Surat ul Mominoon

Surah: 23

Verse: 96

سورة المؤمنون

اِدۡفَعۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ السَّیِّئَۃَ ؕ نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا یَصِفُوۡنَ ﴿۹۶﴾

Repel, by [means of] what is best, [their] evil. We are most knowing of what they describe.

برائی کو اس طریقے سے دور کریں جو سراسر بھلائی والا ہو ، جو کچھ یہ بیان کرتے ہیں ہم بخوبی واقف ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّيَةَ ... Repel evil with that which is better. This is like the Ayah: ادْفَعْ بِالَّتِى هِىَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِى بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِىٌّ حَمِيمٌوَمَا يُلَقَّاهَا إِلاَّ الَّذِينَ صَبَرُواْ Repel (the evil) with one which is better, then verily he, between whom and you there was enmity, (will become) as though he was a close friend. But none is granted it except those who are patient. meaning, nobody will be helped or inspired to follow this advice or attain this quality, إِلاَّ الَّذِينَ صَبَرُواْ (except those who are patient), meaning, those who patiently bear people's insults and bad treatment and deal with them in a good manner when they are on the receiving end of bad treatment from them, وَمَا يُلَقَّاهَأ إِلاَّ ذُو حَظِّ عَظِيمٍ and none is granted it except the owner of the great portion. means, in this world and the Hereafter. (41:34-35) ... نَحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَصِفُونَ We are best-acquainted with the things they utter. And Allah says: وَقُل رَّبِّ أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَمَزَاتِ الشَّيَاطِينِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

961جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا ' برائی ایسے طریقے سے دور کرو جو اچھا ہو، اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن بھی، تمہارا گہرا دوست بن جائے گا۔ حٰم السجدہ 2435

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٩٣] یعنی اگرچہ ہم اس بات پر قادر ہیں کہ آپ کے جیتے جی انھیں وہ عذاب چکھا دیں جس کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے۔ مگر ہنوز وہ وقت نہیں آیا ابھی آپ کے لئے بہتر حکمت عملی یہی ہے کہ آپ ان مشرکوں کے برے سلوک اور ناگوار اور تلخ باتوں کا جواب بھلائی سے دیں ابھی ان میں کئی لوگ ایسے موجود ہیں جن کے لئے ہدایت مقدور ہوچکی ہے۔ ربط مضمون کے لحاظ سے اس لکا مطلب یہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔ تاہم داعی حق کے لئے یہ ایک نہایت قیمتی اصول ہے اور اس کا نتیجہ ہمیشہ خوشگوار نکلتا ہے اسی اصول کو قرآن نے ایک دوسرے مقام پر یوں بیان فرمایا ہے۔ آپ برائی کا جواب بھلائی سے دیا کیجئے اس طرح تمہارا دشمن بھی تمہارا دلی دوست بن جائے گا && (٤١: ٣٤) نیز یہ جملہ ایک ایسی آفاقی حقیقت Truth Universal ہے۔ جس کا ہر شخص، ہر حال میں اور ہر زمانہ میں تجربہ کرکے اس کے خوشگوار اثرات سے مستفید ہوتا رہا ہے اور ہوسکتا ہے۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ اصول جتنا مفید ہے اتنا ہی اس پر عمل پیرا ہونا مشکل ہے۔ یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ صاحب عزم انسان ہی اس پر عمل پیرا ہوسکتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۔۔ : یعنی ہم عذاب میں جو تاخیر کر رہے ہیں اس میں ہماری حکمت ہے، آپ اس دوران ان کی ہر برائی اور زیادتی کا جواب ایسے طریقے سے دیں جو اچھا ہی نہیں، سب سے اچھا ہو۔ ہمیں خوب معلوم ہے کہ وہ کیا کچھ کہتے ہیں، کس طرح اللہ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں اور کس طرح آپ کو کاہن، شاعر، جادوگر اور دیوانہ وغیرہ کہتے ہیں۔ 3 برائی کا جواب بہترین طریقے سے یہ ہے کہ بدی کا جواب نیکی سے، ظلم کا جواب انصاف سے، خیانت کا جواب دیانت داری سے، جھوٹ کا جواب سچ سے، قطع رحمی کا جواب صلہ رحمی سے اور گالی گلوچ کا جواب دعا وسلام سے دیا جائے۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : (اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ ) [ حٰآ السجدۃ : ٣٤ ] ”(برائی کو) اس (طریقے) کے ساتھ ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہوگا جیسے وہ دلی دوست ہو۔ “ اس میں عفو و درگزر کی تعلیم دی گئی ہے، کیونکہ لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کے لیے یہ سب سے اچھا طریقہ ہے۔ عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں : ( وَاللّٰہِ ! مَا انْتَقَمَ لِنَفْسِہِ فِيْ شَيْءٍ یُؤْتَی إِلَیْہِ قَطُّ حَتّٰی تُنْتَھَکَ حُرُمَات اللّٰہِ فَیَنْتَقِمُ لِلّٰہِ ) [ بخاري، الحدود، باب إقامۃ الحدود والانتقام لحرمات اللہ : ٦٧٨٦ ] ” اللہ کی قسم ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھ کی گئی کسی زیادتی میں اپنی ذات کا انتقام کبھی نہیں لیا، مگر اس صورت میں کہ اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کو پامال کیا جائے تو اللہ کی خاطر انتقام لیتے تھے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ Repel evil with that which is best - 23:96 Allah instructs the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم to counter evil with good, oppression with justice and cruelty with mercy. These virtues of conduct have been taught by Allah to the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) and are generally observed in settling affairs among the Muslims. Later on these instructions were repealed in so far as the infidels and the unbelievers were concerned when Allah permitted Muslims to embark on (Jihad). Nevertheless even during Jihad the Muslims were told to adopt a humane approach towards the enemy. For example they were forbidden to kill women and children or the priests who did not engage in battle against the Muslims. Similarly, mutilation of the dead bodies of enemies was strictly forbidden. It is for this reason that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is instructed in the next verse to seek protection from Shaitan&s evil suggestions even in the battle fields where he may arouse emotions to act against ethics.

