Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 26

سورة النور

اَلۡخَبِیۡثٰتُ لِلۡخَبِیۡثِیۡنَ وَ الۡخَبِیۡثُوۡنَ لِلۡخَبِیۡثٰتِ ۚ وَ الطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیۡنَ وَ الطَّیِّبُوۡنَ لِلطَّیِّبٰتِ ۚ اُولٰٓئِکَ مُبَرَّءُوۡنَ مِمَّا یَقُوۡلُوۡنَ ؕ لَہُمۡ مَّغۡفِرَۃٌ وَّ رِزۡقٌ کَرِیۡمٌ ﴿٪۲۶﴾  9

Evil words are for evil men, and evil men are [subjected] to evil words. And good words are for good men, and good men are [an object] of good words. Those [good people] are declared innocent of what the slanderers say. For them is forgiveness and noble provision.

خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لائق ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لائق ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لائق ہیں ۔ ایسے پاک لوگوں کے متعلق جو کچھ بکواس ( بہتان باز ) کر رہے ہیں وہ ان سے بالکل بری ہیں ان کے لئے بخشش ہے اور عزت والی روزی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Goodness of `A'ishah because She is married to the best of Mankind Allah says, الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ... Bad statements are for bad people and bad people for bad statements. Good statements are for good people and good people for good statements: Ibn Abbas said, "Evil words are for evil men, and evil men are for evil words; good words are for good men and good men are for good words. This was revealed concerning A'ishah and the people of the slander." This was also narrated from Mujahid, Ata', Sa`id bin Jubayr, Ash-Sha`bi, Al-Hasan bin Abu Al-Hasan Al-Basri, Habib bin Abi Thabit and Ad-Dahhak, and it was also the view favored by Ibn Jarir. He interpreted it to mean that evil speech is more suited to evil people, and good speech is more suited to good people. What the hypocrites attributed to A'ishah was more suited to them, and she was most suited to innocence and having nothing to do with them. Allah said: ... أُوْلَيِكَ مُبَرَّوُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ... such (good people) are innocent of (every) bad statement which they say; Abdur-Rahman bin Zayd bin Aslam said, "Evil women are for evil men and evil men are for evil women, and good women are for good men and good men are for good women." This also necessarily refers back to what they said, i.e., Allah would not have made A'ishah the wife of His Messenger unless she had been good, because he is the best of the best of mankind. If she had been evil, she would not have been a suitable partner either according to His Laws or His decree. Allah said: ... أُوْلَيِكَ مُبَرَّوُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ... such are innocent of (every) bad statement which they say; meaning, they are remote from what the people of slander and enmity say. ... لَهُم مَّغْفِرَةٌ ... for them is forgiveness, means, because of the lies that were told about them, ... وَرِزْقٌ كَرِيمٌ and honored provision. meaning, with Allah in the Gardens of Delight. This implies a promise that she will be the wife of the Messenger of Allah in Paradise.

بھلی بات کے حق دار بھلے لوگ ہی ہیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ایسی بری بات برے لوگوں کے لئے ہے ۔ بھلی بات کے حقدار بھلے لوگ ہوتے ہیں ۔ یعنی اہل نفاق نے صدیقہ پر جو تہمت باندھی اور ان کی شان میں جو بد الفاظی کی اس کے لائق وہی ہیں اس لئے کہ وہی بد ہیں اور خبیث ہیں ۔ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا چونکہ پاک ہیں اس لئے وہ پاک کلموں کے لائق ہیں وہ ناپاک بہتان سے بری ہیں ۔ یہ آیت بھی حضرت عائشہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ آیت کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو ہر طرح سے طیب ہیں ، ناممکن ہے کہ ان کے نکاح میں اللہ کسی ایسی عورت کو دے جو خبیثہ ہو ۔ خبیثہ عورتیں تو خبیث مردوں کے لئے ہوتی ہیں ۔ اسی لئے فرمایا کہ یہ لوگ ان تمام تہمتوں سے پاک ہیں جو دشمنان اللہ باندھ رہے ہیں ۔ انہیں ان کی بدکلامیوں سے جو رنج وایذاء پہنچی وہ بھی ان کے لئے باعث مغفرت گناہ بن جائے گی ۔ اور یہ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں ، جنت عدن میں بھی آپ کے ساتھ ہی رہیں گی ۔ ایک مرتبہ اسیر بن جابر حضرت عبداللہ کے پاس آکر کہنے لگے آج تو میں نے ولید بن عقبہ سے ایک نہایت ہی عمدہ بات سنی تو حضرت عبداللہ نے فرمایا ٹھیک ہے ۔ مومن کے دل میں پاک بات اترتی ہے اور وہ اس کے سینے میں آجاتی ہے پھر وہ اسے زبان سے بیان کرتا ہے ، وہ بات چونکہ بھلی ہوتی ہے ، بھلے سننے والے اسے اپنے دل میں بٹھالیتے ہیں اور اسی طرح بری بات برے لوگوں کے دلوں سے سینوں تک اور وہاں سے زبانوں تک آتی ہے ، برے لوگ اسے سنتے ہیں اور اپنے دل میں بٹھالیتے ہیں ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی ۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ جو شخص بہت سی باتیں سنے ، پھر ان میں جو سب سے خراب ہو اسے بیان کرے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص کسی بکریوں والے سے ایک بکری مانگے وہ اسے کہے کہ جا اس ریوڑ میں سے تجھے جو پسند ہو لے لے ۔ یہ جائے اور ریوڑ کے کتے کا کان پکڑ کر لے جائے اور حدیث میں ہے حکمت کا کلمہ مومن کی گم گشتہ دولت ہے جہاں سے پائے لے لے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

