Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 32

سورة الحج

ذٰلِکَ ٭ وَ مَنۡ یُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ ﴿۳۲﴾

That [is so]. And whoever honors the symbols of Allah - indeed, it is from the piety of hearts.

یہ سن لیا اب اور سنو! اللہ کی نشانیوں کی جو عزت و حرمت کرے اس کے دل کی پرہیزگاری کی وجہ سے یہ ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Explanation of the Udhiyyah and the Sha`a'ir of Allah Allah says: ذَلِكَ ... Thus it is, ... وَمَن يُعَظِّمْ شَعَايِرَ اللَّهِ ... and whosoever honors the Sha`a'ir of Allah, means, His commands. ... فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ then it is truly from the Taqwa of the hearts. This also includes obeying His commands in the best way when it comes to offering sacrifices, as Al-Hakam said narrating from Miqsam, from Ibn Abbas: "Honoring them means choosing fat, healthy animals (for sacrifice)." Abu Umamah bin Sahl said: "We used to fatten the Udhiyyah in Al-Madinah, and the Muslims used to fatten them." This was recorded by Al-Bukhari. In Sunan Ibn Majah, it was recorded from Abu Rafi` that the Messenger of Allah sacrificed two castrated, fat, horned rams. Abu Dawud and Ibn Majah recorded from Jabir: "The Messenger of Allah sacrificed two castrated, fat, horned rams." It was said, "The Messenger of Allah commanded us to examine their eyes and ears, and not to sacrifice the Muqabilah, the Mudabirah, the Sharqa, nor the Kharqa'." This was recorded by Ahmad and the Sunan compilers, and At-Tirmidhi graded it Sahih. As for the Muqabilah, it is the one whose ear is cut at the front, Mudabirah is the one whose ear is cut at the back, the Shurqa is the one whose ear is split, as Ash-Shafi`i said. The Kharqa' is the one whose ear is pierced with a hole. And Allah knows best. It was recorded that Al-Bara' said, "The Messenger of Allah said: أَرْبَعٌ لاَتَجُوزُ فِي الاَْضَاحِي الْعَوْرَاءُ الْبَيِّنُ عَوَرُهَا وَالْمَرِيضَةُ الْبَيِّنُ مَرَضُهَا وَالْعَرْجَاءُ الْبَيِّنُ ظَلَعُهَا وَالْكَسِيرَةُ الَّتِي لاَاتُنْقِي Four are not permitted for sacrifice: those that are obviously one-eyed, those that are obviously sick, those that are obviously lame and those that have broken bones, which no one would choose. This was recorded by Ahmad and the Sunan compilers, and At-Tirmidhi graded it Sahih. The Benefits of the Sacrificial Camels Allah says:

