Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 31

سورة الحج

حُنَفَآءَ لِلّٰہِ غَیۡرَ مُشۡرِکِیۡنَ بِہٖ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخۡطَفُہُ الطَّیۡرُ اَوۡ تَہۡوِیۡ بِہِ الرِّیۡحُ فِیۡ مَکَانٍ سَحِیۡقٍ ﴿۳۱﴾

Inclining [only] to Allah , not associating [anything] with Him. And he who associates with Allah - it is as though he had fallen from the sky and was snatched by the birds or the wind carried him down into a remote place.

اللہ کی توحید کو مانتے ہوئے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے ہوئے ۔ سنو! اللہ کے ساتھ شریک کرنے والا گویا آسمان سے گر پڑا ، اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا کسی دور دراز کی جگہ پھینک دے گی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

حُنَفَاء لِلَّهِ ... Hunafa' Lillah, means, sincerely submitting to Him Alone, shunning falsehood and seeking the truth. Allah says: ... غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ ... not associating partners unto Him; Then Allah gives a likeness of the idolator in his misguidance and being doomed and being far away from true guidance, and says: ... وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاء ... and whoever assigns partners to Allah, it is as if he had fallen from the sky, meaning, ... فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ ... the birds caught him in midair, ... أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ or the wind had thrown him to a far off place. means, remote and desolate, dangerous for anyone who lands there. Hence it says in the Hadith of Al-Bara': إِنَّ الْكَافِرَ إِذَا تَوَفَّتْهُ مَلَيِكَةُ الْمَوْتِ وَصَعِدُوا بِرُوحِهِ إِلَى السَّمَاءِ فَلَ تُفْتَحُ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ بَلْ تُطْرَحُ رُوحُهُ طَرْحًا مِنْ هُنَاك When the angels of death take the soul of the disbeliever in death, they take his soul up to the heaven, but the gates of heaven are not opened for him; on the contrary, his soul is thrown down from there. Then he recited this Ayah. The Hadith has already been quoted in our explanation of Surah Ibrahim. Allah gives another parable of the idolators in Surah Al-An`am, where He says: قُلْ أَنَدْعُواْ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لاَ يَنفَعُنَا وَلاَ يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَى أَعْقَـبِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَانَا اللَّهُ كَالَّذِى اسْتَهْوَتْهُ الشَّيَـطِينُ فِى الاٌّرْضِ حَيْرَانَ لَهُ أَصْحَـبٌ يَدْعُونَهُ إِلَى الْهُدَى ايْتِنَا قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى Say: "Shall we invoke others besides Allah, that can do us neither good nor can harm us, and shall we turn back on our heels after Allah has guided us -- like one whom the Shayatin have made to go astray in the land in confusion, his companions calling him to guidance (saying): `Come to us."' Say: "Verily, Allah's guidance is the only guidance." (6:71)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

31۔ 1 حنفاء حنیف کی جمع ہے جس کے مصدری معنی ہیں مائل ہونا ایک طرف ہونا، یک رخا ہونا یعنی شرک سے توحید کی طرف اور کفر و باطل سے اسلام اور دین حق کی طرف مائل ہوتے ہوئے۔ یا ایک طرف ہو کر خالص اللہ کی عبادت کرتے ہوئے۔ 31۔ 2 یعنی جس طرح بڑے پرندے، چھوٹے جانوروں کو نہایت تیزی سے جھپٹا مار کر انھیں نوچ کھاتے ہیں یا ہوائیں کسی کو دور دراز جگہوں پر پھینک دیں اور کسی کو اس کا سراغ نہ ملے۔ دونوں صورتوں میں تباہی اس کا مقدر ہے۔ اسی طرح وہ انسان جو صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا ہے، وہ سلامت فطرت اور طہارت نفس کے اعتبار سے طہر و صفا کی بلندی پر فائز ہوجاتا ہے اور جوں ہی وہ شرک کا ارتکاب کرتا ہے تو گویا اپنے کو بلندی سے پستی میں اور صفائی سے گندگی اور کیچڑ میں پھینک لیتا ہے

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٨] حنفاء حنیف کی جمع ہے۔ اور حنیف بھی تمام باطل راہوں کو چھوڑ کر استقامت کی طرف مائل ہونا (مفردات القرآن) اور حنیف وہ شخص ہے جو تمام باطل راہوں کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی سیدھی راہ کی طرف آجائے۔ اور وہ سیدھی راہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات، عبادت و تصرفات میں کسی بھی چیز کو ذرہ برابر بھی شریک نہ سمجھا جائے۔ [٤٩] انسان تمام مخلوقات سے اشرف و افضل پیدا کیا گیا ہے۔ لہذا اس کے لئے سزاوار یہی بات ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنے خالق ومالک کے سامنے سر جھکائے اسی سے اپنی حاجات طلب کرے اور اسی کی عبادت کرے۔ اب اگر وہ اللہ کو چھوڑ کر کسی بھی چیز کی عبادت کرے، اس کے آگے سر جھکائے یا حاجات روا کرے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک اعلیٰ چیز اپنے سے کمتر درجہ کی چیز کے سامنے جھک گئی یا اگر وہ کسی انسان کے سامنے سرجھکائے تو بھی مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے ہی جیسی محتاج مخلوق کے آگے جھک رہا ہے اور یہ بھی انسانیت کی تذلیل ہے۔ ایسے شخص کی مثال یہ ہے جیسے وہ توحید کی بلندیوں سے شرک کی پستیوں میں جاگرا۔ اور اب وہ اپنے جیسے دوسرے مشرکوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ جو اسے کبھی کسی در پر جانے کا مشورہ دیں گے کبھی کسی دوسرے کے آستانہ پر جانے کا۔ حتیٰ کہ یہ شکاری پرندے اسے مکمل طور پر گمراہ اور بےایمان کرکے ہی چھوڑیں گے۔ اور اگر وہ ان سے کسی طرح بچ بھی گیا تو اللہ کے مقابلہ میں اس کی دینی خواہشات نفس ہی گمراہی کے گڑھے میں جا گرانے کو کافی ہیں۔ اور اپنی خواہشات نفس کی پیروی بذات خود بھی شرک ہی کی ایک قسم ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے۔ ( اَفَرَءَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰــهَهٗ هَوٰىهُ وَاَضَلَّهُ اللّٰهُ عَلٰي عِلْمٍ وَّخَتَمَ عَلٰي سَمْعِهٖ وَقَلْبِهٖ وَجَعَلَ عَلٰي بَصَرِهٖ غِشٰوَةً ۭ فَمَنْ يَّهْدِيْهِ مِنْۢ بَعْدِ اللّٰهِ ۭ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ 23؀) 45 ۔ الجاثية :23) && یعنی اگر وہ دوسرے مشرکوں کے ہتھے نہ بھی چڑھے تو اس کا اپنا نفس ہی اسے گمراہ کرنے کو کافی ہے &&

