Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 64

سورة المؤمنون

حَتّٰۤی اِذَاۤ اَخَذۡنَا مُتۡرَفِیۡہِمۡ بِالۡعَذَابِ اِذَا ہُمۡ یَجۡئَرُوۡنَ ﴿ؕ۶۴﴾

Until when We seize their affluent ones with punishment, at once they are crying [to Allah ] for help.

یہاں تک کہ جب ہم نے ان کے آسودہ حال لوگوں کو عذاب میں پکڑ لیا تو وہ بلبلانے لگے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Until when We seize those of them who lead a luxurious life with punishment; behold, they make humble invocation with a loud voice. means, when the punishment and vengeance of Allah comes to those who are living a happy life of luxury in this world and overtakes them, إِذَا هُمْ يَجْأَرُونَ (behold, they make humble invocation with a loud voice). means, they scream their call... s for help. This is like the Ayat: وَذَرْنِى وَالْمُكَذِّبِينَ أُوْلِى النَّعْمَةِ وَمَهِّلْهُمْ قَلِيلً إِنَّ لَدَيْنَأ أَنكَالاً وَجَحِيماً And leave Me Alone (to deal) with the beliers, those who are in possession of good things of life. And give them respite for a little while. Verily, with Us are fetters, and a raging Fire. (73:11-12) كَمْ أَهْلَكْنَا مِن قَبْلِهِم مِّن قَرْنٍ فَنَادَواْ وَّلاَتَ حِينَ مَنَاصٍ How many a generation have We destroyed before them! And they cried out when there was no longer time for escape. (38:3) لاَا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ إِنَّكُم مِّنَّا لاَا تُنصَرُونَ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

641عذاب تو آسودہ اور غیر آسودہ حال دونوں کو ہی ہوتا ہے۔ لیکن آسودہ حال لوگوں کا نام خصوصی طور پر شاید اس لئے لیا گیا کہ قوم کی قیادت بالعموم انہی کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، وہ جس طرف چاہیں قوم کا رخ پھیر سکتے ہیں۔ اگر وہ اللہ کی نافرمانی کا راستۃ اختیار کریں اور اس پر ڈٹے رہیں تو انہی کی دیکھا دیکھی قوم...  بھی ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ یا مراد چوہدری اور سردار قسم کے لوگ ہیں۔ اور عذاب سے مراد اگر دنیاوی ہے، تو جنگ بدر میں کفار مکہ مارے گئے بلکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بد دعا کے نتیجے میں بھوک اور قحط سالی کا عذاب مسلط ہوا، وہ مراد ہے یا پھر مراد آخرت کا عذاب ہے۔ مگر یہ سیاق سے بعید ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٦٥] یعنی جب عذاب الٰہی آتا ہے تو واویلا اور چیخ پکار کرنے والے بھی وہی لوگ ہوتے ہیں جو آسودہ حال اور چودھری ٹائپ ہوتے ہیں۔ یہی لوگ نبیوں کی تکذیب، انھیں ایذائیں پہنچانے اور عوام کو اللہ کی راہ سے روکنے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔ اور عذاب نازل ہونے پر چیخنے چلانے والے بھی یہی ہوتے ہیں۔ حالانکہ جب عذاب آ... جاتا ہے تو پھر چیخنے چلانے یا فریادیں کرنے کا کوئی موقع باقی نہیں رہتا۔ نہ ہی کوئی طاقت انھیں اللہ کے عذاب سے بچاسکتی ہے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