قربانی کے جانور اور حجاج اللہ کے شعائر کی جن میں قربانی کے جانور بھی شامل ہیں حرمت وعزت بیان ہو رہی ہے کہ احکام الٰہی پر عمل کرنا اللہ کے فرمان کی توقیر کرنا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔ یعنی قربانی کے جانوروں کو فربہ اور عمدہ کرنا ۔ سہل کا بیان ہے کہ ہم قربانی کے جانوروں کو پال کر انہیں فربہ اور عمدہ کرتے تھے تمام مسلمانوں کا یہی دستور تھا ( بخاری شریف ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دو سیاہ رنگ کے جانوروں کے خون سے ایک عمدہ سفید رنگ جانور کا خون اللہ کو زیادہ محبوب ہے ۔ ( مسند احمد ، ابن ماجہ ) پس اگرچہ اور رنگت کے جانور بھی جائز ہیں لیکن سفید رنگ جانور افضل ہیں ۔ صحیح بخاری شریف میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے چت کبرے بڑے بڑے سینگوں والے اپنی قربانی میں ذبح کئے ۔ ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مینڈھا بڑا سینگ والا چت کبرا ذبح کیا جس کے منہ پر آنکھوں کے پاس اور پیروں پر سیاہ رنگ تھا ۔ ( سنن ) امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ اسے صحیح کہتے ہیں ۔ ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مینڈھے بہت موٹے تازے چکنے چت کبرے خصی ذبح کئے ۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ ہم قربانی کے لئے جانور خریدتے وقت اس کی آنکھوں کو اور کانوں کو اچھی طرح دیکھ بھال لیا کریں ۔ اور آگے سے کٹے ہوئے کان والے پیچھے سے کٹے ہوئے کان والے لمبائی میں چرے ہوئے کان والے یا سوراخ دار کان والے کی قربانی نہ کریں ( احمد اہل سنن ) اسے امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ صحیح کہتے ہیں ۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ ٹوٹے ہوئے اور کان کٹے ہوئے جانور کی قربانی سے منع فرمایا ہے اس کی شرح میں حضرت سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب کہ آدھایا آدھے سے زیادہ کان یا سینگ نہ ہو ۔ بعض اہل لغت کہتے ہیں اگر اوپر سے کسی جانور کا سینگ ٹوٹا ہوا ہو تو اسے عربی میں قصما کہتے اور جب نیچے کا حصہ ٹوٹا ہوا ہو تو اسے عضب کہتے ۔ اور حدیث میں لفظ عضب ہے اور کان کا کچھ حصہ کٹ گیا ہو تو اسے بھی عربی میں عضب کہتے ہیں ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ایسے جانور کی قربانی گو جائز ہے لیکن کراہت کے ساتھ ۔ امام احمد رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جائز ہی نہیں ۔ ( بظاہر یہی قول مطابق حدیث ہے ) امام مالک رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر سینگ سے خون جاری ہے تو جائز نہیں ورنہ جائز ہے واللہ اعلم ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ چار قسم کے عیب دار جانور قربانی میں جائز نہیں کانا جانور جس کا بھینگا پن ظاہر ہو اور وہ بیمار جانور جس کی بیماری کھلی ہوئی ہو اور وہ لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو اور وہ دبلا پتلا مریل جانور جو گودے کے بغیر کا ہوگیا ہو ۔ ( احمد اہل سنن ) اسے امام ترمذی صحیح کہتے ہیں ۔ یہ عیوب وہ ہیں جن سے جانور گھٹ جاتا ہے ۔ اس کا گوشت ناقص ہوجاتا ہے اور بکریاں چرتی چگتی رہتی ہیں اور یہ بوجہ اپنی کمزوری کے چارہ پورہ نہیں پاتا اسی لئے اس حدیث کے مطابق امام شافعی وغیرہ کے نزدیک اس کی قربانی ناجائز ہے ہاں بیمار جانور کے بارے میں جس کی بیماری خطرناک درجے کی نہ ہو بہت کم ہو امام صاحب کے دونوں قول ہیں ۔ ابو داؤد میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا بالکل سینگ کٹے جانور سینگ ٹوٹے جانور اور کانے جانور سے اور بالکل کمزور جانور سے جو ہمیشہ ہی ریوڑ کے پیچھے رہ جاتا ہو بوجہ کمزوری کے یا بوجہ زیادہ عمر کے اور لنگڑے جانور سے پس ان کل عیوب والے جانوروں کی قربانی ناجائز ہے ۔ ہاں اگرقربانی کے لئے صحیح سالم بےعیب جانور مقرر کردینے کے بعد اتفاقا اس میں کوئی ایسی بات آجائے مثلا لولا لنگڑا وغیرہ ہوجائے تو حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک اس کی قربانی بلاشبہ جائز ہے ، امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ اس کے خلاف ہیں ۔ امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کی دلیل وہ حدیث ہے جو مسند احمد میں حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے قربانی کے لئے جانور خریدا اس پر ایک بھیڑیے نے حملہ کیا اور اس کی ران کا بوٹا توڑ لیا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا تم اسی جانور کی قربانی کرسکتے ہو ۔ پس خریدتے وقت جانور کا فربہ ہونا تیار ہونا بےعیب ہونا چاہئے جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے کہ آنکھ کان دیکھ لیا کرو ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک نہایت عمدہ اونٹ قربانی کے لئے نامزد کیا لوگوں نے اس کی قیمت تین سو اشرفی لگائیں تو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا اگر آپ اجازت دیں تو میں اسے بیچ دوں اور اس کی قیمت سے اور جانور بہت سے خرید لوں اور انہیں راہ للہ قربان کروں آپ نے منع فرمادیا اور حکم دیا کہ اسی کو فی سبیل اللہ ذبح کرو ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں قربانی کے اونٹ شعائر اللہ میں سے ہیں ۔ محمد بن ابی موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں عرفات میں ٹھہرنا اور مزدلفہ اور رمی جمار اور سر منڈوانا اور قربانی کے اونٹ یہ سب شعائر اللہ ہیں ۔ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ان سب سے بڑھ کر بیت اللہ شریف ہے ۔ پھر فرماتا ہے ان جانوروں کے بالوں میں ، اون میں تمہارے لئے فوائد ہیں ان پر تم سوار ہوتے ہو ان کی کھالیں تمہارے لئے کار آمد ہیں ۔ یہ سب ایک مقررہ وقت تک ۔ یعنی جب تک اسے راہ للہ نامزد نہیں کیا ۔ ان کا دودھ پیو ان سے نسلیں حاصل کرو جب قربانی کے لئے مقرر کردیا پھر وہ اللہ کی چیز ہوگیا ۔ بزرگ کہتے ہیں اگر ضرورت ہو تو اب بھی سواری کی اجازت ہے ۔ بخاری ومسلم میں ہے کہ ایک شخص کو اپنی قربانی کا جانور ہانکتے ہوئے دیکھ کر آپ نے فرمایا اس پر سوار ہوجاؤ اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں اسے قربانی کی نیت کا کرچکا ہوں ۔ آپ نے دوسری یا تیسری بار فرمایا افسوس بیٹھ کیوں نہیں جاتا ۔ صحیح مسلم شریف میں ہے جب ضرورت اور حاجت ہو تو سوار ہوجایا کرو ۔ ایک شخص کی قربانی کی اونٹنی نے بچہ دیا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے حکم دیا کہ اس کو دودھ پیٹ بھر کر پی لینے دے پھر اگر بچ رہے تو خیر تو اپنے کام میں لا اور قربانی والے دن اسے اور اس بچے کو دونوں کو بنام اللہ ذبح کردے ۔ پھر فرماتا ہے ان کی قربان گاہ بیت اللہ شریف ہے ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( هَدْيًۢا بٰلِــغَ الْكَعْبَةِ 95؀ ) 5- المآئدہ:95 ) اور آیت میں ( وَالْهَدْيَ مَعْكُوْفًا اَنْ يَّبْلُغَ مَحِلَّهٗ 25؀ ) 48- الفتح:25 ) بیت العتیق کے معنی اس سے پہلے ابھی ابھی بیان ہوچکے ہیں فالحمد للہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں بیت اللہ کا طواف کرنے والا احرام سے حلال ہوجاتا ہے ۔ دلیل میں یہی آیت تلاوت فرمائی ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

