Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 22

سورة النور

وَ لَا یَاۡتَلِ اُولُوا الۡفَضۡلِ مِنۡکُمۡ وَ السَّعَۃِ اَنۡ یُّؤۡتُوۡۤا اُولِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۪ۖ وَ لۡیَعۡفُوۡا وَ لۡیَصۡفَحُوۡا ؕ اَلَا تُحِبُّوۡنَ اَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۲۲﴾

And let not those of virtue among you and wealth swear not to give [aid] to their relatives and the needy and the emigrants for the cause of Allah , and let them pardon and overlook. Would you not like that Allah should forgive you? And Allah is Forgiving and Merciful.

تم میں سے جو بزرگی اور کشادگی والے ہیں انہیں اپنے قرابت داروں اور مسکینوں اور مہاجروں کو فی سبیل اللہ دینے سے قسم نہ کھالینی چاہیئے بلکہ معاف کردینا اور درگذر کرلینا چاہئیے ۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالٰی تمہارے قصور معاف فرما دے؟ اللہ قصوروں کو معاف فرمانے والا مہربان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Urging Those Who have been blessed with Wealth to give and to be tolerant Allah says, وَلاَ يَأْتَلِ ... And let not swear, meaning, make an oath, ... أُوْلُوا الْفَضْلِ مِنكُمْ ... those among you who are blessed with graces, means, those who have the means to give charity and do good, ... وَالسَّعَةِ ... and wealth, means, good fortune, ... أَن يُوْتُوا أُوْلِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ... to give to their kinsmen, the poor, and those who left their homes for Allah's cause. means, do not swear that you will not uphold the ties of kinship with your relatives who are needy or who migrated for the sake of Allah, which is the ultimate act of kindness in the area of upholding kinship ties. Allah says, ... وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ... Let them pardon and forgive. past insults and bad treatment. This is part of the patience, generosity and kindness of Allah towards His creation, despite the fact that they wrong themselves. This Ayah was revealed concerning As-Siddiq, may Allah be pleased with him, when he swore that he would not help Mistah bin Uthathah after he said what he said about A'ishah, as we have already seen in the Hadith. When Allah revealed the innocence of the Mother of the believers, A'ishah, and the believers were happy and content with the outcome of this incident, and those believers who had talked about the matter repented, and the prescribed punishment had been carried out upon those on whom it was carried out, then Allah started to soften the heart of As-Siddiq towards his relative Mistah bin Uthathah. Mistah was the cousin of As-Siddiq, the son of his maternal aunt, and he was a poor man with no wealth except whatever Abu Bakr spent on him. He was one of those who had migrated for the sake of Allah. He had invented the lies and the slander, but then Allah accepted his repentance from that and the prescribed punishment was carried out on him. As-Siddiq was known for his generosity and he did favors to his relatives and strangers alike. When this Ayah was revealed: ... أَلاَ تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ ... Do you not love that Allah should forgive you, which shows that the reward fits the action, and that `if you forgive others, you will be forgiven,' then As-Siddiq said, "Of course, by Allah, we love -- O our Lord -- that You should forgive us." Then he resumed his spending on Mistah and said, "By Allah I will never stop spending on him." This was to counteract what he had said previously, "By Allah I will never spend on him." This proves that he deserved to be called As-Siddiq, may Allah be pleased with him and his daughter. ... وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ And Allah is Oft-Forgiving, Most Merciful.

دولت مند افراد سے خطاب تم میں سے جو کشادہ روزی والے ، صاحب مقدرت ہیں ۔ صدقہ اور احسان کرنے والے ہیں انہیں اس بات کی قسم نہ کھانی چاہئے کہ وہ اپنے قرابت داروں ، مسکینوں ، مہاجروں کو کچھ دیں گے ہی نہیں ۔ اس طرح انہیں متوجہ فرما کر پھر اور نرم کرنے کے لئے فرمایا کہ ان کی طرف سے کوئی قصور بھی سرزد ہوگیا ہو تو انہیں معاف کر دینا چاہئے ۔ ان سے کوئی ایذاء یا برائی پہنچی ہو تو ان سے درگزر کر لینا چاہئے ۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا حکم وکرم اور لطف رحم ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو بھلائی کا ہی حکم دیتا ہے ۔ یہ آیت حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں اتری ہے جب کہ آپ نے حضرت مسطح بن اثاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کسی قسم کا سلوک کرنے کی قسم کھالی تھی کیونکہ بہتان صدیقہ میں یہ بھی شامل تھے ۔ جیسے کہ پہلے کی آیتوں کی تفسیر میں یہ واقعہ گزر چکا ہے تو جب حقیقت اللہ تعالیٰ نے ظاہر کر دی ، ام المومنین بری ہوگئیں ، مسلمانوں کے دل روشن ہوگئے ، مومنوں کی توبہ قبول ہوگئی ، تہمت رکھنے والوں میں سے بعض کو حد شرعی لگ چکی ۔ تو اللہ تعالیٰ نے حضرت صدیق کو حضرت مسطح کی طرف متوجہ فرمایا جو آپ کی خالہ صاحبہ کے فرزند تھے اور مسکین شخص تھے ۔ حضرت صدیق ہی ان کی پرورش کرتے رہتے تھے ، یہ مہاجر تھے لیکن اس بارے میں اتفاقیہ زبان کھل گئی تھی ۔ انہیں تہمت کی حد لگائی گئی تھی ۔ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سخاوت مشہور تھی ۔ کیا اپنے کیا غیر سب کے ساتھ آپ کا حسن سلوک عام تھا ۔ آیت کے یہ خصوصی الفاظ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کان میں پڑے کہ کیا تم بخشش الہی کے طالب نہیں ہو ؟ آپ کی زبان سے بےساختہ نکل گیا کہ ہاں قسم ہے اللہ کی ہماری تو عین چاہت ہے کہ اللہ ہمیں بخشے اور اسی وقت سے مسطح کو جو کچھ دیا کرتے تھے ، جاری کر دیا ۔ گویا ان آیتوں میں ہمیں تلقین ہوئی کہ جس طرح ہم چاہتے ہیں کہ ہماری تقصیریں معاف ہوجائیں ۔ ہمیں چاہئے کہ دوسروں کی تقصیروں سے بھی درگزر کر لیا کریں ۔ یہ بھی خیال میں رہے کہ جس طرح آپ نے پہلے یہ فرمایا تھا کہ واللہ میں اس کے ساتھ کبھی بھی سلوک نہ کروں گا ۔ اب عہد کیا کہ واللہ میں اس سے کبھی بھی اس کا مقررہ روزینہ نہ روکوں گا ۔ سچ ہے صدیق صدیق ہی تھے رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

221حضرت مسطح، جو واقعہ افک میں ملوث ہوگئے تھے، فقرائے مہاجرین میں سے تھے، رشتے میں حضرت ابوبکر صدیق کے خالہ زاد تھے، اسی لئے ابوبکر ان کے کفیل اور معاش کے ذمے دار تھے، جب یہ بھی حضرت عائشہ ' کے خلاف مہم میں شریک ہوگئے تو ابوبکر صدیق کو سخت صدمہ پہنچا، جو ایک فطری عمل تھا چناچہ نزول براءت کے بعد غصہ میں انہوں نے قسم کھالی کہ وہ آئندہ مسطح کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائیں گے۔ ابوبکر صدیق کی یہ قسم، جو اگرچہ انسانی فطرت کے مطابق ہی تھی، تاہم مقام صدیق تم اس سے بلند تر کردار کا متقاضی تھا، اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آئی اور یہ آیت نازل فرمائی، جس میں بڑے پیار سے ان کی اس عاجلانہ بشری اقدام پر انھیں متنبہ فرمایا کہ تم سے بھی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں اور تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرماتا رہے۔ تو پھر تم بھی دوسروں کے ساتھ اسی طرح معافی اور درگزر کا معاملہ کیوں نہیں کرتے ؟ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری غلطیاں معاف فرما دے ؟ یہاں انداز بیان اتنا موثر تھا کہ اسے سنتے ہی ابوبکر صدیق بےساختہ پکار اٹھے ' کیوں نہیں اے ہمارے رب ! ہم ضرور یہ چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف فرما دے ' اس کے بعد انہوں نے اپنی قسم کا کفارہ ادا کر کے حسب سابق مسطح کی مالی سرپرستی شروع فرما دی (فتح القدیر) ، ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٧] حضرت عائشہ (رض) کے مفصل بیان والی حدیث میں یہ مذکور ہے کہ مسطح بن اثاثہ ان سادہ لوح مسلمانوں میں سے تھے جو اس فتنہ کی رو میں بہہ گئے تھے۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے قریبی رشتہ دار تھے اور محتاج تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) انھیں گزر اوقات کے لئے کچھ ماہوار وظیفہ بھی دیا کرتے تھے۔ جب یہ بھی تہمت لگانے والوں میں شامل ہوگئے تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو ان سے رنج پہنچ جانا ایک فطری امر تھا۔ جس نے بھلائی کا بدلہ برائی سے دیا تھا۔ چناچہ آپ نے قسم کھالی کہ آئندہ ایسے احسان فراموش کی کبھی مدد نہ کریں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جس سے ایسے لوگوں سے بھی عفو و درگزر کی تلقین کی گئی۔ چناچہ آپ نے فوراً اس حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردیا اور فرمایا : پروردگار ! && ہم ضرور چاہتے ہیں کہ تو ہمیں معاف کر دے && چناچہ آپ نے دوبارہ مدد کا سلسلہ جاری رکھنے کا عہد کیا بلکہ پہلے سے زیادہ مدد کرنے لگے۔ [٢٧۔ ا ] گویا اس آیت میں مسلمانوں کو ایک بڑا بلند اصول مدنظر رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے یعنی کسی کو معاف کرتے وقت انھیں یہ نہ سوچنا چاہئے کہ کس کا میرے ساتھ برتاؤ کیسا رہا ہے۔ بلکہ اس لئے معاف کرنا چاہئے کہ اللہ انھیں معاف فرمائے گا۔ اور یہ ایسی ضرورت ہے جس کی ہر شخص کو ہر حال میں ضرورت ہوتی ہے۔ دوری قابل ذکر بات یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے امداد تو جاری کردی۔ مگر کیا قسم کا کفارہ بھی ادا کیا تھا ؟ اس بات کا یہاں ذکر تک نہیں آیا۔ لہذا بعض علماء کا خیال ہے کہ اچھے کام کو اختیار کرلینا ہی قسم کا کفارہ ہے۔ جبکہ دوسرے گروہ کا خیال ہے اور سورة مائدہ میں قسموں کے کفارہ کا حکم نازل ہونے کے بعد قسم کا کفارہ ادا کرنا بھی ضروری ہے اور دلیل مزید کے طور پر درج ذیل حدیث پیش کرتے ہیں : && حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں کہ : آپ نے فرمایا : && میں تو اللہ کی قسم ! جو اللہ چاہے جب کسی بات پر قسم کھا لیتا ہوں۔ پھر اس کے خلاف کرنا بہتر سمجھتا ہوں تو اپنی قسم کا کفارہ دے دیتا ہوں اور جو کام بہتر معلوم ہوتا ہے وہ کرلیتا ہوں && (بخاری۔ کتاب الایمان والنذور۔ باب الاستشناء فی الایمان) لہذا بہتر صورت یہی ہے کہ ایسی قسم کا کفار بھی ادا کردیا جائے۔ [٢٨] یعنی جنہیں ایسی گندی باتوں کا خیال بھی نہ ہو۔ ان کا ذہن ہی ایسی باتوں کی طرف منتقل نہ ہوتا ہو۔ کہ بدچلنی کیا چیز ہے اور یہ کیسے کی جاتی ہے یعنی وہ سیدھی سادی اور پاک فطرت عورت جو بدچلن عورتوں کے چلتروں اور ان کی باتوں تک سے ناواقف ہوتی ہیں اور صحیحین کے مطابق ایسی بھولی بھالی مومن عورتوں پر تہمت لگانا ان سات تباہ کن گناہوں میں سے ہے جو سابقہ کئے کرائے پر پانی پھیر دیتے ہیں۔ اور یہاں تو معاملہ اور بھی سخت ہے کیونکہ جس پر بہتان باندھا گیا ہے وہ کوئی عام مومنہ نہیں۔ بلکہ اللہ کے رسول کی بیوی اور مومنوں کی ماں ہے۔ لہذا ایسے تہمت لگانے والے منافقین پر دنیا میں بھی لعنت برستی رہے گی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں ان منافقوں پر جو لعنت برستی رہی اور ہر دم ذلیل و خوار ہوتے رہے وہ سب نے دیکھ لیا اور آخرت میں یہ لوگ جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوں گے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ ۔۔ : ” لَا يَاْتَلِ “ ” أَلِیَّۃٌ“ (بروزن فَعِیْلَۃٌ، بمعنی قسم) میں سے باب افتعال ” اِءْتَلٰی یَأْتَلِیْ “ میں سے نہی غائب ہے۔ سورة بقرہ کی آیت (٢٢٦) : (لِلَّذِيْنَ يُؤْلُوْنَ مِنْ نِّسَاۗىِٕهِمْ ) میں ” يُؤْلُوْنَ “ باب افعال میں سے ہے۔ سورة نور کی آیت (١١) میں صحیح بخاری کی حدیث (٤٧٥٠) گزر چکی ہے کہ عائشہ (رض) پر بہتان لگانے والوں میں مسطح بن اثاثہ (رض) بھی تھے، جو ابوبکر (رض) کی خالہ زاد بہن کے بیٹے تھے (بعض نے انھیں خالہ زاد بھی کہا ہے) ، ابوبکر (رض) نے ان سے قرابت اور ان کے فقر کی وجہ سے ان کا وظیفہ مقرر کر رکھا تھا، جب مسطح نے یہ بات کی تو ابوبکر (رض) نے وہ وظیفہ بند کردیا، لیکن جب یہ آیت اتری اور اس میں یہ الفاظ آئے : (اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ ) ” کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخشے ؟ “ تو ابوبکر (رض) نے کہا، کیونکہ نہیں، میں تو پسند کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بخش دے۔ چناچہ انھوں نے وہ وظیفہ دوبارہ جاری کردیا اور کہا، میں اس میں کبھی کمی نہیں کروں گا۔ 3 پچھلی آیت میں فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے پاک کرتا ہے تو اگر اہل افک اس گناہ میں مبتلا ہوئے ہیں اور تم اس سے محفوظ رہے ہو تو اس میں تمہارا کچھ کمال نہیں، یہ محض اللہ کا فضل اور اس کی رحمت ہے، اس لیے جب بہتان لگانے والے تائب ہوچکے، انھیں اس کی سزا بھی مل چکی تو ان کی غلطی ہی پر نظر نہ رکھو، بلکہ ان سے حسن سلوک کے اسباب پر بھی نگاہ رکھو، جن میں سے ہر سبب کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو تمہیں برتری اور وسعت دی ہے اس میں سے انھیں بھی دیتے رہو۔ ان حسن سلوک کے اسباب میں سے ایک سبب قرابت دار ہونا ہے، دوسرا مسکین اور تیسرا مہاجر فی سبیل اللہ ہونا ہے۔ تینوں سبب جمع ہیں تو ان کا حق انھیں بالاولیٰ دینا چاہیے۔ 3 اس آیت سے معلوم ہوا کہ مرتد ہونے کے سوا دوسرے گناہوں سے کسی شخص کے اعمال صالحہ بالکل ختم نہیں ہوجاتے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بہتان لگانے کے باوجود اہل افک میں سے مہاجرین کی ہجرت کی قدر افزائی فرمائی ہے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے ۔ وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا :” وَلْيَعْفُوْا “ ” عَفَا یَعْفُوْ “ کا معنی مٹانا ہے، کہا جاتا ہے : ” عَفَتِ الرِّیْحُ الْأَثَرَ “ ” ہوا نے قدموں کا نشان مٹا دیا۔ “ یعنی ان کی لغزش کا خیال دل سے مٹا دیں اور اس پر پردہ ڈال دیں۔ ” وَلْيَصْفَحُوْا “ بعض اہل علم نے فرمایا کہ یہ ” صَفْحَۃُ الْعُنُقِ “ (گردن کا کنارہ) سے مشتق ہے، یعنی ان کے برے سلوک سے اس طرح درگزر کرو جیسے تم نے ان سے گردن کا کنارا پھیرلیا ہے۔ عفو و درگزر کا یہ حکم سورة آل عمران (١٣٤) ، نساء (١٤٩) ، حجر (٨٥) ، شوریٰ (٤٣) اور دیگر کئی آیات میں آیا ہے۔ (اضواء البیان) اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ : اس کی شان نزول اوپر بیان ہوچکی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ گناہ گار مسلم کو معاف کرنا اور اس سے درگزر کرنا گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہے۔ تم بخشو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے گا، تم درگزر کر وگے تو اللہ تعالیٰ تم سے درگزر فرمائے گا، جیسا عمل کرو گے ویسی جزا پاؤ گے۔ 3 یہ آیت دلیل ہے کہ نیکی نہ کرنے کی قسم کھانا جائز نہیں، ایسی قسم کا کفارہ دے کر وہ نیکی کر لینی چاہیے۔ اسی طرح اگر قسم کا پورا نہ کرنا بہتر ہو تو اس کا بھی کفارہ دے کر بہتر کام کرنا چاہیے۔ ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ حَلَفَ عَلٰی یَمِیْنٍ فَرَأَی غَیْرَھَا خَیْرًا مِّنْھَا فَلْیُکَفِّرْ عَنْ یَّمِیْنِہِ وَلْیَفْعَلْ ) [ ترمذي، النذور والأیمان، باب ما جاء في الکفارۃ قبل الحنث : ١٥٣٠، و قال الألباني صحیح ]” جو شخص کسی کام پر قسم کھائے، پھر اس کے علاوہ کو بہتر سمجھے تو اسے چاہیے کہ اپنی قسم کا کفارہ دے دے اور (بہتر کام) کرلے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَلَا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ أَن يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْ‌بَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَالْمُهَاجِرِ‌ينَ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ ۖ وَلْيَعْفُوا وَلْيَصْفَحُوا ۗ أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ‌ اللَّـهُ لَكُمْ ۗ وَاللَّـهُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٢٢﴾ And the men of grace and wealth among you should not swear against giving (their charitable gifts) to the kinsmen and the poor and to those who have migrated in the way of Allah. And they should forgive and forego. Do you not like that Allah forgives you? And Allah is Most-Forgiving, Very-Merciful - 24:22. Teachings of high morals for the exalted companions The word أِٰیٔتلا means to swear. Sayyidna Mistah and Hassan (رض) got involved in the incident of slandering Sayyidnh ` A&ishah (رض) from amongst the Muslims. They were awarded punishment for false accusation by the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم after the revelation of exoneration verses. Both Sayyidna Mistah and Hassan (رض) were illustrious companions and had taken part in the battle of Badr, but they slipped on this occasion and received Divine help for the sincere repentance. Then the way exoneration was revealed by Allah Ta’ ala for Sayyidnh ` A&ishah (رض) ، in the same manner it was also declared that the repentance of these believers was accepted and they were pardoned. Sayyidna Mistah (رض) was a relative of Sayyidna Abu Bakr (رض) ، and was a poor person. Sayyidna Abu Bakr (رض) used to help him materially. When the involvement of Mistah (رض) in the spread of the incident of Ifk was established, then Sayyidna Aba Bakr&s paternal love for the daughter surged up, and he was annoyed with Sayyidna Mistah (رض) as a natural corollary, because her feelings were deeply injured by him. He then swore an oath that he would never help Sayyidna Mistah (رض) materially. It is obvious that to help any specific poor person is not obligatory for a Muslim, and if someone stops the material help he used to give to a poor person, it is not a sin .But Allah Ta’ ala wanted to make the illustrious group of companions as a model for the society. So, whereas on the one hand those who had slipped were granted Divine help to repent sincerely and reform themselves, on the other hand those who had sworn not to help any more the poor people, because of the natural grief and displeasure, were imparted wisdom of supreme ethics in this verse, that they should break their oath and expiate for it. It is below their dignity to stop the material help. They should also forgive and overlook, the way Allah has forgiven them. Since it was not a religious obligation on Sayyidna Abu Bakr (رض) to help Sayyidna Mistah (رض) ، therefore the Qur&an has adopted the line to say that those whom Allah Ta’ ala has bestowed the knowledge and excellence, and who are granted the means to spend in the way of Allah, they should be careful not to undertake such an oath. The words أُولُو الْفَضْلِ مِنكُمْ وَالسَّعَةِ (the men of grace and wealth) are used to put across this meaning. The last sentence of this verse is أَلَا تُحِبُّونَ أَن يَغْفِرَ‌ اللَّـهُ لَكُمْ , (24:22) which says Do you not like that Allah forgives you? On this Sayyidna Abu Bakr (رض) said immediately واللہ اَنّی احبّ ان یغفر اللہ لِی that is ` By God, I definitely want that Allah forgives me&. Immediately after that he restored the material help of Sayyidna Mistah (رض) ، and said ` This help will never stop now&. (Bukhari and Muslim) These are the graces of ethics which were imparted to train the illustrious companions. Sahih of Bukhari has quoted on the authority of Sayyidna ` Abdullah Ibn ` Umar (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) once said: لیس الواصل بالمکافی ولٰکنّ الواصل الّذی اذا قطعت رحمہ وصلھا ` He is not the kind hearted towards relatives who only returns their favours, but the real kind hearted towards relatives is the one who maintains his relationship with them, despite they have severed the relations& (Mazhari).

وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ اَنْ يُّؤ ْتُوْٓا اُولِي الْقُرْبٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَالْمُهٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا ۭ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ صحابہ کرام کو اعلی اخلاق کی تعلیم : وَلَا يَاْتَلِ ، ائتلاء کے معنے قسم کھانے کے ہیں۔ حضرت صدیقہ پر تہمت کے واقعہ میں مسملانوں میں سے مسطح اور حسان مبتلا ہوگئے تھے جن پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نزول آیات برات کے بعد حد قذف جاری فرمائی۔ مسطح اور حسان دونوں ہی جلیل القدر صحابی غزوہ بدر کے شرکاء میں سے ہیں مگر ایک لغزش ہوگئی جس سے توبہ صادقہ نصیب ہوئی اور حق تعالیٰ نے جس طرح حضرت صدیقہ کی برات نازل فرما دی اسی طرح ان مومنین کی توبہ قبول کرنے اور معاف کرنے کا بھی اعلان فرما دیا۔ مسطح حضرت صدیق اکبر کے عزیز بھی تھے اور مفلس بھی۔ حضرت صدیق اکبر ان کی مالی مدد فرمایا کرتے تھے۔ جب واقعہ افک میں ان کی گونہ شرکت ثابت ہوئی تو صدیقہ کے والد کی شفقت پدری اور بیٹی کو ایسا سخت صدمہ پہنچانے کی وجہ سے طبعی طور پر مسطح سے رنج پیدا ہوگیا اور قسم کھا بیٹھے کہ آئندہ ان کی کوئی مالی مدد نہیں کریں گے۔ یہ ظاہر ہے کہ کسی خاص فقیر کی مالی مدد کرنا کسی خاص مسلمان پر علی التعیین واجب نہیں اور جس کی مالی مدد کوئی کرتا ہے اگر وہ اس کو روک لے تو گناہ کی کوئی وجہ نہیں مگر صحابہ کرام کی جماعت کو حق تعالیٰ دنیا کے لئے ایک مثالی معاشرہ بنانے والے تھے اس لئے ایک طرف جن لوگوں سے لغزش ہوئی ان کو سچی توبہ اور آئندہ اصلاح حال کی نعمت سے نوازا۔ دوسری طرف جن بزرگوں نے طبعی رنج و ملال کے سبب ایسے غریب فقیر کی مدد ترک کرنے کی قسم کھالی ان کو اعلی اخلاق کی تعلیم اس آیت میں دی گئی کہ ان کو یہ قسم توڑ دینا اور اس کا کفارہ ادا کردینا چاہئے۔ ان کی مالی امداد سے دستکش ہوجانا ان کے مقام بلند کے مناسب نہیں۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف کردیا ان کو بھی عفو و درگزر سے کام لینا چاہئے۔ چونکہ حضرت مسطح کی مالی امداد کرنا کوئی شرعی واجب حضرت صدیق کے ذمہ نہیں تھا اس لئے قرآن کریم نے عنون یہ اختیار فرمایا کہ اہل علم و فضل جن کو اللہ نے دینی کمالات عطا فرمائے ہیں اور جن کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی وسعت و گنجائش بھی ہے ان کو ایسی قسم نہیں کھانی چاہئے۔ آیت میں دو لفظ اولوا الْفَضْلِ اور والسَّعَةِ اسی معنے کے لئے آئے ہیں۔ اس آیت کے آخری جملے میں جو ارشاد ہوا کہ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَكُمْ ، یعنی کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف فرما دے تو صدیق اکبر نے فوراً کہا واللہ انی احب ان یغفر اللہ لی (رواہ الشیخان) یعنی بخدا میں ضرور چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرما دے اور فوراً حضرت مسطح کی مالی امداد جاری فرما دی اور یہ بھی فرمایا اب کبھی یہ امداد بند نہ ہوگی۔ (بخاری و مسلم) یہ وہ مکارم اخلاق ہیں جن سے صحابہ کرام کی تربیت کی گئی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : لیس الواصل بالمکافی والکن الواصل الذی اذا قطعت رحمہ و صلھا۔ (از مظہری) یعنی صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو رشتہ داروں کے صرف احسان کا بدلہ کر دے بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ رشتہ داروں کے قطع تعلق کرنے کے باوجود یہ تعلق قائم رکھے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَا يَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ يُّؤْتُوْٓا اُولِي الْقُرْبٰى وَالْمَسٰكِيْنَ وَالْمُہٰجِرِيْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللہِ ۝ ٠۠ۖ وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا۝ ٠ۭ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللہُ لَكُمْ۝ ٠ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ۝ ٢٢ لا یاتل۔ فعل نہی واحد مذکرغائب۔ ( جمع کے معنی میں استعمال ہوا ہے) ایتلاء ( باب افتعال) اصل یا تلی تھا لا کے آنے سے آخری حرف محرک ساکن ہوگیا۔ لام کے سکون سے ی گر گئی ی کی رعایت سے لام کا کسرہ بحال ہوگیا۔ لا یاتل وہ قسم نہ کھا لیں۔ الوۃ۔ الیۃ اور الی قسم۔ وسع السَّعَةُ تقال في الأمكنة، وفي الحال، وفي الفعل کالقدرة والجود ونحو ذلك . ففي المکان نحو قوله : إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] ، أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء/ 97] ، وَأَرْضُ اللَّهِ واسِعَةٌ [ الزمر/ 10] وفي الحال قوله تعالی: لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق/ 7] وقوله : وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] والوُسْعُ من القدرة : ما يفضل عن قدر المکلّف . قال تعالی: لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة/ 286] تنبيها أنه يكلّف عبده دوین ما ينوء به قدرته، وقیل : معناه يكلّفه ما يثمر له السَّعَة . أي : جنّة عرضها السّموات والأرض کما قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] وقوله : وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف/ 89] فوصف له نحو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] وقوله : وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة/ 268] ، وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء/ 130] فعبارة عن سَعَةِ قدرته وعلمه ورحمته وإفضاله کقوله : وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام/ 80] وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف/ 156] ، وقوله : وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات/ 47] فإشارة إلى نحو قوله : الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] ووَسِعَ الشّيءُ : اتَّسَعَ. والوُسْعُ : الجدةُ والطّاقةُ ، ويقال : ينفق علی قدر وُسْعِهِ. وأَوْسَعَ فلانٌ: إذا کان له الغنی، وصار ذا سَعَةٍ ، وفرس وَسَاعُ الخطوِ : شدید العدو . ( و س ع ) اسعۃ کے معنی کشادگی کے ہیں اور یہ امکنہ حالت اور فعل جیسے قدرت جو وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ چناچہ وسعت مکانی کے متعلق فرمایا : ۔ إِنَّ أَرْضِي واسِعَةٌ [ العنکبوت/ 56] میری زمین فراح ہے ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً [ النساء/ 97] کیا خدا کا ملک فراخ نہیں تھا ۔ اور وسعت حالت کے متعلق فرمایا : ۔ لِيُنْفِقْ ذُو سَعَةٍ مِنْ سَعَتِهِ [ الطلاق/ 7] صاحب وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہئے وَمَتِّعُوهُنَّ عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236]( یعنی مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق ۔۔۔۔۔ الواسع اس طاقت کو کہتے ہیں جو اس کام سے وزازیادہ ہو جو اس کے ذمہ لگایا گیا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْساً إِلَّا وُسْعَها[ البقرة/ 286] خدا کسی شخص کو اس کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا ۔ میں تنبیہ فر مائی ہے کہ خدا بندے کے ذمہ اتنا ہی کام لگاتا ہے جو اس کی طاقت سے ذرا کم ہوتا ہے ۔ اور بعض نے اس کے معنی یہ بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جن احکام کا انسان کو مکلف بناتا ہے ان کا ثمرہ وسعت یعنی وہ جنت ہے جس کی پہنائی ارض وسما ہے جیسا کہ اس کی تائید میں دوسری جگہ فرمایا : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارا حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ اور آیت : ۔ وَسِعَ رَبُّنا كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأعراف/ 89] اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کے احاطہ علمی کا بیان ہے جیسے دوسری جگہ اس مفہوم کو : أَحاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْماً [ الطلاق/ 12] خدا اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے سے تعبیر فرمایا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاللَّهُ واسِعٌ عَلِيمٌ [ البقرة/ 268] اور خدا کشائش والا اور علم والا ہے ۔ اور نیز آیت کریمہ : ۔ وَكانَ اللَّهُ واسِعاً حَكِيماً [ النساء/ 130] اور خدا بڑی کشائش اور حکمت والا ہے ۔ میں اللہ تعالیٰ کا بلحاظ علم وقدرت ورحمت وفضل کے وسیع ہونا مراد ہے جیس ا کہ آیت : ۔ وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْماً [ الأنعام/ 80] میرا پروردگار اپنے علم سے ہر چیز پر احاطہ کئے ہوئے ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ [ الأعراف/ 156] اور جو میری رحمت ہے وہ ہر چیز کو شامل ہے ۔ سے معلوم ہوتا ہے اور آیت : ۔ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ [ الذاریات/ 47] اور ہم کو سب مقددر ہے میں اللہ تعالیٰ کی اس وسعت کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ آیت : ۔ الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی شکل اصورت بخشی اور پھر راہ دکھائی ۔ میں بیان کیا جاتا ہے یعنی وہدایت کے فیضان سے وہ ہر چیز کو اپنے اندر سمائے ہوئے ہے ) وسع الشئی اتسع کے معنی کسی چیز کے فراخ ہونا کے ہیں اور لواسع کے معنی تو نگر ی اور طاقت کے بھی آتے ہیں چناچہ محاورہ مشہور ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق خرچ کرتا ہے ۔ اوسع فلان وہ غنی اور صاحب اسعت ہوگیا فرس وساع الخطو وہ گھوڑا کو لمبی لمبی ڈگ بھرتا ہو نہایت تیزی سے دوڑے ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے قربی وفي النّسبة نحو : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] ، وقال : الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ، وقال : وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] ، وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] ، وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] ، يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] اور مجھ کو معلوم نہیں کہ جس چیز کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ عنقریب آنے والی ہے یا اس کا وقت دور ہے ۔ اور قرب نسبی کے متعلق فرمایا : وَإِذا حَضَرَ الْقِسْمَةَ أُولُوا الْقُرْبى[ النساء/ 8] اور جب میراث کی تقسیم کے وقت ( غیر وارث ) رشتے دار آجائیں ۔ الْوالِدانِ وَالْأَقْرَبُونَ [ النساء/ 7] ماں باپ اور رشتے دار ۔ وَلَوْ كانَ ذا قُرْبى [ فاطر/ 18] گوہ وہ تمہاری رشتے دار ہو ۔ وَلِذِي الْقُرْبى [ الأنفال/ 41] اور اہل قرابت کا ۔ وَالْجارِ ذِي الْقُرْبى [ النساء/ 36] اور رشتے در ہمسایوں يَتِيماً ذا مَقْرَبَةٍ [ البلد/ 15] یتیم رشتے دار کو اور قرب بمعنی کے اعتبار سے کسی کے قریب ہونا مِسْكِينُ قيل : هو الذي لا شيء له، وهو أبلغ من الفقیر، وقوله تعالی: أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف/ 79] ، فإنه جعلهم مساکين بعد ذهاب السّفينة، أو لأنّ سفینتهم غير معتدّ بها في جنب ما کان لهم من المسکنة، وقوله : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] ، فالمیم في ذلک زائدة في أصحّ القولین . المسکین المسکین بعض نے اس کی تفسیر ( یعنی جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو ) کے ساتھ کی ہے اور یہ فقر سے ابلغ ہے ( یعنی بنسبت فقر کے زیادہ تا دار ہوتا ہے ) لیکن آیت : أَمَّا السَّفِينَةُ فَكانَتْ لِمَساكِينَ [ الكهف/ 79] اور کشتی غریب لوگوں کی تھی ۔ میں باوجود کشتی کا مالک ہونے کے انہیں مسکن قرار دینا مایؤؤل کے لحاظ سے ہے یعنی کشتی کے چلے جانے کے بعد کی حالت کے لحاظ سے انہیں مسکن کہا گیا ہے ۔ یا اس لئے کہ ان کی احتیاط اور مسکنت کے مقابلہ میں کشتی کی کچھ بھی حیثیت نہ تھی ۔ اور آیت : ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ وَالْمَسْكَنَةُ [ البقرة/ 61] اور اخر کا ر ذلت روسوائی اور محتاجی ( اور بےنوائی ) ان سے چمٹا دی گئی ۔ میں اصح قول کے لحاظ سے مسکنتہ کی میم زائد ہے ( اور یہ سکون سے ہے ۔ ) هجر الهَجْرُ والهِجْرَان : مفارقة الإنسان غيره، إمّا بالبدن، أو باللّسان، أو بالقلب . قال تعالی: وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء/ 34] كناية عن عدم قربهنّ ، وقوله تعالی: إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان/ 30] فهذا هَجْر بالقلب، أو بالقلب واللّسان . وقوله : وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل/ 10] يحتمل الثلاثة، ومدعوّ إلى أن يتحرّى أيّ الثلاثة إن أمكنه مع تحرّي المجاملة، وکذا قوله تعالی: وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] ، وقوله تعالی: وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر/ 5] ، فحثّ علی المفارقة بالوجوه كلّها . والمُهاجرَةُ في الأصل : مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] ، وقوله : وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . وقوله : أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء/ 97] ، وکذا المجاهدة تقتضي مع العدی مجاهدة النّفس کما روي في الخبر : «رجعتم من الجهاد الأصغر إلى الجهاد الأكبر» «1» ، وهو مجاهدة النّفس . وروي : (هاجروا ولا تهجّروا) «2» أي : کونوا من المهاجرین، ولا تتشبّهوا بهم في القول دون الفعل، والهُجْرُ : الکلام القبیح المهجور لقبحه . وفي الحدیث : «ولا تقولوا هُجْراً» «3» وأَهْجَرَ فلان : إذا أتى بهجر من الکلام عن قصد، ( ھ ج ر ) الھجر والھجران کے معنی ایک انسان کے دوسرے سے جدا ہونے کے ہیں عام اس سے کہ یہ جدائی بدنی ہو یا زبان سے ہو یا دل سے چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضاجِعِ [ النساء/ 34] پھر ان کے ساتھ سونا ترک کر دو ۔ میں مفا رقت بدنی مراد ہے اور کنایتا ان سے مجامعت ترک کردینے کا حکم دیا ہے اور آیت : ۔ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُوراً [ الفرقان/ 30] کہ میری قوم نے اس قران کو چھوڑ رکھا تھا ۔ میں دل یا دل اور زبان دونوں کے ذریعہ جدا ہونا مراد ہے یعنی نہ تو انہوں نے اس کی تلاوت کی اور نہ ہی اس کی تعلیمات کی طرف دھیان دیا اور آیت : ۔ وَاهْجُرْهُمْ هَجْراً جَمِيلًا [ المزمل/ 10] اور وضع داری کے ساتھ ان سے الگ تھلگ رہو ۔ میں تینوں طرح الگ رہنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی جملا کی قید لگا کر اس طرف اشارہ کردیا ہے کہ حسن سلوک اور مجاملت کیس صورت میں بھی ترک نہ ہونے پائے ۔ اس طرح آیت وَاهْجُرْنِي مَلِيًّا [ مریم/ 46] اور تو ہمیشہ کے لئے مجھ سے دور ہوجا ۔ میں بھی ترک بوجوہ ثلا ثہ مراد ہے اور آیت : ۔ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ [ المدثر/ 5] اور ناپاکی سے دور رہو ۔ میں بھی ہر لحاظ سے رجز کو ترک کردینے کی ترغیب ہے ۔ المھاجر رۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے ) اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ اور فرمایا : ۔ أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ واسِعَةً فَتُهاجِرُوا فِيها [ النساء/ 97] کیا اللہ تعالیٰ کی ( اتنی لمبی چوڑی ) زمین اس قدر گنجائش نہیں رکھتی تھی کہ تم اس میں کسی طرف کو ہجرت کر کے چلے جاتے ۔ ہاں جس طرح ظاہری ہجرت کا قتضا یہ ہے کہ انسان خواہشات نفسانی کو خیر باد کہہ دے اسی طرح دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے میں بھی مجاہدۃ بالنفس کے معنی پائے جاتے ہیں چناچہ ایک حدیث میں مروی ہے آنحضرت نے ایک جہاد سے واپسی کے موقع پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : ۔ کہ تم جہاد اصغر سے جہاد اکبر کیطرف لوٹ رہے ہو یعنی دشمن کے ساتھ جہاد کے بعد اب نفس کے ساتھ جہاد کرنا ہے ایک اور حدیث میں ہے سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ عفو العَفْوُ : القصد لتناول الشیء، يقال : عَفَاه واعتفاه، أي : قصده متناولا ما عنده، وعَفَتِ الرّيحُ الدّار : قصدتها متناولة آثارها، وبهذا النّظر قال الشاعر : 323- أخذ البلی أبلادها «1» وعَفَتِ الدّار : كأنها قصدت هي البلی، وعَفَا النبت والشجر : قصد تناول الزیادة، کقولک : أخذ النبت في الزّيادة، وعَفَوْتُ عنه : قصدت إزالة ذنبه صارفا عنه، فالمفعول في الحقیقة متروک، و «عن» متعلّق بمضمر، فالعَفْوُ : هو التّجافي عن الذّنب . قال تعالی: فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] ، وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] ، ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة/ 52] ، إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة/ 66] ، فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 159] ، وقوله : خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف/ 199] ، أي : ما يسهل قصده وتناوله، وقیل معناه : تعاط العفو عن الناس، وقوله : وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة/ 219] ، أي : ما يسهل إنفاقه . وقولهم : أعطی عفوا، فعفوا مصدر في موضع الحال، أي : أعطی وحاله حال العافي، أي : القاصد للتّناول إشارة إلى المعنی الذي عدّ بدیعا، وهو قول الشاعر : 324- كأنّك تعطيه الذي أنت سائله «2» وقولهم في الدّعاء : «أسألک العفو والعافية» «3» أي : ترک العقوبة والسّلامة، وقال في وصفه تعالی: إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء/ 43] ، وقوله : «وما أكلت العافية فصدقة» «4» أي : طلّاب الرّزق من طير ووحش وإنسان، وأعفیت کذا، أي : تركته يعفو ويكثر، ومنه قيل : «أعفوا اللّحى» «5» والعَفَاء : ما کثر من الوبر والرّيش، والعافي : ما يردّه مستعیر القدر من المرق في قدره . ( ع ف و ) العفو کے معنی کسی چیز کو لینے کا قصد کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ عفاہ واعتقادہ کسی کے پاس جو کچھ ہے وہ لینے کا قصد کیا عفت الریح الدرا ہوانے گھر کے نشانات مٹادیتے اسی معنی کے لحاظ سے شاعر نے کہا ہے ۔ ( 315 ) اخز البلی ایا تھا پوسید گی نے اس کے نشانات مٹا ڈالے عفت الدار گھر کے نشانات مٹ گئے گویا ان اثارنے ازخود مٹ جانے کا قصد کیا عفا النبت والشجرنباتات اور درخت بڑھ گئے جیسا کہ آخذ النبت فی الذیادۃ کا محاورہ ہے یعنی پودے نے بڑھنا شروع کیا ۔ عفوت عنہ کے معنی ہیں میں نے اس سے درگزر کرتے ہوئے اس کا گناہ متادینے کا قصد کیا ز لہذا یہاں اصل میں اس کا مفعول ترک کردیا گیا ہے اور عن کا متعلق مخذوف ہی یا قصدت ازالتہ ذنبہ سار فا عنہ پس عفو کے معنی گناہ سے درگزر کرنا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ فَمَنْ عَفا وَأَصْلَحَ [ الشوری/ 40] مگر جو درگزر کرے اور معاملہ کو درست کرلے وَأَنْ تَعْفُوا أَقْرَبُ لِلتَّقْوى [ البقرة/ 237] اور اگر تم ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیز گاری کی بات ہے ۔ ثُمَّ عَفَوْنا عَنْكُمْ [ البقرة/ 52] ، پھر اس کے بعد ہم نے تم کو معاف کردیا ۔ إِنْ نَعْفُ عَنْ طائِفَةٍ مِنْكُمْ [ التوبة/ 66] اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں ۔ فَاعْفُ عَنْهُمْ [ آل عمران/ 159] تو ان کی خطائیں معاف کردو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ خُذِ الْعَفْوَ [ الأعراف/ 199]( اے محمد ) عفو اختیار کرو میں العفو ہر اس چیز کو کہا گیا جس کا قصد کرنا اور لینا آسان ہو ۔ اور بعض نے اس کے معنی کئے ہیں درگزر کیجئے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَيَسْئَلُونَكَ ماذا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ [ البقرة/ 219] ( اے محمد ) لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ خدا کی راہ میں کس طرح کا مال خرچ کریں کہہ دو جو مال خرچ کرو ۔ میں عفو سے ہر وہ چیز مراد ہے جو ضروریات سے زائد ہو اور اس کے خرچ سے تکلیف نہ ہو اور اعطی عفوا اس نے اسے بےمانگے دے دیا یہاں عفوا مصدر اسم فاعل کے معنی میں ہے اور حال واقع ہوا ہے یعنی بخشش کرتے وقت اس کی حالت یہ تھی کہ گویا خود لے رہا ہے اور اس میں اس عمدہ معنی کی طرف اشارہ ہے جسے شاعر نے بیان کرتے ہوئے کہا ہے ( الطویل ) ( 316 ) کانک تعطیہ الذی انت سائلہ یعنی جب سائل اس کے پاس آتا ہے تو اس طرح خوش ہوتا ہے گویا جو چیز تم اس سے لے رہے ہو وہ اسے دے رہے ہو ۔ اور دعائے ماثورہ میں ہے ( 43 ) اسئلک العفو والعافیتہ یعنی اے اللہ تجھ سے عفو اور تندرستی طلب کرتا ہوں اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو عفو کہا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّ اللَّهَ كانَ عَفُوًّا غَفُوراً [ النساء/ 43] بیشک خدا معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے ۔ اور حدیث میں ہے ( 44 ) مااکلکت العافیتہ فھو صدقتہ یعنی کھیتی سے جو کچھ پرندہ چرندا اور ضرورت مند انسان کھا جائیں وہ وہ صدقہ ہے ،۔ اعفیت کذا یعنی میں نے اسے بڑھنے دیا اسی سے اعفوا الحیي ہے ( 45 ) یعنی ڈاڑھی کے بال بڑھنے دو ۔ العفاء اون یا پرند کے پر جو بڑھ جائیں اور کسی سے دیگ مستعار لینے والا جو شوربہ اس کی دیگ میں اسے بھیجتا ہے اس شوربہ کو المعافی کہا جاتا ہے ۔ صفح صَفْحُ الشیءِ : عرضه وجانبه، كَصَفْحَةِ الوجهِ ، وصَفْحَةِ السّيفِ ، وصَفْحَةِ الحَجَرِ. والصَّفْحُ : تركُ التّثریب، وهو أبلغ من العفو، ولذلک قال : فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ [ البقرة/ 109] ، وقد يعفو الإنسان ولا يَصْفَحُ. قال : فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] ، فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] ، أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] ، وصَفَحْتُ عنه : أولیته مني صَفْحَةٍ جمیلةٍ معرضا عن ذنبه، أو لقیت صَفْحَتَهُ متجافیا عنه، أو تجاوزت الصَّفْحَةَ التي أثبتّ فيها ذنبه من الکتاب إلى غيرها، من قولک : تَصَفَّحْتُ الکتابَ ، وقوله : إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] ، فأمر له عليه السلام أن يخفّف کفر من کفر کما قال : وَلا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ [ النحل/ 127] ، والمُصَافَحَةُ : الإفضاء بِصَفْحَةِ الیدِ. ( ص ف ح ) صفح ۔ کے معنی ہر چیز کا چوڑا پہلو یا جانب کے مثلا صفحۃ السیف ( تلوار کا چوڑا پہلو ) صفحتہ الحجر ( پتھر کی چوڑی جانب وغیرہ ۔ الصفح ۔ ( مصدر ) کے معنی ترک ملامت اور عفو کے ہیں مگر یہ عفو سے زیادہ بلیغ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ : فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ [ البقرة/ 109] تو تم معاف کرو داور درگزر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا دوسرا حکم بھیجے ۔ میں عفو کے بعد صفح کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ بعض اوقات انسان عفو یعنی درگزر تو کرلیتا ہے لیکن صفح سے کا م نہیں لیتا یعنی کسی سے اس قدر درگزر کرنا کہ اسے مجرم ہی نہ گروانا جائزنیز فرمایا : فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلامٌ [ الزخرف/ 89] اس لئے درگذر کرو اور اسلام کہہ دو ۔ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] تو تم ان سے اچھی طرح درگزر کرو ۔ أَفَنَضْرِبُ عَنْكُمُ الذِّكْرَ صَفْحاً [ الزخرف/ 5] بھلا اس لئے کہ تم حد سے نکلے ہوئے لوگ ہو ہم تم کو نصیحت کرنے سے باز رہیں گے ۔ صفحت عنہ (1) میں نے اس سے درگذر کرتے ہوئے اسے صفح جمیل کا والی بنایا یعنی اسکے جرم سے کلیۃ اعراض برتا (2) اس سے دور ہوتے ہوئے ایک جانب سے ملا (3) میں نے کتاب کے اس صفحہ سے تجاوز کیا جس میں اس کا جرم لکھ رکھا تھا ۔ اس صورت میں یہ تصفحت الکتاب سے ماخوذ ہوگا ۔ جس کے معنی کتاب کے صفحات کو الٹ پلٹ کردیکھنے کے ہیں قرآن میں ہے : إِنَّ السَّاعَةَ لَآتِيَةٌ فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِيلَ [ الحجر/ 85] اور قیامت توضرور آکر رہے گی لہذا تم ( ان سے ) ا چھی طرح سے درگذر کرو ۔ اس آیت میں آنحضرت کو حکم دیا گیا ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے غم کھانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : وَلا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ [ النحل/ 127] اور ان کے بارے میں غم نہ کرو اور جو یہ بد اندیش کر رہے ہیں اس سے تنگ دل نہ ہو ۔ المصافحۃ مصافحہ کرنا ۔ ہاتھ ملانا ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