حَتّيٰٓ اِذَآ اَخَذْنَا مُتْرَفِيْهِمْ ۔۔ : ” يَجْــــَٔــرُوْنَ “ ” جُؤَارٌ“ درحقیقت گائے یا بیل کے سخت تکلیف میں بلبلانے کو کہتے ہیں۔ عذاب سے مراد بظاہر دنیا میں آنے والا عذاب ہے، خواہ کسی آفت کی صورت میں ہو یا موت کی صورت میں، کیونکہ آسودگی اور خوش حالی کی موجودگی میں وہی آتا ہے۔ عذاب خواہ خوش حا... ل کفار پر آئے یا بدحال کفار پر، چیخنے چلانے اور بلبلانے میں دونوں یکساں ہوتے ہیں، مگر ” مُتْرَفِیْنَ “ (خوش حال) کا ذکر خاص طور پر اس لیے معلوم ہوتا ہے کہ یہی لوگ حق کی مخالفت میں پیش پیش ہوتے ہیں اور اپنی سرداری کی وجہ سے بدحال لوگوں کے کفر پر قائم رہنے کا باعث بنتے ہیں۔ (دیکھیے سورة سبا : ٣١ تا ٣٣) اس لیے عذاب نازل ہونے کے وقت ان کی حالت بیان فرمائی کہ ان کی ساری شیخی اور اکڑفوں ختم ہوجائے گی اور وہ سخت تکلیف میں مبتلا بیل کی طرح بلبلائیں گے۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

مُتْرَ‌فِيهِم (their affluent ones - 23:64). The word مُتْرَ‌فِ is derived from تْرَ‌فِ meaning comfort and prosperity. This verse mentions the Divine punishment which will descend upon the unbelievers whether rich or poor. The rich people have been specially mentioned here because they are the ones who make adequate arrangements to protect themselves against disasters and misfortunes. But when r... etribution comes from Allah, they find themselves totally helpless. According to Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) the punishment which is mentioned in this verse is an allusion to the crushing defeat which the infidels of Makkah suffered at the hands of the Muslims in the Battle of Badr. Some others say that the reference is to the severe famine which afflicted the people of Makkah as a result of the curse laid on them by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، when they were forced to eat dead animals and cats and dogs. Although the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and his companions, when faced ill-treatment from the infidels, used to remain patient and never complained yet when their suffering and torment became unbearable, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) invoked divine punishment for the infidels in the following words: اللَّھُمَّ اشدد وطأتک علٰی مضر و اجعلھا علیھم سنین کسنی یوسف (رواہ البخاری مسلم) (قرطبی و مظھری) (0 Lord! Let thy punishment descend hard on the tribe of Mudar and make their land barren like the land of Yusuf.  Show more

مُتْرَفِيْهِمْ ، مترف، ترف سے مشتق ہے جس کے معنے تنعم اور خوشحالی کے ہیں۔ اس جگہ اس قوم کو عذاب میں پکڑنے کا ذکر ہے جس میں امیر غریب خوشحال بدحال سبھی داخل ہوں گے مگر مترفین اور خوشحالوں کا ذکر خاص طور پر اس لئے کیا کہ ایسے ہی لوگ دنیا کے مصائب سے اپنے بچاؤ کا کچھ سامان کرلیا کرتے ہیں مگر اللہ تعال... یٰ کا عذاب جب آتا ہے تو سب سے پہلے یہی لوگ بےبس ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس آیت میں جس عذاب کے اندر ان کے پکڑے جانے کا ذکر ہے حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ عذاب ہے جو غزوہ بدر میں مسلمانوں کی تلوار سے ان کے سرداروں پر پڑا تھا۔ اور بعض حضرات نے اس عذاب سے مراد قحط کا عذاب لیا ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بددعا سے مکہ والوں پر مسلط کردیا گیا تھا یہاں تک کہ وہ مردار جانور اور کتے اور ہڈیاں کھانے پر مجبور ہوگئے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کفار کے لئے بددعا بہت کم کی ہے لیکن اس موقع میں مسلمانوں پر ان کے مظالم کی شدت سے مجبور ہو کر یہ بددعا کی تھی۔ اللھم اشدد وطاتک علی مضر واجعلھا علیھم سنین کسنی یوسف (رواہ البخاری ومسلم) ۔ (قرطبی و مظھری)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