32۔ 1 شعائر شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی ہیں علامت اور نشانی کے ہیں جیسے جنگ میں ایک شعار (مخصوص لفظ بطور علامت) اختیار کرلیا جاتا ہے جس سے وہ آپس میں ایک دوسرے کو پہنچانتے ہیں اس اعتبار سے شعائر اللہ وہ ہیں، جو جو اسلام کے نمایاں امتیازی احکام ہیں، جن سے ایک مسلمان کا امتیاز اور تشخص قائم ہوتا ہے اور دوسرے اہل مذاہب سے الگ پہچان لیا جاتا ہے، صفا، مروہ پہاڑیوں کو بھی اس لئے شعائر اللہ کہا گیا ہے کہ مسلمان حج و عمرے میں ان کے درمیان سعی کرتے ہیں۔ یہاں حج کے دیگر مناسک خصوصاً قربانی کے جانوروں کو شعائر اللہ کہا گیا ہے۔ اس تعظیم کو دل کا تقوٰی قرار دیا گیا ہے۔ یعنی دل کے ان افعال سے جن کی بنیاد تقوٰی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥٠] یعنی جس شخص کے دل میں اللہ کا تقویٰ اور اللہ کی محبت جاگزیں ہو وہ ان چیزوں کا ضرور ادب کرے گا جو اس کے نام سے منسوب ہیں یا جنہیں شعائر اللہ کہا جاتا ہے۔ ان چیزوں کی توہین یا بےحرمتی، بےادبی وہی شخص کرسکتا ہے۔ جس کے دل میں نہ اللہ کا خوف ہو اور نہ اس کی محبت ہو۔ واضح رہے کہ اللہ کے نام منسوب کردہ اشیاء کی تعظیم باادب کرنا شرک نہیں بلکہ عین توحید ہے۔ شرک یہ ہے کہ اللہ کے سوا دوسروں کے نام منسوب کردہ چیزوں کا ایسے ہی ادب و احترام کیا جائے جیسا کہ اللہ کی طرف منسوب اشیاء کا کیا جاتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ذٰلِكَ ۤ وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ ۔۔ :” ذٰلِكَ “ کی تفسیر آیت (٣٠) میں ملاحظہ فرمائیں۔” شَعَاۗىِٕرَ “ ” شَعِیْرَۃٌ“ کی جمع ہے، اسم فاعل بمعنی ” مُشْعِرَۃٌ“ ہے، جس سے کسی چیز کا شعور ہو (نشانیاں) ، یعنی وہ چیزیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت کا شعور دلانے کے لیے مقرر کر رکھی ہیں، جو شخص ان کی تعظیم کرے گا تو اس کا باعث دلوں کا تقویٰ ہے، یعنی جس کے دل میں اللہ کا ڈر ہوگا وہ ان کی تعظیم ضرور کرے گا۔ ہر وہ چیز جس کی زیارت کا اللہ نے حکم دیا ہے یا اس میں حج کا کوئی عمل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے، وہ ” شعائر اللہ “ میں داخل ہے۔ قربانی کے جانور بھی ” شعائر اللہ “ میں داخل ہیں، چناچہ فرمایا : (وَالْبُدْنَ جَعَلْنٰهَا لَكُمْ مِّنْ شَعَاۗىِٕرِ اللّٰهِ ) [ الحج : ٣٦ ] ” اور قربانی کے بڑے جانور، ہم نے انھیں تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں سے بنایا ہے۔ “ ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان کے آتے ہوئے انھیں کوئی نقصان نہ پہنچائے، جانور قیمتی خریدے اور عیب دار جانور نہ خریدے۔ ان پر جھول اچھی ڈالے، انھیں خوب کھلائے پلائے اور سجا کر رکھے، جیسا کہ گلے میں قلادے ڈالنے سے ظاہر ہے، مجبوری کے بغیر ان پر سواری نہ کرے، جیسا کہ آگے حدیث آرہی ہے اور قربانی کے بعد ان کے جھول وغیرہ بھی صدقہ کر دے۔ ” شعائر اللہ “ کی تعظیم اگرچہ اس سے پہلے ” حُرُمٰتِ اللّٰهِ “ کی تعظیم میں آچکی ہے مگر ” حُرُمٰت “ کا مفہوم وسیع اور عام ہے جب کہ ” شَعَائِر “ خاص ہے، اس لیے ” شعائر اللہ “ کی تعظیم کی تاکید کے لیے اسے دوبارہ الگ ذکر فرمایا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ‌ اللَّـهِ (And if one observes the sanctity of the symbols of Allah - 22:32) The word شَعَائِرَ‌ is the plural of شَعِیرہ which means a ` symbol&, ` a distinctive sign&, and refers to those things which are considered as the specific emblems of certain groups of people or certain faiths. شَعَائِرَ‌ are those special laws which are generally taken to be the identifying features of a Muslim. Most of the rules of Hajj fall in this category. فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ (then such things emanate from the piety of the hearts - 22:32). It means that respect for the شَعَائِرَ‌ اللَّـهِ (Symbols of Allah) is an evidence of the piety of heart, which indicates that the symbols of Allah are respected by the one who has taqwa (fear of Allah) in his heart and that taqwa is a quality which rests in one&s heart. When the heart is equipped with this quality, it is reflected in all his actions.

وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللّٰهِ ، شعائر شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنے علامت کے ہیں جو چیزیں کسی خاص مذہب یا جماعت کی علامات خاص سمجھی جاتی ہوں وہ اس کے شعائر کہلاتے ہیں شعائر اسلام ان خاص احکام کا نام ہے جو عرف میں مسلمان ہونے کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ حج کے اکثر احکام ایسے ہی ہیں۔ مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ ، یعنی شعائر اللہ کی تعظیم دل کے تقویٰ کی علامت ہے ان کی تعظیم وہی کرتا ہے جس کے دل میں تقویٰ اور خوف خدا ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ تقویٰ کا تعلق اصل میں انسان کے دل سے ہے جب اس میں خوف خدا ہوتا ہے تو اس کا اثر سب اعمال افعال میں دیکھا جاتا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

