Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 38

سورة الشعراء

فَجُمِعَ السَّحَرَۃُ لِمِیۡقَاتِ یَوۡمٍ مَّعۡلُوۡمٍ ﴿ۙ۳۸﴾

So the magicians were assembled for the appointment of a well-known day.

پھر ایک مقرر دن کے وعدے پر تمام جادوگر جمع کئے گئے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Between Musa, peace be upon him, and the Sorcerers Allah describes the actual encounter between Musa, peace be upon him, and the Egyptians in Surah Al-A`raf, Surah Ta Ha, and in this Surah. The Egyptians wanted to extinguish the Light of Allah with their words, but Allah insisted that His Light should prevail even though the disbelievers disliked that. This is the issue of disbelief and faith; they never confront one another but faith always prevails: بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَى الْبَـطِلِ فَيَدْمَغُهُ فَإِذَا هُوَ زَاهِقٌ وَلَكُمُ الْوَيْلُ مِمَّا تَصِفُونَ Nay, We fling the truth against the falsehood, so it destroys it, and behold, it disappears. And woe to you for that which you ascribe. (21:18) وَقُلْ جَأءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَـطِلُ And say: "Truth has come and falsehood has vanished." (17:81) And Allah tells: فَجُمِعَ السَّحَرَةُ لِمِيقَاتِ يَوْمٍ مَّعْلُومٍ وَقِيلَ لِلنَّاسِ هَلْ أَنتُم مُّجْتَمِعُونَ