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

حُنَفَاۗءَ لِلّٰهِ غَيْرَ مُشْرِكِيْنَ بِهٖ : ” أَيْ کُوْنُوْا حُنَفَاءَ “ یعنی تمام معبودوں سے ہٹ کر صرف اللہ کی خالص عبادت کرنے والے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے والے بنو۔ ”ۙحُنَفَاۗءَ “ پر نصب ” وَاجْتَنِبُوْا “ کی ضمیر سے حال ہونے کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے۔ مزید دیکھیے سورة انعام (١٦٠ تا ١٦٣) ۔ وَمَنْ يُّشْرِكْ باللّٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاۗءِ : جو شخص توحید پر قائم ہے وہ بلندی اور عزو شرف میں گویا آسمان پر ہے کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کرتا اور اسی کا حکم مانتا ہے۔ جب اس نے شرک کیا تو اس بلند مقام سے گرگیا، اب یا تو اسے پرندے راستے ہی میں اچک لیں گے، یعنی وہ بتوں کے پجاریوں یا ان زندہ یا مردہ پیروں بزرگوں کے مجاوروں کے ہتھے چڑھ جائے گا جنھوں نے ان پیروں بزرگوں کو خدا بنا رکھا ہے، یا ہوا اسے بہت دور جگہ میں گرا دے گی، یعنی اگر کسی کے قابو نہ آیا تو اللہ سے تو بدظن ہو ہی چکا ہے، پھر اسے اس کی خواہش بہت دور گہری جگہ میں گرا دے گی، یعنی سب سے منکر ہو کر دہریہ ہوجائے گا۔ دونوں صورتوں میں اس کے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