ذٰلِكَ۝ ٠ۤ وَمَنْ يُّعَظِّمْ شَعَاۗىِٕرَ اللہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَي الْقُلُوْبِ۝ ٣٢ شَعَاۗىِٕرَ ومَشَاعِرُ الحَجِّ : معالمه الظاهرة للحواسّ ، والواحد مشعر، ويقال : شَعَائِرُ الحجّ ، الواحد : شَعِيرَةٌ ، قال تعالی: ذلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعائِرَ اللَّهِ [ الحج/ 32] ، وقال : فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ [ البقرة/ 198] ، لا تُحِلُّوا شَعائِرَ اللَّهِ [ المائدة/ 2] ، أي : ما يهدى إلى بيت الله، وسمّي بذلک لأنها تُشْعَرُ ، أي : تُعَلَّمُ بأن تُدمی بِشَعِيرَةٍ ، أي : حدیدة يُشعر بها . اور مشاعر الحج کے معنی رسوم حج ادا کرنے کی جگہ کے ہیں اس کا واحد مشعر ہے اور انہیں شعائر الحج بھی کہا جاتا ہے اس کا واحد شعیرۃ ہے چناچہ قرآن میں ہے : ذلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعائِرَ اللَّهِ [ الحج/ 32] اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو خدا نے مقرر کی ہیں عظمت رکھے عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرامِ [ البقرة/ 198] مشعر حرام ( یعنی مزدلفہ ) میں ۔ اور آیت کریمہ : لا تُحِلُّوا شَعائِرَ اللَّهِ [ المائدة/ 2] خدا کے نام کی چیزوں کی بےحرمتی نہ کرنا ۔ میں شعائر اللہ سے مراد قربانی کے وہ جانور ہیں جو بیت اللہ کی طرف بھیجے جاتے تھے ۔ اور قربانی کو شعیرۃ اس لئے کہا گیا ہے ۔ کہ شعیرۃ ( یعنی تیز لوہے ) سے اس کا خون بہا کر اس پر نشان لگادیا جاتا تھا ۔ وقی الوِقَايَةُ : حفظُ الشیءِ ممّا يؤذيه ويضرّه . يقال : وَقَيْتُ الشیءَ أَقِيهِ وِقَايَةً ووِقَاءً. قال تعالی: فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] ، والتَّقْوَى جعل النّفس في وِقَايَةٍ مما يخاف، هذا تحقیقه، قال اللہ تعالی: فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] ( و ق ی ) وقی ( ض ) وقایتہ ووقاء کے معنی کسی چیز کو مضر اور نقصان پہنچانے والی چیزوں سے بچانا کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَوَقاهُمُ اللَّهُ [ الإنسان/ 11] تو خدا ان کو بچا لیگا ۔ التقویٰ اس کے اصل معنی نفس کو ہر اس چیز ست بچانے کے ہیں جس سے گزند پہنچنے کا اندیشہ ہو لیکن کبھی کبھی لفظ تقوٰی اور خوف ایک دوسرے کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنِ اتَّقى وَأَصْلَحَ فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ [ الأعراف/ 35] جو شخص ان پر ایمان لا کر خدا سے ڈرتا رہے گا اور اپنی حالت درست رکھے گا ۔ ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے ۔ قلب قَلْبُ الشیء : تصریفه وصرفه عن وجه إلى وجه، کقلب الثّوب، وقلب الإنسان، أي : صرفه عن طریقته . قال تعالی: وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] . ( ق ل ب ) قلب الشئی کے معنی کسی چیز کو پھیر نے اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف پلٹنے کے ہیں جیسے قلب الثوب ( کپڑے کو الٹنا ) اور قلب الانسان کے معنی انسان کو اس کے راستہ سے پھیر دینے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ تُقْلَبُونَ [ العنکبوت/ 21] اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

شعائر اللہ کا احترام قول باری ہے (ذلک ومن یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب یہ ہے اصل معاملہ (اسے سمجھ لو) جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے) اہل لغت کا قول ہے کہ شعائر شعیرہ کی جمع ہے، یہ اس علامت کا نام ہے جو اس چیز کا احساس دلاتی ہے جس کیلئے اسے مقرر کیا گیا ہے۔ قربانی کے اونٹوں پر علامت قائم کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ تم ان پر ایسی علامتیں قائم کر دو جن سے یہ احساس ہو کہ یہ ھدی یعنی قربانی کے جانور ہیں۔ اس بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ شعائر حج کے تمام مناسک کی علامتوں کا نام ہے۔ ان میں سے رمی جمار اور صفا و مروہ کے درمیان سعی بھی ہیں۔ حبیب المعلم نے عطا بن ابی رباح سے روایت کی ہے کہ ان سے شعائر اللہ کے متعلق دریافت کیا گیا، انہوں نے جواب دیا کہ شعائر اللہ، اللہ کی قائم کردہ حرمتیں ہیں یعنی اللہ کی طاعت کا اتباع اور اس کی معصیت سے اجتناب ، یہ اللہ کے شعائر ہیں۔ شریک نے جابر سے اور انہوںں نے عطاء سے قول باری (ومن یعظم شعائر اللہ) کی تفسیر میں ان کا قول نقل کیا ہے کہ ” اللہ کے شعائر کو عظیم سمجھنا اور انہیں فروغ دینا۔ “ ابن نجیع نے مجاہد سے اور انہوں نے حضرت ابن عباس سے اس کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ ” یہ اللہ کے شعائر کو عظیم سمجھنا انہیں حسین بنانا اور فروغ دینا ہے۔ “ عکرمہ سے بھی اسی طرح کی روایت ہے، مجاہد کا بھی یہی قول ہے۔ حسن بصری کا قول ہے کہ ” اللہ کے شعائر، اللہ کے دین کا نام ہے۔ “ ابوبکر جصاص کہتے ہیں کہ یہ کہنا درست ہے کہ آیت میں یہ تمام معانی اللہ کی مراد ہیں اس لئے کہ آیت میں ان تمام کا احتمال موجود ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٢) یہ بات بھی ہوچکی یعنی جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرے اس کے لیے تباہی اور دوری ہے اب یہ سنو کہ جو شخص مناسک حج کا پورا لحاظ کرے گا اور سب سے اچھی اور عمدہ قربانی کرے گا تو یہ عمدہ قربانی قلوب کی اور آدمی کے خلوص سے حاصل ہوگی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٢ (ذٰلِکَق وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآءِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ ) ” شعائر کی واحد ” شعیرہ “ ہے۔ لغوی اعتبار سے اس لفظ کا تعلق ” شعور “ سے ہے۔ اس مفہوم میں ہر وہ چیز ” شعائر اللہ “ میں سے ہے جس کے حوالے سے اللہ کی ذات ‘ اس کی صفات اور اس کی بندگی کا شعور انسان کے دل میں پیدا ہو۔ اسی حوالے سے سورة البقرۃ میں صفا اور مروہ کو بھی شعائر اللہ کہا گیا ہے : (اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآءِرِ اللّٰہِ ج) (آیت ١٥٨) ۔ چناچہ خود بیت اللہ ‘ مقام ابراہیم ‘ صفا اور مروہ سب شعائر اللہ میں شامل ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

