Surat us Shooaraa
Surah: 26
Verse: 193
سورة الشعراء
نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ ﴿۱۹۳﴾ۙ
The Trustworthy Spirit has brought it down
اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے ۔
نَزَلَ بِہِ الرُّوۡحُ الۡاَمِیۡنُ ﴿۱۹۳﴾ۙ
The Trustworthy Spirit has brought it down
اسے امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے ۔
Which the trustworthy Ruh has brought down. This refers to Jibril, peace be upon him. This was the view of more than one of the Salaf: Ibn Abbas, Muhammad bin Ka`b, Qatadah, Atiyyah Al-`Awfi, As-Suddi, Ad-Dahhak, Az-Zuhri and Ibn Jurayj. This is an issue concerning which there is no dispute. Az-Zuhri said, "This is like the Ayah: قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ Say: "Whoever is an enemy to Jibril -- for indeed he has brought it down to your heart by Allah's permission, confirming what came before it..." (2:97)
19 3 1کفار مکہ نے قرآن کے وحی الٰہی اور منزل من اللہ ہونے کا انکار کیا اور اسی بنا پر رسالت محمدیہ اور دعوت محمدیہ کا انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انبیا (علیہم السلام) کے واقعات بیان کرکے یہ واضح کیا کہ یہ قرآن یقینا وحی الٰہی ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے سچے رسول ہیں۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ پیغمبر جو پڑھ سکتا ہے نہ لکھ سکتا ہے گزشتہ انبیاء اور قوموں کے واقعات کس طرح بیان کرسکتا تھا ؟ اس لئے یہ قرآن یقینا اللہ رب العالمین ہی کی طرف سے نازل کردہ ہے جسے ایک امانت دار فرشتہ جبرائیل (علیہ السلام) لے کر آئے۔
[١١٢] یعنی یہ قرآن اور اس میں بیان کردہ یہ تاریخی واقعات اس اللہ رب العالمین کی طر سے نازل شدہ ہیں جو عام الغیب والشہادۃ ہے۔ پھر ان قرآنی آیات کو لے کر امین روح یعنی جبریل (علیہ السلام) نازل ہوئے۔ جو اپنی طرف سے کچھ کمی بیشی نہیں کرسکتے۔ پھر جب بھیجنے والا غیب اور شہادت کو پوری طرح جانتا ہو اور اس کو لانے والا بھی امین ہو تو ان آیات کے منبی بر حقائق ہونے میں شک کی کوئی گنجائش رہ جاتی ہے۔
نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ : ” الرُّوْحُ “ سے مراد فرشتہ ہے، اسے ” روح “ اس لیے کہا گیا ہے کہ فرشتے عالم اجسام کے بجائے عالم ارواح سے تعلق رکھتے ہیں۔ (ابن عاشور) ” الْاَمِيْنُ “ نہایت امانت دار، اس سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں انبیاء تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے امین قرار دیا ہے۔ ان کی یہ صفت اور دوسری صفات سورة تکویر (١٩ تا ٢١) میں ملاحظہ فرمائیں۔
Commentary Qur’ an is the name of the collection of its words and meanings نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ ﴿١٩٣﴾ عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ الْمُنذِرِينَ ﴿١٩٤﴾ بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ ﴿١٩٥﴾ وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ ﴿١٩٦﴾ It is brought by the Trusted Spirit down [ 193] to your heart, so that you become one of the warners [ 194] in plain Arabic language. [ 195] And of course, it is (mentioned) in the scriptures of the former people. [ 196] The words بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِينٍ (in plain Arabic language - 195) in these verses makes it clear that Qur&an is only that which is in Arabic language. Any translation of a passage or the whole of Qur&an in any language cannot be called Qur&an. But the next sentence وَإِنَّهُ لَفِي زُبُرِ الْأَوَّلِينَ (And of course, it is [ mentioned ] in the scriptures of the former people - 196) does not seem to be in consonance with it, because the pronoun &it& is apparently refers to the Qur&an and means that the Qur&an was also in the earlier scriptures, i.e. in Torah, Injil and Zabur. It is also well known that the earlier books, namely Torah, Injil and Zabur, were not in the Arabic language. Hence the inclusion of the meanings of Qur’ an in them is referred in this verse as ` Qur&an&. Answer to this apparent contradiction is that according to majority of the Ummah, sometimes even the subject matter of the Qur’ an is called Qur&an in a general sense, because the real purpose of a book is the subjects it deals with. The statement that earlier books also contained Qur&an is in this sense only that they included some Qur&anic subjects. This statement is also endorsed by many narrations of hadith. Sayyidna Maquil ibn Yasar (رض) has reported a Hadith in Mustadrak of Hakim that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said that Surah Al-Baqarah was given to him from ` adh-dhikr al-&awwal&, and Surah Taha, Tawasin طوسین all Surahs starting from Tasin) and Hawamim حَوَامیم (all Surahs beginning with Ha) were given from the tablets of Sayyidna Musa (علیہ السلام) ، while Surah Al-Fatihah was given to him from under the Arsh عَرش (the great Throne). Tabarani, Hakim, Baihaqi etc. have reported on the authority of Sayyidna Abdullah ibn Masud (رض) that Surah Al-Mulk is present in Torah as well. (Al-Hadith). The Surah سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى has itself said, إِنَّ هَـٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْأُولَىٰ صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ (87:18, 19) that is these subjects have also appeared in the books of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) and Sayyidna Musa (علیہ السلام) . The gist of all these verses and narrations is that many a subjects of the Qur&an were also covered in the earlier books as well. But it does not jean that those parts of the earlier books in which the Qur&anic subjects were covered are given the name of Qur&an. No one in the Ummah is of the opinion that those parts of the earlier books, be called Qur&an. Instead the majority of Ummah believes that Qur&an is the name not only of its wordings but also of its meanings. If someone picks up some of the Quranic words from different places and put them together to make a passage like الحمد للہ العزیز الرّحیم الَّذی لہ ملک السَّمٰوٰت و ھو رَبّ العٰلمین خالق کُلّ شیٔ وھو الْمُسْتَعَانُ , it will not be called Qur&an, despite the fact that all these words are taken from the Qur&an. Likewise, only the meanings of Qur&an, irrespective of the language they are rendered in, cannot be regarded as Qur&an. Reciting translation of Qur’ an in prayers is not allowed by consensus of Ummah The whole Ummah is unanimous on the rule that reciting the translation of the Qur&an in any other language like Urdu, Persian, English etc. is not sufficient for discharging the obligation of recitation in Sala, except in a case of extreme necessity. The jurists who are reported to have relaxed this rule have, later on, changed their view. Urdu translation of Qur’ an is not allowed to be called Urdu Qur’ an If only the translation of the Qur&an is written in any language without the Arabic text, it cannot be called the Qur&an. Some people call the Urdu translation of the Qur&an as Urdu Qur&an, or the English translation of the Qur&an as English Qur&an. It is not right and amounts to disrespect of the Holy Book. Printing, calling or trading of something in the name of Qur&an, without the Arabic text of the Qur&an, is not permitted. This subject is dealt with in detail in my treatise (تحذیر الاخوان عن تغییر رسم القرآن)