مناظرہ کے بعد مقابلہ مناظرہ زبانی ہوچکا ۔ اب مناظرہ عملا ہو رہا ہے اس مناظرہ کا ذکر سورۃ اعراف سورۃ طہ اور اس سورت میں ہے ۔ قبطیوں کا ارادہ اللہ کے نور کے بجھانے کا تھا اور اللہ کا ارادہ اس کی نورانیت کے پھیلانے کا تھا ۔ پس اللہ کا ارادہ غالب رہا ۔ ایمان و کفر کا مقابلہ جب کبھی ہوا ایمان کفر پر غالب رہا ۔ اللہ تعالیٰ حق کو غالب کرتا ہے باطل کا سر پھٹ جاتا ہے اور لوگوں کے باطل ارادے ہوا میں اڑ جاتے ہیں ۔ حق آجاتا ہے باطل بھاگ کھڑا ہوتا ہے ۔ یہاں بھی یہ ہوا ہر ایک شہر میں سپاہی بھیجے گئے ۔ چاروں طرف سے بڑے بڑے نامی گرامی جادوگر جمع کئے گئے جو اپنے فن میں کامل اور استاد زمانہ تھے کہا گیا ہے کہ ان کی تعداد بارہ یا پندرہ یا سترہ یا انیس یا کچھ اوپر تیس یا اسی ہزار کی یا اس سے کم وبیش تھی ۔ صحیح تعداد اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے ان تمام کے استاد اور سردار چار شخص تھے ۔ سابور عاذور حطحط اور مصفی ۔ چونکہ سارے ملک میں شور مچ چکا تھا چاروں طرف سے لوگوں کے غول کے غول وقت مقررہ سے پہلے مصر میں جمع ہوگئے ۔ چونکہ یہ کلیہ قاعدہ ہے کہ رعیت اپنے بادشاہ کے مذہب پر ہوتی ہے ۔ سب کی زبان سے یہی نکلتا تھا کہ جادوگروں کے غلبہ کے بعد ہم تو ان کی راہ لگ جائیں گے ۔ یہ کسی زبان سے نہ نکلا کہ جس طرف حق ہوگا ہم اسی طرف ہوجائیں گے اب موقعہ پر فرعون مع اپنے جاہ چشم کے نکال تمام امراء ورؤسا ساتھ تھے لشکر فوج پلٹن ہمراہ تھی جادوگروں کو اپنے دربار میں اپنے سامنے بلوایا ۔ جادوگروں نے بادشاہ سے عہد لینا چاہا اس لئے کہاکہ جب ہم غالب آجائیں تو بادشاہ ہمیں انعامات سے محروم نہیں رکھیں گے؟ فرعون نے جواب دیا واہ یہ کیسے ہوسکتا ہے نہ صرف انعام بلکہ میں تو تمہیں اپنے خاص رؤسا میں شامل کرونگا اور تم ہمیشہ میرے پاس اور میرے ساتھ ہی رہا کروگے ۔ تم میرے مقرب بن جاؤ گے میری تمام تر توجہ تمہاری ہی طرف ہوگی ۔ وہ خوشی خوشی میدان کی طرف چل دیئے ۔ وہاں جاکر موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے ۔ بولو تم پہلے اپنی استادی دکھاتے ہو؟ یا ہم دکھائیں؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا نہیں تم ہی پہلے اپنی بھڑاس نکال لو تاکہ تمہارے دل میں کوئی ارمان نہ رہ جائے یہ جواب پاتے ہی انہوں نے اپنی چھڑیاں اور رسیاں میدان میں ڈال دیں اور کہنے لگے فرعون کی عزت سے ہمارا غلبہ رہے گا ۔ جیسے جاہل عوام جب کسی کام کو کرتے ہیں تو کہتے ہیں یہ فلاں کے ثواب سے ۔ سورۃ اعراف میں ہے جادوگروں نے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کردیا ۔ انہیں ہیبت میں ڈال دیا اور بڑا بھاری جادو ظاہر کیا ۔ سورۃ طہ میں ہے کہ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں ان کے جادو سے ہلتی جلتی معلوم ہونے لگیں ۔ اب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ہاتھ میں جو لکڑی تھی اسے میدان میں ڈال دیا جس نے سارے میدان میں ان کی جو کچھ نظربندیوں کی چیزیں تھیں ، سب کو ہضم کرلیا ۔ پس حق ظاہر ہوگیا اور باطل دب گیا اور ان کا کیا کرایا سب غارت ہوگیا ۔ یہ کوئی ہلکی سی بات اور تھوڑی سی دلیل نہ تھی جادوگر تو اسے دیکھتے ہی مسلمان ہوگئے کہ ایک شخص اپنے استاد فن کے مقابلے میں آتا ہے اس کا حال جادوگروں کا سا نہیں ۔ وہ کوئی بات نہیں کرتا یقینا ہمارا جادو صرف نگاہوں کا فریب ہے اور اس کے پاس اللہ کا دیا ہوا معجزہ ہے وہ تو اسی وقت وہیں کے وہیں اللہ کے سامنے سجدے میں گر گئے ۔ اور اسی مجمع میں سب کے سامنے اپنے ایمان لانے کا اعلان کیا کہ ہم رب العالمین پر ایمان لاچکے ۔ پھر اپنا قول اور واضح کرنے کے لئے یہ بھی ساتھ ہی کہہ دیا کہ رب العالمین سے ہماری مراد وہ رب ہے جسے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام اپنا رب کہتے ہیں ۔ اتنا بڑا معجزہ اس قدر انقلاب فرعون نے اپنی آنکھوں سے دیکھا لیکن ملعون کی قسمت میں ایمان نہ تھا ۔ پھر بھی آنکھیں نہ کھلی ۔ اور دشمن جاں ہوگیا ۔ اور اپنی طاقت سے حق کو کچلنے لگا ۔ اور کہنے لگا کہ ہاں میں جان گیا موسیٰ تم سب کے استاد تھے اسے تم نے پہلے سے بھیج دیا پھر تم بظاہر مقابلہ کرنے کے لئے آئے اور باطنی مشورے کے مطابق میدان ہار گئے اور اس کی بات مان گئے پس تمہارا یہ مکر کھل گیا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

