Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 17

سورة الحج

اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا وَ الصّٰبِئِیۡنَ وَ النَّصٰرٰی وَ الۡمَجُوۡسَ وَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡۤا ٭ۖ اِنَّ اللّٰہَ یَفۡصِلُ بَیۡنَہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ شَہِیۡدٌ ﴿۱۷﴾

Indeed, those who have believed and those who were Jews and the Sabeans and the Christians and the Magians and those who associated with Allah - Allah will judge between them on the Day of Resurrection. Indeed Allah is, over all things, Witness.

بیشک اہل ایمان دار اور یہودی اور صابی اور نصرانی اور مجوسی اور مشرکین ان سب کے درمیان قیامت کے دن خود اللہ تعالٰی فیصلہ کرے گا اللہ تعالٰی ہر ہرچیز پر گواہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah will judge between the Sects on the Day of Resurrection Allah says: إِنَّ الَّذِينَ امَنُوا وَالَّذِينَ هَادُوا وَالصَّابِيِينَ وَالنَّصَارَى وَالْمَجُوسَ وَالَّذِينَ أَشْرَكُوا إِنَّ اللَّهَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ Verily, those who believe, and those who are Jews, and the Sabians, and the Christians, and the Majus, and those who worship others besides Allah; truly, Allah will judge between them on the Day of Resurrection. Verily, Allah is over all things a Witness. Allah tells us about the followers of these various religions, the believers (Muslims) and others such as the Jews and Sabians. We have already seen a definition of them in Surah Al-Baqarah and have noted how people differ over who they are. There are also the Christians, Majus and others who worship others alongside Allah. Allah will ( يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ judge between them on the Day of Resurrection) with justice; He will admit those who believed in Him to Paradise and will send those who disbelieved in Him to Hell, for He is a Witness over their deeds, and He knows all that they say and all that they do in secret, and conceal in their breast.

مختلف مذہبوں کا فیصلہ روز قیامت ہوگا صابئین کا بیان مع اختلاف سورۃ بقرہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے یہاں فرماتا ہے کہ ان مختلف مذہب والوں کا فیصلہ قیامت کے دن صاف ہوجائے گا ۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو جنت دے گا اور کفار کو جہنم واصل کرے گا ۔ سب کے اقوال وافعال ظاہر وباطن اللہ پر عیاں ہیں

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

17۔ 1 مجوسی سے مراد ایران کے آتش پرست ہیں جو دو خداؤں کے قائل ہیں، ایک ظلمت کا خالق ہے، دوسرا نور کا، جسے وہ اہرمن اور یزداں کہتے ہیں۔ 17۔ 2 ان میں مذکورہ گمراہ فرقوں کے علاوہ جتنے بھی اللہ کے ساتھ شرک کا ارتکاب کرنے والے ہیں، سب آگئے۔ 17۔ 3 ان میں سے حق پر کون ہے، باطل پر کون، یہ تو ان دلائل سے واضح ہوجاتا ہے جو اللہ اپنے قرآن میں نازل فرماتے ہیں اور اپنے آخری پیغمبر کو بھی اسی مقصد کے لئے بھیجا تھا، یہاں فیصلے سے مراد وہ سزا ہے جو اللہ تعالیٰ باطل پرستوں کو قیامت والے دن دے گا، اس سزا سے بھی واضح ہوجائے گا کہ دنیا میں حق پر کون تھا اور باطل پر کون کون۔ 17۔ 4 یہ فیصلہ محض حاکمانہ اختیارات کے زور پر نہیں ہوگا، بلکہ عدل و انصاف کے مطابق ہوگا، کیونکہ وہ باخبر ہستی ہے، اسے ہر چیز کا علم ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٦] یعنی کسی بھی اللہ کے رسول پر ایمان لائے۔ کیونکہ تمام انبیا و رسل کے اصول دین ایک ہی رہے ہیں۔ (تفصیل کے لئے اسی سورة کی آیت نمبر ٩٢، ٩٣ کے حواشی ملاحظہ فرما لیجئے) اس لحاظ سے ہر نبی پر ایمان لانے والے مسلمان ہوئے اور اسلام اور ایمان کا صرف یہ فرق ہے کہ اسلام کا تعلق ظاہری اعمال سے ہوتا ہے اور ایمان کا دل سے۔ اللہ اور اس کے رسول کی جس قدر اطاعت کی جائے، ایمان اتنا ہی پختہ ہوتا جاتا ہے اور جتنا ایمان پختہ ہوتا جاتا ہے اطاعت کی مزید توفیق نصیب ہوتی رہتی ہے۔ گویا اسلام اور ایمان دونوں ایک دوسرے سے مربوط اور ایک دوسرے کے ممدو معاون ہوتے ہیں۔ [١٧] حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہر جو لوگ ایمان لائے تھے وہ بھی مسلمان ہی تھے اور بنی اسرائیل کی قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں انھیں یہود نہیں کہا جاتا تھا۔ یہود تو وہ اس وقت کہلائے جب ان کے۔۔ میں بھی ان کے بدعی عقائد بھی شامل ہوگئے اور انہوں نے کتاب اللہ میں تحریف تک کر ڈالی۔ بعض لوگوں کے خیال کے مطابق ان کی نسبت یعقوب کے بڑے بیٹے یہودا کی طرف ہے۔ مگر یہ توجیہہ دو لحاظ سے درست معلوم نہیں ہوتی ایک یہ کہ اس لحاظ سے یہودی ایک قبیلہ نو کہلا سکتے ہیں ایک مذہب نہیں کہلا سکتے ہیں۔ حالانکہ یہودی ایک مذہب کا نام ہے کسی قبیلہ کا نام نہیں اور دوسرے اس لحاظ سے یہودیوں میں تمام بنی اسرائیل شامل ہیں صرف یہودا کی اولاد کی اولاد نہیں۔ اور بعض علماء کے خیال کے مطابق بنی اسرائیل حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) تک بنی اسرائیل ہی کہلائے تھے۔ بعد میں نصاریٰ کے مقابلہ میں ان کا نام یہودی پڑگیا۔ [١٨] صابی دراصل وہ ستارہ پرست اور سورج پرست قوم ہے جس نے اپنے معبودوں کی حمایت میں حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالا تھا۔ یہ لوگ اپنے آپ کو حضرت نوح کا پیروکار بتلاتے ہیں اور باقی بعد میں آنے والے سب انبیاء کے منکر ہیں۔ بعد میں صباء کا لفظ دین میں تبدیل کرنے یا آبائی مذہب سے سے روگردانی کرنے کے معنوں میں استعمال ہونے لگا اور ایک گالی کی حیثیت اختیار کر گیا۔ چناچہ مشرکین مکہ بھی اسلام لانے والوں کو اسی محبت سے نوازتے تھے اور کہتے تھے کہ فلاں شخص صابی ہوگیا ہے۔ یعنی بےدین اور لا مذہب ہوگیا ہے۔ جیسا کہ ہندوستان میں توحید کی طرح رجوع کرنے والوں کو وہانی کے لقب سے نوازا جانے لگا ہے۔ [١٩] حضرت عیسیٰ اور ان پر نازل شدہ کتاب انجیل کے پیروکار۔ ابتداً ان کا نام ناصری یا گلیلی تھا۔ حضرت عیسیٰ ناصرہ ضلع گلیل میں پیدا ہوئے تھے۔ چناچہ یہود انھیں ایک بدعتی فرقہ کی حیثیت سے ناصری یا گلیلی کہہ کر پکارتے تھے۔ قرآن میں ان کا نام نصاریٰ مذکور ہے۔ اور اسے بھی ناصرہ سے منسوب قرار دیا جاسکتا ہے اور اس کی دوسری توجیہہ یہ ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) کے پیروکار یا حواریوں نے (نَحْنُ اَنْصَار اللّٰهِ 52؀) 3 ۔ آل عمران :52) کا اقرار کیا تھا۔ لہذا یہ لوگ نصاریٰ کہلائے۔ بعد میں انہوں نے اپنے لئے عیسائی کا لقب پسند کرلیا ان لوگوں نے بھی بعد میں بہت سے بدعی عقائد شامل کر لئے جیسے عقیدہ تثلیث، الوہیت مسیح اور کفار مسیح وغیرہ [٢٠] مجوسی بھی آتش پرست اور ستارہ پرست لوگ تھے اور صابی فرقہ کی طرح اپنے آپ کو حضرت نوح کے پیروکار بتلاتے ہیں اور باقی پیغمبروں کے منکر ہیں۔ ان کے نزدیک نیکی اور بدی کے خدا الگ الگ ہیں۔ نیکی کا خدا یا خالق یزدان ہے اور بدی کا خدا یا خالق اہرمن ہے۔ یہ لوگ اپنی الہامی کتابوں کا نام للہ ند اوستا بتلاتے ہیں۔ مزوک نے ان کے مذہب اور اخلاق کو بری طرح مسخ کرکے رکھ دیا تھا حتیٰ کہ حقیقی بہن سے نکاح بھی ان کے ہاں جائز قرار دیا گیا۔ [٢١] مشرک سے مراد مشرکین مکہ اور دوسرے ممالک کے مشرکین ہیں۔ جو مندرجہ بالا گروہوں کے ناموں میں سے کسی نام سے منسوب نہیں۔ اگرچہ موحد مسلمانوں کے سوا مندرجہ بالا سب مذاہب میں شرک کی کوئی نہ کوئی قسم ضرور پائی جاتی ہے۔ [٢٢] اس کا یہ مطلب نہیں کہ قیامت سے پہلے ہمیں یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ اختلاف کہاں واقع ہوتا ہے اور کون سا فرقہ کس قدر حق پر ہے۔ کیونکہ اصول دین ہمیشہ ایک ہی رہے ہیں اور تمام الہامی کتابوں میں مذکور ہیں اگرچہ تورات اور انجیل یا بائیبل میں تحریف ہوچکی ہے۔ پھر بھی ان اصول دین کا سراغ لگایا جاسکتا ہے اور یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ فلاں فرقہ کا فلاں عقیدہ درست ہے اور فلاں باطل ہے۔ مگر یہاں اس اتبا میں کوئی بھی فرقہ مذہبی تعصب کی بنا پر حق کو تسلیم کرلینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ لہذا قیامت کے دن خود اللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ ان باتوں کا فیصلہ کر دے گا بلکہ اس فیصلہ کا نفاذ بھی کردے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ هَادُوْا ۔۔ : گزشتہ آیات میں ایمان والوں کے علاوہ مختلف لوگوں کا ذکر ہوا، کچھ قیامت کے منکر، کچھ کنارے پر رہ کر عبادت کرنے والے، کچھ اللہ کے ساتھ شریک بنانے والے وغیرہ۔ اس پر سوال پیدا ہوا کہ اتنے مختلف عقائد کے لوگ جو اپنی اپنی بات پر اس قدر پختہ ہیں کہ واضح دلائل کے باوجود اپنی بات نہیں چھوڑتے، آخر کبھی ان کے جھگڑے کا فیصلہ بھی ہوگا ؟ فرمایا، ان کے جھگڑے کا فیصلہ اللہ تعالیٰ ہی قیامت کے دن فرمائے گا، جب مومن جنت اور کافر جہنم میں جائیں گے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ دنیا میں ان کے حق یا باطل پر ہونے کا فیصلہ نہیں ہوا۔ یقیناً ہوا ہے اور قرآن مجید کا نام فرقان اسی لیے ہے۔ یہ کلام ایسے ہی ہے جیسے بحث ختم کرنے کے لیے بات اللہ کے سپر دکر دی جاتی ہے، حالانکہ بات کرنے والے کو اپنے سچا ہونے کا اور فریق مخالف کے خطا پر ہونے کا یقین ہوتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (لَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ ۭلَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ ۭ اَللّٰهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا ۚ وَاِلَيْهِ الْمَصِيْرُ ) [ الشورٰی : ١٥ ] ” ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لیے تمہارے اعمال۔ ہمارے درمیان اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں، اللہ ہمیں آپس میں جمع کرے گا اور اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ “ 3 مومنین، یہود، نصاریٰ اور صابئین کا بیان سورة بقرہ (٦٢) میں گزر چکا ہے، وہاں ملاحظہ فرمائیں، یہاں مجوس اور مشرکین کا مزید ذکر ہے۔ مجوس سے مراد آتش پرست ہیں جو دو خالق مانتے ہیں، ایک خالق خیر (یزدان) اور ایک خالق شر (اہرمن) یہ لوگ اپنے آپ کو زرتشت کا پیرو کہتے ہیں اور کسی نبی کا نام بھی لیتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ لوگ بعد میں گمراہ ہوئے یا شروع ہی سے غلط تھے۔ مزدک نے ان کے مذہب اور اخلاق کو بری طرح مسخ کرکے رکھ دیا، حتیٰ کہ حقیقی بہن سے نکاح بھی ان کے ہاں جائز قرار دیا گیا۔ ” وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُـوْٓا “ (وہ لوگ جنھوں نے شرک کیا) سے مراد عرب اور دوسرے ملکوں کے وہ مشرک ہیں جنھوں نے مندرجہ بالا گروہوں میں سے کسی کا نام اختیار نہیں کیا تھا، مثلاً گائے اور بتوں کے پجاری ہندو۔ قرآن مجید انھیں مشرکین اور ” وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُـوْٓا “ کے نام سے ذکر کرتا ہے، اگرچہ موحد مسلمانوں کے سوا مندرجہ بالا سب مذاہب میں شرک کی کوئی نہ کوئی قسم ضرور پائی جاتی ہے۔ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ : یعنی ان تمام گروہوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کا فیصلہ حاکمانہ اختیار کی وجہ سے اندھا فیصلہ نہیں ہوگا، بلکہ عین عدل و انصاف ہوگا، کیونکہ ہر چیز اس کے سامنے ہے، وہ ہر چیز پر گواہ ہے اور ہر ایک کو اس کے عمل کے عین مطابق جزا یا سزا دے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary In verse 17 it is stated that Allah will decide among the believers and non-believers of different faiths on the Day of Resurrection, because He knows everything. What that decision would be, has been related in the Qur&an at several places, namely that the good Muslims will enjoy a life of everlasting peace and comfort, while the infidels would be condemned to a life of eternal perdition. In the next verse, by using the word |"Sajdah|" (prostration), it has been declared that all created things, be they living things, minerals or plants, are in obedience and thus submit to the Supreme authority of Allah Ta’ ala, thereby mentioning two groups of humans in this respect of &submission&. One, which obeys Allah and therefore is included amongst the creatures who &prostrate& to Him, and the other one which is rebellious and refuses to bow before Him, meaning, refusing to submit to His Will. The word |"Sajdah|" (prostration) has been used here in the broader sense of &submission& to the will of Allah and obeying His commands, because all created things act upon this submission in their own way. Human beings perform Sajdah by touching the ground with the forehead, while in the case of other created things their Sajdah constitutes their faithful performance of the functions assigned to them by Allah. The truth about all created things obeying Allah Genetically, the entire universe and all created things therein are under, the control and subject to the Will of their Creator by virtue of an inherently programmed guidance (guidance of Takwin) by Allah. The &submission& in this sense is pre-determined, involuntary and instinctive. There is no created being which can escape this universal law of creation, be it a Muslim or a non-believer, a living thing or dead, mineral or plant. The smallest particle and the highest mountain cannot make the slightest movement without His Will. There is, however, another kind of submission to Allah, when a person offers homage to Him voluntarily and without constraint. This is what distinguishes a believer from a non-believer. A believer is obedient and sincere in his submission to Allah, whereas a non-believer repudiates His existence. As this verse deals with the difference between a Muslim and a kafir (infidel), it is more likely that reference to &Sajdah& (prostration) does not refer to pre-destined and instinctive obedience alone but covers the voluntary submission as well. Let it not be supposed that only human beings and Jinns who possess intelligence can offer voluntary and unconstrained submission, and animals, plants and minerals being devoid of reason cannot exercise voluntary and intentional obedience. Indeed it can be proved from the text of the Qur&an that every created thing has reason, intellect and intent, and the difference lies only in degree. Human beings and Jinns possess a perfect level of intelligence, which makes them liable to a strict adherence to the laws governing what is permissible and what is forbidden. As regards other creatures, Allah has given them intelligence according to their needs. Animals possess the highest degree of intelligence after humans, then come plants and last of all are the minerals. The intelligence among the animals can easily be perceived, and that possessed by plants can also be observed if one applies one&s mind to the task. However, the intelligence given to the minerals is so little and concealed that it is not easily discernible, though Allah has said clearly that they not only possess intelligence but also have the capacity to decide things. The Qur&an says about the sky and the earth قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ (They said, |"We come willingly.|"41:11) that is, when Allah commanded the sky and the earth that they must submit to His Will either by their free choice or by force, they both replied that they accepted His authority by their own voluntary choice. At another place the Qur&an says وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللَّـهِ , (and there are still others which fall down in fear of Allah. - 2:74) which means that there are rocks, which fall down in fear of Allah Ta’ ala. Similarly, there are numerous traditions which provide evidence of mountains conversing with one another, or other created things showing signs of intelligence. Therefore, the homage mentioned in this verse for which the word Sajdah (Prostration) has been used means the voluntary homage. The interpretation of this verse would, then, be that except for the human beings and Jinns all other created things voluntarily and willingly submit to the Divine Authority. It is only the human beings and Jinns who are divided into two factions, namely those who bow in submission to the Will of Allah, and those who deny His authority and refuse to submit to Him and are, therefore, despised. Allah knows best.