حُنَفَاۗءَ لِلہِ غَيْرَ مُشْرِكِيْنَ بِہٖ۝ ٠ۭ وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللہِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاۗءِ فَتَخْطَفُہُ الطَّيْرُ اَوْ تَہْوِيْ بِہِ الرِّيْحُ فِيْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ۝ ٣١ حنف الحَنَفُ : هو ميل عن الضّلال إلى الاستقامة، والجنف : ميل عن الاستقامة إلى الضّلال، والحَنِيف هو المائل إلى ذلك، قال عزّ وجلّ : قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل/ 120] ( ح ن ف ) الحنف کے معنی گمراہی سے استقامت کی طرف مائل ہونے کے ہیں ۔ اس کے بالمقابل حنف ہے جس کے معنی ہیں استقامت سے گمراہی کی طرف مائل ہونا ۔ الحنیف ( بروزن فعیل) جو باطل کو چھوڑ کر استقامت پر آجائے قرآن میں ہے :۔ قانِتاً لِلَّهِ حَنِيفاً [ النحل/ 120] اور خدا کے فرمانبردار تھے جو ایک کے ہور ہے تھے ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ خر فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج/ 31] ، وقال تعالی: فَلَمَّا خَرَّ تَبَيَّنَتِ الْجِنُّ [ سبأ/ 14] ، وقال تعالی: فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل/ 26] ، فمعنی خَرَّ سقط سقوطا يسمع منه خریر، والخَرِير يقال لصوت الماء والرّيح وغیر ذلک ممّا يسقط من علوّ. وقوله تعالی: خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة/ 15] ( خ ر ر ) خر ( ن ) خر یر ا کے معنی کسی چیز کے آواز کے ساتھ نیچے گرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَكَأَنَّما خَرَّ مِنَ السَّماءِ [ الحج/ 31] جب عصا گر پرا تب جنوں کو معلوم ہوا ۔ تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گر پڑے ۔ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِهِمْ [ النحل/ 26] اور چھت ان پر ان کے اوپر سے گر پڑی الخریر پانی وغیرہ کی آواز کو کہتے ہیں جو اوپر سے گر رہاہو اور آیت کریمہ : ۔ خَرُّوا سُجَّداً [ السجدة/ 15] تو سجدے میں گر پڑتے میں خرو ا کا لفظ دو معنوں پر دلالت کرتا ہے یعنی ( 1) گرنا اور ( 2 ) ان سے تسبیح کی آواز کا آنا ۔ اور اس کے بعد آیت سے تنبیہ کی ہے کہ ان کا سجدہ ریز ہونا اللہ تعالیٰ کی تسبیح کے ساتھ تھا نہ کہ کسی اور امر کے ساتھ ۔ خطف الخَطْفُ والاختطاف : الاختلاس بالسّرعة، يقال : خَطِفَ يَخْطَفُ ، وخَطَفَ يَخْطِفُ «3» وقرئ بهما جمیعا قال : إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ وذلک وصف للشّياطین المسترقة للسّمع، قال تعالی: فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ [ الحج/ 31] ، يَكادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصارَهُمْ [ البقرة/ 20] ، وقال : وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ [ العنکبوت/ 67] ، أي : يقتلون ويسلبون، والخُطَّاف : للطائر الذي كأنه يخطف شيئا في طيرانه، ولما يخرج به الدّلو، كأنه يختطفه . وجمعه خَطَاطِيف، وللحدیدة التي تدور عليها البکرة، وباز مُخْطِف : يختطف ما يصيده، ( خ ط ف ) خطف یخطف خطفا واختطف اختطافا کے معنی کسی چیز کو سرعت سے اچک لینا کے ہیں ۔ یہ باب ( س ض ) دونوں سے آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ«4» ہاں جو کوئی ( فرشتوں کی ) بات کو ) چوری سے جھپث لینا چاہتا ہے ۔ طا پر فتحہ اور کسرہ دونوں منقول ہیں اور اس سے مراد وہ شیاطین ہیں جو چوری چھپے ملا اعلیٰ کی گفتگو سنا کرتے تھے ۔ نیز فرمایا :۔ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ [ الحج/ 31] پھر اس کو پرندے اچک لے جائیں یا ہوا کسی دور جگہ اڑا کر پھینک دے ۔ يَكادُ الْبَرْقُ يَخْطَفُ أَبْصارَهُمْ [ البقرة/ 20] قریب ہے کہ بجلی ( کی چمک ) ان کی آنکھوں ( کی بصارت ) کو اچک لے جائے ۔ وَيُتَخَطَّفُ النَّاسُ مِنْ حَوْلِهِمْ [ العنکبوت/ 67] اور لوگ ان کے گرد نواح سے اچک لئے جاتے ہیں ۔ یعنی ان کے گرد ونواح میں قتل و غارت کا سلسلہ جاری ہے ۔ الخاف ۔ ( 1) ابابیل کی قسم کا ایک پرندہ جو پرواز کرنے میں کسی چیز کو جپٹ لیتا ہے ۔ ( 2) آہن کج جس کے ذریعے کنوئیں سے ڈول نکالا جاتا ہے گویا وہ ڈول کو اچک کر باہر لے آتا ہے ۔ ( 3) وہ لوہا جس پر کنوئیں کی چرغی گھومتی ہے ۔ ج خطاطیف باز مخطف ۔ باز جو اپنے شکار پر جھٹپتا ہے ۔ الخطیف ۔ تیز رفتاری ۔ الخطف الحشاو مختطفتہ ۔ مرد باریک شکم جس کے وبلاپن کی وجہ سے ایسا معلوم ہو کہ اس کی انتٹریاں اچک لی گئی ہیں ۔ طير الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص/ 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل/ 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل/ 20] ( ط ی ر ) الطائر ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص/ 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل/ 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل/ 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔ هوى الْهَوَى: ميل النفس إلى الشهوة . ويقال ذلک للنّفس المائلة إلى الشّهوة، وقیل : سمّي بذلک لأنّه يَهْوِي بصاحبه في الدّنيا إلى كلّ داهية، وفي الآخرة إلى الهَاوِيَةِ ، وَالْهُوِيُّ : سقوط من علو إلى سفل، وقوله عزّ وجلّ : فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] قيل : هو مثل قولهم : هَوَتْ أمّه أي : ثکلت . وقیل : معناه مقرّه النار، والْهَاوِيَةُ : هي النار، وقیل : وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] أي : خالية کقوله : وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] وقد عظّم اللہ تعالیٰ ذمّ اتّباع الهوى، فقال تعالی: أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] ، وَلا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] ، وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] وقوله : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] فإنما قاله بلفظ الجمع تنبيها علی أنّ لكلّ واحد هوى غير هوى الآخر، ثم هوى كلّ واحد لا يتناهى، فإذا اتّباع أهوائهم نهاية الضّلال والحیرة، وقال عزّ وجلّ : وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] ، كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] أي : حملته علی اتّباع الهوى. ( ھ و ی ) الھوی ( س ) اس کے معنی خواہشات نفسانی کی طرف مائل ہونے کے ہیں اور جو نفساتی خواہشات میں مبتلا ہو اسے بھی ھوی کہدیتے ہیں کیونکہ خواہشات نفسانی انسان کو اس کے شرف ومنزلت سے گرا کر مصائب میں مبتلا کردیتی ہیں اور آخر ت میں اسے ھاویۃ دوزخ میں لے جاکر ڈال دیں گی ۔ الھوی ( ض ) کے معنی اوپر سے نیچے گر نے کے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ فَأُمُّهُ هاوِيَةٌ [ القارعة/ 9] اسکا مرجع ہاویہ ہے : ۔ میں بعض نے کہا ہے کہ یہ ھوت انہ کیطرف ایک محاورہ ہے اور بعض کے نزدیک دوزخ کے ایک طبقے کا نام ہے اور آیت کے معنی یہ ہیں کہ اسکا ٹھکانا جہنم ہے اور بعض نے آیت وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ( ہوا ہو رہے ہوں گے ۔ میں ھواء کے معنی خالی یعنی بےقرار کئے ہیں جیسے دوسری جگہ فرمایا : ۔ وَأَصْبَحَ فُؤادُ أُمِّ مُوسی فارِغاً [ القصص/ 10] موسیٰ کی ماں کا دل بےقرار ہوگیا ۔ اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں خواہشات انسانی کی اتباع کی سخت مذمت کی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلهَهُ هَواهُ [ الجاثية/ 23] بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے ولا تَتَّبِعِ الْهَوى[ ص/ 26] اور خواہش کی پیروی نہ کرنا ۔ وَاتَّبَعَ هَواهُ [ الأعراف/ 176] اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے ۔ اور آیت : ۔ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْواءَهُمْ [ البقرة/ 120] اگر تم ان کی خواہشوں پر چلو گے ۔ میں اھواء جمع لاکر بات پت تنبیہ کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش دوسرے سے مختلف اور جدا ہے اور ایہ ایک کی خواہش غیر متنا ہی ہونے میں اھواء کا حکم رکھتی ہے لہذا ایسی خواہشات کی پیروی کرنا سراسر ضلالت اور اپنے آپ کو درطہ حیرت میں ڈالنے کے مترادف ہے ۔ نیز فرمایا : ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَ الَّذِينَ لا يَعْلَمُونَ [ الجاثية/ 18] اور نادانوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ۔ وَلا تَتَّبِعُوا أَهْواءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا [ المائدة/ 77] اور اس قوم کی خواہشوں پر مت چلو ( جو تم سے پہلے ) گمراہ ہوچکے ہیں ۔ قُلْ لا أَتَّبِعُ أَهْواءَكُمْ قَدْ ضَلَلْتُ [ الأنعام/ 56] ( ان لوگوں سے ) کہدو کہ میں تمہاری خواہشوں پر نہیں چلتا ۔ ایسا کروں میں گمراہ ہوچکا ہوں گا ۔ وَلا تَتَّبِعْ أَهْواءَهُمْ وَقُلْ آمَنْتُ بِما أَنْزَلَ اللَّهُ [ الشوری/ 15] اور ان ( یہود ونصاریٰ کی کو اہشوں پر مت چلو اور ان سے صاف کہدو کہ میرا تو اس پر ایمان ہے ۔ جو خدا نے اتارا ۔ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ وہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے ۔ الھوی ( بفتح الہا ) کے معنی پستی کی طرف اترنے کے ہیں ۔ اور اس کے بالمقابل ھوی ( بھم الہا ) کے معنی بلندی پر چڑھنے کے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل ) ( 457 ) یھوی مکار مھا ھوی الاجمال اس کی تنگ گھائیوں میں صفرہ کیطرح تیز چاہتا ہے ۔ الھواء آسمان و زمین فضا کو کہتے ہیں اور بعض نے آیت : ۔ وَأَفْئِدَتُهُمْ هَواءٌ [إبراهيم/ 43] اور ان کے دل مارے خوف کے ہوا ہور رہے ہوں گے ۔ کو بھی اسی معنی پر محمول کیا ہے یعنی بےقرار ہوتے ہیں ھواء کی طرح ہوں گے ۔ تھا ویٰ ( تفاعل ) کے معنی ایک دوسرے کے پیچھے مھروۃ یعنی گڑھے میں گرنے کے ہیں ۔ اھواء اسے فضا میں لے جا کر پیچھے دے مارا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَالْمُؤْتَفِكَةَ أَهْوى [ النجم/ 53] اور اسی نے الٹی بستیوں کو دے پئکا ۔ استھوٰی کے معنی عقل کو لے اڑنے اور پھسلا دینے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّياطِينُ [ الأنعام/ 71] جیسے کسی کی شیاطین ( جنات ) نے ۔۔۔۔۔۔۔ بھلا دیا ہو ۔ سحق السَّحْقُ : تفتیت الشیء، ويستعمل في الدّواء إذا فتّت، يقال : سَحَقْتُهُ فَانْسَحَقَ ، وفي الثوب إذا أخلق، يقال : أَسْحَقَ ، والسُّحْقُ : الثوب البالي، ومنه قيل : أَسْحَقَ الضّرعُ ، أي : صار سَحْقاً لذهاب لبنه، ويصحّ أن يُجعل إِسْحَاقُ منه، فيكون حينئذ منصرفا «3» ، وقیل : أبعده اللہ وأَسْحَقَهُ ، أي : جعله سَحِيقاً ، وقیل : سَحَقَهُ ، أي جعله بالیا، قال تعالی: فَسُحْقاً لِأَصْحابِ السَّعِيرِ [ الملک/ 11] ، وقال تعالی: أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكانٍ سَحِيقٍ [ الحج/ 31] ، ودم مُنْسَحِقٌ ، وسَحُوقٌ مستعار، کقولهم : مدرور . ( س ح ق ) السق ( ض ک ) اس کے اصل معنی کسی چیز کو ریزہ ریزہ کرنے کے ہیں ۔ زیادہ تر دوا کے پیسنے پر اس کا استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے : ۔ سحقتہ فانسحق میں نے دوا کو پیسا چناچہ وہ پس گئی اسحق الثوب کے معنی کپڑے کا پرانا ہوجانا کے ہیں اور پرانے کپڑے کو سحق کہا جاتا ہے اسی سے اسحق الضوع کا محاورہ جس کے معنی ہیں دودھ خشک ہوجانے کی وجہ سے تھن مرجھا گئے : ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہوسکتا ہے کہ اسحق ( علم ) بھی اسی س مشتق ہو اس صورت میں یہ اسم منصرف ہوگا ۔ اور کپڑے کے بوسیدہ کردینے پر سحقہ ( مجرد ) بھی استعمال ہوتا ہے اور محاورہ میں اسحقہ اللہ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ اسے ہلاک کرے اسی سے فرمایا : ۔ فَسُحْقاً لِأَصْحابِ السَّعِيرِ [ الملک/ 11] کہ دوزخیوں کے لئے دوری ہے ۔ اور فرمایا : ۔ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكانٍ سَحِيقٍ [ الحج/ 31] یا اس کو ہوا کسی دور جگہ لے کر ڈال دے گی ۔ اور استعارہ کے طور پر جاری خون کو منسحق و سحوق کہا جاتا ہے جیسے مزرور ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣١) اور حج وتلبیہ میں اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ کیوں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا کہ وہ آسمان سے گر پڑا پھر رستہ میں پرندے اس کی بوٹیاں نوچ کر جہاں چاہا سو لے گئے یا اس کو ہوا نے کسی دور دراز جگہ میں لے جا کر پھینک دیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣١ (حُنَفَآءَ لِلّٰہِ غَیْرَ مُشْرِکِیْنَ بِہٖ ط) ” اللہ کی بندگی میں کسی اعتبار اور کسی پہلو سے شرک کا شائبہ تک نہ آنے پائے۔ نہ ذات میں ‘ نہ صفات میں ‘ نہ حقوق میں ‘ نہ اختیارات میں۔ (وَمَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ ) ” شرک کرنے والے انسان کی مثال ایسے ہے جیسے وہ کسی بلندی پر رسّی کی مدد سے لٹکا ہوا تھا تو اس کی رسّی کٹ گئی اور وہ یکدم تیزی سے نیچے آ رہا ہے۔ (فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ اَوْ تَہْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ ) ” تو ایسے شخص کی اب کیفیت یہ ہے یا تو وہ باز اور عقاب جیسے شکاری پرندوں کے رحم و کرم پر ہوگا یا پھر تیز ہوا کا کوئی جھونکا اسے کسی کھائی میں پٹخ دے گا۔ مشرک کا ایسا انجام اس لیے ہوتا ہے کہ اللہ کا دامن چھوڑ کر وہ بےسہارا ہوجاتا ہے ‘ جبکہ توحید پرست شخص ایک مضبوط سہارے پر قائم ہوتا ہے۔ جیسا کہ سورة ابراہیم کی آیت ٢٧ میں فرمایا گیا ہے : (یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِج ) ” ثابت قدم رکھتا ہے اللہ اہل ایمان کو قول ثابت (کلمۂ توحید) کے ساتھ دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