60. “Symbols of Allah”: the performance of Salat, Hajj, Fasting, etc., or things like a Mosque or sacrificial offerings, etc. See (Surah Al-Maidah, Ayat 2 and E.Ns 5-7) thereof). 61. That is, the observance of the sanctity of the symbols by a man is a proof that there is piety in his heart. On the other hand, the man who violates their sanctity proves himself to be void of piety and fear of God. It shows that he either does not believe at all in Allah or adopts a rebellious attitude against Him.

سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :60 یعنی خدا پرستی کی علامات ، خواہ وہ اعمال ہوں جیسے نماز ، روزہ ، حج وغیرہ ، یا اشیاء ہوں جیسے مسجد اور ہَدی اونٹ وغیرہ ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، المائدہ ، حاشیہ 5 ۔ سورة الْحَجّ حاشیہ نمبر :61 یعنی یہ احترام دل کے تقویٰ کا نتیجہ ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ آدمی کے دل میں کچھ نہ کچھ خدا کا خوف ہے جبھی تو وہ اس کے شعائر کا احترام کر رہا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں اگر کوئی شخص جان بوجھ کر شعائر اللہ کی ہتک کرے تو یہ اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ اس کا دل خدا کے خوف سے خالی ہو چکا ہے ، یا تو وہ خدا کا قائل ہی نہیں ہے ، یا ہے تو اس کے مقابلے میں باغیانہ روش اختیار کرنے پر اتر آیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