خلاصہ تفسیر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمان اور یہود اور صابئین اور نصاریٰ اور مجوس اور مشرکین، اللہ تعالیٰ ان سب کے درمیان میں قیامت کے روز (عملی) فیصلہ کر دے گا (کہ مسلمانوں کو جنت میں اور سب اقسام کافروں کو جہنم میں داخل کرے گا) بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔ اے مخاطب کیا تجھ کو یہ بات معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے (اپنی اپنی حالت کے مناسب) سب عاجزی کرتے ہیں جو کہ آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں اور سورج اور چاند اور ستارے اور پہاڑ اور درخت اور چوپائے اور (تمام مخلوقات کے مطیع و فرمانبردار ہونے کے باوجود انسان جو خاص درجہ کی عقل بھی رکھتا ہے وہ سب کے سب مطیع و فرمانبردار نہیں بلکہ) بہت سے (تو) آدمی بھی (اطاعت اور عاجزی کرتے ہیں) اور بہت سے ایسے ہیں جن پر عذاب کا استحقاق ثابت ہوگیا ہے اور (سچ یہ ہے کہ) جس کو خدا ذلیل کرے (کہ اس کو ہدایت کی توفیق نہ ہو) اس کا کوئی عزت دینے والا نہیں (اور) اللہ تعالیٰ (کو اختیار ہے اپنی حکمت سے) جو چاہے کرے۔ معارف و مسائل پہلی آیت میں تمام اقوام عالم مومنین اور کفار پھر کفار کے مختلف العقائد گروہوں کے متعلق یہ ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کا فیصلہ فرما دیں گے اور وہ ہر ایک کے ظاہر و باطن سے باخبر ہیں۔ فیصلہ کیا ہوگا اس کا ذکر بار بار قرآن میں آ چکا ہے کہ مومنین صالحین کے لئے ابدی اور لازوال راحت ہے اور کفار کے لئے دائمی عذاب۔ دوسری آیت میں تمام مخلوقات خواہ زندہ ذی روح ہوں یا جمادات و نباتات سب کا حق تعالیٰ کے لئے مطیع اور فرمانبردار ہونا بعنوان سجدہ بیان فرما کر بنی نوع انسان کی دو قسمیں بیان فرمائی ہیں۔ ایک مطیع و فرمانبردار سجدہ میں سب کے ساتھ شریک اور دوسرا سرکش باغی سجدہ سے منحرف۔ اور تابع فرمان ہونے کو سجدہ کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے جس کا ترجمہ خلاصہ تفسیر میں عاجزی کرنے سے کیا ہے تاکہ مخلوقات کی ہر نوع اور ہر قسم کے سجدہ کو شامل ہوجائے کیونکہ ان میں سے ہر ایک کا سجدہ اس کے مناسب حال ہوتا ہے انسان کا سجدہ زمین پر پیشانی رکھنے کا نام ہے دوسری مخلوقات کا سجدہ اپنی اپنی خدمت جس کے لئے ان کو پیدا کیا گیا ہے اس کو انجام دینے کا اور خدمت کا حق ادا کرنے کا نام ہے۔ تمام مخلوقات کے مطیع و فرمانبردار ہونے کی حقیقت : تمام کائنات و مخلوقات کا اپنے خالق کے زیر حکم اور تابع مشیت ہونا ایک تو تکوینی اور تقدیری طور پر غیر اختیاری ہے جس سے کوئی بھی مخلوق مومن یا کافر زندہ یا مردہ، جمادات یا نباتات مستثنیٰ نہیں اس حیثیت میں سب کے سب یکساں طور پر حق تعالیٰ کے زیر حکم و مشیت ہیں۔ جہان کا کوئی ذرہ یا پہاڑ اس کے اذن و مشیت کے بغیر کوئی ادنیٰ حرکت نہیں کرسکتا۔ دوسری اطاعت و فرمانبرداری اختیاری ہے کہ کوئی مخلوق اپنے قصد و اختیار سے اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت کرے اس میں مومن و کافر کا فرق ہوتا ہے کہ مومن اطاعت شعار فرمانبردار ہوتا ہے کافر اس سے منحرف اور منکر ہوتا ہے۔ اس آیت میں چونکہ مومن و کافر کا فرق بیان فرمایا ہے یہ قرینہ اس کا ہے کہ اس میں سجدہ اور فرمانبرداری سے مراد صرف تکوینی و تقدیری اطاعت نہیں بلکہ اختیاری اور ارادی اطاعت ہے۔ اس میں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ اختیاری اور ارادی اطاعت تو صرف ذوی العقول انسان اور جن وغیرہ میں ہو سکتی ہے۔ حیوانات، نباتات، جمادات میں عقل و شعور ہی نہیں تو پھر قصد و ارادہ کہاں اور اطاعت اختیاری کیسی ؟ کیونکہ قرآن کریم کی بیشمار نصوص اور تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ عقل و شعور اور قصد و ارادہ سے کوئی بھی مخلوق خالی نہیں، کمی بیشی کا فرق ہے۔ انسان اور جن کو اللہ تعالیٰ نے عقل و شعور کا ایک کامل درجہ عطا فرمایا ہے اور اسی لئے ان کو احکام امر و نہی کا مکلف بنایا گیا ہے ان کے سوا باقی مخلوقات میں سے ہر نوع اور ہر صنف کو اس صنف کی ضروریات کے موافق عقل و شعور دیا گیا، انسان کے بعد سب سے زیادہ یہ عقل و شعور حیوانات میں ہے اس کے دوسرے نمبر میں نباتات ہیں، تیسرے میں جمادات ہیں۔ حیوانات کا عقل و شعور تو عام طور پر محسوس کیا جاتا ہے نباتات کا عقل و شعور بھی ذرا سا غور و تحقیق کرنے والا پہچان لیتا ہے لیکن جمادات کا عقل و شعور اتنا کم اور مخفی ہے کہ عام انسان اس کو نہیں پہچان سکتے۔ مگر ان کے خالق ومالک نے خبر دی ہے کہ وہ بھی عقل و شعور اور قصد و ارادے کے مالک ہیں۔ قرآن کریم نے آسمان و زمین کے بارے میں فرمایا ہے (آیت) قالتا اتینا طائعین، یعنی جب اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو حکم دیا کہ تم کو ہمارے تابع فرمان رہنا ہے اپنی خوشی سے فرمانبرداری اختیار کرو ورنہ جبراً اور حکماً تابع رہنا ہی ہے تو آسمان و زمین نے عرض کیا کہ ہم اپنے ارادے اور خوشی سے اطاعت و فرمانبرداری قبول کرتے ہیں اور دوسری جگہ پہاڑ کے پتھروں کے متعلق قرآن کریم کا ارشاد ہے وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْـيَةِ اللّٰهِ ، یعنی بعض پتھر ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی خشیت و خوف کے مارے اوپر سے نیچے لڑھک جاتے ہیں۔ اسی طرح احادیث کثیرہ میں پہاڑوں کی باہم گفتگو اور دوسری مخلوقات میں عقل و شعور کی شہادتیں بکثرت ملتی ہیں۔ اس لئے اس آیت میں جس اطاعت و فرمانبرداری کو سجدہ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اس سے اطاعت اختیاری و ارادی مراد ہے اور معنے آیت کے یہ ہیں کہ نوع انسان کے علاوہ (جن کے ضمن میں جنات بھی داخل ہیں) باقی تمام مخلوقات اپنے قصد و اختیار سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ ریز یعنی تابع فرمان ہیں صرف انسان اور جن ایسے ہیں جن میں دو حصے ہوگئے ایک مومن و مطیع سجدہ گزار دوسرے کافر و نافرمان سجدہ سے منحرف جن کو اللہ نے ذلیل کردیا ہے کہ ان کو سجدہ کی توفیق نہیں بخشی واللہ اعلم۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ہَادُوْا وَالصّٰبِــــِٕــيْنَ وَالنَّصٰرٰي وَالْمَجُوْسَ وَالَّذِيْنَ اَشْرَكُـوْٓا۝ ٠ۤۖ اِنَّ اللہَ يَفْصِلُ بَيْنَہُمْ يَوْمَ الْقِيٰمَۃِ۝ ٠ۭ اِنَّ اللہَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ شَہِيْدٌ۝ ١٧ هَادَ ( یہودی) فلان : إذا تحرّى طریقة الْيَهُودِ في الدّين، قال اللہ عزّ وجلّ : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا [ البقرة/ 62] والاسم العلم قد يتصوّر منه معنی ما يتعاطاه المسمّى به . أي : المنسوب إليه، ثم يشتقّ منه . نحو : قولهم تفرعن فلان، وتطفّل : إذا فعل فعل فرعون في الجور، وفعل طفیل في إتيان الدّعوات من غير استدعاء، وتَهَوَّدَ في مشيه : إذا مشی مشیا رفیقا تشبيها باليهود في حركتهم عند القراءة، وکذا : هَوَّدَ الرّائض الدابّة : سيّرها برفق، وهُودٌ في الأصل جمع هَائِدٍ. أي : تائب وهو اسم نبيّ عليه السلام . الھود کے معنی نر می کے ساتھ رجوع کرنا کے ہیں اور اسی سے التھدید ( تفعیل ) ہے جسکے معنی رینگنے کے ہیں لیکن عرف میں ھو د بمعنی تو بۃ استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن پاک میں ہے : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ هادُوا[ البقرة/ 62] ہم تیری طرف رجوع ہوچکے بعض نے کہا ہے لفظ یہود بھی سے ماخوذ ہے یہ اصل میں ان کا تعریفی لقب تھا لیکن ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد ان پر بطور علم جنس کے بولا جاتا ہے نہ کہ تعریف کے لئے جیسا کہ لفظ نصارٰی اصل میں سے ماخوذ ہے پھر ان کی شریعت کے منسوخ ہونے کے بعد انہیں اسی نام سے اب تک پکارا جاتا ہے ھاد فلان کے معنی یہودی ہوجانے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ عَلى شَفا جُرُفٍ هارٍ فَانْهارَ بِهِ فِي نارِ جَهَنَّمَ [ التوبة/ 109] جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی کیونکہ کبھی اسم علم سے بھی مسمی ٰ کے اخلاق و عادات کا لحاظ کر کے فعل کا اشتقاق کرلیتے ہیں مثلا ایک شخص فرعون کی طرح ظلم وتعدی کرتا ہے تو اس کے کے متعلق تفر عن فلان کہ فلان فرعون بنا ہوا ہے کا محاورہ استعمال ہوتا ہے اسہ طرح تطفل فلان کے معنی طفیلی یعنی طفیل نامی شخص کی طرح بن بلائے کسی کا مہمان بننے کے ہیں ۔ تھودا فی مشیہ کے معنی نرم رفتاری سے چلنے کے ہیں اور یہود کے تو راۃ کی تلاوت کے وقت آہستہ آہستہ جھومنے سے یہ معنی لئے کئے ہیں ۔ ھو دا لرائض الدبۃ رائض کا سواری کو نر می سے چلانا ھود اصل میں ھائد کی جمع ہے جس کے معنی تائب کے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کے ایک پیغمبر کا نام ہے ۔ صبا الصَّبِيُّ : من لم يبلغ الحلم، ورجل مُصْبٍ : ذو صِبْيَانٍ. قال تعالی: قالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] . وصَبَا فلان يَصْبُو صَبْواً وصَبْوَةً : إذا نزع واشتاق، وفعل فعل الصِّبْيَانِ. قال : أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجاهِلِينَ [يوسف/ 33] ، وأَصْبَانِي فصبوت، والصَّبَا : الرّيح المستقبل للقبلة . وصَابَيْتُ السّيف : أغمدته مقلوبا، وصَابَيْتُ الرّمح : أملته، وهيّأته للطّعن . والصَّابِئُونَ : قوم کانوا علی دين نوح، وقیل لكلّ خارج من الدّين إلى دين آخر : صَابِئٌ ، من قولهم : صَبَأَ نابُ البعیر : إذا طلع، ومن قرأ : صَابِينَ «2» فقد قيل : علی تخفیف الهمز کقوله : لا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخاطِؤُنَ «3» [ الحاقة/ 37] ، وقد قيل : بل هو من قولهم : صَبَا يَصْبُو، قال تعالی: وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصاری[ الحج/ 17] . وقال أيضا : وَالنَّصاری وَالصَّابِئِينَ [ البقرة/ 62] . ( ص ب و ) الصبی نابالغ لڑکا رجل مصب عیال دار جس کے بچے نابالغ ہوں ۔ قرآن میں ہے : ۔ قالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] ( وہ بولے کہ ) ہم اس سے جو کہ گود کا بچہ ہے کیونکر بات کریں ۔ صبا فلان یصبو صبوا وصبوۃ کسی چیز کی طرف مائل ہوکر بچوں کے سے کام کرنے لگا قرآن میں ہے : ۔ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجاهِلِينَ [يوسف/ 33] تو میں ان کی طرف مائل ہوجاؤ نگا اور نادانوں میں داخل ہوجاؤ نگا ۔ اصبانی فصبوت اس نے مجھے گرویدہ کیا چناچہ میں گر ویدہ ہوگیا ۔ الصبا ۔ پروائی ہوا ۔ صابیت السیف الٹی تلوار نیام میں ڈالی ۔ صابیت الرمح نیزہ مارنے کے لئے جھکا دیا ۔ الصابئون ایک فرقے کا نام ہے جو نوح (علیہ السلام) کے دین پر ہونے کا مدعی تھا اور ہر وہ آدمی جو ایک دین کو چھوڑ کر دوسرے دین میں داخل ہوجائے اسے صابئی کہا جاتا ہے صباء ناب البعیر کے محاورہ سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں اونٹ کے کچلی نکل آئی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالصَّابِئِينَ وَالنَّصاری[ الحج/ 17] اور ستارہ پرست اور عیسائی ۔ وَالنَّصاری وَالصَّابِئِينَ [ البقرة/ 62] اور عیسائی یا ستارہ پرست ۔ اور ایک قرات میں صابین ( بدوں ہمزہ کے ) ہے بعض نے کہا ہے کہ ہمزہ تخفیف کے لئے حزف کردیا گیا ہے جیسا کہ آیت : ۔ لا يَأْكُلُهُ إِلَّا الْخاطِؤُنَ «3» [ الحاقة/ 37] جس کو گنہگاروں کے سوا کوئی نہیں کھائے گا ۔ میں الخاطون اصل میں خاطئون ہے ۔ اور بعض نے کہا نہیں بلکہ یہ صبا یصبو سے مشتق ہے جس کے معنی مائل ہونا اور جھکنا کے ہیں ۔ جاس قال تعالی: فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء/ 5] ، أي : توسّطوها وتردّدوا بينها، ويقارب ذلک جازوا وداسوا، وقیل : الجَوْس : طلب ذلک الشیء باستقصاء، والمجوس معروف . ( ج وس ) آیت کریمہ : ۔ فَجاسُوا خِلالَ الدِّيارِ [ الإسراء/ 5] میں جاسوا کے معنی ہیں کہ وہ تمہارے دیار کے اندر گھس گئے اور ان میں خوب پھرے ( غارت گری اور ان میں خوب پھرے ( غارت گری اور قتل سے کنایہ ہے ) اور و اس کے معنی بھی اسی ( جاسوا ) کے قریب قریب ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ الجوس کے منعی کسی چیز کو استقصار کے ساتھ طلب کرنا کے ہوتے ہیں ۔ المجوس ۔ ایک معروف فرقے کا نام ہے ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ فصل ( جدا) الفَصْلُ : إبانة أحد الشّيئين من الآخر : حتی يكون بينهما فرجة، ومنه قيل : المَفَاصِلُ ، الواحد مَفْصِلٌ ، قال تعالی: وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قالَ أَبُوهُمْ [يوسف/ 94] ، ويستعمل ذلک في الأفعال والأقوال نحو قوله : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ [ الدخان/ 40] ( ف ص ل ) الفصل کے معنی دوچیزوں میں سے ایک کو دوسری سے اسی طرح علیحدہ کردینے کے ہیں کہ ان کے درمیان فاصلہ ہوجائے اسی سے مفاصل ( جمع مفصل ) ہے جس کے معنی جسم کے جوڑ کے ہیں . قرآن میں ہے : وَلَمَّا فَصَلَتِ الْعِيرُ قالَ أَبُوهُمْ [يوسف/ 94] اور جب قافلہ ( مصر سے ) روانہ ہوا ۔ اور یہ اقول اور اعمال دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے قرآن میں ہے : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ أَجْمَعِينَ [ الدخان/ 40] کچھ شک نہیں کہ فیصلے کا دن سب کے اٹھنے کا دن ہے ۔ بين بَيْن موضوع للخلالة بين الشيئين ووسطهما . قال تعالی: وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] ، يقال : بَانَ كذا أي : انفصل وظهر ما کان مستترا منه، ولمّا اعتبر فيه معنی الانفصال والظهور استعمل في كلّ واحد منفردا، فقیل للبئر البعیدة القعر : بَيُون، لبعد ما بين الشفیر والقعر لانفصال حبلها من يد صاحبها . ( ب ی ن ) البین کے معنی دو چیزوں کا درمیان اور وسط کے ہیں : ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلْنا بَيْنَهُما زَرْعاً «1» [ الكهف/ 32] اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کردی تھی ۔ محاورہ ہے بان کذا کسی چیز کا الگ ہوجانا اور جو کچھ اس کے تحت پوشیدہ ہو ، اس کا ظاہر ہوجانا ۔ چونکہ اس میں ظہور اور انفصال کے معنی ملحوظ ہیں اس لئے یہ کبھی ظہور اور کبھی انفصال کے معنی میں استعمال ہوتا ہے قِيامَةُ والقِيامَةُ : عبارة عن قيام الساعة المذکور في قوله : وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] ، يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] ، وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] ، والْقِيَامَةُ أصلها ما يكون من الإنسان من القیام دُفْعَةً واحدة، أدخل فيها الهاء تنبيها علی وقوعها دُفْعَة، والمَقامُ يكون مصدرا، واسم مکان القیام، وزمانه . نحو : إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] ، القیامتہ سے مراد وہ ساعت ( گھڑی ) ہے جس کا ذکر کہ وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ [ الروم/ 12] اور جس روز قیامت برپا ہوگی ۔ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعالَمِينَ [ المطففین/ 6] جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ وَما أَظُنُّ السَّاعَةَ قائِمَةً [ الكهف/ 36] اور نہ خیال کرتا ہوں کہ قیامت برپا ہو۔ وغیرہ آیات میں پایاجاتا ہے ۔ اصل میں قیامتہ کے معنی انسان یکبارگی قیام یعنی کھڑا ہونے کے ہیں اور قیامت کے یکبارگی وقوع پذیر ہونے پر تنبیہ کرنے کے لئے لفظ قیام کے آخر میں ھاء ( ۃ ) کا اضافہ کیا گیا ہے ۔ المقام یہ قیام سے کبھی بطور مصدر میمی اور کبھی بطور ظرف مکان اور ظرف زمان کے استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ كانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَقامِي وَتَذْكِيرِي [يونس/ 71] اگر تم کو میرا رہنا اور ۔ نصیحت کرنا ناگوار ہو ۔ شهد وشَهِدْتُ يقال علی ضربین : أحدهما جار مجری العلم، وبلفظه تقام الشّهادة، ويقال : أَشْهَدُ بکذا، ولا يرضی من الشّاهد أن يقول : أعلم، بل يحتاج أن يقول : أشهد . والثاني يجري مجری القسم، فيقول : أشهد بالله أنّ زيدا منطلق، فيكون قسما، ومنهم من يقول : إن قال : أشهد، ولم يقل : بالله يكون قسما، ( ش ھ د ) المشھود والشھادۃ شھدت کا لفظ دو طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ ( 1) علم کی جگہ آتا ہے اور اسی سے شہادت ادا ہوتی ہے مگر اشھد بکذا کی بجائے اگر اعلم کہا جائے تو شہادت قبول ہوگی بلکہ اشھد ہی کہنا ضروری ہے ۔ ( 2) قسم کی جگہ پر آتا ہے چناچہ اشھد باللہ ان زید ا منطلق میں اشھد بمعنی اقسم ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٧) اس میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان لائے اور مدینہ منورہ کے یہودی اور صائبین جو نصاری کا ایک فرقہ ہے اور نجران کے عیسائی یعنی سید وعاقب اور سورج اور آگ کی پوجا کرنے والے اور مشرکین عرب اللہ تعالیٰ ان سب کے درمیان قیامت کے روز عملی فیصلہ فرما دے گا اللہ تعالیٰ ان کے اختلاف اور ان کے اعمال سے واقف ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اِنَّ اللّٰہَ یَفْصِلُ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِط اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَہِیْدٌ ) ” یعنی ہرچیز اور ہر انسان کے دل کی کیفیت اس کی نگاہوں کے سامنے ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

23. This means the Muslims of every age who believed in the Prophets of Allah and His Books up to the time of Prophet Muhammad (peace be upon him): they included both the sincere Muslims and the wavering Muslims. 24. See( E.N. 72 of Surah An-Nisa). 25. Sabaeans: In ancient times two sects were known by this title: (1) The followers of Prophet John, who were found in upper Iraq in large numbers and practiced baptism. (2) The worshipers of stars, who ascribed their creed to Prophets Shith and Idris (peace be upon them) and believed that the elements were governed by the planets and the planets by the angels. Their center was at Harran with branches spread all over Iraq. These people have been well known for their knowledge of philosophy and science and their achievements in medicine. Probably here the first sect is referred to, because the second sect was not known by this name at the time the Quran was revealed. 26. See (E. N. 36 of Surah Al-Maidah). 27. That is, the fire worshipers of Iran, who believed in two gods, one of light and the other of darknesses, and regarded themselves as the followers of Zoroaster. Their creed and morals were so corrupted by Mazdak that a brother could easily enter into matrimony with his sister. 28. That is, the mushriks of Arabia and of other countries, who had no special name like those mentioned above. 29. That is, Allah will pass His judgment on the Day of Resurrection in regard to all the differences and disputes which take place between different people and different religions and will decide which of them was right and which was wrong.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :23 یعنی مسلمان جنہوں نے اپنے اپنے زمانے میں خدا کے تمام انبیاء ، اور اس کی کتابوں کو مانا ، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جنہوں نے پچھلے انبیاء کے ساتھ آپ پر بھی ایمان لانا قبول کیا ۔ ان میں صادق الایمان بھی شامل تھے اور وہ بھی تھے جو ماننے والوں میں شامل تو ہو جاتے تھے مگر کنارے پر رہ کر بندگی کرتے تھے ۔ اور کفر و ایمان کے درمیان تذبذب تھے ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :24 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، النساء ، حاشیہ 72 ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :25 صابئی کے نام سے قدیم زمانے میں دو گروہ مشہور تھے ۔ ایک حضرت یحیٰ علیہ السلام کے پیرو ، جو بالائی عراق ( یعنی الجزیرہ ) کے علاقے میں اچھی خاصی تعداد میں پائے جاتے تھے ، اور حضرت یحیٰ کی پیروی میں اصطباغ کے طریقے پر عمل کرتے تھے ۔ دوسرے ستارہ پرست لوگ جو اپنے دین کو حضرت شیث اور حضرت ادریس علیہما السلام کی طرف منسوب کرتے تھے اور عناصر پر سیاروں کی اور سیاروں پر فرشتوں کی فرماں روائی کے قائل تھے ۔ ان کا مرکز حران تھا اور عراق کے مختلف حصوں میں ان کی شاخیں پھیلی ہوئی تھیں ۔ یہ دوسرا گروہ اپنے فلسفہ و سائنس اور جن طب کے کمالات کی وجہ سے زیادہ مشہور ہوا ہے ۔ لیکن اغلب یہ ہے کہ یہاں پہلا گروہ مراد ہے ۔ کیونکہ دوسرا گروہ غالباً نزول قرآن کے زمانے میں اس نام سے موسوم نہ تھا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :26 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، المائدہ ، حاشیہ 36 ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :27 یعنی ایران کے آتش پرست جو روشنی اور تاریکی کے دو خدا مانتے تھے اور اپنے آپ کو زردشت کا پیرو کہتے تھے ۔ ان کے مذہب و اخلاق کو مزدَک کی گمراہیوں نے بری طرح مسخ کر کے رکھ دیا تھا ، حتیٰ کہ سگی بہن سے نکاح تک ان میں رواج پا گیا تھا ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :28 یعنی عرب اور دوسرے ممالک کے مشرکین جو مذکورہ بالا گروہوں کی طرح کسی خاص نام سے موسوم نہ تھے ۔ قرآن مجید ان کو دوسرے گروہوں سے ممیز کرنے کے لیے مشرکین اور اَلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا کے اصطلاحی ناموں سے یاد کرتا ہے ، اگرچہ اہل ایمان کے سوا باقی سب کے ہی عقائد و اعمال میں شرک داخل ہو چکا تھا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٧:۔ سورة آل عمران میں گزر چکا ہے کہ یوم المیثاق میں اللہ تعالیٰ نے سب انبیاء سے اور انبیاء نے اپنی امتوں سے یہ مضبوط عہد لیا ہے کہ ہر زمانہ میں اسی شریعت کے موافق عمل ہوگا جو شریعت اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی کے موافق ہر ایک زمانہ کے لیے ٹھہرائی ہے اور اس آخری زمانہ کی مصلحت کے موافق مرضی الٰہی یہی ہے کہ اس زمانہ میں جو شخص آخری شریعت شرع محمدی کے موافق عمل کرے گا عقبیٰ سے اسی کو اجر ملے گا نہیں تو نہیں کیونکہ اجر اسی عمل پر مل سکتا ہے جو مرضی الٰہی کے موافق ہے ‘ مرضی الٰہی کے برخلاف کام پر تو مؤاخذہ ہوگا ‘ پھر ایسے کاموں پر اجر کہاں ‘ حاصل کلام یہ ہے کہ اس عہد کی بنا پر اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اس آخری زمانے میں موسیٰ (علیہ السلام) زندہ ہوتے تو ان کو شرع محمدی کی پیروی لازمی ہوتی یہ حدیث جابر بن عبداللہ کی روایت سے مسند امام احمد ‘ شعب الایمان بیہقی ‘ صحیح ابن حبان میں اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی روایت ٣ ؎ سے ابن ماجہ مسند امام احمد میں ہے اور اس کی سند صحیح ہے ‘ سورة آل عمران میں عہد کی آیتوں کی جو تفسیر ہے اس کو اس آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہوا کہ اس آخری زمانہ میں جو لوگ مرضی الٰہی کی شریعت کے پابند ہیں ان کا اور جو مرضی الٰہی کی شریعت کے منکر ہیں ان کا حاصل اللہ تعالیٰ کو سب معلوم ہے ‘ قیامت کے دن ان سب کا فیصلہ ہوجائے گا ‘ جو شخص ایک حالت کو چھوڑ کر دوسری حالت کا پابند ہوجائے تو عربی زبان میں اس کو صابی کہتے ہیں ‘ چناچہ صحیح ١ ؎ بخاری میں ابوہریرہ (رض) کی روایت سے جو قصہ ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ ثمامہ بن اثال کے اسلام لانے کے بعد مشرکین مکہ ثمامہ (رض) کو صابی کہتے تھے ‘ تمام اہل کتاب ابراہیم (علیہ السلام) کی نبوت کے قائل ہیں اور فرقہ صائبین ابراہیم (علیہ السلام) کی نبوت کا منکر ہے اس لیے اہل کتاب تو اس فرقہ کو یوں صابی کہتے ہیں کہ یہ فرقہ ملت ابراہیمی کو چھوڑ کر ایک نئی حالت کا پابند ہے اس فرقہ کے لوگ ادریس (علیہ السلام) کی نبوت کے قائل ہیں اس واسطے اس فرقہ کا شمار پارسی اور بت پرست لوگوں میں بھی نہیں ہے ‘ یہ فرقہ ستارہ پرست ہے اور نجوم کا رواج اس فرقہ کے لوگوں میں بہت ہے یونانی لوگوں کی طرح یہ فرقہ بھی جسمانی حشر کا قائل نہیں ہے۔ (٣ ؎ تنقیح الرواۃ ص ٤٢ ج ١۔ ) (١ ؎ باب وفد بنی حنیفہ و حدیث ثمامہ بن اثال )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:17) ھادوا۔ ماضی جمع مذکر غائب ھود مصدر (باب نصر) وہ یہودی ہوئے ھود۔ پشیمان ہونا۔ حق کی طرف لوٹنا۔ (بچھڑے کی پوجا سے توبہ کرنے کی بناء پر یہود کہلائے) یہودی ہونا۔ ھود۔ یہودیوں کی جماعت۔ الصابئین۔ ستارہ پرستوں کا ایک گروہ۔ المجوس۔ مجوسی کی جمع۔ مجوسیت مصدر۔ آتش پرست۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 7 ۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں سے ہی معلوم ہوسکتا ہے کہ ان گروہوں میں سے کونسا گروہ حق پر ہے اور کونسا باطل پر اور یہ بھی ظاہر ہے کہ مسلمان حق پر ہیں لیکن یہ جو فرمایا کہ ” اللہ فیصلہ کریگا “ تو اس سے صرف باطل پرست فرقوں کی تہدید مقصود ہے یا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ان کو مقام و جزا کے اعتبار سے الگ الگ کردیا جائے گا۔ (کبیر، شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 17 تا 25 : ھادوا (جو یہودی ہوگئے۔ جو یہودی بن گئے) ‘ الصبئین (ستاروں کو پوجنے والے) ‘ النصری (مسیحی۔ عیسائی) ‘ المجوس (آگ پوجنے والے) ‘ یفصل (وہ فیصلہ کرے گا) ‘ شھید (باخبر۔ مطلع) ‘ دواب (دابۃ) زمین پر رینگنے والے جانور ‘ یھن (ذلیل کرتا ہے) ‘ مکرم (عزت دیا گیا) ‘ خصمن (خصم) فریق۔ جماعتیں ‘ اختصموا (وہ لوگ جو جھگڑے) ‘ قطعت (کاٹی گئی۔ کاٹے گئے) ‘ ثیاب (ثوب) (کپڑے) ‘ یصب ‘(ڈالا جائے گا) ‘ الحمیم (کھولتا پانی ۔ گرم گرم پانی) ‘ یصھر (پگھل جائے گا۔ بہادیا جائے گا) ‘ الجلود (جلد) کھالیں ‘ مقامع (گرز۔ بھاری ہتھوڑے) ‘ غم (گھٹن۔ غم) ‘ اعیدوا (وہ لوٹائے گئے۔ وہ لوٹائے جائیں گے) ‘ یحلون (وہ پہنچائے جائیں گے) ‘ اساور (سوار) کنگن ‘ ذھب ( سونا) ‘ حریر (ریشم) لئو لئو (موتی) ‘ ھدوا (راہ دکھائے گئے) ‘ الحمید (اللہ تعالیٰ کی صفت۔ تمام تعریفوں والا) ‘ العاکف (رہنے والے۔ مقامی لوگ) ‘ الباد (باہر سے آنے والا) ‘ الحاد (مائل ہونا۔ جھکنا۔ ٹیڑھا چلنا) ۔ تشریح : آیت نمبر 17 تا 25 : کچھ لوگ زندگی بھر جائز و ناجائز ‘ اچھے اور برے کی پرواہ کئے بغیر زندگی کی راحتوں کے حاصل کرنے کی جدوجہد میں لگے رہتے ہیں۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہر طرح کا سکھ چین ‘ راحت و آرام ‘ خوشی اور مسرت مال و دولت کے ذریعہ حاصل کیا سکتا ہے۔ ان کی تمنا ہوتی ہے کہ انکے پاس جوانی کی لذتیں راحتیں اور دل موہ لینے والی صدائیں ‘ زیب وزینت کے لئے بہترین ریشمی لباس ‘ کھانے پینے کے لئے سونے چاندی کے برتن ‘ بادشاہوں جیسی شان و شوکت او ہر چیز میں خود مختاری حاصل ہوجائے۔ اور تاج و تخت سونے چاندی کے کنگن ‘ حسین و جمیل باغات ‘ سرسبز و شاداب باغیچے ‘ بلند وبالا بلڈنگیں ‘ حسین عورتیں شراب و کباب کی بدمست محفلیں اور ہر طرف خوشی ہی خوشی ہو۔ ان ہی تمناؤں اور آرزؤں کے گردان کی پوری زندگی گذرجاتی ہے۔ جب محنتیں اور تمنائیں کرتے ہوئے بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں ‘ اعضا کمزور پڑجاتے ہیں۔ دل میں خواہشیں دم توڑنے لگتی ہیں تو یہ راحت و آرام کے سامان ان کے لئے بےحقیقت بن کر رہ جاتے ہیں اور موت آتے ہی ان تمام چیزوں سے ان کا رابطہ ٹوٹ جاتا ہے ۔ وہ تمنائیں جن کے پیچھے وہ دیوانہ وار دوڑتے رہے ہیں اس کا ساتھ چھوڑدیتی ہیں۔ ایسے لوگ اپنی قبروں میں سوائے حسرت اور افسوس کے اور کچھ بھی نہیں لے کر جاتے ۔ دنیا اور آخرت دونوں برباد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف کچھ وہ لوگ ہوتے ہیں جو زندگی بھر ایمان ‘ عمل صالح ‘ حق و صداقت ‘ نیکیوں اور پرہیز گاریوں کے پیکر بنے رہتے ہیں۔ ان کے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی ‘ اللہ اور رسول کی مکمل اطاعت و فرماں برداری اور نیکیوں کا جذبہ موجز رہتا ہے۔ وہ ہر کام سے پہلے یہ سوچتے ہیں کہ ہمیں صرف جائز طریقوں پر چل کر راحت و آرام کے اسباب حاصل کرنے ہیں تاکہ زندگی کی راحتیں نصیب ہوجائیں۔ اگر حق و صداقت کی زندگی گذارنے میں انہیں دشواریوں ‘ مصائب اور پریشانیوں سے واسطہ پڑتا ہے تو انہیں اس بات کا پورا یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں انہیں ان تمام باتوں کا بدلہ ضرور عطا فرمائیں گے۔ ایسے لوگوں کی دنیاوی زندگی اور آخرت کی زندگی کامیابیوں سے ہمکنار ہوتی ہے۔ حق و باطل پر چلنے والے یہی دو گروہ ہیں جن کے متعلق ان آیات میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔ فرمایا کہ ایک طرف تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان اور عمل صالح کا راستہ اختیار کیا ہے اور وہ اس دنیا میں ہر اس بات سے رک گئے ہیں جن سے انہیں منع کیا گیا تھا تو آخرت میں انہیں ہر طرح کی راحتیں عظا کی جائیں گی۔ جو مرد اللہ کے حکم کے تحت ریشمی لباس جس کے پہننے کی ممانعت کی گئی تھی اس سے اس دنیا میں رک گئے ہوں گے اللہ تعالیٰ ان کو ایسے ریشم کا لباس پہنائیں گے جو جنت ہی میں تیار ہوگا۔ حضرت عبد اللہ ابن عمر (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اہل جنت کا ریشمی لباس جنت کے پھلوں سے تیار کیا جائے گا۔ (نسائی) حضرت جابر (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جنت میں ایک ایسا درخت ہوگا۔ جس سے ریشم پیدا ہوگا اور اہل جنت کا لباس اسی ریشم سے تیار کیا جائے گا۔ (ترمذی) ایک اور حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے (1) جو مرد دنیا میں ریشم والا لباس پہنے گا اس کو آخرت میں ریشمی لباس نہ دیا جائے گا۔ (2) جو دنیا میں شراب پئے گا وہ آخرت میں شراب سے محروم رہے گا۔ (3) جو شخص دنیا میں سونے چاندی کے برتنوں میں کھائے گا وہ آخرت میں سونے چاندی کے برتنوں میں نہ کھاسکے گا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ تینوں چیزیں اہل جنت کے لئے مخصوص ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ جنت کی راحتیں اور سکون ان لوگوں کو حاصل ہوگا جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا راستہ اختیار کیا ہوگا۔ اس کے بر خلاف جن لوگوں نے یہودیت اور عیسائیت ‘ ستارہ پرستی اور آگ پرستی اور کفر و شرک کا راستہ اختیار کیا ہوگا۔ وہ جنت کی راحتوں سے محروم رہیں گے۔ قیامت کے دن اس کا فیصلہ کردیا جائے گا اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔ جن لوگوں نے اللہ اور رسول کی نافرمانی کا طریقہ اختیار کیا ہوگا۔ ان کی سزا یہ ہوگی کہ جہنم کی آگ ان کو چاروں طرف سے اس طرح گھیرلے گی جس طرح لباس انسانی بدن کو گھیر لیتا اور ڈھانپ لیتا ہے۔ پھر ہتھوڑوں سے ان کے سر کچل کر ان پر ایسا گرم اور کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا جس سے ان کے نہ صرف بدن جھلس جائیں گے بلکہ ان کے پیٹ کے اندر تک کے حصوں کو جلا کر راکھ کردیا جائے گا۔ پھر ان کو اصل حالت پر لوٹا کر دوبارہ سزا دی جائے گی اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہے گا۔ اگر وہ اس سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو ان کو دوبارہ اسی جہنم کی طرف دھکیل دیا جائے گا اور کہا جائے گا کہ تم اپنے کئے کا مزہ چکھو۔ اس کے برخلاف وہ لوگ جو ایمان اور عمل صالح کے راستے پر چلیں گے ان کے لئے ایسی جنتیں ہوں گی جن کے نیچے سے نہریں جاری ہوں گی۔ ان کو سونے چاندی اور موتیوں کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ ان کا ریشمی لباس ہوگا۔ ہر طرف سے خیر و بھلائی کی صدائیں ہوں گی لیکن وہ لوگ جنہوں نے کفر کی روش اختیار کرتے ہوئے اللہ کے گھر سے لوگوں کو صرف اس لئے روکا ہوگا۔ کہ وہ اس میں اللہ کا نام کیوں لیتے ہیں یا بیت اللہ کی زیارت سے لوگوں کو کسی بھی طرح روکا ہوگا یا مقامی اور باہر سے آنے والے زائرین کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی ہوں گی تو ان کو اس کی سزا دنیا اور آخرت میں دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کے انسانوں کو اس طرف متوجہ فرمایا ہے کہ کیا وہ کائنات میں یہ نہیں دیکھتے کہ زمین و آسمان ‘ چاند ‘ سورج ‘ ستارے پہاڑ درخت اور ہر جان دار اسی ایک اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے اس کے سامنے سجدے کی حالت میں ہیں یہ کائنات اور اس کا ذرہ ذرہ اللہ نے انسان کے لئے پیدا کیا۔ کائنات کی ہر چیز تو اللہ کے سامنے جھکی ہوئی ہے لیکن انسان کتنا نا شکرا ہے کہ وہ اپنے اللہ کو بھول کر اس کے سامنے سرجھکانے کے بجائے غرور ‘ تکبر اور کفر و شرک کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ مجوس آتش پرست ہیں۔ 8۔ پس اس کو ہر ایک کے کفر و ایمان کی بھی اطلاع ہے، ہر ایک مناسب پاداش دے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اس آیت سے قبل اور ما بعد توحید باری تعالیٰ کا ذکر ہے اس لیے تمام مذہبی طبقات کو مخاطب کر کے انتباہ کیا گیا ہے کہ سب کے درمیان ” اللہ “ ہی فیصلہ صادر فرمائے گا۔ کہ کس کس نے ” اللہ “ کی توحید اور اس کے احکام کا انکار کیا اور کس نے اس کی توحید کو مانا اور شرک سے اجتناب کیا۔ اس آیت مبارکہ میں مسلمانوں کے ذکر کے ساتھ پانچ فرقوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ جو دنیا کے مختلف ممالک میں پائے جاتے ہیں۔ یہودی اپنے آپ کو اس لیے یہودی کہلواتے ہیں کہ وہ اپنی نسبت حضرت یعقوب (علیہ السلام) کے بیٹے یہودہ کی طرف کرتے ہیں۔ صائبین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو زرتشت کے پیروکار کہتے ہیں۔ جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ پیغمبر تھے۔ عرف عام میں نصاریٰ عیسائیوں کو کہا جاتا ہے تاہم عیسائیوں میں ایک مخصوص فرقہ کا نام بھی نصاریٰ ہے۔ مجوسی وہ لوگ ہیں جو آگ کی پرستش کرتے ہیں۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ زمین و آسمان کے نظام کو چلانے والے دو خدا ہیں ایک کا نام اھرمن ہے جو نقصان پہنچانے پر اختیار رکھتا ہے دوسرے کا نام یزداں ہے جو خیر و برکت کا مالک ہے۔ مشرک کا بنیادی طور پر کوئی عقیدہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر علاقے اور زمانے کے لوگ مختلف معبودوں کی عبادت کرتے ہیں اور انہیں حاجت روا، مشکل کشا سمجھ کر ان کے سامنے رکوع و سجود کرنے کے ساتھ ساتھ نذر و نیاز پیش کرتے ہیں۔ ان مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان شدید اختلافات ہیں لیکن تمام مذاہب کے پیروکار ہمیشہ سے مسلمانوں کے خلاف متحد رہے ہیں۔ بالخصوص یہودی اور مشرک مسلمانوں کی مخالفت کرنے میں ہمیشہ سے پیش پیش ہیں۔ دنیا میں ” اللہ “ کی توحید کی مخالفت اور شرک کی حمایت میں جو چاہے اور جس طرح چاہے تاویلات کرتا پھرے بالآخر قیامت کے دن سب کے درمیان رب ذوالجلال ٹھیک ٹھیک فیصلہ کرے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے نظریات اور اعمال کو پوری طرح جانتا اور باخبر ہے۔ (عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَتُؤَدُّنَّ الْحُقُوْقَ إِلٰی أَھْلِھَا یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، حَتّٰی یُقَاد للشَّاۃِ الْجَلْحَاءِ مِنَ الشَّاۃِ الْقَرْنَاءِ ) [ رواہ مسلم : کتاب البروالصلۃ، باب تحریم الظلم ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تمہیں قیامت کے دن لوگوں کے حقوق ان کے مالکوں کو ادا کرنا پڑیں گے، یہاں تک کہ جس بکری کے سینگ نہیں ہیں اس کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کے عقائد اور اعمال درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمائے گا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہر کسی کی نیت اور اس کے اعمال کو اچھی طرح جانتا ہے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن لوگوں کے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کردیا جائے گا : ١۔ بیشک تیرا رب قیامت کے دن ان کے درمیان فیصلہ کرے گا جس میں وہ اختلاف کرتے تھے۔ (یونس : ٩٣) ٢۔ یقیناً اللہ تمہارے درمیان اپنے حکم سے فیصلہ فرمائے گا۔ (النحل : ٧٨) ٣۔ اللہ قیامت کے دن تمہارے اختلافات کا فیصلہ فرمائے گا۔ (الحج : ٦٩) ٤۔ اللہ قیامت کے دن عدل و انصاف کا ترازو قائم فرمائے گا۔ (الانبیاء : ٤٧) ٥۔ اللہ عدل و انصاف کا فیصلہ فرماتا ہے۔ (المومن : ٢٠ ) ٦۔ یقیناً اللہ تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا جو تم اختلاف کرتے تھے۔ (الزمر : ٣) ٧۔ اللہ قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ فرمائے گا اور کافر مومنوں پر برتری نہیں پائیں گے۔ (النساء : ١٤١) ٨۔ وحی کی فرمانبرداری کرو اور صبر کرو یہاں تک کہ اللہ فیصلہ فرمادے۔ اللہ بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔ (یونس : ١٠٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ان الذین امنوا ……شی ئٍ شھید (١٧) ان فرقوں کا تعارف اور تعریف پہلے گزر چکی ہے۔ یہاں ان کا ذکر اس اصول کے حوالے سے ہے کہ اللہ جس کو چاہتا ہے ، ہدایت دیتا ہے اور اس کو یہ بھی معلوم ہے کہ ہدایت پر کون ہیں اور ضلالت پر کون ہیں ؟ آخرت میں اللہ ہی سب کا حساب و کتاب کرنے الا ہے۔ آخری فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہے اور ہر چیز پر اللہ گواہ ہے۔ لوگ اگر اپنی فکر ، اپنی خواہشات اور اپنے ذاتی میلانات کے پچیھے دوڑ رہے ہیں تو دوڑتے رہیں۔ یہ پوری کائنات اپنی فطرت کے ساتھ اللہ کے قوانین قدرت کی مطیع ہے اور اس کے سامنے سجدہ ریز ہے۔ نافرمان اگر کوئی ہے تو انسان ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اہل ایمان اور یہود و نصاریٰ ، مجوس اور مشرکین سب کے درمیان اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فیصلے فرمائے گا، جو آسمانوں میں اور زمین میں ہیں سب اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرتے ہیں دنیا میں ایک جماعت تو اہل ایمان کی ہے جو خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائے اور ان کے علاوہ بہت سی جماعتیں ہیں جنہوں نے اسلام قبول نہیں کیا ان میں یہودی نصرانی صابئین اور آتش پرست اور طرح طرح سے شرک اختیار کرنے والے لوگ ہیں مسلمانوں کے علاوہ جتنی دوسری جماعتیں ہیں وہ آپس میں اپنے عقائد اور اعمال کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں لیکن چونکہ کفر ایک ہی ملت ہے اس لیے ایک فریق اہل ایمان کا اور دوسرا مجموعی حیثیت سے تمام کافروں کا ہے یہ سب لوگ گوآپس میں مختلف ہیں لیکن باایمان نہ ہونے میں سب شریک ہیں اس لیے مومنین اور کافرین کو (ھٰذَانِ خَصْمَانِ ) دو گروہ بتا دیئے، جو اہل ایمان ہیں وہ تو ہیں ہی دین حق پر، لیکن دوسری جماعتیں ہیں وہ بھی اپنے بارے میں یہ گمان رکھتی ہیں کہ قیامت کے دن اپنے اس دین کی وجہ سے جو ہم نے اختیار کر رکھا ہے بخش دیئے جائیں گے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب کے درمیان فیصلہ فرما دے گا اہل ایمان کی بخشش ہوگی اور تمام اہل کفر دوزخ میں داخل ہوں گے وہاں ان سب کو معلوم ہوجائے گا کہ جو لوگ کفر پر تھے وہ غلط راہ پر تھے۔ سورة الم سجدہ میں فرمایا (اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ یَفْصِلُ بَیْنَھُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ ) (بلاشبہ آپ کا رب ان کے درمیان قیامت کے دن ان چیزوں میں فیصلہ فرما دے گا جن میں وہ اختلاف رکھتے تھے) ۔ (اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ شَھِیْدٌ) (بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے پوری طرح واقف ہے) ہر ایماندار کے ایمان کو اور ہر کافر کے کفر کو وہ خوب اچھی طرح جانتا ہے وہ اپنے علم کے مطابق جزا سزا دے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

27:۔ ” اِنَّ الَّذِیْنَ الخ “ یہ تخویف اخروی ہے۔ ” اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا “ امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والسلام۔ ” وَالَّذِیْنَ ھَادُوْا “ قوم موسیٰ علیہ السلام۔ ” وَالصَّائِبِیْنَ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے عہد کے لوگ مراد ہیں جو شمس و قمر اور دیگر سیاروں کی عبادت کرتے تھے۔ ” وَالنَّصَارٰي “ قوم عیسیٰ علیہ السلام۔ ” وَالْمَجُوْس “ آتش پرست۔ ” وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا “ اور دیگر تمام مشرکین جو صائبین اور مجوس کی طرح کسی خاص نام سے مشہور نہیں ہیں دنیا میں تو سب حق پر ہونے کا دعوی کرتے ہیں۔ آخرت میں اللہ تعالیٰ مومنوں اور دیگر پانچ فرقوں کے درمیان آخری فیصلہ فرمائے گا اور ہر ایک کو اس کے اعمال کے موافق جزا و سزا دے گا۔ ای یقضی و یحکم فللکفرین النار وللمومنین الجنۃ (قرطبی ج 12 ص 23) ۔ 28:۔ ” اِنَّ اللّٰهَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ شَھِیْدٍ “ یہ ماقبل کی علت ہے۔ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں وہ سب کے ظاہر و باطن اور ہر ایک کے اعمال سے باخبر ہے اس لیے وہ قیامت کے دن بالکل صحیح صحیح فیصلہ سنائے گا اور کسی پر ظلم نہی ہوگا نہ کسی کی حق تلفی ہوگی۔ ای انہ عالم بما یستحقہ کل واحد منھم فلا یجری فی ذالک الفضل ظلم ولا حیف (خازن ج 5 ص 8) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(17) بلاشبہ وہ لوگ جو ایمان لائے اور جو لوگ یہودی ہیں اور صائبین اور نصاریٰ اور مجوس اور وہ لوگ جو مشرک ہیں اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کے مابین قیامت کے دن فیصلہ کردے گا۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے آگاہ اور ہر چیز پر مطلع ہے۔ یعنی دنیا کے مختلف فرقے مثلاً مسلمان یہودی، صائبین یعنی کواکب پرست اور نصرانی اور آتش پرست اور بت پرست ان سب کے درمیان کھلا اور عملی فیصلہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمادے گا بیشک اللہ تعالیٰ کے سامنے ہر چیز ہے یعنی سب کے اعمال اور عقائد سے وہ اچھی طرح واقف ہے ان سب کا فیصلہ قیامت کے دن ہوجائے گا۔ فیصلہ یہی کہ جو راہ راست پر ہوگا وہ بہشت میں بھیج دیا جائے گا اور جو گمراہ ہوں گے وہ جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے۔ صائبین کی تحقیق پہلے پارے میں گزر چکی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں مجوس آگ کو پوجتے ہیں اور ایک نبی کا بھی نام لیتے ہیں۔ معلوم نہیں یہ پیچھے پکڑا ہے انہوں نے یا سرے سے غلط ہیں۔ 12 کہتے ہیں مجوس دو خد ا کے قائل ہیں ایک کو خالق شر کہتے ہیں اور ایک کو خالق خیر مانتے ہیں۔