Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 67

سورة الفرقان

وَ الَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ یُسۡرِفُوۡا وَ لَمۡ یَقۡتُرُوۡا وَ کَانَ بَیۡنَ ذٰلِکَ قَوَامًا ﴿۶۷﴾

And [they are] those who, when they spend, do so not excessively or sparingly but are ever, between that, [justly] moderate

اور جو خرچ کرتے وقت بھی نہ تواسراف کرتے ہیں نہ بخیلی بلکہ ان دونوں کے درمیان معتدل طریقے پر خرچ کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا ... And those who, when they spend, are neither extravagant nor stingy... They are not extravagant, spending more than they need, nor are they miserly towards their families, not spending enough on their needs. But they follow the best and fairest way. The best of matters are those which are moderate, neither one extreme nor the other. ... وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا but are in a just balance between them. This is like the Ayah, وَلاَ تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلاَ تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ And let not your hand be tied to your neck, nor stretch it forth to its utmost reach. (17:29)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

671اللہ کی نافرمانی میں خرچ کرنا اسراف اور اللہ کی اطاعت میں خرچ کرنا بخیلی اور اللہ کے احکام و اطاعت کے مطابق خرچ کرنا قوام ہے (فتح القدیر) اسی طرح نفقات واجبہ اور مباحات میں حد اعتدال سے تجاوز بھی اسراف میں آسکتا ہے، اس لیے وہاں بھی احتیاط اور میانہ روی نہایت ضروری ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٤] اسراف کا اطلاق ضرورت کے کاموں سے زیادہ خرچ کرنے پر ہوتا ہے۔ مثلاً اپنے سامان خوردو نوش یا کپڑوں پر یا مکان پر یا شادی بیاہ پر بھی بےدریغ خرچ کردینا یا اپنی ہمت اور مقدور سے زیادہ خرچ کردینا۔ ایسی فضول خرچیوں سے اسلام نے سختی سے روک دیا ہے۔ پھر اسراف کی ایک قسم ایسی ہے جسے تبذیر کہتے ہیں۔ جس کا معنی یہ ہے کہ ناجائز کاموں یا ناجائز ضرورتوں پر خرچ کرنا۔ جیسے شراب نوشی، قمار بازی، بیاہ شادی کے موقعہ پر آتش بازی اور راگ رنگ وغیرہ ایسے کاموں میں ایک پیسہ بھی خرچ کرنا حرام ہے۔ چہ جائیکہ ایسے کاموں پر بھی بےدریخ اور بےتحاشا خرچ کردیا جائے۔ اور اسراف کی ضد بخل ہے۔ جس کا معنی یہ ہے کہ مقدور ہوتے ہوئے بھی ضرورت کے کاموں میں بھی پیسہ ضرورت سے کم خرچ کرنا اور پیسہ کو جوڑ کر رکھنا۔ جیسے اپنی ذات پر اور اپنے بال بچوں کی گزاران کے سلسلہ میں بھی بخل کر جانا۔ خوراک میں پوشاک میں، طرز بودوباش میں، اعز و اقرباء کو تحفے تحائف دینے لینے ہر جگہ بخل سے کام لینا اور بالخصوص جب اللہ کی راہ میں کچھ خرچ کرنا پڑے تو اسے یوں محسوس ہو کہ پیسہ کے ساتھ اس کی اتنی جان بھی نکلی جارہی ہے۔ اسراف اور بخل کے درمیان کی صفت کا نام اقتصاء یا قصد ہے اور اسی صفت کو اسلام نے پسند کیا ہے۔ اقتصاء یہ ہے کہ انسان اپنی جائز ضرورتوں پر خرچ اور اتنا ہی خرچ کرے جتنا ضرور ہو نہ کم نہ زیادہ۔ حتیٰ کہ اگر اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہو تو بھی یہی بات مدنظر رکھنی چاہئے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ صدقہ وہی بہتر ہے جس کے بعد انسان خود محتاج نہ ہوجائے۔ ( بخاری۔ کتاب النفقات۔ باب وجوب النفقہ علی الدہل و العیال ( اور اعتدال کی روش اختیار کرنے کے بعد اگر کسی کے پاس مال بچ رہتا ہے تو اسے اپنے اقرباء اور دوسرے حاجت مندوں کی ضرورتوں پر خرچ کرنا چاہئے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا ۔۔ : لوگوں کے ساتھ اور اپنے رب کے ساتھ رویے کے بعد ان کے مالی معاملے کا ذکر ہے۔ اسراف کا اطلاق کسی کام میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے پر ہوتا ہے، مثلاً کھانے پینے یا لباس یا مکان یا شادی بیاہ وغیرہ پر بےدریغ خرچ کردینا (ایک بلب کی ضرورت ہو تو زیادہ بلب لگا دینا، تھوڑے پانی سے کام چلتا ہو تو بےدریغ پانی بہا دینا) یا اپنی ہمت اور مقدور سے زیادہ خرچ کردینا (پھر قرض اتارتے رہنا یا مانگنا شروع کردینا) ایسی فضول خرچیوں سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ پھر اسراف کی ایک قسم تبذیر ہے، جس کا معنی ہے بلاضرورت خرچ کرنا، مثلاً دن کو بھی گلی میں بلب جلائے رکھنا، یا پانی کی ٹونٹی کھلی چھوڑ دینا۔ اسی طرح ناجائز کاموں میں خرچ کرنا بھی تبذیر ہے، جیسے شراب، زنا، جوئے، گانے بجانے یا آتش بازی وغیرہ ایسے کاموں میں ایک پیسہ بھی خرچ کرنا حرام ہے۔ اسراف کی ضد ” قتور “ ہے، جو ” قَتَرَ یَقْتُرُ (ن، ض) قَتْرًا وَ قُتُوْرًا “ سے ہے۔ باب ” افعال “ اور ” تفعیل “ سے ”إِقْتَارٌ“ اور ” تَقْتِیْرٌ“ بھی اسی معنی میں آتا ہے، یعنی خرچ میں تنگی کرنا، شدید بخل کہ مقدور ہوتے ہوئے بھی ضرورت سے کم خرچ کرنا اور مال کو جوڑ جوڑ کر رکھنا، اپنی ذات اور اہل و عیال کی جائز ضروریات میں بھی بخل کرنا۔ اسراف اور تقتیر کے درمیان کی صفت کا نام اقتصاد (میانہ روی) ہے، یعنی اتنا خرچ کرنا جتنی ضرورت ہے اور جتنی ہمت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے ” بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا “ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے۔ ” قَوَامٌ“ دو چیزوں کے عین درمیان کو کہتے ہیں۔ مزید دیکھیے سورة انعام (١٤٢) ، اعراف (٣١) اور بنی اسرائیل (٢٦، ٢٩) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Sixth Characteristic وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِ‌فُوا وَلَمْ يَقْتُرُ‌وا (and those who, when they spend, are neither extravagant nor miserly - 25:67). That is Allah&s blessed servants are neither spendthrifts nor misers but they spend moderately. The words اسراف (israf, i.e. extravagance) and إقتَار (iqtar, i.e. miserliness) are used in the verse for the two opposite traits. Israf means to cross the limits. According to Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، Mujahid, Qatadah and Ibn Juraij رحمۃ اللہ علیہم any spending on something sinful, however little it may be, is israf, while others say that even overspending in the rightful and allowed things which is wasteful would fall under the definition of israf. It is because any wasteful spending is by itself a sin and hence israf. Allah Ta’ ala has said إِنَّ الْمُبَذِّرِ‌ينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ (Surely squanderers are brothers of Shaitan - 17:27). In this way the latter explanation is also covered in the explanation given by Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) that is any spending on some sinful thing is اِسرَاف . (Mazhari) اِقتَار (iqtar) means to spend with miserliness. In Islamic jurisprudence it means to be tight fisted where a believer is directed to spend. In case one does not spend at all at a place where he has been directed to spend, then that is the worst situation. This explanation is also given by Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) ، Qatadah etc. (Mazhari) Therefore, the message of the verse is that Allah&s blessed servants are neither spendthrifts nor misers but in the matter of spending they take the middle path. There is a saying of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : مِن فِقہِ الرَّجُلِ قَصدُہ ، فِی مَعِیشَتِہٖ That is |"It is the sagacity of man to adopt the middle path in spending|" In another Saying quoted by Sayyidna Abdullah Ibn Masud the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) said: مَا عال من اقتصد That is |"The person who sticks to the middle path and moderation in spending will never become a destitute and poor|". (Imam Ahmad - Ibn Kathir)

چھٹی صفت : وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا الآیتہ، یعنی اللہ کے مقبول بندے مال خرچ کرنے کے وقت نہ اسراف اور فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل و کو تاہی، بلکہ دونوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتے ہیں۔ آیت میں اسراف اور اس کے بالمقابل اقتار کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ اسراف کے لغوی معنے حد سے تجاوز کرنے کے ہیں۔ اصطلاح شرع میں حضرت ابن عباس، مجاہد، قتادہ، ابن جریج کے نزدیک اللہ کی معصیت میں خرچ کرنا اسراف ہے اگرچہ ایک پیسہ ہی ہو، اور بعض حضرات نے فرمایا، جائز اور مباح کا کاموں میں ضرورت سے زائد خرچ کرنا جو تبذیر یعنی فضول خرچی کی حد میں داخل ہوجائے وہ بھی اسراف کے حکم میں ہے کیونکہ تبذیر یعنی فضول خرچی بنص قرآن حرام و معصیت ہے حق تعالیٰ کا ارشاد ہے اِنَّ الْمُبَذِّرِيْنَ كَانُوْٓا اِخْوَان الشَّيٰطِيْنِ اس لحاظ سے اس تفسیر کا حاصل بھی حضرت ابن عباس وغیرہ کی مذکورہ تفسیر ہوگیا، یعنی معصیت و گناہ میں جو کچھ خرچ کیا جائے وہ اسراف ہے۔ (مظہری) اور اقتار کے معنے خرچ میں تنگی اور بخل کرنے کے ہیں۔ اصطلاح شرع میں اس کے معنے یہ ہیں کہ جن کاموں میں اللہ و رسول نے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے ان میں خرچ کرنے میں تنگی برتنا (اور بالکل خرچ نہ کرنا بدرجہ اولی اس میں داخل ہے) یہ تفسیر بھی حضرت ابن عباس، قتادہ وغیرہ سے منقول ہے (مظہری) آیت کا مفہوم یہ ہوا کہ اللہ کے مقبول بندوں کی صفت مال خرچ کرنے میں یہ ہوتی ہے کہ اسراف اور اقتار کے درمیان اعتدال اور میانہ روی پر عمل کرتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے من فقہ الرجل قصدہ فی معیشتہ یعنی انسان کی دانشمندی کی علامت یہ ہے کہ خرچ کرنے میں میانہ روی اختیار کرے (نہ اسراف میں مبتلا ہو نہ بخل میں) (رواہ الامام احمد عن ابی الدرداء۔ ابن کثیر) ایک دوسری حدیث میں حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ما عال من اقتصد یعنی جو شخص خرچ میں میانہ روی اور اعتدال پر قائم رہتا ہے وہ کبھی فقیر و محتاج نہیں ہوتا (رواہ الامام احمد۔ ابن کثیر)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا۝ ٦٧ نفق نَفَقَ الشَّيْءُ : مَضَى ونَفِدَ ، يَنْفُقُ ، إِمَّا بالبیع نحو : نَفَقَ البَيْعُ نَفَاقاً ، ومنه : نَفَاقُ الأَيِّم، ونَفَقَ القَوْمُ : إذا نَفَقَ سُوقُهُمْ ، وإمّا بالمَوْتِ نحو : نَفَقَتِ الدَّابَّةُ نُفُوقاً ، وإمّا بالفَنَاءِ نحو : نَفِقَتِ الدَّرَاهِمُ تُنْفَقُ وأَنْفَقْتُهَا . والإِنْفَاقُ قد يكون في المَالِ ، وفي غَيْرِهِ ، وقد يكون واجباً وتطوُّعاً ، قال تعالی: وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] ، وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] ( ن ف ق ) نفق ( ن ) س الشئی کے منعی کسی چیز کے ختم ہونے یا چلے جانے کے ہیں ۔ اور چلے جانے کی مختلف صورتیں ہیں ( 1 ) خوب فروخت ہونے سے جیسے نفق البیع ( سامان کا ) خوب فروخت ہونا اسی سے نفاق الایتیم ہے جس کے معنی بیوہ عورت سے نکاح کے طلب گاروں کا بکثرت ہونا کے ہیں ۔ نفق القوم بازار کا پر رونق ہونا ۔ ( 2 ) بذیعہ مرجانے کے جیسے نفقت الدابۃ نفوقا جانور کا مرجانا ۔ ( 3 ) بذریعہ فنا ہوجانے کے جیسے نفقت الدراھم درواہم خرچ ہوگئے ۔ انفق تھا ان کو خرچ کردیا ۔ الا نفاق کے معنی مال وغیرہ صرف کرنا کے ہیں اور یہ کبھی واجب ہوتا ہے ۔ اور کبھی مستحب اور مال اور غیر مال یعنی علم وغیرہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا ۔ وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ البقرة/ 195] اور خدا کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ وأَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْناكُمْ [ البقرة/ 254] اور جو مال ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرلو ۔ سرف السَّرَفُ : تجاوز الحدّ في كلّ فعل يفعله الإنسان، وإن کان ذلک في الإنفاق أشهر . قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان/ 67] ، وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] ، ويقال تارة اعتبارا بالقدر، وتارة بالکيفيّة، ولهذا قال سفیان : ( ما أنفقت في غير طاعة اللہ فهو سَرَفٌ ، وإن کان قلیلا) قال اللہ تعالی: وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام/ 141] ، وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر/ 43] ، أي : المتجاوزین الحدّ في أمورهم، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر/ 28] ، وسمّي قوم لوط مسرفین من حيث إنهم تعدّوا في وضع البذر في الحرث المخصوص له المعنيّ بقوله : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة/ 223] ، وقوله : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر/ 53] ، فتناول الإسراف في المال، وفي غيره . وقوله في القصاص : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء/ 33] ، فسرفه أن يقتل غير قاتله، إمّا بالعدول عنه إلى من هو أشرف منه، أو بتجاوز قتل القاتل إلى غيره حسبما کانت الجاهلية تفعله، وقولهم : مررت بکم فَسَرِفْتُكُمْ أي : جهلتكم، من هذا، وذاک أنه تجاوز ما لم يكن حقّه أن يتجاوز فجهل، فلذلک فسّر به، والسُّرْفَةُ : دویبّة تأكل الورق، وسمّي بذلک لتصوّر معنی الإسراف منه، يقال : سُرِفَتِ الشجرةُ فهي مسروفة . ( س ر ف ) السرف کے معنی انسان کے کسی کام میں حد اعتدال سے تجاوز کر جانے کے ہیں مگر عام طور پر استعمال اتفاق یعنی خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرجانے پر ہوتا پے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا[ الفرقان/ 67] اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بیچا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں ۔ وَلا تَأْكُلُوها إِسْرافاً وَبِداراً [ النساء/ 6] اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہوجائیں گے ( یعنی بڑی ہو کہ تم سے اپنا کا مال واپس لے لیں گے ) اسے فضول خرچی اور جلدی میں نہ اڑا دینا ۔ اور یہ یعنی بےجا سرف کرنا مقدار اور کیفیت دونوں کے لحاظ سے بولاجاتا ہے چناچہ حضرت سفیان ( ثوری ) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی میں ایک حبہ بھی صرف کیا جائے تو وہ اسراف میں داخل ہے ۔ قرآن میں ہے : وَلا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ [ الأنعام/ 141] اور بےجانہ اڑان کہ خدا بےجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ وَأَنَّ الْمُسْرِفِينَ هُمْ أَصْحابُ النَّارِ [ غافر/ 43] اور حد سے نکل جانے والے دوزخی ہیں ۔ یعنی جو اپنے امور میں احد اعتدال سے تجاوز کرتے ہیں إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدِي مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَّابٌ [ غافر/ 28] بیشک خدا اس شخص کو ہدایت نہیں دیتا جا حد سے نکل جانے والا ( اور ) جھوٹا ہے ۔ اور قوم لوط (علیہ السلام) کو بھی مسرفین ( حد سے تجاوز کرنے والے ) کیا گیا ۔ کیونکہ وہ بھی خلاف فطرف فعل کا ارتکاب کرکے جائز حدود سے تجاوز کرتے تھے اور عورت جسے آیت : نِساؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ [ البقرة/ 223] تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں ۔ میں حرث قرار دیا گیا ہے ۔ میں بیچ بونے کی بجائے اسے بےمحل ضائع کر ہے تھے اور آیت : يا عِبادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلى أَنْفُسِهِمْ [ الزمر/ 53] ( اے پیغمبر میری طرف سے لوگوں کو کہدد کہ ) اے میرے بندو جہنوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی میں اسرفوا کا لفظ مال وغیرہ ہر قسم کے اسراف کو شامل ہے اور قصاص کے متعلق آیت : فَلا يُسْرِفْ فِي الْقَتْلِ [ الإسراء/ 33] تو اس کا چاہئے کہ قتل ( کے قصاص ) میں زیادتی نہ کرے ۔ میں اسراف فی القتل یہ ہے کہ غیر قاتل کو قتل کرے اس کی دو صورتیں ہی ۔ مقتول سے بڑھ کر باشرف آدمی کو قتل کرنے کی کوشش کرے ۔ یا قاتل کے علاوہ دوسروں کو بھی قتل کرے جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا ۔ عام محاورہ ہے ۔ کہ تمہارے پاس سے بیخبر ی میں گزر گیا ۔ تو یہاں سرفت بمعنی جھلت کے ہے یعنی اس نے بیخبر ی میں اس حد سے تجاوز کیا جس سے اسے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا اور یہی معنی جہالت کے ہیں ۔ السرفتہ ایک چھوٹا سا کیڑا جو درخت کے پتے کھا جاتا ہے ۔ اس میں اسراف کو تصور کر کے اسے سرفتہ کہا جاتا ہے پھر اس سے اشتقاق کر کے کہا جاتا ہے ۔ سرفت الشجرۃ درخت کرم خور دہ ہوگیا ۔ اور ایسے درخت کو سرقتہ ( کرم خوردہ ) کہا جاتا ہے ۔ قتر القَتْرُ : تقلیل النّفقة، وهو بإزاء الإسراف، وکلاهما مذمومان، قال تعالی: وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكانَ بَيْنَ ذلِكَ قَواماً [ الفرقان/ 67] . ورجل قَتُورٌ ومُقْتِرٌ ، وقوله : وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] ، تنبيه علی ما جبل عليه الإنسان من البخل، کقوله : وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] ، وقد قَتَرْتُ الشیء وأَقْتَرْتُهُ وقَتَّرْتُهُ ، أي : قلّلته . ومُقْتِرٌ: فقیر، قال : وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] ، وأصل ذلک من القُتَارِ والْقَتَرِ ، وهو الدّخان الساطع من الشِّواء والعود ونحوهما، فكأنّ الْمُقْتِرَ والْمُقَتِّرَ يتناول من الشیء قتاره، وقوله : تَرْهَقُها قَتَرَةٌ [ عبس/ 41] ، نحو : غَبَرَةٌ «2» وذلک شبه دخان يغشی الوجه من الکذب . والقُتْرَةُ : ناموس الصائد الحافظ لقتار الإنسان، أي : الریح، لأنّ الصائد يجتهد أن يخفي ريحه عن الصّيد لئلّا يندّ ، ورجل قَاتِرٌ: ضعیف كأنّه قَتَرَ في الخفّة کقوله : هو هباء، وابن قِتْرَةَ : حيّة صغیرة خفیفة، والقَتِيرُ : رؤوس مسامیر الدّرع . ( ق ت ر ) ( القتر ( ن ) کے معنی بہت ہی کم خرچ کرنے اور بخل کرنے کے ہیں یہ اسراف کی ضد ہے اور یہ دونوں صفات مذمومیہ سے ہیں قرآن میں ہے : ۔ وَالَّذِينَ إِذا أَنْفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكانَ بَيْنَ ذلِكَ قَواماً [ الفرقان/ 67] بلکہ اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم اسی سے صفت مشبہ کا صیغہ قتور ومقتر آتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَكانَ الْإِنْسانُ قَتُوراً [ الإسراء/ 100] اور انسان دل کا بہت تنگ ہے ۔ میں اس بات پر تنبیہ ہے کہ انسان فطرۃ کنجوس واقع ہوا ہے جیسے فرمایا : ۔ وَأُحْضِرَتِ الْأَنْفُسُ الشُّحَّ [ النساء/ 128] اور طبیعتیں تو بخل کی طرف مائل ہوتی ہیں قترت الشئی واقتر تہ وقتر تہ کے معنی کسی چیز کو کم کرنے کے ہیں اور مقتر بمعنی فقیر ہے قرآن میں ہے : ۔ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] اور تنگد ست اپنی حثیت کے مطابق ۔ اصل میں یہ قتار وقتر سے ہے جس کے معنی اس دھواں کے ہیں جو کسی چیز کے بھوننے یا لکڑی کے جلنے سے اٹھتا ہے گویا مقتر اور مقتر بھی ہر چیز سے دھوئیں کی طرح لیتا ہے اور آیت کریمہ : ۔ تَرْهَقُها قَتَرَةٌ [ عبس/ 41] اور سیاہی چڑھ رہی ہوگی میں قترۃ غبرۃ کی طرح ہے مراد دھوئیں کی طرح سیاہی اور افسر دگی ہے جو جھوٹ کیوجہ سے چہرہ پر چھا جاتی ہے ۔ القترۃ شکار ی کی کین گاہ جو انسان کی بوکو بھی شکار تک نہیں پہچنے دیتی کیونکہ شکاری کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس کی بو بھی شکار تک نہ پہنچنے تاکہ شکار بھاگ نہ جائے ۔ رجل قاتر کمزور آدمی ۔ گو یا وہ ضعف میں دھوئیں کی طرح ہے جیسا کہ کمزور آدمی کو ھو ھباء کہا جاتا ہے ۔ ابن قترۃ ایک بار یک اور چھوٹا سا سانپ القتیرۃ زرہ کی میخوں کے سرے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

قول باری ہے : (والذین اذا انفقوا لم یسرفوا ولم یقتروا وکان بین ذلک قواما۔ ) جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل، بلکہ دونوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتے ہیں ۔ ابن ابی نجیح نے مجاہد سے اس سلسلے میں روایت کی ہے کہ جو شخص اللہ کی نافرمانی میں ایک درہم بھی خرچ کرے گا وہ مسرف کہلائے گا (ولم یقتروا) انہوں نے کہا کہ اس سے بخل مراد ہے جس کے معنی اللہ کے حق کو روکنے کے ہیں۔ وکان بین ذلک قواما کی تفسیر انہوں نے یہ کی کہ ” اعتدال کی راہ اور طاعت خداوندی میں انفاق۔ “ ابن سیرین کا قول ہے سرف کے معنی ناحق خرچ کرنے کے ہیں۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٧) اور طاعات مالیہ میں ان کا یہ طریقہ ہے کہ جب وہ خرچ کی کوتاہی کریں اور ان کا خرچ اس اسراف اور اس قسم کی کمی کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٧ (وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا ۔ ) ” اگرچہ کسی بھی معاملے میں اعتدال قائم رکھنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے مگر اللہ کے ان بندوں کی سیرت ایسی پختہ (mature) ہوتی ہے کہ انہیں اپنے اخراجات کے اندر اعتدال اور توازن قائم رکھنے میں مشکل پیش نہیں آتی۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

83 The true servants of Allah adopt "the golden mean" between the two extremes in spending their money. They neither go beyond prudence and necessity in expenditure nor live in wretched 'circumstances in order to save and hoard money but are frugal. This was the characteristic of the followers of the Holy Prophet, which distinguished them from the well-to-do people of Arabia, who were either spend-thrifts in regard to the gratific ation of their own lusts or niggardly in spending their money on good works. According to Islam extravagance is: (1) To spend even the smallest amount of money in unlawful ways, (2) to go beyond one's own resources in expenditure even in lawful ways, or to spend money for one's own pleasure, and (3) to spend money in righteous ways not for the sake of Allah but for mere show. On the other hand, one is miserly if one dces not spend money for one's own needs and requirements and those of one's family in accordance with one's resources and position, or if one dces not spend money for good works. The way taught by Islam is the golden mean between the two extremes. The Holy Prophet has said, "It is a sign of wisdom to adopt the "golden mean" in one's living." (Ahmad, Tabarani).