غریب رشتہ دار کی اعانت نہ چاہتے ہوئے بھی جاری رہے قول باری ہے : (ولا یاتل اولوا الفضل منکم والسعۃ ان یوتوا اولی القربیٰ ) تم میں سے جو لوگ صاحب فضل اور صاحب مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھا بیٹھیں کہ اپنے رشتہ داروں کی مدد نہیں کریں گے۔ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت عائشہ (رض) سے مروی ہے کہ اس آیت کا نزول حضرت ابوبکر (رض) اور ان کے زیر پرورش دو یتیموں کے سلسلے میں ہوا تھا ۔ حضرت ابوبکر (رض) ان کی کفالت کرتے تھے ان میں سے ایک کا نام مسطح بن اثاثہ تھا۔ ان دونوں نے بھی حضرت عائشہ (رض) پر بہتان طرازی کی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ (رض) کی برات نازل فرمادی تو…… حضرت ابوبکر (رض) نے ان دونوں کی معاونت سے دست کشی کی قسم کھائی لیکن جب یہ آیات نازل ہوئی تو آپ نے قسم توڑ کر ان ک پھر سے کفالت شروع کردی اور فرمایا ” بخدا، میں ضرور یہ چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری بخشش کردے ، بخدا میں کبھی بھی ان کی کفالت سے دست کش نہیں ہوگا۔ “ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص کسی چیز کی قسم کھا بیٹھے اور دوسری چیزیں اسے زیادہ بھلائی نظر آئے تو اس کے لئے مناسب ہی ہے کہ وہ اپنی قسم ترک کرکے اس زیادہ بھلائی والے رویے کو اپنا لے ۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آپ کا یہ ارشاد منقول ہے۔ (من حلف علی یمین فرای غیرھا خیراً منھا فلیات الذی ھو خیر والیکفر عن یمینہ۔ ) جس شخص نے کسی بات کی قسم کھائی ہو اور پھر اسے دوسری بات میں زیادہ بھلائی نظر آئے تو وہ اپنی قسم کو ترک کرکے اس زیادہ بھلائی والی بات کو اختیار کرلے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردے۔ بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ زیادہ بھلائی کی بات اختیار کرلینا ہی اس کی قسم کا کفارہ ہے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس طرح کا ارشاد بھی مروی ہے۔ یہ حضرات آیت زیر بحث کے ظاہر سے استدلال کرتے ہیں نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر (رض) کو اپنی قسم توڑ دینے کا حکم توڑ دینے کا حکم دیا لیکن ان پر کفارہ واجب نہیں کیا۔ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ ان حضرات نے جو بات بیان کی ہے اس میں کفارہ کے منقوط پر کوئی دلالت موجود نہیں ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد (ولکن یواخذکم بما عقدتم الایمان فکفارتہ ) لیکن اللہ تعالیٰ تم سے ان قسموں کے متعلق ضرور مواخذہ کرے گا جن کی گرہ تم نے باندھ لی ہو اس کا کفارہ یہ ہے…میں کفارہ کے ایجاب کو واضح طور سے بیان فرمادیا ہے۔ نیز ارشاد ہے : (ذلک کفارۃ ایمانکم اذا حلفسم ) یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسمیں کھائو۔ اس حکم میں ان تمام لوگوں کے لئے عموم ہے جو قسمیں کھا کر پھر توڑ دیں خواہ یہ قسمیں خیر کی ہوں یا اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب (علیہ السلام) کو جب انہوں نے اپنی بیوی کو پیٹنے کی قسم کھالی۔ حکم دیا (وخذبیدک ضغثا فاضرب بہ ولا تحنث) اور اپنے ہاتھ میں گھاس کا ایک مٹھا پکڑ کر اس سے ضرب لگا دو اور اپنی قسم نہ توڑو۔ ہمیں معلوم ہے کہ قسم توڑ دینا قسم نہ توڑنے سے بہتر تھا اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ ایسی ضرب لگائو جو جسم پر کوئی نشان نہ ڈالے۔ اگر قسم توڑنا ہی کفارہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ حضرت ایوب (علیہ السلام) کو یہ حکم نہ دیتا کہ اپنی بیوی کے جسم پر ہلکی سی ضرب لگادو بلکہ کفارہ کے بغیر ہی آپ اپنی قسم توڑ دیتے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : (من حلف علی یمین فرای غیرھا خیرا منھا فلیات الذی ھو خیر وذلک کفارتہ) جو شخص کسی چیز کی قسم کھا بیٹھے اور پھر اسے دوسری چیزیں زیادہ بھلائی نظر آئے تو وہ اس چیز کو اختیار کرلے جس میں زیادہ بھلائی ہے اور یہی اس کی قسم کا کفارہ ہوگا۔ اس ارشاد میں کفارہ سے قسم کا کفارہ مراد نہیں ہے جس کا ذکر اللہ کی کتاب میں ہے بلکہ تکفیر ذنوب مراد ہے یعنی قسم کھانے والا جب یہ رویہ اختیار کرلے گا تو یہی چیز اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔ یہ اس لئے کہ اللہ کی ترک طاعت پر قسم کھانے سے مسلمانوں کو منع کیا گیا ہے اور حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسے قسم توڑنے اور توبہ کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ بتادیا ہے کہ قسم کھانے کی بنا پر اس نے جو گناہ کمایا تھا اگر قسم توڑ کر توبہ کرلے گا تو یہ چیز اس کے گناہ کا کفارہ بن جائے گی۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢) آیات برأت ہونے کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے شدت غیظ میں قسم کھالی تھی کہ اپنے ان رشتہ داروں کی کچھ مالی امداد نہ کریں گے جنہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے اس معاملہ میں حصہ لیا یعنی مسطح وغیرہ تو اگلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ ان کو مخاطب کرکے فرماتا ہے کہ تم میں سے جو حضرات بزرگی و شرافت والے اور دنیاوی وسعت والے ہیں ان کو یہ قسم نہیں کھانی چاہیے کہ وہ قرابت داروں کو اور مساکین کو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو کچھ نہیں دیں گے اور حضرت مسطح (رض) حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے خالہ زاد بھائی تھے مسکین بھی تھے اور مہاجر بھی تھے بلکہ وہ لوگ ایسی قسموں کو چھوڑ دیں اور درگزر کریں اے ابوبکر صدیق (رض) کیا تم یہ نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصور معاف کرے اور اللہ تعالیٰ تو بڑا غفور رحیم ہے، حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے فرمایا بیشک اے میرے پروردگار میں اس بات کو پسند کرتا ہوں چناچہ اس آیت کے نزول کے بعد حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ بہت زیادہ نرمی اور احسان کا معاملہ شروع کردیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُولِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُہٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِص) ” یہاں فضیلت اور کشادگی کے روحانی اور مادی دونوں پہلو مراد ہیں ‘ یعنی وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے ایمان ‘ نیکی اور مال و دولت میں فضیلت دے رکھی ہے۔ اس آیت میں اشارہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی طرف ہے۔ بدقسمتی سے آپ (رض) کے ایک قریبی عزیز مسطح بن اثاثہ بھی مذکورہ بہتان کی مہم میں شریک ہوگئے تھے۔ وہ انتہائی غریب اور نادار تھے۔ آپ (رض) ان کے خاندان کی کفالت کرتے اور ہر طرح سے ان کی ضروریات کا خیال رکھتے تھے۔ حضرت ابوبکرصدیق (رض) ان کے اس رویے سے بہت رنجیدہ ہوئے کہ اس شخص نے نہ رشتہ داری کا لحاظ کیا ‘ نہ میرے احسانات کوّ مد نظر رکھا اور بغیر سوچے سمجھے میری بیٹی پر بہتان لگانے والوں کے ساتھ شریک ہوگیا۔ چناچہ آپ (رض) نے غصے میں آکر قسم کھالی کہ آئندہ میں اس شخص کی بالکل کوئی مدد نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ (رض) کی اس قسم پر گرفت فرمائی کہ اس شخص سے جو غلطی ہوئی سو ہوئی ‘ لیکن آپ (رض) تو بھلائی اور احسان کی روش ترک کرنے کی قسم مت کھائیں ! یہ رویہّ کسی طرح بھی آپ (رض) کی فضیلت و مرتبت کے شایان شان نہیں۔ (اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ) ” خطا تو کسی بھی شخص سے ہوسکتی ہے۔ تم سب لوگ خطائیں کرتے ہو اور اللہ تمہاری خطاؤں کو معاف کرتا رہتا ہے۔ اگر تم لوگ اپنے لیے یہ پسند کرتے ہو کہ اللہ تمہاری خطائیں معاف کر دے تو پھر تمہیں بھی چاہیے کہ تم دوسروں کی خطاؤں کو معاف کردیا کرو۔ روایات میں آتا ہے کہ یہ آیت سنتے ہی حضرت ابوبکر (رض) نے بےساختہ کہا : بَلٰی وَاللّٰہِ اِنَّا نُحِبُّ اَنْ تَغْفِرَلَنَا یَارَبَّنَا ” کیوں نہیں ! اللہ کی قسم ‘ اے ہمارے پروردگار ! ہم ضرور یہ پسند کرتے ہیں کہ تو ہمیں معاف کر دے “۔ چناچہ انہوں نے فوری طور پر اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا اور حضرت مسطح (رض) سے پہلے کی طرح بھلائی اور احسان کا رویہ اختیار کرنے لگے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

20. Aishah has stated that after the revelation of (verses 11- 21 )absolving her from the accusation, Abu Bakr swore that he would no longer support Mistah bin Uthatha. This was because the man had shown absolutely no regard for the relationship, nor for the favors that Abu Bakr had all along been showing him and his family. At this (verse 22 )was revealed and Abu Bakr, on hearing it, immediately said: By God, we do want that Allah should forgive us. Consequently he again started to help Mistah and in a more liberal manner than before. According to Abdullah bin Abbas, some other companions, besides Abu Bakr, also had sworn that they would discontinue helping those who had taken an active part in the slander. After the revelation of this verse, all of them revoked their oaths and the ill-will that had been created by the mischief was gone. Here a question may arise as to whether a person, who swears for something and later on revokes the oath on finding that there was no good in it and adopts a better and more virtuous course, should offer expiation for breaking the oath or not. One group of the jurists is of the opinion that adoption of the virtuous course itself is the expiation and nothing more needs to be done. They base their argument on this verse where Allah commanded Abu Bakr to revoke his oath but did not require him to atone for it. They also cite a tradition of the Prophet (peace be upon him) in support of their argument, saying: lf anybody takes an oath for something and later on finds that another course is better and adopts it, his adoption of a better course by itself is the atonement for breaking the oath. The other group is of the view that there is a clear commandment in the Quran concerning the breaking of oath (Surah Al-Baqarah, Ayat 225), and (Surah Al-Maidah, Ayat 89), which has neither been abrogated by this verse nor clearly amended. Therefore the earlier commandment stands. No doubt, Allah commanded Abu Bakr to revoke his oath but He did not tell him that expiation was not necessary. As regards to the tradition of the Prophet (peace be upon him), it only means this that the sin of taking an oath for a wrong thing is wiped out when the right course is adopted; it does not absolve one from making expiation for the oath itself. Another tradition of the Prophet (peace be upon him) clarifies this view. He said: Whoso swears for something and then finds that another course is better than the one he had sworn for, he should adopt the better course and atone for his oath. This shows that expiation for breaking one’s oath and expiation of the sin for not doing good are different things. The expiation for the first is to adopt the right course, and for the second the same as has been laid down in the Quran. For further explanation, see (E.N. 46 of Surah Suad).