19: شعائر کے معنی ہیں وہ علامتیں جن کو دیکھ کر کوئی دوسری چیز یاد آئے۔ اللہ تعالیٰ نے جو عبادتیں واجب قرار دی ہیں، اور خاص طور پر جن مقامات پر حج کی عبادت مقرر فرمائی ہے، وہ سب اللہ تعالیٰ کے شعائر میں داخل ہیں، اور ان کی تعظیم ایمان کا تقاضا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٢۔ ٣٣:۔ صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ رمضان کے مہینے میں عمرہ حج کے ثواب کے برابر ہے ‘ ترمذی میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی صحیح روایت میں ٣ ؎ ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجب میں عمرہ ادا کیا۔ بیہقی میں حضرت علی (رض) کی صحیح روایت ٤ ؎ میں ہے کہ عمرہ کا احرام ہر ایک مہینے میں جائز ہے۔ بخاری میں بغیر سند کے معلق طور پر اور صحیح ابن خزیمہ ‘ مستدرک حاکم وغیرہ میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے مع سند کے روایت ہے ‘ جس میں حضرت عبداللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں ١ ؎‘ اللہ کے رسول کی سنت یہی ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں میں باندھا جائے ‘ بخاری میں معلق طور پر اور دار قطنی وغیرہ میں مع سند کے عبداللہ بن عمر (رض) سے جو روایت ٢ ؎ ہے اس میں ہے کہ حج کے مہینے شوال سے لے کر ذی الحجہ کی دسویں تک ہیں ‘ صحیح مسلم میں جابر بن عبداللہ (رض) سے روایت ہے جس میں ٣ ؎ جابر (رض) فرماتے ہیں ‘ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روبرو حج اور عمرہ کی قربانی کے اونٹ اور گائے میں ہم سات آدمی شریک ہوجاتے تھے شعائر شعیرہ کی جمع ہے جس کے معنی نشانی کے ہیں ‘ احرام کے مہینوں میں حج کے احرام کے وقت یا کسی اور مہینہ میں عمرہ کے احرام کے وقت قربانی کی مقررہ مقدار سے زیادہ کعبہ کے چڑہانے کی نیت سے منیٰ میں ذبح کرنے کے لیے جو جانور ساتھ لے جاتے ہیں ‘ سورة المائدہ میں اور اس آیت میں ان کو شعائر اللہ فرمایا جس کا مطلب یہ ہے کہ احرام کے بعد ان جانوروں کو ساتھ رکھنا نشانی کے لیے ان کے گلے میں پٹہ کا ڈالا دینا ‘ سفر حج یا عمرہ بلا ضرورت اونٹ پر سواری نہ کرنا ‘ اسی طرح ان جانوروں میں اگر اونٹنی ہو تو بلا ضرورت اس کا دودھ نہ پینا ‘ یہ سب اللہ کی تعظیم کی نشانیاں ہیں اور تعظیم آدمی کی دلی پرہیز گاری کی علامت ہے ‘ کعبہ کی نیاز کی نیت سے جب تک ان جانوروں کو اللہ کے نام کے جانور نہ ٹھہرایا جائے اس وقت تک اونٹ پر سواری کرنا ‘ اونٹنی کا دودھ پینا جائز ہے اسی کو فرمایا کہ ان چوپایوں میں ٹھہرے وعدہ تک فائدے ہیں ‘ پھر ٹھہرا ہوا وعدہ آنے کے بعد اللہ کے نام پر ان جانوروں کی قربانی ہوگی حج کے وقت ٹھہرا ہوا وعدہ عرفات سے پلٹ کر منیٰ میں آجانا ہے اور عمرہ کے وقت عرفات کا جانا نہیں ہے اس لیے عمرہ کے وقت ان جانوروں کا منیٰ میں پہنچ جانا یہی ٹھہرا ہوا وعدہ ہے۔ صلح حدیبیہ کے قصہ کی صحیح بخاری وغیرہ میں جو روایتیں ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ جب مشرکین مکہ نے اللہ کے رسول کو مکہ کے اندر جانے سے روکا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نیاز کے جانوروں کی قربانی حدیبیہ کے مقام پر ہی کردی۔ شاہ صاحب نے اپنے فائدہ میں جو یہ لکھا ہے کہ نیاز کے جانوروں کو مکہ تک پہنچانے میں دشواری ہو تو اللہ کا نام لے کر جہاں ان جانوروں کو ذبح کیا جاوے گا وہیں نیاز پوری ہوجائے گی ‘ اس سے شاہ صاحب نے اسی حدیبیہ کے قصہ کے مطلب کو ادا کیا ہے ‘ حج یا عمرہ کے سفر میں ایسے جانوروں پر ضرورت کے وقت سواری کا کرنا جائز ہے ‘ چناچہ صحیح بخاری ومسلم کی انس بن مالک کی روایت ٤ ؎ میں اس کا ذکر تفصیل سے ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ اگر آدمی مکہ کو خود نہ جائے ‘ تو دوسرے شخص کی معرفت نیار کے جانور قربانی کے لیے منیٰ کو بھیج دے ‘ اس صورت میں جانور بھیجنے والے شخص کی حالت احرام کی نہیں ہے اس لیے احرام کی حالت میں جن چیزوں کی مناہی کا حکم ہے وہ حکم اس شخص سے متعلق نہیں ہے ‘ صحیح بخاری و مسلم کی حضرت عائشہ (رض) کی روایت ٥ ؎ میں اس صورت کا ذکر تفصیل سے آیا ہے۔ (٣ ؎ منتقی مع نیل الاوطارص ٣ ج ٥۔ ) (٤ ؎ منتقی مع نیل الاوطار ص ٣١ ج ٨۔ ) (١ ؎ صحیح بخاری مع فتح الباری باب قول اللہ تعالیٰ الحج اشہر معلومات ) (٢ ؎ ایضا ) (٣ ؎ اشکوٰۃ ص ١٢٧ باب فی الا ضحیتہ وص ٢٣١ باب الہدی ) (٤ ؎ صحیح بخاری ص ٢٢٩ ج ١ ) (٥ ؎ مشکوٰۃ باب الہدی ص ٢٣١ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:32) ذلک۔ ای الذی ذکر من اجتناب الرجس وقول الزور۔ (ملاحظہ ہو 22:3) ۔ شعائر اللہ۔ مضاف مضاف الیہ۔ اللہ کی نشانیاں ۔ اللہ کے نام کی چیزیں شعائر اللہ وہ چیزیں اور نشانات ہیں جو خدا کے نام سے نامزد ہیں۔ اور جن کی عظمت و احترام کا خدا نے حکم دیا ہے۔ شعائر شعیرۃ کی جمع ہے شعیرۃ بروزن فعیلۃ بمعنی مفعلۃ (یعنی مشعرۃ ) ہے اور مشعرۃ کے معنی نشانی کے ہیں۔ حضرت الامام شاہ ولی اللہ (رح) اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ حصہ اول باب 7 (شعائر اللہ کی تعظیم و احترام) میں فرماتے ہیں :۔ ” شعائر الھیہ سے ہماری مراد وہ ظاہری و محسوس امور اور اشیاء ہیں جن کا تقرر اسی لئے ہوا ہے کہ ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے۔ ان امورواشیاء کو خدا کی ذات سے ایسی مخصوص نسبت ہے کہ ان کی عظمت و حرمت کو لوگ خود اللہ تعالیٰ کی عظمت و حرمت سمجھتے ہیں۔ اور ان کے متعلق کسی قسم کی کوتاہی کو ذات الٰہی کے متعلق کوتاہی سمجھتے ہیں “۔ پھر آگے چل کر فرماتے ہیں :۔ بڑے بڑے شعار الٰہیہ چار ہیں ! قرآن حکیم۔ کعبۃ اللہ۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ نماز۔ قرآن حکیم میں ہے :۔ ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ (2:158) بیشک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ اور والبدن جعلنھا لکم من شعائر اللہ (22:36) اور قربانی کے فربہ جانوروں کو ہم نے تمہارے لئے اللہ کی نشانیوں سے بنایا ہے۔ شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی (رح) اپنی تفسیر فتح العزیز میں۔ کعبہ، عرفہ، مزدلفہ جمار ثلاثہ، صفا، مروہ، منیٰ ، جمیع مساجد، ماہ رمضان، اشہر حرم، عید الفطر، عید النحر ایام تشریق۔ جمعہ، اذان، اقامت، نماز جماعت، نماز عیدین۔ سب کو شعائر اللہ میں سے گردانتے ہیں : فانھا۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع تعظیم شعائر اللہ ہے۔ تقوی القلوب۔ مضاف مضاف الیہ۔ دلوں کی پرہیزگاری۔ یعنی شعائر اللہ کی تعظیم دلوں کی پرہیزگاری والے افعال میں سے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