معارف و مسائل نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ ، عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ ، بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ ، وَاِنَّهٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ ۔ قرآن اس کے الفاظ و معانی کے مجموعہ کا نام ہے : آیات مذکورہ میں بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن وہی ہے جو عربی زبان میں ہو، کسی مضمون قرآن کا ترجمہ خواہ کسی زبان میں ہو وہ قرآن نہیں کہلائے گا اور وَاِنَّهٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ کے الفاظ سے بظاہر اس کے خلاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ معانی قرآن جو کسی دوسری زبان میں بھی ہوں وہ بھی قرآن ہیں، کیونکہ انہ کی ضمیر ظاہر یہ ہے کہ قرآن کی طرف راجع ہے اور زبر، زبور کی جمع ہے جس کے معنے ہیں کتاب۔ معنے آیت کے یہ ہوئے کہ قرآن کریم سابقہ کتابوں میں بھی ہے اور یہ ظاہر ہے پچھلی کتابیں تورات انجیل زبور وغیرہ عربی زبان میں نہیں تھیں تو صرف معانی قرآن کے ان میں مذکور ہونے کو اس آیت میں کہا گیا ہے کہ قرآن پچھلی کتابوں میں بھی ہے اور حقیقت جس پر جمہور امت کا عقیدہ ہے وہ یہ ہے کہ صرف مضامین قرآن کو بھی بعض اوقات تو سعاً قرآن کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ اصل مقصود کسی کتاب کا اس کے مضامین ہی ہوتے ہیں۔ کتب اولین میں قرآن کا مذکور ہونا بھی اسی حیثیت سے ہے کہ بعض مضامین قرآنیہ ان میں بھی مذکور ہیں اس کی تائید بہت سی روایات حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ مستدرک حاکم میں حضرت معقل بن یسار کی حدیث ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ مجھے سورة بقرہ ذکر اول سے دی گئی ہے اور سورة طہ اور طواسین یعنی جتنی سورتیں طس سے شروع ہوتی ہیں اور حوامیم یعنی جو سورتیں حم سے شروع ہیں یہ سب سورتیں الواح موسیٰ میں سے دی گئی ہیں اور سورة فاتحہ مجھے تحت عرش سے دی گئی ہے۔ اور طبرانی، حاکم، بیہقی وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے کہ سورة ملک تورات میں موجود ہے۔ الحدیث، اور سورة سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى میں تو خود قرآن کی تصریح یہ ہے اِنَّ هٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى، صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى یعنی یہ مضامین سورت حضرت ابراہیم اور موسیٰ (علیہما السلام) کے صحیفوں میں بھی ہیں لیکن تمام آیات و روایات کا حاصل یہی ہے کہ بہت سے مضامین قرآن کتب سابقہ میں بھی موجود تھے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان مضامین کی وجہ سے کتب سابقہ کے حصوں کو جن میں یہ مضامین قرآن آئے ہیں قرآن کا نام دے دیا جائے۔ نہ امت میں کوئی اس کا قائل ہے کہ ان صحیفوں اور کتابوں کو جن میں مضامین قرآن مذکور ہیں قرآن کہا جائے۔ بلکہ عقیدہ جمہور امت کا یہی ہے کہ قرآن نہ صرف الفاظ قرآن کا نام ہے نہ صرف معانی قرآن کا۔ اگر کوئی شخص قرآن ہی کے الفاظ مختلف جگہوں سے چن کر ایک عبارت بنا دے مثلاً کوئی یہ عبارت بنالے الحمد للہ العزیز الرحیم۔ الذی لہ ملک السموت و ھو رب العلمین خالق کل شئی وھو المستعان یہ سارے الفاظ قرآن ہی کے ہیں مگر اس عبارت کو کوئی قرآن نہیں کہہ سکتا۔ اسی طرح صرف معانی قرآن جو کسی دوسری زبان میں بیان کئے جائیں وہ بھی قرآن نہیں۔ نماز میں ترجمہ قرآن پڑھنا باجماع امت ناجائز ہے : اسی وجہ سے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ نماز میں فرض تلاوت کی جگہ قرآن کے الفاظ کا ترجمہ کسی زبان فارسی، اردو، انگریزی میں پڑھ لینا بدون اضطرار کے کافی نہیں۔ بعض ائمہ سے جو اس میں توسع کا قول منقول ہے ان سے بھی اپنے اس قول سے رجوع ثابت ہے۔ قرآن کے اردو ترجمہ کو اردو قرآن کہنا جائز نہیں : اسی طرح قرآن کا صرف ترجمہ کسی زبان میں بغیر عربی متن کے لکھا جائے تو اس کو اس زبان کا قرآن کہنا جائز نہیں۔ جیسے آج کل بہت سے لوگ صرف اردو ترجمہ قرآن کو اردو کا قرآن اور انگریزی کو انگریزی کا قرآن کہہ دیتے ہیں یہ ناجائز اور بےادبی ہے قرآن کو بغیر متن عربی کے کسی دوسری زبان میں بنام قرآن شائع کرنا اور اس کی خریدو فروخت سب ناجائز ہے اس مسئلہ کی پوری تفصیل احقر کے رسالہ |" تحذیر الاخوان عن تغییر رسم القرآن |" میں مذکور ہے۔
نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ ١٩٣ۙ روح ( فرشته) وسمّي أشراف الملائكة أَرْوَاحاً ، نحو : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ/ 38] ، تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج/ 4] ، نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] ، سمّي به جبریل، وسمّاه بِرُوحِ القدس في قوله : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل/ 102] ، وَأَيَّدْناهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ [ البقرة/ 253] ، وسمّي عيسى عليه السلام روحاً في قوله : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء/ 171] ، وذلک لما کان له من إحياء الأموات، وسمّي القرآن روحاً في قوله : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری/ 52] ، وذلک لکون القرآن سببا للحیاة الأخرويّة الموصوفة في قوله : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، والرَّوْحُ التّنفّس، وقد أَرَاحَ الإنسان إذا تنفّس . وقوله : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة/ 89] روح اور قرآن نے ذو شرف ملائکہ کو بھی ارواح سے موسوم کیا ہے ۔ چناچہ فرمایا : يَوْمَ يَقُومُ الرُّوحُ وَالْمَلائِكَةُ صَفًّا[ النبأ/ 38] جس روز کہ روح فرشتہ اور دیگر ملائکہ صفیں باندھ کھڑے ہوں گے ۔ تَعْرُجُ الْمَلائِكَةُ وَالرُّوحُ [ المعارج/ 4] فرشتے اور جبریل اس کی طرف چڑھتے ہیں ۔ اور اٰت کریمہ : نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ [ الشعراء/ 193] اسے روح امین لے کر اترا ۔ میں روح امین سے مراد جبریل (علیہ السلام) ہیں ۔ اور دوسری آیت میں جبریل (علیہ السلام) کو روح القدس بھی کہا ہے ۔ جیسے فرمایا : قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ [ النحل/ 102] اس قرآن کو روح القدس لے کر آتے ہیں ۔ قرآن نے حضرت عیٰسی (علیہ السلام) کو روح کہہ کر پکارا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَرُوحٌ مِنْهُ [ النساء/ 171] اور وہ ایک روح تھی جو خدا کی طرف سے آئی اور عیٰسی کو روح اس لئے کہا ہے کہ وہ دو مردوں کو زندہ کرتے تھے ۔ اور قرآن کو بھی روح کہا گیا ہے ۔ جیسے فرمایا : وَكَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا [ الشوری/ 52] اس طرح ہم نے اپنے حکم سے ( دین کی ) جان ( یعنی یہ کتاب) تمہاری طرف وحی کے ذریعہ بھیجی ۔ اس لئے قرآن سے حیات اخردی حاصل ہوتی ہے جس کے متعلق فرمایا : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] اور دار آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ۔ اور روح ( بفتح الراء ) کے معنی سانس کے ہیں اور اراح الانسان کے معنی تنفس یعنی سانس لینے کے اور آیت : فَرَوْحٌ وَرَيْحانٌ [ الواقعة/ 89] توراحت اور مذاق ہے ۔ میں ریحان سے خوشبودار چیزیں مراد ہیں اور بعض نے رزق مراد لیا ہے ۔
آیت ١٩٣ (نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ ) ” ” الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ “ (امانت دار روح) سے مراد جبریل امین ( علیہ السلام) ہیں۔
120 That is, Angel Gabriel, as mentioned in Al-Baqarah: 97: "Say to them, `Whoever is the enemy to Gabriel, he should understand that he has, by Allah's Command, revealed to your heart the Qur'an'." Here the object of using the title of "the trustworthy Spirit" for Gabriel implies that the Qur`an is not being sent down by Allah through some material agency, which is subject to change and vacillation; but through a pure Spirit, having no tinge of materialism, and. who is perfectly trustworthy. This Spirit conveys the Messages of Allah precisely in the same form and with the same content as they are entrusted to him: it is not possible for him to tamper with the Messages, or to make his own additions to them in any way.
