Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 202

سورة الشعراء

فَیَاۡتِیَہُمۡ بَغۡتَۃً وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿۲۰۲﴾ۙ

And it will come to them suddenly while they perceive [it] not.

پس وہ عذاب ان کو ناگہاں آجائے گا انہیں اس کا شعور بھی نہ ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

فَيَأْتِيَهُم بَغْتَةً ... It shall come to them of a sudden, means, the punishment of Allah will come upon them suddenly, ... وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ فَيَقُولُوا هَلْ نَحْنُ مُنظَرُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَيَاْتِيَهُمْ بَغْتَةً وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ ۔۔ : یعنی وہ اس پر ایمان نہیں لائیں گے یہاں تک وہ ” عذاب الیم “ کو دیکھ لیں، جو ان پر اچانک آئے اور وہ سوچتے بھی نہ ہوں، پھر وہ یہ کہیں کہ کیا ہم مہلت دیے جانے والے ہیں کہ ہم ایمان لائیں اور تصدیق کریں، مگر اس وقت مہلت نہیں ملے گی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَيَاْتِيَہُمْ بَغْتَۃً وَّہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۝ ٢٠٢ۙ أتى الإتيان : مجیء بسهولة، ومنه قيل للسیل المارّ علی وجهه ( ا ت ی ) الاتیان ۔ ( مص ض ) کے معنی کسی چیز کے بسہولت آنا کے ہیں ۔ اسی سے سیلاب کو اتی کہا جاتا ہے بغت البَغْت : مفاجأة الشیء من حيث لا يحتسب . قال تعالی: لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف/ 187] ، وقال : بَلْ تَأْتِيهِمْ بَغْتَةً [ الأنبیاء/ 40] ، وقال : تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف/ 107] ( ب غ ت) البغت ( ف) کے معنی کسی چیز کا یکبارگی ایسی جگہ سے ظاہر ہوجانا کے ہیں ۔ جہاں سے اس کے ظہور کا گمان تک بھی نہ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ لا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً [ الأعراف/ 187 اور ناگہاں تم پر آجائے گی ۔ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً [يوسف/ 107] یا ان پر ناگہاں قیامت آجائے ۔ شعور الحواسّ ، وقوله : وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] ، ونحو ذلك، معناه : لا تدرکونه بالحواسّ ، ولو في كثير ممّا جاء فيه لا يَشْعُرُونَ : لا يعقلون، لم يكن يجوز، إذ کان کثير ممّا لا يكون محسوسا قد يكون معقولا . شعور حواس کو کہتے ہیں لہذا آیت کریمہ ؛ وَأَنْتُمْ لا تَشْعُرُونَ [ الحجرات/ 2] اور تم کو خبر بھی نہ ہو ۔ کے معنی یہ ہیں کہ تم حواس سے اس کا ادرک نہیں کرسکتے ۔ اور اکثر مقامات میں جہاں لایشعرون کا صیغہ آیا ہے اس کی بجائے ۔ لایعقلون کہنا صحیح نہیں ہے ۔ کیونکہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو محسوس تو نہیں ہوسکتی لیکن عقل سے ان کا ادراک ہوسکتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:202) فیاتیہم : یاتی مضارع واحد مذکر غائب ھم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب وہ ان پر آجائے یاتی میں ضمیر فاعل کا مرجع العذاب الالیم ہے (آیۃ 201) سو وہ عذاب الیم ان پر اچانک آجائے گا۔ ف عطف کے لئے ہے اور یاتی کا عطف یروا پر ہے اور اس عمل کی وجہ سے منصوب ہے۔ بغتۃ۔ اچانک ، ایک دم ۔ یکایک۔ لا یشعرون مضارع منفی جمع مذکر غائب شعور مصدر (باب نصر) وہ شعور نہیں رکھتے ۔ وہ سمجھ نہیں پاتے۔ یعنی ان کو اس کے آنے کی خبر تک بھی نہ ہوگی !

