Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 49

سورة النور

وَ اِنۡ یَّکُنۡ لَّہُمُ الۡحَقُّ یَاۡتُوۡۤا اِلَیۡہِ مُذۡعِنِیۡنَ ﴿ؕ۴۹﴾

But if the right is theirs, they come to him in prompt obedience.

ہاں اگر انہی کو حق پہنچتا ہو تو مطیع و فرماں بردار ہو کر اس کی طرف چلے آتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

But if the truth is on their side, they come to him willingly with submission. means, if the ruling will be in their favor and not against them, then they will come and will listen and obey, which is what is meant by the phrase مُذْعِنِينَ (willingly with submission). But if the ruling will go against him, he turns away and demands something that goes against the truth, and he p... refers to refer for judgement to someone other than the Prophet so that his false claims may prevail. His acceptance in the beginning was not because he believed that it was the truth, but because it happened to be in accordance with his desires. So when the truth went against what he was hoping for, he turned away from it. Allah said:   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

491کیونکہ انھیں یقین ہوتا ہے کہ عدالت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو فیصلہ صادر ہوگا، اس میں کسی کی رو رعایت نہیں ہوگی، اس لئے وہاں اپنا مقدمہ لے جانے سے ہی گریز کرتے ہیں۔ ہاں اگر وہ جانتے ہیں کہ مقدمے میں وہ حق پر ہیں اور ان ہی کے حق میں فیصلہ ہونے کا غالب امکان ہے تو پھر خوشی خوشی وہاں آتے ہ... یں۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٧] ذھن کے معنی نہایت فرمانبردار بن کر ساتھ ہو لینا یا اشاروں پر چلنا ہے۔ اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ منافق لوگ اللہ اور اس کے بلانے یا اس کے ہاں جانے سے اعراض صرف اس وقت کرتے ہیں جب انھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دوسرے کا حق دبا رہے ہیں اور اگر رسول کے پاس گئے تو وہ یقیناً حق کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ لہ... ذا ہمیں اس کے پاس جانے سے نقصان پہنچ جائے گا لیکن جب انھیں معلوم ہوا کہ ہم حق پر ہیں یا دوسرے کی طرف سے ان کا حق نکلتا ہے تو بلا چون و چرا نہایت فرمانبردار بن کر ساتھ ہو لیتے ہیں اس کی وجہ بھی وہی ہے ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ رسول حق کے مطابق ہی فیصلہ کرے گا۔ ایسے لوگ دراصل رسول کی نہیں اپنے فائدے کی اتباع کرتے ہیں۔ پہلے سورة مائدہ کی آیت نمبر ٤٣ کے حاشیہ میں گزر چکا ہے کہ ایک منافق اور ایک یہودی کے درمیان کچھ جھگڑا ہوگیا تھا۔ جس میں یہودی حق پر تھا۔ اور یہ چاہتا تھا کہ اپنا مقدمہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے چلیں۔ جبکہ منافق یہ چاہتا تھا کہ یہ مقدمہ یہود کے سردار کعب بن اشرف کے پاس لے جائیں۔ اس مقدمہ کی تفصیل مذکورہ حاشیہ میں دیکھ لی جائے۔ کہتے ہیں کہ یہ آیت بھی اسی سلسلہ میں نازل ہوئی تھی۔ اس آیت سے واضح طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص شریعت کی مفید مطلب باتیں تو بہ خوشی کرے مگر جو باتیں اس کی اغراض و خواہشات یا مفاد کے خلاف پڑتی ہوں ان سے اعراض کرے۔ وہ مومن نہیں۔ بلکہ منافق ہوتا ہے اور اپنے ایمان کے دعوے میں جھوٹا ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ دراصل اپنی خواہشات کا پیروکار ہوتا ہے۔ شریعت کا نہیں ہوتا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاِنْ يَّكُنْ لَّهُمُ الْحَقُّ ۔۔ : ” مُذْعِنِيْنَ “ ” أَیْ مُنْقَادِیْنَ “ مطیع ہونے والے، یعنی جب دیکھتے ہیں کہ شریعت کے مطابق فیصلے میں ان کا فائدہ ہے، تب تو بڑے فرماں بردار بن کر آتے ہیں اور ایمان کے لمبے چوڑے دعوے کرتے ہیں ورنہ دبک کر بیٹھ جاتے ہیں اور شریعت کے احکامات میں کیڑے نکالنا شروع کرد... یتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ شریعت کی اس طرح کی پیروی اللہ تعالیٰ کی نظر میں کوئی وزن نہیں رکھتی، کیونکہ یہ شریعت کی پیروی نہیں بلکہ نفس کی پیروی ہے۔ (ابن کثیر)  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِنْ يَّكُنْ لَّہُمُ الْحَقُّ يَاْتُوْٓا اِلَيْہِ مُذْعِنِيْنَ۝ ٤٩ۭ حقَ أصل الحَقّ : المطابقة والموافقة، کمطابقة رجل الباب في حقّه لدورانه علی استقامة . والحقّ يقال علی أوجه : الأول : يقال لموجد الشیء بسبب ما تقتضيه الحکمة، ولهذا قيل في اللہ تعالی: هو الحقّ قال اللہ تعالی: وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ...  مَوْلاهُمُ الْحَقِّ وقیل بعید ذلک : فَذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمُ الْحَقُّ فَماذا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّلالُ فَأَنَّى تُصْرَفُونَ [يونس/ 32] . والثاني : يقال للموجد بحسب مقتضی الحکمة، ولهذا يقال : فعل اللہ تعالیٰ كلّه حق، نحو قولنا : الموت حق، والبعث حق، وقال تعالی: هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] ، والثالث : في الاعتقاد للشیء المطابق لما عليه ذلک الشیء في نفسه، کقولنا : اعتقاد فلان في البعث والثواب والعقاب والجنّة والنّار حقّ ، قال اللہ تعالی: فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] . والرابع : للفعل والقول بحسب ما يجب وبقدر ما يجب، وفي الوقت الذي يجب، کقولنا : فعلک حقّ وقولک حقّ ، قال تعالی: كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] ( ح ق ق) الحق ( حق ) کے اصل معنی مطابقت اور موافقت کے ہیں ۔ جیسا کہ دروازے کی چول اپنے گڑھے میں اس طرح فٹ آجاتی ہے کہ وہ استقامت کے ساتھ اس میں گھومتی رہتی ہے اور لفظ ، ، حق ، ، کئی طرح پر استعمال ہوتا ہے ۔ (1) وہ ذات جو حکمت کے تقاضوں کے مطابق اشیاء کو ایجاد کرے ۔ اسی معنی میں باری تعالیٰ پر حق کا لفظ بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَرُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِّ پھر قیامت کے دن تمام لوگ اپنے مالک برحق خدا تعالیٰ کے پاس واپس بلائیں جائنیگے ۔ (2) ہر وہ چیز جو مقتضائے حکمت کے مطابق پیدا کی گئی ہو ۔ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِياءً وَالْقَمَرَ نُوراً [يونس/ 5] وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور اس کی منزلیں مقرر کیں ۔۔۔ یہ پ ( سب کچھ ) خدا نے تدبیر سے پیدا کیا ہے ۔ (3) کسی چیز کے بارے میں اسی طرح کا اعتقاد رکھنا جیسا کہ وہ نفس واقع میں ہے چناچہ ہم کہتے ہیں ۔ کہ بعث ثواب و عقاب اور جنت دوزخ کے متعلق فلاں کا اعتقاد حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔۔ فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ [ البقرة/ 213] تو جس امر حق میں وہ اختلاف کرتے تھے خدا نے اپنی مہربانی سے مومنوں کو اس کی راہ دکھادی ۔ (4) وہ قول یا عمل جو اسی طرح واقع ہو جسطرح پر کہ اس کا ہونا ضروری ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو جس مقدار میں اور جس وقت اس کا ہونا واجب ہے چناچہ اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ کہ تمہاری بات یا تمہارا فعل حق ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ كَذلِكَ حَقَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ [يونس/ 33] اسی طرح خدا کا ارشاد ۔۔۔۔ ثابت ہو کر رہا ۔ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے ذعن مُذْعِنِينَ أي : منقادین، يقال : ناقة مِذْعَان، أي : منقادة . ( ذع ن ) الاذعان ( افعال) کے معنی کسی کا مطیع اور منقاد ہوجانے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے ۔ مُذْعِنِين تو ان کیطرف مطیع ہوکر چلے آتے ۔ ناقۃ مذعان ۔ سوار کی مطیع اور فرمانبردار اونٹنی ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٩) اور اتقاق سے ان کے حق میں فیصلہ ہو تو خوشی خوشی تیزی کے ساتھ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں چلے آئیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٤٩ (وَاِنْ یَّکُنْ لَّہُمُ الْحَقُّ یَاْتُوْٓا اِلَیْہِ مُذْعِنِیْنَ ) ” اگر کسی معاملہ یا تنازعہ میں وہ حق بجانب ہوں اور انہیں یقین ہو کہ فیصلہ انہی کے حق میں ہوگا تو اس معاملے کو لے کر بڑے اطاعت شعار بنتے ہوئے پورے اعتماد اور یقین کے ساتھ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آجاتے ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

