Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 54

سورة النور

قُلۡ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ ۚ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡہِ مَا حُمِّلَ وَ عَلَیۡکُمۡ مَّا حُمِّلۡتُمۡ ؕ وَ اِنۡ تُطِیۡعُوۡہُ تَہۡتَدُوۡا ؕ وَ مَا عَلَی الرَّسُوۡلِ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۵۴﴾

Say, "Obey Allah and obey the Messenger; but if you turn away - then upon him is only that [duty] with which he has been charged, and upon you is that with which you have been charged. And if you obey him, you will be [rightly] guided. And there is not upon the Messenger except the [responsibility for] clear notification."

کہہ دیجئے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم مانو ، رسول اللہ کی اطاعت کرو ، پھر بھی اگر تم نے روگردانی کی تو رسول کے ذمے تو صرف وہی ہے جو اس پر لازم کر دیا گیا ہے اور تم پر اس کی جوابدہی ہے جو تم پر رکھا گیا ہے ہدایت تو تمہیں اسی وقت ملے گی جب رسول کی ماتحتی کرو سنو رسول کے ذمے تو صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قُلْ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ... Say: "Obey Allah and obey the Messenger... meaning, follow the Book of Allah and the Sunnah of His Messenger. ... فَإِن تَوَلَّوا ... but if you turn away, if you ignore what he has brought to you, ... فَإِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ ... he is only responsible for the duty placed on him, conveying the Message a... nd fulfilling the trust. ... وَعَلَيْكُم مَّا حُمِّلْتُمْ ... and you for that placed on you. accepting that, and venerating it and doing as it commanded. ... وَإِن تُطِيعُوهُ تَهْتَدُوا ... If you obey him, you shall be on the right guidance. because he calls to the straight path, صِرَطِ اللَّهِ الَّذِى لَهُ مَا فِى السَّمَـوَتِ وَمَا فِى الاٌّرْضِ The path of Allah to Whom belongs all that is in the heavens and all that is in the earth... (42:53) ... وَمَا عَلَى الرَّسُولِ إِلاَّ الْبَلَغُ الْمُبِينُ The Messenger's duty is only to convey in a clear way. This is like the Ayat: فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَـغُ وَعَلَيْنَا الْحِسَابُ your duty is only to convey and on Us is the reckoning. (13:40) فَذَكِّرْ إِنَّمَأ أَنتَ مُذَكِّرٌ لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُسَيْطِرٍ So remind them -- you are only one who reminds. You are not a dictator over them. (88:21-22)   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

541یعنی تبلیغ و دعوت، جو وہ ادا کر رہا ہے۔ 542یعنی تبلیغ و دعوت کو قبول کر کے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا اور ان کی اطاعت کرنا۔ 543اس لئے کہ صراط مستقیم کی طرف دعوت دیتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٢] یعنی رسول اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا پابند ہے اور تم اپنی ذمہ داری کے۔ رسول کی ذمہ داری اتنی ہے کہ وہ تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دے اور وہ اس نے پوری کردی۔ اور تمہارے ذمہ یہ بات ہے کہ تم اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو جس میں تم پس و پیش کر رہے ہو۔ اور تیری قسمیں کھا کھا کر ہی آئندہ کے لئے اط... اعت کا یقین دلانا چاہ رہے ہو لیکن یاد رکھو کہ اگر اس کے احکام کی تعمیل کرو گے تو اسی میں تمہارا بھلا ہے۔ دنیا میں بھی عزت و آرام سے رہو گے اور آخرت میں کامیاب رہو گے۔ اور اگر ایسا نہ کرو گے تو ایسا نہ کرو گے تو اس میں رسول کا کچھ نقصان نہیں۔ تمہاری خباثتوں کا خمیازہ تمہیں ہی بھگتنا پڑے گا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ اَطِيْعُوا اللّٰهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ : یعنی صرف اللہ کا نہیں بلکہ اللہ کا بھی اور اس کے ساتھ رسول کا بھی حکم مانو۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد ان کا کہنا ماننا یہی ہے کہ ان کی سنت کی پیروی کی جائے۔ فَاِنْ تَوَلَّوْا : ” تَوَلَّوْا “ اصل ... میں ” تَتَوَلَّوْا “ ہے، جو مضارع میں سے مخاطب کا صیغہ ہے، معنی ہے اگر تم پھر جاؤ۔ یہ فعل ماضی سے غائب کا صیغہ نہیں، جس کا معنی ہے اگر وہ پھرجائیں، کیونکہ آگے انھیں مخاطب کیا جا رہا ہے : (فَاِنَّمَا عَلَيْهِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ ) یعنی اگر تم کسی طرح کی بھی حکم عدولی کرو گے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ نقصان نہیں۔ اس کی ذمہ داری تم تک اللہ کا پیغام پہنچا دینا تھی، سو اس نے یہ پیغام پہنچا دیا، اب اس پر عمل کرنا تمہاری ذمہ داری ہے، اگر تم اس سے پیٹھ پھیرتے ہو تو اپنا انجام خود سوچ لو۔ وَاِنْ تُطِيْعُوْهُ تَهْتَدُوْا : یعنی اگر تم رسول کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پا جاؤ گے، اس کے سوا جس کی بھی اطاعت کرو گے ہدایت نہیں پاؤ گے۔ ابن عطیہ نے یہاں سلف میں سے بعض کا قول نقل فرمایا ہے جو اس آیت کی بہترین تفسیر ہے، لکھتے ہیں : ” جو شخص اپنے قول و فعل میں سنت کو اپنا امیر بنا لے وہ حکمت اور دانائی کی بات کرے گا اور جو اپنے قول و فعل میں خواہش کو امیر بنا لے وہ بدعت کی بات کرے گا۔ “ [ المحرر الوجیز ] وَمَا عَلَي الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ : یعنی اگر تمہیں ہدایت نہ ہو تو گرفت رسول کی نہیں تمہاری ہوگی۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ اَطِيْعُوا اللہَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ۝ ٠ۚ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَيْكُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ۝ ٠ۭ وَاِنْ تُطِيْعُوْہُ تَہْتَدُوْا۝ ٠ۭ وَمَا عَلَي الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِيْنُ۝ ٥٤ ولي وإذا عدّي ب ( عن) لفظا أو تقدیرا اقتضی معنی الإعراض وترک قربه . فمن...  الأوّل قوله : وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] ، وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] . ومن الثاني قوله : فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] ، ( و ل ی ) الولاء والتوالی اور جب بذریعہ عن کے متعدی ہو تو خواہ وہ عن لفظوں میں مذکورہ ہو ایا مقدرو اس کے معنی اعراض اور دور ہونا کے ہوتے ہیں ۔ چناچہ تعد یہ بذاتہ کے متعلق فرمایا : ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ مِنْكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ [ المائدة/ 51] اور جو شخص تم میں ان کو دوست بنائے گا وہ بھی انہیں میں سے ہوگا ۔ وَمَنْ يَتَوَلَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ [ المائدة/ 56] اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبر سے دوستی کرے گا ۔ اور تعدیہ بعن کے متعلق فرمایا : ۔ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ بِالْمُفْسِدِينَ [ آل عمران/ 63] تو اگر یہ لوگ پھرجائیں تو خدا مفسدوں کو خوب جانتا ہے ۔ حمل الحَمْل معنی واحد اعتبر في أشياء کثيرة، فسوّي بين لفظه في فعل، وفرّق بين كثير منها في مصادرها، فقیل في الأثقال المحمولة في الظاهر کا لشیء المحمول علی الظّهر : حِمْل . وفي الأثقال المحمولة في الباطن : حَمْل، کالولد في البطن، والماء في السحاب، والثّمرة في الشجرة تشبيها بحمل المرأة، قال تعالی: وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] ، ( ح م ل ) الحمل ( ض ) کے معنی بوجھ اٹھانے یا لادنے کے ہیں اس کا استعمال بہت سی چیزوں کے متعلق ہوتا ہے اس لئے گو صیغہ فعل یکساں رہتا ہے مگر بہت سے استعمالات میں بلحاظ مصاد رکے فرق کیا جاتا ہے ۔ چناچہ وہ بوجھ جو حسی طور پر اٹھائے جاتے ہیں ۔ جیسا کہ کوئی چیز پیٹھ لادی جائے اس پر حمل ( بکسرالحا) کا لفظ بولا جاتا ہے اور جو بوجھ باطن یعنی کوئی چیز اپنے اندر اٹھا ہے ہوئے ہوتی ہے اس پر حمل کا لفظ بولا جاتا ہے جیسے پیٹ میں بچہ ۔ بادل میں پانی اور عورت کے حمل کے ساتھ تشبیہ دے کر درخت کے پھل کو بھی حمل کہہ دیاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَإِنْ تَدْعُ مُثْقَلَةٌ إِلى حِمْلِها لا يُحْمَلْ مِنْهُ شَيْءٌ [ فاطر/ 18] اور کوئی بوجھ میں دبا ہوا پنا بوجھ ہٹانے کو کسی کو بلائے تو اس میں سے کچھ نہ اٹھائے گا ۔ طوع الطَّوْعُ : الانقیادُ ، ويضادّه الكره قال عزّ وجلّ : ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] ، وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] ، والطَّاعَةُ مثله لکن أكثر ما تقال في الائتمار لما أمر، والارتسام فيما رسم . قال تعالی: وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] ، طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21] ، أي : أَطِيعُوا، وقد طَاعَ له يَطُوعُ ، وأَطَاعَهُ يُطِيعُهُ «5» . قال تعالی: وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] ، مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] ، وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] ، وقوله في صفة جبریل عليه السلام : مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] ، والتَّطَوُّعُ في الأصل : تكلُّفُ الطَّاعَةِ ، وهو في التّعارف التّبرّع بما لا يلزم کالتّنفّل، قال : فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] ، وقرئ :( ومن يَطَّوَّعْ خيراً ) ( ط و ع ) الطوع کے معنی ( بطیب خاطر ) تابعدار ہوجانا کے ہیں اس کے بالمقابل کرھ ہے جس کے منعی ہیں کسی کام کو ناگواری اور دل کی کراہت سے سر انجام دینا ۔ قرآن میں ہے : ۔ ائْتِيا طَوْعاً أَوْ كَرْهاً [ فصلت/ 11] آسمان و زمین سے فرمایا دونوں آؤ دل کی خوشی سے یا ناگواري سے وَلَهُ أَسْلَمَ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً [ آل عمران/ 83] حالانکہ سب اہل آسمان و زمین بطبیب خاطر یا دل کے جبر سے خدا کے فرمانبردار ہیں ۔ یہی معنی الطاعۃ کے ہیں لیکن عام طور طاعۃ کا لفظ کسی حکم کے بجا لانے پر آجاتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَيَقُولُونَ طاعَةٌ [ النساء/ 81] اور یہ لوگ منہ سے تو کہتے ہیں کہ ہم دل سے آپ کے فرمانبردار ہیں ۔ طاعَةٌ وَقَوْلٌ مَعْرُوفٌ [ محمد/ 21]( خوب بات ) فرمانبردار ی اور پسندیدہ بات کہنا ہے ۔ کسی کی فرمانبرداری کرنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ التغابن/ 12] اور اس کے رسول کی فر مانبردار ی کرو ۔ مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّهَ [ النساء/ 80] جو شخص رسول کی فرمانبردار ی کرے گا بیشک اس نے خدا کی فرمانبرداری کی ۔ وَلا تُطِعِ الْكافِرِينَ [ الأحزاب/ 48] اور کافروں کا کہا نہ مانو ۔ اور حضرت جبریل (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا : ۔ مُطاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ [ التکوير/ 21] سردار اور امانتدار ہے ۔ التوطوع ( تفعل اس کے اصل معنی تو تکلیف اٹھاکر حکم بجالا نا کے ہیں ۔ مگر عرف میں نوافل کے بجا لانے کو تطوع کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ [ البقرة/ 184] اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اس کے حق میں زیادہ اچھا ہے ۔ ایک قرات میں ومن یطوع خیرا ہے بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٤) اور آپ حضرت عثمان (رض) سے فرما دیجیے کہ فرائض میں اللہ تعالیٰ کی اور سنن و احکام میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو پھر اگر تم لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت سے روگردانی کرو گے تو سمجھ لو کہ رسول کے ذمہ تو وہی تبلیغ کا کام ہے اور تمہارے ذمہ اطاعت اور فرمانبرداری کا کا... م ہے۔ سو اگر تم نے احکام اللہ میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرلی تو گمراہی سے نکل کر سیدھے راستے پر جا لگو گے اور رسول کے ذمہ احکام خداوندی صرف صاف طور پر پہنچا دینا ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٤ (قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ج) ” قبل ازیں سورة النساء کے مطالعہ کے دوران وضاحت کی جا چکی ہے کہ منافقین پر تین امور بہت بھاری تھے۔ یعنی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شخصی اطاعت ‘ جہاد و قتال کے لیے نکلنا اور ہجرت۔ چناچہ آیت زیر نظر میں ان تین میں سے پہلے معاملے یعنی...  اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کے بارے میں تاکید کی جا رہی ہے ۔ (فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ ط) ” رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچانے کی حد تک ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اسی ذمہ داری کے سلسلے میں پوچھا جائے گا۔ اب جب آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تم لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا کر اپنی یہ ذمہ داری ادا کردی ہے تو اس کے بعد ان احکام کی تعمیل کرنا اور اللہ کے دین کے لیے تن من دھن قربان کرنا تم لوگوں کی ذمہ داری ہے اور تم لوگ اپنی اسی ذمہ داری کے بارے میں اللہ کے ہاں مسؤل ہو گے۔ ان الفاظ میں جماعتی زندگی کے نظم و ضبط کے بارے میں ایک بہت ہی اہم اور بنیادی راہنما اصول فراہم کیا گیا ہے کہ ہر کوئی اپنی اس ذمہ داری کی فکر کرے جس کے بارے میں وہ مسؤل ہے۔ جماعتی زندگی میں انفرادی سطح پر اکثر شکایات پیدا ہوجاتی ہیں ‘ یہاں تک کہ ایک غزوہ کے موقع پر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب مال غنیمت تقسیم کر رہے تھے تو بنی تمیم کے ایک شخص نے کہا : اِعْدِلْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! ” اے اللہ کے رسول ‘ آپ عدل کریں ! “ گو یا (نعوذ باللہ) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عدل نہیں کر رہے تھے۔ اس گستاخی کے جواب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غصے میں فرمایا : (وَیْلَکَ ‘ وَمَنْ یَعْدِلُ اِذَا لَمْ اَعْدِلْ ؟ ) (١) ” تم برباد ہوجاؤ ‘ اگر میں عدل نہیں کروں گا تو پھر کون عدل کرے گا ؟ “ اسی طرح جماعتی زندگی کے معاملات میں کسی شخص کو بھی اپنے امیر سے شکایت ہوسکتی ہے کہ امیر نے اس کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ ایسی صورت میں اس آیت میں دیے گئے اصول کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ جس شخص کی جو ذمہ داری ہے اس کے بارے میں وہ اللہ کے ہاں جوابدہ ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی ذمہ داری میں کمی یا کوتاہی کرے گا یا کوئی کسی کے ساتھ زیادتی کرے گا تو اللہ کے ہاں ہر کسی کا ٹھیک ٹھیک حساب ہوجائے گا۔ چناچہ جماعت کے اندر ایک شخص کو کسی شکایت کی صورت میں ناراض ہو کر بیٹھ رہنے کے بجائے یہ سوچنا چاہیے کہ میں اپنی ذمہ داری کی فکر کروں جس کا مجھ سے حساب لیا جانا ہے۔ جہاں تک امیر کی زیادتی کا معاملہ ہے تو اس سلسلے میں وہ خود ہی اللہ کے ہاں جوابدہ ہوگا۔ اسے یہ بھی یقین ہونا چاہیے کہ اللہ کے ہاں ہر کسی کے ساتھ زیادتی کی تلافی بھی کردی جائے گی۔ اس سورت کی آخری آیات میں جماعتی زندگی سے متعلق بہت اہم ہدایات دی گئی ہیں۔ ان آیات پر مشتمل ایک اہم درس ہمارے ” مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب ٢ “ میں شامل ہے۔ ” منتخب نصاب ٢ “ کے موضوعات جماعتی زندگی اور اس کے معاملات و مسائل سے ہی متعلق ہیں۔ ظاہر ہے اقامت دین کا کام انفرادی طور پر تو ہو نہیں سکتا۔ اس کے لیے ایک جماعت یا تنظیم کی تشکیل تو بہر حال نا گزیر ہے۔ قرآن نے ایسی جماعت کو ” حزب اللہ “ کا نام دیا ہے اور اس کی کامیابی کی ضمانت بھی دی ہے : (فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ ) ( المائدۃ) ۔ حدیث میں بھی اس بارے میں یَدُ اللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ (٢) کی خوشخبری دی گئی ہے کہ جماعت کے اوپر اللہ کا ہاتھ ہے۔ یعنی جماعت کو اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت حاصل ہے۔ جیسے اقامت دین کے لیے جماعت کا قیام ناگزیر ہے اسی طرح جماعت کے لیے نظم اور ڈسپلن بھی ضروری ہے اور ڈسپلن کے لیے قواعد و ضوابط کی پابندی بھی لازمی ہے۔ پھر جماعت کے اندر پیدا ہونے والے مسائل کے تدارک اور حل کے لیے کچھ تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ چناچہ ان سب امور سے متعلق راہنمائی کے لیے اگر ہم قرآن سے رجوع کریں تو مختلف مقامات پر ہمیں بڑی عمدہ راہنمائی ملتی ہے۔ ایسے ہی مقامات سے آیات کا انتخاب کر کے منتخب نصاب (٢) مرتب کیا گیا ہے۔* (وَاِنْ تُطِیْعُوْہُ تَہْتَدُوْاط وَمَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ ) ” اگلی آیت کو ” آیت استخلاف “ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ ایک طویل آیت ہے اور قرآن کی عظیم ترین آیات میں سے ہے۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:54) فانما علیہ ما حمل۔ ای علی الرسول علیہ الصلوۃ والسلام۔ اس کے ذمہ ہے۔ حمل۔ ماضی مجہول واحد مذکر غائب تحمیل مصدر۔ اٹھوایا گیا۔ بوجھ رکھا گیا۔ اس کے ذمہ وہی بوجھ ہے جو اس پر بار کیا گیا۔ یعنی وہ اسی کا ذمہ دار ہے جس کا وہ مکلف کیا گیا جس کا بار اس پر رکھا گیا ۔ ما موصولہ ہے بمعنی الذی۔ ان یطیعو... ہ۔ شرط۔ تھتدوا جواب شرط۔ ہ ضمیر کا مرجع الرسول ہے۔ وما علی الرسول۔ میں ما نافیہ ہے۔ البلاغ المبین۔ موصوف وصفت۔ التبلیغ الموضح۔ (خدائی احکام کا ) وضاحت کے ساتھ (مخاطبین تک) پہنچادینا۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ صرف اللہ کا نہیں بلکہ اللہ کا بھی اور اس کے ساتھ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بھی۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد ان کا کہنا ماننا یہی ہے کہ ان کی سنت کی پیروی کی جائے۔ 3 ۔ یعنی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذمہ داری تم تک اللہ کا پیغام پہنچ... ا دینا تھی۔ سوا اس نے یہ پیغام پہنچا دیا۔ اب اس پر عمل کرنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ اگر تم اس سے پیٹھ پھیرتے ہو تو اپنا انجام خود سوچ لو۔ 4 ۔ اس کے بغیر تمہیں ہدایت نصیب نہیں ہوسکتی۔  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