261اس کا ایک مفہوم تو یہی بیان کیا گیا ہے جو ترجمے سے واضح ہے۔ اس صورت میں یہ ہم معنی آیت ہوگی، اور خبیثات اور خبیثیوں سے زانی مرد و عورت اور طیبات اور رفیون سے مراد پاک دامن عورت اور مرد ہونگے۔ دوسرے معنی اس کے ہیں کہ ناپاک باتیں ناپاک مردوں کے لئے اور ناپاک مرد ناپاک باتوں کے لئے ہیں اور پاکیزہ باتیں پاکیزہ مردوں کے لئے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ باتوں کے لئے ہیں اور مطلب یہ ہوگا کہ ناپاک باتیں وہی مرد عورت کرتے ہیں جو ناپاک ہیں اور پاکیزہ باتیں کرنا پاکیزہ مردوں اور عورتوں کا شیوہ ہے۔ اس میں اشارہ ہے۔ اس بات کی طرف کہ حضرت عائشہ پر ناپاکی کا الزام عائد کرنے والے ناپاک اور ان سے اس کی براءت کرنے والے پاک ہیں۔ 262اس سے مراد جنت کی روزی ہے جو اہل ایمان کو نصیب ہوگی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١] اس آیت کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ جو ترجمہ سے واضح ہے اور ربط مغمون کے لحاظ سے مناسب بھی یہی ہے۔ یعنی پاکباز مردوں اور عورتوں کی تہذیب، ماحول اور عادات ان لوگوں سے بالکل الگ ہوتی ہیں۔ جو گندے اور فحاشی کے کاموں میں مبتلا ہوں۔ ان دونوں کا آپس میں مل بیٹھنا فطرتاً بھی محال ہوتا ہے۔ نہ ان کی تہذیب آپس میں مشترک ہوسکتی ہے، نہ بول چال اور نہ عادات۔ ایک پاکباز انسان کسی گندے ماحول میں چلا جائے تو اسے وہاں ایک دن گزارنا بھی مشکل ہوجاتا ہے اسی طرح ایک فاحش مرد اور ایک فاحشہ عورت کے لئے کسی پاکیزہ ماحول میں ایک دن گزارنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ لہذا ایسے دونوں طبقات کو آپس میں ملانے یا آپس میں رشتے استوار کرنے کی ہرگز کوشش نہ کرنا چاہئے۔ اور اگر کوئی ایسی کوشش کرے گا تو ناکافی اور خرابی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔ اور اس کا دوسرے مطلب یہ ہے کہ حلیبات کو اپنے وسیع مفہوم میں لیا جائے۔ اس لحاظ سے اس کے معنی میں پاکیزہ عورتیں ہی نہیں پاکیزہ باتیں بھی شامل ہیں۔ یعنی پاکباز لوگوں کی زبانوں سے پاکیزہ باتیں ہی نکلتی ہیں اور گندے خیال رکھنے والے لوگوں کو گندی باتیں سوجھتی ہیں۔ جس طرح یہ ناممکن ہے کہ پاکیزہ خیال لوگوں کو گندی باتیں سوجھیں اسی طرح گندی ذہنیت رکھنے والوں کو پاکیزہ باتیں کم ہی سوجھتی ہیں۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے یہ فحاشی پھیلائی اور پروپیگنڈہ کیا۔ حقیقتاً گندی ذہنیت کے لوگ تھے۔ پاکباز لوگوں کا یہ شیوہ نہیں کہ وہ ایسی باتوں میں حصہ لیں۔ وہ ایسی باتوں سے بچنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ ۔۔ : اس آیت میں یہ نفسیاتی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ خبیث (گندے) مردوں کا نبھاؤ خبیث عورتوں سے اور پاکیزہ مردوں کا نبھاؤ پاکیزہ عورتوں ہی سے ہوسکتا ہے، ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک مرد خود تو بڑا پاکیزہ ہے مگر وہ ایک خبیث عورت سے برسوں نبھاؤ کرتا چلا جائے۔ مقصود عائشہ (رض) کی پاکیزگی کا بیان ہے کہ ان میں خباثت کا ادنیٰ شائبہ بھی ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو ازل سے ابد تک پاکیزہ ہستیوں کے سردار تھے، ان کے ساتھ نہایت محبت و اطمینان سے برسوں نبھاؤ کرتے چلے جاتے ؟ بعض مفسرین نے ” اَلْخَبِيْثٰتُ “ سے مراد گندے اقوال و افعال اور ” َالطَّيِّبٰتُ “ سے مراد پاکیزہ اقوال و افعال لیے ہیں، یعنی کوئی آدمی جیسا خود ہوتا ہے ویسے ہی وہ اعمال کرتا ہے اور ویسے ہی اقوال زبان پر لاتا ہے۔ اب چونکہ عائشہ (رض) پاک تھیں، ان کی سیرت اور ان کے اقوال و افعال بھی پاک تھے اور یہ منافق خود گندے تھے، اس لیے ان سے ایسے ہی گندے اقوال و افعال کی توقع تھی۔ اُولٰۗىِٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا يَقُوْلُوْنَ ۭ : یعنی طیّب مرد اور طیّب عورتیں ان باتوں سے صاف بری کیے ہوئے ہیں جو خبیث مرد اور خبیث عورتیں کہتے ہیں۔ ” مُبَرَّءُوْنَ “ اسم مفعول کا صیغہ ہے ” بری کیے ہوئے۔ “ اس میں ام المومنین عائشہ (رض) کی واشگاف الفاظ میں براءت کا ذکر ہے۔ یعنی اہل ایمان میں سے جو یہ سنتا ہے وہ ” سُبْحٰنَكَ ھٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيْمٌ“ کہہ کر انھیں پاک قرار دیتا ہے اور رب تعالیٰ بھی ”ۧاِنَّ الَّذِيْنَ جَاۗءُوْ بالْاِفْكِ عُصْبَة “ کے ساتھ ان کی براءت کا اعلان فرماتے ہیں۔ ” مِمَّا يَقُوْلُوْنَ “ یعنی بہتان تراشوں کی صرف منہ کی باتیں ہیں، ان کی حقیقت کچھ نہیں۔ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ : ” مَّغْفِرَةٌ“ پر تنوین تعظیم کی وجہ سے ” بڑی بخشش “ ترجمہ کیا گیا ہے، یعنی خبیث لوگوں کے برا کہنے سے وہ برے نہیں ہوجاتے، بلکہ ان کی تہمتوں کی وجہ سے انھیں جو رنج پہنچتا ہے اور وہ اس پر صبر کرتے ہیں تو یہ چیز ان کی خطاؤں اور لغزشوں کی بخشش کا ذریعہ بنتی ہے اور مفسد لوگ جس قدر انھیں ذلیل کرنا چاہتے ہیں اسی قدر انھیں عزت کی روزی ملتی ہے۔ اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، عائشہ، ان کے والدین اور صفوان (رض) سب کے لیے جنت کی بشارت ہے، جو حقیقی رزق کریم ہے، کیونکہ اس بہتان سے ان سب کی عزت و آبرو پر حملہ ہوا اور سب کو نہایت رنج پہنچا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

الْخَبِيثَاتُ لِلْخَبِيثِينَ وَالْخَبِيثُونَ لِلْخَبِيثَاتِ ۖ وَالطَّيِّبَاتُ لِلطَّيِّبِينَ وَالطَّيِّبُونَ لِلطَّيِّبَاتِ ۚ أُولَـٰئِكَ مُبَرَّ‌ءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ ۖ لَهُم مَّغْفِرَ‌ةٌ وَرِ‌زْقٌ كَرِ‌يمٌ ﴿٢٦﴾ Vile women are for vile men, and vile men are for vile women. And good women are for good men and good men are for good women. Those are free from what they (the accusers) say. For them there is forgiveness and a graceful provision - 24:26. It means that the vulgar women are suitable for vulgar men and the vulgar men are suitable for vulgar women. And pure women are worthy for pure men and pure men are worthy for pure women. In this last verse the common principle is stated that Allah Ta’ ala has created a connection between the people of the same nature. Thus, vulgar and unchaste women are inclined towards vulgar and unchaste men and vice versa. Similarly, pure and chaste women show inclination towards pure and decent men and vice versa. Therefore, everyone tries to find the spouse according to one&s inclination and liking, and in a natural way one does find one to suit him or her. In the light of this norm and principle it is now quite clear that the messengers of Allah, who are the models of purity and chastity both outwardly and inwardly in this world, are granted spouses by Allah Ta’ ala in accordance with their status. Hence, the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم ، who is the head of all messengers, was bestowed with spouses who were befitting to his position and status in purity, chastity and ethical excellence, and Sayyidah ` A&ishah (رض) is more prominent among them all. Only those can have any doubt or suspicion about her who do not have faith in the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم himself. It is mentioned about the wives of Sayyidna Nuh and Sayyidna Lut (علیہم السلام) in the Qur&an that they (wives) were disbelievers, but it is also established that they were not involved in any obscenity or vulgarity. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) said ما بغت امرأۃ نبی قطّ Never did any wife of a messenger commit adultery&. (ذکرفی الدر المنثور). It is, therefore, corroborated that it is possible that a messenger&s wife could be a disbeliever, but it is not possible that she could be vulgar and sexually immoral, because adultery is a natural detestable act in the eyes of people, whereas disbelief is not a natural detestable thing. (Bayan al-Qur’ an)

اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ وَالْخَبِيْثُوْنَ لِلْخَبِيْثٰتِ ۚ وَالطَّيِّبٰتُ للطَّيِّبِيْنَ وَالطَّيِّبُوْنَ للطَّيِّبٰتِ ۚ اُولٰۗىِٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا يَقُوْلُوْنَ ۭ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ، یعنی گندی عورتیں گندے مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لائق ہوتے ہیں اور پاک صاف عورتیں پاک صاف مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور پاک صاف مرد پاک صاف عورتوں کے لائق ہوتے ہیں۔ اس آخری آیت میں اول تو عام ضابطہ یہ بتلا دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے طبائع میں طبعی طور پر جوڑ رکھا ہے۔ گندی اور بدکار عورتیں بدکار مردوں کی طرف اور گندے بدکار مرد گندی بدکار عورتوں کی طرف رغبت کیا کرتے ہیں۔ اسی طرح پاک صاف عورتوں کی رغبت پاک صاف مردوں کی طرف ہوتی ہے اور پاک صاف مردوں کی رغبت پاک صاف عورتوں کی طرف ہوا کرتی ہے اور ہر ایک اپنی اپنی رغبت کے مطابق اپنا جوڑ تلاش کرتا ہے اور قدرة اس کو وہی مل جاتا ہے۔ اس عام عادت کلیہ اور ضابطہ سے واضح ہوگیا کہ انبیاء (علیہم السلام) جو دنیا میں پاکی اور صفائی ظاہری و باطنی میں مثالی شخصیت ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ان کو ازواج بھی ان کے مناسب عطا فرماتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو تمام انبیاء کے سردار ہیں ان کو ازواج مطہرات بھی اللہ تعالیٰ نے پاکی اور صفائی ظاہری اور اخلاقی برتری میں آپ ہی کی مناسب شان عطا فرمائی ہیں اور صدیقہ عائشہ ان سب میں ممتاز ہیں۔ ان کے بارے میں شک و شبہ وہی کرسکتا ہے جس کو خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ ہو اور حضرت نوح حضرت لوط (علیہما السلام) کی بیبیوں کے بارے میں جو قرآن کریم میں ان کا کافر ہونا مذکور ہے تو ان کے متعلق بھی یہ ثابت ہے کہ کافر ہونے کے باوجود فسق و فجور میں مبتلا نہیں تھیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا ما بغت امراة نبی قط، یعنی کسی نبی کی عورت نے کبھی زنا نہیں کیا (ذکر فی الدرا المنثور) اس سے معلوم ہوا کہ کسی نبی کی بیوی کافر ہوجائے اس کا تو امکان ہے مگر بدکار فاحشہ ہوجائے یہ ممکن نہیں۔ کیونکہ بدکاری طبعی طور پر موجب نفرت عوام ہے کفر طبعی نفرت کا موجب نہیں (بیان القرآن)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اَلْخَبِيْثٰتُ لِلْخَبِيْثِيْنَ وَالْخَبِيْثُوْنَ لِلْخَبِيْثٰتِ۝ ٠ۚ وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيْنَ وَالطَّيِّبُوْنَ لِلطَّيِّبٰتِ۝ ٠ۚ اُولٰۗىِٕكَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا يَقُوْلُوْنَ۝ ٠ۭ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ كَرِيْمٌ۝ ٢٦ۧ خبث الخُبْثُ والخَبِيثُ : ما يكره رداءة وخساسة، محسوسا کان أو معقولا، وأصله الرّديء الدّخلة الجاري مجری خَبَثِ الحدید، وذلک يتناول الباطل في الاعتقاد، والکذب في المقال، والقبیح في الفعال، قال عزّ وجلّ : وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف/ 157] ، أي : ما لا يوافق النّفس من المحظورات، وقوله تعالی: وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم/ 26] ، فإشارة إلى كلّ كلمة قبیحة من کفر وکذب ونمیمة وغیر ذلك، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «المؤمن أطيب من عمله، والکافر أخبث من عمله» «1» ويقال : خبیث مُخْبِث، أي : فاعل الخبث . ( خ ب ث ) المخبث والخبیث ۔ ہر وہ چیز جو دری اور خسیں ہونے کی وجہ سے بری معلوم ہو خواہ وہ چیز محسوسات سے ہو یا معقولات ( یعنی عقائد و خیالات ) سے تعلق رکھتی ہو اصل میں خبیث روی اور ناکارہ چیز کو کہتے ہیں جو بمنزلہ لو ہے کی میل کے ہو ۔ اس اعتبار سے یہ اعتقاد باطل کذب اور فعل قبیح سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبائِثَ [ الأعراف/ 157] اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں ۔ یعنی محظورات جو طبیعت کے ناموافق ہیں ۔ آیت :۔ وَمَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِيثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِيثَةٍ [إبراهيم/ 26] اور ناپاک بات کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے ۔ میں کفر ، جھوٹ ، چغلی ہر قسم کی قبیح باتیں داخل ہیں حدیث میں ہے :۔ المومن اطیب من عملہ والکافر اخبث من عملہ ۔ کہ مومن اپنے عمل سے پاک اور کافر اپنے عمل سے ناپاک ہے ۔ اور خبیث ومخبث خبث کے مرتکب کو بھی کہا جاتا ہے ۔ طيب يقال : طَابَ الشیءُ يَطِيبُ طَيْباً ، فهو طَيِّبٌ. قال تعالی: فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ، وأصل الطَّيِّبِ : ما تستلذّه الحواسّ ، وما تستلذّه النّفس، والطّعامُ الطَّيِّبُ في الشّرع : ما کان متناولا من حيث ما يجوز، ومن المکان الّذي يجوز فإنّه متی کان کذلک کان طَيِّباً عاجلا وآجلا لا يستوخم، وإلّا فإنّه۔ وإن کان طَيِّباً عاجلا۔ لم يَطِبْ آجلا، وعلی ذلک قوله : كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] ( ط ی ب ) طاب ( ض ) الشئی یطیب طیبا فھم طیب ( کے معنی کسی چیز کے پاکیزہ اور حلال ہونے کے ہیں ) قرآن میں ہے : : فَانْكِحُوا ما طاب لَكُمْ [ النساء/ 3] تو ان کے سوا عورتیں تم کو پسند ہوں ان سے نکاح کرلو ۔ ، فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ [ النساء/ 4] ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے تم کو چھوڑدیں ۔ اصل میں طیب اسے کہا جاتا ہے جس سے انسان کے حواس بھی لذت یاب ہوں اور نفس بھی اور شریعت کی رو سے الطعام الطیب اس کھانے کو کہا جائے گا جو جائز طریق سے حاصل کیا جائے اور جائز جگہ سے جائز انداز کے مطابق لیا جائے کیونکہ جو غذا اس طرح حاصل کی جائے وہ دنیا اور آخرت دونوں میں خوشگوار ثابت ہوگی ورنہ دنیا کی خوشگوار چیزیں آخرت میں نقصان وہ ثابت ہونگی اسی بنا پر قرآن طیب چیزوں کے کھانے کا حکم دیتا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ ما رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 172] جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عطا فرمائی ہیں اور ان کو کھاؤ ۔ برأ أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة/ 1] ، ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ { بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ قول القَوْلُ والقِيلُ واحد . قال تعالی: وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] ، ( ق و ل ) القول القول اور القیل کے معنی بات کے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ اللَّهِ قِيلًا[ النساء/ 122] اور خدا سے زیادہ بات کا سچا کون ہوسکتا ہے ۔ غفر الغَفْرُ : إلباس ما يصونه عن الدّنس، ومنه قيل : اغْفِرْ ثوبک في الوعاء، واصبغ ثوبک فإنّه أَغْفَرُ للوسخ «1» ، والغُفْرَانُ والْمَغْفِرَةُ من اللہ هو أن يصون العبد من أن يمسّه العذاب . قال تعالی: غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] ( غ ف ر ) الغفر ( ض ) کے معنی کسی کو ایسی چیز پہنا دینے کے ہیں جو اسے میل کچیل سے محفوظ رکھ سکے اسی سے محاورہ ہے اغفر ثوبک فی ولوعاء اپنے کپڑوں کو صندوق وغیرہ میں ڈال کر چھپادو ۔ اصبغ ثوبک فانہ اغفر لو سخ کپڑے کو رنگ لو کیونکہ وہ میل کچیل کو زیادہ چھپانے والا ہے اللہ کی طرف سے مغفرۃ یا غفران کے معنی ہوتے ہیں بندے کو عذاب سے بچالیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ غُفْرانَكَ رَبَّنا[ البقرة/ 285] اے پروردگار ہم تیری بخشش مانگتے ہیں ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو كرم الكَرَمُ إذا وصف اللہ تعالیٰ به فهو اسم لإحسانه وإنعامه المتظاهر، نحو قوله : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] ، وإذا وصف به الإنسان فهو اسم للأخلاق والأفعال المحمودة التي تظهر منه، ولا يقال : هو كريم حتی يظهر ذلک منه . قال بعض العلماء : الكَرَمُ کالحرّيّة إلّا أنّ الحرّيّة قد تقال في المحاسن الصّغيرة والکبيرة، والکرم لا يقال إلا في المحاسن الکبيرة، كمن ينفق مالا في تجهيز جيش في سبیل الله، وتحمّل حمالة ترقئ دماء قوم، وقوله تعالی: إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] فإنما کان کذلک لأنّ الْكَرَمَ الأفعال المحمودة، وأكرمها وأشرفها ما يقصد به وجه اللہ تعالی، فمن قصد ذلک بمحاسن فعله فهو التّقيّ ، فإذا أكرم الناس أتقاهم، وكلّ شيء شرف في بابه فإنه يوصف بالکرم . قال تعالی: فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] ، وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] ، إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] ، وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] . والإِكْرَامُ والتَّكْرِيمُ : أن يوصل إلى الإنسان إکرام، أي : نفع لا يلحقه فيه غضاضة، أو أن يجعل ما يوصل إليه شيئا كَرِيماً ، أي : شریفا، قال : هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] . وقوله : بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] أي : جعلهم کراما، قال : كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] ، وقال : بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ، وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] ، وقوله : ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] منطو علی المعنيين . ( ک ر م ) الکرم ۔ جب اللہ کی صفت ہو تو اس سے احسان وانعام مراد ہوتا ہے جو ذات باری تعالیٰ سے صادر ہوتا رہتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَإِنَّ رَبِّي غَنِيٌّ كَرِيمٌ [ النمل/ 40] تو میر اپروردگار بےپرواہ اور کرم کرنے والا ہے ۔ اور جب انسان کی صفت ہو تو پسندیدہ اخلاق اور افعال مراد ہوتے ہیں جو کسی انسان سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور کسی شخص کو اس وقت تک کریمہ نہیں کہاجاسکتا جب تک کہ اس سے کرم کا ظہور نہ ہوچکا ہو ۔ بعض نے علماء کہا ہے کہ حریت اور کرم ہم معنی ہیں لیکن حریت کا لفظ جھوٹی بڑی ہر قسم کی خوبیوں پر بولا جا تا ہے اور کرم صرف بڑے بڑے محاسن کو کہتے ہیں مثلا جہاد میں فوج کے لئے سازو سامان مہیا کرنا یا کیس ایسے بھاری تا وان کو اٹھا لینا جس سے قوم کے خون اور جان کی حفاظت ہوتی ہو ۔ اور آیت : ۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقاكُمْ [ الحجرات/ 13] اور خدا کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا ہے جو زیادہ پرہیز گار ہیں ۔ میں القی یعنی سب سے زیادہ پرہیز گا ۔ کو اکرم یعنی سب سے زیادہ عزت و تکریم کا مستحق ٹہھر انے کی وجہ یہ ہے کہ کرم بہترین صفات کو کہتے ہیں اور سب سے بہتر اور پسند یدہ کام وہی ہوسکتے ہیں جن سے رضا الہیٰ کے حصول کا قصد کیا جائے لہذا جو جس قدر زیادہ پرہیز گار ہوگا اسی قدر زیادہ واجب التکریم ہوگا ۔ نیز الکریم ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اپنی چیز کو کہتے ہیں جو اپنی ہم نوع چیزوں میں سب سے زیادہ باشرف ہو چناچہ فرمایا : ۔ فَأَنْبَتْنا فِيها مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ [ لقمان/ 10] پھر ( اس سے ) اس میں ہر قسم کی نفیس چیزیں اگائیں ۔ وَزُرُوعٍ وَمَقامٍ كَرِيمٍ [ الدخان/ 26] اور کھیتیاں اور نفیس مکان ۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ [ الواقعة/ 77] کہ یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے ۔ وَقُلْ لَهُما قَوْلًا كَرِيماً [ الإسراء/ 23] اور ان سے بات ادب کے ساتھ کرنا ۔ الا کرام والتکریم کے معنی ہیں کسی کو اس طرح نفع پہچانا کہ اس میں اس کی کسی طرح کی سبکی اور خفت نہ ہو یا جو نفع پہچا یا جائے وہ نہایت باشرف اور اعلٰی ہو اور المکرم کے معنی معزز اور با شرف کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ هَلْ أَتاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْراهِيمَ الْمُكْرَمِينَ [ الذاریات/ 24] بھلا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؛ اور آیت کریمہ : ۔ بَلْ عِبادٌ مُكْرَمُونَ [ الأنبیاء/ 26] کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے معزز بندے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَجَعَلَنِي مِنَ الْمُكْرَمِينَ [يس/ 27] اور مجھے عزت والوں میں کیا ۔ كِراماً كاتِبِينَ [ الانفطار/ 11] عالی قدر تمہاری باتوں کے لکھنے والے ۔ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرامٍ بَرَرَةٍ [ عبس/ 15 16] ( ایسے ) لکھنے والوں کے ہاتھوں میں جو سر دار اور نیوک کار ہیں ۔ اور آیت : ۔ ذُو الْجَلالِ وَالْإِكْرامِ [ الرحمن/ 27] اور جو صاحب جلال اور عظمت ہے ۔ میں اکرام کا لفظ ہر دو معنی پر مشتمل ہے ۔ یعنی اللہ تعالیٰ عزت و تکریم بھی عطا کرتا ہے اور باشرف چیزیں بھی بخشتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

