Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 217

سورة الشعراء

وَ تَوَکَّلۡ عَلَی الۡعَزِیۡزِ الرَّحِیۡمِ ﴿۲۱۷﴾ۙ

And rely upon the Exalted in Might, the Merciful,

اپنا پورا بھروسہ غالب مہربان اللہ پر رکھ ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And put your trust in the All-Mighty, the Most Merciful, means, `in all your affairs, for He is your Helper, Protector and Supporter, and He is the One Who will cause you to prevail and will make your word supreme.' الَّذِي يَرَاكَ حِينَ تَقُومُ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٢٩] یعنی اس اللہ پر بھروسہ کیجئے جو نہ ماننے والوں اور اس راہ میں روڑے انکانے والوں پر غالب ہے اور انھیں سزا دینے کی پوری قدرت رکھتا ہے اور مومنوں کے حق میں جو کافروں کے ہاتھوں نشانہ ستم بنے ہوئے ہیں۔ رحیم بھی ہے وہ ان مظلوموں کی ضرور مدد کرے گا۔ اور ان کی محنتوں اور قربانیوں کا انھیں پورا بدلہ عطا کرنے کے علاوہ انھیں اپنے انعامات سے بھی نوازے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

ۚ وَتَوَكَّلْ عَلَي الْعَزِيْزِ الرَّحِيْمِ : جب ہر نافرمانی کرنے والے سے براءت کا اعلان کرنے کا حکم دیا تو ساتھ ہی فرمایا کہ نافرمانی کرنے والے کوئی ہوں یا کتنے ہوں، تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے، اس لیے سب سے بیزار ہو کر اس مالک پر بھروسا رکھ، جو عزیز (سب پر غالب) بھی ہے کہ اس کے مقابلے میں کسی کی پیش نہیں جاتی اور رحیم (بےحد رحم والا) بھی کہ اس کی بےحساب رحمت ہمیشہ اپنوں پر متوجہ رہتی ہے۔ توکل کا معنی اپنا کام اس کے سپرد کردینا جس کے متعلق یقین ہو کہ وہ اس کے لیے کافی ہوجائے گا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَتَوَكَّلْ عَلَي الْعَزِيْزِ الرَّحِيْمِ۝ ٢١٧ۙ وكل والتَّوَكُّلُ يقال علی وجهين، يقال : تَوَكَّلْتُ لفلان بمعنی: تولّيت له، ويقال : وَكَّلْتُهُ فَتَوَكَّلَ لي، وتَوَكَّلْتُ عليه بمعنی: اعتمدته قال عزّ وجلّ : فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] ( و ک ل) التوکل ( تفعل ) اس کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ اول ( صلہ لام کے ساتھ ) توکلت لفلان یعنی میں فلاں کی ذمہ داری لیتا ہوں چناچہ وکلتہ فتوکل لی کے معنی ہیں میں نے اسے وکیل مقرر کیا تو اس نے میری طرف سے ذمہ داری قبول کرلی ۔ ( علیٰ کے ساتھ ) توکلت علیہ کے معنی کسی پر بھروسہ کرنے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [ التوبة/ 51] اور خدا ہی پر مومنوں کو بھروسہ رکھنا چاہئے ۔ عزیز ، وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] ، يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزۃ العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ )

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

137 That is, "You should not care at all for any worldly power, howsoever big and strong, but should continue to perform your mission with complete trust in that Being Who is Mighty as well as Merciful. He is Mighty and, therefore, anybody enjoying His support, cannot be overcome by any other power; He is Merciful and, therefore, He will not let go waste the sacrifices and efforts of the one who struggles for the sake of raising His Word in the world. "

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :137 یعنی دنیا کی کسی بڑی سے بڑی طاقت کی بھی پروا نہ کرو اور اس ذات کے بھروسے پر اپنا کام کیے چلے جاؤ جو زبردست بھی ہے اور رحیم بھی ۔ اس کا زبردست ہونا اس بات کی ضمانت ہے کہ جس کی پشت پر اس کی تائید ہو اسے دنیا میں کوئی نیچا نہیں دکھا سکتا ۔ اور اس کا رحیم ہونا اس اطمینان کے لیے کافی ہے کہ جو شخص اس کی خاطر اعلائے کلمۃ الحق کے کام میں جان لڑائے گا اس کی کوششوں کو وہ کبھی رائیگاں نہ جانے دے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

و توکل ……العلیم (٦٢ : ٢٢) ” ان کو ان کی نافرمانیوں کے اندر چھوڑ دیں اور ان کے اعمال سے اپنی برات کا اظہار کردیں اور اپنے رب پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی طرف متوجہ ہوں اور ہر معاملے میں رب مکریم سے استعانت طلب فرمائیں۔ یہاں اللہ کی دو صفات بیان کی گئی ہیں جو اس سورت میں بار بار آتی ہیں یعنی صفت عزت اور صفت رحمت اس کے بعد قلب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو انس اور محبت کا شعور دیا جاتا ہے کہ تمہارا رب تمہیں اس وقت بھی دیکھ رہا ہے جب تم اکیلے نماز میں ہوتے ہو اور اس وقت بھی دیکھ رہا ہے جب تم نمازیوں کے اندر ہوتے ہو۔ یعنی وحدت کی حالت میں بھی تمہیں دیکھ رہا ہے اور اجتماعی حالت میں بھی اس کی نظر تم پر ہے۔ یعنی جب تم ساجدین یعنی اہل ایمان کے اندر ہوتے ہو ، ان کی تربیت کرتے ہو ، ان کی امامت کرتے اور انہیں خطبہ دیتے ہو ، اللہ آپ کی حرکات و سکناء کی نگرانی کر رہا ہے اور آپ کے دعوتی کام اور درپیش خطرات کو بھی دیکھ رہا ہے وہ سمیع و علم ہے۔ اس انداز تعبیر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اندر یہ شعور پیدا کرنا مطلوب ہے کہ اللہ آپ کے قریب ہے ، دیکھ رہا ہے اور عنایات کر رہا ہے۔ یوں رسول اللہ یہ یقین رکھتے تھے کہ آپ اللہ کی حفاظت میں ہیں۔ اللہ کے جوار رحمت میں ہیں۔ چناچہ اس خوشگوار ماحول محبوت میں آپ زندگی بسر کرتے تھے۔ اس سورت کا یہ آخری سبق زیادہ تر قرآن کے بارے میں ہے۔ اس کے بارے میں ایک تاکید تو یہ کی گئی کہ یہ رب العالمین کی طر سے ہے۔ دوسری یہ کہ روح للامین اسے لے کر آئے تیسری یہ کہ اس کے نزول میں شیاطین کا کوئی دخل نہیں ہو سکتا اور یہاں پھر تاکید کی جاتی ہی کہ شیاطین حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کیسے اتر سکتے ہیں۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تو سچے ، امین اور ایک پاک و صاف زندگی بسر کرنے والے ہیں۔ شیاطین تو جھوٹوں ، کذابوں ، بدکرداروں اور دھوکہ باز کاہنوں پر اترتے ہیں اور یہ تو کاہن اور گمراہ مذہبی پیشوا ہیں جو شیطانی باتیں لے کر اور ان میں رنگ بھر کر عوام کو گمراہ کرتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(217) اور آپ اس زبردست اور بہت رحم کرنے والے پر بھروسہ رکھیے اور توکل کیجئے۔