ ءايَةٍ حَتَّى يَرَوُاْ الْعَذَابَ الاٌّلِيمَ Truly, those, against whom the Word of your Lord has been justified, will not believe. Even if every sign should come to them, until they see the painful torment. (10:96-97) Indeed, they witnessed clear signs and definitive proof at the hands of the Messenger of Allah, signs which were far clearer and more overwhelming than any that had been witnessed in the case of any other Prophet, may the blessings and peace of Allah be upon them all.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔ 1 یعنی ان سے پہلے جتنی بستیاں ہم نے ہلاک کیں، یہ نہیں ہوا کہ ان کی حسب خواہش معجزہ دکھلانے پر ایمان لے آئی ہوں، بلکہ معجزہ دیکھ لینے کے باوجود وہ ایمان نہیں لائیں، جس کے نتیجے میں ہلاکت ان کا مقدر بنی تو کیا اگر اہل مکہ کو ان کی خواہش کے مطابق کوئی نشانی دکھلا دی جائے، تو وہ ایمان لے آئیں گے ؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ یہ بھی تکذیب وعناد کے راستے پر ہی بدستور گامزن رہیں گے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

مَآ اٰمَنَتْ قَبْلَهُمْ مِّنْ قَرْيَةٍ ۔۔ : اس آیت میں تین باتیں نہایت اختصار کے ساتھ بیان فرمائی ہیں۔ پہلی یہ کہ ایمان لانے کی شرط کے طور پر تم نے پہلے رسولوں جیسا معجزہ لانے کا مطالبہ کیا ہے، سو پہلی امتوں کو ایسے معجزات دکھائے گئے، وہ ان پر ایمان نہیں لائے، تو تم جو ان سے کہیں بڑھ کر سرکش اور ضدی ہو، کیسے ایمان لاؤ گے ؟ دیکھیے سورة بنی اسرائیل (٥٩) دوسری یہ کہ جو قومیں معجزات دیکھ کر ایمان نہیں لائیں انھیں ہلاک کردیا گیا، کیونکہ صریح معجزہ آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایمان نہ لانے والی قوم ہلاک کردی جاتی ہے، تو تم ایسا مطالبہ کیوں کرتے ہو جس کا نتیجہ تمہاری ہلاکت ہے ؟ تیسری یہ کہ تمہیں معجزہ نہ دکھانا اللہ تعالیٰ کی تم پر رحمت ہے کہ اس نے تمہیں مہلت دے رکھی ہے اور اس کے علم میں تمہاری کئی نسلوں کا مسلمان ہونا مقدر ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة عنکبوت (٤٨ تا ٥١) کی تفسیر۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Then in اَفَھُم یؤمِنُونَ (Will they believe?) there is a hint that there was no likelihood of these people accepting the true faith even after seeing the miracles of their choice. Hence they were not shown the desired miracle.

آگے۔ اَفَهُمْ يُؤ ْمِنُوْنَ میں اسی طرف اشارہ ہے کہ کیا منہ مانگے معجزہ کو دیکھ کر یہ ایمان لے آئیں گے مراد یہ ہے کہ ان سے اس کی کوئی توقع نہیں کی جاسکتی اس لئے مطلوبہ معجزہ نہیں دکھایا جاتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

مَآ اٰمَنَتْ قَبْلَہُمْ مِّنْ قَرْيَۃٍ اَہْلَكْنٰہَا۝ ٠ۚ اَفَہُمْ يُؤْمِنُوْنَ۝ ٦ أمن والإِيمان يستعمل تارة اسما للشریعة التي جاء بها محمّد عليه الصلاة والسلام، وعلی ذلك : الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا وَالصَّابِئُونَ [ المائدة/ 69] ، ويوصف به كلّ من دخل في شریعته مقرّا بالله وبنبوته . قيل : وعلی هذا قال تعالی: وَما يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللَّهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ [يوسف/ 106] . وتارة يستعمل علی سبیل المدح، ويراد به إذعان النفس للحق علی سبیل التصدیق، وذلک باجتماع ثلاثة أشياء : تحقیق بالقلب، وإقرار باللسان، وعمل بحسب ذلک بالجوارح، وعلی هذا قوله تعالی: وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ أُولئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ [ الحدید/ 19] . ويقال لكلّ واحد من الاعتقاد والقول الصدق والعمل الصالح : إيمان . قال تعالی: وَما کانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمانَكُمْ [ البقرة/ 143] أي : صلاتکم، وجعل الحیاء وإماطة الأذى من الإيمان قال تعالی: وَما أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنا وَلَوْ كُنَّا صادِقِينَ [يوسف/ 17] قيل : معناه : بمصدق لنا، إلا أنّ الإيمان هو التصدیق الذي معه أمن، وقوله تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيباً مِنَ الْكِتابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ [ النساء/ 51] فذلک مذکور علی سبیل الذم لهم، ( ا م ن ) الامن الایمان کے ایک معنی شریعت محمدی کے آتے ہیں ۔ چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَالَّذِينَ هَادُوا وَالنَّصَارَى وَالصَّابِئِينَ } ( سورة البقرة 62) اور جو لوگ مسلما ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست (2 ۔ 62) میں امنوا کے یہی معنی ہیں اور ایمان کے ساتھ ہر وہ شخص متصف ہوسکتا ہے جو تو حید ہوۃ کا اقرار کر کے شریعت محمدی میں داخل ہوجائے اور بعض نے آیت { وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُمْ بِاللهِ إِلَّا وَهُمْ مُشْرِكُونَ } ( سورة يوسف 106) ۔ اور ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے مگر ( اس کے ساتھ ) شرک کرتے ہیں (12 ۔ 102) کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے ۔ اور کبھی ایمان کا لفظ بطور مدح استعمال ہوتا ہے اور اس سے حق کی تصدیق کرکے اس کا فرمانبردار ہوجانا مراد ہوتا ہے اور یہ چیز تصدیق بالقلب اقرار باللسان اور عمل بالجوارح سے حاصل ہوتی ہے اس لئے فرمایا ؛۔ { وَالَّذِينَ آمَنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ أُولَئِكَ هُمُ الصِّدِّيقُونَ } ( سورة الحدید 19) اور جو لوگ خدا اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں روہی صدیق میں یہی وجہ ہے کہ اعتقاد قول صدق اور عمل صالح میں سے ہر ایک کو ایمان کہا گیا ہے چناچہ آیت کریمہ :۔ { وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ } ( سورة البقرة 143) ۔ اور خدا ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو یوں ہی کھودے (2 ۔ 143) میں ایمان سے مراد نماز ہے اور (16) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حیا اور راستہ سے تکلیف کے دور کرنے کو جزو ایمان قرار دیا ہے اور حدیث جبرائیل میں آنحضرت نے چھ باتوں کو کو اصل ایمان کہا ہے اور آیت کریمہ ؛۔ { وَمَا أَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ } ( سورة يوسف 17) اور آپ ہماری بات کو گو ہم سچ ہی کہتے ہوں باور نہیں کریں گے (12 ۔ 17) میں مومن بمعنی مصدق ہے ۔ لیکن ایمان اس تصدیق کو کہتے ہیں جس سے اطمینان قلب حاصل ہوجائے اور تردد جاتا رہے اور آیت کریمہ :۔ { أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ } ( سورة النساء 44 - 51) من ان کی مذمت کی ہے کہ وہ ان چیزوں سے امن و اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں جو باعث امن نہیں ہوسکتیں کیونکہ انسان فطری طور پر کبھی بھی باطل پر مطمئن نہیں ہوسکتا ۔ قرية الْقَرْيَةُ : اسم للموضع الذي يجتمع فيه الناس، وللناس جمیعا، ويستعمل في كلّ واحد منهما . قال تعالی: وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] قال کثير من المفسّرين معناه : أهل القرية . ( ق ر ی ) القریۃ وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہو کر آباد ہوجائیں تو بحیثیت مجموعی ان دونوں کو قریہ کہتے ہیں اور جمع ہونے والے لوگوں اور جگہ انفراد بھی قریہ بولا جاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَسْئَلِ الْقَرْيَةَ [يوسف/ 82] بستی سے دریافت کرلیجئے ۔ میں اکثر مفسرین نے اہل کا لفظ محزوف مان کر قریہ سے وہاں کے با شندے مرے لئے ہیں هلك الْهَلَاكُ علی ثلاثة أوجه : افتقاد الشیء عنك، وهو عند غيرک موجود کقوله تعالی: هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] - وهَلَاكِ الشیء باستحالة و فساد کقوله : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ويقال : هَلَكَ الطعام . والثالث : الموت کقوله : إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] وقال تعالیٰ مخبرا عن الکفّار : وَما يُهْلِكُنا إِلَّا الدَّهْرُ [ الجاثية/ 24] . ( ھ ل ک ) الھلاک یہ کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ایک یہ کہ کسی چیز کا اپنے پاس سے جاتے رہنا خواہ وہ دوسرے کے پاس موجود ہو جیسے فرمایا : هَلَكَ عَنِّي سُلْطانِيَهْ [ الحاقة/ 29] ہائے میری سلطنت خاک میں مل گئی ۔ دوسرے یہ کہ کسی چیز میں خرابی اور تغیر پیدا ہوجانا جیسا کہ طعام ( کھانا ) کے خراب ہونے پر ھلک الطعام بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو بر باد اور انسانوں اور حیوانوں کی نسل کو نابود کردی ۔ موت کے معنی میں جیسے فرمایا : ۔ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ [ النساء/ 176] اگر کوئی ایسا مرد جائے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کی قوم سے پہلے نشانیوں پر ایمان نہیں لائی جن کو ہم نے ان نشانیوں کی تکذیب کے وقت ہلاک کیا ہے سو کیا آپ کی قوم نشانیوں اور معجزات پر ایمان لے آئے گی بلکہ ہرگز یہ ایمان نہیں لائیں گے۔ شان نزول : ( آیت) ” مآامنت قبلہم من قریۃ “۔ (الخ) ابن جریر (رح) نے قتادہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ مکہ والوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا کہ اگر آپ اپنے دعوی میں سچے ہیں اور آپ کو ہمارے ایمان لانے پر خوشی ہوگی، تو آپ ہمارے لیے صفا پہاڑی کو سونے کی پہاڑی میں تبدیل کردیجیے۔ چناچہ جبریل امین آپ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اگر آپ چاہیں تو آپ کی قوم نے جو آپ سے سوال کیا ہے اس کو پورا کردیا جائے گا لیکن اگر ان کے سوال کو پورا کردیا جائے اور پھر بھی یہ ایمان نہ لائیں تو نزول عذاب کے متعلق میں ان کو پھر مہلت نہیں دی جائے گی، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی ان سے پہلے کوئی بستی والے جن کو ہم نے ہلاک کیا ہے ایمان نہیں لائے سو کیا یہ لوگ ایمان نہیں لے آئیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (مَآ اٰمَنَتْ قَبْلَہُمْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَہْلَکْنٰہَا ج) ” ان سے پہلے بہت سے رسولوں کو حسی معجزات دیے گئے تھے جو انہوں نے اپنی قوموں کو دکھائے ‘ مگر ان میں سے کوئی ایک قوم یا کوئی ایک بستی بھی ایسی نہیں تھی جو ان معجزات کو دیکھ کر ایمان لائی ہو۔ چناچہ وہ لوگ واضح معجزات کو دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے اور آخر کار ہلاکت ہی ان کا مقدر بنی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8. This contains a concise answer to the demand for a sign in the previous verse. (1) You ask for signs like the ones which were shown by the former Messengers but you forget that those obdurate people did not believe in spite of the signs shown to them. (2) While demanding a sign, you fail to realize that the people, who disbelieved even after seeing a sign, were inevitably destroyed. (3) It is indeed a favor of Allah that He is not showing the sign as demanded by you. Therefore, the best course for you would be to believe without seeing a sign. Otherwise, you will meet the same doom that the former communities met, when they did not believe even after seeing the signs.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :8 اس مختصر سے جملے میں نشانی کے مطالبے کا جو جواب دیا گیا ہے وہ تین مضمونوں پر مشتمل ہے ۔ ایک یہ کہ تم پچھلے رسولوں کی سی نشانیاں مانگتے ہو ، مگر یہ بھول جاتے ہو کہ ہٹ دھرم لوگ ان نشانیوں کو دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے تھے ۔ دوسرے یہ کہ تم نشانی کا مطالبہ تو کرتے ہو ، مگر یہ یاد نہیں رکھتے کہ جس قوم نے بھی صریح معجزہ آنکھوں سے دیکھ لینے کے بعد ایمان لانے سے انکار کیا ہے وہ پھر ہلاک ہوئے بغیر نہیں رہی ہے ۔ تیسرے یہ کہ تمہاری منہ مانگی نشانی نہ بھیجنا تو تم پر خدا کی ایک بڑی مہربانی ہے ۔ اب تک تم انکار پر انکار کیے جاتے رہے اور مبتلائے عذاب نہ ہوئے ۔ کیا اب نشانی اس لیے مانگتے ہو کہ ان قوموں کا سا انجام دیکھو جو نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں اور تباہ کر دی گئیں ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: نشانی سے مراد معجزہ ہے۔ اگرچہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہت سے معجزات ان کے سامنے آچکے تھے، لیکن وہ نت نئے معجزوں کے مطالبات کرتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا ہے کہ پچھلی قوموں نے بھی ایسے مطالبات کیے تھے لیکن جب ان کو ان کی فرمائش کے مطابق معجزات دکھائے گئے تب بھی وہ ایمان نہیں لائے جس کے نتیجے میں انہیں ہلاک کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ یہ لوگ بھی اپنے فرمائشی معجزے دیکھنے کے بعد ایمان نہیں لائیں گے، اور اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ جب کوئی قوم اپنے فرمائشی معجزات دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے تو اسے ہلاک کردیا جاتا ہے اور ابھی اللہ تعالیٰ کو ان کی فوری ہلاکت منظور نہیں ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:6) ما امنت۔ ما نافیہ ہے امنت ایمان سے ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب ہے۔ وہ ایمان لائی۔ اس نے مانا۔ یہاں سے جملہ مستانفہ شروع ہوتا ہے۔ اور کفار و مشرکین کے متذکرہ بالا نجوی کا خداوند تعالیٰ کی طرف سے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسلی خاطر کے لئے جواب ہے۔ ما امنت ۔۔ افہم یؤمنون۔ ان سے قبل ہم نے جن بستیوں کو (باوجود معجرہ ہائے عظم کے مرسلین خداوندی کی نافرمانی کی وجہ سے) ہلاک کیا ان کے اہالیان تو ایمان نہ لائے تو کیا یہ لوگ آپ سے معجزہ عظیم کا مطالبہ کر رہے ہیں ایسے معجزہ کی صورت میں ) ایمان لے آئیں گے۔ افہم میں ہمزہ استفہام انکاری کے لئے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 9 یعنی جن قوموں کی ہلاکت اللہ کے علم میں مقدر ہوچکی تھی وہ معجزے دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں۔ یہی حال ان کا ہے مگر اللہ کے علم میں ان کی ہلاکت مقدر نہیں ہے کیونکہ ان کی نسل سے بہت سے مسلمان پیدا ہونے والے ہیں۔ اس لئے ان کی فرمائش کے مطابق نشانی ظاہر نہیں ہوتی ورنہ کسی بڑ ی سے بڑی نشانی کا اظہار ہمارے لئے کچھ مشکل نہیں ہے۔ (قرطبی)10 کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ جتنے پیغمبر ہو گزرے ہیں سب شر ہی تھے اور یہ بات تو اثر سے ثابت ہے۔ اکثر مفسرین نے آیت کی یہی تفسیر بیان کی ہے کہ یہاں ” اہل ذکر “ سے مراد اہل کتاب ہیں اور یہ ان کے اعتراض ” ھل ھذا الابشر مثلکم “ کا جواب ہے (قرطبی) اس آیت سے بعض نے جواز تقلید پر استدلال کیا ہے جو غلط ہونے کے علاوہ مضحکہ خیز بھی ہے۔ نیز دیکھیے سورة نحل :43 (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

مآامنت۔۔۔۔۔۔۔۔ اھلکنھا (١٢ : ٦) ” حالانکہ ان سے پہلے کوئی بستی بھی جسے ہم نے ہلاک کیا ‘ ایمان نہ لائی “۔ یہ اس وہ سے کہ جب کوئی قوم بغض وعناد کے اس مرتبے تک پہنچ جائے کہ وہ ایک محسوس خارق عادت معجزے کے بعد بھی ایمان نہ لائے تو پھر تو اسے ہلاک کیا جانا ہی ٹھہرتا ہے۔ بار بار معجزات آئے ‘ باربار اقوام نے تکذیب کی اور بار بار ان مکذبین کو تاریخ میں ہلاک کیا جاتا رہا۔ تو اگر ان لوگوں کو ویسا ہی معجزہ دکھادیا جائے اور یہ بھی اسی طرح ایمان نہ لائیں تو پھر ہلاکت کے سوا اور کیا انجام ہوگا۔ افھم یومنون (١٢ : ٦) ” کیا یہ ایمان لائیں گے “۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

6 ہم نے جس بستی کو ان سے پہلے ہلاک کیا وہ تو باوجود نشان دیکھنے یک ایمان نہیں لائیتو کیا یہ لوگ نشان دیکھ کر ایمان لے آئیں گے۔ یعنی پہلے لوگ فرمائشی نشان دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے آخر ہم نے ان کو ہلاک و برباد کر دیاتو کیا یہ لوگ جو روز روز نئی نئی فرمائشیں کرتے ہیں اگر ا ن کے فرمائشی نشانات دکھائے گئے کیا یہ لوگ ایمان لے آئیں گے اور ظاہر ہے کہ یہ بھی پہلوں کی طرح ایمان نہیں لائیں گے اور پہلوں کی طرح ان پر بھی عذاب استیصال کا قاعدہ جاری ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی مشیت ان کی تباہی و ہلاکت کی مقتضی نہیں ہے اسلئے منہ مانگی نشانی اور فرمائشی معجزہ نہیں دکھایا جاسکتا۔ باقی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے صد ہا نشانات و معجزاتکا صدور ہوا جو پوشیدہ نہیں ہے۔