124 That is, "Now when a man from among themselves is reciting to them this Divine Revelation in lucid Arabic, they say that he himself has composed it, and therefore it cannot be from Allah. But if the same Revelation in eloquent Arabic had been sent down by Allah to a non-Arab as a miracle, and he had recited it before them in perfect Arabic accent, they would have invented some other excuse for not believing in him. They would have said that he is under the power and influence of a jinn, who speaks Arabic through a non-Arab." As a matter of fact, a lover of the truth considers the thing presented before him coolly and forms an opinion about it after due thought. But an obdurate person who is unwilling to believe, pays no attention to it at all, but instead seeks all sorts of excuses to reject it, and will, in any case, invent an excuse for his denial. This obduracy of the unbelieving Quraish has been exposed over and over again in the Qur'an, and they have been clearly told that even if a miracle were shown to them, they would certainly have found an excuse to deny it because they are not inclined to believe: "O Messenger, even if We had sent down to you a Book written on paper, and even if they had touched it with their own hands, the disbelievers would have said, `This is nothing but manifest sorcery'." (Al-An`am: 7). "Even if We had opened a gate for them in heaven, and they had begun to ascend through it, they would have said, `Our eyes have been dazzled; nay, we have been bewitched'" (Al-Hijr: 1415).
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :124
یعنی اب ان ہی کی قوم کا ایک آدمی انہیں عربی مبین میں یہ کلام پڑھ کر سنا رہا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے اسے خود تصنیف کر لیا ہے ، عرب کی زبان سے عربی تقریر ادا ہونے میں آخر معجزے کی کیا بات ہے کہ ہم اسے خدا کا کلام مان لیں ۔ لیکن اگر یہی فصیح عربی کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی غیر عرب پر بطور معجزہ نازل کر دیا جاتا اور وہ ان کے سامنے آ کر نہایت صحیح عربی لہجہ میں اسے پڑھتا تو یہ ایمان نہ لانے کے لیے دوسرا بہانہ تراشتے ، اس وقت یہ کہتے کہ اس پر کوئی جن آ گیا ہے جو عجمی کی زبان سے عربی بولتا ہے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، حٰم السجدہ ، حواشی 54 تا 58 ) ۔ اصل چیز یہ ہے کہ جو شخص حق پسند ہوتا ہے وہ اس بات پر غور کرتا ہے جو اس کے سامنے پیش کی جا رہی ہو اور ٹھنڈے دل سے سوچ سمجھ کر رائے قائم کرتا ہے کہ یہ معقول بات ہے یا نہیں ۔ اور جو شخص ہٹ دھرم ہوتا ہے اور نہ ماننے کا ارادہ کر لیتا ہے وہ اصل مضمون پر توجہ نہیں دیتا بلکہ اسے رد کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے تلاش کرتا ہے ۔ اس کے سامنے بات خواہ کسی طریقے سے پیش کی جائے ۔ وہ بہرحال اسے جھٹلانے کے لیے کوئی نہ کوئی وجہ پیدا کر لے گا ۔ کفار قریش کی اس ہٹ دھرمی کا پردہ قرآن مجید میں جگہ جگہ فاش کیا گیا ہے اور ان سے صاف صاف کہا گیا ہے کہ تم ایمان لانے کے لیے معجزہ دکھانے کی شرط آخر کس منہ سے لگاتے ہو ، تم تو وہ لوگ ہو کہ تمہیں خواہ کوئی چیز دکھا دی جائے تم اسے جھٹلانے کے لیے کوئی بہانہ نکال لو گے کیونکہ دراصل تمہیں حق بات مان کر نہیں دینی ہے : وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتَاباً فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْہُ بَاَیْدِیْھِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ O ( الانعام ۔ آیت 7 ) ۔ اگر ہم تیرے اوپر کاغذ میں لکھی ہوئی کوئی کتاب نازل کر دیتے اور یہ لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تو جن لوگوں نے نہیں مانا وہ کہتے کہ یہ تو کھلا جادو ہے ۔ وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَاباً مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوْا فِیْہِ یَعْرُجُوْنَ لَقَالُوْآ اِنَّمَا سُکِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ ( الحجر ۔ آیات 14 ۔ 15 ) ۔ اور اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ بھی کھول دیتے اور یہ اس میں چڑھنے لگتے تو یہ کہتے کہ ہماری آنکھوں کو دھوکا ہو رہا ہے ، بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے ۔