Surat ul Hajj

Surah: 22

Verse: 58

سورة الحج

وَ الَّذِیۡنَ ہَاجَرُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ثُمَّ قُتِلُوۡۤا اَوۡ مَاتُوۡا لَیَرۡزُقَنَّہُمُ اللّٰہُ رِزۡقًا حَسَنًا ؕ وَ اِنَّ اللّٰہَ لَہُوَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ ﴿۵۸﴾

And those who emigrated for the cause of Allah and then were killed or died - Allah will surely provide for them a good provision. And indeed, it is Allah who is the best of providers.

اور جن لوگوں نے راہ خدا میں ترک وطن کیا پھر وہ شہید کر دیئے گئے یا اپنی موت مر گئے اللہ تعالٰی انہیں بہترین رزق عطا فرمائے گا اور بیشک اللہ تعالٰی روزی دینے والوں میں سب سے بہتر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Great Reward for Those Who migrate in the Cause of Allah Allah says: وَالَّذِينَ هَاجَرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ قُتِلُوا أَوْ مَاتُوا ... Those who emigrated in the cause of Allah and after that were killed or died, Allah tells us that those who migrate for the sake of Allah, seeking to earn His pleasure and that which is with Him, leaving behind their homelands, families and friends, leaving their countries for the sake of Allah and His Messenger to support His religion, then they are killed, i.e., in Jihad, or they die, i.e., they pass away without being involved in fighting, they will have earned an immense reward. As Allah says: وَمَن يَخْرُجْ مِن بَيْتِهِ مُهَـجِراً إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ أَجْرُهُ عَلىَ اللَّهِ And whosoever leaves his home as an emigrant unto Allah and His Messenger, and death overtakes him, his reward is then surely incumbent upon Allah. (4:100) ... لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللَّهُ رِزْقًا حَسَنًا ... surely, Allah will provide a good provision for them. means, He will reward them from His bounty and provision in Paradise with that which will bring them joy. ... وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ

اللہ تعالیٰ کا بہترین رزق پانے والے لوگ یعنی جو شخص اپنا وطن اپنے اہل وعیال اپنے دوست احباب چھوڑ کر اللہ کی رضامندی کے لئے اس کی راہ میں ہجرت کرجائے اس کے رسول کی اور اس کے دین کی مدد کے لئے پہنچے پھر وہ میدان جہاد میں دشمن کے ہاتھوں شہید کیا جائے یا بےلڑے بھڑے اپنی قضا کے ساتھ اپنے بستر پر موت آجائے اور اسے بہت بڑا اجر اور زبردست ثواب اللہ کی طرف سے ہے جیسے ارشاد ہے آیت ( وَمَنْ يَّخْرُجْ مِنْۢ بَيْتِهٖ مُھَاجِرًا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُهٗ عَلَي اللّٰهِ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا ١٠٠؀ۧ ) 4- النسآء:100 ) ۔ یعنی جو شخص اپنے گھر اور دیس کو چھوڑ کر اللہ رسول کی طرف ہجرت کرکے نکلے پھر اسے موت آجائے تو اسے اس کا اجر اللہ کے ذمے طے ہوچکا ۔ ان پر اللہ کا فضل ہوگا ، انہیں جنت کی روزیاں ملیں گی جس سے ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں ۔ اللہ تعالیٰ بہترین رازق ہے ۔ انہیں پروردگار جنت میں پہنچائے گا ۔ جہاں یہ خوش خوش ہونگے جسے فرمان ہے کہ جو ہمارے مقربوں میں سے ہے اس کے لئے راحت اور خوشبودار پھول اور نعمتوں بھرے باغات ہیں ایسے لوگوں کو راحت ورزق اور جنت ملے گی ۔ اپنی راہ کے سچے مہاجروں کو اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کو اپنی نعمتوں کے مستحق لوگوں کو اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے ۔ وہ بڑے حکم والا ہے بندوں کے گناہ معاف فرماتا ہے ان کی خطاؤں سے درگزر فرماتا ہے ان کی ہجرت قبول کرتا ہے ان کے توکل کو خوب جانتا ہے ۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید ہوں مہاجر ہوں یا نہ ہوں وہ رب کے پاس زندگی اور روزی پاتے ہیں ۔ جسے فرمان ہے آیت ( وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ ١٦٩؁ۙ ) 3-آل عمران:169 ) ، خدا کی راہ کے شہیدوں کو مردہ نہ سمجھو وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزیاں دیے جاتے ہیں ۔ اس بارے میں بہت سی حدیثیں ہیں جو بیان ہوچکیں ۔ پس فی سبیل اللہ شہید ہونے والوں کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ثابت ہے اس آیت سے اور اسی بارے کی احادیث سے بھی ۔ حضرت شرجیل بن سمت فرماتے ہیں کہ روم کے ایک قلعے کے محاصرے پر ہمیں مدت گزر چکی اتفاق سے حضرت سلمان فار سی رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے گزرے تو فرمانے لگے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے جو شخص راہ اللہ کی تیاری میں مرجائے تو اس کا اجر اور رزق برابر اللہ کی طرف سے ہمیشہ اس پر جاری رہتا ہے اور وہ اتنے میں ڈالنے والوں سے محفوظ رہتا ہے ۔ اگر تم چاہو تو یہ آیت ( وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ثُمَّ قُتِلُوْٓا اَوْ مَاتُوْا لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللّٰهُ رِزْقًا حَسَنًاَ 58؀ ) 22- الحج:58 ) پڑھ لو ۔ حضرت ابو قبیل اور ربیع بن سیف مغافری کہتے ہیں ہم رودس کے جہاد میں تھے ہمارے ساتھ حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی تھے ۔ دو جنازے ہمارے پاس سے گزرے جن میں ایک شہید تھا دوسرا اپنی موت مرا تھا لوگ شہید کے جنازے میں ٹوٹ پڑے ۔ حضرت فضالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ کیا بات ہے ؟ لوگوں نے کہا حضرت یہ شہید ہیں اور یہ دوسرے شہادت سے محروم ہیں آپ نے فرمایا واللہ مجھے تو دونوں باتیں برابر ہیں ۔ خواہ اس کی قبر میں سے اٹھوں خواہ اس کی میں سے ۔ سنو کتاب اللہ میں ہے پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ مرے ہوئے کی قبر پر ہی ٹہرے رہے اور فرمایا تمہیں اور کیا چاہیے جنت ، جگہ اور عمدہ روزی ۔ اور روایت میں ہے کہ آپ اس وقت امیر تھے ۔ یہ آخری آیت صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس چھوٹے سے لشکر کے بارے میں اتری ہے جن سے مشرکین کے ایک لشکر نے باوجود ان کے رک جانے کی حرمت کے مہینے میں لڑائی کی اللہ نے مسلمانوں کی امداد فرمائی اور مخالفین کو نیچا دکھایا اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا اور بخشنے والا ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

58۔ 1 یعنی اسی ہجرت کی حالت میں موت آگئی یا شہید ہوگئے۔ 58۔ 2 یعنی جنت کی نعمتیں جو ختم نہ ہونگیں نہ فنا۔ 58۔ 3 کیونکہ وہ بغیر حساب کے، بغیر استحقاق کے اور بغیر سوال کے دیتا ہے۔ علاوہ ازیں انسان بھی جو ایک دوسرے کو دیتے ہیں تو اسی کے دیئے ہوئے میں سے دیتے ہیں۔ اس لئے اصل رازق وہی ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٦] اہل ایمان کا ذکر کرنے کے بعد خصوصی طور پر مہاجرین کا ذکر فرمایا۔ جنہوں نے اللہ اور اس کے دین کی خاطر اپنے گھر بار، جائیداد اور وطن مالوف کو خیرباد کہا اس کے بعد خواہ جہاد کرکے شہید ہوجائیں یا طبعی موت سے وفات پاجائیں۔ ان کی ہجرت کا عمل ہی اتنا گرانقدر ہے جس کے عوض اللہ انھیں ہزارہا گناہ بہترین کھانے پینے کا سامان اور بہترین رہائش عطا فرمائے گا۔ اتنا بہتر جس سے وہ خوش ہوجائیں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ هَاجَرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۔۔ : اس سے پہلے ” فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ “ کے ساتھ عام مومنوں کا ذکر فرمایا تھا، اب ان میں سے خاص لوگوں کا ذکر فرمایا جنھوں نے اللہ کی خاطر اپنے وطن، گھر بار اور خویش و اقارب کو چھوڑا۔ مقصد ہجرت کی شان اور اس کی فضیلت بیان کرنا ہے کہ یہ اتنا عظیم عمل ہے کہ ہجرت کرنے والے جہاد فی سبیل اللہ میں قتل ہوں یا لڑائی کے بغیر فوت ہوجائیں، دار الکفر سے ہجرت کے بعد آخرت کے درجات میں برابر ہیں۔ (ابن عاشور) پہلی آیات سے اس کی ایک اور مناسبت یہ ہے کہ چونکہ مشرکین ان شیطانی شبہات اور رکاوٹوں کے ساتھ، جن کا اوپر ذکر ہوا، بہت سے لوگوں کو ایمان لانے سے روکتے تھے اور وہ روک صرف انھی کو سکتے تھے جو ان کے قابو میں ہوں، اس لیے اللہ سبحانہ نے ہجرت کی ترغیب دلائی اور اس کی فضیلت بیان فرمائی۔ (بقاعی) لَيَرْزُقَنَّهُمُ اللّٰهُ رِزْقًا حَسَنًا : لام تاکید اور نون ثقیلہ کے ساتھ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ انھیں برزخ میں اور جنت میں رزق حسن ہر صورت دے گا۔ شہداء کے متعلق دیکھیے سورة آل عمران (١٦٩) اور ہجرت کے بعد فوت ہونے کے متعلق دیکھیے سورة نساء (١٠٠) ۔ وَاِنَّ اللّٰهَ لَهُوَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ : اللہ تعالیٰ خیر الرازقین ہے، اس لیے کہ 1 وہ کسی استحقاق کے بغیر رزق دیتا ہے۔ 2 مانگے بغیر دیتا ہے۔ 3 بےحساب دیتا ہے۔ 4 کسی سے فائدے کی امید یا کسی سے خوف کے بغیر دیتا ہے۔ 5 اور صرف وہی ہے جو اپنے پاس سے دیتا ہے، اس کے سوا کوئی دوسرا اگر دیتا ہے تو اسی کا دیا دیتا ہے، سو حقیقت میں دینے والا وہی ہے۔ سب دینے والوں سے بہتر ان لوگوں کے لحاظ سے فرمایا جو دنیا میں ایک دوسرے کو کچھ دے دیتے ہیں، مگر ان میں ” خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ “ کی صفات میں سے ایک صفت بھی نہیں جو اوپر گزری ہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Those people who had left their hearth and homes in the cause of Allah and were killed or died of natural death, they would definitely be rewarded. If they have not benefited in this world, their reward will be there in the Hereafter.

خلاصہ تفسیر اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں (یعنی دین کی حفاظت کے لئے) اپنا وطن چھوڑا (جن کا ذکر پچھلی آیت میں بھی الَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ کے الفاظ سے آ چکا ہے) پھر وہ لوگ (کفار کے مقابلہ میں) قتل کئے گئے یا (ویسے ہی طبعی موت سے) مر گئے (وہ ناکام و محروم نہیں، گو ان کو دنیاوی فوائد نہ ملے مگر آخرت میں) اللہ تعالیٰ ان کو ضرور ایک عمدہ رزق دے گا (یعنی جنت کی بیشمار نعمتیں) اور یقیناً اللہ تعالیٰ سب دینے والوں سے اچھا (دینے والا) ہے (اور اس اچھے رزق کے ساتھ) اللہ تعالیٰ ان کو (مسکن بھی اچھا دے گا یعنی) ایسی جگہ لے جا کر داخل کرے گا جس کو وہ (بہت ہی) پسند کریں گے (رہی یہ بات کہ بعض مہاجرین اس طرح دنیاوی فتح و نصرت اور اس کے فوائد سے محروم کیوں ہوئے اور ان کے مقابلے کے کفار ان کے قتل کرنے پر قادر کیوں ہوگئے وہ قہر الٰہی سے کیوں نہ ہلاک کردیئے گئے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ) بلاشبہ اللہ تعالیٰ (ہر کام کی حکمت و مصلحت کو) خوب جاننے والا ہے (ان کی اس ظاہری ناکامی میں بھی بہت سی مصلحتیں اور حکمتیں ہیں اور) بہت حلم والا ہے (اس لئے دشمنوں کو فوراً سزا نہیں دیتا) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ ہَاجَرُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ثُمَّ قُتِلُوْٓا اَوْ مَاتُوْا لَيَرْزُقَنَّہُمُ اللہُ رِزْقًا حَسَـنًا۝ ٠ۭ وَاِنَّ اللہَ لَہُوَخَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ۝ ٥٨ هجر الهَجْرُ والهِجْرَان : مفارقة الإنسان غيره، إمّا بالبدن، أو باللّسان، أو بالقلب . قال تعالی: وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء/ 34] كناية عن عدم قربهنّ ، وقوله تعالی: إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان/ 30] فهذا هَجْر بالقلب، أو بالقلب واللّسان . وقوله : وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل/ 10] يحتمل الثلاثة، ومدعوّ إلى أن يتحرّى أيّ الثلاثة إن أمكنه مع تحرّي المجاملة، وکذا قوله تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] ، وقوله تعالی: وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر/ 5] ، فحثّ علی المفارقة بالوجوه كلّها . والمُهاجرَةُ في الأصل : مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] ، وقوله : وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . وقوله : أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء/ 97] ، وکذا المجاهدة تقتضي مع العدی مجاهدة النّفس کما روي في الخبر : «رجعتم من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر» «1» ، وهو مجاهدة النّفس . وروي : (هاجروا ولا تهجّروا) «2» أي : کونوا من المهاجرین، ولا تتشبّهوا بهم في القول دون الفعل، والهُجْرُ : الکلام القبیح المهجور لقبحه . وفي الحدیث : «ولا تقولوا هُجْراً» «3» وأَهْجَرَ فلان : إذا أتى بهجر من الکلام عن قصد، ( ھ ج ر ) الھجر والھجران کے معنی ایک انسان کے دوسرے سے جدا ہونے کے ہیں عام اس سے کہ یہ جدائی بدنی ہو یا زبان سے ہو یا دل سے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء/ 34] پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو ۔ میں مفا رقت بدنی مراد ہے اور کنایتا ان سے مجامعت ترک کردینے کا حکم دیا ہے اور آیت : ۔ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان/ 30] کہ میری قوم نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ۔ میں دل یا دل اور زبان دونوں کے ذریعہ جدا ہونا مراد ہے یعنی نہ تو انہوں نے اس کی تلاوت کی اور نہ ہی اس کی تعلیمات کی طرف دھیان دیا اور آیت : ۔ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل/ 10] اور وضع داری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہو ۔ میں تینوں طرح الگ رہنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی جملا کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ حسن سلوک اور مجاملت کیس صورت میں بھی ترک نہ ہونے پائے ۔ اس طرح آیت وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ میں بھی ترک بوجوہ ثلا ثہ مراد ہے اور آیت : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر/ 5] اور ناپاکی سے دور رہو ۔ میں بھی ہر لحاظ سے رجز کو ترک کردینے کی ترغیب ہے ۔ المھاجر رۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے ) اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ اور فرمایا : ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء/ 97] کیا اللہ تعالیٰ کی ( اتنی لمبی چوڑی ) زمین اس قدر گنجائش نہیں رکھتی تھی کہ تم اس میں کسی طرف کو ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ہاں جس طرح ظاہری ہجرت کا قتضا یہ ہے کہ انسان خواہشات نفسانی کو خیر باد کہہ دے اسی طرح دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں بھی مجاہدۃ بالنفس کے معنی پائے جاتے ہیں چناچہ ایک حدیث میں مروی ہے آنحضرت نے ایک جہاد سے واپسی کے موقع پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ۔ کہ تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کیطرف لوٹ رہے ہو یعنی دشمن کے ساتھ جہاد کے بعد اب نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے ایک اور حدیث میں ہے سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] موت أنواع الموت بحسب أنواع الحیاة : فالأوّل : ما هو بإزاء القوَّة النامية الموجودة في الإنسان والحیوانات والنّبات . نحو قوله تعالی: يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] ، وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] . الثاني : زوال القوّة الحاسَّة . قال : يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا [ مریم/ 23] ، أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] . الثالث : زوال القوَّة العاقلة، وهي الجهالة . نحو : أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] ، وإيّاه قصد بقوله : إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] . الرابع : الحزن المکدِّر للحیاة، وإيّاه قصد بقوله : وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَ بِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] . الخامس : المنامُ ، فقیل : النّوم مَوْتٌ خفیف، والموت نوم ثقیل، وعلی هذا النحو سمّاهما اللہ تعالیٰ توفِّيا . فقال : وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] ( م و ت ) الموت یہ حیات کی ضد ہے لہذا حیات کی طرح موت کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ اول قوت نامیہ ( جو کہ انسان حیوانات اور نباتات ( سب میں پائی جاتی ہے ) کے زوال کو موت کہتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الروم/ 19] زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ وَأَحْيَيْنا بِهِ بَلْدَةً مَيْتاً [ ق/ 11] اور اس پانی سے ہم نے شہر مردہ یعنی زمین افتادہ کو زندہ کیا ۔ دوم حس و شعور کے زائل ہوجانے کو موت کہتے ہیں ۔ چناچہ فرمایا ۔ يا لَيْتَنِي مِتُّ قَبْلَ هذا[ مریم/ 23] کاش میں اس سے پہلے مر چکتی ۔ أَإِذا ما مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًّا [ مریم/ 66] کہ جب میں مرجاؤں گا تو کیا زندہ کر کے نکالا جاؤں گا ۔ سوم ۔ قوت عاقلہ کا زائل ہوجانا اور اسی کا نام جہالت ہے چناچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتى[ النمل/ 80] کچھ شک نہیں کہ تم مردوں کو بات نہیں سنا سکتے ۔ چہارم ۔ غم جو زندگی کے چشمہ صافی کو مکدر کردیتا ہے چنانچہ آیت کریمہ : ۔ وَيَأْتِيهِ الْمَوْتُ مِنْ كُلِّ مَكانٍ وَما هُوَبِمَيِّتٍ [إبراهيم/ 17] اور ہر طرف سے اسے موت آرہی ہوگی ۔ مگر وہ مرنے میں نہیں آئے گا ۔ میں موت سے یہی معنی مراد ہیں ۔ پنجم ۔ موت بمعنی نیند ہوتا ہے اسی لئے کسی نے کہا ہے کہ النوم موت خفیف والموت نوم ثقیل کہ نیند کا نام ہے اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو توفی سے تعبیر فرمایا ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي يَتَوَفَّاكُمْ بِاللَّيْلِ [ الأنعام/ 60] اور وہی تو ہے جو ارت کو تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ خير الخَيْرُ : ما يرغب فيه الكلّ ، کالعقل مثلا، والعدل، والفضل، والشیء النافع، وضدّه : الشرّ. قيل : والخیر ضربان : خير مطلق، وهو أن يكون مرغوبا فيه بكلّ حال، وعند کلّ أحد کما وصف عليه السلام به الجنة فقال : «لا خير بخیر بعده النار، ولا شرّ بشرّ بعده الجنة» «3» . وخیر وشرّ مقيّدان، وهو أن يكون خيرا لواحد شرّا لآخر، کالمال الذي ربما يكون خيرا لزید وشرّا لعمرو، ولذلک وصفه اللہ تعالیٰ بالأمرین فقال في موضع : إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] ، ( خ ی ر ) الخیر ۔ وہ ہے جو سب کو مرغوب ہو مثلا عقل عدل وفضل اور تمام مفید چیزیں ۔ اشر کی ضد ہے ۔ اور خیر دو قسم پر ہے ( 1 ) خیر مطلق جو ہر حال میں اور ہر ایک کے نزدیک پسندیدہ ہو جیسا کہ آنحضرت نے جنت کی صفت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خیر نہیں ہے جس کے بعد آگ ہو اور وہ شر کچھ بھی شر نہیں سے جس کے بعد جنت حاصل ہوجائے ( 2 ) دوسری قسم خیر وشر مقید کی ہے ۔ یعنی وہ چیز جو ایک کے حق میں خیر اور دوسرے کے لئے شر ہو مثلا دولت کہ بسا اوقات یہ زید کے حق میں خیر اور عمر و کے حق میں شربن جاتی ہے ۔ اس بنا پر قرآن نے اسے خیر وشر دونوں سے تعبیر کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنْ تَرَكَ خَيْراً [ البقرة/ 180] اگر وہ کچھ مال چھوڑ جاتے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٨) جن لوگوں نے اطاعت خداوندی میں مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی پھر ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے راستہ میں کفار نے قتل بھی کیا یا سفر یا حضر میں وہ انتقال کر گئے تو ان لوگوں میں سے انتقال فرمانے والوں کو اللہ تعالیٰ جنت میں بہترین ثواب اور ان میں سے جو زندہ ہیں ان کو پاکیزہ اور حلال اموال غنیمت عطا فرمائے گا اور یقینا اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں سب دینے والوں سے اچھا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٨ (وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) ” ہجرت کا یہ مضمون یہاں پر موقع محل کی مناسبت سے آیا ہے۔ یہ مکی دور کے آخری زمانے کی سورت ہے اور جس طرح ہجرت سے متصلاً بعد سورة البقرۃ کا نزول ہوا اسی طرح ہجرت سے متصلاً قبل سورة الحج نازل ہوئی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٥٨۔ ٥٩:۔ اوپر جن لوگوں کا ذکر تھا کہ شیطان کی شرارت کے کھل جانے کے بعد ان کا ایمان زیادہ مضبوط ہوگیا ‘ ان آیتوں میں ان کے ایمان کی مضبوطی کا حال بیان فرمایا کہ ان لوگوں نے اللہ کی راہ میں اپنے وطن ‘ اہل و عیال سب کو چھوڑا ‘ پھر فرمایا اس لیے وطنی اور مسافرت کی حالت میں جو کوئی ان میں سے شہید ہوا یا اپنی موت سے مرا تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جنت میں داخل کر کے وہ نعمتیں دے گا جن کو یہ لوگ پسند کریں گے ‘ پھر فرمایا ان وطن کے چھوڑنے والوں میں ان لوگوں کا حال اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے جنہوں نے اللہ کی راہ میں نہیں بلکہ دنیا کی کسی غرض کے لئے مکہ کو چھوڑا ہے اور ظاہر میں وہ اپنے آپ کو مہاجر کہتے ہیں لیکن اللہ بڑا بردبار ہے اس لئے اس نے ایسے لوگوں سے جلدی مواخذہ نہیں کیا۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت عمر (رض) کی حدیث گزر چکی ہے کہ بارگاہ الٰہی میں دین کے ہر کام کا مدار نیت پر ہے اس لیے جو شخص دنیا کی کسی غرض سے ہجرت کرے گا تو یہ اللہ تعالیٰ کی راہ کی ہجرت نہ ہوگی ‘ اس حدیث سے فی سبیل اللہ کا مطلب اور یہ مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بردباری کے سبب سے دنیا میں ظاہری مہاجروں سے کچھ مواخذہ نہیں کیا ‘ لیکن آیتوں میں جن مہاجروں کے اجر کا ذکر ہے وہ وہی مہاجر ہیں جنہوں نے عقبی کے ثواب کی نیت سے ہجرت کی ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوموسیٰ اشعری (رض) کی حدیث کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر بردبار کون ہوسکتا ہے کہ لوگ شرک کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے رزق اور ان کی صحت کے انتظام کو بحال رکھتا ہے ‘ اس حدیث سے اللہ تعالیٰ کی بردباری کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آجاتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(22:58) لیرزقنہم اللہ۔ لیرزقن۔ مضارع بلام تاکید ونون ثقیلہ تاکید۔ واحد مذکر غائب وہ ضرور رزق دیتا ہے یا دے گا ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب اللہ فاعل اللہ تعالیٰ ان کو ضرور رزق دے گا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ اس لئے کہ بےحساب روزی دیتا ہے بغیر اس کے کہ اسے ہماری کوئی حاجت ہو۔ بندے ایک دوسرے کو اگر کوئی چیز دیتے ہیں تو اپنے پاس سے نہیں دیتے بلکہ اللہ ہی کا دیا ہوا دیتے ہیں۔ پس اللہ کے سوا کوئی راز ق اور کوئی دینے والا نہیں ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