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :20 حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مذکورہ بالا آیتوں میں جب اللہ تعالیٰ نے میری برأت نازل فرما دی تو حضرت ابوبکر نے قسم کھا لی کہ وہ آئندہ کے لیے مسطح بن اُثاثہ کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیں گے ، کیونکہ انہوں نے نہ رشتہ داری کا کوئی لحاظ کیا اور نہ ان احسانات ہی کی کچھ شرم کی جو وہ ساری عمر ان پر اور ان کے خاندان پر کرتے رہے تھے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اس کو سنتے ہی حضرت ابوبکر نے فوراً کہا :بلیٰ واللہ انا نحب ان تغفرلنا یا ربنا ، واللہ ضرور ہم چاہتے ہیں کہ اے ہمارے رب تو ہماری خطائیں معاف فرمائے ۔ چنانچہ آپ نے پھر مسطح کی مدد شروع کر دی اور پہلے سے زیادہ ان پر احسان کرنے لگے ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس کی روایت ہے کہ یہ قسم حضرت ابوبکر کے علاوہ بعض اور صحابہ نے بھی کھالی تھی کہ جن جن لوگوں نے اس بہتان میں حصہ لیا ہے ان کی وہ کوئی مدد نہ کریں گے ۔ اس آیت کے نزول کے بعد ان سب نے اپنے عہد سے رجوع کر لیا ۔ اس طرح وہ تلخی آناً فاناً دور ہو گئی جو اس فتنے نے پھیلا دی تھی ۔ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بات کی قسم کھا لے ، پھر بعد میں اسے معلوم ہو کہ اس میں بھلائی نہیں ہے اور وہ اس سے رجوع کر کے وہ بات اختیار کر لے جس میں بھلائی ہے تو آیا اسے قسم توڑنے کا کفارہ ادا کرنا چاہیے یا نہیں ۔ فقہاء کا ایک گروہ کہتا ہے کہ بھلائی کو اختیار کر لینا ہی قسم کا کفارہ ہے ، اس کے سوا کسی اور کفارے کی ضرورت نہیں یہ لوگ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر کو قسم توڑ دینے کا حکم دیا اور کفارہ ادا کرنے کی ہدایت نہیں فرمائی ۔ اس کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو بھی وہ دلیل میں پیش کرتے ہیں کہ : من حلف علیٰ یمین فوأی غیرھا خیرا منھا فلیات الذی ھو خیر و ذٰلک کفارتہ ۔ ( جو شخص کسی بات کی قسم کھا لے ، پھر اسے معلوم ہو کہ دوسری بات اس سے بہتر ہے تو اسے وہی بات کرنی چاہیے جو بہتر ہے اور یہ بہتر بات کو اختیار کر لینا ہی اس کا کفارہ ہے ) ۔ دوسرا گروہ کہتا ہے قسم توڑنے کے لیے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ایک صاف اور مطلق حکم فرما چکا ہے ( البقرہ ، آیت 225 المائدہ ، آیت 89 ) جسے اس آیت نے نہ تو منسوخ ہی کیا ہے اور نہ صاف الفاظ میں اس کے اندر کوئی ترمیم ہی کی ہے ۔ اس لیے وہ حکم اپنی جگہ باقی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قسم توڑ دینے کے لیے تو ضرور فرمایا ہے مگر یہ نہیں فرمایا کہ تم پر کوئی کفارہ واجب نہیں ہے ۔ رہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد تو اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایک غلط یا نامناسب بات کی قسم کھا لینے سے جو گناہ ہوتا ہے وہ مناسب بات اختیار کر لینے سے دھل جاتا ہے ۔ اس ارشاد کا مقصد کفارہ قسم کو ساقط کر دینا نہیں ہے ، چنانچہ دوسری حدیث اس کی توجیہ کر دیتی ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :من حلف الیٰ یمین فرّی غیرھا خیر منھا فلیات الذی ھو خیر و لیکفر عن یمینہ ( جس نے کسی بات کی قسم کھا لی ہو ، پھر اسے معلوم ہو کہ دوسری بات اس سے بہتر ہے ، اسے چاہیے کہ وہی بات کرے جو بہتر ہے اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کر دے ) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ قسم توڑنے کا کفارہ اور چیز ہے اور بھلائی نہ کرنے کے گناہ کا کفارہ اور چیز ۔ ایک چیز کا کفارہ بھلائی کو اختیار کر لینا ہے اور دوسری چیز کا کفارہ وہ ہے جو قرآن نے خود مقرر کر دیا ہے ۔ ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہم القرآن ، جلد چہارم ، تفسیر سورہ ص ، حاشیہ 46 )

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

13: جو دو تین مخلص مسلمان اپنی سادہ لوحی سے منافقوں کے پروپیگنڈے کا شکار ہوگئے تھے، ان میں سے ایک مسطح بن اثاثہ رضی اﷲ عنہ بھی تھے جو مہاجر صحابی تھے، اور حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ کے رشتہ دار بھی تھے۔ حضرت صدیق اکبرؓ اُن کی مالی مدد فرمایا کرتے تھے۔ جب ان کو پتہ چلا کہ مسطح رضی اﷲ عنہ نے بھی حضرت عائشہؓ کے خلاف ایسی باتیں کی ہیں، تو انہوں نے قسم کھالی کہ میں آئندہ اُن کی مالی مدد نہیں کروں گا، حضرت مسطحؓ سے غلطی ضرور ہوگئی تھی، لیکن پھر انہوں نے سچے دِل سے توبہ بھی کرلی تھی، اِس لئے اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں متنبہ فرمایا کہ اُن کی مالی مدد نہ کرنے کی قسم کھانا ٹھیک نہیں ہے۔ جب اُنہوں نے توبہ کرلی ہے تو اُن کو معاف کردینا چاہئے۔ چنانچہ حضرت صدیق اکبر رضی اﷲ عنہ نے اس آیت کے نزول کے بعد ان کی مالی امداد دوبارہ جاری کردی، اپنی قسم کا کفارہ ادا کیا، اور فرمایا کہ آئندہ کبھی اِس امداد کو بند نہیں کروں گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٢:۔ تفسیر ابن ابی حاتم ‘ تفسیر ابن منذر وغیرہ میں حضرت عائشہ (رض) اور بعضے اور سلف کے قول کے موافق اس آیت کی جو شان نزول بیان کی گئی ٣ ؎ ہے ‘ اس کا حاصل یہ ہے کہ جب حضرت عائشہ (رض) اور صفوان (رض) پر جھوٹا بہتان لگانے والوں کے نام معلوم ہوگئے ان میں حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے بھانجے مسطح بن اثاثہ کی شرکت بھی پائی گئی تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے قسم کھالی کہ اب تک وہ مسطح کے ساتھ جو سلوک کیا کرتے تھے ‘ آئندہ اس سے ہاتھ روک لیں گے ‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور فرمایا ‘ خوشحال لوگوں کو یہ قسم نہ کھانی چاہیے کہ وہ غریب مہاجر رشتہ داروں کے سلوک سے آئندہ ہاتھ روک لیں گے بلکہ ان خوش حال لوگوں کو درگزر کے طور پر اپنے رشتہ داروں کا قصور معاف کر کے حسب دستور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا اور اس نیک کام کے بدلہ میں بارگاہ الٰہی سے مغفرت کا دل میں اعتقاد رکھنا چاہیے کیونکہ اللہ غفور الرحیم ہے وہ کسی کے نیک کام کے اجر کو ضائع نہیں کرنا چاہتا صحیح ابن خزیمہ ‘ مستدرک حاکم اور طبرانی میں ام کلثوم بنت عقبہ سے روایت ٤ ؎ ہے جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو رشتہ دار آدمی کے ساتھ برائی سے پیش آویں اور اس پر بھی آدمی ان رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرے تو ایسے سلوک کا بڑا اجر ہے حاکم نے مسلم کی شرط پر اس حدیث کو صحیح کہا ہے ‘ صحیح بخاری ومسلم میں عبد الرحمن بن سمرہ ٥ ؎ سے روایت ہے ‘ جس میں اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ‘ جو شخص کسی بات پر قسم کھا لیوے اور قسم کھا لینے کے بعد قسم والی بات سے بہتر کوئی بات اس کو نظر آئے تو ایسے شخص کو چاہئے کہ قسم کا کفارہ دے کر اس بہتر بات پر عمل کرے ‘ ان حدیثوں کو آیت کے ساتھ ملانے سے یہ مطلب ہو کہ اگرچہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) اور ان کے بھانجے مسطح (رض) کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی ہے لیکن ہر ایماندار شخص کے حق میں حکم یہی ہے کہ برائی سے پیش آنے والے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آوے کیونکہ شریعت میں اس کا بڑا اجر ہے اور کسی بات پر قسم کھا لینے کے بعد قسم والی بات سے بہتر کوئی بات نظر آجاوے تو قسم کھانے والے شخص کو چاہیے کہ قسم کا کفارہ دے کر اس بہتر بات کے موافق عمل کرے ‘ فتح مکہ کے وقت جو لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے ‘ یہ عبد الرحمن بن سمرہ ان صحابہ میں ہیں ‘ اسلام سے پہلے ان کا نام عبد کلال تھا ‘ سجستان ان ہی کے ہاتھ پر فتح ہوا ہے ‘ زیادہ سکونت ان کی بصرہ کی ہے۔ صحاح کی سب کتابوں میں ان کی روایتیں ہیں ‘ تفسیر ابن ابی حاتم اور تفسیر ابن منذر کی روایتوں کے معتبر ہونے کا حال اس تفسیر میں ایک جگہ بیان کردیا گیا ہے ‘ اس لیے اوپر کی شان نزول کی روایت معتبر ہے۔ (٣ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٣٤ ج ٥ ) (٤ ؎ الترغیب والترہیب ص ٣٢٤١ ج ٣ ) ٥ ؎ مشکوٰۃ ص ٢٩٦ باب الایمان والنذور )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:22) لا یاتل۔ فعل نہی واحد مذکرغائب۔ (جمع کے معنی میں استعمال ہوا ہے) ایتلاء (باب افتعال) اصل یا تلی تھا لا کے آنے سے آخری حرف محرک ساکن ہوگیا۔ لام کے سکون سے ی گرگئی ی کی رعایت سے لام کا کسرہ بحال ہوگیا۔ لا یاتل وہ قسم نہ کھا لیں۔ الوۃ۔ الیۃ اور الی قسم۔ اولوا الفضل۔ اولوا السعۃ۔ ای الزیادۃ فی الدین والزیادۃ فی المال۔ جو دین میں بلند مرتبہ کے مالک ہیں اور جو مال و دولت میں وسعت رکھتے ہیں۔ ان یؤتوا۔ ای علی ان لا یؤتوا۔ اوکراھۃ ان یؤتوا۔ (اس بات کی قسم کہ) وہ نہ دیں گے۔ یا دینے میں کراہت محسوس کریں۔ لیعفوا۔ فعل امر۔ جمع مذکر غائب۔ عفو سے۔ چاہیے کہ وہ معاف کردیں۔ ولیصفحوا۔ فعل امر جمع مذکر غائب صفح مصدر (باب فتح) چاہیے کہ وہ درگذر کریں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ جن لوگوں نے حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگائی یا اسے ہوا دی، ان میں ایک شخص مسطح بن اثاثہ تھا جو حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خالہ زاد بہن کا بیٹا تھا اور چونکہ غریب اور اللہ کی راہ میں مہاجر تھا اس لئے حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے اس کی کفالت اپنے ذمے لے رکھی تھی۔ جب اوپر کی آیات میں عائشہ (رض) کی برأت نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے قسم کھالی کہ وہ آئندہ سے اس کی مدد سے ہاتھ کھینچ لی گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اسے سنتے ہی حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے کہا۔ ” واللہ ہم ضرور چاہتے ہیں کہ اے رب ہمارے تو ہماری خطائوں کو معاف فرما دے “۔ چناچہ آپ (رح) نے مسطح کی پھر سے مدد کرنا شروع کردی اور فرمایا۔ اللہ کی قسم ! اب میں کبھی اس کی مدد سے ہاتھ نہیں کھینچونگا “۔ فلھذا کان الصدیق ھو الصدیق (رض) و عن بنتہ (ابن کثیر)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ سو تم کو بھی تخلق باخلاق اللہ چاہئے، تم بھی اپنے قصور داروں کو معاف کردو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سورة النور کا مرکزی عنوان اخلاق ہے اور اخلاق کا یہ تقاضا ہے کہ اگر کسی کو غریب سمجھ کر اس کے ساتھ تعاون کیا جائے تو ذاتی رنجش کی بنیاد پر اس کے ساتھ تعاون ترک نہیں کرنا چاہیے۔ سیدہ عائشہ (رض) پر تہمت لگانے والوں کے ہم زبان ہونے والے صحابہ میں حضرت مسطح (رض) بھی شامل تھے حضرت مسطح سیدنا صدیق (رض) کے قریبی رشتہ دار تھے۔ مفلس تھے جس کی وجہ سے سیدنا حضرت ابوبکر صدیق (رض) ان کے ساتھ مسلسل مالی تعاون کیا کرتے تھے۔ جب انہوں نے صدیقہ کائنات (رض) پر تہمت لگانے والوں کا ساتھ دیا تو حضرت ابوبکرصدیق (رض) نے قسم اٹھائی کہ آئندہ اس شخص کے ساتھ تعاون نہیں کروں گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا جن کو اللہ تعالیٰ نے وسائل کی کشادگی عطا فرمائی ہے ان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں، مسکینوں اور مہاجرین کی مدد کرنے سے انکار کریں انہیں معافی اور درگزر سے کام لینا چاہیے۔ اے مسلمانو ! کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف کر دے ؟ اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا نہایت مہربان ہے۔ جونہی یہ فرمان نازل ہوا حضرت ابوبکرصدیق (رض) نے اس بات کا اظہار کیا کہ کیوں نہیں میں تو اللہ تعالیٰ کی بخشش کا طلبگار ہوں اس کے ساتھ ہی حضرت مسطح کے ساتھ تعاون جاری رکھنے کا عہد فرمایا۔ (عَنْ سَہْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِیہِ عَنْ رَسُول اللَّہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہُ قَالَ أَفْضَلُ الْفَضَاءِلِ أَنْ تَصِلَ مَنْ قَطَعَکَ وَتُعْطِیَ مَنْ مَنَعَکَ وَتَصْفَحَ عَمَّنْ شَتَمَکَ ) [ رواہ احمد : مسند سہل بن معاذ بن انس ] حضرت سہل بن معاذ بن انس اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا فضائل میں سے یہ سب سے بڑی فضیلت والی یہ بات ہے کہ تو اس کے ساتھ صلہ رحمی کرے جو تجھ سے قطع تعلق کرتا ہے۔ تو اسے دے جو تجھے دینے سے انکاری ہے اور اس سے درگزر کرے جو تجھے گالی گلوچ دیتا ہے۔ “ (الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ) [ آل عمران : ١٣٤] ” وہ لوگ جو خوشحالی اور تنگی دستی میں خرچ کرتے ہیں اور غصے کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کردیتے ہیں ایسے نیکو کاروں کو اللہ پسند کرتا ہے۔ “ مسائل ١۔ مخیر حضرات کو ذاتی رنجش کی بناء پر مستحق لوگوں کے ساتھ تعاون ترک نہیں کرنا چاہیے۔ ٢۔ رشتہ دار، مساکین اور مہاجرین کے ساتھ تعاون کرتے رہنا چاہیے۔ ٣۔ مخلص مسلمان سے غلطی سرزد ہوجائے تو اسے معاف کردینا چاہیے۔ ٤۔ لوگوں کو معاف کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ معاف کرتا ہے۔ تفسیر بالقرآن زیادتی کرنے والوں کو معاف اور درگزر کرنا : ١۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زیادتی کرنے والوں کے ساتھ درگزر کیجئے۔ ( الاعراف : ١٩٩) ٢۔ اگر تم پسند کرتے ہو کہ اللہ تم کو معاف کرے تو تم بھی دوسروں کو معاف کردیا کرو۔ ( النور : ٢٢) ٣۔ اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والوں کو پسند فرماتے ہیں۔ ( آل عمران : ١٣٤) ٤۔ درگزر کرنے سے انسان کو تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔ ( البقرۃ : ٢٣٧) ٥۔ آپ انہیں معاف کریں اور درگزر کا رویہّ اختیار کریں حتیٰ کہ اللہ کا حکم آجائے۔ ( البقرۃ : ١٠٩) ٦۔ زیادتی کا بدلہ ہے جو کوئی معاف کر دے اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ ( الشوریٰ : ٤٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(ولا یأتل۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ غفوررحیم) (٢٤ : ٢٢) ” تم میں سے جو لوگ صاحب فضل اور صاحب مقدرت ہیں وہ اس بات کی قسم نہ کھابیٹھیں کہ اپنے رشتہ دار ‘ مسکین اور مہاجر فی سبیل اللہ لوگوں کی مدد نہ کریں گے۔ انہیں معاف کردینا چاہیے اور در گزر کرنا چاہیے۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تمہیں معاف کرے ؟ اور اللہ کی صفت یہ ہے کہ وہ غفور اور رحیم ہے “۔ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اس وقت عائشہ صدیقہ (رض) کی برأت کا اعلان ہوچکا تھا۔ یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ مسطح ابن اثاثہ ان لوگوں میں سے تھا جنہوں نے افک کے معاملے میں با تمہیں کیں۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے قریبی رشتہ دار تھے اور فقرائے مہاجرین میں سے تھے ۔ حضرت ابوبکر صدیق (رض) ان پر خرچ کیا کرتے تھے۔ حضرت نے قسم اٹھا لی کہ وہ آئندہ مسطح کو کوئی فائدہ نہ دیں گے۔ یہ آیت نازل ہوئی۔ حضرت ابوبکر (رض) اور مومنین کو یاد دہانی کرائی گئی کہ وہ خود جب غلطیاں کرتے ہیں تو یہ امید رکھتے ہیں کہ اللہ انہیں معاف کردیں گے تو خود بھی ان میں بعض اگر بعض لوگوں کے بارے میں غلطی کریں تو ان کو معاف کرنا چاہیے۔ اور وہ جو بھلائی بھی کسی کے ساتھ کرتے تھے اسے نہ روکیں اگرچہ اس معاملے میں اس شخص سے غلطی ہوئی ہو۔ یہاں ہمیں پتہ چلتا ہے کہ یہ پاک دل لوگ کس قدر اونچی سطح کے لوگ تھے۔ ان کے دلوں کو نور ربانی نے پاک کردیا تھا۔ حضرت صدیق (رض) کا نفس کس قدر بلند اخلاقی کا نمونہ پیش کرتا ہے کہ اس واقعہ کے متاثرین میں سے وہ نہایت ہی گہرائی کے ساتھ متاثر ہوئے تھے۔ انہوں نے اس بہتان کی تلخیوں کو بہت ہی زیادہ جھیلا تھا۔ جب وہ اپنے رب کی نصیحت سنتے ہیں۔ جب یہ سوال ان کے پردہ وجدان کے ساتھ ٹکراتا ہے۔ (الآ تحبون ان یغفر اللہ لکم) (٢٤ : ٢٢) ” کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ اللہ تمہاری مغفرت کرے “ تو ان کی تمام رنجشیں ختم ہوجاتی ہیں۔ اب قبائلی اور خاندانی سوچ ختم ہوجاتی ہے یہاں تک کہ ان کی روح شفاف اور صاف ہوجاتی ہے۔ ان کے دل کی دنیا روشن ہوجاتی ہے۔ وہ پکار اٹھتے ہیں ہاں میں پسند کرتا ہوں کہ اللہ میرے گناہوں کو بخش دے۔ وہ مسطح کی امداد بحال کردیتے ہیں اور قسم اٹھاتے ہیں کہ جب تک وہ زندہ ہے اسے یہ امداد ملتی رہے گی۔ یہ فیصلہ اس قسم کے بدلے میں ہے کہ میں کبھی اسے کوئی نفع نہ پہنچائوں گا۔ یوں اللہ تعالیٰ اپنے رحم سے ان رنجیدہ دلوں کو جوڑتے ہیں اور اس معرکے کی وجہ سے ان کے اندر جو کدورتیں پیدا ہوگئی تھیں ان کو دھوڑالتے ہیں تاکہ یہ معاشرہ جس طرح پاک اور روشن تھا دوبارہ اسی طرح پاک اور روشن ہوجائے ۔ یہ مغفرت جس کا ذکر کیا گیا ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے غلطی کی اور پھر توبہ کرلی اور آئندہ کے لیے وہ کسی پر الزام لگانے سے رک گئے۔ فحاشی کے پھلانے کا کام انہوں نے چھوڑ دیا۔ رہے وہ لوگ جو اپنی خباثت کی وجہ سے پاک دامن عورتوں پر الزام لگاتے ہیں۔ پھر اس پر اصرار کرتے ہیں مثلاً عبداللہ بن ابی ابن السلول اور اس جیسے دوسرے منافق تو ان کے ساتھ کوئی نرمی نہ ہوگی اور نہ انہیں معاف کیا جائے گا۔ اگر وہ اس دنیا میں قانون حد قذف سے بچ نکلے ۔۔۔ اس وجہ سے کہ ان کے خلاف اسلامی حکومت کے پاس گواہی نہیں ہے۔ آخرت کا عذاب تو ان کے انتظار میں ہے۔ وہاں تو گواہیوں کی ضرورت نہ ہوگی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