خبیث خبیثوں کے لئے ہیں قول باری ہے : (الخبیثات للخبیثین و الخبیثون للخبیثات) خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لئے۔ حضرت ابن عباس (رض) ، حسن، مجاہد، اور ضحاک سے مروی ہے کہ خبیث باتیں خبیث مردوں کو زیب دیتی ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ خبیث قسم کی برائیاں خبیث قسم کے لوگ کرتے ہیں۔ یہ تفسیر پہلی تفسیر کے قریب قریب ہے۔ ای کی نظیر سے مروی ہے کہ خبیث باتیں خبیث مردوں کو زیب دیتی ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) سے یہ بھی مروی ہے کہ خبیث قسم کی برائیاں خبیث قسم کے لوگ کرتے ہیں۔ یہ تفسیر پہلی تفسیر کے قریب قریب ہے۔ اس کی نظیر یہ قول باری ہے : (قل کل یعمل علی شاکلتہ) کہہ دو کہ ” ہر ایک اپنے طریقے پر عمل کررہا ہے۔ “ ایک قول کے مطابق خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے جس طرح یہ قول باری ہے (الزانی لا ینکح الا زانیۃ او مشرکۃ والزنیۃ لا ینکحھا الا زان او مشرک وحرم ذلک علی المومنین) زانی نکاح نہ کرے مگر زانیہ کے ساتھ یا مشرکہ کے ساتھ اور زانیہ کے ساتھ نکاح نہ کرے مگر زانی یا مشرک اور یہ اہل ایمان پر حرام کردیا گیا ہے۔ نیز یہ کہ یہ حکم اب منسوخ ہے جیسا کہ اس کے اپنے مقام پر بحث کے ذریعے ثابت کیا جاچکا ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦) اگلی آیت پھر ان منافقین افتراپردازوں کے بارے میں نازل فرما کر حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے واقعہ کو اللہ تعالیٰ ختم فرماتا ہے کہ جو قول وفعل میں گندی عورتیں ہیں، وہ گندے مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لائق ہوتے ہیں۔ اور کہا گیا کہ گندی عورتوں سے مراد حمۃ بن جحش اور گندے مردوں سے مراد عبداللہ بن ابی منافق اور اس کا ساتھ دینے والے ہیں جیسا کہ مسطح اور قول وفعل میں پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لائق ہوتی ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لائق ہوتے ہیں۔ تو پاکیزہ عورتوں سے مراد حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ہیں اور پاکیزہ مردوں سے مراد رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں یہ یعنی حضرت عائشہ صدیقہ (رض) اور حضرت صفوان (رض) اس بات سے پاک ہیں جو منافقین بکتے پھر تے ہیں ان کے لیے آخرت میں مغفرت اور جنت میں عزت کا رزق ہے۔ چناچہ جب کسی مرد و عورت کی تعریف کی جاتی ہے اور وہ اس کے اہل ہوتے ہیں تو اس تعریف کی تصدیق کی جاتی ہے اور سننے والا بھی کہتا ہے کہ یقینا وہ ایسی تعریف کے قابل ہیں اور اس کے برعکس جب کسی مردوں کی برائی بیان کی جاتی ہے اور وہ اسی کے مستحق ہوتے ہیں تو اس برائی کی سب تائید کرتے ہیں اور سننے والا بھی کہتا ہے کہ وہ ایسے ہی ہیں۔ شان نزول : ( آیت ) ”۔ الخبیثت للخبیثین “۔ (الخ) نیز طبرانی (رح) نے دو ضعیف سندوں کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ آیت کا یہ حصہ ( آیت) ” الخبیثت للخبیثین “۔ (الخ) ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوا ہے جو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ مطہرہ کے بارے میں چہ میگوئیاں کر رہے تھے نیز طبرانی (رح) نے حکم بن عتیبہ سے روایت کیا ہے کہ جب لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے واقعہ میں حصہ لیا تو رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے پاس قاصد بھیجا اور فرمایا کہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) لوگ کیا کہہ رہے ہیں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا میں خود سے اپنی کسی چیز کی برأت نہیں کرتی، جب تک کہ میری برأت آسمان سے نازل نہ ہو، چناچہ اللہ تعالیٰ نے سورة نور کی پندرہ آیتیں حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے بارے میں نازل فرمائیں، اس کے بعد حکم بن عتیبہ نے ( آیت) ” للخبیثین “۔ تک آیتیں پڑھ کر سنائیں، یہ روایت مرسل اور صحیح الاسناد ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ ) ” یہ ایک اصولی بات فرمائی گئی کہ ناپاک اور بدکردار مردو زن ایک دوسرے کے لیے کشش رکھتے ہیں اور پاک باز مرد و زن ایک دوسرے سے طبعی مناسبت رکھتے ہیں۔ اس کی نوعیت بھی درحقیقت ایک اخلاقی تعلیم کی ہے ‘ جیسا کہ قبل ازیں آیت ٣ میں بھی اخلاقی تعلیم دی گئی تھی کہ زانی مرد صرف زانیہ یا مشرکہ سے ہی نکاح کرے اور اسی طرح ایک زانیہ بھی صرف کسی زانی اور مشرک سے ہی نکاح کرے۔ دراصل ان ہدایات سے مراد اور مدعایہ ہے کہ اسلامی معاشرے کا مجموعی مزاج اس قدر پاکیزہ ہو ‘ اس کی اخلاقی حس اتنی جاندار ہو اور اس کی اخلاقی اقدار اس حد تک استوار ہوں کہ کسی بھی غلط کار فرد کے لیے ‘ چاہے وہ مرد ہو یا عورت ‘ مسلم معاشرے میں کوئی جگہ نہ ہو۔ ایسا فرد خود اپنی نظروں میں ذلیل ہو کر معاشرے سے مکمل طور کٹ کر رہ جائے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