15 ۔ یعنی ان چیزوں کی تعظیم کرے جو خدا پرستی کی علامت ہیں خواہ وہ اعمال ہوں جیسے نماز، روزہ، حج وغیرہ یا چیزیں ہوں جیسے قربانی کے جانور ان کے گلوں میں پڑے ہوئے پٹے، صفا ومروہ، خانہ کعبہ بلکہ کوئی مسجد لفظ شعائر اللہ ان سب کو شامل ہے۔ (دیکھئے بقرہ :158، مائدہ :2) 16 ۔ یعنی اس کے دل میں خوف خدا ہے تبھی تو وہ ان شعائر یک تعظیم کرتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ” اللہ “ کی توحید کے لیے یکسو ہونے اور شرک سے بچنے کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کی ہوئی حرمات کا اعتقاداً اور عملاً احترام کیا جائے۔ ” شَعَاءِرْ “ شِعَارُ کی جمع ہے جس کا معنٰی ہے ایسی جگہ یا نشانی۔ جس سے اللہ تعالیٰ کی طرف انسان کی توجہ مبذول ہوتی ہو اور اس کا ” شعاءِرَ اللّٰہ “ ہونا قرآن اور حدیث رسول سے ثابت ہو۔ اس لیے شعائر اللہ کی تعظیم کرنا درحقیقت اللہ تعالیٰ کی ذات کا احترام کرنا اور اس کا تقو ٰی اختیار کرنا ہے۔ یا در ہے کہ جو شخص بھی دل کی گہرائی کے ساتھ نیکی کرے گا ‘ اللہ تعالیٰ اس کی نیکی کو جانتا اور اس کی قدر افزائی فرمانے والا ہے۔ شعائر اللہ کا احترام اس کی تعظیم کرنا لازم ہے لیکن اس کی حقیقی تعظیم وہی شخص کرے گا جس میں اللہ کا خوف اس کی عظمت کا اعتراف اور اس کی صفات کی معرفت موجود ہو۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت انسان کو کفر و شرک اور دوسرے گناہ کرنے سے روکتی ہے اگر اللہ تعالیٰ کی عظمت انسان کے دل سے اٹھ جائے تو انسان شعائر اللہ کے نام پر بھی شرک و بدعت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ پھر وہ اپنی طرف سے بعض چیزوں اور کاموں کو شعائر اللہ بنا لیتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہندؤ بتوں، مسلمان مزارات اور باقی اقوام نے اپنے اپنے شعائر بنا رکھے ہیں اور وہ ان کے سامنے جھکتے، نذر ونیاز پیش کرتے ہیں اور وہاں پہنچ کر جوتے اتار دیتے ہیں اور الٹے پاؤں واپس پلٹتے ہیں اس طرح کی بیشمار حرکتیں ہیں جو شرک و بدعت کے زمرے میں شامل ہیں۔ اس لیے یہاں شعائر اللہ کی تعظیم کا نتیجہ بتلایا ہے کہ اس کے دل میں گناہوں سے بچنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ شعائر اللہ کی تعظیم وہی شخص کرے گا جس کے دل میں اللہ کا خوف موجزن ہوگا۔ جس دل سے خوف خدا نکل جائے تو اس کے دل سے شعائر اللہ کی تعظیم اٹھ جاتی ہے اور وہ من ساختہ تعظیم کرنے کے درپے رہتا ہے۔ مسائل ١۔ شعائر اللہ کی تعظیم کرنے والے کے دل میں اللہ کا خوف ہوتا ہے۔ ٢۔ شائر اللہ کی تعظیم کرنا چاہیے۔ تفسیر بالقرآن تقویٰ اور اس کے فوائد : ١۔ اللہ متقین کے ساتھ ہے۔ (التوبۃ : ١٢٣) ٢۔ متقین کے لیے کامیابی ہے۔ (النباء : ٣١) ٣۔ اللہ سے ڈرو اور جان لو بیشک اللہ تعالیٰ متقین کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٩٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ذلک ومن یعظم ……البیت العتیق (٣٣) یہاں حاجیوں کی قربانیوں اور دلوں کے تقویٰ کے درمیان تعلق بتایا گیا ہے کہ حج کے تمام شعائر ، تمام مناسک اور تمام حرکات سے بڑا مقصد دلوں کے اندر خدا کا خوف پیدا کرنا ہے۔ بذات خود یہ مناسک اور شعائر کوئی چیز نہیں۔ اصل چیز وہ غرض وغایت ہے جو ان سے حاصل کرنا مطلوب ہے اور وہ یہ ہے کہ انسانوں کا تعلق اللہ تعالیٰ سے پیدا کیا جائے۔ ان شعائر اور مناسک کے اندر وہ یادیں ہیں جن کا تعلق حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور آپ کے بعد کے زمانے سے ہے اور ان کا اصل مقصد اطاعت الٰہی ہے ، توجہ الی اللہ ہے اور جب سے یہ امت پیدا کی گئی اس میں اللہ کی طرف متوجہ ہونے کے دو ہی راستے ہیں : ایک دعا اور دوسرا نماز۔ یہ مویشی جن کے احترام کی بات ہو رہی ہے ، ان کو ایام احرام کے آخر میں ذبح کیا جاتا ہے ، اس عرصہ میں ان کے مالک کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ ان سے نفع اٹھائے۔ اگر اس کو ضرورت ہو تو وہ ان پر سوار بھی ہو سکتا ہے اور اگر ان کے دودھ کی ضرورت ہو تو دودھ بھی استعمال کرسکتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنے محل تک پہنچ جائیں اور ان کا مقام بیت عتیق ہے یعنی خانہ کعبہ۔ یہاں پھر ان کو ذبح کیا جائے گا تاکہ لوگ خود بھی کھائیں اور محتاجوں اور فقیروں کو بھی دیں۔ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دور میں مسلمان قربانی کے جانور اچھے سے اچھا تلاش کرتے تھے۔ موٹا تازہ اور قیمتی ، اس کو وہ تعظیم شعائر اللہ کا حصہ سمجھتے تھے اور خدا خوفی کی وجہ سے وہ ایسا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے ایک بہترین اونٹنی کو قربانی کے لئے خریدا اور تین سو درہم قیمت ادا کی۔ اس نے کہا حضور میں نے ہدی کی خاطر ایک اونٹنی تین صد روپے میں خریدی ہے تو کیا مجھے اجازت ہے کہ میں اسے فروخت کر کے اس کی جگہ اور اونٹنیاں خریدوں ؟ حضور نے فرمایا نہیں اسی کو ذبح کرو۔ حضرت عمر زیادہ قیمتی اونٹنی کو فروخت کر کے رقم جیب میں رکھنا نہیں چاہتے تھے بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ اسے فروخت کردیں اور اس کی جگہ اس رقم سے زیادہ جانور خرید کر ذبح کردیں اور اس کو فروخت کر کے زیادہ اونٹنیاں یا گائے نہ خریدیں۔ اگرچہ اس صورت میں گوشت زیادہ ہوجاتا لیکن شعوری زاویہ سے اور خدا کی راہ میں اچھا مال دینے کے لحاظ سے یہ زیادہ بھاری تھا اور شعوری قیمت کی زیادہ اہمیت ہے۔ فانھا من تقوی القلوب (٢٢ : ٣٢) ” کیونکہ اس کا تعلق دلوں کے خوف سے ہے۔ “ یہ تھا مفہوم اس بات کا جو حضور نے حضرت عمر سے کیہ کہ اسے تبدیل نہ کرو اور اسی کو ذبح کرو۔ یہ مناسک اور شعائر جن کے احترام کا حکم دیا جاتا ہے ، قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ تمام اقوام کے ہاں رائج ہیں لیکن اسلام جن شعائر کی قدر کرتا ہے ، انہیں بحال رکھتا ہے اور ان کے احترام کا حکم دیتا ہے ان کا رخ اسلام نے خدا کی طرف موڑ دیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا ذلک (یہ بات اسی طرح سے ہے) (وَ مَنْ یُّعَظِّمْ شَعَآءِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ ) (اور جو شخص اللہ کے شعائر کی تعظیم کرے گا تو بلاشبہ یہ قلوب کے تقوی کی بات ہے) اس سے پہلے اللہ کی حرمات کی تعظیم کی فضیلت بیان فرمائی۔ اس کے بعد اللہ کے شعائر کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ جو شخص ان کی تعظیم کرے گا اس کے بارے میں یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ تعظیم کرنا قلوب کے تقوی کی وجہ سے ہے یعنی جن لوگوں میں تقوی ہے وہی اللہ کے شعائر کی تعظیم کرتے ہیں حرمات میں شعائر بھی داخل ہے ان کی مزید اہمیت فرمانے کے لیے مستقل طور پر علیحدہ حکم دیا ہے۔ سورة بقرہ میں فرمایا ہے (اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَآءِرِ اللّٰہِ ) (بلاشبہ صفا اور مروہ اللہ کی خاص نشانیوں میں سے ہیں) اور سورة مائدہ میں فرمایا (یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُحِلُّوْا شَعَآءِرَ اللّٰہِ ) (اے ایمان والو اللہ کے شعائر کی بےحرمتی نہ کرو) ۔ جو چیزیں عبادات کا ذریعہ بنتی ہیں انہیں شعائر کہا جاتا ہے اس کے عموم میں بہت سی دینی چیزیں آجاتی ہیں اور بعض حضرات نے ان میں خاص اہمیت والی چیزوں کو شمار کرایا ہے۔ حضرت زید بن اسلم نے فرمایا کہ شعائر چھ ہیں (١) صفا مروہ (٢) قربانی کے جانور (٣) حج کے موقعہ پر کنکریاں مارنے کی جگہ (٤) مسجد حرام (٥) عرفات (٦) رکن یعنی حجرا سود۔ اور ان کی تعظیم کا مطلب یہ ہے کہ ان مواقع میں جن افعال کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے انہیں انجام دیا جائے۔ حضرت ابن عمر (رض) وغیرہ سے منقول ہے کہ حج کے تمام مواقع شعائر ہیں ان کے قول کے مطابق منیٰ اور مزدلفہ بھی خاص شعائر میں شامل ہوجاتے ہیں

