Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 34

سورة الشعراء

قَالَ لِلۡمَلَاِ حَوۡلَہٗۤ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیۡمٌ ﴿ۙ۳۴﴾

[Pharaoh] said to the eminent ones around him, "Indeed, this is a learned magician.

فرعون اپنے آس پاس کے سرداروں سے کہنے لگا بھئی یہ تو کوئی بڑا دانا جادوگر ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَهُ ... He said to the chiefs around him: Since Fir`awn was already doomed, he hastened to stubborn denial, and said to the chiefs around him: ... إِنَّ هَذَا لَسَاحِرٌ عَلِيمٌ Verily, this is indeed a well-versed sorcerer. One who knows a great deal of magic or witchcraft. Fir`awn was trying to convince them that this was sorcery, not a miracle. Then he provoked them against Musa, trying to make them oppose him and disbelieve in him, and said:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

341فرعون بجائے اس کے کہ ان معجزات کو دیکھ کر، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تصدیق کرتا اور ایمان لاتا، اس نے جھٹلانے اور عناد کا راستہ اختیار کیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بابت کہا کہ یہ کوئی بڑا فنکار جادوگر ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَهٗٓ ۔۔ : ابھی خدائی کے دعوے تھے اور ابھی اپنے وزیروں اور درباریوں سے پوچھنے پر اتر آیا کہ بتاؤ کیا کیا جائے، اس آئی بلا کو کیونکر ٹالا جائے ؟ اس نے اپنے اقتدار کا سورج غروب ہوتے دیکھ کر یہ رویہ اختیار کیا۔ یہاں یہ ذکر ہے کہ یہ بات فرعون نے کہی، جب کہ سورة اعراف (١٠٩، ١١٠) میں ہے کہ یہ بات فرعون کے سرداروں نے کہی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات فرعون نے کہی تو اس کے سرداروں نے بھی وہی بات دہرا دی۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر (حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جو یہ معجزات ظاہر ہوئے تو) فرعون نے اہل دربار سے جو اس کے آس پاس (بیٹھے) تھے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بڑا ماہر جادوگر ہے اس کا (اصل) مطلب یہ ہے کہ اپنے جادو (کے زور) سے (خود رئیس ہوجاوے اور) تم کو تمہاری زمین سے باہر کر دے (تاکہ بلا مزاحمت غیر اپنی قوم کو لے کر ریاست کرے) سو تم لوگ کیا مشورہ دیتے ہو ؟ درباریوں نے کہا کہ آپ ان کو اور ان کے بھائی کو (چندے) مہلت دیجئے اور (اپنے ملک کے حدود کے) شہروں میں (گرد اوروں کو یعنی) چپراسیوں کو (حکمنامے دے کر) بھیج دیجئے کہ وہ (سب شہروں سے) سب ماہر جادوگروں کو (جمع کر کے) آپ کے پاس لا کر حاضر کردیں، غرض وہ جادوگر ایک معین دن کے خاص وقت پر جمع کر لئے گئے (معین دن سے مراد یوم الزینت ہے اور خاص وقت سے مراد وقت چاشت ہے جیسے سورة طہ کے شروع رکوع سوم میں مذکور ہے، یعنی اس وقت کے قریب تک سب لوگ جمع کر لئے گئے اور فرعون کو جمع ہونے کی اطلاع دے دیگئی) اور (فرعون کی جانب سے بطور اعلان عام کے) لوگوں کو یہ اشتہار دیا گیا کہ کیا تم لوگ (فلاں موقع پر واقعہ دیکھنے کے لئے) جمع ہوگے (یعنی جمع ہوجاؤ) تاکہ اگر جادوگر غالب آ جاویں (جیسا کہ غالب توقع ہے) تو ہم انہیں کی راہ پر رہیں (یعنی وہی راہ جس پر فرعون تھا اور دوسروں کو بھی اس پر رکھنا چاہتا تھا۔ مطلب یہ کہ جمع ہو کر دیکھو، امید ہے کہ جادوگر غالب رہیں گے تو ہم لوگوں کے طریق کا حق ہونا حجت سے ثابت ہوجائے گا) پھر جب وہ جادوگر (فرعون کی پیشی میں) آئے تو فرعون سے کہنے لگے کہ اگر ( موسیٰ (علیہ السلام) پر ہم غالب آگئے تو کیا ہم کو کوئی بڑا صلہ (اور انعام) ملے گا، فرعون نے کہا ہاں (انعام مالی بھی بڑا ملے گا) اور (مزید برآں یہ مرتبہ ملے گا کہ) تم اس صورت میں (ہمارے) مقرب لوگوں میں داخل ہوجاؤ گے (غرض اس گفتگو کے بعد عین موقعہ مقابلہ پر آئے اور دوسری طرف موسیٰ (علیہ السلام) تشریف لائے اور مقابلہ شروع ہوا اور ساحروں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے عرض کیا کہ آپ اپنا عصا پہلے ڈالئے گا یا ہم ڈالیں) موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا کہ تم کو جو کچھ ڈالنا (منظور) ہو (میدان میں) ڈالو، سو انہوں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں (جو جادو کے اثر سے سانپ معلوم ہوتے تھے) اور کہنے لگے کہ فرعون کے نصیب کی قسم بیشک ہم ہی غالب آویں گے، پھر موسیٰ (علیہ السلام) نے (بحکم خداوندی) اپنا عصا ڈالا، ڈالنے کے ساتھ ہی (اژدھا بن کر) ان کے تمام تر بنے بنائے دھندے کو نگلنا شروع کردیا سو (یہ دیکھ کر) جادوگر (ایسے متاثر ہوئے کہ) سب سجدہ میں گر پڑے (اور پکار پکار