79. This verse states that a person who willingly accepts only that part of the divine law which serves his advantage, but rejects that which goes against his interests and desires, and prefers the worldly laws instead, is not a believer but a hypocrite. His profession of faith is false for he does not in fact believe in Allah and His Prophet but in his own interests and desires. With this attitud... e even if he believes in and follows a portion of the divine law, his belief has no value whatever in the sight of Allah.  Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:49) مذعنین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ اذعان (افعال) مصدر جس کے معنی کسی کا مطیع ومنقاد ہوجانے کے ہیں۔ بڑے مطیع و فرمانبردار ہوکر۔ سر تسلیم خم کئے (چلے آتے ہیں) ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

7 ۔ یعنی جب یہ دیکھتے ہیں کہ شریعت کے مطابق فیصلہ میں ان کا فائدہ ہے تب تو بڑے اطاعت کیش بن کر آتے ہیں اور ایمان کے لمبے چوڑے دعوے کرتے ہیں ورنہ دبک کر بیٹھ جاتے ہیں اور شریعت کے احکام میں کیڑے نکالنے لگتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ شریعت کی اس طرح کی پیروی اللہ تعالیٰ کی نظر میں کوئی وزن نہیں رکھتی۔ کیونکہ ... یہ شریعت کی پیروی نہیں بلکہ نفس پرستی ہے۔ (ابن کثیر)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ کیونکہ اطمینان ہوتا ہے کہ وہاں حق رسی ہوگی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منافق کی عادات کا ذکر جاری ہے۔ منافق کی منافقت کا بنیادی سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ دنیا کے فائدے کی خاطر کبھی اسلام اور کبھی کفر کو ترجیح دیتا ہے اگر کسی قضیہ میں فیصلہ اس کے حق میں ہوجائے تو وہ اسلام، اسلام پکارتا ہے اور مسلمانوں کی تعریفیں کرتا ہے اور اگر فیصلہ اس کے حق میں نہ ہو...  تو وہ اسلامی نظام کے نقائص بیان کرتا ہے کیونکہ اس کے دل میں منافقت کی بیماری ہوتی ہے اس لیے وہ اسلامی نظام عدل سے خوف کھاتا اور سمجھتا ہے کہ اسے تسلیم کرنے سے میرا نقصان ہوگا۔ یہی حالت نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں منافقوں کی تھی۔ جب انہیں کسی معاملہ میں یہ دعوت دی جاتی کہ آؤ۔ اللہ اور اس کے رسول سے اس کا فیصلہ کرواتے ہیں تو وہ اس بات سے ڈرتے تھے کہ اللہ اور اس کا رسول ہمارے حق میں فیصلہ نہیں کریں گے۔ اس لیے یہاں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول کسی پر ظلم نہیں کرتے بلکہ یہ لوگ خود ہی ظالم ہیں (سورۃ البقرہ کی آیت ١٠ کی تشریح میں لکھا ہے کہ بنیادی طور پر بیماریاں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک جسمانی اور دوسری روحانی۔ منافقت روحانی بیماریوں میں سب سے بڑی بیماری ہے جس سے روحانی بیماریاں اور اخلاقی جرائم جنم لیتے ہیں۔ (یُخٰدِعُوْنَ اللّٰہَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّآ اَنْفُسَھُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ فَزادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا وَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْن) [ البقرۃ : ٩۔ ١٠] ” وہ اللہ تعالیٰ اور ایمان والوں کو دھوکہ دیتے ہیں مگر حقیقت میں وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں اور وہ شعور نہیں رکھتے۔ ان کے دلوں میں بیماری ہے اللہ تعالیٰ نے انہیں بیماری میں زیادہ کردیا اور انہیں دردناک عذاب ہوگا کیونکہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔ “ (عَنْ أُمِّ مَعْبَدٍ قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ اللّٰھُمَّ طَھِّرْ قَلْبِيْ مِنَ النِّفَاقِ وَعَمَلِيْ مِنَ الرِِّیَاءِ وَلِسَانِيْ مِنَ الْکَذِبِ وَعَیْنِيْ مِنَ الْخِیَانَۃِ فَإِنَّکَ تَعْلَمُ خَاءِنَۃَ الْأَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ ) [ رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر) ” حضرت ام معبد (رض) بیان کرتیں ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا آپ دعا فرمایا کرتے تھے اے اللہ ! میرے دل کو نفاق سے، میرے عمل کو ریا سے، میری زبان کو جھوٹ سے اور آنکھ کو خیانت سے پاک فرما۔ تو خیانت کرنے والی آنکھ کو جانتا ہے اور دلوں کے راز سے واقف ہے۔ “ مسائل ١۔ منافق وہی فیصلہ تسلیم کرتا ہے جس میں اس کا مفاد پایاجائے۔ ٢۔ منافق عدل اسلامی سے ڈرتے ہیں۔ ٣۔ منافق اپنے آپ اور دوسروں پر ظلم کرنے والا ہوتا ہے۔ تفسیر بالقرآن منافق کی عادات : ١۔ منافق کو مسلمان کی بھلائی اچھی نہیں لگتی۔ (آل عمران : ١٢٠) ٢۔ منافق صرف زبان سے حق کی شہادت دیتا ہے۔ (المنافقون : ١) ٣۔ منافق کفار سے دوستی رکھتا ہے۔ (البقرۃ : ١٤) ٤۔ منافق دنیا کے فائدے کے لیے اسلام قبول کرتا ہے۔ ( البقرۃ : ٢٠) ٥۔ منافق اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ سنجیدہ نہیں ہوتا۔ (البقرہ : ١٤) ٦۔ منافق مسلمانوں کو حقیر سمجھتا ہے۔ (المنافقون : ٨) ٧۔ منافق دین کی بجائے کفر کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔ (آل عمران : ١٦٧) ٨۔ منافق ریا کار ہوتا ہے۔ (النساء : ١٤٢) ٩۔ منافق جھوٹا ہوتا ہے۔ (البقرہ : ١٠) ١٠۔ منافق نماز میں جان بوجھ کر سستی کرتا ہے۔ ( النساء : ١٤٢) ١١۔ منافق اسلام اور کفر کے درمیان رہتا ہے۔ ( النساء : ١٤٣) ١٢۔ منافق صحابہ کو بیوقوف سمجھتے ہیں۔ ( البقرۃ : ١٣) ١٣۔ منافق جہنم کے نچلے طبقے میں ہوں گے۔ ( النساء : ١٤٥)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(49) اور اگر ان کا کچھ نکلتا ہو اور ان کا کوئی حق ثابت ہوتا ہو تو رسول کے پاس فرمانبردار بن کر سرتسلیم خم کئے ہوئے چلے آتے ہیں یعنی یہ سمجھ کر کہ مقدمے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی کی رو رعایت یا کسی کا بےجا لحاظ تو کریں گے اس لئے ٹل جاتے اور حاضری سے انکار کرتے ہیں اور فصلہ کرانے سے ... بچتے ہیں اور اگر ان کا کچھ نکلتا ہے اور کوئی حق ان کو پہنچتا ہے تو نہ صرف حاضر ہوتے ہیں بلکہ یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ ہم تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرمانبردار ہیں اور حضور جو حکم فرمائیں گے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو فیصلہ دیں گے اس کو ہم دل و جان سے قبول کریں گے۔ اب آگے ان کی اس بیماری کو بطور تردید فرماتے ہیں کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے۔  Show more