Surat un Noor

Surah: 24

Verse: 57

سورة النور

لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مُعۡجِزِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ مَاۡوٰىہُمُ النَّارُ ؕ وَ لَبِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۵۷﴾٪  13

Never think that the disbelievers are causing failure [to Allah ] upon the earth. Their refuge will be the Fire - and how wretched the destination.

یہ خیال آپ کبھی بھی نہ کرنا کہ منکر لوگ زمین میں ( ادھر ادھر بھاگ کر ) ہمیں ہرا دینے والے ہیں ان کا اصلی ٹھکانا تو جہنم ہے جو یقیناً بہت ہی برا ٹھکانا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

لاَا تَحْسَبَنَّ ... Consider not, means, `do not think, O Muhammad,' that: ... الَّذِينَ كَفَرُوا ... the disbelievers, meaning, those who opposed and denied you, ... مُعْجِزِينَ فِي الاَْرْضِ ... can escape in the land. means, that they can flee from Allah. No, Allah is able to deal with them and He will punish them most severely for that. Allah says: ... وَمَأْوَاهُمُ ... Their abode, meaning, in the Hereafter, ... النَّارُ وَلَبِيْسَ الْمَصِيرُ shall be the Fire -- and worst indeed is that destination. means, how terrible the consequences will be for the disbelievers, how evil a place to stay in and how awful a place to rest!

