Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 211

سورة الشعراء

وَ مَا یَنۡۢبَغِیۡ لَہُمۡ وَ مَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ ﴿۲۱۱﴾ؕ

It is not allowable for them, nor would they be able.

نہ وہ اس کےقابل ہیں نہ انہیں اس کی طاقت ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَمَا يَنبَغِي لَهُمْ ... Neither would it suit them, ... وَمَا يَسْتَطِيعُونَ nor are they able. meaning, even if they wanted to, they could not do it. Allah says: لَوْ أَنزَلْنَا هَـذَا الْقُرْءَانَ عَلَى جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَـشِعاً مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ Had We sent down this Qur'an on a mountain, you would surely have seen it humbling itself and rent asunder by the fear of Allah. (59:21) Then Allah explains that even if they wanted to and were able to bear it and convey it, they still would not be able to achieve that, because they were prevented from hearing the Qur'an when it was brought down, for the heavens were filled with guardians and shooting stars at the time when the Qur'an was being revealed to the Messenger of Allah, so none of the Shayatin could hear even one letter of it, lest there be any confusion in the matter. This is a part of Allah's mercy towards His servants, protection of His Laws, and support for His Book and His Messenger. Allah says: إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٤] ایسا قرآن نازل کرنا شیطانوں کے بس کا روگ نہیں۔ جو سراسر لوگوں کی ہدایت و فلاح کا ضامن ہو۔ جس میں خالصتؤہ توحید باری کی تعلیم دی گئی ہے۔ اور شرک اور بت پرستی سے روکا گیا ہے۔ آخرت کی باز پرس کا خوف دلایا گیا ہے۔ ظالم اور بداخلاقی سے منع کیا گیا ہے۔ نیکوکاری اور راست بازی اور خلق خدا کے ساتھ احسان کی تعلیم دی گئی ہے اور اس پر ایمان لانے والوں کو ایک مکمل ضابطہ حیات عطا کیا گیا ہے کیا کسی شیطان کے کلام میں ایسی باتوں کا پایا جانا ممکن ہے ؟ شیطان تو قرآن کے نام تک سے بدکتے ہیں وہ ایسا کلام لا کیسے سکتے ہیں ؟

