Surat ul Furqan

Surah: 25

Verse: 9

سورة الفرقان

اُنۡظُرۡ کَیۡفَ ضَرَبُوۡا لَکَ الۡاَمۡثَالَ فَضَلُّوۡا فَلَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ سَبِیۡلًا ﴿٪۹﴾  16

Look how they strike for you comparisons; but they have strayed, so they cannot [find] a way.

خیال تو کیجئے! کہ یہ لوگ آپ کی نسبت کیسی کیسی باتیں بناتے ہیں ۔ پس جس سے خود ہی بہک رہے ہیں اور کسی طرح راہ پر نہیں آسکتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

انظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الاَْمْثَالَ فَضَلُّوا ... See how they coin similitudes for you, so they have gone astray, meaning, they accused you and belied you when they said that you were a sorcerer or bewitched or crazy or a liar or a poet, but all of these are false ideas. Everyone who has the slightest understanding will recognize that they are lying. Allah says: ... فَضَلُّوا ... so they have gone astray, from the path of guidance. ... فَلَ يَسْتَطِيعُونَ سَبِيلً and they cannot find a path. Everyone who steps outside of the way of truth and guidance has gone astray, no matter what direction he takes, because the truth is one and its methodology is unified, parts of it confirming other parts. Then Allah tells His Prophet that if He willed, He could bestow on him in this world something far better than what they were saying. He said:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

91یعنی اے پیغمبر ! آپ کی نسبت یہ اس قسم کی باتیں اور بہتان تراشی کرتے ہیں، کبھی ساحر کہتے ہیں، کبھی مسحور و مجنون اور کبھی کذاب و شاعر۔ حالانکہ یہ ساری باتیں باطل ہیں اور جن کے پاس ذرہ برابر بھی عقل فہم ہے، وہ ان کا جھوٹا ہونا جانتے ہیں، پس یہ ایسی باتیں کر کے خود ہی راہ ہدایت سے دور ہوجاتے ہیں، انھیں راہ راست کس طرح نصیب ہوسکتی ہے ؟

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٤] یعنی کبھی کہتے ہیں کہ اس شخص نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے جو کہتا ہے کہ مجھ پر اللہ کی طرف سے وحی نازل ہوتی ہے کبھی کہتے ہیں کہ یہ قرآن اس نے خود ہی تصنیف کر ڈالا ہے۔ البتہ اس سلسلہ میں دوسروں سے بھی مدد لیتا ہے۔ کبھی آپ کو کاہن کہتے ہیں، کبھی شاعر، کبھی ساحر، جادوگر اور کبھی مسحور۔ پھر کہیں یہ کہتے ہیں کہ اسے فرشتہ ہونا چاہئے تھا۔ کبھی کہتے ہیں کہ اگر بشر ہی تھا تو کم از کم اس کے ساتھ کوئی فرشتہ ہی رہا کرتا۔ کبھی یہ اس نبی کے پاس مال و دولت کی کثرت ہونا چاہئے تھی۔ یہ سب باتیں دراصل ان کے دعوت حق کو قبلو نہ کرنے کے بہانے ہیں۔ ہٹ دھرمی اور تعصب نے ان کو اندھا کر رکھا ہے اور ایسی بےتکی باتیں بنانے پر مجبور کر رکھا ہے۔ ان کی ان باتوں کی حیثیت && خوئے بدرابہانہ بسیار && سے زیادہ کچھ نہیں۔ البتہ ان کی ایسی ہٹ دھرمی کی باتوں سے یہ ضرور معلوم ہوجاتا ہے کہ دعوت حق کو کسی قیمت پر قبول نہیں کریں گے۔ اور ان کے یہ مطالبات اور اعتراضات محض شرارت اور تنگ کرنے کی بنا پر ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اُنْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ : دیکھو انھوں نے تمہارے لیے کیسے مثالیں بیان کیں، صرف اس لیے کہ کسی طرح آپ کو جھوٹا ثابت کرسکیں۔ فَضَلُّوْا فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ سَبِيْلًا : سو بھٹک گئے اور ایسے بھٹکے کہ کسی راستے پر آ ہی نہیں سکتے، کیونکہ راہ پر وہ آتا ہے جس کے دل میں اخلاص ہو اور وہ محض غلط فہمی کا شکار ہوگیا ہو، ان کے دلوں میں تو اخلاص کے بجائے ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔ مزید دیکھیے بنی اسرائیل (٤٧، ٤٨) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The Second Objection was that if the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was a prophet, he should not have been eating and drinking like common people; instead he should have been free from eating and drinking like angels. And if this was not so, he should have at least enough wealth and gardens to take care of his day to day needs, so that he may not need to care for his living. Furthermore, how could he be accepted as a prophet when he is neither an angel nor does an angel accompany him to endorse what he preaches, therefore it appears that he has been charmed by someone which has turned his head and that is why he talks like this. A general answer to this objection is given in the verse انظُرْ‌ كَيْفَ ضَرَ‌بُوا لَكَ لِلْعَالَمِينَ at is (See how they coined similes for you, so they have gone astray and cannot find a way. - 25:9). The detailed answer to the objection is given in the next few verses.

دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اگر یہ رسول ہوتے تو عام انسانوں کی طرح کھاتے پیتے نہیں بلکہ فرشتوں کی طرح کھانے پینے کی ضروریات سے مستغنی اور الگ ہوتے۔ اور اگر یہ بھی نہ ہوتا تو کم از کم ان کے پاس اللہ کی طرف سے اتنا خزانہ یا باغات ہوتے کہ ان کو اپنے معاش کی فکر نہ کرنا پڑتی، بازاروں میں چلنا پھرنا نہ پڑتا۔ اس کے علاوہ ان کا اللہ کی طرف سے رسول ہونا ہم کیسے مان لیں کہ اول تو یہ فرشتہ نہیں، دوسرے کوئی فرشتہ بھی ان کے ساتھ نہیں رہتا جو ان کے ساتھ ان کے کلام کی تصدیق کیا کرتا، اس لئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان پر کسی نے جادو کردیا ہے جس سے ان کا دماغ چل گیا اور یہ ایسی بےسرو پا باتیں کہتے ہیں۔ اس کا اجمالی جواب تو اس آیت میں یہ دیا گیا۔ اُنْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ سَبِيْلًا، یعنی دیکھو تو یہ لوگ آپ کی شان میں کیسی کیسی عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ سب گمراہ ہوگئے اور اب ان کو راہ ملنے کی کوئی صورت نہ رہی۔ تفصیلی جواب اگلی آیات میں آیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُنْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوْا لَكَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ سَبِيْلًا۝ ٩ۧ نظر النَّظَرُ : تَقْلِيبُ البَصَرِ والبصیرةِ لإدرَاكِ الشیءِ ورؤيَتِهِ ، وقد يُرادُ به التَّأَمُّلُ والفَحْصُ ، وقد يراد به المعرفةُ الحاصلةُ بعد الفَحْصِ ، وهو الرَّوِيَّةُ. يقال : نَظَرْتَ فلم تَنْظُرْ. أي : لم تَتَأَمَّلْ ولم تَتَرَوَّ ، وقوله تعالی: قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] أي : تَأَمَّلُوا . والنَّظَرُ : الانْتِظَارُ. يقال : نَظَرْتُهُ وانْتَظَرْتُهُ وأَنْظَرْتُهُ. أي : أَخَّرْتُهُ. قال تعالی: وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] ، ( ن ظ ر ) النظر کے معنی کسی چیز کو دیکھنے یا اس کا ادراک کرنے کے لئے آنکھ یا فکر کو جو لانی دینے کے ہیں ۔ پھر کبھی اس سے محض غو ر وفکر کرنے کا معنی مراد لیا جاتا ہے اور کبھی اس معرفت کو کہتے ہیں جو غور وفکر کے بعد حاصل ہوتی ہے ۔ چناچہ محاور ہ ہے ۔ نظرت فلم تنظر۔ تونے دیکھا لیکن غور نہیں کیا ۔ چناچہ آیت کریمہ : قُلِ انْظُرُوا ماذا فِي السَّماواتِ [يونس/ 101] ان کفار سے کہو کہ دیکھو تو آسمانوں اور زمین میں کیا کیا کچھ ہے ۔ اور النظر بمعنی انتظار بھی آجاتا ہے ۔ چناچہ نظرتہ وانتظرتہ دونوں کے معنی انتظار کرنے کے ہیں ۔ جیسے فرمایا : وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ [هود/ 122] اور نتیجہ اعمال کا ) تم بھی انتظار کرو ۔ ہم بھی انتظار کرتے ہیں كيف كَيْفَ : لفظ يسأل به عمّا يصحّ أن يقال فيه : شبيه وغیر شبيه، كالأبيض والأسود، والصحیح والسّقيم، ولهذا لا يصحّ أن يقال في اللہ عزّ وجلّ : كيف، وقد يعبّر بِكَيْفَ عن المسئول عنه كالأسود والأبيض، فإنّا نسمّيه كيف، وكلّ ما أخبر اللہ تعالیٰ بلفظة كَيْفَ عن نفسه فهو استخبار علی طریق التنبيه للمخاطب، أو توبیخا نحو : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] ، كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] ، كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] ، انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] ، فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] ، أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] . ( ک ی ف ) کیف ( اسم استفہام ) اس چیز کی حالت در یافت کرنے کے لئے آتا ہے جس پر کہ شیبہ اور غیر شیبہ کا لفظ بولا جاسکتا ہو جیسے ابیض ( سفید اسود ( سیاہی ) صحیح ( تندرست ) سقیم ( بیمار ) وغیرہ ۔ لہذا اللہ تعالیٰ کے متعلق اس کا استعمال جائز نہیں ہے اور کبھی اس چیز پر بھی کیف کا اطلاق کردیتے ہیں جس کے متعلق سوال کر نا ہو مثلا کہا جاتا ہے کہ اسود اور ابیض مقولہ کیف سے ہیں اور جہاں کہیں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق کیف کا لفظ استعمال کیا ہے تو وہ تنبیہ یا قو بیخ کے طور پر مخاطب سے استخبار کے لئے لایا گیا ہے جیسے فرمایا : ۔ كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ [ البقرة/ 28] کافرو تم خدا سے کیونکر منکر ہوسکتے ہو ۔ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ [ آل عمران/ 86] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے ۔ كَيْفَ يَكُونُ لِلْمُشْرِكِينَ عَهْدٌ [ التوبة/ 7] بھلا مشرکوں کے لئے کیونکر قائم رہ سکتا ہے ۔ انْظُرْ كَيْفَ ضَرَبُوا لَكَ الْأَمْثالَ [ الإسراء/ 48] دیکھو انہوں نے کس کس طرح کی تمہارے بارے میں باتیں بنائیں ۔ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ [ العنکبوت/ 20] اور دیکھو کہ اس نے کس طرح خلقت کو پہلی مر تبہ پیدا کیا ۔ أَوَلَمْ يَرَوْا كَيْفَ يُبْدِئُ اللَّهُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ [ العنکبوت/ 19] کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ خدا کسی طرح خلقت کو پہلی بار پیدا کرتا پھر کس طرح اس کو بار بار پیدا کرتا رہتا ہے ۔ ضَرْبُ المَثلِ هو من ضَرْبِ الدّراهمِ ، وهو ذکر شيء أثره يظهر في غيره . قال تعالی: ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] ، وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] ، ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] ، وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] ، ضرب اللبن الدراھم سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں کسی بات کو اس طرح بیان کرنے کہ اس سے دوسری بات کی وضاحت ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا [ الزمر/ 29] خدا ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا[ الكهف/ 32] اور ان سے قصہ بیان کرو ۔ ضَرَبَ لَكُمْ مَثَلًا مِنْ أَنْفُسِكُمْ [ الروم/ 28] وہ تمہارے لئے تمہارے ہی حال کی ایک مثال بیان فرماتا ہے ۔ وَلَقَدْ ضَرَبْنا لِلنَّاسِ [ الروم/ 58] اور ہم نے ہر طرح مثال بیان کردی ہے ۔ مثل والمَثَلُ عبارة عن قول في شيء يشبه قولا في شيء آخر بينهما مشابهة، ليبيّن أحدهما الآخر ويصوّره . فقال : وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] ، وفي أخری: وَما يَعْقِلُها إِلَّا الْعالِمُونَ [ العنکبوت/ 43] . ( م ث ل ) مثل ( ک ) المثل کے معنی ہیں ایسی بات کے جو کسی دوسری بات سے ملتی جلتی ہو ۔ اور ان میں سے کسی ایک کے ذریعہ دوسری کا مطلب واضح ہوجاتا ہو ۔ اور معاملہ کی شکل سامنے آجاتی ہو ۔ مثلا عین ضرورت پر کسی چیز کو کھودینے کے لئے الصیف ضیعت اللبن کا محاورہ وہ ضرب المثل ہے ۔ چناچہ قرآن میں امثال بیان کرنے کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَتِلْكَ الْأَمْثالُ نَضْرِبُها لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ [ الحشر/ 21] اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں تاکہ وہ فکر نہ کریں ۔ ضل الضَّلَالُ : العدولُ عن الطّريق المستقیم، ويضادّه الهداية، قال تعالی: فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] ( ض ل ل ) الضلال ۔ کے معنی سیدھی راہ سے ہٹ جانا کے ہیں ۔ اور یہ ہدایۃ کے بالمقابل استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَإِنَّما يَضِلُّ عَلَيْها[ الإسراء/ 15] جو شخص ہدایت اختیار کرتا ہے تو اپنے سے اختیار کرتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے تو گمراہی کا ضرر بھی اسی کو ہوگا ۔ الاستطاعۃ . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] ( ط و ع ) الطوع الاستطاعۃ ( استفعال ) یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٩) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ دیکھیے تو کہ یہ لوگ آپ کے لیے کیسی عجیب عجیب باتیں بیان کررہے ہیں اور ساحر و کاہن جھوٹا شاعر اور مجنون کیا کیا یہ آپ کے نام رکھ رہے ہیں، باقی یہ لوگ خود گمراہ ہوگئے ہیں اور تمام ان کے مکر و فریب خاک میں مل گئے ہیں اور پھر یہ اپنی باتوں سے چھٹکارا نہیں پاسکتے اور نہ ان کے پاس اس بکواس کی کوئی دلیل ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٩ (اُنْظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوْا لَکَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ سَبِیْلًا ) ” یہ لوگ ایک ضد پر اڑ گئے ہیں ‘ لہٰذا اب ان کے راہ راست پر آنے کا کوئی امکان نہیں۔ ان الفاظ کو پڑھتے ہوئے یہ بھی معلوم رہنا چاہیے کہ یہ سورت مکی دور کے درمیانی چار سالوں میں نازل ہونے والی سورتوں میں سے ہے۔ مکی سورتوں کی ترتیب نزولی اور ترتیب مصحف کے بارے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ مکی دور کے ابتدائی چار سال کے دوران میں نازل ہونے والی سورتیں مصحف کی ترتیب میں ساتویں یعنی آخری منزل میں شامل کی گئی ہیں۔ (آخری منزل میں کچھ مدنی سورتیں بھی شامل ہیں اور اس اعتبار سے اس منزل کی مکی مدنی سورتوں کو دو گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ ) آخری چارسال میں نازل شدہ سورتوں کو مصحف کے پہلے حصے میں رکھا گیا ہے۔ ان میں سورة الانعام ‘ سورة الاعراف ‘ اور سورة یونس سے لے کر سورة المؤمنون تک کل سولہ سورتیں شامل ہیں۔ البتہ زیرمطالعہ سورت یعنی سورة الفرقان سے شروع ہونے والے گروپ اور اس کے بعد والے گروپ کی سورتیں مکی دور کے درمیانی چار سالوں میں نازل ہوئی ہیں اور مصحف کے اندر بھی انہیں درمیان میں رکھا گیا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18 As these objections were frivolous and meaningless like others, the Qur'an has ignored them, saying, "Your objections are irrelevant, unreasonable and void of sense. You bring no sound argument to prove your doctrine of shirk, ur to refute the Doctrine of Tauhid put forward by him, whereas the Messenger gives such proofs of the Doctrine of Tauhid that you cannot refute them except by saying, 'He is bewitched'. The same is true of the doctrine of the life-after-death and of the moral system of the Qur'an, which has produced men of high character. You cannot deny these things; you reject them, saying, "He is a human being like us, etc. etc."