59. In this parable heaven means the original human nature. Man by nature is the servant of none else but Allah and inherently accepts the doctrine of Tauhid. That is why the one who follows the guidance of the Prophets becomes firm in these dictates of his nature and soars higher and higher. On the other hand, the one who rejects Allah or associates a partner with Him falls down from the heaven of his nature. Then he either becomes a victim of satans and evil leaders like the birds of the parable, which snatch away the fallen man, or he becomes a slave of his lusts, passions, whims, etc., which have been likened to the wind in the parable. They lower him down from one wrong position to the other till he falls into the deepest abyss of degradation.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :59 اس تمثیل میں آسمان سے مراد ہے انسان کی فطری حالت جس میں وہ ایک خدا کے سوا کسی کا بندہ نہیں ہوتا اور توحید کے سوا اس کی فطرت کسی اور مذہب کو نہیں جانتی ۔ اگر انسان انبیاء کی دی ہوئی رہنمائی قبول کر لے تو وہ اسی فطری حالت پر علم اور بصیرت کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے ، اور آگے اس کی پرواز مزید بلندیوں ہی کی طرف ہوتی ہے ۔ نہ کہ پستیوں کی طرف ۔ لیکن شرک ( اور صرف شرک ہی نہیں بلکہ دہریت اور الحاد بھی ) اختیار کرتے ہی وہ اپنی فطرت کے آسمان سے یکایک گر پڑتا ہے اور پھر اس کو دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت لازماً پیش آتی ہے ۔ ایک یہ کہ شیاطین اور گمراہ کرنے والے انسان ، جن کو اس تمثیل میں شکاری پرندوں سے تشبیہ دی گئی ہے ، اس کی طرف جھپٹتے ہیں اور ہر ایک اسے اچک لے جانے کی کوشش کرتا ہے ۔ دوسرے یہ کہ اس کی اپنی خواہشات نفس اور اس کے اپنے جذبات اور تخیلات ، جن کو ہوا سے تشبیہ دی گئی ہے ، اسے اڑائے اڑائے لیے پھرتے ہیں اور آخر کار اس کو کسی گہرے کھڈ میں لے جا کر پھینک دیتے ہیں ۔ سحیق کا لفظ سحق سے نکلا ہے جس کے اصل معنی پیسنے کے ہیں ۔ کسی جگہ کو سحیق اس صورت میں کہیں گے جبکہ وہ اتنی گہری ہو کہ جو چیز اس میں گرے وہ پاش پاش ہو جائے ۔ یہاں فکر و اخلاق کی پستی کو اس گہرے کھڈ سے تشبیہ دی گئی ہے جس میں گر کر آدمی کے پرزے اڑ جائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