کر) کہنے لگے کہ ہم ایمان لے آئے رب العالمین پر جو موسیٰ اور و ہارون (علیہما السلام) کا بھی رب ہے، (فرعون بڑا گھبرایا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ساری رعایا ہی مسلمان ہوجاوے تو ایک مضمون گھڑ کر بصورت عتاب ساحروں سے) کہنے لگا کہ ہاں تم موسیٰ پر ایمان لے آئے بغیر اس کے کہ میں تم کو اجازت دوں ضرور (معلوم ہوتا ہے کہ) یہ (جادو میں) تم سب کا استاد ہے جس نے تم کو جادو سکھایا ہے (اور تم اس کے شاگرد ہو اس لئے باہم خفیہ سازش کرلی ہے کہ تم یوں کرنا ہم یوں کریں گے پھر اس طرح ہار جیت ظاہر کریں گے تاکہ قبطیوں سے سلطنت لے کر بفراغ خاطر خود ریاست کرو کقولہ تعالیٰ (اِنَّ هٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوْهُ فِي الْمَدِيْنَةِ لِتُخْرِجُوْا مِنْهَآ اَهْلَهَا) سو اب تم کو حقیقت معلوم ہوئی جاتی ہے (اور وہ یہ ہے کہ) میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹوں گا اور تم سب کو سولی پر ٹانگ دوں گا (تاکہ اور عبرت ہو) انہوں نے جواب دیا کہ کچھ حرج نہیں ہم اپنے مالک کے پاس جا پہنچیں گے (جہاں ہر طرح امن و راحت ہے پھر ایسے مرنے سے نقصان ہی کیا اور) ہم امید رکھتے ہیں کہ ہمارا پروردگار ہماری خطاؤں کو معاف کر دے اس وجہ سے کہ ہم (اس موقع پر حاضرین میں سے) سب سے پہلے ایمان لائے (پس اس پر یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ ان سے پہلے بعضے ایمان لا چکے تھے جیسے آسیہ اور مومن آل فرعون اور بنی اسرائیل)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَہٗٓ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِيْمٌ۝ ٣٤ۙ ملأ المَلَأُ : جماعة يجتمعون علی رأي، فيملئون العیون رواء ومنظرا، والنّفوس بهاء وجلالا . قال تعالی: أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] ، ( م ل ء ) الملاء ۔ وی جماعت جو کسی امر پر مجتمع ہو تو مظروں کو ظاہری حسن و جمال اور نفوس کو ہیبت و جلال سے بھردے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَنِي إِسْرائِيلَ [ البقرة/ 246] نھلا تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کو نہیں دیکھا ۔ سحر والسِّحْرُ يقال علی معان : الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی: سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] والثاني : استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی: هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ، والثالث : ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15] ، ( س ح ر) السحر اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔ اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174) ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٤۔ ٣٥) اس پر فرعون نے اہل دربار سے کہا کہ یہ رسول ماہر جادوگر ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ سرزمین مصر سے تمہیں نکال باہر کرے تم اس بارے میں مجھے کیا مشورہ دیتے ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٣٤ (قَالَ لِلْمَلَاِ حَوْلَہٓٗ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیْمٌ ) ” کہ یہ اتنا عرصہ جہاں کہیں بھی رہا ہے ‘ جادو سیکھتا رہا ہے اور لگتا ہے کہ اس فن میں اس نے خوب مہارت حاصل کرلی ہے ۔۔ اور اب :

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:34) ملا۔ اسم جمع سرداروں کی یا بڑوں کی جماعت۔ ملأ بمعنی بھر دینا۔ قوم کے سردار یا اہل الرائے اشخاص اپنی رائے کی خوبی اور ذاتی محاسن کے اعتبار سے لوگوں کی خواہش کو بھر دیتے ہیں اس لئے ان کو ملأ کہا جاتا ہے۔ جو لوگ زینت محاسن کے اعتبار سے لوگوں کی خواہش کو بھر دیتے ہیں اس لئے ان کو ملأ کہا جاتا ہے۔ جو لوگ زینت محفل ہوں دلوں کو ہیبت و عظمت سے اور آنکھوں کو ظاہری حسن و جمال سے بھر دیں ملأ کہلاتے ہیں۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

5 ۔ اور خود یہاں کا حکمران بن بیٹھے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 34 تا 51 اسرار و معارف تو فرعون موسیٰ علہی السلام سے مخاطب ہونے کی بجائے اپنے امراء دربار سے کہنے لگا کہ دیکھو کتنا ماہر جادوگر ہے اس کے ارادے تو یہ نظر آتے ہیں کہ جادو کے زور سے ملک ہی چھین لے گا اور تم سب کو یہاں سے بھگا دیگا حالانکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دعوت الی اللہ دی تھی اور بنی اسرائیل کو آزاد کرنے کی بات ارشاد فرمائی تھی۔ ان کی حکومت یا ملک تک کی بات نہ کی تھی۔ فرعون چونکہ دلائل میں لاجواب ہوچکا تھا اس لیے ادھر کی بات بنا کر اپنے امراء کو ساتھ رکھنے کا آرزومند تھا چناچہ کہنے لگا اب آپ لوگ جو مشورہ دیں گے اسی کے مطابق عمل کیا جاسکے گا تو امراء نے مشورہ دیا کہ فی الحال موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو لوٹا دیا جائے اور ان سے کوئی تعرض نہ کیا جائے کیونکہ ملک مصر میں ایک سے ایک اچھا جادوگر موجود ہے تو آپ شاہی حکم روانہ کردیں تاکہ جادوگری کے تمام ماہرین کو جمع کیا جاسکے اور یوں ان کے جادو کا مقابلہ کیا جائے نیز موسیٰ (علیہ السلام) سے وقت طے کرلیا گیا اور کہا گیا کہ ہم آپ کے مقابلہ میں اپنے جادوگر لائیں گے آپ نے بھی وقت طے کرلیا اور اس بات پر اصرار نہ فرمایا کہ یہ معجزہ ہے جادوگری نہیں بلکہ وقت پر فیصلہ چھوڑ دیا کہ جب وقت آئے گا تو جادو اور معجزہ کا فرق از خود ظاہر ہوجائے گا۔ جادو اور معجزہ کا فرق ایک بات تو یہ واضح ہے کہ جس دور میں انسانوں کے پاس جس قسم کے کمالات تھے اسی قسم کے معجزات انبیاء (علیہ السلام) کو عطا ہوئے کہ لوگ جس فن سے واقف ہیں اسی میں پہچان کرسکیں کہ ایسا ہونا محض اللہ کی قدرت سے ممکن ہے ورنہ انسانی بس میں نہیں۔ دوسری بات یہ واضح ہوگئی کہ معجزہ یا کرامت احقاق حق کے لیے ہوتے ہیں اور دین کی حقانیت کی دلیل بنتے ہیں جبکہ جادو یا شعبدہ دنیا کے مفادات کے لیے کیا جاتا ہے اور تیسرے یہ کہ جادو میں شے کی حقیقت تبدیل نہیں ہوتی ویسی ہی رہتی ہے دیکھنے والوں کو بدلی ہوئی نظر آتی ہے جبکہ معجزہ میں جو ظاہر ہوتا ہے وہ واقعی ایسا ہی ہوتا ہے جیسے جادوگروں کی رسیاں اور لاٹھیاں لوگوں کو سانپ نظر آتی تھیں مگر موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا صرف نظر ہی نہ آتا تھا واقعی سانپ بن جاتا تھا چناچہ سب اشیاء کو نگل گیا۔ جادوگر وقت مقررہ پر جمع ہوگئے اور فرعونیوں نے خوب ڈھنڈورا پیٹا کہ سب لوگ جمع ہوں اور تماشہ دیکھیں نیز مقابلے میں جادوگروں کی پیٹھ ٹھونکیں اور جب وہ جیت جائیں گے تو ان کا خوب جلوس نکالیں گے کہ ہر جادوگر سانپ بنانے کا دعویدار تھا چناچہ فرعونی سمجھ بیٹھے کہ موسیٰ کا ایک سانپ ان سب کا مقابلہ کب کرسکے گا۔ جادوگروں نے پہلے فرعون کے پاس حاضری دی اور اپنی بات پیش کی کہ مقابلہ جیتنے کی صورت میں ہمیں ایسا ہی انعام بھی ملنا چاہیے جیسا بڑامقابلہ ہے کہ جس نے فرعون کو مجبور کردیا ہے اس لیے کہ حاصل ہی دنیا کے مفادات ہوتا ہے فرعون نے بھی ان کی بہت حوصلہ افزائی کی اور کہا تمہیں امید سے زیادہ ملے گا نہ صرف دولت کے انبار پاؤ گے بلکہ آئندہ کے لیے تمہیں دربار میں جگہ دی جائے گی اور میرے امراء میں شمار کیے جاؤگے۔ چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) نے انہیں پہلے اپنا کمال پیش کرنے کی دعوت دی جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے انہوں نے خود یہ اجازت چاہی تھی کہ یا موسیٰ آپ پہلے اظہار کریں گے یا ہمیں اجازت ہے اور یہ احترام انہوں نے ایک باکمال جادوگر جان کر کیا کہ جس نے فرعون کو مقابلے پر مجبور کردیا تھا مگر نبی کا احترام کرنا انہیں حق سمجھنے کا شعور دے گیا خواہ نبی مانے بغیر کیا تو بھی ثمرات سے خالی نہ رہا انہوں نے اپنی رسیاں لاٹھیاں اور جو کچھ بھی وہ لائے تھے میدان میں پھینک دیں تو میدان اژدہوں سے بھر گیا اور ہر طرف بڑے بڑے سانپ پھنکارنے لگے یہ دیکھ کر کہنے لگے عظمت فرعون کی قسم ہم ضرور جیت جائیں گے اب اتنے بڑے سانپوں کا یہ کیا بگاڑیں گے انہوں نے فرعون کی عظمت کی قسم کھائی ایسے ہی آج کل غیر اللہ کی قسمیں کھانے کا رواج ہے جو سراسر ناجائز ہے۔ قسم صرف اللہ کی کھائی جاسکتی ہے اور جس قدر گناہ جھوٹ پر اللہ کی قسم کھانے کا ہے غیر اللہ کی قسم سچ پر بھی کھائی جائے تو اس سے کم گناہ نہ ہوگا جیسے تمہاری قسم یا تمہارے سر کی قسم یا بیٹے کی قسم وغیرہ۔ موسی (علیہ السلام) نے بھی اپنا عصا مبارک ڈال دیا تو وہ اتنا بڑا اژدہا بن گیا کہ سانپوں کی عادت کے مطابق اپنے سے چھوٹے سانپوں کو نگلنا شروع کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے سارا میدان خالی کردیا سب کو چٹ کرگیا اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے پکڑا تو ویسا ہی عصا تھا اس میں کچھ بڑھا نہ تھا سانپ کا پیٹ ت یقینا پھولا ہوگا اور کتنا بڑا اژدہا ہوگا کہ ہزاروں سانپوں کو نگل گیا مگر جب عصا بنا تو اپنی پہلی ہی صورت پر تھا۔ حضرت جی بحر العلوم (رح) فرماتے تھے کہ جادوگروں نے دیکھا اگر موسیٰ (علیہ السلام) بھی جادو کرتے تو ان کا جادو باطل ہوجاتا اور رسیاں اور لاٹھیاں تو باقی رہ جاتیں جبکہ یہاں کچھ نہ بچا تھا نیز اپنے کمال کا انعام دولت کی صورت میں چاہتے مگر یہاں پر بات اللہ پر ایمان لانے کی تھی تو انہیں یقین ہوگیا کہ یہ نبی کا معجزہ اور اللہ کا فعل ہے چناچہ سب سجدے میں گر گئے اور اپنے ایمان لانے کا اعلان کردیا نیز یہ سب کچھ تو دوسرے سب لوگ بھی دیکھ رہے تھے انہیں نبی کا ادب کرنے کا اجر بھی حق قبول کرنے کی استعداد کی صورت میں نصیب ہوا کہنے لگے ہم پروردگار پر ایمان لاتے ہیں وہی رب جو موسیٰ او ہارون (علیہ السلام) کا رب ہے۔ ایمان باللہ کی تعیین جیسا کہ یہاں مرکوز ہے کہ ہم اسی رب پر ایمان لاتے ہیں جو موسیٰ اور ہارون (علیہ السلام) کا رب ہے ایسا ہی فقہ کے مطابق ضروری ہے کہ بچے کو سکھایا جائے کہ میں اللہ پر ایمان لاتا ہوں جس کی دعوت حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بن عبداللہ جو مکہ میں پیدا ہوئے اور مدینہ ہجرت فرمائی نے دی تاکہ متعیین ہوجائے کہ کسی غیر اللہ ہی کو تو اللہ تصور نہیں کر رکھا جب جادوگر سجدے میں گر گئے اور اپنے ایمان لانے کا اعلان کردیا تو فرعون سخت پریشان ہوگیا کہ اس نے بہت سے لوگوں کو اس امید پر جمع کر رکھا تھا کہ جادوگر غالب ہونگے مگر یہاں بات ہی الٹ گئی اور موسیٰ (علیہ السلام) کا غلبہ تو لوگوں کے ایمان لانے کا سبب بن سکتا تھا چناچہ اس نے سب سے پہلے تو یہ الزام لگایا کہ اچھا تو یہ تمہاری سازش تھی اور موسیٰ ہی تمہارے استاد اور بڑے جادوگر تھے اور یوں تم سب مل کر مجھے ناکام کرنے کا منصوبہ بنا لائے تھے تب ہی تو میرے پوچھے بغیر اتنا بڑا اعلان کر گزرے ورنہ تو مجھے بتانا چاہیئے تھا کہ ہم مغلوب ہوگئے اب کیا کیا جائے اور یہ سب الزام تھا اسے خبر تھی کہ موسیٰ (علیہ السلام) جتنا عرصہ مصر میں رہے اسی کے محل میں تھے اور جب نکلے تو ملک مصر سے ہی دور چلے گئے پھر بھلا ان کے استاد کیسے ہوگئے لیکن جہلا عموما تحقیق سے عاری ہونے کے سبب ایسی ہی فضولیات کو مان لیا کرتے ہیں نیز اس نے ان کو بہت سخت سزا دینے کا ارادہ کرلیا کہ اس جھوٹ کے ساتھ جب تشدد کا مظاہرہ ہوگا تو سب لوگ اسی کو ماننے میں عافیت سمجھیں گے چناچہ کہنے لگا کہ میں تمہارا ایک طرف کا ہاتھ اور دوسری طرف کا پاؤں کاٹ دوں گا اور یوں تمہیں تڑپتے ہوئے سولی پہ لٹکا دوں گا کہ تمہیں میری نافرمانی کی سخت سزا کا مزا چکھایا جائے تو انہوں نے فرمایا کہ ہ تو کوئی بات ہی نہیں تم جو کچھ کرسکتے ہو کر گزرو ہم قتل بھی ہونگے تو اپنے رب کی بارگاہ میں پہنچ جائیں گے اور تمہارا یہ ظلم بھی ہمارے لیے نجات اور ترقی درجات کا سبب بن جائے گا یہی ہمارا مقصود بھی ہے کہ رب کریم ہماری خطاؤں کو معاف کردے اور یہ کہ ان تمام حاضرین میں ہم ہی کو سب سے پہلے ایمان لانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ مشرکین آپ کی بعثت سے پہلے کہا کرتے تھے کہ ہم تک تو صحیح دین پہنچا ہی نہیں پہلی کتب ہی سلامت پہنچ گئی ہوتیں تو ہم اطاعت کا حق ادا کردیتے اور اللہ کے نہایت مخلص بندے ہوتے مگر جب آپ مبعوث ہوئے آسمانی کتاب لائے تو انکار کردیا انہیں جلدی پتہ چل جائے گا کہ جس طاقت کا انہیں گھمنڈ ہے وہ نبی کا راستہ نہ روک سکے گی کہ یہ تو ہمرا فیصلہ ہے کہ ہمارے رسول ہی ہمیشہ فتح یاب ہوں گے اور ہماری مدد ان کے ساتھ ہوگی اور وہ لوگ جو خود کو اللہ کا سپاہی بنائیں گے کبھی شکست کا منہ نہ دیکھیں گے اور ہمیشہ ان کی کامیابی یقینی ہوگی آپ ذرا انتظار فرمائیے اور دیکھتے رہیے کہ ان کے ساتھ ہوتا کیا ہے یہ خود ہمارے عذاب کو جلدی آنے کی دعوت دے رہے ہیں یعنی آپ کی مخالفت اور ایذا رسانی ہی تو اس کے نزول کا سبب ہے اور جب آئے گا تو ان کا حال بہت ہی برا ہوگا آپ صرف انتظار فرمائیے اور دیکھیے کہ خود انہیں بھی معلوم ہوجائے گا۔ کہ تیرا پروردگار ہی پاک ہے اور بہت بلند ہے اس کی شان ان کی بےہودی باتوں کو اس کی بارگاہ میں گذر نہیں اور سلامتی ہے اللہ کی طرف سے اس کے رسولوں پر اور سب خوبیاں اور سارے کمالات صرف اسی ذات پاک کو سزاوار ہیں۔ نبی کے ساتھ قلبی تعلق علوم نبوت کے حصول کا سبب بن جاتا ہے یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ جادوگروں کو فرعون نے طلب کیا اس سے پہلے تو انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کا نام بھی نہ سنا ہوگا پھر یہاں بھی مقابلے سے واسطہ پڑا اور انہیں بھی جادوگر ہی سمجھے مگر جب حق ظاہر ہوا اور اللہ نے ایمان کی توفیق دی تو اس قدر خلوص اور دل کی گہرائیوں سے ایمان لائے کہ علوم نبوت بغیر ظاہری سبب کے ان کے دل میں وارد ہوگئے اور ان کی زبان پر جاری ہوگیا کہ حق کے مقابلے میں موت کے خوف کی کوئی حیثیت نہیں نیز راہ حق میں موت اللہ کے قرب اور اخروی نجات اور ترقی درجات کا سبب ہے اور یہی ہمارا مقصود ہے آخرت کا تذکرہ اس انداز سے فرمایا کہ گویا اللہ نے حجابات ہٹا دیے ہوں اور وہ ایک ایک حقیقت کا مشاہدہ فرما کر بیان کر رہے ہوں اس لیے کہ بظاہر انہیں ان حقائق کی تعلیم دینے کی نوبت نہ آسکی تھی یہی کمال صحابہ کرام (رض) کو نصیب ہوا کہ برسوں کے جاہل ایمان لاتے ہی علوم دین و دنیا کے فاضل بن گئے اور غازی ، مجاہد اور شہید کہلائے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 34 تا 51 : ساحر علیم (ماہر جادو گر۔ بہت جاننے والا جادوگر) ‘ ماذا تامرون (تم کیا مشورہ دیتے ہو۔ تم کیا کہتے ہو) ‘ ارجہ (چھوڑدے اس کو۔ اس کو مہلت دے) ‘ حشرین (جمع کرنے والے۔ ہر کارے) ‘ میقات (مقرر وقت۔ مقرر جگہ) مجتمعون ( جمع ہونے والے) ‘ المقربین (قریب بیٹھنے والے) ‘ حبال (حبل) رسیاں ‘ عصی (لاٹھیاں) ‘ تلقف (نگلنے لگا) ‘ یا فکون ( وہ کھیل کھلونے بناتے ہیں) ‘ کبیر کم ( تمہارا بڑا۔ تمہارا استاد) ‘ اقطعن ( میں ضرور کاٹ ڈالوں گا) ‘ ایدی (ایدین) دونوں ہاتھو ‘ ارجل (رجل) پاؤں ‘ اصلبن (میں ضرور پھانسی چڑھادوں گا) ‘ لاضیر (کوئی حرج نہیں) ‘ منقلبون (پلٹ کر جانے والے) نطمع ( ہم توقع رکھتے ہیں۔ ہم لالچ رکھتے ہیں) ‘۔ تشریح : آیت نمبر 34 تا 51 : فرعون اور اسکیدرباریوں نے اپنی کھلی آنکھوں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس عصا کو جو ایک بڑا سانپ یعنی اژدھا بن گیا تھا اور وہ ید بیضا یعنی چمک دار ہاتھ جو پاند اور سورج کی طرح چمک رہا تھا دیکھ لیا تھا۔ جب بڑی بڑی ڈینگیں مارنے والے فرعون اور فخر و غرور کے پیکر وزیروں اور درباریوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ان معجزات کو دیکھا تو سب کی سب انتے خوف زدہ ہوگئے کہ اپنی جان بچانے کے لئے سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ اور فرعون کو تنہا چھوڑ گئے۔ جب اس بڑے سانپ نے فرعون کی طرف رخ کیا تو دہشت کیمارے فرعون تخت شاہی کے پیچھے چھپ کر کہنے لگا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) ! اس مصیبت کو ہم سے دور کرو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اژدھے کے منہ میں ہاتھ ڈالا تو وہ پھر سے عصا (لاٹھی ) بن گیا۔ ایک دفعہ پھر دربار لگایا گیا اور ان تمام درباریوں سے جوان کھلے ہوئے معجزات کو دیکھ کر بہت متاثرہو چکے تھے۔ اس اثر کو زائل کرنے کے لئے فرعون کہنے لگا کہ لوگو ! جو کچھ تم نے دیکھا ہے یہ معجزات نہیں ہیں بلکہ ایک کھلا ہوا دادو ہے۔ یہ سب کچھ دکھا کر دراصل موسیٰ اور ہارون تمہاری سرزمین پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ تمہاری بےمثال تہذیب اور ترقیات کو ختم کرکے ان پر اپنی اجارہ داری قائم کرلیں۔ اس نے درباریوں اور مشیروں سے پوچھا کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے ؟ کیونکہ اس طرح تو موسیٰ (علیہ السلام) و ہارون کی ہمتیں بڑھتی چلی جائیں گی۔ درباریوں نے کہا کہ اس معاملے میں سختی کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ ان دونوں کو کچھ وقت تک نظر انداز کرکے کچھ مہلت دے دو ۔ جادو کا جواب جادو سے ہی ہو سکتا ہے۔ ملک میں ایسے ماہر جادو گروں کی کمی نہیں ہے جو ان کے جادو کا توڑ کرسکتے ہیں۔ چناچہ فرعون نے پورے ملک کے جادو گروں کو جمع کرنے کا حکم دیا اور لوگوں سے کہا کہ تم سب بھی جمع ہو جائو۔ اور اس کے لئے وہ دن زیادہ بہتر ہے جب کہ ہمارا سب سے بڑا میلہ ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھی یہ بتایدا کہ ” یوم الزینہ “ یعنی میلے والے دن تمہارا اور جادوگروں کا مقابلہ ہوگا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے چیلنج کو قبول کرلیا۔ جب میلے والے دن صبح کے وقت سب ماہر جادو گر جمع ہوگئے تو جادو گر کہنے لگے کہ اگر ہم غالب آگئے تو ہمارا انعام کیا ہوگا ؟ فرعون نے کہا نہ صرف تمہیں انعام و اکرام سے نوازا جائے گا بلکہ تمہیں قرب شاہی بھی عطا کیا جائے گا۔ یہ دن چونکہ قبطیوں کے قومی عید کا دن تھا اس لئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ جمع ہوتے گئے۔ اس موقع پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پورے مجمع سے اور خاص طور پر جادو گروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ لوگو ! تم اللہ کے دین پر آجائو اور اس پر جھوٹی باتیں نہ گھڑو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اوپر اللہ کا عذاب آجائے جو تمہیں بنیادوں سے اکھاڑ کر پھینک دے گا حق و صداقت کی بات میں ہمیشہ ایک جان اور قوت ہوتی ہے سب کے دلوں پر اثر ہوا اور خاص طور پر جادو گر بھی کافی متاثر ہوچکے تھے مگر دنیاوی لالچ اور فرعون کے قرب کی تمنا ان کو راہ حق سے روک رہی تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے جادو گر کہنے لگے کہ اے موسیٰ ٰ تم جادو ڈالنے کی ابتداء کرتے ہو یا ہم کریں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے نہایت سادگی سے جواب دیا کہ تم پہل کرو۔ جادو گر جنہیں اپنے کمالات پر بڑا ناز تھا انہوں نے نہایت فخر کے ساتھ اپنی لاٹھیاں اور رسیاں پھینکنا شروع کیں جن پر وہ جادو کا منتر پڑھتے جاتے تھے جس سے ایسا محسوس ہوا جیسے پورا میدان چھوٹے بڑے سانپوں سے بھر گیا ہے۔ جادو گرجانتے تھے کہ حقیقت میں وہ سانپ نہ تھے بلکہ نظر بندی کا کھیل تھا جو لوگوں کو سانپ نظر آرہے تھے مگر جادو گروں کو رسیاں اور لاٹھیاں ہی نظر آرہی تھیں۔ جب پورا میدان سانپوں سے بھر گیا تو بشری تقاضے کے تحت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کچھ پریشان ہوگئے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) آپ نہ گھبرائیں اب آپ اپنا عصا پھینکئے اور ہماری قدرت دیکھئے۔ جیسے ہی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا پھینکا تو وہ ایک زبردست اژدھا بن گیا جس نے جادو گروں کے پھیلائے ہوئے سانپوں کو نگلنا شروع کیا۔ پھوڑی دیر میں پورا میدان صاف ہوگیا۔ جب لوگوں نے یہ منظر دیکھا تو وہ بوکھلا گئے۔ لیکن جادو گرجواب تک نظر بندی کا کھیل دکھا رہے تھے جب انہوں نے اس عصا کو اژدھا بنتے دیکھا تو وہ سمجھ گئے کہ یہ واقعی معجزہ ہے نظر بندی یا فریب نظر نہیں ہے۔ وہ تمام جادو گر فوراً اللہ کے سامنے سجدے میں گر پڑے اور انہوں نے اعلان کردیا کہ ہم موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) کے پروردگار پر ایمان لے آئے۔ کیونکہ وہ رب العالمین ہے۔ اس العان سے پورے مجمع پر سنا ٹھا چھا گیا۔ فرعون اپنی بےعزتی برداشت نہ کرسکا اور کہنے لگا کہ تم نے میری اجازت کے بغیر ہی ایمان قبول کرلیا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ تمہاری ملی بھگت ہے یہ موسیٰ تم سب کا استاد ہے جس نے تمہیں جادوسکھایا ہے۔ تہیں بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ اس غداری کی سزا کتنی سخت ہے۔ میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ کر تمہیں سولی پر لٹکا دوں گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان اور سچائی کی طاقت کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ وہی جادو گر جو کچھ دیر پہلے تک انعام و اکرام اور بادشاہ کے قرب کیلئے بےقرار تھے جب سچائی ان کے سامنے آگئی اور انہوں نے ایمانقبول کرتے ہوئے فرعون کی دھمکیوں کو نظر انداز کرکے کہنا شروع کیا کہ اے فرعون ! تو جو کچھ کرسکتا ہے وہ کر ڈال اس میں ہمارا کوئی نقصان نہیں ہے۔ اگر ہم قتل کردیئے جائیں گے یا سولی پر چڑھادیئے جائیں گے تو ہم اپنے پروردگار ہی کے پاس جائیں گے جو ہمیشہ جنت کی ابدی راحتوں میں رکھے گا۔ ہمیں امید ہے کہ ہمارا پروردگار ہماری خطاؤں کو معاف کردے گا کیونکہ اس وقت ہم تمام لوگوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں۔ اس واقعہ کی تفصیل تو اگلی آیتوں میں آرہی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ جب تک انسان میں سچا ایمان گھر نہیں کرلیتا اس وقت تک وہ دنیاوی لالچ اور عہدوں کی فکر میں لگا رہتا ہے لیکن جب ایمان کے نور سے دل روشن ومنور ہوجاتے ہیں تو پھر ان دلوں میں سوائے اللہ کے خوف کے کسی دوسرے کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب اعلان نبوت فرمایا تو لوگوں نے آپ کو ہر طرح تنگ کیا لیکن جن سعادت مندوں کے حصے میں ایمان کی دولت آگئی تھی تو وہ اسی طرح کفر کے مقابلے میں ڈٹ گئے تھے جس طرح فرعون کے مقابلے میں ایمان لانے والے جادو گر ڈٹ گئے تھے اور انہوں نے اپنی جان و مال اور گھر بار کی کوئی پرواہ نہیں کی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام (رض) کو دنیا میں بھی عزت و سربلندی عطا فرمائی اور آخرت میں ان کا وہ عظیم مقام ہوگا جس کا اس دنیا میں تصور بھی ممکن نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ایمان کی حلاوت و عظمت نصیب فرمائے ۔ آمین

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

قال للملا ……تامرون (٣٥) فرعون کے اس تبصرے ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی مانتا ہے کہ یہ معجزہ غیر معملوی معجزہ ہے۔ اگرچہ وہ اسے سحر ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں بتاتا ہے کہ وہ ساحر علیم ہے۔ اس کی بوکھلاہٹ کا اظہار اسی سے ہوتا ہے کہ قوم بھی معجزے سے متاثر ہوگئی ہے۔ یرید ان یخرجکم من ارضکم بسحرہ (٢٦ : ٢٥) ” وہ چاہتا ہے کہ اپنے جادو کے زور سے تم کو تمہارے ملک سے نکال دے۔ “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون اندر سے شکست کھا گیا ہے۔ اب یہ اپنی قوم کے ساتھ نہایت مہذب انداز میں گفتگو کرتا ہے حالانکہ ان لوگوں کو وہ کہتا ہے کہ میں تمہارا الہہ ہوں اور وہ اس کے سامنے سجدے کرتے تھے۔ اب یہ الہہ صاحب خود ان سے مشورہ کرتے ہیں کہ بتائو اس مسئلے کو کس طرح حل کیا جائے۔ اس دنیا میں تمام ڈکٹیٹروں کا یہی انداز ہوتا ہے کہ یہ بہت کروفر میں ہوتے ہیں لیکن جیسے ہی دیکھتے ہیں کہ زمین ان کے قدموں کے نیچے سے نکل رہی ہے تو مجبور ہو کر یہ برخورداروں کی طرح بات کرتے ہیں۔ پھر یہ عوام کے ہاں پناہ لیتے ہیں۔ حالانکہ جب خطرے سے باہر تھے تو یہ ان عوام کو کچلتے تھے۔ بظاہر تو وہ یوں دکھاتے تھے کہ وہ شوریٰ ، مشورہ طلب کرتے ہیں لیکن دراصل ان کی حقیقت ایک بڑے ڈکٹیٹر کی ہوتی ہے اور یہ نرمی بھی وہ صرف اس حد تک کرتے ہیں کہ خطرہ دور ہوجائے لیکن جونہی خطرہ دور ہوتا ہے یہ لوگ ایسے ہی جبار ہوتے ہیں اور ویسے ہی ظالم ہوتے ہیں۔ فرعون کے درباریوں نے مشورہ دیا کہ انہیں روک لو ، کیونکہ فرعون کی سازش سے وہ غلط فہمی میں مبتلا تھے اور فرعون اور اس کے نظام باطل میں وہ برابر کے شریک بھی تھے اور فرعونی نظام کے علی حالہ رہنے میں ان کا مفاد بھی تھا کیونکہ اس نظام ہی کی وجہ سے یہ لوگ مقربین فرعون تھے۔ ان کو خوف یہ تھا کہ اگر عوام بھی بنی اسرائیل کے ساتھ حضرت موسیٰ کی اطاعت شروع کردیں تو یہ لوگ ان پر غالب آسکتے ہیں۔ اگر عوام نے حضرت موسیٰ کے صرف یہ دو معجزے ہی دیکھے اور پھر حضرت موسیٰ کی باتیں سننے لگ گئے تو انہوں نے مشورہ دیا کہ ان کو روک لیں اور ان کے جادو کے مقابلے میں ایسے ہی جادو کا بندوبست کریں۔ تیاری کے بعد مقابلہ ہو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلہ کے لیے فرعون کا جادو گروں کو بلانا، مقابلہ ہونا اور جادو گروں کا شکست کھا کر ایمان قبول کرنا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے جواب وسوال سے عاجز ہو کر اور دو بڑے معجزے دیکھ کر فرعون کی شکست تو اسی وقت ہوگئی لیکن اس نے اپنی خفت مٹانے اور درباریوں کو مطمئن رکھنے اور ان کے ذریعہ ساری قوم کو اپنی فرمانبرداری پر جمائے رکھنے کے لیے سرداروں سے کہا جو اس وقت وہاں موجود تھے کہ سمجھ میں آگیا یہ تو ایک بڑا ماہر جادوگر ہے یہ چاہتا ہے کہ تمہیں مصر کی سر زمین سے نکال دے اور اپنی قوم کا بڑا بن کر ان کو ساتھ لے کر حکومت کرنے لگے۔ تم لوگ کیا مشورہ دیتے ہو ؟ سورة اعراف میں ہے کہ یہ بات قوم فرعون کے سرداروں نے کہی تھی اور یہاں اس بات کو فرعون کی طرف منسوب فرمایا۔ بات یہ ہے کہ بادشاہ جو کچھ کہتے ہوں ان کے درباری خوشامدی بھی اس بات کو دہراتے ہوئے تائید میں وہی الفاظ کہہ دیتے ہیں جو بادشاہ سے سنے ہوں۔ جب مشورہ میں بات ڈالی گئی تو آپس میں یہ طے پایا کہ تمہاری قلم رو میں جتنے بھی بڑے بڑے ماہر جادوگر ہیں ان سب کو جمع کرو اور اس مقصد کے لیے اپنے سارے شہروں میں کارندے بھیج دو جو ہر طرف سے جادو گروں کو جمع کر کے لے آئیں اور اس شخص کو جو جادو لے کر سامنے آیا ہے اور اس کے بھائی کو سردست مہلت دو ۔ جب جادو گر آجائیں گے تو مقابلہ کرا لیا جائے گا۔ شہروں میں آدمی بھیجے گئے انہوں نے بڑے بڑے ماہر جادو گروں کو سمیٹنا شروع کیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے مقابلہ کا دن اور وقت طے کرنے کی بات کی گئی انہوں نے فرمایا (مَوْعِدُکُمْ یَوْمُ الزِّیْنَۃِ وَ اَنْ یُّحْشَرَ النَّاسُ ضُحًی) تمہارے لیے یوم الزینہ یعنی میلے کا دن مقرر کرتا ہوں چاشت کے وقت مقابلہ ہوگا جادو گر آئے اور جیسے اہل دنیا کا طریقہ ہوتا ہے انہوں نے وہی دنیا داری کی باتیں شروع کردیں اور فرعون سے کہنے لگے کہ اگر ہم غالب آگئے تو کیا ہمیں اس کی وجہ سے بڑا انعام اور کوئی عظیم صلہ ملے گا ؟ فرعون نے کہا کیوں نہیں تم پوری طرح نوازے جاؤ گے۔ نہ صرف یہ کہ تمہیں بڑے انعام سے سرفراز کیا جائے گا بلکہ تم میرے مقربین میں سے ہوجاؤ گے۔ مقررہ دن اور مقررہ وقت میں ایک بڑے کھلے میدان میں مصر کے عوام اور خواص جمع ہوئے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) بھی پہنچے جادو گر بھی اپنی رسیاں اور لاٹھیاں لے کر آئے مصر کے لوگوں میں دین شرک مشہور و مروج تو تھا ہی لیکن ساتھ ہی حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کی دعوت توحید کا بھی چرچا ہو چلا تھا اب لوگوں میں یہ بات چلی کہ دیکھو کون غالب ہوتا ہے۔ اگر جادو گر غالب ہوگئے تو ہم انہیں کی راہ پر یعنی دین شرک پر چلتے رہیں گے جس کا داعی فرعون ہے اس کے ساتھ یوں بھی کہنا چاہئے تھا کہ یہ دونوں بھائی موسیٰ و ہارون ( علیہ السلام) غالب ہوگئے تو ان کا دین قبول کرلیں گے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کی ہیبت کی وجہ سے یہ بات زبانوں پر نہ لاسکے گو لفظ لَعَلَّنَا سے اس طرف اشارہ ملتا ہے۔ انہوں نے یقین کے ساتھ نہیں کہا کہ ہم جادو گروں کا اتباع کرلیں گے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عامۃ الناس کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا کہ جادو گر غالب ہونے والے نہیں ہیں۔ جادو گروں نے کہا کہ اے موسیٰ بولو کیا رائے ہے تم پہلے اپنی لاٹھی ڈال کر سانپ بنا کردکھاتے ہو یا ہم پہلے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈالیں ؟ (جادو گروں کا یہ سوال سورة طہ میں مذکور ہے) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں فرمایا کہ پہلے تم ہی ڈالو۔ میں بعد میں ڈالوں گا۔ لہٰذا جادو گروں نے اپنی رسیاں اور لاٹھیاں ڈال دیں۔ رب العالمین جل مجدہ کے ماننے والوں میں تو تھے نہیں لہٰذا انہوں نے فرعون کی عزت کی قسم کھا کر کہا کہ ہماری فتح ہے اور ہم غالب ہونے والے ہیں اس کے بعد سیدنا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا ڈالا وہ عصا اژدھا بن گیا اور نہ صرف یہ کہ اژدھا بن گیا بلکہ جادو گروں نے جو اپنی رسیوں اور لاٹھیوں کے سانپ بنائے تھے ان سب کو نگلنا شروع کردیا اب جادو گر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معتقد ہوگئے انہوں نے یقین کرلیا کہ موسیٰ اور ان کا بھائی ( علیہ السلام) جادو گر نہیں ہیں ہم اتنے زیادہ جادو گر ہیں اور جادو میں ماہر بھی ہیں ان کے مقابلہ میں ہم سب کا جادو دھرا رہ گیا ان کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا جب یہ اپنی بات میں سچے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں اور ان کا سچا ہونا ہم پر واضح ہوگیا تو ان پر ایمان لانا ضروری ہے ان کے دلوں میں حق قبول کرنے کا جذبہ ایسے زور سے بھرا کہ بےاختیار سجدہ میں گرگئے جیسا کہ کوئی کسی کو پکڑ کر سجدہ میں ڈال دے اور کہنے لگے کہ ہم رب العالمین پر ایمان لے آئے جو موسیٰ اور ہارون کا رب ہے۔ (اس وقت ان کا اجمالی ایمان ہی کافی تھا) اب تو فرعون کی خفت اور ذلت کی انتہا نہ رہی جن لوگوں کو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ( علیہ السلام) کے مقابلہ کے لیے بلایا تھا وہی ہارمان گئے اور ان دونوں پر ایمان لے آئے لہٰذا اپنی خفت مٹانے کے لیے فرعون نے وہی دھمکی والی چال چلی جو بادشاہوں کا طریقہ رہا ہے اول تو اس نے یوں کہا کہ تم میری اجازت کے بغیر ان پر ایمان لے آئے (حالانکہ دین و ایمان ہر شخص کا ذاتی مسئلہ ہے دلوں پر اللہ تعالیٰ ہی کا قبضہ ہے کسی مخلوق کا قبضہ نہیں ہے گو بادشاہ اپنی سر کشی اور طغیانی میں یہ خیال کرتے رہتے ہیں کہ دلوں پر بھی ہمارا قبضہ رہنا چاہئے اور ہمارے عوام اسی دین کو قبول کریں جس کے ہم داعی ہیں جب حق دلوں میں اپنی جگہ کرلیتا ہے تو کسی بھی صاحب اقتدار اور صاحب تسلط سے نہیں ڈرتا وہ صرف معبود حقیقی جل مجدہ سے ڈرتا ہے اور اسی سے امید رکھتا ہے) ۔ فرعون نے دوسری بات یہ کہی کہ تم نے جو ہار مان لی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ تم لوگوں کو اسی شخص نے جادو سکھایا ہے اور یہی تمہارا بڑا ہے تم نے یہ ملی بھگت کی ہے کہ ہار جیت کا مصنوعی سوانگ دکھا کر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرلو ابھی دیکھو تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوتا ہے میں تمہارے ایک طرف کے ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں کاٹ ڈالوں گا اور تم کو سولی پر لٹکا دوں گا چونکہ جادو گروں پر پوری طرح حق واضح ہوچکا تھا اس لیے انہوں نے فرعون کی دھمکی کا کچھ اثر نہ لیا بلکہ فرعون کو منہ توڑ جواب دیا اور اور یوں کہا کہ کوئی حرج کی بات نہیں بلاشبہ ہم اپنے رب کی طرف لوٹ جانے والے ہیں ( پروردگار عالم کی طرف سے جو ایمان پر صلہ ملے گا اس کے مقابلہ میں دنیا کی ذرا سی تکلیف کی کوئی حیثیت نہیں) بلاشبہ ہم اللہ سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری خطاؤں کو اس وجہ سے معاف فرما دے کہ ہم سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں میدان مقابلہ میں جو لوگ حاضر تھے ان میں سب سے پہلے جادو گر ایمان لائے اس اعتبار سے انہوں نے اپنے کو اول المومنین سے تعبیر کیا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

20:۔ اب فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پیش کردہ عقلی دلائل اور معجزوں کے سامنے بالکل بےبس اور لاجواب ہوچکا تھا اور اس نے خطرہ محسوس کیا کہ کہیں اہل دربار موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف مائل نہ ہوجائیں اس لیے اس نے فورًا اپنے درباریوں اور مقربوں سے کہا اب حقیقت واضح ہوگئی کہ موسیٰ پیغمبر نہیں ہے وہ ایک ماہر جادوگر ہے جو جادو کے زور سے تمہارے ملک پر اور تخت و تاج پر قبضہ کرنا چاہتا ہے اب تم مشورہ دو کہ اب اس سے نجات پانے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ قال ھذا القول علی سبیل التنفیر لا یقبلوا قول موسیٰ (خازن) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(34) فرعون نے اپنے گردو پیش اور آس بیٹھنے والے سرداروں سے کہا کہ واقعی یہ شخص کوئی بڑا ماہر اور سمجھ دار جادوگر ہے۔