سورة الْفُرْقَان حاشیہ نمبر :18 یہ اعتراضات بھی جواب دینے کے لیے نہیں بلکہ یہ بتانے کے لیے نقل کیے جا رہے ہیں کہ معترضین کس قدر عناد اور تعصب میں اندھے ہو چکے ہیں ۔ ان کی جو باتیں اوپر نقل کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی اس لائق نہیں ہے کہ اس پر سنجیدگی کے ساتھ بحث کی جائے ۔ ان کا بس ذکر کر دینا ہی یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ مخالفین کا دامن معقول دلائل سے کس قدر خالی ہے اور وہ کیسی لچر اور پوچ باتوں سے ایک مدلل اصولی دعوت کا مقابلہ کر رہے ہیں ۔ ایک شخص کہتا ہے لوگو ، یہ شرک جس پر تمہارے مذہب و تمدن کی بنیاد قائم ہے ، ایک غلط عقیدہ ہے اور اس کے غلط ہونے کے یہ اور یہ دلائل ہیں ۔ جواب میں شرک کے بر حق ہونے پر کوئی دلیل قائم نہیں کی جاتی ، بس آوازہ کس دیا جاتا ہے کہ یہ جادو کا مارا ہوا آدمی ہے ۔ وہ کہتا ہے کائنات کا سارا نظام توحید پر چل رہا ہے اور یہ یہ حقائق ہیں جو اس کی شہادت دیتے ہیں ۔ جواب میں شور بلند ہوتا ہے جادوگر ہے ۔ وہ کہتا ہے تم دنیا میں شتر بے مہار بنا کر نہیں چھوڑ دیے گئے ہو ، تمہیں اپنے رب کے پاس پلٹ کر جانا ہے ، دوسری زندگی میں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ، اور اس حقیقت پر یہ اخلاقی اور یہ تاریخی اور یہ علمی و عقلی امور دلالت کر رہے ہیں ۔ جواب میں کہا جاتا ہے شاعر ہے ۔ وہ کہتا ہے میں خدا کی طرف سے تمہارے لیے تعلیم حق لے کر آیا ہوں اور یہ ہے وہ تعلیم ۔ جواب میں اس تعلیم پر کوئی بحث و تنقید نہیں ہوتی ، بس بلا ثبوت ایک الزام چسپاں کر دیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ کہیں سے نقل کر لیا گیا ہے ۔ وہ اپنی رسالت کے ثبوت میں خدا کے معجزانہ کلام کو پیش کرتا ہے ، خود اپنی زندگی اور اپنی سیرت و کردار کو پیش کرتا ہے ، اور اس اخلاقی انقلاب کو پیش کرتا ہے جو اس کے اثر سے اس کے پیروؤں کی زندگی میں ہو رہا تھا ۔ مگر مخالفت کرنے والے ان میں سے کسی چیز کو بھی نہیں دیکھتے ۔ پوچھتے ہیں تو یہ پوچھتے ہیں کہ تم کھاتے کیوں ہو ؟ بازاروں میں کیوں چلتے پھرتے ہو؟ تمہاری اردل میں کوئی فرشتہ کیوں نہیں ہے ؟ تمہارے پاس کوئی خزانہ یا باغ کیوں نہیں ہے؟ یہ باتیں خود ہی بتا رہی تھیں کہ فریقین میں سے حق پر کون ہے اور کون اس کے مقابلے میں عاجز ہو کر بے تکی ہانک رہا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(15:9) ضربوا لک الامثال۔ تمہارے لئے طرح طرح کی مثالیں بیان کرتے ہیں۔ فضلوا۔ ف تفسیریہ ہے۔ لا یستطیعون مضارع نفی جمع مذکر غائب وہ استطاعت نہیں رکھتے وہ طاقت یا قدرت نہیں رکھتے ۔ سبیلا۔ ای طریقا الی الحق والصواب پس وہ راہ ہدایت وحق نہ پاسکے۔ خیرا من ذلک۔ اس سے بہتر ۔ خیر کے معنی نیکی و بھلائی۔ نیک کام ہیں۔ لیکن یہاں بمعنی افعل ہے بہتر۔ جنت۔ خیرا کا بدل ہے۔ یجعل مضارع مجزوم ۔ واحد مذکر غائب۔ وہ بنادے۔ وہ دے دے۔ اس کا عطف جعل پر ہے۔ اور جواب شرط میں ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے۔ قصورا قصر کی جمع۔ محل۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

