Surat ul Anbiya

Surah: 21

Verse: 84

سورة الأنبياء

فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ فَکَشَفۡنَا مَا بِہٖ مِنۡ ضُرٍّ وَّ اٰتَیۡنٰہُ اَہۡلَہٗ وَ مِثۡلَہُمۡ مَّعَہُمۡ رَحۡمَۃً مِّنۡ عِنۡدِنَا وَ ذِکۡرٰی لِلۡعٰبِدِیۡنَ ﴿۸۴﴾

So We responded to him and removed what afflicted him of adversity. And We gave him [back] his family and the like thereof with them as mercy from Us and a reminder for the worshippers [of Allah ].

تو ہم نے اس کی سن لی اور جو دکھ انہیں تھا اسے دور کر دیا اور اس کو اہل و عیال عطا فرمائے بلکہ ان کے ساتھ ویسے ہی اور ، اپنی خاص مہربانی سے تاکہ سچے بندوں کے لئے سبب نصیحت ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So We answered his call, and We removed the distress that was on him, Allah tells us about Ayub (Job), and the trials that struck him, affecting his wealth, children and physical health. He had plenty of livestock, cattle and crops, many children and beautiful houses, and he was tested in these things, losing every thing he had. Then he was tested with regard to his body, and he was left alone on the edge of the city and there was no one who treated him with compassion apart from his wife, who took care of him. It was said that it reached the stage where she was in need, so she started to serve people (to earn money) for his sake. The Prophet said: أَشَدُّ النَّاسِ بَلَءً الاَْنْبِيَاءُ ثُمَّ الصَّالِحُونَ ثُمَّ الاَْمْثَلُ فَالاَْمْثَل The people who are tested the most severely are the Prophets, then the righteous, then the next best and the next best. According to another Hadith: يُبْتَلَى الرَّجُلُ عَلَى قَدْرِ دِينِهِ فَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ صَلَبَةٌ زِيدَ فِي بَلَيِه A man will be tested according to his level of religious commitment; the stronger his religious commitment, the more severe will be his test. The Prophet of Allah, Ayub, upon him be peace, had the utmost patience, and he is the best example of that. Yazid bin Maysarah said: "When Allah tested Ayub, upon him be peace, with the loss of his family, wealth and children, and he had nothing left, he started to focus upon the remembrance of Allah, and he said: `I praise You, the Lord of lords, Who bestowed His kindness upon me and gave me wealth and children, and there was no corner of my heart that was not filled with attachment to these worldly things, then You took all of that away from me and You emptied my heart, and there is nothing to stand between me and You. If my enemy Iblis knew of this, he would be jealous of me.' When Iblis heard of this, he became upset. And Ayub, upon him be peace, said: `O Lord, You gave me wealth and children, and there was no one standing at my door complaining of some wrong I had done to him. You know that. I used to have a bed prepared for me, but I forsook it and said to myself: You were not created to lie on a comfortable bed. I only forsook that for Your sake."' This was recorded by Ibn Abi Hatim. Ibn Abi Hatim recorded from Abu Hurayrah that the Prophet said: لَمَّا عَافَى اللهُ أَيُّوبَ أَمْطَرَ عَلَيْهِ جَرَادًا