Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 29

سورة الشعراء

قَالَ لَئِنِ اتَّخَذۡتَ اِلٰـہًا غَیۡرِیۡ لَاَجۡعَلَنَّکَ مِنَ الۡمَسۡجُوۡنِیۡنَ ﴿۲۹﴾

[Pharaoh] said, "If you take a god other than me, I will surely place you among those imprisoned."

فرعون کہنے لگا سن لے! اگر تو نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تجھے قیدیوں میں ڈال دونگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

After the Rational Proof, Fir`awn resorts to Force Allah tells: قَالَ ... He (Fir`awn) said: When proof had been established against Fir`awn, clearly and rationally, he resorted to using force against Musa, thinking that after this there would no further room for discussion. So he said: ... لَيِنِ اتَّخَذْتَ إِلَهًا غَيْرِي لاََجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُونِينَ If you choose a god other than me, I will certainly put you among the prisoners. To this, Musa responded: قَالَ أَوَلَوْ جِيْتُكَ بِشَيْءٍ مُّبِينٍ

فرعون اور موسیٰ علیہ السلام کا مباحثہ جب مباحثے میں فرعون ہارا دلیل وبیان میں غالب نہ آسکا تو قوت وطاقت کا مظاہرہ کرنے لگا اور سطوت وشوکت سے حق کو دبانے کا ارادہ کیا اور کہنے لگا کہ موسیٰ علیہ السلام میرے سوا کسی اور کو معبود بنائے گا تو جیل میں سڑا سڑا کر تیری جان لے لونگا ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی چونکہ وعظ ونصیحت کر ہی چکے تھے آپ نے بھی ارادہ کیا کہ میں بھی اسے اور اس کی قوم کو دوسری طرح قائل کروں تو فرمانے لگے کیوں جی میں اگر اپنی سچائی پر کسی ایسے معجزے کا اظہار کروں کہ تمہیں بھی قائل ہونا پڑے تب؟ فرعون سو اس کے کیا کرسکتا تھا کہ کہا اچھا اگر سچا ہے تو پیش کر ۔ آپ نے سنتے ہی اپنی لکڑی جو آپ کے ہاتھ میں تھی ہی اسے زمین پر ڈال دیا ۔ بس اس کا زمین پر گرنا تھا کہ وہ ایک اژد ہے کی شکل بن گئی ۔ اور اژدہا بھی بہت بڑا تیز کچلیوں والا ہیبت ناک ڈراؤنی اور خوفناک شکل والا منہ پھاڑے ہوئے پھنکارتاہوا ۔ ساتھ ہی اپنے گریبان میں اپنا ہاتھ ڈال کر نکالا تو وہ چاند کی طرح چمکتا ہوا نکلا ۔ فرعون کی قسمت چونکہ ایمان سے خالی تھی ایسے واضح معجزے دیکھ کر بھی اپنی بدبختی پر اڑا رہا اور تو کچھ بن نہ پڑا اپنے ساتھیوں اور درباریوں سے کہنے لگا کہ یہ تو جادوکے کرشمے ہیں ۔ بیشک اتنا تو میں بھی مان گیا کہ یہ اپنے فن جادوگری میں استاد کامل ہے ۔ پھر انہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دشمنی پر آمادہ کرنے کے لئے ایک اور بات بنائی کہ یہ ایسے ہی شعبدے دکھا دکھا کر لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلے گا ۔ اور جب کچھ لوگ اس کے ساتھی ہوجائیں گے تو یہ علم بغاوت بلند کردے گا پھر تمہیں مغلوب کرکے اس ملک میں قبضہ کرلے گا تو اس کے استحصال کی کوشش ابھی سے کرنی چاہئے ۔ بتلاؤ تمہاری رائے کیا ہے؟ اللہ کی قدرت دیکھو کہ فرعونیوں سے اللہ نے وہ بات کہلوائی جس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عام تبلیغ کا موقعہ ملے اور لوگوں پر حق واضح ہوجائے ۔ یعنی جادوگروں کو مقابلہ کے لئے بلوانا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