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

571یعنی آپ کے مخالفین اور مکذبین اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے، بلکہ اللہ تعالیٰ ان کی گرفت کرنے پر ہر طرح قادر ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٦] کافر سے مراد یہاں سب غیر مسلم ہیں۔ یعنی کفار مکہ، عرب کے مشرک قبائل، مدینہ کے یہود و منافقین، یہ سب لوگ مل کر اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا لیں تب بھی یہ لوگ اسلام کی راہ روک نہیں سکتے۔ اللہ کا دین تو یقیناً بلند ہو کے رہے گا۔ رہے یہ معاندین تو اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی انھیں رسوا کرے گا اور آخرت میں بھی انھیں جہنم کا عذاب بھگتنا ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ ۔۔ : مشرکین عام طور پر ہمیشہ تعداد اور قوت میں زیادہ رہے ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں بھی یہی حال تھا کہ مسلمان کمزور تھے، ان سے خوف زدہ رہتے تھے، تو ایسے حالات میں ان کے لیے خلافت کا وعدہ عجیب اور ناممکن سی بات نظر آتا تھا۔ اس لیے فرمایا کہ کافروں کے متعلق یہ گمان ہرگز نہ کریں کہ وہ اللہ کو مقابلے میں عاجز کردیں گے، یہ لوگ جتنی تعداد اور قوت میں ہوں، جتنی چال بازیاں اور فوجیں اکٹھی کرلیں، مقابلہ ان کا اللہ تعالیٰ سے ہے اور اللہ تعالیٰ کو یہ لوگ کسی صورت مقابلے میں عاجز نہیں کرسکتے۔ کعب (رض) کا شعر ہے ؂ ھَمَّتْ سَخِیْنَۃُ أَنْ تُغَالِبَ رَبَّھَا فَلَیُغْلَبَنَّ مُغَالِبُ الْغَلَّابِ ” سخینہ (قریش) نے ارادہ کیا کہ اپنے رب سے مقابلے میں غالب آئیں، مگر اس زبردست غالب کا مقابلہ کرنے والا تو ہر صورت مغلوب ہی ہوگا۔ “ [ مستدرک حاکم : ٣؍٤٨٨، ح : ٦٠٦٥، حاکم، ذہبی اور البانی نے اسے صحیح کہا ہے ] یہ حال تو دنیا میں ہوگا اور آخری مقام ان کا جہنم ہے اور وہ لوٹ کر جانے کے لیے بہت بری جگہ ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ۝ ٠ۚ وَمَاْوٰىہُمُ النَّارُ۝ ٠ۭ وَلَبِئْسَ الْمَصِيْرُ۝ ٥ ٧ۧ حسب ( گمان) والحِسبةُ : فعل ما يحتسب به عند اللہ تعالی. الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] ، أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئاتِ [ العنکبوت/ 4] ، وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] ، فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] ، أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] ( ح س ب ) الحساب اور الحسبة جس کا معنی ہے گمان یا خیال کرنا اور آیات : ۔ الم أَحَسِبَ النَّاسُ [ العنکبوت/ 1- 2] کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں ۔ کیا وہ لوگ جو بڑے کام کرتے ہیں یہ سمجھے ہوئے ہیں : وَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ [إبراهيم/ 42] اور ( مومنو ) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کررہے ہیں خدا ان سے بیخبر ہے ۔ فَلا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ [إبراهيم/ 47] تو ایسا خیال نہ کرنا کہ خدا نے جو اپنے پیغمبروں سے وعدہ کیا ہے اس کے خلاف کرے گا : أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ [ البقرة/ 214] کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ ( یوں ہی ) جنت میں داخل ہوجاؤ گے ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ عجز والعَجْزُ أصلُهُ التَّأَخُّرُ عن الشیء، وحصوله عند عَجُزِ الأمرِ ، أي : مؤخّره، كما ذکر في الدّبر، وصار في التّعارف اسما للقصور عن فعل الشیء، وهو ضدّ القدرة . قال : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] ، ( ع ج ز ) عجز الانسان عجز کے اصلی معنی کسی چیز سے پیچھے رہ جانا یا اس کے ایسے وقت میں حاصل ہونا کے ہیں جب کہ اسکا وقت نکل جا چکا ہو جیسا کہ لفظ کسی کام کے کرنے سے قاصر رہ جانے پر بولا جاتا ہے اور یہ القدرۃ کی ضد ہے ۔ قرآن میں ہے : وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ [ التوبة/ 2] اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہیں کرسکو گے ۔ أوى المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف/ 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود/ 43] ( ا و ی ) الماویٰ ۔ ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے { إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ } ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے { قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ } ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ بِئْسَ و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام، كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة/ 79] ، أي : شيئا يفعلونه، ( ب ء س) البؤس والباس بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ { بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ } ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے صير الصِّيرُ : الشِّقُّ ، وهو المصدرُ ، ومنه قرئ : فَصُرْهُنَّ وصَارَ إلى كذا : انتهى إليه، ومنه : صِيرُ البابِ لِمَصِيرِهِ الذي ينتهي إليه في تنقّله وتحرّكه، قال : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] . و «صَارَ» عبارةٌ عن التّنقل من حال إلى حال . ( ص ی ر ) الصیر کے معنی ایک جانب یا طرف کے ہیں دراصل یہ صار ( ض) کا مصدر ہے ۔ اور اسی سے آیت فصوھن ہیں ایک قرآت فصرھن ہے ۔ صار الی کذا کے معنی کسی خاص مقام تک پہنچ جانا کے ہیں اسی سے صیر الباب ہے جس کے معنی درداڑہ میں شگاف اور جھروکا کے ہیں اور اسے صیر اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ نقل و حرکت کا منتہی ہوتا ہے اور صار کا لفظ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ اسی سے المصیر اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں کوئی چیز نقل نہ حرکت کے بعد پہنچ کر ختم ہوجاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ [ الشوری/ 15] یعنی اللہ تعالیٰ ہی لوٹنے کی جگہ ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٥٧) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار مکہ کے متعلق یہ خیال مت کرنا کہ وہ عذاب الہی سے زمین میں بھی چھٹکارا پا جائیں گے اور آخرت میں تو ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے کہ شیاطین سمیت اس میں داخل ہوں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٥٧ (لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ ج) ” ان کے متعلق کسی کو یہ غلط فہمی نہ رہے کہ یہ زمین میں اللہ کے قابو سے باہر نکل جائیں گے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(24:57) لا تحسبن۔ فعل نہی بانون تاکید واحد مذکر حاضر۔ تو ہرگز خیال نہ کر۔ الذین کفروا۔ مفعول ۔ تو ہرگز خیال نہ کر کہ کا فر لوگ معجزین۔ اسم فاعل جمع مذکر۔ ہر ادینے والے۔ عاجز بنا دینے والے۔ یعنی اللہ کو اپنے ارادہ سے باز رکھنے والے۔ ماوہم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ان کا ٹھکانا۔ اوی یاوی (ضرب) کا مصدر ہے یہاں اسم ظرف مکان استعمال ہوا ہے۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب۔ جس کا مرجع الذین کفروا ہے۔ المصیر۔ ٹھکانا۔ قرار گاہ۔ لوٹنے کی جگہ۔ اسم ظرف مکان۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد فرمایا (لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ ) (اے مخاطب کافروں کے بارے میں یہ خیال نہ کر کہ روئے زمین میں عاجز کرنے والے ہیں) ۔ اس میں یہ بتادیا کہ کوئی بھی خیال کرنے والا یہ خیال نہ کرے کہ کافر لوگ زمین میں عاجز کرنے والے ہیں کیونکہ اللہ کی گرفت سے چھٹکارہ نہیں ہوسکتا اور دنیا کے کسی گوشہ میں بھاگ کر اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ اور موت تو بہر حال سب کو آنی ہی ہے۔ زمین میں جو شخص جہاں بھی ہو اپنی مقررہ اجل کے موافق اس دنیا سے چلا جائے گا اور کافر کا عذاب تو موت کے وقت سے ہی شروع ہوجاتا ہے کافروں کو جو دنیا میں عذاب ہے وہ اپنی جگہ ہے اور آخرت میں ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے جو بری جگہ ہے اسی کو آخر میں فرمایا : وَ مَاْ وٰ ھُمُ النَّارُ ، وَ لَبِءْسَ الْمَصِیْرُ ۔ روافض قرآن کے منکر ہیں صحابہ کرام کے دشمن ہیں دشمنان اسلام میں روافض یعنی شیعوں کی جماعت بھی ہے یہ لوگ اسلام کے مدعی اور اہل بیت کی محبت کے دعویدار ہیں اور نہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہیں، نہ قرآن سے، نہ اللہ کے رسول سے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ حضرات صحابہ کرام سے، نہ حضرات اہل بیت سے آیت استخلاف جو سورة نور کا جزو ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے حضرات صحابہ سے وعدہ فرمایا ہے کہ اللہ تمہیں خلیفہ بنائے گا اور تَمْکِیْن فِی الْاَرْضِ کی نعمت سے نوازے گا تاریخ جانے والے جانتے ہیں کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان (رض) کے زمانے میں یہ وعدہ پورا ہوگیا۔ مسلمانوں کا اقتدار عرب اور عجم میں بڑھتا چڑھتا چلا گیا حضرت علی (رض) بھی خلیفہ راشد تھے وہ مذکورہ بالا تینوں حلفاء کے ساتھ ایک جان اور دو قالب ہو کر رہے ہیں ان کی اقتداء میں نمازیں پڑھتے رہے ان کے مشوروں میں شریک رہے۔ پھر جب انہیں خلافت سونپ دی گئی تو یہ نہیں فرمایا کہ یہ حضرات خلفائے راشدین نہیں تھے یا خلافت کے غاصب تھے اور میں سب سے پہلے خلافت کا مستحق تھا وہ انہیں حضرات کے طریقہ پر چلتے رہے ان کے فتح کیے ہوئے ممالک کو باقی رکھا اور قرآن و حدیث کے موافق امور خلافت انجام دیئے۔ ان کے بعد ان کے بڑے صاجنرادے حضرت حسن (رض) خلیفہ بنے ان کی شہادت پر خلافت راشدہ کے تیس سال پورے ہوگئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اَلْخَلاَفَۃُ مِنْ بَعْدِیْ ثَلاَثُوْنَ سَنَۃً فرمایا تھا کہ اسی کے مطابق اہل السنۃ و الجماعہ مذکورہ پانچوں حضرات کو خلفاء راشدین مانتے ہیں لیکن زیادہ تر زبانوں پر چاروں خلفاء کے اسمائے گرامی آتے ہیں کیونکہ حضرت حسن (رض) کی خلافت چند ماہ تھی۔ اب روافض کی بات سنو وہ کہتے ہیں کہ حضرات ابوبکر اور عمر اور عثمان (رض) خلیفہ راشد تو کیا ہوتے مسلمان ہی نہیں تھے روافض قرآن کے بھی منکر ہیں اور حضرت علی (رض) کے عظیم مرتبہ کے بھی (جو ان کے عقیدہ میں امام اول ہیں اور معصوم ہیں) ان کو بزدل بتاتے ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی خلافت کا اعلان نہیں کیا جس کے وہ اولین مستحق تھے اور جس کی ان کے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے وصیت تھی ان لوگوں کے عقیدہ میں امام اول نے حق کو چھپایا اور اپنے سے پہلے تینوں خلفاء کے ساتھ مل کر رہے اور اس میں انہوں نے تقیہ کرلیا تھا۔ سب کو معلوم ہے کہ حضرت حسن (رض) کے بعد روافض جن حضرات کو امام جانتے ہیں ان میں سے کسی کی خلافت قائم نہیں ہوئی۔ اگر ان لوگوں کی بات مان لی جائے کہ حضرات ابوبکر، عمر، عثمان (رض) وہ خلیفہ نہیں تھے جن کا آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے تو قرآن مجید کا وعدہ صحیح ثابت نہیں ہوتا (العیاذ باللہ) شیعوں کے سامنے جب یہ بات آتی ہے تو کہہ دیتے ہیں کہ یہ وعدہ امام مہدی پر پورا ہوگا۔ جھوٹے کا کام جھوٹ ہی سے چلتا ہے آیت شریفہ میں تو منکم وارد ہوا ہے جس میں حضرات صحابہ کرام (رض) کو مخاطب فرمایا ہے یہ لوگ منکم کو نہیں دیکھتے اپنی گمراہی پر مصر ہیں یاد رہے قرآن مجید میں اور کسی جگہ (الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا) اور (عَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ ) کے درمیان لفظ منکم وارد نہیں ہوا۔ وعدہ استخلاف کے بیان میں یہ لفظ آیا ہے وعدہ استخلاف کے ساتھ ہی اسی وقت اللہ تعالیٰ نے روافض کی تردید فرما دی فَلَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی مَنْ کَذَبَ بالْقُرْآنِ ۔ فائدہ : آخر میں یہ فرمایا ہے کہ کافروں کے بارے میں یہ خیال نہ کرو کہ وہ اللہ کی گرفت سے بچ کر بھاگ جائیں گے اس کے عموم میں وہ سب کافر داخل ہیں جو زمانہ نزول قرآن سے لے کر آج تک اسلام کے خلاف سازشیں کرتے ہیں اور ان کے ملکوں کو توڑتے ہیں اور اپنی برتری کے لیے تدبیریں کرتے ہیں۔ وہ اس دنیا میں بھی تباہ ہونگے اور آخرت میں بھی دوزخ میں داخل ہونگے۔ فلیتفکر الکافرون ومنھم الروافض المفسدون۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