22. This verse enunciates a fundamental principle. Impure men are a fit match for impure women and pious men are a fit match for pious women. It never happens that a man is good in all other aspects but is addicted to a solitary vice. As a matter of fact, his very habits, manners and demeanor, all contain a number of evil traits, which sustain and nourish that single vice. It is impossible that a man develops a vice all of a sudden without having any trace of its existence in his demeanor and way of life. This is a psychological truth which everybody experiences in the daily lives of the people. How is it then possible that a man who has all along lived a pure and morally clean life, will put up and continue to live for years in love with a wife who is adulterous? Can a woman be imagined who is an adulteress, but she does not manifest her evil character through her talk, gait, manners and deportment? Is it possible for a virtuous man of high character to live happily with a woman of this type? What is being suggested here is that people in future should not credulously put their belief in any rumor that reaches them. They should carefully see as to who is being accused and on what account and whether the accusation fairly sticks on the person or not. And when there exists no trace of evidence to support the accusation, people cannot believe it just because a foolish or wicked person has uttered it. Some commentators have interpreted this verse to mean that evil things are for the evil people and good things for the good people. The good people are free from the evil things which the wicked people utter about them. Some others have interpreted it to mean that evil deeds only go with evil people and good deeds with good people. The pious people are free from the evil deeds which the wicked people ascribe to them. Still others interpret it to mean that evil and filthy talk is indulged in only by the evil and filthy people and good and pious talk only by the good and pious people. The pious people are free from the sort of talk that these mischievous people are indulging in. The words of the verse are comprehensive and can be interpreted in any of the three ways, but the first meaning that strikes the reader is the one that we have adopted above and the same fits in more meaningfully with the context than others.

سورة النُّوْر حاشیہ نمبر :22 اس آیت میں ایک اصولی بات سمجھائی گئی ہے کہ خبیثوں کا جوڑ خبیثوں ہی سے لگتا ہے ، اور پاکیزہ لوگ پاکیزہ لوگوں ہی سے طبعی مناسبت رکھتے ہیں ۔ ایک بد کار آدمی صرف ایک ہی برائی نہیں کیا کرتا ہے کہ اور تو سب حیثیتوں سے وہ بالکل ٹھیک ہو مگر بس ایک برائی میں مبتلا ہو ۔ اس کے تو اطوار ، عادات ، خصائل ہر چیز میں بہت سی برائیاں ہوتی ہیں جو اس کی ایک بڑی برائی کو سہارا دیتی اور پرورش کرتی ہیں ۔ یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ ایک آدمی میں یکایک کوئی ایک برائی کسی از غیبی گولے کی طرح پھٹ پڑے جس کی کوئی علامت اس کے چال چلن میں اور اس کے رنگ ڈھنگ میں نہ پائی جاتی ہو ، یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے جس کا تم ہر وقت انسانی زندگیوں میں مشاہدہ کرتے رہتے ہو ۔ اب کس طرح تمہاری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ ایک پاکیزہ انسان جس کی ساری زندگی سے تم واقف ہو ، کسی ایسی عورت سے نباہ کر لے اور برسوں نہایت محبت کے ساتھ نباہ کیے چلا جاتا رہے جو زنا کار ہو ۔ کیا تم تصور کر سکتے ہو کہ کوئی عورت ایسی بھی ہو سکتی ہے جو بد کار بھی ہو اور پھر اس کی رفتار ، گفتار ، انداز ، اطوار ، کسی چیز سے بھی اس کے برے لچھن ظاہر نہ ہوتے ہوں ؟ یا ایک شخص پاکیزہ نفس اور بلند اخلاق بھی ہو اور پھر ایسی عورت سے خوش بھی رہے جس کے یہ لچھن ہوں ؟ یہ بات یہاں اس لیے سمجھائی جا رہی ہے کہ آئندہ اگر کسی پر کوئی الزام لگایا جائے تو لوگ اندھوں کی طرح اسے بس سنتے ہی نہ مان لیا کریں بلکہ آنکھیں کھول کر دیکھیں کہ کس پر الزام لگایا جا رہا ہے ، کیا الزام لگایا جا رہا ہے ، اور وہ کسی طرح وہاں چسپاں بھی ہو تا ہے یا نہیں ؟ بات لگتی ہوئی ہو تو آدمی ایک حد تک اسے مان سکتا ہے ، یا کم از کم ممکن اور متوقع سمجھ سکتا ہے ۔ مگر ایک انوکھی بات جس کی صداقت کی تائید کرنے والے آثار کہیں نہ پائے جاتے ہوں صرف اس لیے کیسے مان لی جائے کہ کسی احمق یا خبیث نے اسے منہ سے خارج کر دیا ہے ۔ بعض مفسرین نے اس آیت کا یہ مطلب بھی بیان کیا ہے کہ بری باتیں برے لوگوں کے لیے ہیں ( یعنی وہ ان کے مستحق ہیں ) اور بھلی باتیں بھلے لوگوں کے لیے ہیں اور بھلے لوگ اس سے پاک ہیں کہ وہ باتیں ان پر چسپاں ہوں جو بد گو اشخاص ان کے بارے میں کہتے ہیں ۔ بعض دوسرے لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ برے اعمال برے ہی لوگوں کے کرنے کے ہیں اور بھلے لوگ بھلی باتیں ہی کیا کرتے ہیں ۔ بھلے لوگ اس سے پاک ہیں کہ وہ اس طرح کی باتیں کریں جیسی یہ افترا پرداز لوگ کر رہے ہیں ۔ آیت کے الفاظ میں ان سب تفسیروں کی گنجائش ہے ۔ لیکن ان الفاظ کو پڑھ کر پہلا مفہوم جو ذہن میں آتا ہے وہ وہی ہے جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں اور موقع و محل کے لحاظ سے بھی جو معنویت اس میں ہے وہ ان دوسرے مفہومات میں نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

