Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 199

سورة الشعراء

فَقَرَاَہٗ عَلَیۡہِمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ مُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۹۹﴾ؕ

And he had recited it to them [perfectly], they would [still] not have been believers in it.

پس وہ ان کے سامنے اس کی تلاوت کرتا تو یہ اسے باور کرنے والے نہ ہوتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And if We had revealed it unto any of the non-Arabs, and he had recited it unto them, they would not have believed in it. And Allah says: وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَيْهِم بَاباً مِّنَ السَّمَاءِ فَظَلُّواْ فِيهِ يَعْرُجُونَ لَقَالُواْ إِنَّمَا سُكِّرَتْ أَبْصَـرُنَا And even if We opened to them a gate from the heaven and they were to keep on ascending thereto. They would surely say: "Our eyes have been dazzled..." (15:14-15) وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَأ إِلَيْهِمُ الْمَلَـيِكَةَ وَكَلَّمَهُمُ الْمَوْتَى And even if We had sent down unto them angels, and the dead had spoken unto them... (6:111) إِنَّ الَّذِينَ حَقَّتْ عَلَيْهِمْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لاَ يُوْمِنُونَ Truly, those, against whom the Word of your Lord has been justified, will not believe. (10:96)

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

1991یعنی کسی عجمی زبان میں نازل کرتے تو یہ کہتے کہ یہ ہماری سمجھ میں ہی نہیں آتا۔ جیسے (وَلَوْ جَعَلْنٰهُ قُرْاٰنًا اَعْجَمِيًّا لَّـقَالُوْا لَوْلَا فُصِّلَتْ اٰيٰتُهٗ ڼءَاَعْجَمِيٌّ وَّعَرَبِيٌّ ۭ قُلْ هُوَ لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّشِفَاۗءٌ ۭ وَالَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ فِيْٓ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ وَّهُوَ عَلَيْهِمْ عَمًى ۭ اُولٰۗىِٕكَ يُنَادَوْنَ مِنْ مَّكَانٍۢ بَعِيْدٍ ) 41 ۔ فصلت :44) میں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١٧] موجودہ صورت حال یہ ہے کہ نبی بھی عربی ہے اور قرآن بھی عربی زبان میں ہے تو ان کافروں کو یہ شبہ پڑگیا ہے کہ کہیں قرآن اس نے خود ہی نہ تصنیف کر ڈالا ہو۔ اب فرض کیجئے کہ ہم یہی فصیح عربی زبان والا قرآن کسی عجمی پر نازل کرتے تو ان پر شک و شبہ کرنے کے لئے دوسرے کئی راہ کھل جاتیں۔ مثلاً یہ کہہ دیتے کہ یہ آیات اللہ نے جبریل کے ذریعہ اس پر نازل نہیں کیں بلک اسے تو کوئی جن یا شیطان پڑھا جاتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ خوے بد را پہالہ بسیار && والا معاملہ ہے۔ نیت میں فتور ہو تو شک و شبہ کے بہانے ہزاروں مل سکتے ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَقَرَاَہٗ عَلَيْہِمْ مَّا كَانُوْا بِہٖ مُؤْمِنِيْنَ۝ ١٩٩ۭ قرأ والْقُرْآنُ في الأصل مصدر، نحو : کفران ورجحان . قال تعالی:إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] قال ابن عباس : إذا جمعناه وأثبتناه في صدرک فاعمل به، وقد خصّ بالکتاب المنزّل علی محمد صلّى اللہ عليه وسلم، فصار له کالعلم کما أنّ التّوراة لما أنزل علی موسی، والإنجیل علی عيسى صلّى اللہ عليهما وسلم . قال بعض العلماء : ( تسمية هذا الکتاب قُرْآناً من بين كتب اللہ لکونه جامعا لثمرة كتبه) بل لجمعه ثمرة جمیع العلوم، كما أشار تعالیٰ إليه بقوله : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] ، وقوله : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] ، قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] ( ق ر ء) قرءت المرءۃ وقرءت الدم ۔ القراءۃ کے معنی حروف وکلمات کو ترتیل میں جمع کرنے کے ہیں کیونکہ ایک حروت کے بولنے کو قراءت نہیں کہا جاتا ہے اور نہ یہ عام ہر چیز کے جمع کے کرنے پر بولاجاتا ہے ۔ لہذ ا اجمعت القوم کی بجاے قررءت القوم کہنا صحیح نہیں ہے ۔ القرآن ۔ یہ اصل میں کفران ورحجان کی طرف مصدر ہے چناچہ فرمایا :إِنَّ عَلَيْنا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ فَإِذا قَرَأْناهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ [ القیامة/ 17- 18] اس کا جمع کرنا اور پڑھوانا ہمارے ذمہ جب ہم وحی پڑھا کریں تو تم ( اس کو سننا کرو ) اور پھر اسی طرح پڑھا کرو ۔ حضرت ابن عباس نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ جب ہم قرآن تیرے سینہ میں جمع کردیں تو اس پر عمل کرو لیکن عرف میں یہ اس کتاب الہی کا نام ہے جو آنحضرت پر نازل ہوگئی ا وریہ اس کتاب کے لئے منزلہ علم بن چکا ہے جیسا کہ توراۃ اس کتاب الہی کو کہاجاتا ہے جو حضرت موسیٰ ٰ (علیہ السلام) پر نازل ہوئی ۔ اور انجیل اس کتاب کو کہا جاتا ہے جو حضرت عیسیٰ پر نازل کی گئی ۔ بعض علماء نے قرآن کی وجہ تسمیہ یہ بھی بیان کی ہے کہ قرآن چونکہ تمام کتب سماویہ کے ثمرہ کو اپنے اندر جمع کئے ہوئے ہے بلکہ تمام علوم کے ماحصل کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے جیسا کہ آیت : وَتَفْصِيلَ كُلِّ شَيْءٍ [يوسف/ 111] اور ہر چیز کی تفصیل کرنے والا ۔ اور آیت کریمہ : تِبْياناً لِكُلِّ شَيْءٍ [ النحل/ 89] کہ اس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے ۔ میں اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے ۔ مزید فرمایا : قُرْآناً عَرَبِيًّا غَيْرَ ذِي عِوَجٍ [ الزمر/ 28] یہ قرآن عربی ہے جس میں کوئی عیب ( اور اختلاف ) نہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٩٩ (فَقَرَاَہٗ عَلَیْہِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ مُؤْمِنِیْنَ ) ” ہم یہ بھی کرسکتے تھے کہ قرآن کسی ایسے شخص پر نازل کردیتے جس کی مادری زبان عربی نہ ہوتی ‘ پھر اگر ایسا شخص انہیں عربی قرآن پڑھ کر سناتا تو یہ گویا ایک کھلا معجزہ ہوتا ‘ لیکن یہ لوگ پھر بھی اسے ماننے والے نہیں تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