381چناچہ جادوگروں کی ایک بہت بڑی تعداد مصر کے اطراف و جوانب سے جمع کرلی گئی، ان کی تعداد12ہزار،17ہزار19ہزار،30ہزار اور80ہزار (مختلف اقوال کے مطابق) بتلائی جاتی ہے۔ اصل تعداد اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ کیونکہ کسی مستند مأخذ میں تعداد کا ذکر نہیں ہے۔ اس کی تفصیلات اس سے قبل سورة اعراف، سورة طہ میں بھی گزر چکی ہیں گویا فرعون کی قوم قبط نے اللہ کے نور کو اپنے مونہوں سے بجھانا چاہا تھا لیکن اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کرنا چاہتا تھا چناچہ کفر و ایمان کے معرکے میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے کہ جب بھی کفر خم ٹھونک کر ایمان کے مقابلے میں آتا ہے تو ایمان کو اللہ تعالیٰ سرخروئی اور غلبہ عطا فرماتا ہے۔ جس طرح فرمایا، (بَلْ نَقْذِفُ بالْحَقِّ عَلَي الْبَاطِلِ فَيَدْمَغُهٗ فَاِذَا هُوَ زَاهِقٌ) 21 ۔ الانبیاء :18) ۔ بلکہ ہم سچ کو چھوٹ پر کھینچ مارتے ہیں پس وہ اس کا سر توڑ دیتا ہے اور جھوٹ اسی وقت نابود ہوجاتا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَجُمِعَ السَّحَرَةُ لِمِيْقَاتِ ۔۔ : سورة طٰہٰ (٥٩) میں اس مقرر کردہ وقت اور مقام کا ذکر گزر چکا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَجُمِــــعَ السَّحَرَۃُ لِمِيْقَاتِ يَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ۝ ٣ ٨ۙ جمع الجَمْع : ضمّ الشیء بتقریب بعضه من بعض، يقال : جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَعَ ، وقال عزّ وجل : وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] ، وَجَمَعَ فَأَوْعى [ المعارج/ 18] ، جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] ، ( ج م ع ) الجمع ( ف ) کے معنی ہیں متفرق چیزوں کو ایک دوسرے کے قریب لاکر ملا دینا ۔ محاورہ ہے : ۔ چناچہ وہ اکٹھا ہوگیا ۔ قرآن میں ہے ۔ وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ [ القیامة/ 9] اور سورج اور چاند جمع کردیئے جائیں گے ۔ ( مال ) جمع کیا اور بند رکھا ۔ جَمَعَ مالًا وَعَدَّدَهُ [ الهمزة/ 2] مال جمع کرتا ہے اور اس کو گن گن کر رکھتا ہے وقت الوَقْتُ : نهاية الزمان المفروض للعمل، ولهذا لا يكاد يقال إلّا مقدّرا نحو قولهم : وَقَّتُّ كذا : جعلت له وَقْتاً. قال تعالی: إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] . وقوله : وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ [ المرسلات/ 11] . والمِيقَاتُ : الوقتُ المضروبُ للشیء، والوعد الذي جعل له وَقْتٌ. قال عزّ وجلّ : إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ [ الدخان/ 40] ، إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كانَ مِيقاتاً [ النبأ/ 17] ، إِلى مِيقاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الواقعة/ 50] ، ( و ق ت ) الوقت ۔ کسی کام کے لئے مقرر زمانہ کی آخری حد کو کہتے ہیں ۔ اس لئے یہ لفظ معنین عرصہ کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ۔ وقت کذا میں نے اس کے لئے اتنا عرصہ مقرر کیا ۔ اور ہر وہ چیز جس کے لئے عرصہ نتعین کردیا جائے موقوت کہلاتی ہے ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز کا مومنوں پر اوقات ( مقرر ہ ) میں ادا کرنا فرض ہے ۔ ۔ وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ [ المرسلات/ 11] اور جب پیغمبر اکٹھے کئے جائیں ۔ المیفات ۔ کسی شے کے مقررہ وقت یا اس وعدہ کے ہیں جس کے لئے کوئی وقت متعین کیا گیا ہو قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ مِيقاتُهُمْ [ الدخان/ 40] بیشک فیصلے کا دن مقرر ہے ۔ إِنَّ يَوْمَ الْفَصْلِ كانَ مِيقاتاً [ النبأ/ 17] کچھ شک نہیں کہ فیصلے کا دن اٹھنے کا وقت ہے ۔ إِلى مِيقاتِ يَوْمٍ مَعْلُومٍ [ الواقعة/ 50] سب ایک روز مقرر کے وقت پر جمع کئے جائیں گے ۔ اور کبھی میقات کا لفظ کسی کام کے لئے مقرر کردہ مقام پر بھی بالا جاتا ہے ۔ جیسے مواقیت الحج یعنی مواضع ( جو احرام باندھنے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٨ تا ٤٠) چناچہ بہتر جادوگر ایک معروف دن کے خاص وقت پر حاضر کیے گئے۔ اور وہ میلے یا ان کی عید کا دن یا نیروز تھا اور لوگوں میں بھی اعلان کرا دیا گیا کہ اگر جادوگر موسیٰ (علیہ السلام) پر غالب آگئے تو ہم ان جادوگروں ہی کی پیروی کریں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31 As already mentioned in Surah Ta Ha (v. 59), the day fixed for the purpose was the day of the national festivities of the Egyptians so that large crowds of people coming to the festivals from every part of the country should also witness the grand "contest which was to be held in the broad daylight so that the spectators could see the performances clearly.

