The Goodness of `A'ishah because She is married to the best of Mankind
Allah says,
الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ
...
Bad statements are for bad people and bad people for bad statements. Good statements are for good people and good people for good statements:
Ibn Abbas said,
"Evil words are for evil men, and evil men are for evil words; good words are for good men and good men are for good words. This was revealed concerning A'ishah and the people of the slander."
This was also narrated from Mujahid, Ata', Sa`id bin Jubayr, Ash-Sha`bi, Al-Hasan bin Abu Al-Hasan Al-Basri, Habib bin Abi Thabit and Ad-Dahhak, and it was also the view favored by Ibn Jarir.
He interpreted it to mean that evil speech is more suited to evil people, and good speech is more suited to good people. What the hypocrites attributed to A'ishah was more suited to them, and she was most suited to innocence and having nothing to do with them.
Allah said:
...
أُوْلَيِكَ مُبَرَّوُونَ مِمَّا يَقُولُونَ
...
such (good people) are innocent of (every) bad statement which they say;
Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said,
"Evil women are for evil men and evil men are for evil women, and good women are for good men and good men are for good women."
This also necessarily refers back to what they said, i.e., Allah would not have made A'ishah the wife of His Messenger unless she had been good, because he is the best of the best of mankind. If she had been evil, she would not have been a suitable partner either according to His Laws or His decree.
Allah said:
...
أُوْلَيِكَ مُبَرَّوُونَ مِمَّا يَقُولُونَ
...
such are innocent of (every) bad statement which they say;
meaning, they are remote from what the people of slander and enmity say.
...
لَهُم مَّغْفِرَةٌ
...
for them is forgiveness,
means, because of the lies that were told about them,
...
وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
and honored provision.
meaning, with Allah in the Gardens of Delight.
This implies a promise that she will be the wife of the Messenger of Allah in Paradise.
بھلی بات کے حق دار بھلے لوگ ہی ہیں
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایسی بری بات برے لوگوں کے لئے ہے ۔ بھلی بات کے حقدار بھلے لوگ ہوتے ہیں ۔ یعنی اہل نفاق نے صدیقہ پر جو تہمت باندھی اور ان کی شان میں جو بد الفاظی کی اس کے لائق وہی ہیں اس لئے کہ وہی بد ہیں اور خبیث ہیں ۔ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چونکہ پاک ہیں اس لئے وہ پاک کلموں کے لائق ہیں وہ ناپاک بہتان سے بری ہیں ۔ یہ آیت بھی حضرت عائشہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو ہر طرح سے طیب ہیں ، ناممکن ہے کہ ان کے نکاح میں اللہ کسی ایسی عورت کو دے جو خبیثہ ہو ۔ خبیثہ عورتیں تو خبیث مردوں کے لئے ہوتی ہیں ۔ اسی لئے فرمایا کہ یہ لوگ ان تمام تہمتوں سے پاک ہیں جو دشمنان اللہ باندھ رہے ہیں ۔ انہیں ان کی بدکلامیوں سے جو رنج وایذاء پہنچی وہ بھی ان کے لئے باعث مغفرت گناہ بن جائے گی ۔ اور یہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں ، جنت عدن میں بھی آپ کے ساتھ ہی رہیں گی ۔ ایک مرتبہ اسیر بن جابر حضرت عبداللہ کے پاس آکر کہنے لگے آج تو میں نے ولید بن عقبہ سے ایک نہایت ہی عمدہ بات سنی تو حضرت عبداللہ نے فرمایا ٹھیک ہے ۔ مومن کے دل میں پاک بات اترتی ہے اور وہ اس کے سینے میں آجاتی ہے پھر وہ اسے زبان سے بیان کرتا ہے ، وہ بات چونکہ بھلی ہوتی ہے ، بھلے سننے والے اسے اپنے دل میں بٹھالیتے ہیں اور اسی طرح بری بات برے لوگوں کے دلوں سے سینوں تک اور وہاں سے زبانوں تک آتی ہے ، برے لوگ اسے سنتے ہیں اور اپنے دل میں بٹھالیتے ہیں ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ جو شخص بہت سی باتیں سنے ، پھر ان میں جو سب سے خراب ہو اسے بیان کرے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی بکریوں والے سے ایک بکری مانگے وہ اسے کہے کہ جا اس ریوڑ میں سے تجھے جو پسند ہو لے لے ۔ یہ جائے اور ریوڑ کے کتے کا کان پکڑ کر لے جائے اور حدیث میں ہے حکمت کا کلمہ مومن کی گم گشتہ دولت ہے جہاں سے پائے لے لے ۔