60:۔ ” لا تحسبن الخ “ یہ منکرین توحید کے لیے تخویف اخروی ہے۔ مشرکین اس طرح بےفکر سے کفر و شرک میں منہمک اور ہمارے احکام سے بغاوت و سرکشی میں غرق ہیں گویا وہ کہیں بھاگ کر ہماری گرفت سے بچ جائینگے انہیں اس غلط فہمی میں نہ رہنا چاہیے۔ وہ جہاں بھی ہوں گے اللہ تعالیٰ انہیں حاضر کرلے گا اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو بہت ہی بری جگہ ہے اس سے وہ ہرگز بچ نہیں سکیں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(57) اے مخاطب یہ خیال نہ کر کہ یہ جو منکر ہیں اور جنہوں نے کفر و انکار کاشیوہ اختیار کررکھا ہے یہ کہیں زمین میں بھاگ کر ہم کو تھکادیں گے اور آخرت میں ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور یقیناً وہ دوزخ بہت بری باز گشت ہے اور واپس جانے کی بہت بری جگہ ہے۔ یعنی یہ خیال نہ کر کہ منکر کسی حصہ زمین میں بھاگ کر ہم کو تھکا دیں گے یا ہرادیں گے بلکہ دنیا میں مقہور و ذلیل ہوں گے اور آخرت میں ان کا مرجع اور ٹھکانا دوزخ کی آگ ہے اور وہ آگ بازگشت کی بہت ہی بری جگہ ہے۔