(رکوع نمبر ٨) اسرارومعارف (صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین سب سے پہلی مثال ہیں) کہ جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں قربانیاں دیں ، گھر بار چھوڑ دیے مگر اللہ جل جلالہ کی اطاعت نہ چھوڑی اس پر بھی کفار نے بس نہ کی اور ان پر جنگ مسلط کی حتی کہ وہ اللہ جل جلالہ کی راہ میں قتل ہو کر شہید ہوئے یا مسافری میں موت نے انھیں آلیا تو اگر آخرت ہی نہ ہو تو انھیں کیا ملا یقینا آخرت بھی ہے اور ایسے لوگ نقصان میں بھی نہ رہیں گے اور اللہ جل جلالہ انھیں ان گھروں سے بہترین گھر اور ان نعمتوں سے کروڑوں گناہ بہترین نعمتیں یعنی جنت کی نعمتیں عطا فرمائے گا ، بیشک اللہ کریم ہی بہترین انعامات عطا کرنے والے ہیں ، ان جیسا کوئی نہیں نہ ہوسکتا ہے اللہ انھیں ایسی خوبصورت جگہ داخل فرمائے گا جو انہیں بھی بہت پسند آئے گی کہ اللہ جل جلالہ ہر حال سے واقف بھی ہے اور اس کی ذات بہت حلیم بھی ہے ہر کام کا نتیجہ اپنے وقت پر ظاہر ہوتا ہے اللہ جل جلالہ کی راہ میں جن پر ظلم ہوتا ہے وہ بھی بدلہ چکا ہی دیتے ہیں ، ایک وقت آجاتا ہے کہ وہ ظلم کا حساب لے لیتے ہیں اور اگر کفار پھر زیادتی کریں گے تو پھر بھی اللہ جل جلالہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے کہ مومن کبھی اس کی مدد سے محروم نہیں رہتا ، بیشک اللہ جل جلالہ تو بہت زیادہ معاف فرمانے والا اور بخشنے والا ہے ، کافر ہی بدبخت ہے جو اس کی بخشش کی طرف نہیں بڑھتا ۔ اور یہ تو ظاہر ہے کہ اللہ جل جلالہ ہی نظام کائنات کا چلانے والا ہے ، اگر دن پر رات غالب آتی ہے تو پھر رات پہ دن کو بھی غالب کرتا ہے اگر نیکی کو مٹا کر برائی اپنا تسلط جماتی ہے تو وہ تسلط بھی ہمیشہ نہیں رہ سکتا ، نیکی کا سورج بھی ضرور چمکے گا اور مومن غالب ہوں گے ، اللہ کریم کو کسی سے پتہ کرنے کی حاجت نہیں وہ ہر بات کو سنتا اور ہر شے کو دیکھتا ہے اس لیے وہی حق ہے الوہیت اسی کو زیبا ہے کفار اللہ کے علاوہ جن کو پوجتے ہیں یہ سب باطل ہے جس طرح اس کے بنائے ہوئے شب وروز کے نظام میں کوئی مخلوق حارج یا دخیل نہیں ایسے ہی کسی معاملے میں بھی کوئی اس کی قدرت کاملہ کو روک نہیں سکتا اور وہی سب سے بڑا اور سب پر حکمران ہے سب سے اوپر ہے انسان یہ تو دیکھتا ہے جب اللہ چاہتا ہے تو بلندیوں سے پانی برساتا ہے سمندروں سے اٹھا کر زمین کو سیراب کرنے کے لیے اسے کہاں لے گیا پھر بارش برسا کر ساری زمین کو سبزے کی چادر اوڑھا دیتا ہے ، بیشک اللہ جل جلالہ ہر باریک سے باریک تر بات اور شے سے آگاہ ہے جیسے زمین کبھی ہمیشہ بےآباد نہیں رہتی ایسے ہی انسانی قلوب بھی ہمیشہ ویران نہیں رہے وہ ان کی ضرورت سے بھی واقف ہے اور ارض وسماء میں جو کچھ بھی ہے اسی کا تو ہے بھلا اور کون ان کی خبر رکھے گا اور یہ اسی کی شان ہے کہ سب اس کے محتاج اور وہ سب سے بےنیاز ہے غرض سارے کمال اور سب خوبیاں اسی کو زیبا ہیں۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 58 تا 66 ھاجروا (جن لوگوں نے ہجرت کی) ‘ قتلوا (قتل (شہید) کردیئے گئے) ماتوا (وہ مر گئے) ‘ یرزقن (ضرور رزق دیئے جائیں گے) ‘ مدخلا (داخل ہونے کی جگہ) ‘ یرضون (وہ خوش ہوگئے۔ وہ پسند کریں گے) ‘ عاقب (ستایا۔ بدلہ لیا) ‘ یولج (داخل کرتا ہے) ‘ مخضر (سرسبز و شاداب) ‘ سخر (اس نے مسخر کردیا) ‘ یمسک (وہ روکتا ہے) ‘ تقع (وہ گر پڑتا ہے) ۔ تشریح آیت نمبر 58 تا 66 : جو لوگ محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے عظیم جذبے سے سرشار ہیں اور ایمان کی دولت کو سب سے پیمتی چیز سمجھ کر ہر طرح کی قربانیاں پیش کرنے کو سعادت سمجھتے ہیں اور اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے اپنا گھر بار ‘ وطن ‘ رشتہ دار ‘ دوست احباب اور کاروبار زندگی چھوڑ کر اپنی زندگی کا نذرانہ تک پیش کرنے میں آگے آگے ہیں اور وہ ہر طرح کی مصیبتیں برداشت کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید کردیئے گئے ہیں یا طبعی وفات پا گئے ہیں ان کے لئے اللہ تعالیٰ جو بہترین رازق ہے اس نے ایسی جنتوں اور ان کی راحتوں کا وعدہ فرمایا ہے جن کا تصور اس دنیا میں ممکن نہیں ہے وہ ان کو عطا کی جائیں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ ان آیات میں یہ بھی فرمادیا گیا کہ بیشک اطاعت رسول میں صحابہ کرام (رض) کو طاقت کا جواب طاقت سے دینے کی ممانعت کی گئی ہے لیکن اگر کسی جگہ ایسے حالات پیش آگئے ہوں جہاں مظلوم بھڑک اٹھے ہوں اور محض اپنے دفاع کے لئے انہوں نے ان کفار سے ایسا ہی بدلہ یا انتقام لیا ہو جیسا کہ ان پر ظلم و زیادتی کی گئی تھی تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ اچھی طرح جانتا ہے کہ ان کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کا رنہ تھا۔ اللہ تاعلیٰ ایسے چھوٹی موٹی لغزشوں کو معاف کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے جاں نثار صحابہ کرام (رض) کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ آج وہ جس حق و صداقت کی سر بلندی کے لئے ہر طرح کے مصائب اور مشکلات کو جھیل رہے ہیں۔ اور ان پر چاروں طرف سے ظالموں نے ظلم و ستم کی انتہا کررکھی ہے یہ حالات اسی طرح نہیں رہیں گے بلکہ بہت جلد وہ انقلاب آکر رہے گا جس سے حالات بالکل اسی طرح تبدیل ہوجائیں گے۔ جس طرح روشن دن کی روشنی کو رات کی تاریکی اس طرح ڈھانپ لیتی ہے جیسے روشنی کا وجود مٹ گیا ہو۔ لیکن جب صبح کو سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کی پہلی کرن کے ساتھ ہی اندھیرے چھٹنے اور سمٹنے شروع ہوجاتے ہیں۔ اور پھر پوری طرح روشنی پھیل کر اندھیروں کے وجود پر چھا جاتی ہے یا جیسے زمین کا سبزہ گرمی کی شدت سے جھلس جاتا ہے۔ اور چورا ہو کر بکھرجاتا ہے۔ مٹی خشک اور ویران سی لگنے لگتی ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے اس میں کبھی زندگی ہی نہ تھی لیکن جب بارش ہوتی ہے تو زمین پھول کر ابھرتی ہے اور اسی خشک مٹی میں تروتازگی پیداہو جاتی ہے۔ کھیت لہلانے لگتے ہیں ‘ درختوں پر ایک نئی زندگی کی پھبن چمکنے لگتی ہے۔ پھولوں کے کنج سے خوشبو مہکنے لگتی ہے۔ ہر طرف سر سبزی و شادابی کی حکمرانی نظر آنے لگتی ہے۔ فرمایا جارہا ہے کہ وہ اس گمان اور گھمنڈ میں نہ رہیں کہ ظلمو زیادتی کی یہ رات اور تاریکی اسی طرح قائم رہے گی بلکہ دین اسلام کا سورج بہت جلد طلوع ہونے والا ہے جو ہر طرح کے اندھیروں پر چھا جائے گا اور پھر امن و سلامتی اور انسانیت کی ایک ایسی روشن صبح طلوع ہوگی جس میں ہر سچائی صاف نظر آنا شرو ہوجائے گی۔ فرمایا کہ وہ اللہ جو دن رات کے الٹ پھیر اور موسموں میں تبدیلی لاتا ہے کیا اس کو یہ قدرت حاصل نہیں ہے۔ کہ وہ ظالموں کے مقابلے میں مظلوموں کو اٹھا کر ایک انقلاب برپاکردے۔ اور آج جو مظلوم ہیں اور کفار کی اذیتوں اور مصائب کا شکار ہیں ان کو وہ طاقت و قوت ‘ حکومت اور سلطنت عطا کردی جائے جس سے کفار کے ایوانوں میں زلزلے آجائیں گے۔ فرمایا کہ یہ انقلاب تو آ کررہے گا۔ اور پھر جس طرح اللہ نے اس پوری کائنات کو انسان کی خدمت میں لگا دیا ہے۔ گہرے سمندروں میں کشتیاں اور جہاز اسی کے حکم سے چلتے اور لوگوں کو منزل مراد تک پہنچاتے ہیں۔ انسانی وجود ‘ زندگی ‘ موت اور قیامت کے دن دوبارہ زندہ ہونا ان سب باتوں کا اختیار اللہ ہی کا ہے اسی نے پوری کائنات کے ذرے ذرے کو انسانی خدمتوں پر لگا کر اس کے لئے مسخر کررکھا ہے۔ وہ جس طرح چاہتا ہے دنیا میں الٹ پھیر کرسکتا ہے اس کی قدرت کے سامنے کسی کا بس نہیں چلتا۔ یہ سب اللہ کی نعمتیں ہیں جن کی قدر کی جانی چاہیے تھی۔ اہل ایمان ان نعمتوں کی قدر کرتے ہیں لیکن وہ کفار ان نعمتوں کی قدر نہ کرکے ابدی راحتوں سے محروم ہوتے چلے جارہے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یعنی جنت کے میوے اور دیدار حق۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ذلیل کردینے والے عذاب سے مامون رہنے اور جنت کی نعمتیں پانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کفر کے ماحول کو چھوڑ دے۔ ہجرت کا لغوی معنٰی ہے کسی چیزکو ترک کرنا، چھوڑ دینا، لیکن شری اصطلاح میں جو چیز جو اللہ اور اس کے رسول کے راستے میں رکاوٹ بنتی ہو اس کو چھو ڑنا ہجرت کہلاتا ہے اور چھوڑنے والا مہا جر ہوگا۔ کسی قوم کا داعی حق کے مقا بلے میں آجانا ہی ہجرت کا جو از پیدا نہیں کردیتا۔ بلکہ جب تک یہ واضح نہ ہوجائے کہ اس قوم میں خیر کی آبیاری ناممکن ہوگئی ہے ایسے حالات میں نبی کو اللہ کی طرف سے ہجرت کا حکم آجایا کرتا ہے۔ مصلح اور عام داعی حق کو حکم نہیں آیا کرتا تاہم خدا داد بصیرت اور قرآن و سنت کی روشنی میں ہجرت کرنے کا فیصلہ داعی کا اختیار ہوتا ہے۔ کسی قوم میں نبی کا ہجرت کر کے چلے جانا معمو لی بات نہیں کہ دل اکتایا، بوریا اٹھایا اور چل نکلے۔ ایسی بستی تو بزم ہستی کے لیے ایک بو جھ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی اس لیے اس قوم کو بہت جلدنیست و نابود یا اس پر بھاری عذاب آجاتا ہے۔ ہجرت کرنا معمو لی کام نہیں کہ نبی جب چا ہے ملک و ملت کو چھوڑ کر کسی دوسری جگہ چلا جائے۔ نبی کو جب تک واضح حکم نہ آجائے وہ ہجرت کرنے کا مجاز نہیں ہوتا۔ جیسا کہ یونس (علیہ السلام) کا واقعہ اس بات کی واضح دلیل ہے۔ ” اور مچھلی والا (یو نس (علیہ السلام) جب غصے ہو کر چلا گیا اور وہ سمجھا تھا شاید ہم اس کو پکڑ نہیں سکیں گے، پھر یونس (علیہ السلام) نے اندھیروں میں پکارا اے اللہ تیرے بغیر میرا کوئی معبود نہیں۔ تو پاک ہے یقیناً میں قصور وار ہوں، پھر ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اس کو غم سے نجات بخشی اسی طرح ہم مومنوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔ “ ہجرت ایمان کی کسوٹی ہے : اللہ اور اسکے رسول کی خاطر ہجرت کرنا ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ یہ ایسی پل صراط ہے جس کی دھار تلوار سے زیادہ تیز اور بال سے زیادہ باریک ہے۔ ہجرت کی تکالیف و مشکلات ایمان سے خالی دل کو ننگا کردیتی ہیں۔ یہ ایسا ترازو ہے جس میں ہر آدمی نہیں بیٹھ سکتا۔ اس پیمانے سے کھرے کھوٹے کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس لیے قرآن مجید نے مہاجرین کو اصحاب صدق وصفا کے القاب سے نوازا ہے۔ جس نے اللہ کی رضا جوئی کے لیے ہجرت کی اگر دوران سفر آخرت کو سدھارا تو اس کے گناہ معاف اور اسے آخرت میں سرخروئی نصیب ہوگی اگر منزل مقصود تک پہنچ گیا تو دنیا میں بھی فراخی پائے گا۔ (وَ مَنْ یُّھَاجِرْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یَجِدْ فِی الْاَرْضِ مُرٰغَمًا کَثِیْرًا وَّسَعَۃً وَ مَنْ یَّخْرُجْ مِنْ بَیْتِہٖ مُھَاجِرًا اِلَی اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ ثُمَّ یُدْرِکْہُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ وَ کَان اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا) [ النساء : ١٠٠] ” جو کوئی اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ رہنے کے لیے زمین میں بہت جگہ پائے گا اور کھانے، پینے کے لیے فراخی ہوگی اور جو اپنے گھر سے اللہ اور اس کے رسول کے لیے نکلے لیکن راستہ میں اسکو موت آگئی اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے اور اللہ رحم کرنے اور معاف کردینے والا ہے۔ “ (عَنْ عُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّمَا الْاَعْمَال بالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِاِمْرِئٍ مَّا نَوٰی فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہُ الی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَہِجْرَتُہُ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہُ اِلَی دُنْےَا ےُصِےْبُھَا اَوِامْرَاَۃٍ ےَتَزَوَّجُھَا فَہِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَےْہِ ۔ ) [ رواہ البخاری : باب کَیْفَ کَانَ بَدْءُ الْوَحْیِ إِلَی رَسُول اللَّہِ ] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمام اعمال کا انحصار نیت پر ہے اور آدمی اپنی نیت کے مطابق ہی صلہ پائے گا۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے جس شخص نے دنیا کے فائدے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی۔ “ مسائل ١۔ ہجرت کے دوران مہاجر قتل ہوجائے یا طبعی موت مرے اس کے لیے اجر لازم ہے۔ ٢۔ اللہ کے لیے ہجرت کرنے والے کو دنیا میں بھی بہترین رزق دیا جائے گا۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ بہتر رزق دینے والا ہے۔ ٤۔ قیامت کے دن مہاجر کو اس کی پسند کا مقام دیا جائے گا۔ ٥۔ یقیناً اللہ تعالیٰ ہر بات کو جاننے والا اور بڑا ہی برد بار ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس نمبر ٧٤١ ایک نظر میں اس سے پہلے سبق کا خاتمہ اس مضمون پر ہوا تھا کہ آخرت میں مومنین اور مکذبین کا خاتمہ کیا ہوگا ، جہاں بادشاہت صرف اللہ وحدہ کی ہوگی۔ مضمون یہ چل رہا تھا کہ اللہ ہمیشہ اپنے رسولوں کی حفاظت کرتا ہے اپنی دعوت کو خود بچاتا ہے اور جو ایمان لاتا اسے اجر دیتا ہے جو کفر کرتا ہے اسے سزا دیتا ہے۔ اس سبق کا آغاز ہجرت سے ہوتا ہے ، ا سے قبل مہاجرین و انصار کو جہاد کی اجازت دے دی گئی ہے ، کیونکہ اسلامی نظریہ حیات کا دفاع بغیر جہاد کے ممکن نہیں۔ جب تک وہ جہاد نہ کریں گے نہ وہ اللہ کی بندگی کرسکتے ہیں ، نہ عبادات ، نہ اپنی جان کی حفاظت کرسکتے ہیں نہ اپنے دین کی ۔ کیا وہ دیکھتے نہیں کہ انہیں اپنے شہر سے بغیر کسی جرم کے نکال دیا گیا ہے۔ ہاں انہوں نے یہ ” جرم “ ضرور کیا تھا کہ وہ صرف اللہ کو رب مانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو تسلی دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنا شہر چھوڑا اور مال و جائیداد کو چھوڑا تو اللہ ہی اس کام کا اجر نہیں دے گا۔ اسی حوالے سے ایک عام اصولوں کے طور پر بتا دیا جاتا ہے کہ جس پر کوئی ظلم ہو تو وہ اس کے بدلے اسی قدر ظلم کرسکتا ہے۔ اس صورت میں اگر ظالم مزید ظلم پر اتر آئے اور پھر ظلم کرے تو اللہ مظلوموں کے ساتھ ہوگا۔ اس وعدے پر اللہ تعالیٰ دلائل بھی دیتا ہے کہ اللہ مدد کرسکتا ہے کیونکہ اللہ ہی اس پوری کائنات کو چلا رہا ہے اور جس سنت اور ناموس کے مطابق یہ کائنات چل رہی ہے اس کا ایک حصہ اور تقاضا یہ بھی ہے کہ مظلوم کی امداد کی جائے۔ اس کے بعد خطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے کہ ہر امت کا ایک منہاج ہے ، اس کو اس پر چلنے کا حکم دیا گیا ہے اور اسے اس کے لئے تیار کیا گیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کہا جاتا ہے کہ مشرکین کو یہ صاف صاف بتا دیں اور ان کو موقع نہ دیں کہ وہ آپ کے ساتھ کوئی تنازعہ کریں۔ اگر وہ پھر بھی مجادلہ پر اتر آئیں تو معاملے کو خدا پر چھوڑ دیں۔ وہ قیامت کے دن فیصلہ کرے گا کیونکہ اصل علم تو اس کے پاس ہے جو آسمان و زمین کی ہر چیز کو جانتا ہے۔ یہ لوگ جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں ، اس پر ان کے پاس کیا ثبوت ہے ، یہ بغیر ثبوت کے اضنے موقف پر اس لئے ڈٹے ہوئے ہیں کہ ان کو کلمہ حق کے سننے ہی سے نفرت ہے اور یہ نفرت ان پر اس قدر غالب ہے کہ جو لوگ ان کو آیات سناتے ہیں خطرہ یہ ہوتا ہے کہ یہ ان پر حملہ نہ کردیں۔ اللہ تعالیٰ ان کو تنبیہ کرتے ہیں کہ جلدی نہ کرو ، تمہارے لئے آگ تیار ہے اور وقت جلدی ہی آنے والا ہے۔ اس کے بعد ان الموں کے ضعف کو بیان کیا ہے جو اللہ کے سوا پکارے جاتے ہیں اور یہ تمام انسانوں کے نام ایک پیغام عام کے انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔ ان الموں کی بیچارگی کو بڑے توہین آمیز انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ یہ الہ مکھی کا مقابلہ بھی نہیں کرسکتے۔ یہ سبق اس بات پر ختم ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کو اپنے فرئاض ادا کرنے چاہئیں۔ فرائض ہیں کیا ؟ یہ کہ وہ پوری انسانیت کی نگران ہے۔ اس کے لئے اخلاقی تیاری رکوع ، سجود اور فعل خیرات ہے اور نماز کا نظام قائم کرنا اور زکوۃ کا نظام قائم کرنا اور اللہ پر بھروسہ کرنا۔ اس کے ساتھ یہ سورة بھی ختم ہوتی ہے۔ درس نمبر ٧٤١ تشریح آیات والذین ھاجروا ……حلیم (٩٥) اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ انسان ان تمام باتوں کو ترک کر دے ، جن کو نفس انسانی چاہتا ہے ، جن کو وہ بےحد عزیز سمجھتا ہے اور جن پر وہ بےحد حریص ہوتا ہے۔ فیملی ، شہر ، وطن ، ماضی کی یادیں ، مال اور زندگی کا ساز و سامان۔ ان سب باتوں کو اپنے نظریہ پر قربان کرنا اور اللہ کی رضامندی حاصل کرنا اور اللہ کے ہاں جو کچھ اجر ہے اس کی طرف دیکھنا ، یہ ایسا کام ہے کہ یہ دنیا و مافیا سے زیادہ قیمتی ہے۔ ہجرت کا حکم فتح مکہ سے قبل تھا اور اس وقت شروع ہوا تھا جب اسلامی حکومت مدینہ میں قائم ہوگئی تھی۔ فتح مکہ کے بعد اگر کوئی دوسرے علاقوں کو چھوڑ کر مدینہ آتا تو اسے ہجرت نہ سمجھا جاتا تھا۔ البتہ اسے جہاد اور نیک عمل ضرور سمجھا جاتا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ فتح مکہ کے بعد اگر کوئی جہاد کرے تو اسے اچھا عمل سمجھا جائے گا اور ثواب ہوگا۔ والذین ……رزقاً حسناً (٢٢ : ٨٥) ” جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی پھر قتل کردیئے گئے یا مر گئے ، اللہ ان کو اچھا رزق دے گا۔ “ خواہ وہ شہید ہوئے یا اپنی موت آپ مر گئے ۔ کیونکہ انہوں نے اپنا ملک اور مال و دولت چھوڑ دیا اور اس انجام کے لئے تیار ہو کر نکل آئے۔ انہوں نے شہادت کو ترجیح دی اور دنیا کے تمام عزیز ترین مال و دولت اور ملک کو قربان کردیا۔ اس لئے اللہ نے بھی ہر حال میں ان کے لئے عظیم اجر کا فیصلہ کردیا۔ وان اللہ لھو خیر الرزقین (٢٢ : ٨٥) ” اللہ ان کو اچھا رزق دے گا بیشک اللہ اچھا رزق دینے والوں میں سے ہے۔ “ اور یہ اللہ نے ان کے لئے جس رزق کا اعلان کیا ہے وہ اس سے بہت زیادہ اچھا ہے جو انہوں نے چھوڑا ہے۔ لید خلنھم مدخنا یرضونہ (٢٢ : ٩٥) ” اور انہیں ایسی جگہ پہنچائے گا جس سے وہ خوش ہوں گے۔ “ وہ اس جگہ کی طرف نکلے جس پر اللہ رضای تھا لہٰذا ان کو ایسی جگہ داخل کرے گا جہاں وہ راضی ہوں گیغ۔ یہ بات ان کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے کہ اللہ ان کے لئے ان کی مرضی کی جگہ تیار کرے گا ، حالانکہ وہ اللہ کے بندے ہیں اور وہ خالق ہے۔ وان اللہ لعیم حلیم (٢٢ : ٩٥) ” بیشک اللہ علیم و حلیم ہے۔ “ اللہ کے علم میں ہیں وہ مظالم جو ان پر ہوتے رہے۔ اللہ کے علم میں یہ بھی ہے جو وہ چاہتے ہیں اور حلیم اس طرح کہ وہ سب کو مہلت دیتا ہے اور پھر وہ ظالم اور مظلوم دونوں کو پوری پوری جزاء دے گا۔ انسانوں کا معاملہ یہ ہے کہ جن پر مظالم ڈھائے جائیں تو وہ کبھی صبر کرتے ہیں اور کبھی صبر نہیں کرتے۔ جب صبر نہیں کرتے تو وہ ظلم کا جواب دیتے ہیں۔ وہ بھی ان اذیتوں کے مقابلے میں دشمنوں کو دیسی ہی اذیتیں دیتے ہیں۔ اگر ظالم پھر بھی باز نہیں آتے تو اللہ یہ ذمہ داری اپنے اوپر لے لیتا ہے کہ وہ مظلوموں کی نصرت کرے گا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے، ہجرت کرنے والوں کے لیے رزق حسن ہے اسلام کے عہد اول میں مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کو طرح طرح سے تکلیفیں دی جاتی تھی جن کی وجہ سے بہت سے صحابہ نے حبشہ کو ہجرت کی اور بہت سے حضرات نے مدینہ منورہ کو ہجرت کی خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنا وطن مالوف مکہ مکرمہ چھوڑ کر مدینہ منورہ کو ہجرت فرمائی پھر حبشہ کے مہاجرین بھی مدینہ منورہ پہنچ گئے، جب مدینہ منورہ مرکز اسلام بن گیا تو مختلف قبائل اور مختلف علاقوں کے لوگ بھی مدینہ منورہ آگئے محض اللہ کے لیے وطن کو چھوڑنا وطن میں جو کچھ اموال و املاک گھر جائیداد ساز و سامان ہو اس سب کو چھوڑ کر دوسری جگہ جا کر بس جانا اس میں بڑا امتحان ہے، بعد میں جو لوگ مختلف علاقوں میں مسلمان ہوئے ان میں سے بھی بہت بڑی تعداد میں مسلمانوں کو ہجرت کرنی پڑی اور اس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے، ہجرت کا ثواب بہت زیادہ ہے اور اگر ہجرت کرنے والا مقتول ہوجائے تو اس کا مزید ثواب ہوگا، اگر مقتول نہ ہو اپنی طبعی موت مرجائے تو اللہ تعالیٰ کے پاس اس کی بھی بہت قیمت ہے اس کو فرمایا (وَ الَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ قُتِلُوْٓا اَوْ مَاتُوْا لَیَرْزُقَنَّھُمُ اللّٰہُ رِزْقًا حَسَنًا) (اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت کی پھر مقتول ہوگئے یا اپنی طبعی موت مرگئے اللہ تعالیٰ انہیں ضرور ضرور عمدہ رزق عطا فرمائے گا) اور اس سے جنت کے ماکولات اور مشروبات اور دیگر نعمتیں مراد ہیں (وَ اِنَّ اللّٰہَ لَھُوَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ ) (اور اللہ تعالیٰ سب دینے والوں سے بہتر دینے والا ہے)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(58) اور جن لوگوں نے اللہ کی راہ میں ترک وطن کیا پھر وہ قتل کردیئے گئے یا اپنی موت سے مرگئے تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کو عمدہ اور اچھی روزی عطا فرمائے گا اور یقیناً اللہ تعالیٰ سب دینے والوں سے بہتر دینے والا ہے اوپر فرمایا تھا۔ اخرجوا من دیارھم انہی کی تفصیل ہے کہ جن کو ترکف وطن کرنا پڑا پھر اگر وہ کبھی جنگ میں مار ڈالے گئے یا راستہ چلتے کسی نے ان کو مار ڈالا یا وہ اپنی طبعی موت سے مرگئے تو ان کو کوئی نقصان نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کو رزق حسن عطا فرمائے گا اور اللہ تعالیٰ سب دینے والوں سے بہتر ہے۔ والمحصنٰت میں گزرا ہے ومن یخرج من بیتہ مہاجراً الی اللہ ورسولہ ثم یدرکم الموت فقد وقع اجرہ علی اللہ۔