124 That is, "Now when a man from among themselves is reciting to them this Divine Revelation in lucid Arabic, they say that he himself has composed it, and therefore it cannot be from Allah. But if the same Revelation in eloquent Arabic had been sent down by Allah to a non-Arab as a miracle, and he had recited it before them in perfect Arabic accent, they would have invented some other excuse for not believing in him. They would have said that he is under the power and influence of a jinn, who speaks Arabic through a non-Arab." As a matter of fact, a lover of the truth considers the thing presented before him coolly and forms an opinion about it after due thought. But an obdurate person who is unwilling to believe, pays no attention to it at all, but instead seeks all sorts of excuses to reject it, and will, in any case, invent an excuse for his denial. This obduracy of the unbelieving Quraish has been exposed over and over again in the Qur'an, and they have been clearly told that even if a miracle were shown to them, they would certainly have found an excuse to deny it because they are not inclined to believe: "O Messenger, even if We had sent down to you a Book written on paper, and even if they had touched it with their own hands, the disbelievers would have said, `This is nothing but manifest sorcery'." (Al-An`am: 7). "Even if We had opened a gate for them in heaven, and they had begun to ascend through it, they would have said, `Our eyes have been dazzled; nay, we have been bewitched'" (Al-Hijr: 1415).

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :124 یعنی اب ان ہی کی قوم کا ایک آدمی انہیں عربی مبین میں یہ کلام پڑھ کر سنا رہا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے اسے خود تصنیف کر لیا ہے ، عرب کی زبان سے عربی تقریر ادا ہونے میں آخر معجزے کی کیا بات ہے کہ ہم اسے خدا کا کلام مان لیں ۔ لیکن اگر یہی فصیح عربی کلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی غیر عرب پر بطور معجزہ نازل کر دیا جاتا اور وہ ان کے سامنے آ کر نہایت صحیح عربی لہجہ میں اسے پڑھتا تو یہ ایمان نہ لانے کے لیے دوسرا بہانہ تراشتے ، اس وقت یہ کہتے کہ اس پر کوئی جن آ گیا ہے جو عجمی کی زبان سے عربی بولتا ہے ۔ ( تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم ، حٰم السجدہ ، حواشی 54 تا 58 ) ۔ اصل چیز یہ ہے کہ جو شخص حق پسند ہوتا ہے وہ اس بات پر غور کرتا ہے جو اس کے سامنے پیش کی جا رہی ہو اور ٹھنڈے دل سے سوچ سمجھ کر رائے قائم کرتا ہے کہ یہ معقول بات ہے یا نہیں ۔ اور جو شخص ہٹ دھرم ہوتا ہے اور نہ ماننے کا ارادہ کر لیتا ہے وہ اصل مضمون پر توجہ نہیں دیتا بلکہ اسے رد کرنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے تلاش کرتا ہے ۔ اس کے سامنے بات خواہ کسی طریقے سے پیش کی جائے ۔ وہ بہرحال اسے جھٹلانے کے لیے کوئی نہ کوئی وجہ پیدا کر لے گا ۔ کفار قریش کی اس ہٹ دھرمی کا پردہ قرآن مجید میں جگہ جگہ فاش کیا گیا ہے اور ان سے صاف صاف کہا گیا ہے کہ تم ایمان لانے کے لیے معجزہ دکھانے کی شرط آخر کس منہ سے لگاتے ہو ، تم تو وہ لوگ ہو کہ تمہیں خواہ کوئی چیز دکھا دی جائے تم اسے جھٹلانے کے لیے کوئی بہانہ نکال لو گے کیونکہ دراصل تمہیں حق بات مان کر نہیں دینی ہے : وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَیْکَ کِتَاباً فِیْ قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوْہُ بَاَیْدِیْھِمْ لَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوٓا اِنْ ھٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ O ( الانعام ۔ آیت 7 ) ۔ اگر ہم تیرے اوپر کاغذ میں لکھی ہوئی کوئی کتاب نازل کر دیتے اور یہ لوگ اسے اپنے ہاتھوں سے چھو کر بھی دیکھ لیتے تو جن لوگوں نے نہیں مانا وہ کہتے کہ یہ تو کھلا جادو ہے ۔ وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَاباً مِّنَ السَّمَآءِ فَظَلُّوْا فِیْہِ یَعْرُجُوْنَ لَقَالُوْآ اِنَّمَا سُکِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ ( الحجر ۔ آیات 14 ۔ 15 ) ۔ اور اگر ہم ان پر آسمان کا کوئی دروازہ بھی کھول دیتے اور یہ اس میں چڑھنے لگتے تو یہ کہتے کہ ہماری آنکھوں کو دھوکا ہو رہا ہے ، بلکہ ہم پر جادو کر دیا گیا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

45: یعنی اگر ہم قرآنِ کریم کے معجزہ ہونے کی اور زیادہ وضاحت اِس طرح کردیتے کہ یہ عربی زبان کی کتاب کسی غیر عرب پر نازل ہوتی جو عربی سے ناواقف ہوتا، اور وہ عربی نہ جاننے کے باوجود اِس عربی قرآن کر پڑھ کر سناتا تب بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے، کیونکہ ایمان نہ لانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ قرآنِ کریم کی حقانیت کے دلائل معاذ اللہ کمزور ہیں، بلکہ اُنہوں نے ضد کی بنا پر طے کر رکھا ہے کہ کیسے ہی دلائل سامنے آجائیں، یہ اِیمان نہیں لائیں گے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

7 ۔ کیونکہ اس وقت وہ یہ کہتے کہ یہ قرآن ہماری سمجھ میں نہیں آتا اس لئے کہ یہ غیر زبان میں ہے اگر یہ عربی میں ہوتا تو ہم اسے سمجھتے اور اس پر ایمان لے آتے۔ (دیکھئے سورة نصلت :44) یا مطلب یہ ہے کہ اب تو قرآن ایک ایسا شخص سنا رہا ہے جس کی زبان عربی ہے۔ اس لئے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس نے اپنے آپ تصنیف کرلیا ہے لیکن اگر ہم یہی فصیح عربی کلام کسی غیر عرب شخص پر بطور معجزہ اتارتے اور وہ انہیں خالص عربی زبان میں اس کی تلاوت کر کے سناتا تو بھی یہ اس پر ایمان نہ لاتے بلکہ اسے رد کرنے کے لئے اور قسم کے بہانے تراش لیتے۔ (شوکانی) شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں : ” دھوکے والے کا جی کبھی نہیں ٹھہرتا تب اور شبہ نکالتے کہ کوئی سکھا جاتا ہے۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(199) اور وہ عجمی شخص ان کے روبرو اس قرآن کریم کو پڑھتا تب بھی یہ لوگ اس کو نہ مانتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں کافر کہتے تھے کہ قرآن کریم آتا ہے عربی زبان میں اس نبی کی زبان بھی عربی ہے شاید آپ ہی کہتا ہو اگر غیر عربی والے پر آتا تو یقین کرتے فرمایا وھوکے والے کاجی کبھی نہیں ٹھہرتا تب اور شبہ نکالتے کہ کوئی سکھا جاتا ہے 12 مطلب یہ ہے کہ ان کے عناد اور سرکشی کا یہ حال ہے کہ جب کوئی اور بات کہہ دیتے آگے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی جاتی ہے۔