14: اشارہ فرما دیا گیا کہ اس کائنات میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ پاکباز شخصیت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، چنانچہ اس اصول کے تحت یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ کی زوجیت میں کسی ایسی خاتون کو لائے جو (معاذ اللہ) پاکباز نہ ہو، کوئی شخص اسی بات پر غور کرلیتا تو اس پر اس تہمت کی حقیقت واضح ہوجاتی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٦:۔ طبرانی میں حکم بن عتبہ کی روایت سے جس کی سند صحیح ہے ‘ حضرت عائشہ (رض) کے قصہ کے شروع سے یہاں تک پندرہ آیتوں کی شان نزول جو بیان کی گئی ہے ‘ اس کا حاصل یہ ہے کہ جب لوگوں نے حضرت عائشہ (رض) پر بہتان باندھا ‘ تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ (رض) سے فرمایا کہ تمہارے حق میں لوگ جو کچھ کہتے ہیں اگر تمہارے پاس اس بہتان کے جھٹلانے کا کوئی عذر ہو تو تم بھی اپنا وہ عذر بیان کرو حضرت عائشہ (رض) نے جواب دیا کہ میں سچی ہوں ‘ اس لیے مجھ کو توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ میری برأت کا کوئی عذر آسمان سے نازل فرما دے گا اس پر اللہ تعالیٰ نے شروع قصہ سے یہاں تک یہ پندرہ آیتیں نازل فرمائیں۔ دشمن حضرت عائشہ (رض) کا حکم : علمائے اسلام نے متفق ہو کر یہ بات کہی ہے کہ اتنی بڑی برأت کے بعد جو فرقہ حضرت عائشہ (رض) کو اب بھی عیب لگاتا ہے وہ قرآن شریف کا منکر فرقہ ہے اس فرقے کا کافر ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کیونکہ وہ فرقہ قرآن کی آیتوں کا منکر ہے۔ حاصل معنی ان آیتوں کے یہ ہیں کہ اس بہتان میں جس قسم کے لوگ شریک تھے ان کو اللہ تعالیٰ اوپر کی آیتوں میں ہر طرح سے جھوٹا ٹھہرا کر ہر ایک کو اس کے مناسب حال تنبیہہ فرمائی ‘ بعد اس کے اب اس آیت میں فرمایا ہے کہ اس بہتان کے باندھنے والے ناسمجھ ہیں ‘ اتنا نہیں سمجھتے کہ اللہ کے رسول کی بی بی سے ایسا برا کام کیونکر ہوسکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے نیک مردوں کے لیے نیک عورتیں پیدا کی ہیں ‘ پھر اللہ کے رسول سے بڑھ کر کون نیک مرد ہوگا ‘ ایسی گندی باتیں تو گندے مرد اور گندی عورتوں میں پھیلتی ہیں جن لوگوں کی شان میں یہ عیب لگانے والے گندی باتیں منہ سے نکالتے ہیں وہ ان باتوں سے بالکل بےلگاؤ ہیں ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں سے عقبیٰ میں بخشش اور بڑی بڑی نعمتیں دینے کا وعدہ کیا ہے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی روایت سے حدیث قدسی کئی جگہ گزر چکی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا اہل جنت کے لیے جنت میں جو نعمتیں پیدا کی گئیں نہ وہ کسی نے آنکھ سے دیکھیں نہ کان سے سنیں ‘ نہ کسی کے دل میں ان کا خیال گزر سکتا ہے۔ یہ حدیث وَرِزْقٌ کَرِیْمٌ کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:26) مبرون۔ اسم مفعول۔ جمع مذکر۔ مبرء واحد۔ تبرئۃ (تفعیل) مصدر بری کئے ہوئے (اللہ کی طرف سے) بری قرار دئیے ہوئے۔ برء وبراء کا اصل مفہوم کسی بری بات اور امر مکروہ سے چھٹکارا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے یرات من المرض۔ میں تندرست ہوگیا ابراتہ من کذا میں نے اس کو تہمت سے بری کردیا۔ براء ۃ بمعنی بیزاری جیسے براء ۃ من اللہ ورسولہ (9:1) اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان۔ اسی مادہ سے الباری پیدا کرنے والا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنی میں سے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

7 ۔ اس آیت میں یہ نفسیاتی حقیقت بیان کی گئی ہے کہ خبیثوں (گندوں) کا نبھائو گندی عورتوں سے اور پاکیزہ لوگوں کا نبھائو پاکیزہ حاصل عورتوں سے ہی ہوسکتا ہے۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایک مردخود تو بڑا پاکیزہ ہے مگر وہ ایک خبیث عورت سے برسوں نبھائو کرتا چلا جائے۔ مقصود حضرت عائشہ (رض) کی نزاہت ہے کہ اگر ان میں خباثت کا ادنیٰ سا شائبہ بھی ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو ازل سے ابد تک پاکوں کے سردار تھے ان سے نہایت محبت و اطمیان سے برسوں نبھائو کرتے چلے جاتے ؟ حضرت ابن عباس (رض) اور بعض دوسرے مفسرین (رح) نے خبیثات سے گندے اقوال و افعال اور طیبات سے پاکیزہ اقوال و افعال بھی مراد لئے ہیں یعنی جیسا کوئی آدمی خود ہوتا ہے ویسے ہی وہ اعمال کرتا ہے اور ویسے ہی اقوال زبان پر لاتا ہے۔ اب چونکہ حضرت عائشہ (رض) پاک تھیں ان کی سیرت بھی پاک تھی اور یہ منافق خود بھی گندے تھے اس لئے ان سے ایسے ہی گندے اقوال و افعال کی توقع تھی۔ (ابن کثیر) 1 ۔ یہاں تک وہ آیات مکمل ہوگئیں جو حضرت عائشہ (رض) کی تہمت زنا سے برأت کے سلسلہ میں نازل کی گئی تھیں۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں۔ جب یہ آیات نازل ہوئیں اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے خوشخبری دی تو میری والدہ نے مجھ سے کہا : اٹھو، اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شکریہ ادا کرو “ میں نے کہا :“ میں نہ ان کا شکریہ ادا کرونگی اور نہ اپنے ماں باپ کا، بلکہ میں تو اللہ ہی کا شکر ادا کرونگی جس نے میری برأت نازل فرمائی۔ حضرت عائشہ (رض) مزید فرماتی ہیں :” یہ بات میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھی کہ میرے حق میں وحی نازل ہوگی جو قیامت تک پڑھی جائیگی میں اپنی ہستی کو اس سے کمتر سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ خود میری برأت میں کلام کرے۔ (بخاری، مسلم)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : تہمت کے بیان میں ایک اور حقیقت کی وضاحت۔ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہوتی ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے ہوتے ہیں۔ یہاں لوگوں کے طبعی رجحانات اور ان کی اچھی بری فطرت کا ذکر کرتے ہوئے بتلایا ہے کہ فکرو عمل کے اعتبار سے بےحیا عورتیں بےحیا مردوں کو پسند کرتی ہیں اور بےحیا مرد بےحیا عورتوں کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ فکرو عمل کے اعتبار سے پاک باز عورتیں پاک پاز خاوندوں کے طور پر پسند کرتی ہیں اور پاکباز مرد پاکباز عورتوں کو بیوی بنانا پسند کرتے ہیں۔ پاکباز مرد اور خواتین کا ان باتوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا برے لوگ جو ان کے بارے میں کہتے ہیں۔ ان کی پاکبازی کی وجہ سے ان کی دیگر بشری کمزوریوں کو اللہ تعالیٰ معاف کردیتا ہے ان کے لیے عمدہ اور باعزت رزق تیار کیا گیا ہے اس ارشاد میں ایک طرف سیدہ صدیقہ حضرت عائشہ (رض) کا صالح کردار اور ان کی پاکیزہ سوچ کی نشاندہی کی گئی ہے جس میں اشارتاً بتلایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کے لیے فکروعمل کے اعتبار سے پاکباز بیویوں کا انتخاب کیا ہے اور یہی مسلمانوں کے لیے اصول ہے کہ وہ ازواجی تعلق قائم کرتے ہوئے اس اصول کو پیش نظر رکھا کریں۔ وَعَنْ عَاءِشَۃَ (رض) قَالَتْ قَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اُرِیْتُکِ فِیْ الْمَنَامِ ثَلٰثَ لَیَالٍ یَجِیْئُ بِکِ الْمَلَکُ فِیْ سَرَقَۃٍ مِّنْ حَرِیْرٍ فَقَالَ لِیْ ھٰذِہِِ أمْرَأَتُکَ فَکَشَفْتُ عَنْ وَجْھِکِ الثَّوْبَ فَاِذَا اَنْتِ ھِیَ فَقُلْتُ اِنْ یَّکُنْ ھٰذَا مِنْ عِنْدِاللّٰہِ یُمْضِہٖ ۔ [ رواہ البخاری : باب قَوْلِ اللَّہِ تَعَالَی (إِنَّ الَّذِینَ یَأْکُلُونَ أَمْوَالَ الْیَتَامَی ظُلْمًا إِنَّمَا یَأْکُلُونَ فِی بُطُونِہِمْ نَارًا وَسَیَصْلَوْنَ سَعِیرًا ] ” حضرت عائشہ (رض) کا بیان ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے بتایا کہ تین راتیں تو مجھے خواب میں دکھائی گئی۔ فرشتہ ریشم کے ٹکڑے میں لپیٹ کر تیری تصویر لاتا رہا اور اس نے مجھے بتایا کہ یہ آپ کی بیوی ہے۔ جب میں نے تیرے چہرے سے نقاب اٹھایا تو واقعتا ہی تھی۔ پس میں نے سوچا یہ خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے وہ وہ ایسا کرے گا۔ “ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ تُنْکَحُ الْمَرْأَۃُ لِأَرْبَعٍ لِمَالِھَا وَلِحَسَبِھَا وَلِجَمَالِھَا وَلِدِیْنِھَا فَاظْفُرْ بِذَات الدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاکَ ) [ رواہ البخاری : کتاب النکاح، باب الأکفاء فی الدین ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عورت سے چار وجوہات کی بنیاد پر شادی کی جاتی ہے۔ مال کی وجہ سے، حسب ونسب کی بناء پر، اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی بنیاد پر۔ پس تم دین دار کو پسند کرو تاکہ تم کامیاب اور خوش وخرم رہو۔ تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں۔ “ پاکباز عورت کا خصوصی وصف : (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) اَنَّ بَعْضَ اَزْوَاج النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قُلْنَ للنَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَیُّنَا اَسْرَعُ بِکَ لُحُوقًا ؟ قَالَ اَطْوَلُکُنَّ یَداً فَاَخَذُوْا قَصْبَۃً یَذْرَعُوْنَھَا وَکَانَتْ سَوْدَۃُ اَطْوَلَھُنَّ یَدًا فَعَلِمْنَا بَعْدُ اِنَّمَا کَانَ طُوْلَ یَدِھَا الصَّدَقَۃُ وَ کَانَتْ اَسْرَعَنَا لُحُوْقًابِہٖ زَیْنَبُ وَ کَانَتْ تُحِبُّ الصَّدَقَۃَ (رَوَاہُ الْبُخَارِیُّ ) وَِ فی رِوَایَۃِ مُسْلِمٍ قَا لَتْ قَالَ رَ سُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَسْرَ عُکُنَّ لُحُوقًابِیْ اَطْوَلُکُنَّ یَدًا قَالَتْ وَ کَانَتْ یَتَطَاوَلْنَ اَیَّتُھُنَّ اَطْوَلُ یَدًا قَالَتْ فَکَانَتْ اَطْوَلُنَا یَدًا زَیْنَبُ لِاَنَّھَا کَانَتْ تَعْمَلُ بِیَدِھَا وَ تَتَصَدَّقُ ) [ رواہ مسلم : باب مِنْ فَضَاءِلِ زَیْنَبَ أُمِّ الْمُؤْمِنِینَ r ] ” حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیویوں میں بعض نے آپ سے دریافت کیا کہ ہم میں سے کون سی بیوی آپ سے جنت میں پہلے ملے گی ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ انہوں نے چھڑی کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو ناپنا شروع کیا۔ حضرت سودہ (رض) کے ہاتھ سب سے لمبے تھے لیکن ہمیں بعد میں پتہ چلا کہ ہاتھ لمبے ہونے سے مراد زیادہ صدقہ دینا تھا۔ چناچہ ہم سے جو پہلے آپ سے ملیں وہ حضرت زینب تھی جو صدقہ و خیرات کرنے کو بہت پسند کرتی تھی۔ (بخاری) مسلم کی روایت میں ہے حضرت عائشہ (رض) نے بیان کیا رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جنت میں مجھے سب سے پہلے وہ بیوی ملے گی جس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں کہ آپ کی بیویاں اندازہ لگاتی تھیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں چناچہ ہم میں سے زینب کے ہاتھ لمبے ثابت ہوئے۔ اس لیے کہ وہ ہاتھ سے محنت کرتی اور اسے صدقہ و خیرات کردیا کرتی تھیں۔ “ مسائل ١۔ خبیث مرد اور عورتیں ایک دوسرے کی طرف راغب ہوتے ہیں۔ ٢۔ پاکباز مرد اور عورتیں پاکبازوں کے ساتھ ہی رشتہ قائم کرتے ہیں۔ ٣۔ پاکباز مرد اور عورتوں کو بری باتوں اور بدکاری کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(الخبیثت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ورزق کریم) (٢٤ : ٢٦) ” خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لیے ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لیے۔ پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لیے ہیں لور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لیے۔ ان کا دامن پاک ہے ان باتوں سے جو بنانے والے بناتے ہیں ‘ انکے لیے مغفرت ہے اور رزق کریم “۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت عائشہ (رض) سے بےحد محبت تھی۔ اللہ تعالیٰ انہیں اپنے نبی کے لیے کس طرح چن سکتا تھا اگر وہ پاک نہ ہوتیں۔ یہ پاک لوگ اپنی فطرت کے اعتبار سے ان باتوں سے پاک ہیں اور ان کی طرف جن گندی باتوں کی نسبت کی جاتی ہے ‘ وہ ان سے مبراء ہیں۔ ان کے لیے رزق کریم ہے قیامت میں اور گناہوں سے مغفرت ہے یعنی ان کی چھوٹی موٹی کو تاہیاں اللہ کے ہاں معاف ہوجاتی ہیں۔ ان آیات پر افک کے واقعات اب اختتام پذیر ہوتے ہیں۔ ان واقعات کی وجہ سے امت مسلمہ نہایت ہی مصیبت میں گھر گئی تھی۔ اس واقعہ کے نتیجے میں نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور ان کے گھر کی طہارت اور عزت کا مسئلہ در پیش تھا۔ اور بڑی بڑی جنگوں کی آزمائشوں کے ساتھ ساتھ ‘ داخلی محاذ کو مضبوط بنانے کے لیے یہ بھی اللہ کی طرف سے ایک آزمائش تھی جس میں سے ابتدائی اسلامی جماعت کو گزارا گیا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

