The Sixth Characteristic وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا (and those who, when they spend, are neither extravagant nor miserly - 25:67). That is Allah&s blessed servants are neither spendthrifts nor misers but they spend moderately. The words اسراف (israf, i.e. extravagance) and إقتَار (iqtar, i.e. miserliness) are used in the verse for the two opposite traits. Israf means to cross the limits. According to Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، Mujahid, Qatadah and Ibn Juraij رحمۃ اللہ علیہم any spending on something sinful, however little it may be, is israf, while others say that even overspending in the rightful and allowed things which is wasteful would fall under the definition of israf. It is because any wasteful spending is by itself a sin and hence israf. Allah Ta’ ala has said إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ (Surely squanderers are brothers of Shaitan - 17:27). In this way the latter explanation is also covered in the explanation given by Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) that is any spending on some sinful thing is اِسرَاف . (Mazhari) اِقتَار (iqtar) means to spend with miserliness. In Islamic jurisprudence it means to be tight fisted where a believer is directed to spend. In case one does not spend at all at a place where he has been directed to spend, then that is the worst situation. This explanation is also given by Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، Qatadah etc. (Mazhari) Therefore, the message of the verse is that Allah&s blessed servants are neither spendthrifts nor misers but in the matter of spending they take the middle path. There is a saying of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : مِن فِقہِ الرَّجُلِ قَصدُہ ، فِی مَعِیشَتِہٖ That is |"It is the sagacity of man to adopt the middle path in spending|" In another Saying quoted by Sayyidna Abdullah Ibn Masud the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: مَا عال من اقتصد That is |"The person who sticks to the middle path and moderation in spending will never become a destitute and poor|". (Imam Ahmad - Ibn Kathir)
چھٹی صفت : وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا الآیتہ، یعنی اللہ کے مقبول بندے مال خرچ کرنے کے وقت نہ اسراف اور فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل و کو تاہی، بلکہ دونوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتے ہیں۔ آیت میں اسراف اور اس کے بالمقابل اقتار کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ اسراف کے لغوی معنے حد سے تجاوز کرنے کے ہیں۔ اصطلاح شرع میں حضرت ابن عباس، مجاہد، قتادہ، ابن جریج کے نزدیک اللہ کی معصیت میں خرچ کرنا اسراف ہے اگرچہ ایک پیسہ ہی ہو، اور بعض حضرات نے فرمایا، جائز اور مباح کا کاموں میں ضرورت سے زائد خرچ کرنا جو تبذیر یعنی فضول خرچی کی حد میں داخل ہوجائے وہ بھی اسراف کے حکم میں ہے کیونکہ تبذیر یعنی فضول خرچی بنص قرآن حرام و معصیت ہے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَان الشَّيٰطِيْنِ اس لحاظ سے اس تفسیر کا حاصل بھی حضرت ابن عباس وغیرہ کی مذکورہ تفسیر ہوگیا، یعنی معصیت و گناہ میں جو کچھ خرچ کیا جائے وہ اسراف ہے۔ (مظہری) اور اقتار کے معنے خرچ میں تنگی اور بخل کرنے کے ہیں۔ اصطلاح شرع میں اس کے معنے یہ ہیں کہ جن کاموں میں اللہ و رسول نے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے ان میں خرچ کرنے میں تنگی برتنا (اور بالکل خرچ نہ کرنا بدرجہ اولی اس میں داخل ہے) یہ تفسیر بھی حضرت ابن عباس، قتادہ وغیرہ سے منقول ہے (مظہری) آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ اللہ کے مقبول بندوں کی صفت مال خرچ کرنے میں یہ ہوتی ہے کہ اسراف اور اقتار کے درمیان اعتدال اور میانہ روی پر عمل کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے من فقہ الرجل قصدہ فی معیشتہ یعنی انسان کی دانشمندی کی علامت یہ ہے کہ خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرے (نہ اسراف میں مبتلا ہو نہ بخل میں) (رواہ الامام احمد عن ابی الدرداء۔ ابن کثیر) ایک دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ما عال من اقتصد یعنی جو شخص خرچ میں میانہ روی اور اعتدال پر قائم رہتا ہے وہ کبھی فقیر و محتاج نہیں ہوتا (رواہ الامام احمد۔ ابن کثیر)