(واقسموا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الاالبلغ المبین) (٥٢ : ٥٣) منافقین رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آکر قسمیں کھاتے تھے کہ اگر آپ ہمیں لڑنے کے لیے حکم دیں تو ہم ضرور نکلیں گے۔ حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ جھوٹے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس یقین دہانی کو نہایت ہی حقارت رد فرماتا ہے۔ قل لا تقسموا طاعۃ...  معروفۃ (٢٤ : ٥٣) ” ان سے کہو ‘ قسمیں نہ کھائو ‘ تمہاری اطاعت کا حال معلوم ہے “ ۔ سب لوگ جانتے ہیں کہ تم کیسی اطاعت کرتے ہو۔ اور اس اطاعت پر قسمیں اٹھانے کی اب ضرورت نہیں ہے۔ یہ بات ایسے شخص سے کہی جاتی ہے کہ جس کا جھوٹ معلوم ہو اور وہ مشہور جھوٹاہو۔ کہا جاتا ہے جی بس قسم نہ اٹھائو تم تو معروف و مشہور سچے ہو۔ قسم کی ضرورت ہی کیا ہے۔ اس مذاقیہ انداز کے بعد یہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان اللہ خبیر بما تعملون (٢٤ : ٥٣) ” اللہ تمہارے تمام اعمال سے خبردار ہے “۔ لہٰذا تمہیں قسموں اور تاکیدات کی ضرورت نہیں ہے۔ اللہ کو تو علم ہے کہ اگر حکم دیا گیا تو نہ تم نکلو گے اور نہ لڑو گے “۔ چناچہ دوبارہ ان کو اطاعت کا حکم سنجیدگی سے دیا جاتا ہے۔ یعنی کہا جاتا ہے کہ حقیقی اطاعت کرو۔ وہ اطاعت نہ کرو جو تمہارے بارے میں معروف ہے۔ قل اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول (٢٤ : ٥٤) ” ان سے کہو اللہ کے مطیع بنو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع فرمان ہو کر رہو “۔ اگر تم منہ موڑتے ہو اور اللہ و رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کی مخالفت کرتے ہو اور ان کو نافذ نہیں کرتے تو فان تولوا فانما علیہ ماحمل (٢٤ : ٥٤) ” تو رسول پر جو فرض عائد ہے وہ اس کا ذمہ دار ہے “۔ یعنی اس کے ذمہ پیغام رسالت کی تبلیغ کرنا ہے اور یہ فرض اس نے بحسن و خوبی ادا کردیا ہے۔ وعلیکم ما حملتم (٢٤ : ٥٤) ” اور تم پر جو فرض عائد کیا گیا ہے اس کے ذمہ دار تم ہو “۔ اور تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ تم اطاعت کرو اور خلوص کے ساتھ ایمان لائو۔ تم نے اس سے منہ موڑ لیا ہے اور تم نے یہ ذمہ داری پوری پوری ادا نہیں کی ہے۔ وان تطیعوہ تھتدوا (٢٤ : ٥٤) ” اس کی اطاعت کرو گے تو خود ہی ہدایت پائوگے “ ۔ راہ راست پر آجائو گے اور ایک صحیح نظام کے تحت زندگی بسر کر کے دنیا و آخرت میں فلاح پائو گے۔ وما علی الرسول الا البلغ المبین (٢٤ : ٥٤) ” رسول کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ صاف صاف حکم پہنچا دے “۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ تم ایمان لائے تھے یا ‘ اگر تم منہ پھیر لو تو اس فعل کی وجہ سے رسول کو مجرم نہ گردانا جائے گا۔ تم مجرم ہو گے اور تمہیں ہی اس پر سزادی جائے گی۔ تم پر یہ فرد جرم عائد ہوگی کہ تم نے اللہ اور رسول اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کی ہے۔ منافقین کے معاملے کی تشریح کے بعد ‘ اب سیاق کلام ان کو ایک طرف چھوڑ دیتا ہے۔ اور اب کلام کا رخ اطاعت کیش مومنین کی طرف پھرجاتا ہے۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی اس اطاعت کی جزاء کیا ہوگی یعنی قیامت کے انعامات و اکرامات سے ادھر اس جہان میں ان کا صلہ کیا ہوگا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

مزید فرمایا کہ اے منافقو ! اگر تم فرمانبر داری سے بچو اور رو گردانی کرو تو اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کچھ نقصان نہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمہ جو بار ڈالا گیا ہے (یعنی تبلیغ کا کام) آپ اس کے ذمہ دار ہیں اور تم جانتے ہو کہ آپ نے اسے پورا کردیا اور تم پر جو بار ڈالا گیا تو...  اس کے ذمہ دار تم ہو یعنی تمہارے ذمہ فرمانبر داری ہے تم فرمانبر داری نہ کرو گے تو اپنا برا کرو گے۔ مزید فرمایا (وَاِِنْ تُطِیعُوْہُ تَہْتَدُوْا) اور اگر تم سچے دل سے اخلاص کے ساتھ اطاعت کرو گے تو راہ حق پا جاؤ گے۔ (وَمَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِِلَّا الْبَلاَغُ الْمُبِیْنُ ) اور رسول کے ذمہ اللہ تعالیٰ کا پیغام واضح طور پر پہنچانے کے علاوہ کچھ نہیں ہے (انہوں نے پہنچا دیا اب تم اپنی ذمہ داری پوری کرو) اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جو نائب ہیں وہ امت کو جو بھی کوئی بات بتائیں واضح طور پر بتائیں جو صاف طور پر سمجھ میں آجائے آگے عمل کرنے والے کی ذمہ داری ہے۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

56:۔ ” قل اطیعوا الخ “ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا آپ ان منافقین سے فرما دیں اگر واقعی تم مخلص ہو تو اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول (علیہ السلام) کی دل و جان سے اطاعت کرو۔ ” فان تولوا الخ “ لیکن اگر تم نے خدا اور رسول کی اطاعت سے روگردانی کی تو اس سے تم صرف اپنا ہی نقصان کرو گے او... ر کسی کا کچھ نہیں بگاڑو گے ” تولوا “ جمع مذکر مخاطب فعل مضارع کا صیغہ ہے ایک تاء بغرض تخفیف حذف کردی گئی ہے۔ ای فان تتولوا محذف احدی التائین (قرطبی ج 12 ص 296) ۔ یرید فان تتولوا فما ضررتموہ وانما ضررتم انفسکم (مدارک ج 3 ص 116) ۔ کیونکہ پیغمبر (علیہ السلام) صرف اس ذمہ داری کے جوابدہ ہیں جو ان کے ذمہ لگائی گئی ہے یعنی اوامرو احکام خداوندی کی تبلیغ اور تم اپنی ذمہ داری کے جوابدہ ہو یعنی خدا اور رسول کی اطاعت و فرمانبرداری۔ اس لیے اگر تم اپنا فریضہ اطاعت ادا کرو گے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لاؤ گے اور ان کے احکام کی تعمیل کرو گے تو فلاح دارین کی راہ پاؤ گے اور دنیا و آخرت میں خوش و خرم رہو گے۔ ورنہ تمہاری سرکشی، شرارت اور منافقت سے پیغمبر کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ اس کے ذمہ فریضہ تبلیغ تھا جو اس نے احسن طریق سے ادا کردیا۔ وما علی الرسول الا البلغ المبین التبلیغ الموضح فضرر عدم القبول لیس الا لکم (جامع ص 311) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(54) اے پیغمبر آپ ان سے فرما دیجئے کہ تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی فرمانبرداری کرو پھر اگر تم لوگ روگردانی کروگے تو سمجھ لو کہ رسول پر جو بار رکھا گیا ہے وہ صرف اس کا ذمہ دار ہے اور تم پر جو بوجھ رکھا گیا ہے تم اس کے ذمہ دار ہو اور اگر تم نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی فرمانبرداری کی اور آ... پ کی اطاعت قبول کرلی تو تم سیدھی راہ پالوگے اور ہدایت یافتہ ہوجائوگے اور بہرحال پیغامبر کی ذمہ داری تو پیغام کو صاف طورپر پہنچا دینا ہے یعنی کام کی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت و فرمانبرداری کا عہد کرو۔ اور اگر تمہاری یہی کافرانہ اور منافقانہ روش رہی تو رسول کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا کیونکہ ہر ایک اپنے اپنے بار کا ذمہ دار ہے اور اس کا کام احکام خداوندی کا تم تک پہنچانا ہے اور تمہاراکام رسول کی اطاعت و فرمانبرداری ہے جو درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت و فرماں برداری ہے ہر شخص اپنے اپنے کام کا ذمہ دار ہے پھر اگر تم اطاعت و فرمانبرداری کروگے تو تم سیدھی راہ سے لگ جائو گے ورنہ رسول کا کام تو احکام الٰہی کو صاف واضح اور کھلے طورپر پہنچادینا ہے جس کو وہ صحیح طورپر انجام دے رہا ہے اب صرف تم پر تمہاری ذمہ داری باقی ہے۔  Show more