مِنْ ذَهَبٍ فَجَعَلَ يَأْخُذُ مِنْهُ بِيَدِهِ وَيَجْعَلُهُ فِي ثَوْبِهِ قَالَ فَقِيلَ لَهُ يَا أَيُّوبُ أَمَا تَشْبَعُ قَالَ يَا رَبِّ وَمَنْنَيشْبَعُ مِنْ رَحْمَتِك When Allah healed Ayub, He sent upon him a shower of golden locusts, and he started to pick them up and gather them in his garment. It was said to him, "O Ayub, have you not had enough!" He said, "O Lord, who can ever have enough of Your mercy! The basis of this Hadith is recorded in the Two Sahihs, as we shall see below. ... وَاتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ ... and We restored his family to him (that he had lost) and the like thereof along with them. It was reported that Ibn Abbas said: "They themselves were restored to him." This was also narrated by Al-`Awfi from Ibn Abbas. Something similar was also narrated from Ibn Mas`ud and Mujahid, and this was the view of Al-Hasan and Qatadah. Mujahid said: "It was said to him, `O Ayub, your family will be with you in Paradise; if you want, We will bring them back to you, or if you want, We will leave them for you in Paradise and will compensate you with others like them.' He said, `No, leave them for me in Paradise.' So they were left for him in Paradise, and he was compensated with others like them in this world." ... رَحْمَةً مِّنْ عِندِنَا ... as a mercy from Ourselves, means, `We did that to him as a mercy from Allah towards him.' ... وَذِكْرَى لِلْعَابِدِينَ and a Reminder for all those who worship Us. means, `We made him an example lest those who are beset by trials think that We do that to them because We do not care for them, so that they may take him as an example of patience in accepting the decrees of Allah and bearing the trials with which He tests His servants as He wills.' And Allah has the utmost wisdom with regard to that.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

84۔ 1 قرآن مجید میں حضرت ایوب (علیہ السلام) کو صابر کہا گیا ہے، (ۭاِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًا ۭ نِعْمَ الْعَبْدُ ۭ اِنَّهٗٓ اَوَّابٌ) 38 ۔ ص :44) اس کا مطلب یہ ہے کہ انھیں سخت آزمائشوں میں ڈالا گیا جن میں انہوں نے صبر شکر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ یہ آزمائش اور تکلیفیں کیا تھیں، اس کی مستند تفصیل تو نہیں ملتی، تاہم قرآن کے انداز بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں مال و دولت دنیا اور اولاد وغیرہ سے نوازا ہوا تھا، بطور آزمائش اللہ تعالیٰ نے ان سے یہ سب نعمتیں چھین لیں، حتٰی کہ جسمانی صحت سے بھی محروم اور بیماریوں میں گھر کر رہ گئے۔ بالآخر کہا جاتا ہے کہ 8 ا سال کی آزمائشوں کے بعد بارگاہ الٰہی میں دعا کی، اللہ نے دعا قبول فرمائی اور صحت کے ساتھ مال و اولاد، پہلے سے دوگنا عطا فرمائے۔ اس کی کچھ تفصیل صحیح ابن حبان (رض) کی ایک روایت میں ملتی ہے، جس کا اظہار حضرت ایوب (علیہ السلام) نے کبھی نہیں کیا۔ البتہ دعا صبر کے منافی نہیں ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے ' ہم نے قبول کرلی ' کے الفاظ استعمال فرمائے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٤] جب حضرت ایوب اس صبر کے امتحان میں بھی پوری طرح کامیاب ہوگئے تو رحمت باری جوش میں آگئی۔ آپ کی یہی بےمطالبہ دعا یوں مقبول ہوئی کہ اللہ نے اسی مقام پر ایک چشمہ رواں کردیا۔ آپ کو صرف یہی حکم ہوا کہ اپنا پاؤں زمین پر مارو۔ پاؤں مارنے کی دیر تھی کہ چشمہ پھوٹ پڑا۔ جس کا پانی میٹھا، ٹھنڈا، شفا بخش اور جلدی امراض کو دور کرنے والا تھا۔ آپ نے اس میں غسل فرمایا کرتے اور اسی کا پانی لیتے رہے۔ آپ کی بیماری، جلد کی بیماری تھی۔ جو اس طرح غسل کرنے اور پانی ملتے رہنے سے جلد ہی دور ہوگئی اور جتنا مال و دولت اور آل اولاد اللہ تعالیٰ آپ کو پہلے عطا فرمائی تھی۔ اس سے دگنی عطا فرما دی اور یہ اللہ کی رحمت اور آپ کے صبر کا پھل تھا۔ [٧٥] عبادت گزاری کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ انسان خوشحالی کے دور میں اللہ کا شکر بجا لاتا ہے اور تنگی اور تنگدستی کے دور میں صبر و استقامت سے کام لے۔ جیسا کہ حضرت ایوب نے نمونہ پیش کیا تھا اس جملہ میں سبق یہ ہے کہ جو شخص بھی اس طرح اللہ کا عبادت گزار بنتا ہے۔ ایوب کی طرح اللہ تعالیٰ اسے بھی پہلے سے زیادہ انعامات سے نوازتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَكَشَفْنَا مَا بِہٖ مِنْ ضُرٍّ وَّاٰتَيْنٰہُ اَہْلَہٗ وَمِثْلَہُمْ مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَذِكْرٰي لِلْعٰبِدِيْنَ۝ ٨٤ استجاب والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] ، وقال : ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر/ 60] ، فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة/ 186] ، فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران/ 195] ، وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری/ 26] وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری/ 38] ، وقال تعالی: وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي[ البقرة/ 186] ، الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] . ( ج و ب ) الجوب الاستحابتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر/ 60] کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری ( دعا ) قبول کرونگا ۔ فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران/ 195] تو ان کے پرور گار نے ان کی دعا قبول کرلی ۔ وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری/ 26] اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کی ( دعا) قبول فرماتا وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری/ 38] اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة/ 186] اور اے پیغمبر جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ ) میں تو ( تمہارے پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں ۔ الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] جنهوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا اور رسول کے حکم کو قبول کیا ۔ كشف كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، ويقال : كَشَفَ غمّه . قال تعالی: وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام/ 17] ( ک ش ف ) الکشف كَشَفْتُ الثّوب عن الوجه وغیره، کا مصدر ہے جس کے معنی چہرہ وغیرہ سے پر دہ اٹھا نا کے ہیں ۔ اور مجازا غم وانداز ہ کے دور کرنے پر بھی بولا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَإِنْ يَمْسَسْكَ اللَّهُ بِضُرٍّ فَلا کاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ [ الأنعام/ 17] اور خدا تم کو سختی پہچائے تو اس کے سوا کوئی دور کرنے والا نہیں ہے ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ عبد العُبُودِيَّةُ : إظهار التّذلّل، والعِبَادَةُ أبلغُ منها، لأنها غاية التّذلّل، ولا يستحقّها إلا من له غاية الإفضال، وهو اللہ تعالی، ولهذا قال : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] . ( ع ب د ) العبودیۃ کے معنی ہیں کسی کے سامنے ذلت اور انکساری ظاہر کرنا مگر العبادۃ کا لفظ انتہائی درجہ کی ذلت اور انکساری ظاہر کرنے بولا جاتا ہے اس سے ثابت ہوا کہ معنوی اعتبار سے العبادۃ کا لفظ العبودیۃ سے زیادہ بلیغ ہے لہذا عبادت کی مستحق بھی وہی ذات ہوسکتی ہے جو بےحد صاحب افضال وانعام ہو اور ایسی ذات صرف الہی ہی ہے اسی لئے فرمایا : أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ [ الإسراء/ 23] کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٤) سو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کو جو تکلیف تھی اس کو دور کردیا اور جنت میں ہم نے ان کا کنبہ جو دنیا میں ہلاک ہوگیا تھا عطا کیا اور جتنا ہلاک ہوگیا تھا اس کے برابر اس دنیا میں بھی عطا کیا یہ سب اپنی خاص رحمت کے سبب سے اور مومنین کے لیے یادگار کے سبب سے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٨٤ (فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَکَشَفْنَا مَا بِہٖ مِنْ ضُرٍّ ) ” آپ ( علیہ السلام) ایک ایسی بیماری میں مبتلا تھے جس سے آپ ( علیہ السلام) کی جلد میں تعفن پیدا ہوجاتا تھا۔ زخموں اور پھوڑوں سے بدبو آتی تھی جس کی وجہ سے آپ ( علیہ السلام) کے اہل خانہ تک آپ ( علیہ السلام) کو چھوڑ گئے تھے۔ (وَّاٰتَیْنٰہُ اَہْلَہٗ وَمِثْلَہُمْ مَّعَہُمْ ) ” یعنی آپ ( علیہ السلام) کے اہل خانہ بھی آپ ( علیہ السلام) کے پاس واپس آگئے اور آپ ( علیہ السلام) کو اتنی ہی مزید اولاد بھی عطا فرمائی ۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

78. How his disease was cured has been explained in (Surah Suad, Ayat 42): Stamp the ground with your foot: here is cool water for you to wash with and to drink. From this it appears that no sooner did he stamp the ground than a spring gushed forth. He took bath and drank the water and was cured of his disease. The nature of the treatment hints that he was suffering from a skin disease. This is confirmed by the Bible as well. Satan smote Job with sore boils from the sole of his foot unto his crown. (Job, 2:7). 79. It will be worthwhile to compare the high character of Prophet Job as given in the Quran with that in the Book of Job in the Bible. The Quran presents him as a veritable picture of patience and fortitude and an excellent model for the worshippers of Allah, but his general picture presented in the Book of Job is that of a man who is full of grievance against God: Let the day perish wherein I was born, and the night in which it was said, There is a man child conceived. Let them curse (the night) that curse the day. Because it shut not the doors of my mother’s womb, nor did sorrow from mine eyes. Why died I not from the womb? (Chapter 3). Oh that my grief were thoroughly weighed, and my calamity laid in the balance together, the arrows of the Almighty are within me, the poison whereof drinketh up my spirit: the terrors of God do set themselves in array against me. (Chapter 6) I have sinned; what shall I do unto thee, O thou preserver of men? Why hast thou set me as a mark against thee, so that I am a burden to myself? And why dost thou not pardon my transgressions, and