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَمَا يَنْۢبَغِيْ لَهُمْ : پہلی یہ کہ اتنا پاکیزہ کلام لے کر اترنا شیاطین کے لائق ہی نہیں، کیونکہ قرآن سر اسر خیر و برکت اور نور ہے، جبکہ شیاطین سرا سر شر و فساد اور ظلمت سے بھرے ہوئے ہیں، دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ وَمَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : دوسری یہ کہ اگر ان کے لائق ہو بھی تو وہ اس جیسا کلام لانے کی طاقت ہی نہیں رکھتے، خواہ کتنی کوشش کرلیں، فرمایا : (قُلْ لَّىِٕنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓي اَنْ يَّاْتُوْا بِمِثْلِ هٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا يَاْتُوْنَ بِمِثْلِهٖ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيْرًا) [ بني إسرائیل : ٨٨ ] ” کہہ دے اگر سب انسان اور جن جمع ہوجائیں کہ اس قرآن جیسا بنا لائیں تو اس جیسا نہیں لائیں گے، اگرچہ ان کا بعض بعض کا مددگار ہو۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَمَا يَنْۢبَغِيْ لَہُمْ وَمَا يَسْتَطِيْعُوْنَ۝ ٢١١ۭ ابتغاء (ينبغي) البَغْي : طلب تجاوز الاقتصاد فيما يتحرّى، تجاوزه أم لم يتجاوزه، فتارة يعتبر في القدر الذي هو الكمية، وتارة يعتبر في الوصف الذي هو الكيفية، يقال : بَغَيْتُ الشیء : إذا طلبت أكثر ما يجب، وابْتَغَيْتُ كذلك، قال اللہ عزّ وجل : لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48] ، وأمّا الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، الابتغاء فقد خصّ بالاجتهاد في الطلب، فمتی کان الطلب لشیء محمود فالابتغاء فيه محمود نحو : ابْتِغاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ [ الإسراء/ 28] ، وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] ، وقولهم : يَنْبغي مطاوع بغی. فإذا قيل : ينبغي أن يكون کذا ؟ فيقال علی وجهين : أحدهما ما يكون مسخّرا للفعل، نحو : النار ينبغي أن تحرق الثوب، والثاني : علی معنی الاستئهال، نحو : فلان ينبغي أن يعطی لکرمه، وقوله تعالی: وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] ، علی الأول، فإنّ معناه لا يتسخّر ولا يتسهّل له، ألا تری أنّ لسانه لم يكن يجري به، وقوله تعالی: وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] . ( ب غ ی ) البغی کے معنی کسی چیز کی طلب میں درمیانہ ردی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں ۔ خواہ تجاوز کرسکے یا نہ اور بغی کا استعمال کیت اور کیفیت یعنی قدر وو صف دونوں کے متعلق ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز ۔ قرآن میں ہے : ۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِنْ قَبْلُ [ التوبة/ 48 پہلے بھی طالب فسادر ہے ہیں ۔ الا بتغاء یہ خاص کر کوشش کے ساتھ کسی چیز کو طلب کرنے پر بولا جاتا ہے ۔ اگر اچھی چیز کی طلب ہو تو یہ کوشش بھی محمود ہوگی ( ورنہ مذموم ) چناچہ فرمایا : ۔ { ابْتِغَاءَ رَحْمَةٍ مِنْ رَبِّكَ } ( سورة الإسراء 28) اپنے پروردگار کی رحمت ( یعنی فراخ دستی ) کے انتظار میں ۔ وابْتِغاءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْأَعْلى [ اللیل/ 20] بلکہ اپنے خدا وندی اعلیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے دیتا ہے ۔ اور ینبغی ( انفعال ) بغی کا مطاوع آتا ہے اور ینبغی ایکون کذا کا محاورہ طرح استعمال ہوتا ہے ( 1) اس شے کے متعلق جو کسی فعل کے لئے مسخر ہو جیسے یعنی کپڑے کو جلا ڈالنا آگ کا خاصہ ہے ۔ ( 2) یہ کہ وہ اس کا اہل ہے یعنی اس کے لئے ایسا کرنا مناسب اور زیبا ہے جیسے کہ فلان کے لئے اپنی کرم کی وجہ سے بخشش کرنا زیبا ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما عَلَّمْناهُ الشِّعْرَ وَما يَنْبَغِي لَهُ [يس/ 69] اور ہم نے ان ( پیغمبر ) کو شعر گوئی نہیں سکھلائی اور نہ وہ ان کو شایاں ہے ۔ پہلے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی نہ تو آنحضرت فطر تا شاعر ہیں ۔ اور نہ ہی سہولت کے ساتھ شعر کہہ سکتے ہیں اور یہ معلوم کہ آپ کی زبان پر شعر جاری نہ ہوتا تھا ۔ اور آیت کریمہ : وَهَبْ لِي مُلْكاً لا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِي [ ص/ 35] اور مجھ کو ایسی بادشاہ ہی عطا فرما کر میرے بعد کیسی کو شایاں نہ ہو ۔ ( دوسرے معنی پر محمول ہے ۔ یعنی میرے بعد وہ سلطنت کسی کو میسر نہ ہو ) الاستطاعۃ . وَالاسْتِطَاعَةُ : استفالة من الطَّوْعِ ، وذلک وجود ما يصير به الفعل متأتّيا، الاسْتِطَاعَةُ أخصّ من القدرة . قال تعالی: لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] ( ط و ع ) الطوع الاستطاعۃ ( استفعال ) یہ طوع سے استفعال کے وزن پر ہے اور اس کے معنی ہیں کسی کام کو سر انجام دینے کے لئے جن اسباب کی ضرورت ہوتی ہے ان سب کا موجہ ہونا ۔ اور استطاعت قدرت سے اخص ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ لا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَ أَنْفُسِهِمْ [ الأنبیاء/ 43] وہ نہ تو آپ اپنی مدد کرسکتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