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : منکرین قرآن جس عذاب کا انتظار یا مطالبہ کرتے ہیں وہ عنقریب ان پر نازل ہوگا۔ منکرین قرآن ایمان لانے کی بجائے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مطالبہ کرتے کہ جس عذاب سے ہمیں ڈراتے رہتے ہو وہ اب تک ہم پر کیوں نازل نہیں ہوا ؟ اس کے انھیں کئی جواب دیئے گئے ہیں جن میں سے ایک جواب یہ بھی ہے کہ جس عذاب کا تم مطالبہ کرتے ہو وہ اچانک اور ایسے وقت تم پر نازل ہوگا جس کا تم تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس وقت تمہاری کیفیت یہ ہوگی کہ تم پکار پکار کر کہہ رہے ہو گے کہ کاش ہمیں مہلت دی گئی ہوتی۔ کیا اس عذاب کے بارے میں تم جلدی کا مظاہرہ کرتے ہو ؟ اے نبی ! غور فرمائیں کہ اگر ہم انھیں مدت مدید مہلت دیئے جائیں اور پھر اپنے وعدے کے مطابق ان پر عذاب لے آئیں تو جس دنیا کے مال و اسباب اور ترقی پر یہ ناز کرتے ہیں وہ انھیں عذاب سے بچا نہیں سکتے۔ ہم نے کسی بستی کو اس وقت تک عذاب میں مبتلا نہیں کیا جب تک ان کے پاس ڈرانے والے نہیں بھیجے۔ ڈرانے والوں سے مراد انبیاء کرام (علیہ السلام) ہیں یا پھر ان کے جانشین۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن مجید کی ہدایات اور اس میں بیان ہونے والے اقوام کے واقعات۔ لوگوں کے لیے نصیحت ہیں لیکن پھر بھی لوگ باطل عقیدہ اور برے کاموں سے باز نہیں آتے جس کی وجہ سے انھیں تباہی کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا لوگ خود ہی اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ مسائل ١۔ اللہ کا عذاب اچانک نازل ہوتا ہے۔ ٢۔ جب اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتا ہے تو لوگ مہلت کی تمنا کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مقابلہ میں دنیا کی ترقی اور مال و اسباب کام نہیں دیتے۔ ٤۔ اللہ تعالیٰ کسی پر ظلم نہیں کرتا لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن قرآن مجید نصیحت کا سرچشمہ ہے : ١۔ قرآن مجید متقین کے لیے نصیحت ہے۔ ( النور : ٣٤) ٢۔ قرآن مومنین کے لیے رحمت اور نصیحت ہے۔ ( العنکبوت : ٥١) ٣۔ قرآن پاک نصیحت کا منبع ہے۔ ( آل عمران : ٥٨) ٤۔ قرآن مجید تمام جہانوں کے لیے نصیحت ہے۔ ( یوسف : ١٠٤) ٥۔ قرآن مجید نصیحت آمیز کتاب ہے۔ ( ص : ١) ٦۔ قرآن مجید کے بیان کردہ واقعات سچے ہیں ان میں اہل ایمان کے لیے نصیحت ہے۔ (ھود : ١٢٠) ٧۔ قرآن مجید لوگوں کے لیے ہدایت اور نصیحت ہے۔ (آل عمران : ١٣٨) ٨۔ ہم نے قرآن میں طرح طرح کے دلائل دیے ہیں تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں۔ (بنی اسرائیل : ٤١)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فیقولوا ھل نحن منظرون (٢٠٤) یعنی کیا ہمیں دنیا میں ایک اور مہلت دے دی جائے گی تاکہ ہم اصلاح کرسکیں۔ اے کاش کہ ایسا ہوجائے۔ کفار مکہ بار بار مطالبہ کرتے تھے کہ تم جو عذاب الٰہی سے ڈراتے ہو اور اس کے قصے سناتے ہو ، لائو وہ عذاب کہ دیکھیں یہ مذہب کا مذاق اڑاتے تھے کیا یہ لوگ اس قدر بےباک اور مغرور ہوگئے ہیں اس لئے کہ یہ خوشحال ہیں۔ عیاشیوں نے ان کو غبی بنا دیا ہے اور یہ خدا کے عذاب کو بعید الوقوع قرار دیتے ہیں۔ ان کی حالت ہمیشہ کے کھاتے پیتے لوگوں کی سی ہے۔ ایسے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ہم ہمیشہ ایسے ہی رہیں گے۔ یہ حالات کے بدلنے کا تصور بھی نہیں کرتے۔ یہاں ان کو ایسی غفلت سے جگایا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ اس وقت ان کی حالت ایسی ہوگی کہ یہ دنیا کا سب ساز و سامان بےکار ہوجائے گا اور کوئی شئے بھی ان کو فائدہ نہ دے سکے گی۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(202) وہ عذاب ان پر اچانک آجائے گا اور ان کو اس کے آنے کی خبر بھی نہ ہوگی۔