حَتّٰٓي اِذَآ اَخَذْنَا مُتْرَفِيْہِمْ بِالْعَذَابِ اِذَا ہُمْ يَجْــــَٔــرُوْنَ۝ ٦٤ۭ أخذ الأَخْذُ : حوز الشیء وتحصیله، وذلک تارةً بالتناول نحو : مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ [يوسف/ 79] ، وتارةً بالقهر نحو قوله تعالی: لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ [ البقرة... / 255] ( اخ ذ) الاخذ ۔ کے معنی ہیں کسی چیز کو حاصل کرلینا جمع کرلینا اور احاطہ میں لے لینا اور یہ حصول کبھی کسی چیز کو پکڑلینے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ { مَعَاذَ اللهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلَّا مَنْ وَجَدْنَا مَتَاعَنَا عِنْدَهُ } ( سورة يوسف 79) خدا پناہ میں رکھے کہ جس شخص کے پاس ہم نے اپنی چیز پائی ہے اس کے سو اہم کسی اور پکڑ لیں اور کبھی غلبہ اور قہر کی صورت میں جیسے فرمایا :۔ { لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ } ( سورة البقرة 255) نہ اس پر اونگھ غالب آسکتی اور نہ ہ نیند ۔ محاورہ ہے ۔ ترف التُّرْفَةُ : التوسع في النعمة، يقال : أُتْرِفَ فلان فهو مُتْرَف . أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون/ 33] ، وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود/ 116] ( ت ر ف) الترفۃ ۔ عیش و عشرت میں فراخی اور وسعت کو کہتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے ۔ اترف فلان فھو مترف وہ آسودہ حال اور کثرت دولت کی وجہ سے بدمست ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ أَتْرَفْناهُمْ فِي الْحَياةِ الدُّنْيا [ المؤمنون/ 33] اور دنیا کی زندگی میں ہم نے اس کو آسودگی دی رکھی تھی ۔ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا ما أُتْرِفُوا فِيهِ [هود/ 116] اور جو ظالم تھے و ہ ان ہی باتوں کے پیچھے لگے رہے ۔ جن میں عیش و آرام تھا ۔ جأر قال تعالی: فَإِلَيْهِ تَجْئَرُونَ [ النحل/ 53] ، وقال تعالی: إِذا هُمْ يَجْأَرُونَ [ المؤمنون/ 64] ، لا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ [ المؤمنون/ 65] ، جَأَرَ : إذا أفرط في الدعاء والتضرّع تشبيها بجؤار الوحشیات، کا لظباء ونحوها . ( ج ء ر ) الجؤ ا ( ف ) کے اصل معنی وحشیات جیسے ہرن وغیرہ کے گھبراہٹ کے وقت زور سے آواز نکالنے اور چیخنے کے ہیں پھر تشبیہ کے طور پر وعا اور تضرع میں افراط اور مبالغہ کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ فَإِلَيْهِ تَجْئَرُونَ [ النحل/ 53] تو اسی کے سامنے آہ وگریہ کرتے ہو ۔ إِذا هُمْ يَجْأَرُونَ [ المؤمنون/ 64] تو اس وقت چلائیں گے ۔ لا تَجْأَرُوا الْيَوْمَ [ المؤمنون/ 65] آج مت چلاؤ ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٤) یہاں تک کہ جب ہم ان کے سرکشوں اور امراء و رؤسا ہشام، ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل، عتبہ شیبہ، وغیرہ پر سات سالہ قحط سالی کا عذاب نازل کریں گے تو یہ چیخ و پکار شروع کردیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

59. The epicureans will probably be punished in this worldly life because in the enjoyment of luxury and pleasure they forgot the rights of the other people and transgressed the prescribed limits. 60. Juar is bellowing by a bull painfully. Here the word has been used tauntingly for a groaning person who does not deserve any mercy, as if to say: Now that you are going to be punished for your misde... eds, you have started bellowing.  Show more

سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :59 عیاش یہاں مُتْرَفِیْن کا ترجمہ کیا گیا ہے ۔ مترفین اصل میں ان لوگوں کو کہتے ہیں جو دنیوی مال و دولت کو پا کر مزے کر رہے ہوں اور خدا و خلق کے حقوق سے غافل ہوں ۔ اس لفظ کا صحیح مفہوم لفظ عیاش سے ادا ہو جاتا ہے ، بشرطیکہ اسے صرف شہوت رانی کے مع... نی میں نہ لیا جائے بلکہ عیش کوشی کے وسیع تر معنوں میں لیا جائے ۔ عذاب سے مراد یہاں غالباً آخرت کا عذاب نہیں بلکہ دنیا کا عذاب ہے جو اسی زندگی میں ظالموں کو دیکھنا پڑے ۔ سورة الْمُؤْمِنُوْن حاشیہ نمبر :60 اصل میں لفظ جُؤَار استعمال کیا گیا ہے جو بیل کی اس آواز کو کہتے ہیں جو سخت تکلیف کے وقت وہ نکالتا ہے ۔ یہ لفظ یہاں محض فریاد و فغان کے معنی میں نہیں بلکہ اس شخص کی فریاد و فغان کے معنی میں بولا گیا ہے جو کسی رحم کا مستحق نہ ہو ۔ اس میں تحقیر اور طنز کا انداز چھپا ہوا ہے ۔ اس کے اندر یہ معنی پوشیدہ ہیں کہ اچھا ، اب جو اپنے کرتوتوں کا مزا چکھنے کی نوبت آئی تو بلبلانے لگے   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:64) مترفیہم۔ مترفی مضاف ہم مضاف الیہ۔ اصل میں مترفین تھا اضافت کی وجہ سے نون اعرابی گرگیا۔ ان کے عیش پرست۔ دولت مند اور خوش حال لوگ۔ الترفۃ۔ عیش و عشرت میں فراخی اور وسعت کو کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے اترف فلان فھو مترف۔ وہ آسودہ حال اور کثرت دولت کی وجہ سے بدمست ہے۔ جیسے قرآن مجید میں ہے وارجعوا ال... ی ما اترفتم فیہ (21:13) اور جن نعمتوں میں تم عیش و آسائش کرتے تھے ان کی طرف لوٹ جائو۔ اذاہم۔ اذا مفاجاتیہ ہے۔ یجئرون۔ مضارع جمع مذکر غائب۔ جئر وجؤار مصدر (باب فتح) الجوار کے اصل معنی وحشت کے ہیں (جیسے ہرن ۔ بیل وغیرہ) کے گھبراہٹ کے وقت زور سے آواز نکالنے اور چیخنے کے ہیں۔ پھر تشبیہ کے طور پر دعا اور عاجزی میں مبالغہ کرنے پر بولا جاتا ہے۔ اذا ہم یجئرون۔ تو وہ چلانے لگیں گے۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

7۔ اور سارا استکبار جس کے اب معتاد ہیں کافور ہوجاوے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

56:۔ ” حَتّی اذا الخ “ یہاں سے لے کر ” اِذَا ھُمْ فِیهِ مُبْلِسُوْنَ “ تک تخویفیں شکوے اور زجریں ہیں۔ ” حَتّٰی اِذَا اخَذَنَا الخ “ یہ تخویف دنیوی اور ماقبل کے لیے غایت ہے یہ مشرکین مسلسل غفلت میں ڈوبے رہیں گے یہاں تک کہ ہم ان کے رئیسوں اور سرداروں کو رسوا کن عذاب میں مبتلا کردیں گے اس وقت ان کی آنک... ھیں کھلیں گی اور وہ دوریں گے اور عاجزی وزاری کریں گے مگر اس وقت اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے عذاب سے یوم بدر میں قتل اور قید و بند کا عذاب مراد ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس (رض) اور دیگر ائمہ سے منقول ہے۔ والمراد بالعذاب ما اصابھم یوم بدر من القتل والاسر کما روی عن ابن عباس و مجاھد وابن جبیر وقتادۃ و قد قتل و اسر فی ذالک الیوم کثیر من صنادیدھم ورساءھم (روح ج 18 ص 47) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(64) یہاں تک کہ جب ہم ان کے خوش عیش لوگوں کو عذاب میں پکڑ لیں گے اور گرفتار کردیں گے تو تب ہی چلا اٹھیں گے یعنی قحط میں یا بدر کی جنگ میں مرنے کے بعد برزخ میں۔ ان کے خوش حال لوگ اس قسم کے عذابوں میں سے کسی عذاب کی لپیٹ میں آجائیں گے تو چلانے لگیں گے اور جب عذاب کے وقت بڑے بڑے لوگوں کا یہ حال ہوجائے ... گا تو چھوٹے لوگوں کا تو کہنا ہی کیا ہے۔  Show more