اِدْفَعْ بالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ، یعنی آپ برائی کو بھلائی کے ذریعہ ظلم کو انصاف کے ذریعہ اور بےرحمی کو رحم کے ذریعہ دفع فرما دیں۔ یہ مکارم اخلاق کی تعلیم ہے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی گئی ہے جو مسلمانوں کے باہم معاملات کے لئے ہمیشہ جاری ہے البتہ کفار و مشرکین سے ان کے مظالم کے مقابلے میں عفو و درگزر ہی کرتے رہنا، ان پر ہاتھ نہ اٹھانا، یہ حکم آیات جہاد سے منسوخ ہوگیا مگر عین حالت جہاد میں بھی اس حسن خلق کے بہت سے مظاہر باقی رکھے گئے کہ عورت کو قتل نہ کیا جائے، بچے کو قتل نہ کیا جائے جو مذہبی لوگ مسلمانوں کے مقابلے پر جنگ میں شریک نہیں ان کو قتل نہ کیا جائے اور جس کو بھی قتل کریں تو اس کا مثلہ نہ بنادیں کہ ناک کان وغیرہ کاٹ لیں، وغیر ذلک من احکام مکارم الاخلاق۔ اسی لئے بعد کی آیت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شیطان اور اس کے وساوس سے پناہ مانگنے کی دعا تلقین کی گئی کہ عین میدان قتال میں بھی آپ کی طرف سے عدل و انصاف اور مکارم اخلاق کے خلاف کوئی چیز شیطان کے غصہ دلانے سے صادر نہ ہونے پائے وہ دعا یہ ہے :۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَۃَ۝ ٠ۭ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا يَصِفُوْنَ۝ ٩٦ دفع الدَّفْعُ إذا عدّي بإلى اقتضی معنی الإنالة، نحو قوله تعالی: فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ [ النساء/ 6] ، وإذا عدّي بعن اقتضی معنی الحماية، نحو : إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا [ الحج/ 38] ، وقال : وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ [ الحج/ 40] ، وقوله : لَيْسَ لَهُ دافِعٌ مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج/ 2- 3] ، أي : حام، والمُدَفَّع : الذي يدفعه كلّ أحد «3» ، والدُّفْعَة من المطر، والدُّفَّاع من السّيل . ( د ف ع ) الدفع ( دفع کرنا ، ہٹا دینا ) جب اس کا تعدیہ بذریعہ الیٰ ہو تو اس کے معنی دے دینے اور حوالے کردینا ہوتے ہیں جیسے فرمایا : ۔ فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوالَهُمْ [ النساء/ 6] تو ان کا مال ان کے حوالے کردو ۔ اور جب بذریعہ عن متعدی ہو تو اس کے معنی مدافعت اور حمایت کرنا ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ يُدافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا[ الحج/ 38] خدا تو مومنوں سے ان کے دشمنوں کو ہٹا تا تا رہتا ہے ہے ۔ وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ [ الحج/ 40] اور خدا لوگوں کو ایک دوسرے ( پر چڑھائی اور حملہ کرنے ) سے ہٹاتا نہ رہتا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لَيْسَ لَهُ دافِعٌ مِنَ اللَّهِ ذِي الْمَعارِجِ [ المعارج/ 2- 3] کوئی اس کو ٹال نہ سکے گا ۔ اور وہ ) خدائے صاحب درجات کی طرف سے ( نازل ہوگا ) میں دافع کے معنی حامی اور محافظ کے ہیں ۔ المدقع ۔ ہر جگہ سے دھتکار ہوا ۔ ذلیل ار سوار ۔ الدفعۃ ۔ بارش کی بوچھاڑ ۔ الدفاع سیلاب کا زور ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے وصف الوَصْفُ : ذكرُ الشیءِ بحلیته ونعته، والصِّفَةُ : الحالة التي عليها الشیء من حلیته ونعته، کالزِّنَةِ التي هي قدر الشیء، والوَصْفُ قد يكون حقّا وباطلا . قال تعالی: وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل/ 116] ( و ص ف ) الوصف کے معنی کسی چیز کا حلیہ اور نعت بیان کرنے کسے ہیں اور کسی چیز کی وہ حالت جو حلیہ اور نعمت کے لحاظ سے ہوتی ہے اسے صفۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ زنۃ ہر چیز کی مقدار پر بولا جاتا ہے ۔ اور وصف چونکہ غلط اور صحیح دونوں طرح ہوسکتا ہے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقُولُوا لِما تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ [ النحل/ 116] اور یونہی جھوٹ جو تمہاری زبان پر آئے مت کہہ دیا کرو ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩٦) اور آپ ان کے ساتھ یہ معاملہ رکھیے کہ ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کے شرک کا دفعیہ کلمہ طبیہ کے ساتھ کردیا کیجیے یا یہ کہ اپنے سے ان کی بدتمیزیوں کا دفعیہ سلامتی اور اچھی طریقہ پر کردیا کیجیے یا یہ کہ اپنے سے ان کی بدتمیزیوں کا دفعیہ سلامتی اور اچھے طریقہ پر کردیا کیجیے اور ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ آپ کی نسبت جھوٹ کہا کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩٦ (اِدْفَعْ بالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ السَّیِّءَۃَ ط) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی شرارتوں سے خوبصورتی کے ساتھ درگزر کریں۔ ان لوگوں کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جیسا بھی رویہ ہو مگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کا مقابلہ نیکی اور بھلائی سے ہی کرنا ہے۔ چناچہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی گالیوں کے جواب میں انہیں دعا دیں اور ان کے برا بھلا کہنے کے باوجود آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو اللہ کی طرف بلاتے رہیں۔ (نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ ) ” جو کچھ یہ ہرزہ سرائی کر رہے ہیں ہم اس سے خوب واقف ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