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :83 یعنی نہ تو ان کا حال یہ ہے کہ عیاشی ، اور قمار بازی ، اور شراب نوشی ، اور یار باشی ، اور میلوں ٹھیلوں ، اور شادی بیاہ میں بے دریغ روپیہ خرچ کریں اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر اپنی شان دکھانے کے لیے غذا مکان ، لباس اور تزئین و آرائش پر دولت لٹائیں ۔ اور نہ ان کی کیفیت یہ ہے کہ ایک زر پرست آدمی کی طرح پیسہ جوڑ جوڑ کر رکھیں ، نہ خود کھائیں ، نہ بال بچوں کی ضروریات اپنی استطاعت کے مطابق پوری کریں ، اور نہ کسی راہ خیر میں خوش دلی کے ساتھ کچھ دیں ۔ عرب میں یہ دونوں قسم کے نمونے کثرت سے پائے جاتے تھے ۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو خوب دل کھول کر خرچ کرتے تھے ، مگر ان کے ہر خرچ کا مقصود یا تو ذاتی عیش و تَنَعُّم تھا ، یا برادری میں ناک اونچی رکھنا اور اپنی فیاضی و دولت مندی کے ڈنکے بجوانا ۔ دوسری طرف وہ بخیل تھے جن کی کنجوسی مشہور تھی ۔ اعتدال کی روش بہت ہی کم لوگوں میں پائی جاتی تھی اور ان کم لوگوں میں اس وقت سب سے زیادہ نمایاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب تھے ۔ اس موقع پر یہ جان لینا چاہیے کہ اسراف کیا چیز ہے اور بخل کیا چیز ۔ اسلامی نقطۂ نظر سے اسراف تین چیزوں کا نام ہے ۔ ایک ، ناجائز کاموں میں دولت صرف کرنا ، خواہ وہ ایک پیسہ ہی کیوں نہ ہو ۔ دوسرے ، جائز کاموں میں خرچ کرتے ہوئے حد سے تجاوز کر جانا ، خواہ اس لحاظ سے کہ آدمی اپنی استطاعت سے زیادہ خرچ کرے ، یا اس لحاظ سے کہ آدمی کو جو دولت اس کی ضرورت سے بہت زیادہ مل گئی ہو اسے وہ اپنے ہی عیش اور ٹھاٹ باٹ میں صرف کرتا چلا جائے ۔ تیسرے ، نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا ، مگر اللہ کے لیے نہیں بلکہ ریا اور نمائش کے لیے اس کے برعکس بخل کا اطلاق دو چیزوں پر ہوتا ہے ۔ ایک یہ کہ آدمی اپنی اور اپنے بال بچوں کی ضروریات پر اپنی مقدرت اور حیثیت کے مطابق خرچ نہ کرے ۔ دوسرے یہ کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں اس کے ہاتھ سے پیسہ نہ نکلے ۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال کی راہ اسلام کی راہ ہے جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ : من فقہ الرجل قصدہ فی معیشتہ ، اپنی معیشت میں توسط اختیار کرنا آدمی کے فقیہ ( دانا ) ہونے کی علامتوں میں سے ہے ( احمد و طبرنی ، بروایت ابی الدرداء ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(25:67) انفقوا۔ ماضی جمع مذکر غائب انفاق (افعال) مصدر۔ انہوں نے خرچ کیا۔ ماضی بمعنی حال۔ وہ خرچ کرتے ہیں۔ لم یسرفوا مضارع نفی جحد بلم۔ جمع مذکر غائب اسراف (افعال) مصدر ۔ وہ فضول خرچی نہیں کرتے۔ بےجا نہیں اڑاتے۔ بیجا سرف کرنا مقدار اور کیفیت دونوں کے لحاظ سے بولا جاتا ہے۔ چناچہ حضرت سفیان ثوری (رح) فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کرکے ایک حبہ بھی خرچ کیا جائے تو وہ بھی اسراف میں داخل ہے۔ حدا عتدال سے تکاوز کرنا بھی اسراف ہے چناچہ قرآن مجید میں ہے :۔ ان اللہ لا یھدی من ھو مسرف کذاب (40:28) بیشک خدا اس شخص جو ہدایت نہیں دینا جو حد سے نکل جانے والا (اور) جھوٹا ہے۔ لم یفتروا۔ مضارع مجزوم نفی جحد بلم جمع مذکر غائب قتر مصدر (باب نصر) وہ خرچ میں تنگی نہیں کرتے ، کنجوسی نہیں کرتے، دولت کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے بخل سے کام نہیں لیتے ۔ مقتر بمعنی فقیر یا تنگ دست بھی ہے چناچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے وعلی المقتر قدرہ (2:236) اور تنگ دست اپنی حیثیت کے مطابق ۔ اور تنگی والے کے ذمہ اسکی حیثیت کے لائق ۔ کان : ای کان انفاقھم۔ بین ذلک ای بین الاسراف والقتر قواما وسطا وعدلا۔ کان فعل انفاقھم۔ اسم (محذوف) بین ذلک خبر اول قواما خبر ثانی۔ ان کا خرچ کرنا فضول خرچی اور کنجوسی کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔ قواما : قوم مادہ قوام اور قیام اس چیز کو کہتے ہیں جس سے کسی شے کی بقاء اور درستگی ہو یعنی درستی اور بقاء کا سہارا۔ اسراف اور بخل کے درمیان حد اوسط، میانہ، معتدل، متوسط۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ یعنی نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ بخل سے کام لیتے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں۔ فضول خرچی یہ ہے کہ گناہ کے کاموں میں مال صرف کیا جائے اور بخل یہ ہے کہ اللہ کے مقرر کردہ حقوق بھی ادا نہ کئے جائیں۔ (شوکانی) ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 67 تا 77 : انفقوا (انہوں نے خرچ کیا) ‘ لم یسرفوا (انہوں نے بےجا نہیں اڑایا) ‘ لم یقتروا (نہ انہوں نے تنگی کی ) ‘ قوام ( ٹھرا ہوا۔ اعتدال و میانہ روی) ‘ یلق (وہ پڑے گا) ‘ اثام (گناہ) ‘ یضعف (دوگنا کردے گا) ‘ مھان (ذلیل و خوار) ‘ متاب (لوٹنے والا۔ توبہ کرنے والا) ‘ لایشھدون (وہ موجود نہیں ہیں) ‘ الزور (جھوٹ) ‘ لغو (فضول۔ بےہودہ) ‘ کرام (سنجیدگی۔ عزت) ‘ لم یخروا (وہ نہیں کرتے) ‘ صم (بہرے) ‘ عمیان ( اندھے) ھب (عطا فرما۔ دے دیجئے) ‘ قرۃ (ٹھنڈک) ‘ الغرفۃ (اونچا مکان) ‘ تحیۃ (دعا) ‘ مایعبئو ا (وہ پرواہ نہیں کرتا ) ‘ لزام (چمٹنے والی) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 67 تا 77 : ان آیات سے پہلے یہ بیان کیا گیا ہے کہ رحمن کے بندے کون ہیں ؟ ان سے پہلی آیت میں رحمن کے بندوں کی چار صفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ (5) پانچوں صفت یہ ہے کہ وہ مال و دولت کی خرچ میں راہ اعتدال اختیار کرتے ہیں نہ تو فضول خرچی میں اپنا سب کچھ لٹا بیٹھتے ہیں اور نہ کنجوسی کرتے ہیں بلکہ اس کے دریمان کی راہ کو اختیار کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے کہ خرچ کرنے میں سب سے اچھی عادت اعتدال و تو ازن کی ہے کہ نہ تو اس قدر کنجوسی اختیار کی جائے کہ وہ کسی پر ایک پیسہ بھی خرچ نہ کریں اور نہ ان فضول خرچوں کی طرح بن جاتے ہیں کہ جب وہخرچ کرنے لگتے ہیں تو یہ نہیں سوچتے کہ کہیں ان کو کل دوسروں کا محتاج نہ ہونا پڑجائے۔ (6) رحمن کے بندوں کی چھٹی صفت یہ ہے کہ وہ کسی کی ناحق جان نہیں لیتے۔ البتہ اگر جان لینے کا حق ہو تو عدالت کے ذریعہ جان لی جاسکتی ہے جس کو شریعت میں قصاص کہا جاتا ہے۔ شریعت نے تو ہمیں کسی جانور کی بھی بلاوجہ جان لینے کا اختیار نہیں دیا ہے۔ انسان تو شریعت کی نظر میں نہایت اہم ہے لہذا رحمن کے بندوں کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ ناحق کسی کی جان نہیں لیتے۔ (7) رحمن کے بندوں کی ساتویں صفت یہ ہے کہ وہ ناجائز جنسی تعلق قائم نہیں کرتے (زنا نہیں کرتے) کیونکہ یہ فعل انسانی معاشرہ کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے۔ جو بھی ایساکرے گا وہ یقیناً گناہ گار ہے اور اللہ کے عذاب کو دعوت دیتا ہے اور قیامت میں اس کو دوگنی سزا دی جائے گی۔ (8) آٹھویں صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ ہمیشہ حق و صداقت کے پیکر بنے رہتے ہیں اور جھوٹ اور فریب کے قریب سے بھی نہیں گذرتے۔ نہ وہ جھوٹی گواہی دیتے ہیں نہ کسی سے دھوکے بازی اور فریب کا معاملہ کرتے ہیں۔ (9) رحمن کے بندوں کی نویں صفت یہ ہے کہ جب وہ کسی فضول محفل یا جگہ سے گذرتے ہیں تو نہ اس میں شرکت کرتے ہیں نہ ان کی ہمت افزائی کرتے ہیں نہ جھگڑتے ہیں بلکہ بڑے وقار و سنجیدگی سے وہاں سے گذرجاتے ہیں اور اپنی منزل کی فکر جاری رکھتے ہیں۔ (10) رحمن کے بندوں کی دسویں صفت یہ ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے اور ان کو ان آیات پر دھیان دینے کے لئے کہا جاتا ہے تو اس کو نظر انداز نہیں کرتے یا ان پر اندھے بہروں کی طرح بےتو جہی سے نہیں گرتے بلکہ پوری پوری توجہ سے سن کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (11) رحمن کے بندوں کی گیارہوں صفت یہ ہوتی ہے کہ وہ ہر وقت اللہ کی باہ گاہ میں یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ اے اللہ ہمیں ہماری اولاد اور گھر والوں میں ایسی برتک عطا فرما کہ جس سے ہماری آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور ہمیں نیکیوں میں آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو لوگ رحمن کے بندے ہیں ان کو ان کی نیکیوں کی وجہ سے اور صبر و تحمل کی وجہ سے ایسے بلند وب الا مکانات اور جنت کی راحتیں عطا کی جائیں گی جن کا وہ اس دنیا میں تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ہر طرف دعائیں اور محبت و سلامتی کے پیغام ہوں گے۔ ان راحتوں اور سکون میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے جو اہل ایمان کے لئے بہترین ٹھکانا ہوگا۔ آخر میں یہ فرمایا ہے کہ وہ رب العالمین بےنیاز ہے اگر ساری دنیا مل کر بھی اس کو نہ پکارے گی تو اس کی شان اور عظمت میں کوئی فرق پیدا نہ ہوگا۔ البتہ وہ لوگ جو اللہ کو پکارنے کی سعادت حاصل کرسکتے تھے اور وہ نہیں پکارتے تو وہ اس نیکی سے محروم رہیں گے اور آخرت میں وہ سخت سزا کے مستحق ہوں گے۔ رحمن کے بندوں کی مذکورہ صفات پر سورة الفرقان کو ختم فرمایا گیا ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو رحمن کا سچا بندہ بننے کی توفیق عطا فرمائے اور آخرت کی تمام کامیابیاں نصیب فرمائے۔ آمین الحمد للہ ان آیات کا ترجمہ اور تشریح مکمل ہوئی واخرو دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

پھر یہ بندے اعتدال و میانہ روی کا نمونہ ہیں۔ ان کی زندگی نہایت ہی متوازن ہے۔ والذین ……قواماً (٦٧) یہ اسلام کی بنیادی خصوصیت ہے ، جسے وہ ایک مسلم فرد اور ایک مسلم جماعت کی زندگی کے اندر ایک حقیقت کی شکل میں پیدا کرت ا ہے۔ اسلام اس خصوصیت کو اپنے نظام تربیت و اخلاق اور نظام معیشت و قانون دانوں میں پیش نظر رکھتا ہے۔ چناچہ اسلامی نظام کے ہر جز کو مدار توازن اور اعتدال پر ہے۔ باوجود اس کے کہ اسلام ایک فرد کو انفرادی مخصوص ملکیت رکھنے کی اجازت دیتا ہے لیکن اسلام ایک مسلم فرد کو کھلی چھٹی نہیں دیتا کہ وہ ” اپنی “ دولت کو جس طرح چاہے خرچ کرے۔ جبکہ مغربی سرمایہ دارانہ نظام میں ایک فرد کو مکمل آزادی ہے کہ وہ اپنی انفرادی دولت کو جس طرح چاہے خرچ کر دے۔ اسی طرح تمام غیر مسلم اقوام کے ہاں بھی یہی اصول ہے کہ ایک شخص اپنی انفرادی ملکیت کو جس طرح چاہے ، خرچ کر دے۔ اس پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ لیکن ایک مسلمان انفرادی دولت خرچ کرنے میں بھی اس بات کا پابند ہے کہ اسراف اور کنجوسی کے درمیان جد اعتدال پر قائم رہے۔ اسراف کی وجہ سے جان ، مال اور معاشرے سب کی تباہی ہے اور کنجوسی بھی اسی طرح جان ، مال اور معاشرے کا نقصان ہے کہ ایک شخص اپنے مال سے فائدہ نہیں اٹھاتا ۔ کیونکہ اگر کوئی مال سے نفع اٹھاتا ہے اور خرچ کرتا ہے تو اس سے دوسرے کی آمدن ہوتی ہے اس لئے کہ مال تو ایک اجتماعی ذریعہ ہے جس سے پوری سوسائٹی کو فائدہ ملتا ہے اور اسراف اور کنجوسی دونوں سے معاشرے اور اجتماعی اقتصادیات کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگر مال کو روک دیا جائے تو کساد بازاری پیدا ہوتی ہے اور اگر ضرورت سے زیادہ خرچ کیا جائے تو دوسروں کی قوت خرید متاثر ہوتی ہے اور پھر اس سے اخلاقی فساد بھی پیدا ہوتا ہے۔ چناچہ اسلام سوسائٹی کے اس پہلو کی بھی اصلاح کرتا ہے اور اعتدال اور توازن کو ایک مسلم شخصیت کا حصہ بنا دیتا ہے اور اس کا تعلق ایمان سے جوڑ دیتا ہے۔ وکان بین ذلک قواماً (٢٥ : ٦٨) ” بلکہ اس کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال قائم رہتا ہے۔ “ …… وکان بین ذلک قواماً (٢٥ : ٦٨) ” بلکہ اس کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے۔ “ اور پھر عباد الرحمٰن کی بڑی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتے اور کسی زندہ جان کو قتل نہیں کرتے۔ وہ زنا نہیں کرتے۔ شرک ، قتل اور زنا اسلام میں اکبر الکبائر گناہ اور جرائم ہیں۔ جو شخص یہ گناہ کرے گا وہ ضرور سزا کا مستوجب ہوگا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(67) عبادت بدنی کے ساتھ طاعت مالی کا ذکر فرماتے ہیں اور وہ جب خرچ کرنے لگتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ وہ خرچ کرنے میں تنگی اور بخل کرتے ہیں ان کا خرچ کرنا ان دونوں باتوں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے یعنی نہ ممسک نہ مسرف بلکہ میانہ روی اختیار کرتے ہیں اور ایک سیدھی گذارن پسند کرتے ہیں نہ ایسا اسراف کہ معصیت میں خرچ کرنے لگیں نہ ایسا کہ امساک کہ طاعات میں تنگی دکھائیں نہ ایسا اڑائیں کہ تنگدست ہوکر بیٹھ جائیں نہ ایسا امساک اور بخل کہ مٹھی بالکل بند کرلیں بلکہ رحمان کے خاص بندے انفاق میانہ روی اختیار کرتے ہیں۔