8 ۔ صرف اس لئے کہ کسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جھوٹا ثابت کرسکیں۔ 9 ۔ کیونکہ راہ پر وہ آتا ہے جس کے دل میں اخلاص ہو اور وہ محض غلط فہمی کا شکار ہوگیا ہو۔ ان کے دلوں میں تو اخلاص کی بجائے ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

انظر کیف ضربوا لک الامثال (٢٥ : ٩) ” دیکھو ‘ یہ تمہارے بارے میں کیا حجتیں کرتے ہیں “۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سحرزدہ لوگوں کے ساتھ مشابہ قرار دیتے ہیں ‘ کبھی کہتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طرف سے باتیں بناتے ہیں ‘ کبھی کہتے ہیں کہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں جو آپ لکھواتے ہیں۔ یہ سب گمراہی کی باتیں ہیں۔ اور سچائی سے دور کی باتیں ہیں۔ یہ سچائی کے تمام راستوں سے بےراہ ہوگئے ہیں۔ اور اب ان کے اندر ہدایت کی راہ پانے کی استطاعت ہی نہیں رہی۔ فلایستطیعون سبیلا (٢٥ : ٩) اب یہ بحث یوں ختم کی جاتی ہے کہ یہ لوگ جو تجاویز دیتے ہیں وہ احمقانہ ہیں۔ ان کے تصورات دنیا پرستی کے محدود دائرے میں محدود ہیں۔ یہ کنوئیں کے مینڈک کی طرح اپنی دنیا ہی میں مگن ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ رسالت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقابلے میں چند ٹکٹوں کی قیمت زیادہ ہے لہٰذا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ٹکے ہونے چاہیں۔ اس پر ہدایت الہٰی کے بجائے خزانہ عامرہ نازل ہونا چاہیے تھا ‘ یا اس کے مقابلے میں ایک باغ اس کے پاس ہونا چاہیے تھا جس میں وہ صبح و شام کھاتا ۔ یہ تھی ان کی سوچ ‘ لیکن اگر اللہ چاہتا اور اس کی اسکیم یہ ہوتی تو وہ اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے بھی زیادہ دیتا جس کا یہ کہتے ہیں۔ (تبرک الذی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قصورا (٢٥ : ١) ” بڑا بابرکت ہے وہ جو اگر چاہے تو ان کی تجویز کردہ چیزوں سے بھی زیادہ بڑھ چڑھ کر تم کو دے سکتا ہے۔ بہت سے باغ جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں اور بڑے بڑے محل “۔ لیکن اللہ کی مشیت یہ تھی کہ آپ کو ایسے باغات و محلات سے بھی زیادہ قیمتی دولت دے۔ یعنی باغات اور محلات دینے والے کے ساتھ تعلق اور دوستی۔ یہ شعور کہ محمد اس کی نگرانی میں ہیں۔ اس کے قبضے میں ہیں اس کی ہدایت اور توفیق کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مٹھاس کو ہر وقت چکھتے رہتے ہیں۔ یہ روحانی غذا آپ کو ہر وقت دی جاتی ہے اور اس کے مقابلے میں جسمانی غذا کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ دنیا کا ما ومنال خواہ کم ہو یا زیادہ ‘ اس کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ اے کاش کہ وہ اس فرق کو سمجھتے کہ آپ کو جو دولت دی گئی ہے وہ کس قدر قیمتی ہے۔ اور اس کے مقابلے میں دنیا کے باغ دراغ کچھ بھی نہیں۔ یہاں تک تو قرآن نے خدا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ان کے اعتراضات کو نقل فرمایا ‘ اب بات ان کے فکر و نظر کے فساد کے ایک دوسرے میدان میں داخل ہوتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ یہ لوگ ضلال بعید میں مبتلا ہیں اور یہ تو قیام قیامت کے منکر ہیں۔ یہ چونکہ قیامت کی جوابدہی کے منکر ہیں اس لیے یہ اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ باتیں کرتے ہیں۔ ظلم کرتے ہیں افتراء باندھتے ہیں کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق انکو قیامت کی جوابدہی کا کوئی ڈر نہیں ہے۔ اگر ان کے دل میں اللہ کے سامنے حاضر ہونے اور حساب دینے کا ڈر ہوتا تو وہ یہ افتراء پر دازیاں ہر گز نہ کرتے۔ یہاں اب قیامت کے مناظر میں سے ایک ایسا منظر لایا جاتا ہے جو سخت سے سخت دل کو بھی ریزہ ریز کردیتا ہے۔ جسک و دیکھ کر پوری طرح بجھے ہوئے دلوں میں بھی آگ لگ جاتی ہے۔ اور وہ بھی اس دن کی ہولناکی سے کانپ اٹھتے ہیں۔ ان کافروں کے لیے یہ ہولناکی اور اہل ایمان کے لیے یہ حسن انجام۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اللہ جل شانہٗ نے ارشاد فرمایا (انظُرْ کَیْفَ ضَرَبُوْا لَکَ الْاَمْثَالَ فَضَلُّوْا فَلاَ یَسْتَطِیعُوْنَ سَبِیْلًا) آپ دیکھ لیجیے کہ یہ لوگ آپ کے لیے کیسی کیسی باتیں بیان کر رہے ہیں سو وہ گمراہ ہوگئے پھر وہ راہ نہیں پاسکیں گے (اگر غور کرتے اور عقل سے کام لیتے تو یہی قرآن اور یہی رسول جن پر اعتراض کر رہے ہیں ان کی ہدایت کا سبب بن جاتے اب تو وہ اعتراض کر کے دور جا پڑے اب وہ راہ حق پر نہ آئیں گے) ۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(9) اے پیغمبر ذرا دیکھئے تو یہ لوگ آپ کی نسبت کیسی کیسی عجیب باتیں بیان کر رہے ہیں سو یہ لوگ گمراہ ہوگئے اور اب یہ کوئی راہ نہیں پاسکتے یعنی طرح طرح کی باتیں چھانٹتے ہیں جس کا مال بجز بےدینی اور گستاخی کے اور کچھ نہیں پس یہ انتہائی گمراہی کی باتیں ہیں اور اب یہ راہ حق نہیں پاسکتے سیدھی راہ دیکھنے سے ان کی آنکھیں اندھی ہوچکی ہیں۔