291فرعون نے دیکھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) مختلف انداز سے رب العالمین کی ربوبیت کامل کی وضاحت کر رہے ہیں جس کا کوئی معقول جواب اس سے نہیں بن پا رہا ہے۔ تو اس نے دلائل سے صرف نظر انداز کرکے دھمکی دینی شروع کردی اور موسیٰ (علیہ السلام) کو قید کرنے سے ڈرایا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٢] دنیا میں جتنے بھی مشرکین یا خدائی کے دعویٰ دار گزار ہیں۔ وہ سب یہ بات تسلیم کرتے تھے کہ اس کائنات کا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ فرعون کا بھی یہی حال تھا وہ خدائی کا دعویدار صرف ان معنوں میں تھا کہ وہ اپنے سیاسی اقتدار میں کسی بالاتر ہستی کی مداخلت کا قائل نہ تھا۔ بالفاظ دیگر وہ اللہ تعالیٰ کے اس پوری کائنات کے خالق ومالک ہونے کا تو قائل تھا مگر اس کی قانونی یا سیاسی حاکمیت کا قائل نہ تھا۔ اور اپنی مملکت میں اپنے قانون کو ہی بالاتر قانون سمجھتا تھا۔ اور اپنی رعیت کو بھی اسی راستے پر لگائے ہوئے تھا۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے مطالبہ کیا تھا وہ براہ راست اس کے قانونی اور سیاسی اختیارات پر حملہ تھا۔ لہذا اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کو حکومت کے باغی قرار دیتے ہوئے یہ دھمکی دی کہ اگر تم اپنے مطالبہ سے باز نہ آئے تو میں تمہیں ملکی قانون بغاوت کے جرم میں قید میں ڈال دوں گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ لَىِٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰــهًا غَيْرِيْ ۔۔ : ہر ظالم و جابر اور باطل کے علم بردار حکمران کا وتیرہ ہے کہ جب وہ دلیل کے میدان میں شکست کھاتا ہے تو آخری حربے کے طور پر طاقت کے استعمال کی دھمکی دیتا ہے کہ یا تو ہمارے غلط کو بھی صحیح مانو، ورنہ سزا کے لیے تیار ہوجاؤ۔ فرعون نے بھی آخر میں صاف کہہ دیا کہ مصر میں میرے سوا کوئی خدا نہیں اور نہ کسی کا حکم چلے گا، اگر میرے سوا کسی اور معبود کی حکومت مانی تو تمہارے لیے قید خانہ تیار ہے۔ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِيْنَ : فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ کہنے کے بجائے کہ ” لَأَسْجُنَنَّکَ “ (میں تجھے قید کر دوں گا) یہ کہا کہ ” میں تجھے قید کیے ہوئے لوگوں میں شامل کر دوں گا۔ “ اس میں وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو نہایت خوفناک نتیجے سے ڈرا رہا تھا کہ ان لوگوں کا حال دیکھ لو جنھیں میں نے قید کر رکھا ہے، تمہیں بھی ان کے ساتھ شامل کر دوں گا۔ واضح رہے کہ آخرت کا منکر اور جواب دہی کے احساس سے عاری ہونے کی وجہ سے فرعون نہایت سنگدل تھا اور انسانیت اور رحم سے یکسر ناآشنا تھا، وہ اپنے مخالفوں سے قید خانے میں جو سلوک کرتا ہوگا بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کرنے کو پیش نظر رکھ کر اس کا تصور کچھ مشکل نہیں۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ لَىِٕنِ اتَّخَذْتَ اِلٰــہًا غَيْرِيْ لَاَجْعَلَنَّكَ مِنَ الْمَسْجُوْنِيْنَ۝ ٢٩ أخذ ( افتعال، مفاعله) والاتّخاذ افتعال منه، ويعدّى إلى مفعولین ويجري مجری الجعل نحو قوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصاری أَوْلِياءَ [ المائدة/ 51] ، أَمِ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ [ الشوری/ 9] ، فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا [ المؤمنون/ 110] ، أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ : اتَّخِذُونِي وَأُمِّي إِلهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ [ المائدة/ 116] ، وقوله تعالی: وَلَوْ يُؤاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ [ النحل/ 61] فتخصیص لفظ المؤاخذة تنبيه علی معنی المجازاة والمقابلة لما أخذوه من النعم فلم يقابلوه بالشکر ( اخ ذ) الاخذ الاتخاذ ( افتعال ) ہے اور یہ دو مفعولوں کی طرف متعدی ہوکر جعل کے جاری مجری ہوتا ہے جیسے فرمایا :۔ { لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى أَوْلِيَاءَ } ( سورة المائدة 51) یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ۔ { وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِيَاءَ } ( سورة الزمر 3) جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ۔ { فَاتَّخَذْتُمُوهُمْ سِخْرِيًّا } ( سورة المؤمنون 110) تو تم نے اس تمسخر بنالیا ۔ { أَأَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَهَيْنِ } ( سورة المائدة 116) کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری والدہ کو معبود بنا لو ۔ اور آیت کریمہ : { وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ } ( سورة النحل 61) میں صیغہ مفاعلہ لاکر معنی مجازات اور مقابلہ پر تنبیہ کی ہے جو انعامات خدا کی طرف سے انہیں ملے ان کے مقابلہ میں انہوں نے شکر گذاری سے کام نہیں لیا ۔ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ غير أن تکون للنّفي المجرّد من غير إثبات معنی به، نحو : مررت برجل غير قائم . أي : لا قائم، قال : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] ، ( غ ی ر ) غیر اور محض نفی کے لئے یعنی اس سے کسی دوسرے معنی کا اثبات مقصود نہیں ہوتا جیسے مررت برجل غیر قائم یعنی میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھڑا نہیں تھا ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَواهُ بِغَيْرِ هُدىً مِنَ اللَّهِ [ القصص/ 50] اور اس سے زیادہ کون گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے چلے جعل جَعَلَ : لفظ عام في الأفعال کلها، وهو أعمّ من فعل وصنع وسائر أخواتها، ( ج ع ل ) جعل ( ف ) یہ لفظ ہر کام کرنے کے لئے بولا جاسکتا ہے اور فعل وصنع وغیرہ افعال کی بنسبت عام ہے ۔ سجن السَّجْنُ : الحبس في السِّجْنِ ، وقرئ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ [يوسف/ 33] ( س ج ن ) السجن ( مصدرن ) قید خانہ میں بند کردینا ۔ اور آیت ۔ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ [يوسف/ 33] اے میرے پروردگار قید خانہ میں رہنا مجھے زیادہ پسند ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٩) آخر فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ اگر تم میرے سوا کوئی اور معبود تجویز کرو گے تو تمہیں جیل خانہ بھیج دوں گا اور اس کی قید قتل کرنے سے زیادہ سخت تھی کیوں کہ جب کسی کو قید کرتا تھا تو دور دراز وحشت ناک تاریک مقام میں ڈال دیا کرتا تھا کہ وہاں نہ کوئی آواز سنائی دیتی تھی اور نہ ہی کوئی چیز نظر آیا کرتی تھی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٩ (قَالَ لَءِنِ اتَّخَذْتَ اِلٰہًا غَیْرِیْ لَاَجْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ ) ” صورت حال فرعون کی برداشت سے باہر ہوگئی تو اس کا غصہ اور مطلق العنانیت کا جلال اس کیّ خفت پر غالب آگیا۔ اس کیفیت میں اس نے گرجتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دھمکی دی ‘ مگر یہ قتل کے بجائے صرف جیل میں ڈالنے کی دھمکی تھی۔ اس سے یوں لگتا ہے جیسے ابھی تک فرعون کے دل میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے کوئی نرم گوشہ موجود تھا اور یہ بالکل فطری بات تھی ‘ کیونکہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بچپن کا ساتھی تھا۔ دونوں اکٹھے کھیلے اور ایک ساتھ پلے بڑھے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) عمر میں بڑے ہونے کی وجہ سے اس کے بڑے بھائی کی طرح تھے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