دوسری آیت (وَلاَ یَاْتَلِ اُوْلُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ ) میں یہ فرمایا کہ تم میں سے بڑے درجے والے اور وسعت والے ایسی قسمیں نہ کھائیں کہ رشتہ داروں اور مسکینوں اور فی سبیل اللہ ہجرت کرنے والوں پر خرچ نہ کریں گے، پہلے گزر چکا ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) اپنے رشتہ دار مسطح بن اثاثہ پر مال خرچ کیا کرتے تھے جب مسطح نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو تہمت لگانے والے کا ساتھ دیا پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی برأت نازل فرما دی تو حضرت ابوبکر صدیق نے قسم کھالی کہ اب تجھ پر خرچ نہ کروں گا۔ اس پر آیت کریمہ (وَلاَ یَاْتَلِ اُوْلُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ ) (آخر تک) نازل ہوئی۔ تفسیر درمنثور میں حضرت قتادہ سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عفو اور درگزر کا حکم ہوا اور اللہ نے یوں بھی فرمایا (اَلاَ تُحِبُّونَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ ) (کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری مغفرت فرمائے) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر کو بلایا اور انہیں یہ آیت سنائی اور فرمایا (اَلاَ تُحِبُّونَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ ) (کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری مغفرت فرمائے) حضرت ابوبکر نے عرض کیا میں تو ضرور یہ چاہتا ہوں کہ اللہ میری مغفرت فرمائے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ لہٰذا تم معاف کرو درگزر کرو اس پر حضرت ابوبکر (رض) نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم اب تو یہ ضروری بات ہوگئی کہ آج سے پہلے میں جو کچھ مسطح پر خرچ کیا کرتا تھا اسے نہیں روکوں گا وہ بد ستور جاری رہے گا۔ درمنثور میں ایک روایت یہ بھی نقل کی ہے کہ آیت بالا نازل ہونے کے بعد حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت مسطح پر اس سے دو گنا خرچ فرمایا کرتے تھے۔ بعض روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ اگر میں کوئی قسم کھا لوں پھر قسم کی خلاف ورزی کرنے میں خیر دیکھوں تو قسم کا کفارہ دے دوں گا اور جو بہتر کام ہے اسی کو کروں گا۔ درمنثور میں حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ حضرت ابوبکر کے علاوہ اور بھی صحابہ تھے جن لوگوں نے اپنے ان رشتہ داروں کا خرچہ بند کرنے کی قسم کھالی تھی جنہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) پر تہمت لگانے میں کچھ حصہ لیا تھا اللہ تعالیٰ شانہٗ نے سب کو تنبیہ کی اور آیت بالا نازل فرمائی۔ (ج ٥ ص ٣٤، ٣٥) تیسری اور چوتھی اور پانچوں آیت میں پاکدامن عورتوں کو تہمت لگانے والوں کی سزا اور دنیا اور آخرت کی بد حالی کا تذکرہ فرمایا اول تو یہ فرمایا کہ جو لوگ ان عورتوں کو تہمت لگاتے ہیں جو پاک دامن ہیں اور برے کاموں سے غافل ہیں اور مومن ہیں ایسے لوگوں پر دنیا اور آخرت میں لعنت ہے ان پر اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے، پھر فرمایا کہ ان کی بد حرکتوں کا ثبوت قیامت کے دن خود ان کے اپنے اعضاء کی گواہی سے ہوگا۔ قیامت کے دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ پاؤں ان کے خلاف ان کاموں کی گواہی دیں گے جو کام وہ لوگ دنیا میں کیا کرتے تھے، زبان کہے گی اس نے مجھے فلاں فلاں بری باتوں میں استعمال کیا اور ہاتھ پاؤں کہیں گے کہ اس نے ہمیں گناہ گاری کے فلاں فلاں کام میں استعمال کیا۔ یہاں جو یہ اشکال ہوتا ہے کہ سورة یٰسین میں (اَلْیَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰٓی اَفْوَاھِھِمْ ) فرمایا (کہ ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے) اور سورة نور میں فرمایا ہے (یَوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْہِمْ اَلْسِنَتُہُمْ ) فرمایا (کہ ان کی زبانیں گواہی دیں گے) اس میں بظاہر تعارض ہے، اس اشکال میں جواب یہ ہے کہ یہ مختلف اوقات میں ہوگا بعض اوقات میں زبانیں گونگی ہوجائیں گی ان پر مہر لگا دی جائے گی ان پر مہر لگا دی جائے گی کچھ بول نہ سکیں گے پھر بعد میں زبان کو بولنے کی طاقت دیدی جائے گی اور جس کی زبان تھی خود زبان اس کے خلاف گواہی دیگی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ ” ولا یاتل اولوا الفضل الخ “۔ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے حق میں نازل ہوئی۔ مسطح بن اثاثہ (رض) حضرت ابوبکر صدیق کے قریبی رشتہ دار تھے یہ مہاجرین اولین میں سے تھے، ان کی مالی ھالت کمزور تھی۔ حضرت صدیق (رض) حضرت مسطح (رض) کے دینی شرف اور صلہ رحمی کی بناء پر ان کی مالی امداد کیا کرتے تھے واقعہ افک میں مسطح (رض) سے بھی غلطی ہوگئی اور وہ دوسرے گروہ میں شامل تھے جب حضرت عائشہ (رض) کی براءت نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر (رض) نے قسم کھالی کہ آئندہ کے لیے وہ مسطح (رض) پر خرچ نہیں کریں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ بخشش و عطا تو اسباب مغفرت میں سے ہے تم اس کو بند کیوں کرتے ہو، کیا تم مغفرت نہیں چاہتے ہو ؟ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) فورًا بول اٹھے بلی واللہ یا ربنا انا لنحب ان تغفرلنا (روح) اس کے بعد مسطح کا وظیفہ بحال کردیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(22) چنانچہ ارشاد ہوتا ہے اور جو لوگ تم میں سے دینی بزرگی اور بڑے مرتبے والے ہیں اور دنیوی وسعت اور کشائش والے ہیں ان کو یہ نہیں چاہئے کہ وہ قرابت داروں اور محتاجوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کی آئندہ مالی خدمت کرنے سے قسم کھالیں اور قسم کھابیٹھیں کہ آئندہ کوئی امداد نہیں کریں گے بلکہ ان کو چاہئے کہ ایسے لوگوں کا قصورمعاف کردیں اور ان سے درگزر کریں کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری خطائوں کو معاف فرمادے اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ یعنی دین کی بزرگی اور دنیا کی کشائش والوں کو یہ بات نہیں چاہئے کہ وہ مسطح کی مالی امداد سے ہاتھ روک لیں جو قرابت دار بھی ہے مسکین بھی ہے اور مہاجر۔ فی سبیل اللہ بھی ہے ایسے آدمی پر قسم کھا بیٹھیں کہ اس کی امداد نہ کروں گا اگر اس سے کوئی قصور ہوگیا ہے اور وہ باوجودمخلص ہونے کے عائشہ (رض) کے مخالفوں کے ساتھ ہوگیا تو تم کو چاہئے کہ اس سے درگزر کرو اور اس کے قصور معاف کرو کیا تم کو یہ بات پسند نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمہارے قصوروں کو معاف فرمائے۔ چنانچہ یہ سن کر صحابہ (رض) نے کہا بلی یا ربنا انا نحب ہاں ہم اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری تقصیرات کو معاف فرمائے اور جب تم یہ بات پسند کرتے ہو تو تم اپنے عزیزوں کی خطا کیوں نہیں معاف کرتے تم کو چاہئے کہ تم بھی اللہ تعالیٰ کا طریقہ اور اس کی روش اختیار کرو اللہ تعالیٰ غفور بھی ہے اور رحیم بھی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جب طوفان اٹھانے والے جھوٹے پڑے اور ان کو حد ماری گئی اسی 80 کوڑے ان میں دو تین مسلمان تھے ایک شخص مسطح ابوبکر صدیق (رض) کا بھانجہ مفلس یہ اس کی خبر لیتے تھے اب سے قسم کھائی کہ اس کو میں کچھ نہ دوں گا اللہ تعالیٰ نے اس کی سفارش کردی وہ تھا مہاجرین سے اہل بدر کے بڑائی والے کہا صدیق اکبر (رض) کو جوان کی بڑائی نہ مانے اللہ سے جھگڑے پھر انہوں نے قسم کھائی کہ جو دیتا تھا کبھی نہ بند کروں گا۔ 12 خلاصہ ! یہ ہے کہ صدیق اکبر (رض) نے آیت کو سن کر پہلی قسم توڑی اس کا کفارہ دیا اور دوسری قسم کھائی امداد بند نہ کرنے کی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ کمزوروں اور غریبوں کا قصور معاف کرنا اللہ تعالیٰ کی بخشش کا سبب ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کسی نے دریافت کیا یا رسول اللہ اپنے غلام کا دن رات میں کتنی مرتبہ قصور معاف کردیا کروں۔ فرمایا ستر 70 بار۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ قسم کھا کر توڑ دینا افضل معلوم ہو تو قسم توڑ کر کفاروہ دیدے۔ یہ کفارہ بھی موجب اجر ہے۔ حضرت صدیق (رض) کی فضیلت اور آپ کا افضل ہونا بھی ثابت ہوا۔ اسی لئے شاہ صاحب (رح) نے فرمایا کہ جو ان کی بزرگی کا انکار کرے وہ اللہ تعالیٰ سے جھگڑے۔ شاہ صاحب (رح) کا اشارہ ان لوگوں کی طرف ہے جو معاذ اللہ صدیق اکبر (رض) کی تنقیص کرتے ہیں عفو و درگزر کے بارے میں کسی نے کیا خوب کہا ہے۔ من کان یرجوا عفو من فوقہ فلیعف عن ذنب الذی دونہ اللہ تعالیٰ جن کو اولو الفضل فرمائے ان کے فضل کا کیا ٹھکانا ہے۔ لایعرف الفضل لاھل الفضل الا اولوا الفضل۔ صاحب فضل ہی اہل فضل کو جانتا ہے ایک فارسی کے شاعر نے کیا خوب فرمایا ہے یہ شاعر غالباً حکیم سنائی ہیں۔ بود چنداں کرامت و فضلش کہ اولو الفضل خواند ذوالفضلش صورت و سیرتش ہمہ جان بود زاں زچشم عوان پنہاں بود روز و شب سال و ماہ درہمہ کار ثانی اثنین اذہمانی الغار