131 That is, these revelations and themes do not at all suit the satans. Any person who has a little common sense can well understand that the sublime discourses being presented in the Qur'an cannot be inspired by the satans. Never has it happened that the satans might have taught the people through the sorcerers to worship God and fear Him, or forbidden them from shirk and idol-worship, or warned them of the accountability of the Hereafter, or prohibited them from tyranny and sexual and moral evils, and exhorted them instead to act righteously and do good to others. Such works cannot behove the satans. Their only pastime can be to sow the seeds of discord among the people and to arouse them to mischief and vice. The common observation is that people visit the sorcerers to find out whether they will succeed in their love affairs or not, what move would suit them in gambling, what trick and stratagem would be helpful against the enemy, or who had stolen the camel of so and so. Apart from such affairs and problems, the sorcerers and their patron-saints cannot be expected to worry themselves about matters like reforming the people, teaching them morals and cleansing their lives of vice and evil. 132 That is, even if the satans wanted they could not impart Truth and Goodness to the people like a true teacher and reformer as the Qur'an does. Even if to deceive the people, they came out under the guise of a benefactor, their work would not be tree from blemishes, which would betray their ignorance and their hidden satanic nature. Similarly the life and the teachings of a person who poses to be a religious guide, under the influence and inspiration of satans, would inevitably reflect the wickedness of intention and design. Thus the satans can neither inspire others with piety and goodness, nor can those, who have any relation with the satans, become pious and righteous themselves. Then in addition to its high and noble teachings, the Qur'an is a lucid and eloquent Book, which contains the knowledge of Reality. That is why it has over and over again put forward the challenge that human beings and jinns would never be able to produce a book like the Qur'an even if they collaborated with all their energies and capacities. "Declare this: Even if human beings and jinns should cooperate with one another to bring forth a book like the Qur'an, they will never be able to bring anything like it, even though all of them help one another" (Bani Isra'il: 88). "Tell them: if what you say be true, then produce one Surah like this, and you may call to your assistance anyone you can other than Allah." (Yunus: 38).