چھٹی آیت میں فرمایا کہ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لائق ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لائق ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لائق ہیں، اس میں اول تو بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے طبیعتوں میں جوڑ رکھا ہے گندی اور بد کار عورتیں بد کار مردوں کی طرف اور گندے اور بد کار مرد گندی اور بد کار عورتوں کی طرف مائل ہوتے ہیں اس طرح پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کی طرف اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کی طرف راغب ہوتے ہیں اور اسی طبعی رغبت کی مناسبت کی وجہ سے اچھوں کی اچھا جوڑا مل جاتا ہے اور بروں کو برا جوڑا حاصل ہوتا ہے اس سے معلوم ہوگیا حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کو جو اللہ تعالیٰ نے بیویاں عطا فرمائیں وہ پاکیزہ بیویاں تھیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کے سردار ہیں ان کی ازواج بھی طاہرات اور مطہرات اور پاکیزہ ہیں جب اللہ تعالیٰ انہیں سردار انبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجیت کا شرف عطا فرما دیا تو اب ان کے بارے میں بری بات کا خیال کرنا اور زبان پر لانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان اقدس پر حملہ کرنے کے مترادف ہوا۔ اسی لیے حضرت عائشہ صدیقہ (رض) پر تہمت لگانے والوں کے بارے میں (جنہوں نے بری بات کو اٹھایا اور آگے بڑھایا اور پھیلایا اور پھر آیت قرآنیہ نازل ہونے پر بھی توبہ نہ کی) (لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ) فرما دیا (اُولٰٓءِکَ مُبَرَّءُوْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَ ) (یہ پاکیزہ مرد اور پاکیزہ عورتیں ان چیزوں سے بری ہیں جو لوگ ان کے بارے میں کہتے ہیں تہمت لگاتے ہیں) (لَہُمْ مَغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیمٌ) (ان کے لیے گناہوں کی مغفرت ہے اور عزت والا رزق ہے) یعنی ان کے لیے جنت ہے جس میں عزت کے ساتھ کھائیں گے۔ (مُبَرَّءُ وْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَ ) میں حضرت عائشہ (رض) کی برأت کی تصریح کے ساتھ حضرت صفوان بن معطل (رض) کی برأت کی بھی تصریح آگئی۔ (معالم التنزیل ج ٣ ص ٣٣٥) حضرت عائشہ صدیقہ (رض) فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے چند چیزوں پر فخر ہے پھر اس کو اس طرح بیان فرماتی تھیں (١) کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرے علاوہ کسی باکرہ یعنی کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا (٢) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وفات ہوئی تو آپ میری گود میں تھے۔ (٣) اور آپ میرے گھر میں دفن ہوئے۔ (٤) اور آپ کے اوپر (بعض مرتبہ) ایسی حالت میں وحی آتی تھی کہ آپ میرے ساتھ ایک ہی لحاف میں ہوتے تھے۔ (٥) اور آسمان سے میری برأت نازل ہوئی۔ (٦) میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلیفہ اور دوست (یار غار) کی بیٹی ہوں۔ (٧) اور میں پاکیزہ پیدا کی گئی۔ (٨) اور مجھ سے مغفرت اور رزق کریم کا وعدہ فرمایا گیا۔ اور الاصابہ میں بحوالہ طبقات ابن سعد حضرت عائشہ (رض) سے یوں نقل کیا ہے کہ مجھے چند ایسی نعمتیں عطا کی گئی ہیں جو میرے علاوہ کسی اور عورت کو نصیب نہیں ہوئیں۔ (١) میں سات سال کی تھی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے نکاح کیا ہے۔ (٢) فرشتہ میری صورت آپ کے پاس ایک ریشمی کپڑے میں لے کر آیا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھے دیکھ لیں۔ (٣) میں نو سال کی تھی جب زفاف ہوا۔ (٤) میں نے جبرائیل (علیہ السلام) کو دیکھا۔ (٥) میں بیویوں میں آپ کی سب سے زیادہ محبوب تھی۔ (٦) میں نے آپ کی آخری حیات میں آپ کی تیمار داری کی میرے ہی پاس آپ کی وفات ہوئی آپ کی وفات کے وقت میرے اور فرشتوں کے علاوہ کوئی موجود نہیں تھا۔ (انتھی) (وراجع الدر المنثور ج ٥ ص ٣٢) بعض اکابر نے فرمایا ہے کہ حضرت یوسف (علیہ السلام) پر تہمت لگائی گئی تو اللہ تعالیٰ نے ایک چھوٹے بچہ کو قوت گویائی دی اور اس کے ان کی برأت ظاہر کی اور حضرت مریم (علیہ السلام) پر تہمت لگائی گئی تو ان کے فرزند حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) (جبکہ وہ گود ہی میں تھے) ان کی برأت ظاہر کی اور حضرت عائشہ صدیقہ (رض) پر تہمت لگائی گئی اور ان کی برأت ظاہر فرمانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں متعدد آیات نازل فرمائیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو جو تہمت لگائی گئی تھی قرآن مجید میں ان کی برأت نازل ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے تہمت لگانے والوں کو جھوٹا قرار دیا اور جنہوں نے آیت نازل ہونے کے بعد بھی اعتقاد تہمت سے توبہ نہ کی ان کے لیے فرمایا کہ دنیا و آخرت میں ملعون ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ ان کے لیے عذاب عظیم ہے اور یہ بھی فرمایا ان کی حرکت کا اللہ تعالیٰ انہیں پورا پورا بدلہ دے گا اس سب کے باو جود مدعیان اسلام میں جو شیعہ فرقہ ہے وہ یہی کہتا ہے کہ حضرت عائشہ پر جو تہمت لگائی تھی وہ صحیح تھی اور ساتھ ہی یہ لوگ یوں بھی کہتے ہیں کہ جب امام مہدی تشریف لائیں گے تو حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کو قبر سے نکال کر حد لگائیں گے (العیاذ باللہ) یہ لوگ آیت قرآنیہ کے منکر اور مکذب ہونے کی وجہ سے کافر ہیں اور (لُعِنُوْا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ ) کا مصداق ہیں (قَاتَلَھُمُ اللّٰہُ اَنّٰی یُؤْفِکُوْنَ ) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