take away my iniquity? (Chapter 7: 20-21). His three friends try to console him and counsel patience, but in vain. He says: My soul is weary of my life. I will speak in the bitterness of my soul (10:1). I have heard many such things: miserable comforters are ye all. (16:2). So these three men ceased to answer Job. Then was kindled the wrath of Elihu against Job, because he justified himself rather than God." (32:1-3), but he also failed to console him. Then the Lord himself came down and condemned the three friends and Elihu and rebuked Job and then forgave him, accepted him and blessed him. (Chapters 41, 42). It should be noted that in the first two chapters of this Book, Prophet Job is presented as a perfect and upright man who feared God, but in the following chapters he becomes an embodiment of grievance against God, as though the estimate of Satan about him was correct and that of God incorrect. Thus this Book itself is a clear evidence that it is neither the word of God nor of Prophet Job but had been written afterwards by some literary man and incorporated in the Bible as a scripture.

سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :78 سورہ ص کے چوتھے رکوع میں اس کی تفصیل یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا : اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ ھٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ ، اپنا پاؤں مارو ، یہ ٹھنڈا پانی موجود ہے کھانے کو اور پینے کو ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر پاؤں مارتے ہی اللہ نے ان کے لیے ایک قدرتی چشمہ جاری کر دیا جس کے پانی میں یہ خاصیت تھی کہ اس سے غسل کرنے اور اس کو پینے سے ان کی بیماری دور ہو گئی ۔ یہ علاج اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کو کوئی سخت جلدی بیماری ہو گئی تھی ، اور بائیبل کا بیان بھی اس کی تائید کرتا ہے کہ ان کا جسم سر سے پاؤں تک پھوڑوں سے بھر گیا تھا ( ایوب ، باب 2 ، آیت 7 ) ۔ سورة الْاَنْبِیَآء حاشیہ نمبر :79 اس قصے میں قرآن مجید حضرت ایوب کو اس شان سے پیش کرتا ہے کہ وہ صبر کی تصویر نظر آتے ہیں ۔ اور پھر کہتا ہے کہ ان کی زندگی عبادت گزاروں کے لیے ایک نمونہ ہے ۔ لیکن دوسری طرف بائیبل کی سِفْرِ ایوب پڑھیے تو وہاں آپ کو ایک ایسے شخص کی تصویر نظر آئے گی جو خدا کے خلاف مجسم شکایت ، اور اپنی مصیبت پر ہمہ تن فریاد بنا ہوا ہے ۔ بار بار اس کی زبان سے یہ فقرے ادا ہوتے ہیں نابود ہو وہ دن جس میں میں پیدا ہوا ۔ ۔ میں رحم ہی میں کیوں نہ مر گیا ۔ میں نے پیٹ سے نکلتے ہی کیوں نہ جان دے دی ۔ اور بار بار وہ خدا کے خلاف شکایتیں کرتا ہے کہ قادر مطلق کے تیر میرے اندر لگے ہوئے ہیں ، میری روح ان ہی کے زہر کو پی رہی ہے ، خدا کی ڈراؤنی باتیں میرے خلاف صف باندھے ہوئے ہیں ۔ اے بنی آدم کے ناظر ، اگر میں نے گناہ کیا ہے تو تیرا کیا بگاڑتا ہوں ؟ تو نے کیوں مجھے اپنا نشانہ بنا لیا ہے یہاں تک کہ میں اپنے آپ پر بوجھ ہوں تو میرا گناہ کیوں نہیں معاف کرتا اور میری بدکاری کیوں نہیں دور کردیتا ؟ میں خدا سے کہوں گا کہ مجھے ملزم نہ ٹھہرا ، مجھے بتا کہ تو مجھ سے کیوں جھگڑتا ہے؟ کیا تجھے اچھا لگتا ہے کہ اندھیر کرے اور اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیز کو حقیر جانے اور شریروں کی مشورت کو روشن کرے ؟ اس کے تین دوست اسے آ کر تسلی دیتے ہیں اور اس کو صبر اور تسلیم و رضا کی تلقین کرتے ہیں ، مگر وہ نہیں مانتا ۔ وہ ان کی تلقین کے جواب میں پے در پے خدا پر الزام رکھے چلا جاتا ہے اور ان کے سمجھانے کے باوجود اصرار کرتا ہے کہ خدا کے اس فعل میں کوئی حکمت و مصلحت نہیں ہے ، صرف ایک ظلم ہے جو مجھ جیسے ایک متقی و عبادت گزار آدمی پر کیا جا رہا ہے ۔ وہ خدا کے اس انتظام پر سخت اعتراضات کرتا ہے کہ ایک طرف بدکار نوازے جاتے ہیں اور دوسری طرف نیکو کار ستائے جاتے ہیں ۔ وہ ایک ایک کر کے اپنی نیکیاں گناتا ہے اور پھر وہ تکلیفیں بیان کرتا ہے جو ان کے بدلے میں خدا نے اس پر ڈالیں ، اور پھر کہتا ہے کہ خدا کے پاس اگر کوئی جواب ہے تو وہ مجھے بتائے کہ یہ سلوک میرے ساتھ کس قصور کی پاداش میں کیا گیا ہے ۔ اس کی یہ زبان درازی اپنے خالق کے مقابلے میں اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ آخر کار اس کے دوست اس کی باتوں کا جواب دینا چھوڑ دیتے ہیں ۔ وہ چپ ہوتے ہیں تو ایک چوتھا آدمی جو ان کی باتیں خاموش سن رہا تھا بیچ میں دخل دیتا ہے اور ایوب کو بے تحاشا اس بات پر ڈانٹتا ہے کہ اس نے خدا کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو راست ٹھہرایا ۔ اس کی تقریر ختم نہیں ہوتی کہ بیچ میں اللہ میاں خود بول پڑتے ہیں اور پھر ان کے اور ایوب کے درمیان خوب دو بدو بحث ہوتی ہے ۔ اس ساری داستان کو پڑھتے ہوئے کسی جگہ بھی ہم کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم اس صبر مجسم کا حال اور کلام پڑھ رہے ہیں جس کی تصویر عبادت گزاروں کے لیے سبق بنا کر قرآن نے پیش کی ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کتاب کا ابتدائی حصہ کچھ کہہ رہا ہے ، بیچ کا حصہ کچھ ، اور آخر میں نتیجہ کچھ اور نکلا آتا ہے ۔ تینوں حصوں میں کوئی مناسبت نہیں ہے ۔ ابتدائی حصہ کہتا ہے کہ ایوب ایک نہایت راستباز ، خدا ترس اور نیک شخص تھا ، اور اس کے ساتھ اتنا دولت مند کہ اہل مشرق میں وہ سب سے بڑا آدمی تھا ۔ ایک روز خدا کے ہاں اس کے ( یعنی خود اللہ میاں کے ) بیٹے حاضر ہوئے اور ان کے ساتھ شیطان بھی آیا ۔ خدا نے اس محفل میں اپنے بندے ایوب پر فخر کا اظہار کیا ۔ شیطان نے کہا آپ نے جو کچھ اسے دے رکھا ہے اس کے بعد وہ شکر نہ کرے گا تو اور کیا کرے گا ۔ ذرا اس کی نعمت چھین کر دیکھیے ، وہ آپ کے منہ پر آپ کی تکفیر نہ کرے تو میرا نام شیطان نہیں ۔ خدا نے کہا ، اچھا ، اس کا سب کچھ تیرے اختیار میں دیا جاتا ہے ۔ البتہ اس کی ذات کو کوئی نقصان نہ پہنچایئو ۔ شیطان نے جا کر ایوب کے تمام مال و دولت کا اور اس کے پورے خاندان کا صفایا کر دیا اور ایوب ہر چیز سے محروم ہو کر بالکل اکیلا رہ گیا ۔ مگر ایوب کی آنکھ پر میل نہ آیا ۔ اس نے خدا کو سجدہ کیا اور کہا ننگا ہی میں اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا اور ننگا ہی واپس جاؤں گا ۔ خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا ۔ خداوند کا نام مبارک ہو پھر ایک دن ویسی ہی محفل اللہ میاں کے ہاں جمی ۔ ان کے بیٹے بھی آئے اور شیطان بھی حاضر ہوا ۔ اللہ میاں نے شیطان کو جتایا کہ دیکھ لے ، ایوب کیسا راستباز آدمی ثابت ہوا ۔ شیطان نے کہا ، جناب ، ذرا اس کے جسم پر مصیبت ڈال کر دیکھیے ۔ وہ آپ کے منہ پر آپ کی تکفیر کرے گا ۔ اللہ میاں نے فرمایا ، اچھا ، جا ، اس کو تیرے اختیار میں دیا گیا ، بس اس کی جان محفوظ رہے ۔ چنانچہ شیطان واپس ہوا اور آ کر اس نے ایوب کو تلوے سے چاند تک درد ناک پھوڑوں سے دکھ دیا ۔ اس کی بیوی نے اس سے کہا کیا تو اب بھی اپنی راستی پر قائم رہے گا ؟ خدا کی تکفیر کر اور مر جا اس نے جواب دیا تو نادان عورتوں کی سی باتیں کرتی ہے ۔ کیا ہم خدا کے ہاتھ سے سکھ پائیں اور دکھ نہ پائیں ۔ یہ ہے سِفْرِ ایوب کے پہلے اور دوسرے باب کا خلاصہ ۔ لیکن اس کے تیسرے باب سے ایک دوسرا ہی مضمون شروع ہوتا ہے جو بیالیسویں باب تک ایوب کی بے صبری اور خدا کے خلاف شکایات و الزامات کی ایک مسلسل داستان ہے اور اس سے پوری طرح یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ایوب کے بارے میں خدا کا اندازہ غلط اور شیطان کا اندازہ صحیح تھا ۔ پھر بیالیسویں باب میں خاتمہ اس بات پر ہوتا ہے کہ اللہ میاں سے خوب دو بدو بحث کر لینے کے بعد ، صبر و شکر اور توکل کی بنا پر نہیں بلکہ اللہ میاں کی ڈانٹ کھا کر ، ایوب ان سے معافی مانگ لیتا ہے اور وہ اسے قبول کر کے اس کی تکلیفیں اور کر دیتے ہیں اور جتنا کچھ پہلے اس کے پاس تھا اس سے دوچند دے دیتے ہیں ۔ اس آخری حصے کو پڑھتے وقت آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایوب اور اللہ میاں دونوں شیطان کے چیلنج کے مقابلے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں ، اور پھر محض اپنی بات رکھنے کے لیے اللہ میاں نے ڈانٹ ڈپٹ کر اسے معافی مانگنے پر مجبور کیا ہے ، اور اس کے معافی مانگتے ہی اسے قبول کر لیا ہے تاکہ شیطان کے سامنے ان کی ہیٹی نہ ہو ۔ یہ کتاب خود اپنے منہ سے بول رہی ہے کہ یہ نہ خدا کا کلام ہے نہ خود حضرت ایوب کا ۔ بلکہ یہ حضرت ایوب کے زمانے کا بھی نہیں ہے ۔ ان کے صدیوں بعد کسی شخص نے قصہ ایوب کو بنیاد بنا کر یوسف زلیخا کی طرح ایک داستان لکھی ہے اور اس میں ایوب ، الیفز تَیمانی ، سوخی بلدو ، نعماتی ضوفر ، براکیل بوزی کا بیٹا الیہو ، چند کیرکٹر ہیں جن کی زبان سے نظام کائنات کے متعلق دراصل وہ خود اپنا فلسفہ بیان کرتا ہے ۔ اس کی شاعری اور اس کے زور بیان کی جس قدر جی چاہے داد دے لیجیے ، مگر کتب مقدسہ کے مجموعے میں ایک صحیفہ آسمانی کی حیثیت سے اس کو جگہ دینے کے کوئی معنی نہیں ۔ ایوب علیہ السلام کی سیرت سے اس کا بس اتنا ہی تعلق ہے جتنا یوسف زلیخا کا تعلق سیرت یوسفی سے ہے ، بلکہ شاید اتنا بھی نہیں ۔ زیادہ سے زیادہ ہم اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کتاب کے ابتدائی اور آخری حصے میں جو واقعات بیان کیے گئے ہیں ان میں صحیح تاریخ کا ایک عنصر پایا جاتا ہے ، اور وہ شاعر نے یا تو زبانی روایات سے لیا ہو گا جو اس کے زمانے میں مشہور ہوں گی ، یا پھر کسی صحیفے سے اخذ کیا ہو گا جو اب نا پید ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

38: بیماری کے دوران ان کی باوفا بیوی کے سوا گھر کے بیشتر افراد حضرت ایوب (علیہ السلام) کا ساتھ چھوڑ گئے تھے پھر جب انہیں صحت حاصل ہوئی تو ان کی اولاد اور پوتے پوتیوں کی تعداد ان لوگوں سے دگنی ہوگئی جو بیماری کے دوران ان کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(21:84) استجبنا لہ۔ ہم نے اس کی فریاد سن لی۔ ہم نے اس کی دعا قبول کرلی۔ استجابۃ (استفعال) مصدر۔ کشفنا۔ ماضی جمع متکلم۔ ہم نے دور کردیا۔ ہم نے ہٹادی۔ الکشف یہ کشفت (باب ضرب) الثوب عن الوجہ کا مصدر ہے جس کے معنی چہرہ وغیرہ سے پردہ ہٹانے کے ہیں۔ مجازا غم و اندوہ کے دور کرنے پر بھی بولا جاتا ہے اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے۔ فکشفنا عنک غطاءک (50:22) پس ہم نے تجھ پر سے پردہ اٹھا دیا۔ اور ان یمسسک اللہ بضر فلا کاشف لہ الا ھو (6:17) اور اگر خدا تم کو سختی پہنچائے تو اس کے سوا کوئی دوسرا دور کرنے والا نہیں ہے۔ واتینہ اھلہ۔ اور ہم نے عطا کئے اس کو اس کے گھر والے۔ اہلہ مضاف مضاف الیہ دونوں مل کر اتینا کا مفعول۔ رحمۃ۔ مفعول لہ اتیناکا۔ ذکری۔ ذکر یذکر کا مصدر ہے۔ نصیحت کرنا۔ ذکر کرنا۔ یاد۔ پند۔ موعظت ۔ نصیحت۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی عابدین یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ صابرو نکو کیسی جزا دیتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فاستجبنا لہ۔۔۔۔۔۔ مثلھم معھم (١٢ : ٤٨) ” ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور جو تکلیف اسے تھی اس کو دور کردیا اور صرف اس کے اہل و عیال ہی اس کو نہیں دیئے بلکہ اس کے ساتھ اتنے ہی اور بھی دیئے “۔ ان کے جسم کو جو مرض لا حق تھا ‘ وہ دور ہوگیا اور آپ فوراً تندرست ہوگئے۔ ان کے اہل و عیال جن سے وہ محروم ہوگئے تھے اللہ نے ان کو دے دیئے اور ان جیسے اور دے دیئے۔ کہا گیا ہے کہ بیٹوں کے بدلے بیٹے دے دیئے یا بیٹے اور پوتے دے دیئے۔ رحمتہ من عندنا (١٢ : ٤٨) ” اللہ کی ہر رحمت اللہ کا احسان ہے۔ صرف احسان ‘ ورنہ ہم تو مستحق نہیں ہیں۔ وذکری للعبدین (١٢ : ٤٨) ” اور اس لیے کہ یہ ایک سبق ہو عبادت گزاروں کے لیے “۔ آزمائش کے حوالے سے اس کا مطلب بہت اہم ہے ‘ عبادت گزاروں پا آزمائش آتی رہتی ہے۔ مثلاً عبادت کی مشکلات ‘ نظریاتی مشکلات اور ایمان کے تقاضے۔ یہ نہایت ہی سنجیدہ معاملہ ہے ‘ مذاق نہیں ہے۔ اسلامی نظریہ حیات ایک عظیم امانت ہے اور یہ امانت صرف ان لوگوں کو دی جاتی ہے جو اس کا بوجھ اٹھا سکیں اور جو اس کے تقاضے اور فرائض پورے کرسکیں۔ محض زبان سے کہتا ہی نہیں ہے یا محض دعویٰ ہی نہیں ہے لہٰذا صبر ضروری ہے تاکہ عبادت گزار آزمائش میں پورے اتریں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(84) لہٰذا ! ہم نے ان کی دعا قبول فرمائی اور اس کو جو تکلیف اور دکھ تھا اس کو دور کردیا اور ہم نے ایوب (علیہ السلام) کو اس کے بال بچے دیدیئے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور بھی عطا فرمائے یہ سب اپنی رحمت خاص اور مہربانی کے سبب سے عطا فرمایا اور اس لئے کہ عبادت کرنے والوں کے لئے ایک یادگار ہو۔ حضرت ایوب علیہ السلا اچھے خوشحال پیغمبروں میں سے تھے کسی سخت بیماری میں مبتلا ہوئے اولاد مرگئی یا کہیں گم ہوگئی۔ بہرحال ! ان تمام مصائب پر صبر کیا۔ اللہ تعالیٰ نے شفا بخشی دعائے صحت قبول فرمائی جو اولاد گم ہوگئی تھی وہ واپس ملی یا مرگئی تھی وہ زندہ کرکے عطا ہوئی اتنی ہی اولاد اور دی گئی یا اولاد کے ہاں اولاد دی گئی۔ مفسرین کے مختلف اقوال ہیں مزید انشاء اللہ سورة ص میں آجائے گی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں حضرت ایوب (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ نے سب طرف سے آسودہ رکھا تھا۔ کھیت اور مویشی اور لونڈی غلام کماتے اور اولاد صالح اور عورت موافق مرضی اور بڑے شکر گزار تھے۔ پھر آزمانے کے لئے ان پر شیطان کو ہاتھ دیا۔ کھیت جل گئے مویشی مرگئے اور اولاد اکٹھی دب مری اور دوست دار الگ ہوگئے۔ بدن میں آبلے پڑکر کیڑے پڑگئے ایک عورت رفیق رہی۔ جیسے نعمت میں شکر گزار تھے ویسے ہی بلا میں صابر رہے۔ ایک قرن کے بعد یہ دعا کی۔ اللہ تعالیٰ نے مری ہوئی اولاد جلائی اور بھی ننھی اولاد دی اور زمین سے چشمہ نکالا اسی سے پی کر اور نہا کر چنگے ہوئے اور سونے کی ٹڈیاں برسائیں اور سب طرح درست کردیا۔ 12 خلاصہ ! یہ کہ مفسرین کے حضرت ایوب (علیہ السلام) کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) نے بعض قول کو اختیار کرلیا ہے عبادت گزاروں کے لئے یادگار کا مطلب یہ ہے کہ نیک لوگ یہ معلوم کرکے کہ صبر کرنے والوں کو اس طرح اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے نوازا کرتا ہے، برداشت اور صبر کا طریقہ اختیارکریں۔ حضرت ایوب (علیہ السلام) کا واقعہ بہت طویل ہے انشاء اللہ سورة صٓ میں تفصیل آجائے گی۔