24 To understated and appreciate this conversation fully, one should bear in mind the fact that as it is today, in the ancient times too, the concept of "deity" was confined to its religious sense only. The deity was meant to be worshipped and presented offerings and gifts, and because of its "supernatural powers" and author ity the people were to pray to it for help and fulfilment of their desires. But a deity's being supreme legally and politically also and his right to enjoin anything he pleased in the mundane affairs and man's duty to submit to his commands as to superior law, has never been recognized by the socalled worldly rulers. They have always claimed that in the mundane affairs, they alone possess absolute authority and no deity has any right to interfere in the polity and law prescribed by them. This very thing has been the real cause of the conflict between the Prophets and their righteous followers, on the one hand, and the worldly kingdoms and governments on the other. The Prophets have been trying their utmost to make the worldly rulers acknowledge the sovereign and absolute rights of the Lord of the Worlds, but they in return have not only been claiming sovereign powers and rights for themselves, but have been considering every such person as a criminal and rebel, who has held someone else as a deity in the political and legal sphere. With this background one can easily understand the real significance of Pharaoh's words. Had it been a question of mere worship and offerings, he would have least bothered that Moses, forsaking all gods, regarded only Allah, the Lord of all Creation, as worthy of those rights. if Moses had invited him to serve Allah alone, he would not have felt provoked and offended. At the most he would have refused to give up the creed of his forefathers, or would have challenged Moses to have a debate with his own religious scholars. But what caused him provocation was that Prophet Moses was presenting himself as the representative of the Lord of all Creation and was conveying to him a political command as if he was a subordinate ruler and the representative of the superior authority was demanding obedience from him to the command. In this sense, he was not prepared to acknowledge any other political or legal authority, nor allow any of his subjects to acknowledge anybody instead of himself as the supreme ruler. That is why he challenged the teen "Lord, of all Creation", for the message sent by Him clearly reflected sovereignty in the political and trot in the mere religious sense. Then, when Prophet Moses explained over and over again what he meant by the "Lord of all Creation", Pharaoh threatened that if he held any one other than him as sovereign in the land of Egypt, he would be cast into prison.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :24 اس گفتگو کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ آج کی طرح قدیم زمانے میں بھی معبود کا تصور صرف مذہبی معنوں تک محدود تھا ۔ یعنی یہ کہ اسے بس پوجا پاٹ اور نذر و نیاز کا استحقاق پہنچتا ہے ، اور اپنے فوق الفطری غلبہ و اقتدار کی وجہ سے اس کا یہ منصب بھی ہے کہ انسان اپنے معاملات میں اس سے استمداد و استعانت کے لیے دعائیں مانگیں ۔ لیکن کسی معبود کی یہ حیثیت کہ وہ قانونی اور سیاسی معنوں میں بھی بالا دست ہے ، اور اسے یہ حق بھی پہنچتا ہے کہ معاملات دنیا میں وہ جو حکم چاہے دے ، اور انسانوں کا یہ فرض ہے کہ اس کے امر و نہی کو قانون برتر مان کر اس کے آگے جھک جائیں ، یہ چیز زمین کے مجازی فرمانرواؤں نے نہ پہلے کبھی مان کر دی تھی ، نہ آج وہ اسے ماننے کے لیے تیار ہیں ۔ وہ ہمیشہ سے یہی کہتے چلے آئے ہیں کہ دنیا کے معاملات میں ہم مختار مطلق ہیں ، کسی معبود کو ہماری سیاست اور ہمارے قانون میں دخل دینے کا حق نہیں ہے ۔ دنیوی حکومتوں اور بادشاہوں سے انبیاء علیہم السلام اور ان کی پیروی کرنے والے مصلحین کے تصادم کی اصل وجہ یہی رہی ہے ۔ انہوں نے ان سے خداوند عالم کی حاکمیت و بالا دستی تسلیم کرانے کی کوشش کی ہے ، اور یہ اس کے جواب میں نہ صرف یہ کہ اپنی حاکمیت مطلقہ کا دعویٰ پیش کرتی رہی ہیں بلکہ انہوں نے ہر اس شخص کو مجرم اور باغی ٹھہرایا ہے جو ان کے سوا کسی اور کو قانون و سیاست کے میدان میں معبود مانے ۔ اس تشریح سے فرعون کی اس گفتگو کا صحیح مفہوم اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے ۔ اگر معاملہ پوجا پاٹ اور نذر و نیاز کا ہوتا تو اس کو اس سے کوئی بحث نہ تھی کہ حضرت موسیٰ دوسرے دیوتاؤں کو چھوڑ کر صرف ایک اللہ رب العالمین کو اس کا مستحق سمجھتے ہیں ۔ اگر صرف اسی معنی میں توحید فی العبادت کی دعوت موسیٰ علیہ السلام نے اس کو دی ہوتی تو اسے غضب ناک ہونے کی کوئی ضرورت نہ تھی ۔ زیادہ سے زیادہ اگر وہ کچھ کرتا تو بس یہ کہ اپنا دین آبائی چھوڑنے سے انکار کر دیتا ، یا حضرت موسیٰ سے کہتا کہ میرے مذہب کے پنڈتوں سے مناظرہ کر لو ۔ لیکن جس چیز نے اسے غضبناک کر دیا وہ یہ تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے رب العالمین کے نمائندے کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کر کے اسے اس طرح ایک سیاسی حکم پہنچایا کہ گویا وہ ایک ماتحت حاکم ہے اور ایک حاکم برتر کا پیغامبر آ کر اس سے اطاعت امر کا مطالبہ کر رہا ہے ۔ اس معنی میں وہ اپنے اوپر کسی کی سیاسی و قانونی برتری ماننے کے لیے تیار نہ تھا ، بلکہ وہ یہ بھی گوارا نہ کر سکتا تھا کہ اس کی رعایا میں سے کوئی فرد اس کے بجائے کسی اور کو حاکم برتر مانے ۔ اسی لیے اس نے پہلے رب العالمین کی اصطلاح کو چیلنج کیا ، کیونکہ اس کی طرف سے لائے ہوئے پیغام میں محض مذہبی معبودیت کا نہیں بلکہ کھلا کھلا سیاسی اقتدار اعلیٰ کا رنگ نظر آتا تھا ۔ پھر جب حضرت موسیٰ نے بار بار تشریح کر کے بتایا کہ جس رب العالمین کا پیغام وہ لائے ہیں وہ کون ہے ، تو اس نے صاف صاف دھمکی دی کہ ملک مصر میں تم نے میرے اقتدار اعلیٰ کے سوا کسی اور کے اقتدار کا نام بھی لیا تو جیل کی ہوا کھاؤ گے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:29) لاجعلنک۔ لام تاکید کا ہے۔ اجعلن مضارع بانون ثقیلہ صیغہ واحد متکلم ک ضمیر مفعول واحد مذکر حاضر۔ تو میں ضرور بالضرور تمہیں بنا دوں گا۔ المسجونین۔ اسم مفعول جمع مذکر۔ قیدی۔ المسجون واحد سجن یسجن (نصر) سجن سے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ ہر ظالم و جابر حکمران اور مدعی باطل کا قاعدہ ہے کہ جب وہ دلیل کے میدان میں شکست کھا جاتا ہے تو آخری پناہ گاہ کے طور پر طاقت کے استعمال کی دھمکی دینے لگتا ہے۔ چناچہ یہی دھمکی فرعون نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو دی۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : فرعون نے اپنے اقتدار کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعوت کو چیلنج سمجھا اس لیے اس نے موسیٰ (علیہ السلام) کو قید و بند کی دھمکی دی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بڑے حوصلہ اور دانش مندی کے ساتھ فرعون کو لاجواب کردیا۔ فرعون نے ذلّت محسوس کرتے ہوئے دلائل کا جواب دلائل سے دینے کی بجائے نہ صرف موسیٰ (علیہ السلام) کو بھرے دربار میں پاگل بلکہ جیل کی سلاخوں میں بند کرنے کی دھمکی دی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کمال ذہانت اور بردباری سے فرعون کو پھر دلائل کے میدان میں کھینچ لائے۔ ارشاد فرمایا کیا میں اپنے دعویٰ کے جواب میں کھلے دلائل پیش کروں تو پھر بھی آپ اسے ماننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے ؟ فرعون نے مجبور ہو کر کہا کیوں نہیں اگر تو اپنے دعوے میں سچا ہے تو دلیل پیش کر۔ یہی موسیٰ (علیہ السلام) چاہتے تھے جو نہی فرعون نے نشانی کا مطالبہ کیا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا زمین پردے مارا۔ عصا زمین پر گرتے ہی بڑے اژدھا کی طرح پھنکارنے لگا ظاہر بات ہے کہ فرعون اور اس کے حواریوں کے حواس باختہ ہوگئے اور انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ برائے کرم اس اژدھا کو قابوکیجیے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) آگے بڑھے اژدھا کو ہاتھ ڈالا تو وہ پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ اس کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا ہاتھ اپنی بغل میں کر نکالا تو وہ اس طرح روشن ہوا کہ فرعون اور اس کے درباریوں کی آنکھوں چندھیا گئیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ فرعون اور اس کے درباری حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے آتے۔ لیکن فرعون نے اپنے آپ پر قابو پاتے ہوئے پوری مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا یہ تو بہت بڑا جادو گر ہے۔ مسائل ١۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بڑی دانش مندی کے ساتھ فرعون کو دلائل کے میدان میں لے آئے۔ ٢۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا ید بیضا اور عصا کے عظیم معجزے دکھائے۔ ٣۔ فرعون نے ایمان لانے کی بجائے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جادو گر ہونے کا الزام لگایا۔ تفسیر بالقرآن انبیاء کرام (علیہ السلام) پر جادو گر ہونے کا الزام : ١۔ آل فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جادو گرہونے کا الزام لگایا۔ (القصص : ٣٦) ٢۔ کفار نے تمام انبیاء (علیہ السلام) کو جادوگر اور دیوانہ قرار دیا۔ (الذاریات : ٥٢) ٣۔ کفار کے پاس حق بات آئی تو انھوں نے اسے جادو قرار دیا۔ (سباء : ٤٣) ٤۔ حضرت صالح اور حضرت شعیب کو جادو زدہ کہا گیا۔ (الشعرآء : ١٥٣۔ ١٨٥) ٥۔ جب لوگوں کے پاس حق آیا تو انھوں نے کہا یہ تو جادو ہے۔ ہم اسے نہیں مانتے۔ (الزخرف : ٣٠) ٦۔ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اہل مکہ نے جادوگر کہا۔ ( الصّٰفٰت : ٦) ٧۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جادو زدہ کہا گیا۔ (الفرقان : ٨۔ بنی اسرائیل : ٤٧) ٨۔ کیا قرآن جادو ہے یا تم غور نہیں کرتے۔ (الطور : ١٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال لئن اتخذت الھا غیری لاجعلنک من المسجونین (٢٩) یہ ہے سرکشوں کی دل یل اور حجت۔ یہ کہ تمہیں جیل میں ڈال دیا جائے گا۔ جیل تو تیار ہے اور دور بھی نہیں ہے اور نہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب سرکش عاجز آجاتے ہیں اور جب ان کو احساس ہوجاتا ہے کہ ان کا موقف تو سچائی کے مقابلے میں کمزور پڑ رہا ہے کیونکہ سچائی ہمیشہ جارح ہوتی ہے تو پھر لاجواب سرکشوں کا قدیم زمانے سے یہ آخری ہتھیار ہوتا ہے ۔ اور آج تک یہ آخری ہتھیار استعمال ہوتا ہے۔ لیکن حضرت موسیٰ حوصلہ نہیں ہارتے۔ آخر وہ رسول برحق ہیں۔ ان کے اور ان کے بھائی کے ساتھ ، اللہ بھی کھڑا ہے اور دیکھ رہا ہے چناچہ فرعون جس بحث کا سلسلہ ختم کرنا چاہتا تھا حضرت موسیٰ اس کا دوسرا باب کھول دیتے ہیں۔ آپ ایک نئے موضوع پر سوال کردیتے ہیں۔ ایک نیا استدلال

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(29) فرعون نے اس پر قانونی دھمکی دیتے ہوئے کہا اگر اے موسیٰ (علیہ السلام) میرے سوا تو نے کوئی اور معبود تجویز کیا اور کسی اور معبود کا دعویٰ کیا تو میں تجھ کو قیدیوں میں شامل کروں گا یعنی قید خانے میں بند کردوں گا۔