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

44:۔ ” ذَالِکَ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ الخ “ ذَالِکَ مبتدا ہے اور اس کی خبر محذوف ہے یا مفعول ہے اور اس کا ناصب محذوف ای ذالک امر اللہ او اتبعوا ذالک (قرطبی) بطور تاکید اللہ تعالیٰ کی نذر و منت کا دوبارہ ذکر کیا گیا ہے اور شعائر سے اللہ تعالیی کی نذر و منت کی قربانیاں اور ہدایا مراد ہیں۔ ای البدن الھدایا کما روی عن ابن عباس و مجاھد و جماعۃ واطلقت علی البدن الھدایا لانھا من معالم الحج او علامات طاعتہ تعالیٰ وھدایتہ (روح ج 17 ص 150) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(32) یہ بات ہوچکی اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور یادگاروں کو پورا احترام قائم رکھے تو ان شعائر کا احترام دلوں کی پرہیزگاری سے حاصل ہوتا ہے۔ یعنی شعائر اللہ اللہ کے نام لگی ہوئی چیزیں خواہ ان کا تعلق زمان سے ہو یا مکان سے ان کا پورا پورا ادب و احترام کرنا تو یہ علامت ہے اس خوف کی جو ایک مسلمان کے دل میں اللہ کا ڈر ہوتا ہے جس کے دل میں ڈر ہوتا ہے وہ تمام احکام کی رعایت کرتا ہے خواہ وہ قربانی کرنے سے پہلے کے احکام ہوں یا قربانی کے بعد کے یا حج کے دوسرے احکام ہوں یا قربانی کے گوشت کے متعلق ہوں۔ شعائر کی تفصیل پارہ سیقول میں گزر چکی ہے۔