18: اس تمثیل کا مطلب یہ ہے کہ ایمان کی مثال آسمان کی سی ہے۔ جو شخص شرک کا ارتکاب کرتا ہے، وہ ایمان کے بلند مقام سے نیچے گر پڑتا ہے۔ پھر پرندوں کے اچک لے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی خواہشات اسے راہ راست سے بھٹکا کر ادھر ادھر لیے پھرتی ہیں، اور ہوا کے دور دراز پھینک دینے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ شیطان اسے مزید گمراہی میں مبتلا کردیتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ایسا شخص ایمان کے بلند مقام سے نیچے گر کر اپنی نفسانی خواہشات اور شیاطین کا غلام بن بیٹھتا ہے جو اسے گمراہی کی انتہا تک پہنچا دیتے ہیں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:31) حنفائ۔ حنیف کی جمع۔ جس کے معنی ہیں ایک طرف ہونے والا۔ حنف سے جس کے معنی گمراہی سے استقامت کی طرف مائل ہونے کے ہیں۔ بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے ۔ جو کوئی ایک راہ حق پکڑے اور سب باطل راہیں چھوڑ دے۔ وہ حنیف کہلاتا ہے حنفاء للہ اور غیر مشرکین بہ۔ دونوں احتنبوا سے حال ہیں اور تاکید کے لئے آئے ہیں۔ خر۔ ماضی واحد مذکر غائب خر سے (باب ضرب) وہ گرپڑا۔ قرآن مجید میں ہے یخرون للاذقان سجدا (17:107) وہ ٹھوڑیوں کے بل سجد میں گرپڑتے ہیں۔ فکانما خر من السمائ۔ ای صورۃ حال من یشرک باللہ کصورۃ حال من کر من السمائ۔ جو شخص اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتا ہے اس کی صورت حال اس شخص کی صورت حال کے مانند ہے جو آسمان سے گرپڑا ہو ! فتخفطہ۔ فا۔ پس۔ پھر۔ تخطف خطف سے (باب سمع) مضارع کا صیغہ واحد مؤنث غائب ہے۔ یہ باب سمع اور ضرب دونوں سے آتا ہے۔ لیکن قرآن مجید میں باب سمع سے آرہا ہے۔ مثلاً الا من خطف الخطفۃ (37:10) ہاں جو کوئی (فرشتوں کی بات کو) چوری سے جھپٹ لینا چاہتا ہے۔ اور یکاد البرق یخطف ابصارہم (2:20) قریب ہے کہ بجلی کی چمک ان کی آنکھوں کی بصارت کو اچک لے جائے) ۔ خطف کے معنی کسی چیز کو اچک لینا یا جلدی سے جھپٹ لینا کے ہیں۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب فعل خر کے فاعل کی طرف راجع ہے۔ صاحب ضیاء القرآن فتخطفہ الطیر کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔ جو بدبخت کسی کو کسی حیثیت سے خدا کا شریک ٹھہراتا ہے وہ تباہ و برباد ہو کر رہے گا۔ اس کی مثال یوں سمجھوگویا اس کو آسمان کی بےاندازہ بلندی سے نیچے پھینک دیا گیا ہو کیا ایسے شخص کے بچنے کا کوئی امکان ہے ہرگز نہیں۔ یا کوئی شکاری پرندہ اسے ہوا ہی میں دبوچ کر اپنا نوالہ بنا لے گا۔ ورنہ اتنی بلندی سے جب زمین پر گرے گا تو اس کی ہڈیاں چور چور ہوجائیں گی اور اس کا گوشت ریزہ ریزہ ہوجائے گا۔ دونوں صورتوں میں اس کی ہلاکت یقینی ہے۔ تھوی۔ ھوی سے (باب ضرب سے) مضارع کا صیغہ واحد مؤنث غائب ہے۔ جس کے معنی اوپر سے نیچے کی طرف گرنا۔ پھینک دینا کے ہیں۔ تھوی بہ الریح اس کو ہوا نیچے کو پھینک دیتی ہے یا گرا دیتی ہے اھواہ اس نے فضا میں لے جا کر اسے نیچے دے مارا اور قرآن مجید میں ہے والمؤتفکۃ اھوی (53:53) اور اس نے الٹی بستیوں کو دے پٹکا۔ اوپر سے نیچے کی طرف گرنے کی رعایت سے اس کو جھکنے اور مائل ہونے کے معنی میں بھی لیا گیا ہے مثلاً فاجعل افئدۃ من الناس تھوی الیہم (14:37) سو تو کچھ لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دے۔ سحیق۔ سحق سے بروزن فعیلبمعنی فاعل۔ دور۔ بعید ۔ دوسری جگہ قرآن مجید میں آیا ہے فسحقا الاصحب السعیر (47: 11) سو دوزخیوں کے لئے دوری ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