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :31 سور طٰہٰ میں گزر چکا ہے کہ اس مقابلے کے لیے قبطیوں کی قومی عید کا دن ( یوم الزینۃ ) مقرر کیا گیا تھا تاکہ ملک کے گوشے گوشے سے میلوں ٹھیلوں کی خاطر آنے والے سب لوگ یہ عظیم الشان دنگل دیکھنے کے لیے جمع ہو جائیں ، اور اس کے لیے وقت بھی دن چڑھے کا طے ہوا تھا تاکہ روز روشن میں سب کی آنکھوں کے سامنے فریقین کی طاقت کا مظاہرہ ہو اور روشنی کی کمی کے باعث کوئی شک و شبہہ پیدا ہونے کی گنجائش نہ رہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:38) السحرۃ : ساحر کی جمع۔ جادوگر۔ لمیقات : میقات ظرف زمان۔ وقت مقررہ۔ استعارۃ جائے مقررہ یا وہ جگہ جس کا وقت دیا گیا ہو۔ مضاف۔ یوم معلوم موصوف و صفت مل کر مضاف الیہ۔ چناچہ ایک معین دن کے مقررہ وقت یا مقررہ جگہ جہاں جمع ہونے کا وقت دیا گیا تھا۔ سب جادوگروں کو اکٹھا کرلیا گیا۔ ہل انتم مجتمعون ۔ : مجتمعون اسم فاعل جمع مذکر باب افتعال سے جمع ہونے والے۔ لفظا ترجمہ ہوگا۔ کیا تم اکٹھے ہوگے۔ یہاں در حقیقت استفہام مراد نہیں بلکہ مجازا ان کو جلدی کرنے پر اکسانے کے لئے ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ معین دن سے رماد یوم الزنیة ہے اور خاص وقت سے مراد وقت ضحی ہے جیسا سورة طہ کے شروع رکوع سوم میں اس کا متعین ہونا مقابلہ کے لئے مذکور ہے، یعنی اس وقت کے قریب تک سب جمع کر لئے گئے اور فرعون کو جمع ہونے کی اطلاع کی گئی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فجمع السحرۃ لمیاقت ……الغلبین (٤٠) فرعون کی ان باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جادوگروں کی حمایت میں لوگوں کے اندر زبردست جوش و خروش پیدا کر رہا ہے۔ ھل انتم مجتمعون (٣٩) لعلنا نتبع السحرۃ (٣٠) ” تم اجتماع میں چلو گے شاید کہ ہم جادوگروں کے دین پر ہی رہ جائیں اگر وہ غالب رہے۔ “ یعنی کیا تم مقابلے کے دن ضرور آئو گے اور ہرگز پیچھے نہیں رہو گے۔ تاکہ ہم دیکھیں کہ جادوگر یہ میدان کس طرح مارتے ہیں اور موسیٰ اسرائیل کے مقابلے میں مصری کس طرح غالب ہوتے ہیں اور عوام الناس ہمیشہ ایسے معاملات میں جمع ہوا کرتے ہیں لیکن ان کو اصل حقیقت کا پتہ نہیں ہوتا ہے کہ حکمرانوں عوام الناس کو کس طرح استعمال کرتے ہیں اور ان جماعتوں اور جلسوں اور جلوسوں میں ان کو کس طرح کھلونا بناتے ہیں اور یہ کام وہ اس لئے کرتے ہیں تاکہ عوام پر وہ جو مظالم ڈھا رہے ہیں اور جس طرح ان کی پسماندگی کے وہ ذمہ دار ہیں ، ان کو ان باتوں پر غور کرنے کا موقعہ میں نہ ملے۔ وہ موسیٰ اور جادوگروں کے مقابلے میں شغل میلا کریں۔ مقابلے سے قبل جادوگر فرعون کے دربار میں حاضر ہیں۔ وہ یقین دہانی حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ اگر ہمیں کامیابی حاصل ہوگئی تو ہمیں معقول معاوضہ دیا جائے گا۔ یہ فرعون کی جانب سے ایک پختہ وعدہ حاصل کرلیتے ہیں کہ اگر کامیاب ہوئے تو ان کو معقول اجرت کے ساتھ ساتھ شاہی تخت و تاج کا قرب بھی حاصل ہوگا اور تم میرے مقربین میں سے ہو گے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(38) آخر کار وہ جادوگر مقررہ دن کے ایک خاص وقت پر جمع کرلئے گئے مقررہ دن یوم الزیۃ اور خاص وقت چاشت کا وقت جیسا کہ سورة طہ میں گذر چکا ہے۔