30: یعنی ان کی بے ہودگیوں کا اور ان کی طرف سے جو تکلیفیں پہنچ رہی ہیں ان کا جواب حتی الامکان نرمی، خوش اخلاقی اور احسان سے دئیے جائیے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(23:96) ادفع۔ امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ تو دور کر۔ دفع یدفع (فتح) دفع مصدر سے۔ دفع کا تعدیہ جب الیٰ سے ہو تو دینے کے معنی ہوتے ہیں اور جب عن سے ہو تو اس کے معنی حفاظت کرنے اور حمایت کے ہوتے ہیں۔ مثلاً فادفعوا الیہم اموالہم (4:6) تو ان کا مال ان کے حوالہ کر دو ۔ اور ان اللہ یدافع عن الذین امنوا (22:38) خدا تو مومنوں کی (ان کے دشمنوں سے) حفاظت کرتا رہتا ہے۔ احسن۔ افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ بہت اچھا۔ السیئۃ برائی۔ گناہ۔ فعل بد۔ یہ حسنۃ کی ضد ہے۔ س و ء حروف مادہ یہ فیعلۃ کے وزن پر سیوأۃ تھا۔ عین کلمہ کے وائو کو ی سے بدلا۔ ی کو ی میں مدغم کیا۔ سیئۃ ہوگیا۔ السیئۃ ادفع کا مفعول ہے۔ عبارت کچھ یوں تھی۔ ادفع بالحسنۃ التیھی احسن الحسنات التی یدفع بھا السیئۃ۔ (ان (کافروں) کی برائی کا دفعیہ ایسی نیکی سے کرو جو بہترین ہو۔ جیسا کہ اور جگہ ارشاد فرمایا۔ خذ العفو وامر بالعرف واعرج عن الجاھلین (7:199) در گذر اختیار کیجئے۔ اور نیک کام کا حکم دیجئے۔ اور جاہلوں سے کنارہ کش ہوجایا کیجئے۔ یصفون۔ مضارع جمع مذکر غائب وصف مصدر (باب ضرب) (جو) وہ بیان کرتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