14 ۔ یعنی ایمان ایک اعلیٰ چیز ہے جس نے اسے چھوڑا اور شرک کیا وہ گویا رفعت ایمانی کے مرتبہ سے کفر کے گڑھے میں گرپڑا اور اس نے اپنے آپ کو نوچنے والے پرندوں کے حوالے کردیا، یا وہ ناشکری کی آندھی میں گھر کے انسانیت سے دور جا پڑا۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ اس طرح جو شرک کرتا ہے یا تو کسی کے ہاتھ سے مارا گیا، یا کسی وقت موت طبعی سے مر گیا۔ ہر حالت میں دار البوار میں پہنچے گا، اور یوں بےہوا کے جھونکوں کے بھی ضرور ہی گرتا ہے، لیکن اس صورت میں اور زیادہ کلفت ہوگی۔ چناچہ موت طبعی کے ساتھ فرشتوں کے دھکے اس کے مشابہ ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حرمات کا تقاضا تبھی پورا ہوسکتا ہے کہ انسان تمام معاملات میں اپنے رب کے لیے یکسو ہوجائے۔ حَنِیْفَ کی جمع ” حُنَفَاءَ “ ہے جس کا معنٰی ہے کسی کام کے لیے پوری طرح یکسو ہوجانا۔ یہاں حنفاء للّٰہ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ اے لوگو ! تمہیں نہ صرف ہر قسم کی ناپاکی، بتوں اور جھوٹ سے بچنا ہے بلکہ پوری طرح اللہ کے بن کر رہنا ہوگا۔ تمہارے عقیدہ اور عمل میں شرک کی ذرہ برابر آمیزش نہیں ہونا چاہیے۔ جس نے اعتقاداً یا عملاً اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا گویا کہ وہ آسمان سے نیچے گرا۔ اس کے زمین پر آتے ہی پرندوں نے نوچ لیا۔ یا اسے تیز ہوا نے ایسے مقام پر جا پھینکا جس سے وہ ریزہ ریزہ ہوگیا۔ ” سَحِیْقٍ “ پہاڑ کے درمیان ایسی کھڈ کو کہتے ہیں جس میں گرنے والا پتھروں پر لڑھکتا ہوا اس طرح نیچے گرئے کہ اس کے جسم کے چیتھٹرے اڑ جائیں۔ شرک کرنے والے کی حقیقتاً یہی حالت ہوتی ہے۔ عقیدہ توحید انسان کو فکری اور عملی طور پر بلندیوں سے سرفراز کرتا ہے۔ شرک انسان کو فکری اور عملی طور پر ذلت اور زوال سے دو چار کرتا ہے۔ مواحد انسان ہر حال میں اپنی خودی کو قائم رکھتا ہے۔ اگر وہ کسی کے ساتھ تعلق جوڑتا ہے تو اس کے پیچھے مفاد کی بجائے اللہ کا حکم اور اس کی رضا مقصود ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں مشرک فکری اور عملی طور پر اس قدر گھٹیا بن جاتا ہے کہ وہ اپنے خالق ومالک کو چھوڑ کر بتوں، پتھروں اور مزاروں کے سامنے ماتھا رگڑتا ہے۔ اس کے عمل اور تعلق کے پیچھے جلد بازی اور مفاد پرستی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ حتی کہ وہ ” اللہ “ کی عبادت بھی صرف دنیوی فائدے کے لیے کرتا ہے۔ جس وجہ سے مشرک اپنے رب کا وفادار نہیں ہوتا جو اپنے رب کا وفادار نہیں وہ دوسروں کا کس طرح وفادار ہوسکتا ہے۔ جس طرح آسمان سے گرنے والے کا وجود ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے اسی طرح مشرک فکر و عمل کے اعتبار سے ریزہ ریزہ ہوجاتا ہے۔ وہ اعتقادی طور پر منتشر اور خوداری کے حوالے سے انتہائی تہی دامن ہوتا ہے۔ اسی بات کا نتیجہ ہے کہ اچھا بھلا پڑھا لکھا انسان کبھی فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے آدمی سے قسمت دریافت کرتا ہے، اور کبھی بت کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا ہوتا ہے۔ ایک قبر کے سامنے سجدہ کر رہا ہے اور دوسرا قبر کے پاس بیٹھے ہوئے مجاور کے سامنے فریاد کر رہا ہوتا ہے اس طرح در در کی ٹھوکریں کھانے کو ثواب سمجھتا ہے۔ ان کے مقابلے میں مومن غریب ہو یا امیر، پڑھا ہوا ہو یا اَن پڑھ وہ اپنے رب کو چھوڑ کر کہیں جانے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ یَقُوْلُ اللَّہُ تَبَارَکَ وَتَعَالَی لأَہْوَنِ أَہْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ کَانَتْ لَکَ الدُّنْیَا وَمَا فِیْہَا أَکُنْتَ مُفْتَدِیًا بِہَا فَیَقُوْلُ نَعَمْ فَیَقُوْلُ قَدْ أَرَدْتُ مِنْکَ أَہْوَنَ مِنْ ہَذَا وَأَنْتَ فِیْ صُلْبِ اٰدَمَ أَنْ لاَ تُشْرِکَ أَحْسَبُہُ قَالَ وَلاَ أُدْخِلَکَ النَّارَ فَأَبَیْتَ إِلاَّ الشِّرْکَ ) [ رواہ مسلم : کتاب صفۃ القیامۃ والجنۃ والنار، باب طَلَبِ الْکَافِرِ الْفِدَاءَ بِمِلْءِ الأَرْضِ ذَہَبًا ] ” حضرت انس بن مالک (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں، آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اللہ تبارک و تعالیٰ جہنمیوں میں سے کم ترین عذاب پانے سے کہے گا۔ دنیا اور جو کچھ اس میں ہے اگر تیرے پاس ہو۔ کیا تو اسے فدیہ کے طور پر دینے کے لیے تیار ہے وہ کہے گا جی ہاں ! اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تجھ سے اس سے بھی ہلکی بات کا مطالبہ کیا تھا جب تو آدم کی پشت میں تھا وہ یہ کہ میرے ساتھ شرک نہ کرنا۔ راوی کا خیال ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تجھے جہنم میں داخل نہ کرتا لیکن تو شرک سے باز نہ آیا۔ “ مسائل ١۔ مسلمان کا فکر و عمل صرف اللہ کے لیے ہوتا ہے۔ ٢۔ جس نے اللہ کے ساتھ شرک کیا وہ بلندیوں سے پستیوں میں گرجاتا ہے۔ تفسیر بالقرآن شرک کی ذلّت اور اس کے نقصانات : ١۔ شرک سے تمام اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔ (الزمر : ٦٥) ٢۔ اللہ مشرک کو معاف نہیں کرے گا اس کے علاوہ جسے چاہے گا معاف کر دے گا۔ (النساء : ٤٨) ٣۔ شرک کرنے والا راہ راست سے بھٹک جاتا ہے۔ (النساء : ١١٦) ٤۔ جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے گویا کہ وہ آسمان سے گرپڑا۔ (الحج : ٣١) ٥۔ شرک کرنے والے پر جنت حرام ہے۔ (المائدۃ : ٧٢) ٦۔ اللہ اور اس کا رسول مشرکوں سے بری الذّمہ ہے۔ (التوبۃ : ٣) ٧۔ مشرکین کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ (ابراہیم : ٣٠) ٨۔ اللہ تعالیٰ نے مشرک اور زانی کو ایک جیسا قرار دیا ہے۔ ( النور : ٣)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد مشرک کا حال بیان فرمایا (وَ مَنْ یُّشْرِکْ باللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ ) (الایۃ) یعنی جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے اس کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی شخص بلندی سے گرپڑے اور پرندے اسے اچک لیں اور اس کی بوٹیاں نوچ نوچ کر کھا جائیں اور اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ جیسے کسی شخص کو ہوا اڑا کرلے جائے اور کسی دور دراز جگہ میں لے جا کر پھینک دے، علامہ بغوی نے معالم التنزیل ج ٣ ؍ ٢٨٦ میں لکھا ہے کہ جیسے کوئی شخص گرے اور پرندے اچک کر اور نوچ نوچ کر اس کی بوٹیاں کھا لیں یا جیسے ہوا اڑا کرلے جائے اور کسی دور جگہ لے جا کر پھینک دے یہی حال مشرک کا ہے اور وہ لامحالہ ہلاک ہی ہو کر رہے گا اس کی خلاصی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اس کی آخرت برباد ہے اس کے لیے عذاب دوزخ ہے الاَّ اَنْ یَّتُوْبَ مِنَ الکفر و امن قبل موتہ احقر کے ذہن میں آیت کی ایک تقریر یوں سمجھ میں آئی ہے کہ جو شخص مشرک ہوتا ہے وہ بہت سے معبودوں کو مانتا ہے اور جس کو معبود بنایا ہوا ہے ان کا اس پر تسلط ہوتا ہے جو اس نے خود ہی دے رکھا ہے اب یہ ان کے پنجہ میں ہے انہوں نے اس کی تکہ بوٹی کرلی ہے اور آپس میں بانٹ لیا ہے ایسے شخص کے بارے میں یہ امید رکھنا کہ شرک کو چھوڑ کر کبھی توحید پر آئے گا اس کا کوئی موقعہ نہیں۔ اور یہ فرمایا کہ ” مشرک کی ایسی مثال ہے جیسے کسی کو ہوا اڑا کرلے جائے اور کسی دور دراز جگہ میں لے جا کر پٹک دے “ اس کے بارے میں ذہن میں یوں آیا کہ سورة انعام میں جو (کَالَّذِی اسْتَھْوَتْہُ الشَّیٰطِیْنُ فِی الْاَرْضِ حَیْرَانَ لَہٗٓ اَصْحٰبٌ یَّدْعُوْنَہٗٓ اِلَی الْھُدَی اءْتِنَا) فرمایا ہے یہ اسی کے قریب ہے، یہاں یہ فرمایا ہے کہ ہوا اڑا کرلے گئی اور کہیں دور دراز جگہ لے جا کر ڈال دیا وہاں فرمایا ہے کہ اصحاب ضلال اسے ہر طرف سے بلا رہے ہیں جس کسی کی طرف جائے گا مزید گمراہی میں پڑے گا اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے محروم ہوگا والعلم عنداللہ الکریم