24:۔ ” الخبیثت للخبیثین الخ “ پارسا ایمان والوں کے لیے بشارت اخروی ہے۔ الخبیثات، ناپاک عادتیں اور گندی باتیں مراد ہیں اور الطیبات سے پاکیزہ اور نیک عادتیں اور باتیں مراد ہیں یعنی گندی باتیں اور عادتیں، گندے اور بدکار لوگوں کے لائق ہیں اور پاکیزہ عادتیں اور ستھری باتیں نیکو کار اور پاکیزہ لوگوں کی شان کے شایان ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) ایک پاکیزہ عورت ہیں اس لیے بدکاری ایسی بری اور ناپاک بات کو ان کی ذات سے کوئی نسبت نہیں۔ اسی طرح حضرت صفوان (رض) (جن سے منافقین نے حضرت عائشہ پر تہمت لگائی تھی) بھی ایک پاکباز اور عفیف انسان ہیں اور زنا ایسی خباثت سے مبرّا ہیں۔ قال مجاھد وابن جبیر وعطاء و اکثر المفسرین المعنی الکلمات الخبیثات من القول للخبیثین من الرجال وکذا الخبیثون من الناس للخبیثات من القول الخ (قرطبی ج 12 ص 211) ۔ یا الخبیثت سے بدکار عورتیں اور الطیبات سے پارسا عورتیں مراد ہیں اور مطلب یہ ہوگا کہ بدکار اور گندی عورتیں بدکار اور گندے مردوں کے لائق ہیں، اسی طرح بدکار مرد اس لائق ہیں کہ ان کا تعلق بھی اپنے جیسی گندی عورتوں سے ہو اور پاک اور ستھرے مرد اپنے جیسی پارسا اور ستھری عورتوں کے لائق و بالعکس۔ ستھرے اور پاکباز انسانوں کا بدکار اور گندی عورتوں سے کیا جوڑ ؟ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) طیب و طاہر پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیوی ہیں لہذا یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ اللہ کے پیغمبر کی بیوی بدکاری کی نجاست و خباثت سے پاک اور طیبہ اور طاہرہ نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کی ناموس کی حفاظت کرتا ہے اور اس کی آبرو پر آنچ نہیں آنے دیتا۔ کان تعالیٰ یبین ان الطیبات من النساء لطیبین من الرجال ولا احد طیب ولا اطھر من الرسول فازواجہ اذن لا یجوز ایکن الا طیبات (کبیر ج 6 ص 369) ۔ حضرت شیخ قدس سرہ نے پہلے مطلب کو راجح قرار دیا اور فرمایا ” اولئک مبرءون مما یقولون الخ “ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے یعنی پاک لوگ ان ناپاک اور خبیث باتوں سے مبرا ہیں۔ جن کو خبیث لوگ ان کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ 25:۔ ” اولئک مبرءون الخ “ یعنی طیبات (پاکیزہ عورتیں) اور طیبون (پاک دامن مرد) ان ناپاک اور خبیث باتوں سے مبرا ہیں جو منافقین ان کی طرف منسوب کرتے ہیں حضرت عائشہ (رض) اور حضرت صفوان (رض) منافقین کے اس خبیثبہتان سے بری اور پاک ہیں اور اللہ کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اس خباثت سے پاک ہے کہ اس کی بیوی فاحشہ ہو۔ الاشارۃ قیل الی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والصدیقۃ وصفوان (روح ج 18 ص 131) ۔ اولئک مبرءون مما یقولون ای عائشۃ و صفوان مما یقول الخبیثوان والخبیثات (قرطبی) پاکیزہ لوگ دنیا میں بھی ان خباثتوں سے پاک ہیں اور آخرت میں ان پر اللہ کی بےپایاں بخشش ہوگی اور باعزت مقام کے مستحق ہوں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(26) ناپاک عورتیں گندے مردوں کے لائق ہیں اور ناپاک مرد گندی عورتوں کے لئے موزوں ہیں اور پاک عورتیں پاکیزہ اور ستھرے مردوں کے لائق ہیں اور پاکیزہ مرد پاکیزہ اور ستھری عورتوں کے لئے موزوں ہیں وہ لوگ اس بہتان اور طوفان سے بالکل بری اور پاک ہیں جو یہ منافق کہتے پھرتے ہیں۔ ان پاک اور بےگناہ لوگوں کے لئے بڑی بخشش اور باعزت روزی ہے۔ آیت کی دو طرح تفسیر کی گئی ہے ہم نے ترجمے اور تیسیر میں دونوں کی رعایت رکھی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ پاکیزہ عورتیں ستھرے مردوں کے لائق ہیں اور ستھرے مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے مناسب اور موزوں ہیں۔ اسی طرح گندی عورتیں ناپاک مردوں کے لئے اور گندے مرد ناپاک عورتو کے لئے۔ یا یہ مطلب ہے کہ ناپاک باتیں گندے لوگوں کو زیبا اور موزوں ہیں اور گندے لوگ گندی باتوں کے لئے مناسب ہیں۔ اسی طرح پاک باتیں ستھرے لوگوں کے لئے مناسب و لائق ہیں اور پاک لوگ ستھری باتوں کے لئے موزوں ہیں۔ غرض ! خاندان نبوت جو پاکیزہ حضرات کا خاندان ہے ان کے ہاں گندی باتوں اور فحش عورتوں کا کیا کام وہ لوگ اس قسم فحش باتوں سے بالکل بری اور پاک ہیں جو یہ منافق بکتے پھرتے ہیں ان کے لئے ان کی شان کے موافق مغفرت و بخشش کا برتائو ہونے والا ہے اور باعزت روزی ملنے والی ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں ابن عباس نے کہا کہ کسی پیغمبر کی عورت بدکار نہیں ہوئی۔ یعنی اللہ ان کیے ناموس کی نگہبانی کرتا ہے۔