Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 216

سورة الشعراء

فَاِنۡ عَصَوۡکَ فَقُلۡ اِنِّیۡ بَرِیۡٓءٌ مِّمَّا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۲۱۶﴾ۚ

And if they disobey you, then say, "Indeed, I am disassociated from what you are doing."

اگر یہ لوگ تیری نافرمانی کریں تو تُو اعلان کر دے کہ میں ان کاموں سے بیزار ہوں جو تم کر رہے ہو ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Then if they disobey you, say: "I am innocent of what you do." This specific warning does not contradict the general warning; indeed it is a part of it, as Allah says elsewhere: لِتُنذِرَ قَوْماً مَّأ أُنذِرَ ءَابَأوُهُمْ فَهُمْ غَـفِلُونَ In order that you may warn a people whose forefathers were not warned, so they are heedless. (36:6) وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ but those of the sects that reject it, the Fire will be their promised meeting place. (11:17) According to Sahih Muslim, the Prophet said: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لاَا يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الاْاُمَّةِ يَهُودِيٌّ وَلاَا نَصْرَانِيٌّ ثُمَّ لاَا يُوْمِنُ بِي إِلاَّ دَخَلَ النَّار By the One in Whose Hand is my soul, no one from these nations -- Jewish or Christian -- hears of me then does not believe in me, but he will enter Hell. Many Hadiths have been narrated concerning the revelation of this Ayah, some of which we will quote below: Imam Ahmad, may Allah have mercy on him, recorded that Ibn `Abbas, may Allah be pleased with him, said: "When Allah revealed the Ayah, وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الاْأَقْرَبِينَ (And warn your tribe of near kindred), the Prophet went to As-Safa', climbed up and called out, يَا صَبَاحَاه O people! The people gathered around him, some coming of their own accord and others sending people on their behalf to find out what was happening. The Messenger of Allah said: يَا بَنِي عَبْدِالْمُطَّلِبِ يَا بَنِي فِهْرٍ يَااَبنِي لُوَيَ أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ خَيْلًا بِسَفْحِ هَذَا الْجَبَلِ تُريدُ أَنْ تُغِيرَ عَلَيْكُمْ صَدَّقْتُمُونِي O Bani `Abd Al-Muttalib, O Bani Fihr, O Bani Lu'ayy! What do you think, if I told you that there was a cavalry at the foot of this mountain coming to attack you -- would you believe me! They said, "Yes." He said: فَإِنِّي نَذِيرٌ لَكُمْ بَيْنَ يَدَي عَذَابٍ شَدِيد Then I warn you of a great punishment that is close at hand. Abu Lahab said, "May you perish for the rest of the day! You only called us to tell us this" Then Allah revealed: تَبَّتْ يَدَا أَبِى لَهَبٍ وَتَبَّ Perish the two hands of Abu Lahab and perish he! (111:1) This was also recorded by Al-Bukhari, Muslim, At-Tirmidhi and An-Nasa'i. Imam Ahmad recorded that A'ishah, may Allah be pleased with her said: "When the Ayah, وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الاْأَقْرَبِينَ (And warn your tribe of near kindred) was revealed, the Messenger of Allah stood up and said: يَا فَاطِمَةُ ابْنَةُ مُحَمَّدٍ يَا صَفِيَّةُ ابْنَةُ عَبْدِالْمُطَّلِبِ يَا بَنِي عَبْدِالْمُطَّلِبِ لاَا أَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللهِ شَيْيًا سَلُونِي مِنْ مَالِي مَا شِيْتُم O Fatimah daughter of Muhammad, O Safiyyah daughter of Abd Al-Muttalib, O Bani Abd Al-Muttalib, I cannot help you before Allah. Ask me for whatever you want of my wealth. This was recorded by Muslim. Imam Ahmad recorded that Qabisah bin Mukhariq and Zuhayr bin `Amr said: "When the Ayah: وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الاْأَقْرَبِينَ (And warn your tribe of near kindred) was revealed, the Messenger of Allah climbed on top of a rock on the side of a mountain and started to call out: يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ إِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ وَإِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَرَجُلٍ رَأَى الْعَدُوَّ فَذَهَبَ يَرْبَأُ أَهْلَهُ يَخْشَى أَنْ يَسْبِقُوهُ فَجَعَلَ يُنَادِي وَيَهْتِفُ يَا صَبَاحَاه O Bani Abd Manaf, I am indeed a warner, and the parable of me and you is that of a man who sees the enemy so he goes to save his family, fearing that the enemy may reach them before he does. And he started to call out, (O people!) It was also recorded by Muslim and An-Nasa'i. Allah's saying: وَتَوَكَّلْ عَلَى الْعَزِيزِ الرَّحِيمِ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٨] ربط مضمون کے لحاظ سے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ ان قریبی رشتہ داروں سے جو آپ پر ایمان لے آئیں اور آپ کی دعوت کو تسلیم کرلیں آپ ان سے تواضع سے پیش آئیے۔ اور جو نہ مانیں انھیں صاف سنا دیجئے کہ قیامت کے دن میں تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔ تمہیں اپنے ان شرکیہ اعمال و افعال کا نتیجہ خود ہی بھگتنا پڑے گا۔ تاہم یہ حکم عام ہے۔ جس میں آپ کے رشتہ دار اور غیر رشتہ دار سب قسم کے لوگ شامل ہیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ ۔۔ : یعنی پھر اگر وہ تیری نافرمانی کریں، تیرے قریب ترین رشتہ دار ہوں یا کوئی اور، تو ان کے ساتھ مومنوں کے لیے نرمی والے معاملے کے بجائے ان سے الگ ہوجا اور کہہ دے کہ تم جس نافرمانی کا ارتکاب کر رہے ہو میں اس سے بری ہوں۔ ممکن ہے تیرا لاتعلقی کا اعلان ہی انھیں واپس لے آئے، یا کم از کم تو اللہ کے ہاں بری ہوجائے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاِنْ عَصَوْكَ فَقُلْ اِنِّىْ بَرِيْۗءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ۝ ٢١٦ۚ عصا العَصَا أصله من الواو، وعَصَى عِصْيَاناً : إذا خرج عن الطاعة، وأصله أن يتمنّع بِعَصَاهُ. آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] . ( ع ص ی ) العصا ( لاٹھی ) یہ اصل میں ناقص وادی ہے۔ عصی عصیانا کے معنی اطاعت سے نکل جانے کے ہیں دراصل اس کے معنی ہیں اس نے لاٹھی ( عصا ) سے اپنا بچاؤ کیا ۔ قرآن میں ہے : آلْآنَ وَقَدْ عَصَيْتَ قَبْلُ [يونس/ 91] ( جواب ملا کہ ) اب ( ایمان لاتا ہے ) حالانکہ تو پہلے نافرمانی کرتا رہا ۔ برأ أصل البُرْءِ والبَرَاءِ والتَبَرِّي : التقصّي مما يكره مجاورته، ولذلک قيل : بَرَأْتُ من المرض وبَرِئْتُ من فلان وتَبَرَّأْتُ وأَبْرَأْتُهُ من کذا، وبَرَّأْتُهُ ، ورجل بَرِيءٌ ، وقوم بُرَآء وبَرِيئُون . قال عزّ وجلّ : بَراءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ [ التوبة/ 1] ، ( ب ر ء ) البرء والبراء والتبری کے اصل معنی کسی مکردہ امر سے نجات حاصل کرتا کے ہیں ۔ اس لئے کہا جاتا ہے ۔ برءت من المریض میں تندرست ہوا ۔ برءت من فلان وتبرءت میں فلاں سے بیزار ہوں ۔ ابررتہ من کذا وبرء تہ میں نے اس کو تہمت یا مرض سے بری کردیا ۔ رجل بریء پاک اور بےگناہ آدمی ج برآء بریئوں قرآن میں ہے ؛۔ { بَرَاءَةٌ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ } ( سورة التوبة 1) اور اس کے رسول کی طرف سے بیزاری کا اعلان ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢١٦ (فَاِنْ عَصَوْکَ فَقُلْ اِنِّیْ بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ ) ” سورۃ الکافرون میں بھی اسی طرح دو ٹوک انداز میں حکم دیا گیا ہے : (قُلْ یٰٓاَیُّہَا الْکٰفِرُوْنَ ۔ لَآ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ ۔ وَلَآ اَنْتُمْ عٰبِدُوْنَ مَآاَعْبُدُ ) ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہہ دیجیے کہ اے کافرو ! میں عبادت نہیں کرتا اس کی جس کی تم لوگ عبادت کرتے ہو۔ اور نہ تم عبادت کرنے والے ہو اس کی جس کی میں عبادت کرتا ہوں “۔ اور پھر آخر میں بہت واضح طور پر اعلان براءت کردیا گیا : (لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ ) ” تمہارے لیے تمہارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔ “

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

136 This can have two meanings: (1) "Treat those of your relatives with kindness, who have believed in you and followed your teachings practically; as for those who have not accepted your message, you may declare that you are not responsible for what they do." (2) "You should treat with kindness every such person, who believes in and obeys you, and you should warn every unbeliever that you take no responsibility for his actions." This verse shows that at that tune there were some people among the Quraish and the neighbouring Arabs, who had believed in the truth of the Holy Prophet's message; but they had not as yet started obeying his teachings practically. They were still, as usual, living the same life of unbelief among their people as were the other unbelievers. Allah set apart such believers from those true believers who after belief had adopted total obedience of the Holy Prophet. The Command "to treat with kindness" was meant only for the latter group. As for those who had turned away from his obedience, and who included both those who believed in the truth of his message and those who rejected it, the Holy Prophet was instructed to disown them, and tell them plainly that they themselves were responsible for their deeds, and that after giving them the warning he was not at all responsible for what they did.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :136 اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ تمہارے رشتہ داروں میں سے جو لوگ ایمان لا کر تمہاری پیروی اختیار کریں ان کے ساتھ نرمی اور ملاطفت اور تواضع کا رویہ اختیار کرو ، اور جو تمہاری بات نہ مانیں ان سے اعلان برأت کر دو ۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ارشاد صرف ان رشتہ داروں سے متعلق نہ ہو جنہیں متنبہ کرنے کا حکم دیا گیا تھا ، بلکہ سب کے لیے عام ہو ۔ یعنی جو بھی ایمان لا کر تمہارا اتباع کرے اس کے ساتھ تواضع برتو اور جو بھی تمہاری نافرمانی کرے اس کو خبردار کر دو کہ تیرے اعمال سے میں بری الذمّہ ہوں ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت قریش اور آس پاس کے اہل عرب میں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کے قائل ہو گئے تھے ، مگر انہوں نے عملاً آپ کی پیروی اختیار نہ کی تھی ، بلکہ وہ بد ستور اپنی گمراہ سوسائٹی میں مل جل کر اسی طرح کی زندگی بس کر رہے تھے جیسی دوسرے کفار کی تھی ۔ اللہ تعالیٰ نے اس قسم کے ماننے والوں کو ان اہل ایمان سے الگ قرار دیا جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت تسلیم کرنے کے بعد آپ کا اتباع بھی اختیار کر لیا تھا ۔ تواضع برتنے کا حکم صرف اسی مؤخر الذکر گروہ کے لیے تھا ۔ باقی رہے وہ لوگ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فرماں برداری سے منہ موڑے ہوئے تھے ، جن میں آپ کی صداقت کو ماننے والے بھی شامل تھے اور آپ کا انکار کر دینے والے بھی ، ان کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی گئی کہ ان سے بے تعلقی کا اظہار کر دو اور صاف صاف کہہ دو کہ اپنے اعمال کا نتیجہ تم خود بھگتو گے ، تمہیں خبردار کر دینے کے بعد اب مجھ پر تمہارے کسی فعل کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:216) عصوک : عصوا ماضی کا صیغہ جمع مذکر غائب ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ عصوا معصیۃ اور عصیان مصدر سے ہے۔ عصوا دراصل عصیوا تھا یاء متحرک ماقبل مفتوح اس لئے یاء کو الف سے بدلا۔ واؤ اور یاء دو ساکن جمع ہوئے لہٰذا الف جو یاء کے بدل میں تھا گرگیا۔ اور عصوا رہ گیا۔ انہوں نے تیرا کہنا نہ مانا۔ انہوں نے تیری نافرمانی کی۔ انہوں نے تیری اطاعت نہ کی ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

8 ۔ یعنی تمہارے برے کاموں کا مواخذہ تمہی سے ہوگا۔ میں اس سے بری الذمہ ہوں۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ا لدّاعی کا کام بار بار دعوت دینا ہے اگر لوگ نہیں مانتے تو اسے اپنے رب کے ساتھ نماز میں رابطہ رکھنا اور اسی پر توکل کرنا چاہیے کیونکہ وہ ہر بات پر غالب اور مہربان ہے۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رات کی تاریکیوں میں رو، رو کر دعائیں کرتے کہ بار الٰہا ! ان لوگوں کو ہدایت سے سرفراز فرما دے۔ لوگ ہدایت حاصل کرنے کی بجائے گمراہی میں آگے بڑھے جا رہے تھے، جس پر آپ کو انتہائی غم ہوتا، اس صورت حال کے پیش نظر آپ کو دو طرح سے تسلی دی گئی۔ ان لوگوں سے کھلے الفاظ میں کہہ دیں کہ میں تمہارے اعمال کا ذمہ دار نہیں ہوں اور نہ میں تم سے ڈرتا ہوں۔ کیونکہ میرا بھروسہ ” اللہ “ پر ہے وہی مجھے کافی ہے۔ چاہے گا تو حق کو غلبہ عطا فرمائے گا وہ نہایت ہی مہربان ہے اور وہ مجھے ہر حال میں دیکھ رہا ہے۔ الدّاعی کا کام لوگوں کو سمجھانا ہے اگر اس کے مخاطب سمجھنے کے لیے تیار نہ ہوں تو اسے دل گرفتہ ہونے اور لوگوں کے ساتھ الجھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہر کسی نے اپنے عمل کا جواب دینا ہے۔ یہی بات سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سمجھائی گئی کہ ایمان نہ لانے والوں کو یہ بتلائیں کہ میں تمہارے اعمال سے برئ الذمہ ہوں۔ مجھے حکم ہے میں اپنے رب پر بھروسہ کروں۔ جو ہر بات پر غالب اور نہایت مہربان ہے۔ اس کا یہ بھی فرمان ہے کہ جب میں کھڑا ہوں یا چلتا پھرتا یا اس کے حضور سجدہ کررہا ہوں۔ وہ مجھے ہر حال میں دیکھ رہا ہوتا ہے اور میری دعا کو سنتا اور اسے اچھی طرح جانتا ہے۔ اس سے پہلے آپ کو حکم دیا گیا ہے اللہ پر توکل کرتے ہوئے آپ ان لوگوں کے فکر و عمل سے برأت کا اعلان کریں پھر آپ کو اطمینان دلایا گیا کہ، آپ نماز میں کھڑے ہوں یا بازار میں چلتے پھرتے ہوں یا اپنے رب کے حضور سجدہ کررہے ہوں آپ کا رب آپ کو ہر حال میں جانتا اور آپ کی ہر بات کو سننے والا ہے۔ اسی بات کو گیا رھویں پارے میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ ” اے نبی تم جس حال میں بھی ہوتے ہو، اور قرآن سے جو بھی سناتے ہو اور ( لوگو) جو کام بھی تم کر رہے ہوتے ہو، ہم ہر وقت تمہارے سامنے موجود ہوتے ہیں جبکہ تم اس میں مشغول ہوتے ہو، زمین اور آسمان میں کوئی زرہ برابر چیز بھی ایسی نہیں جو آپ کے رب سے چھپی ہو۔ ذرہ سے بھی چھوٹی یا اس سے بڑی کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو لوح محفوظ میں درج نہ ہو۔ “ (یونس : ٦١) ” حضرت موسیٰ اور ہارون کو حکم ہوا کہ فرعون کے پاس جاؤ وہ سرکش ہے۔ اس سے نرمی کے ساتھ بات کرنا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ نصیحت قبول کرے یا ڈر جائے۔ دونوں نے عرض کی پروردگار ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا ہم پر ٹوٹ پڑے گا۔ فرمایا ڈرو نہیں میں تمہارے ساتھ ہوں سب کچھ سن رہا ہوں اور سب کچھ دیکھ رہا ہوں۔ “ (طٰہٰ : ٤٣ تا ٤٦) عبادات میں سب سے افضل عبادت فرض نماز ہے۔ فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز تہجد کی نماز ہے۔ جسے نفل نماز قرار دیا گیا ہے۔ نفل کا معنٰی ہوتا ہے ” زائد “ رسول محترم نے نوافل کا فائدہ ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن فرض نماز کی کمی، بیشی نفل نماز سے پوری کی جائے گی۔ بعض اہل علم کے نزدیک پہلے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تہجد فرض تھی۔ بعد ازاں اسے نفل قرار دے دیا گیا۔ تہجد کا لفظ ” جہد “ سے نکلا ہے۔ جس کا مطلب ہے۔ ” نیند کے بعد بیدار ہونا “ ظاہر ہے یہ کام ہمت اور کوشش کے بغیر نہیں ہوتا۔ اس لیے کچھ اہل علم ضروری سمجھتے ہیں کہ تہجد کچھ دیر سونے کے بعداٹھ کر پڑھنی چاہیے۔ ان کے بقول سونے سے پہلے پڑھے جانے والے عام نوافل ہوں گے یہ تہجد شمار نہیں ہوتے۔ لیکن احادیث سے ثابت ہے کہ آدمی اپنی صحت اور فرصت کے مطابق رات کے کسی پہر میں تہجد پڑھ سکتا ہے۔ البتہ تہجد کے لیے افضل ترین وقت آدھی رات کے بعد ہے۔ (تَتَجَا فٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّھُمْ خَوْفًا وَّطَمَعاً وَّمِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ) [ السجدۃ : ١٦] ” وہ اپنے بستروں سے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو ہم نے انہیں دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں۔ “ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ رب تعالیٰ رات کے آخری حصے میں آسمان دنیا پر تشر یف لاکر فرماتا ہے : کون ہے مجھ سے طلب کرئے میں اسکو عطاکروں اور کون ہے جو مجھ سے بخشش اور مغفرت چاہے میں اسکوبخش دوں۔ “ [ رواہ البخاری : باب التحریض علی قیام الیل ] مسائل ١۔ کوئی شخص دوسرے کے اعمال کا ذمہ دار نہیں ہے۔ ٢۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہر وقت اپنے رب کی نگرانی میں ہوا کرتے تھے۔ ٣۔ آدمی کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہیے وہ ہر بات پر غالب اور مہربان ہے۔ ٤۔ انسان جس حالت میں ہو، اللہ تعالیٰ اسے دیکھتا، جانتا اور اس کی ہر بات کو سنتا ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فان عصوک قفل انی بربی مما تعلمون (٦٢ : ٦١٢) ” ۔ “ یہ روش مکہ میں تھی ، اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو الل ہیک راہ میں لڑنے کی اجازت نہ تھی۔ اب قرآن کریم آپ کو اللہ کی طرف متوجہ کرتا ہے اور یہ تسلی دیتا ہے کہ اللہ بروقت آپ کا نگران ہے اور بہت قریب سے دیکھ رہا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(216) پھر جن لوگوں کو آپ ڈرائیں وہ اگر آپ کا کہنا نہ مانیں اور آپ کی نافرمانی کریں تو آپ ان سے فرما دیجئے کہ تم جو افعال کر رہے ہو میں تمہارے اعمال سے بیزار اور بری الذمہ ہوں۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی خلاف حکم جو کوئی کرے اس سے تو بیزار ہوجا اپنا ہو یا پرایا 12