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

42:۔ ” حُنَفَاءَ لِلّٰهِ الخ “ حنفاء اور غیر مشرکین دونوں فاجتنبوا کی ضمیر سے حال موکدہ ہیں وھما حالان مؤکدتان من واو فاجتنبوا (روح ج 17 ص 149) ۔ حنفاء حنیف کی جمع ہے یعنی تمام باطل دینوں سے بیزار ہو کر دین حق کی طرف مائل ہونیوالا اور خالصۃً اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا۔ مائلین عن کل دین فرائغ الی الدین الحق مخلصین لہ تعالیٰ (روح ) ۔ 43:۔ ” وَ مِنَ الشِّرْکِ الخ “ ایک تمثیل کے ذریعے شرک کی تباہ کار اور اس کی برائی واضح کی گئی ہے۔ یہ تشبیہ مرکب ہے اس میں مشرک کے حال کو اس شخص سے تشبیہ دی گئی ہے جو آسمان سے گر پڑے حاصل یہ ہے کہ جس شخص نے اللہ کے ساتھ شرک کیا اس نے خود کو ہلاکت اور تباہی کے گھڑے میں جھونک دیا اور اپنی جان ضائع کردی اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص آسمان سے گر پڑے اور شکاری پرندے اس کی بوٹیاں نوچ لیں یا ہوا اڑا کر اسے کسی بہت گہرے کھڈ میں جا پھینکے من اشرک باللہ فقد اھلک نفسہ اھلاکا لیس بعدہ ھلاک بان صور حالہ بصورۃ حال من خر من السماء فاختطفتہ الطیر فتفرق قطعا فی حواصلھا او عصفت بہ الریح حتی حوت بہ فی بعض المھالک البعیدۃ (مدارک ج 3 ص 87) یا یہ تشبیہ تفصیلی ہے یعنی ایمان اور توحید کو آسمان سے اور شرک کرنے کو آسمان سے گرنے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور شکاری پرندوں سے افکار باطلہ اور اہواء نفسانیہ مراد ہیں اور ہوا سے مراد شیطان ہے یعنی جو شخص شرک کر کے ایمان اور توحید کے بلند ترین مقام سے خود کو گراتا ہے وہ کسی صورت بچ نہیں سکتا۔ یا تو امانی باطلہ اور خیالات فاسدہ کے خونخوار پرندے اس کی بوٹیاں نوچ لینگے اور اس کی عقل و فکر کو اس طرح معطل کردیں گے کہ وہ سوچنے اور سمجھنے کی توفیق سے محروم ہوجائے گا یا پھر شیطان تیز ہوا کے جھکڑ کی طرح اسے اڑا کر صراط مستقیم سے کہیں دور لے جا کر پھینک دے گا۔ (روح وغیرہ) ۔ حضرت شاہ عبدالقادر (رح) فرماتے ہیں۔ اور جو کوئی شریک کرے اس کی مثال فرمائی اس واسطے کہ جس کی نیت ایک اللہ پر ہے وہ قائم ہے اور جہاں نیت بہت طرف گئی وہ سب کو راہ میں سے اچک لے گئے یا سب سے منکر ہو کر دہری ہوگیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(31) تمہاری حالت یہ ہو کہ سب سے کنارہ کش ہوکر صرف اللہ تعالیٰ کے ہو رہو اس کے ساتھ شریک ٹھہرانے والے نہ ہو اور جس شخص نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا تو اس کی حالت ایسی ہے جیسے وہ آسمان سے گرپڑا پھر اس کو راستے میں گوشت خور پرندوں نے اچک لیا یا اس کو ہوا نے کسی دوردراز مقام پر لے جا پھینکا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو لائق ادب اور احترام قرار دیا ہے ان کی تعظیم اور ان کی بڑائی ملحوظ رکھنا یا جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے ان کو بڑا اور بھاری سمجھ کر چھوڑ دینا لائق ادب چیزیں جیسے بیت اللہ شریف میدان سعی، میدان عرفات، منیٰ ، قربانی کا جانور وغیرہ بلکہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام خواہ وہ اوامر وہں یا نواہی سب ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ آگے چوپایوں کی حلت کا بیان فرمایا کہ ان چوپایوں کو چھوڑ کر حرمت سورة مائدہ اور سورة انعام میں گزر چکی ہے اور چوپائے تمہارے لئے حلال و مباح ہیں۔ سورة مائدہ، بقرہ اور انعام میں ہم مفصل بحث کرچکے ہیں۔ قرآن کریم میں جن کی حرمت مذکور ہے اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث سے جن کی حرمت ثابت ہے وہ سب چیزیں حرام ہیں۔ بتوں کی گندگی یہ کہ بت پرستی کرنا یا کسی جانور کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کرنا یا تلبیہ پڑھتے وقت شرکیہ کلمات کہنا ان تمام مشرکانہ حرکات سے اجتناب کرو اور جھوٹ بولنے اور جھوٹی گواہی دینے سے اجتناب کرو اور بچو اور صرف اللہ کے ہو کر رہو۔ آگے شرک کی مثال ہے۔ مشرک کا حال یہ ہے جیسے وہ آسمان سے گرا اور راستے میں جانوروں نے اچک لیا اور اتفاقاً جانوروں سے بچ گیا تو ہوا نے اڑا کر کہیں سے کہیں پھینک دیا۔ یعی توحید کی بلندی سے گر کر پھر سوائے جہنم کے اور کہیں ٹھکانہ نہیں خواہ اس کو کوئی قتل کردے یا طبعی موت سے مرجائے۔ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں بڑائی رکھے اللہ کے ادب کی یعنی قربانی کے آئے ہوئے جانور نہ لوٹے اور قیمتی جانور لائے اور اس پر جھول اچھی ڈال کر پھر وہ بھی خیرات کرے اور چوپائے تم کو حلال ہیں یعنی جو کھانے میں رواج ہے اور بہتیرے چوپائے حرام بھی ہیں اور بچو بتوں کی گندگی سے یعنی جو کسی تھان پر ذبح ہو اور مردار ہوا اور جھوٹی بات سے بچو یعنی جو کسی کے نام کا کر کر ذبح کیا وہ بھی حرام ہوا اور جو کوئی شریک کرے اس کی مثال بیان فرمائی اس واسطے کہ جس کی نیت ایک اللہ پر ہے وہ قائم ہے اور جہاں نیت بہت طرف گئی وے سب اس کو راہ سے اچک لے گئے یا سب سے منکر ہوکر وہ دہری ہوگیا۔ 12