12 ۔ یعنی بدی کا بدلہ نیکی، ظلم کا بدلہ انصاف، خیانت کا بدلہ دیانت داری، جھوٹ کا بدلہ، سچ، قطع رحمی کا بدلہ صلہ رحمی اور گالی گلوچ کا بدلہ دعا وسلام سے……دیجئے نتیجہ کیا ہوگا ؟ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ۔ یعنی اس طرح جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دشمن ہے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دلسوز دوست ہوجائے گا۔ (فصلت :34) اس میں عفو و درگزر کی تعلیم دی ہے اور لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کے لئے یہ تریاق نافع ہے۔ (ابن کثیر) چناچہ حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی پر زیادتی کی ہو یا اس سے ذاتی انتقام لیا ہو۔ الا یہ کہ اس نے اللہ کی مقرر کردہ کسی حد کو پامال کیا جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اللہ کے لئے انتقام لیا۔ (مسلم)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ یہ دعا اس وجہ سے نہیں کہ نعوذ باللہ ایسا امر محتمل ہو، بلکہ اظہار ہے تہویل عذاب کا کہ جو محل اس کا محتمل بھی نہیں ہے جب وہاں امر ہے استعاذہ کا تو جو مستحق ہیں ان کو تو بہت ہی ڈرنا چاہئے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

پھر فرمایا (ادْفَعْ بالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ ) (آپ اس طریقے پر ان کی بد معا ملگی کو دفع کیجیے جو بہت ہی اچھا طریقہ ہے) اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تلقین فرمائی ہے کہ آپ برائی کو یعنی کافروں کی ایذا رسانی کو دفع کرتے رہیں اور ان کے شر کا دفعیہ اچھے سے اچھے طریقہ پر کرتے رہیں، برائی کے مقابلہ میں خوش اخلاقی اختیار کرنا اور درگزر سے کام لینا اور اپنی طرف سے اچھا برتاؤ کرنا اس سے دشمنوں کی ایذا ختم یا کم ہوجاتی ہے پھر اخلاق عالیہ کا بھی یہی تقاضا ہے۔ سورة حم سجدہ میں فرمایا (وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلا السَّیّْءَۃُ اِدْفَعْ بالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ) (اور اچھائی اور برائی برابر نہیں ہیں، ایسے طریقے پر دفعیہ کیجیے جو اچھے سے اچھا طریقہ ہو جب ایسا کرو گے تو وہ شخص جس کے اور آپ کے درمیان دشمنی ہے خالص دوست ہوجائے گا) بعض حضرات نے فرمایا کہ یہ حکم آیت جہاد سے منسوخ ہوگیا حالانکہ منسوخ ماننے کی ضرورت نہیں کیونکہ مکارم اخلاق کا استعمال تو ہمیشہ ہی ضروری ہے۔ پھر فرمایا (نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ ) (ہم خوب جانتے ہیں جو کچھ یہ لوگ آپ کی نسبت کہتے ہیں) ہم اپنے علم کے مطابق انہیں سزا دے دیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖ 73:۔ ” ادفع بالتی الخ “ یہ طریق تبلیغ کی تعلیم فرمایا مشرکین اگرچہ سخت لہجہ اور درشت کلامی سے آپ کی دعوت کو رد کرتے ہیں اور آپ کی دعوت کو اساطیر الاولین (اگلے لوگوں کی جھوٹی کہانیاں) کہتے ہیں لیکن پھر بھی آپ نرم کلامی اور حسن اخلاق سے ان کی باتوں کا جواب دیں لیکن مسئلہ خوب کھول کر اور دلائل کے ساتھ بیان کریں۔ ” نحن اعلم بما یصفون “ باقی جو کچھ وہ کہتے ہیں ہمیں وہ سب کچھ معلوم ہے اس کی ان کو پوری پوری سزا ملے گی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(96) اے پیغمبر ! آپ ان کفار کی برائی کو ایسے برتائو اور ایسے طریقے سے دفع کیا کیجئے جو نہایت ہی اچھا ہو ہم ان باتوں سے خوب واقف ہیں اور ان باتوں کو خوب جانتے ہیں جو یہ آپ کی نسبت بیان کرتے رہتے ہیں یعنی بدی کا دفعیہ اچھے اور نرم برتائو سے کیجئے اور انتقام اور بدلہ لینے کی کوشش نہ کیجئے کیونکہ ان سب باتوں کو ہم جانتے ہیں جو یہ لوگ آپ کے متعلق کہتے رہتے ہیں اور ہم خود بدلہ لینے کو کافی ہیں اور اگر کسی وقت شیطان آپ کو ابھارے تو آپ یوں دعا کیا کیجئے۔