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :131 یعنی یہ کلام اور یہ مضامین شیاطین کے منہ پر پھبتے بھی تو نہیں ہیں ۔ کوئی عقل رکھتا ہو تو خود سمجھ سکتا ہے کہ کہیں یہ باتیں ، جو قرآن میں بیان ہو رہی ہیں ، شیاطین کی طرف سے بھی ہو سکتی ہیں ؟ کیا تمہاری بستیوں میں کاہن موجود نہیں ہیں اور شیاطین سے ربط ضبط رکھ کر جو باتیں وہ کرتے ہیں وہ تم نے کبھی نہیں سنیں ؟ کیا کبھی تم نے سنا ہے کہ کسی شیطان نے کسی کاہن کے ذریعہ سے لوگوں کو خدا پرستی اور خدا ترسی کی تعلیم دی ہو؟ شرک و بت پرستی سے روکا ہو؟ آخرت کی باز پرس کا خوف دلایا ہو؟ ظلم اور بدکاری اور بد اخلاقیوں سے منع کیا ہو؟ نیکو کاری اور راستبازی اور خلق خدا کے ساتھ احسان کی تلقین کی ہو؟ شیاطین کا یہ مزاج کہاں ہے ؟ ان کا مزاج تو یہ ہے کہ لوگوں میں فساد ڈلوائیں اور انہیں برائیوں کی طرف رغبت دلائیں ۔ ان سے تعلق رکھنے والے کاہنوں کے پاس تو لوگ یہ پوچھنے جاتے ہیں کہ عاشق کو معشوق ملے گا یا نہیں ؟ جوئے میں کونسا داؤ مفید رہے گا ؟ دشمن کو نیچا دکھانے کے لیے کیا چال چلی جائے ؟ اور فلاں شخص کا اونٹ کس نے چرایا ہے ؟ یہ مسائل اور معاملات چھوڑ کر کاہنوں اور ان کے سرپرست شیاطین کو خلق خدا کی اصلاح ، بھلائیوں کی تعلیم اور برائیوں کے استیصال کی کب سے فکر لاحق ہو گئی؟ سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :132 یعنی شیاطین اگر کرنا چاہیں بھی تو یہ کام ان کے بس کا نہیں ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے بھی اپنے آپ کو انسانوں کے سچے معلم اور حقیقی مزکی کے مقام پر رکھ کر خالص حق اور خالص خیر کی وہ تعلیم دے سکیں جو قرآن دے رہا ہے ۔ وہ دھوکا دینے کی خاطر بھی اگر یہ روپ دھاریں تو ان کا کام ایسی آمیزشوں سے خالی نہیں ہو سکتا جو ان کی جہالت اور ان کے اندر چھپی ہوئی شیطانی فطرت کی غمازی نہ کر دیں ۔ نیت کی خرابی ، ارادوں کی نا پاکی ، مقاصد کی خباثت لازماً اس شخص کی زندگی میں بھی اور اس کی تعلیم میں بھی جھلک کر رہے گی جو شیاطین سے الہام حاصل کر کے پیشوا بن بیٹھا ہو ۔ بے آمیز راستی اور خالص نیکی نہ شیاطین القاء کر سکتے ہیں اور نہ ان سے ربط ضبط رکھنے والے اس کے حامل ہو سکتے ہیں ۔ پھر تعلیم کی بلندی و پاکیزگی پر مزید وہ فصاحت و بلاغت اور وہ علم حقائق ہے جو قرآن میں پایا جاتا ہے ۔ اسی بنیاد پر قرآن میں بار بار یہ چیلنج دیا گیا ہے کہ انسان اور جن مل کر بھی چاہیں تو اس کتاب کے مانند کوئی چیز تصنیف کر کے نہیں لا سکتے : قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلیٰٓ اَنْ یَّاْتُوْا بِمِثْلِ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہِ وَلَوْ کَانَ بَعْضُھُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْراً ( بنی اسرائیل ۔ آیت 88 ) قُلْ فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہ وَادْعُوْا مَنِ اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ O ( یونس ۔ آیت 38 ) ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:211) ما ینبغی : ما نافیہ ہے ینبغی مضارع واحد مذکر غائب۔ انبغاء (انفعال) سے سزا وار نہیں، لائق نہیں۔ ینبغی لہ اسے چاہیے اس کے لئے مناسب ہے۔ اسے سزاوار ہے۔ فعل ماضی مستعمل نہیں۔ ما ینبغی لہم ان کو زیب نہیں۔ ان کو مناسب نہیں۔ ان کو لائق نہیں ہے۔ ما یستطیعون : ما نفی کے لئے ہے یستطیعون مضارع جمع مذکر غائب ۔ استطاعۃ (استفعال) مصدر۔ وہ قدرت نہیں رکھتے۔ وہ طاقت نہیں رکھتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ یعنی ایک طرف قرآن کو دیکھو جو سراسر رشد و ہدایت سے لبریز ہے اور دوسری طرف شیطانوں کو جن کی فطرت ہی لوگوں کو گمراہی اور فساد پر ابھارنا ہے۔ بایں بعد و تفاوت کیا کوئی عقلمند یہ باور کرسکتا ہے کہ اس قسم کا پاکیزہ کلام شیاطین لے کر نازل ہوتے ہیں ؟ مولانا لکھتے ہیں :” شیطان تو قرآن کے نام سے بھاگتا ہے بھلا وہ قرآن کیونکر لائے گا۔ “ (وحیدی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(211) اور یہ کام نہ تو ان کے لئے سزا وار اور مناسب ہے اور نہ وہ اس پر قدرت ہی رکھتے ہیں۔