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :120 مراد ہیں جبریل علیہ السلام ، جیسا کہ دوسری جگہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے : قُلْ مَنْ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِیْلَ فَاِنَّہ نَزَّلَہ عَلیٰ قَلْبِکَ بِاِذْنِ اللہِ ۔ ( البقرہ ۔ آیت 97 ) ۔ کہہ دے کہ جو کوئی دشمن ہے جبریل علیہ السلام کا تو اسے معلوم ہو کہ اسی نے یہ قرآن اللہ کے حکم سے تیرے دل پر نازل کیا ہے ۔ یہاں ان کا نام لینے کے بجائے ان کے لیے روح امین ( امانت دار روح ) کا لقب استعمال کرنے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ رب العالمین کی طرف سے اس تنزیل کو لے کر کوئی مادی طاقت نہیں آئی ہے جس کے اندر تغیر و تبدل کا امکان ہو ، بلکہ وہ ایک خالص روح ہے بلا شائبہ مادیت ، اور وہ پوری طرح امین ہے ، خدا کا پیغام جیسا اس کے سپرد کیا جاتا ہے ویسا ہی بلا کم و کاست پہنچا دیتی ہے ، اپنی طرف سے کچھ بڑھانا یا گھٹا دینا بطور خود کچھ تصنیف کر لینا اس کے لیے ممکن نہیں ہے ۔
(26:193) نزل بہ علی قلبک۔ اس نے اس کو تیرے دل پر اتارا۔ ضمیر فاعل نزل ب الروح الامین کے لئے ہے اور ہ ضمیر واحد مذکر غائب القرآن (تنزیل) کے لئے۔ یعنی روح الامین نے قرآن کو تیرے دل پر نازل کیا۔ یا روح الامین اس کے لے کر تیرے دل پر اترا ۔ یعنی ہم نے اس قرآن کو روح الامین (حضرت جبرائیل علیہ السلام) کے ذریعے تجھ پر اتارا۔
قرآن عربی زبان میں ہے اسے روح امین لے کر نازل ہوئے ان آیات میں نزول قرآن مجید کا تذکرہ فرمایا، منکرین کی تکذیب اور عناد کو بیان فرمایا اور یہ بتایا کہ وہ لوگ عذاب آنے کے لیے جلدی مچاتے ہیں۔ اول تو یہ فرمایا کہ قرآن مجید رب العالمین جل مجدہ کا اتارا ہوا ہے جسے امانت دار فرشتہ لے کر نازل ہوا ہے یعنی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ، اس فرشتہ نے امانتداری کے طور پر پورا پورا اسی طرح آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچایا ہے جس طرح ان کے سپرد کیا گیا تھا الروح الامین یعنی جبرئیل نے اس قرآن کو آپ کے قلب پر اتارا تاکہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہوجائیں یعنی اس قرآن کے ذریعہ اولین مخاطبین کو اور ان کے آس پاس کے لوگوں کو اور بعد میں آنے والے لوگوں کو ڈرائیں یعنی اللہ کی توحید اور اس کی عبادت کی دعوت دیں جو نہ مانے اسے بتائیں کہ انکار کی وجہ سے عذاب میں مبتلا ہوگا کما فی سورة الانعام (وَ اُوْحِیَ اِلَیَّ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَکُمْ بِہٖ وَ مَنْ بَلَغَ وقال تعالیٰ فی سورة الشوری وَکَذٰلِکَ اَوْحَیْنَا اِِلَیْکَ قُرْاٰنًا عَرَبِیًّا لِتُنْذِرَ اُمَّ الْقُرٰی وَمَنْ حَوْلَہَا وَتُنْذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لاَ رَیْبَ فِیْہِ ) پھر فرمایا کہ قرآن مجید واضح عربی زبان میں نازل ہوا ہے اس کی فصاحت اور بلاغت سب کو مسلم ہے جب اہل عرب کو چیلنج کیا گیا کہ قرآن جیسی ایک سورت بنا کر لاؤ تو عاجز رہ گئے اور آج تک عاجز ہیں ہمارے ایک ثقہ دوست نے بتایا کہ امریکہ میں دو کمپیوٹر اس بات کے لیے لگا رکھے ہیں کہ قرآن کی آیاتا کے مقابلہ میں کچھ بنا کردیں اور اس سلسلہ میں ان کمپیوٹروں کو جب کوئی آیت دیتے ہیں کہ اس کے مقابل بنا کر دو تو وہ انکار کردیتے ہیں کہ اس کے مقابلہ میں کوئی چیز نہیں بن سکتی۔ مزید فرمایا کہ قرآن مجید پہلی امتوں کی آسمانی کتابوں میں بھی ہے یعنی توریت اور انجیل میں یہ بتایا ہے کہ ایک ایسی شان کا پیغمبر ہوگا اور اس پر ایسا کلام نازل ہوگا اہل کتاب نے گو اپنی کتابوں میں تحریف کردی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی کتابوں میں یہ باتیں موجود ہیں بعض مفسرین نے اس کا یہ مطلب بتایا ہے کہ قرآن مجید کے مضامین سابقہ کتب سماویہ میں بھی ہیں جیسا کہ سورة الاعلی کے ختم پر فرمایا (اِِنَّ ھٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی صُحُفِ اِِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی) (بلاشبہ یہ پرانے صحیفوں میں ہے ابراہیم کے صحیفے اور موسیٰ کے صحیفے) حضرت معقل بن یسار (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ مجھے سورة بقرہ ذکر اول سے دی گئی ہے اور سورة طہ اور طواسین (جن کے شروع میں طس آتا ہے) اور حوامیم (جن سورتوں کے شروع میں میم ہے) یہ سورتیں مجھے الواح موسیٰ سے دی گئی ہیں۔ سورة فاتحہ سورة بقرہ کی آخری آیات اٰمَنَ الرَّسُوْلُ سے لے کر ختم سورت تک) عرش کے نیچے سے دی گئی ہیں اور مفصل ( سورة حجرات سے سورة الناس تک جو سورتیں ہیں) یہ مجھے زائد دی گئی ہیں (جو دیگر انبیاء کرام (علیہ السلام) کو نہیں دی گئیں) ذکر فی الجامع الصغیر و رمزلہ بالضعف۔ پھر فرمایا کہ علمائے بنی اسرائیل جو قرآن مجید کے نازل ہونے کے وقت موجود ہیں وہ لوگ یہ جانتے ہیں اور مانتے ہیں کہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب نازل ہوگئی، ان علماء میں سے بعض تو مسلمان ہوگئے اور جو مسلمان نہیں ہوئے انہوں نے بھی اس بات کو تسلیم کرلیا ہے، خود تو مسلمان نہ ہوئے لیکن اپنے عوام کو تنہائیوں میں بتادیا اور ان کے سامنے اقراری ہوگئے علماء بنی اسرائیل کا مان لینا کہ قرآن مجید واقعی اللہ کی کتاب ہے یہودیوں پر تو حجت ہے یہ مشرکین عرب پر بھی حجت ہے جو یہود کو اہل علم مانتے اور جانتے تھے، خصوصاً اہل مکہ جنہوں نے یہودیوں سے جا کر یہ پوچھا کہ تم اہل علم ہو اور اہل کتاب ہو کچھ ایسے سوال بتاؤ جن سے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امتحان کیا جائے اور ان کا جواب پا کر ان کے دعوائے نبوت کی تصدیق کی جاسکے جس پر یہودیوں نے کہا کہ روح کے بارے میں اور اصحاب کہف کے بارے میں اور ذوالقرنین کے بارے میں سوال کرو، قریش مکہ نے واپس آکر سوالات کیے لیکن جواب ملنے پر بھی ایمان نہ لائے پھر فرمایا کہ اس قرآن کو ہم نے ایسے شخص پر نازل کیا ہے جو عربی ہے اگر ہم بعضے عجمیوں پر یعنی کسی غیر عرب انسان پر نازل کردیتے اور وہ ان کو پڑھ کر سنا دیتا تب بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے حالانکہ اس میں معجزہ کا ظہور اور زیادہ ہوتا کیونکہ جس غیر عربی شخص پر قرآن نازل ہوتا اس کا عربی زبان پر قادر نہ ہونا اس بات کی واضح دلیل ہوتی کہ یہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے لیکن جن ہٹ دھرموں کو ماننا نہیں ہوتا وہ کسی طرح بھی نہیں مانتے۔ اس کے بعد فرمایا (کَذٰلِکَ سَلَکْنَاہُ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَ ) (کہ ہم نے ایمان نہ لانے کو مجرمین کے دلوں میں ڈال دیا ہے) یہ لوگ انکار اور انکار پر اصرار کی وجہ سے قرآن پر ایمان نہ لائیں گے جب تک سخت عذاب کو نہ دیکھ لیں گے جو ان کے سامنے اچانک آکھڑا ہوگا اور ان کو پہلے سے خبر نہ ہوئی جب یہ صورت حال ہوگی تو یوں کہیں گے کہ کیا ہمیں کچھ مہلت مل سکتی ہے لیکن وہ وقت نہ مہلت کا ہوگا اور نہ اس وقت ایمان قبول کیا جائے گا (عذاب الیم سے وہ عذاب بھی مراد ہوسکتا ہے جو تکذیب کی سزا میں دنیا میں منکرین پر آتا رہا ہے، اور موت کے وقت کا عذاب اور برزخ کا عذاب اور قیامت کے دن کا عذاب بھی مراد ہوسکتا ہے ان عذابوں میں سے کسی بھی عذاب کے آجانے پر مہلت دیئے جانے کا اور ایمان قبول کرنے کا قانون نہیں ہے) ۔