Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 15

سورة الشعراء

قَالَ کَلَّا ۚ فَاذۡہَبَا بِاٰیٰتِنَاۤ اِنَّا مَعَکُمۡ مُّسۡتَمِعُوۡنَ ﴿۱۵﴾

[ Allah ] said, "No. Go both of you with Our signs; indeed, We are with you, listening.

جناب باری تعالٰی نے فرمایا! ہرگز ایسا نہ ہوگا ، تم دونوں ہماری نشانیاں لے کر جاؤ ہم خود سننے والے تمہارے ساتھ ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ كَلَّ ... (Allah) said: "Nay!..." Allah told him: do not be afraid of anything like that. This is like the Ayah, سَنَشُدُّ عَضُدَكَ بِأَخِيكَ وَنَجْعَلُ لَكُمَا سُلْطَـناً ... Allah said: "We will strengthen your arm through your brother, and give you both power, (meaning, proof); ... فَلَ يَصِلُونَ إِلَيْكُمَا بِـْايَـتِنَأ أَنتُمَا وَمَنِ اتَّبَعَكُمَا الْغَـلِبُونَ ... so they shall not be able to harm you, with Our signs, you two as well as those who follow you will be the victors. (28:35) ... فَاذْهَبَا بِأيَاتِنَا إِنَّا مَعَكُم مُّسْتَمِعُونَ Go you both with Our signs. Verily, We shall be with you, listening. This is like the Ayah, إِنَّنِى مَعَكُمَأ أَسْمَعُ وَأَرَى I am with you both, hearing and seeing. (20:46) Meaning, `I will be with you by My protection, care, support and help.' فَأْتِيَا فِرْعَوْنَ فَقُولاَأ إِنَّا رَسُولُ رَبِّ الْعَالَمِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

151اللہ تعالیٰ نے تسلی دی کہ تم دونوں جاؤ، میرا پیغام ان کو پہنچاؤ، تمہیں جو اندیشے لاحق ہیں ان سے ہم تمہاری حفاظت کریں گے۔ آیات سے مراد وہ دلائل ہیں جن سے ہر پیغمبر کو آگاہ کیا جاتا ہے یا وہ معجزات ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیئے گئے تھے، جیسے ید بیضا اور عصا۔ 152یعنی تم جو کچھ کہو گے اور اس کے جواب میں وہ جو کچھ کہے گا، ہم سن رہے ہونگے اس لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم تمہیں فریضہ رسالت سونپ کر تمہاری حفاظت سے بےپرواہ نہیں ہوجائیں گے بلکہ نصرت ومعاونت ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١] موسیٰ (علیہ السلام) کی اس التجا اور ان خطرات کے جواب میں فرمایا : کہ (1) تمہاری التجا منظور ہے، میں ہارون کو نبوت عطا کردیتا ہوں اور وہ تمہارے ساتھ رہے گا اور اس کام میں تمہارا مددگار ہوگا، (2) تمہیں جو اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ مجھے مار ہی نہ دالیں۔ تو اس بات کو دل سے نکال دو ۔ وہ لوگ تمہارا بال بھی بیکا نہ کرسکیں گے۔ اور اس کی دو وجہ ہیں۔ ایک یہ کہ تمہیں دو ایسے معجزات دے کر بھیجا رہا ہوں جو اس بات کا یقینی ثبوت پیش کرتے ہیں کہ تم فی الواقعہ اللہ کے رسول ہو اور دوسری وجہ یہ ہے کہ تم دونوں کے سات تیسرا میں بھی ہوں۔ میں تمہاری سب باتیں سنتا ہوں اور تمہاری پوری پوری نگہداشت بھی کروں گا۔ اس آیت اور اس جیسی بعض دوسری آیات سے جہمیہ نے استدلال کیا کہ اللہ کی ذات ہر جگہ موجود ہے اور جن آیات میں اللہ کے مستوی علی العرش ہونے کا ذکر تھا ان آیات کی تاویل کر ڈالی۔ حالانکہ جن آیات میں اللہ کی معیت یا اس کے قریب ہونے کا ذکر ہے تو ایسی معیت یا قربت ذات کے لحاظ سے نہیں بلکہ صفات کے لحاظ سے ہے۔ اس کی ایک معمولی سی مثالی یوں سمجھئے کہ سورج اور چاند اللہ کی بےجان اور ادنیٰ سے مخلوق ہے۔ جو مسافر کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ چلنے والا جہاں تک چلے پہلے وہ ساتھ ساتھ ہی رہتے ہیں۔ حالانکہ وہ آسمان پر ہیں اور انسان لاکھوں اور کروڑوں میل دور ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ مستوی علی العرش ہونے کے باوجود اپنے علم، اپنی قدرت اور مدد کے لحاظ سے ہر انسان سے بالکل نزدیک ہے اور اس کی صحیح کیفیت تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ كَلَّا۔۔ : فرمایا، ہرگز ایسا نہیں ہوگا، نہ وہ تمہیں قتل کرسکیں گے، نہ کوئی ایذا پہنچا سکیں گے۔ تمہاری ہارون کو معاون نبی بنانے کی درخواست بھی قبول ہے، اس لیے تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ۔ فَاذْهَبَا بِاٰيٰتِنَآ اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ : ہمت بندھانے کے لیے دو چیزیں عطا فرمائیں، پہلی عصا اور ید بیضا کے معجزے، دوسری اپنی معیت کا وعدہ۔ عام معیت تو کائنات کی ہر چیز کو حاصل ہے، یہاں معیت سے مراد معیت خاصہ ہے، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعون اور اس کی فوج کے آ پہنچنے پر فرمایا تھا : (اِنَّ مَعِيَ رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ ) [ الشعراء : ٦٢ ] ” ہرگز نہیں ! بیشک میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ مجھے ضرور راستہ بتائے گا۔ “ اور جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ساتھی کے لیے کہا تھا : ( لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ) [ التوبۃ : ٤٠ ] ” غم نہ کر، بیشک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ “ ” سَمِعَ “ ” اس نے سنا “ اور ” اِسْتَمَعَ “ اس نے کان لگا کر سنا۔ “ ” لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا “ میں ضمیر ” کُمْ “ تثنیہ کے لیے استعمال ہوئی ہے، کیونکہ دوسری جگہ فرمایا : (لَا تَخَافَآ اِنَّنِيْ مَعَكُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰى) [ طٰہٰ : ٤٦ ] ” ڈرو نہیں، بیشک میں تم دونوں کے ساتھ ہوں، میں سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ كَلَّا۝ ٠ ۚ فَاذْہَبَا بِاٰيٰتِنَآ اِنَّا مَعَكُمْ مُّسْتَمِعُوْنَ۝ ١٥ ذهب الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ويستعمل ذلک في الأعيان والمعاني، قال اللہ تعالی: وَقالَ إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] ، ( ذ ھ ب ) الذھب ذھب ( ف) بالشیء واذھبتہ لے جانا ۔ یہ اعیان ومعانی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنِّي ذاهِبٌ إِلى رَبِّي[ الصافات/ 99] کہ میں اپنے پروردگار کی طرف جانے والا ہوں ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔ اسْتِمَاعُ : الإصغاء نحو : نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء/ 47] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد/ 16] ، وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس/ 42] ، وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق/ 41] ، وقوله : أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] ، أي : من الموجد لِأَسْمَاعِهِمْ ، وأبصارهم، والمتولّي لحفظها ؟ والْمِسْمَعُ والْمَسْمَعُ : خرق الأذن، وبه شبّه حلقة مسمع الغرب «1» . استماع اس کے معنی غور سے سننے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ نَحْنُ أَعْلَمُ بِما يَسْتَمِعُونَ بِهِ ، إِذْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [ الإسراء/ 47] ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ جب تمہاری طرف کان لگاتے ہیں تو جس سے یہ سنتے ہیں ۔ ہم اسے خوب جانتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ [ محمد/ 16] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری ( باتوں کی) طرف کان رکھتے ہیں ۔ وَمِنْهُمْ مَنْ يَسْتَمِعُونَ إِلَيْكَ [يونس/ 42] اور ان میں سے بعض ایسے ہیں جو تمہاری طرف کان لگاتے ہیں ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ [ ق/ 41] اور سنو ( ن پکارنے والا پکارے گا ۔ اور آیت : ۔ أَمَّنْ يَمْلِكُ السَّمْعَ وَالْأَبْصارَ [يونس/ 31] یا ( تماہرے ) کانوں اور آنکھوں کا مالک کون ہے ۔ یعنی ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی حفاظت کا متولی کون ہے ۔ اور مسمع یا مسمع کے معنی کان کے سوراخ کے ہیں اور اسی کے ساتھ تشبیہ دے کر ڈول کے دستہ کو جس میں رسی باندھی جاتی ہے مسمع الغرب کہا جاتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٥) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا اے موسیٰ (علیہ السلام) میں ہرگز ان لوگوں کو تم پر تسلط کا موقع نہیں دوں گا، سو تم دونوں ہماری نو نشانیاں یعنی یدبیضاء، عصا، طوفان، قمل، جراد، ضفادع، دم، پھلوں کی کمی، قحط سالی لے کر جاؤ میں تمہارا مددگار ہوں اور جو کچھ وہ تم دونوں کو جواب دے گا میں اس کو سنتا ہوں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

12 . Here by "Signs" are meant the miracles of the staff and the shining hand, which were liven to Moses. For details see Al-A`raf: 106-117, Ta Ha: .1723, An-Naml: 7-14, and Al-Qasas: 31-32).

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :12 نشانیوں سے مراد عصا اور ید بیضاء کے معجزے ہیں جن کے عطا کیے جانے کی تفصیل سورہ الاعراف رکوع 13 ۔ 14 ، طٰہٰ رکوع 1 ، سورہ نمل رکوع 1 ، اور سورہ قصص رکوع 4 میں بیان ہوئی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:15) قال کلا کہا (اللہ تعالیٰ نے ایسا) ہرگز نہیں (ہوگا) ۔ مستمعون۔ اسم فاعل۔ جمع مذکر مستمع واحد استماع (افتعال) مصدر سننے والے۔ اسی مضمون میں دوسری جگہ فرمایا لا تخافا اننی معکما اسمع واری (20:46) ڈرو نہیں میں۔ یقینا تمہارے ساتھ ہوں (ہر بات) سن رہا ہوں اور ہر چیز) دیکھ رہا ہوں، استمع باب افتعال خوب دھیان سے سننا۔ کان لگا کر سننا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ یعنی یہ خیال کہ وہ آپ کو قتل کردیں گے اپنے دل سے نکال دیجئے۔ (دیکھئے قصص :35) 5 ۔ یعنی عصاویدبیضا کے معجزے جیسا کہ سورة طٰہٰ رکوع 4 اور قصص رکوع 4 میں بیان ہوا ہے کہ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو ہارون ( علیہ السلام) کو یہ دو معجزے دے کر فرعون کی طرف بھیجا۔ 6 ۔ لہٰذا تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہم ہرحال میں تمہارے نگہبان و محافظ رہیں گے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : موسیٰ (علیہ السلام) کو ہر قسم کی تسلّی دینے کے بعد فرعون کی طرف جانے کا حکم ہوا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی حضرت ہارون (علیہ السلام) فرعون کے پاس پہنچے اور اسے یہ کہہ کر اپنی رسالت اور اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دی کہ ہم رب العالمین کے بھیجے ہوئے رسول ہیں۔ فرعون اپنے آپ کو ” رَبُّکُمُ الْأَعْلٰی “ کہتا تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسے توحید کا یہ پہلو پیش فرمایا کہ رب العالمین ایک ہے اس کے سوا کوئی اور رب نہیں۔ اس کے ساتھ ہی اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ کیونکہ آزاد قوم ہی اپنے نفع و نقصان کا ٹھیک طور پر فیصلہ کرسکتی ہے۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت اور مطالبہ پر بات کرنے کی بجائے کم ظرفی اور عیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان پر دو اعتراضات کیے تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو خوفزدہ کیا جاسکے۔ فرعون نے بڑے طمطراق سے کہا ” کیا ہم نے بچپن میں تجھے نہیں پالا اور تو ہمارے پاس کئی سال تک نہیں ٹھہرا رہا ؟ پھر تو نے وہ کام کیا جو تو جانتا ہے۔ اے موسیٰ تو ناشکرا اور ناقدر شناس انسان ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کسی قسم کی تاویل کرنے کی بجائے پیغمبرانہ انداز کے ساتھ کھلے الفاظ میں اعتراف کیا کہ واقعی ہی مجھ سے وہ کام ہوا جس کی طرف تو اشارہ کر رہا ہے۔ لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ شخص معمولی مکہ سے مرجائے گا، اس کے مرنے کے سبب اور تمہارے خوف کی وجہ سے میں یہاں سے بھاگ نکلا اس دوران اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا اور نبوت سے سرفراز فرمایا۔ اس وضاحت کے ساتھ ہی انھوں نے فرعون کے سامنے یہ سوال رکھا۔ کیا مجھ پر احسان کرنے کا یہ بدلہ ہونا چاہیے کہ میری پوری قوم کو غلام بناکررکھا جائے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو اب کی صورت میں ایسا سوال اٹھایا جس کا فرعون کوئی جواب نہ دے سکا۔ یہاں تک کہ اس نے موسیٰ (علیہ السلام) سے سرزد ہونے والے قتل کا معاملہ اٹھانے کی بھی جرأت نہ کی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) سے وعدہ کیا تھا کہ آپ کے خلاف فرعون کوئی کارروائی نہیں کرسکے گا۔ جہاں تک موسیٰ (علیہ السلام) کا اپنے بارے میں ” ضَالٌّ“ کا لفظ استعمال کرنے کا تعلق ہے۔” ضآلین “ کا واحد ” ضَالٌّ“ ہے جس کے کئی معانی ہیں اِ ن معنوں میں ایک یہ معنٰی ہے ” کسی معاملے میں بےعلم اور بیخبر ہونا۔ “ جس بنیاد پر موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ وضاحت فرمائی کہ بیشک وہ آدمی میرے ہاتھ سے مرا ہے لیکن میرا اسے قتل کرنے کا ارادہ نہ تھا۔ یہ جو کچھ ہوا ہے غیر ارادی طور پر ہوا تھا۔ (عَنْ أَبِیْ ذَرٍّ عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ ثَلَاثَۃٌ لَا یُکَلِّمُھُمُ اللّٰہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ وَلَا یَنْظُرُ إلَیْھِمْ وَلَا یُزَکِّیْھِمْ وَلَھُمْ عَذَابٌ أَلِیْمٌ قَالَ فَقَرَأَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثَلَاثَ مِرَارٍ قَالَ أَبُوْ ذَرٍّ خَابُوْا وَخَسِرُوْامَنْ ھُمْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ الْمُسْبِلُ وَالْمَنَّانُ وَالْمُنْفِقُ سِلْعَتَہٗ بالْحَلْفِ الْکَاذِبِ ) [ رواہ مسلم : کتاب الإیمان، باب بیان غلظ تحریم إسبال الإزار والمن بالعطیۃ ] ” حضرت ابوذر (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا قیامت کے دن تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ نہ کلام کرے گا نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھے گا اور نہ ہی ان کو گناہوں سے پاک کرے گا۔ ان کے لیے درد ناک عذاب ہوگا۔ ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ ابوذر (رض) نے عرض کی یارسول اللہ ! وہ کون لوگ ہیں ؟ وہ تو ناکام ونامراد ہوگئے۔ آپ نے فرمایا : 1 اپنا ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا 2 احسان جتلانے والا 3 جھوٹی قسمیں اٹھا کر اپنا مال فروخت کرنے والا۔ “ مسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) نے فرعون کے سامنے توحید کی دعوت دی اور اپنی قوم کی آزادی کا مطالبہ کیا۔ ٢۔ فرعون نے کمینگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے موسیٰ (علیہ السلام) کی ذات پر اعتراضات اٹھائے۔ ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کھلے الفاظ میں اپنے ہاتھوں ہونے والے قتل کا اقرار کیا۔ ٤۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی ذات پر احسان کا جواب دیتے ہوئے ایسا سوال کیا کہ جس سے فرعون لاجواب ہوگیا۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت کے سرفراز فرمایا۔ ٦۔ احسان کر کے احسان جتلانا نہیں چاہیے۔ تفسیر بالقرآن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے نبوت اور معجزات عطا فرمائے : ١۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی درخواست پر ان کے بھائی ہارون کو نبی بنایا۔ ( طٰہٰ : ٢٩۔ ٣٠) ٢۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول کرتے ہوئے ان کی زبان اور سینہ کھول دیا۔ ( طٰہٰ : ٢٥ تا ٢٨) ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، فرعون اور اس کے حواریوں کے پاس معجزات لے کر آئے مگر انہوں نے تکبر کیا۔ (العنکبوت : ٣٩) ٤۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب اور حق و باطل میں فرق کرنے والے معجزے عطا کیے۔ (البقرۃ : ٥٣) ٥۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کو حق و باطل میں فرق کرنے والی کتاب عنایت فرمائی۔ (الانبیاء : ٤٨) ٦۔ اللہ نے موسیٰ اور ہارون کو فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس اپنی نشانیوں کے ساتھ بھیجا مگر انہوں نے تکبر کیا۔ (یونس : ٧٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

10:۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دونوں دعائیں قبول فرما لیں ! تائید کے لیے ہارون علیہ السلالم کو بھی ساتھ کردیا اور فرعون کے شر سے بھی محفوظ رکھنے کا وعدہ فرمادیا۔ ” کلا “ یعنی تم بےفکر رہو وہ ہرگز تمہیں قتل نہیں کرسکیں گے۔ ” فاذھبا “ تم اور ہارون دونوں فرعون کے پاس جاؤ اور اس سے کہہ دو کہ ہم اللہ کے رسول ہیں تم بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ بھیج دو ۔ ” ان ارسل “ میں ان مفسرہ ہے ماقبل کے لیے۔ ان ارسل بمعنی ای ارسل لتضمن الرسول معنی الارسال وفیہ معنی القول (مدارک ج 3 ص 138) ۔ ” انا رسول رب العلمین “ اس میں رسالت کا دعوی اور دعوت توحید مذکور ہے اور ” ارسل معنا بنی اسرائیل “ میں قوم کی آزادی کا مطالبہ ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(15) اللہ تعالیٰ نے ا رشاد فرمایا ایسا ہرگز نہیں ہوگا پس تم دونوں ہماری نشانیاں لیکر جائو کہ ہم تمہارے ساتھ سننے والے موجود ہیں یعنی تمہاری درخواست کے موافق ہارون (علیہ السلام) کو نبی بنادیا گیا ہے لہٰذا تم ہر قسم کے اندیشوں سے بالاتر ہوکر دونوں بھائی اس کے پاس ہماری نشانیاں اور دلائل لیکر جائو ہم ہر قسم کی نصرت ومدد کے لئے تمہارے ساتھ ہیں اور جو باتیں وہ تم سے کرے گا ان کو سننے والے ہیں۔