Surat us Shooaraa

Surah: 26

Verse: 6

سورة الشعراء

فَقَدۡ کَذَّبُوۡا فَسَیَاۡتِیۡہِمۡ اَنۡۢبٰٓؤُا مَا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۶﴾

For they have already denied, but there will come to them the news of that which they used to ridicule.

ان لوگوں نے جھٹلایا ہے اب انکے پاس جلدی سے اسکی خبریں آجائیں گی جسکے ساتھ وہ مسخرا پن کر رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

So, they have indeed denied, then the news of what they mocked at will come to them. meaning, they denied the truth that came to them, so they will come to know the news of the consequences of this denial after a while. وَسَيَعْلَمْ الَّذِينَ ظَلَمُواْ أَىَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ And those who do wrong will come to know by what overturning they will be overturned. (26:227)...  Then Allah tells those who dared to oppose His Messenger and disbelieve in His Book, that He is the Subduer, the Almighty, the All-Powerful, Who created the earth and caused every good kind of crop, fruit and animal to grow therein. أَوَلَمْ يَرَوْا إِلَى الاَْرْضِ كَمْ أَنبَتْنَا فِيهَا مِن كُلِّ زَوْجٍ كَرِيمٍ   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

6۔1یعنی تکذیب کے نتیجے میں ہمارا عذاب عنقریب انھیں اپنی گرفت میں لے لے گا جسے وہ ناممکن سمجھ کر استہزاء و مذاق کرتے ہیں یہ عذاب دنیا میں بھی ممکن ہے جیسا کہ کئی قومیں تباہ ہوئیں بصورت دیگر آخرت میں تو اس سے کسی صورت چھٹکارا نہیں ہوگا ماکانوا عنہ معرضین نہیں کہا بلکہ ماکانوا بہ یستھزؤن کہا کیونکہ است... ہزا ایک تو اعراض و تکذیب کو بھی مستلزم ہے دوسرے یہ اعراض و تکذیب سے زیادہ بڑا جرم ہے۔ فتح القدیر۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٥] یہ لوگ تو بارہ بار سمجھانے کے باوجود اپنی ضد، ہٹ دھرمی اور مخالفت پر اڑے بیٹھے ہیں۔ ان لوگوں کا علاج یہ نہیں کہ کوئی معجزہ ان پر نازل کیا جائے کہ وہ ایمان لانے پر مجبور ہوجائیں۔ بلکہ اب ان کا علاج صرف یہ باقی رہ گیا ہے کہ انھیں جوتوں سے سیدھا کیا جائے۔ اور عنقریب انھیں ایسی بھی خبریں ملتی رہیں ... گی۔ جس سے ان کو واضح طور پر معلوم ہوجائے گا کہ جن باتوں کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ وہی باتیں برحق اور درست تھیں۔ اس کی ایک شکل تو یہ تھی کہ ان کی تمام تر معاندانہ کوششوں کے باوجود اسلام کو غلبہ نصیب ہوتا چلا گا اور یہ ہر ہر میدان میں مات کھاتے رہے اور ان کے لواحقین ایسی خبریں سنتے اور غم کے گھونٹ پیتے رہے اور پیتے رہیں گے اور دوسری صورت کی آخری منزل ان کی موت ہے۔ دنیا میں ہی جب یہ لوگ موت کی سرحد پر آن کھڑے ہوں گے تو ان پر ساری حقیقتیں منکشف ہوتی چلی جائیں گی۔ لہذا آپ ان کے عم میں ہلکان ہونا چھوڑ دیجئے۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَقَدْ كَذَّبُوْا۔۔ : یعنی یہ لوگ صرف اعراض تک ہی نہیں رہے بلکہ انھوں نے صاف جھٹلا دیا اور اس سے بڑھ کر ان چیزوں کا مذاق بھی اڑانے لگے جن کے آنے کی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبر دی تھی، جیسا کہ ” مكَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ “ سے معلوم ہو رہا ہے۔ فَسَيَاْتِيْهِمْ اَنْۢبٰۗـؤُا مَا كَانُوْ... ا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ : یعنی پیغمبر نے انھیں جن چیزوں کے واقع ہونے کی خبریں دیں، جن کا وہ مذاق اڑاتے رہے تھے، وہ بہت جلد ان کی آنکھوں کے سامنے آجائیں گی اور انھیں معلوم ہوجائے گا کہ وہ حق تھیں۔ اس میں کفار کے لیے سخت وعید ہے۔ دیکھیے سورة انعام (٤، ٥) ۔ اَنْۢبٰۗـؤُا ” نَبَأٌ“ کی جمع ہے، کسی بڑے واقعہ کی خبر کو ” نَبَأٌ“ کہتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : (وَلَقَدْ جَاۗءَكَ مِنْ نَّبَاِى الْمُرْسَلِيْنَ ) [ الأنعام : ٣٤ ] ” اور بلاشبہ یقیناً تیرے پاس ان رسولوں کی کچھ خبریں آئی ہیں۔ “ ” اَنْۢبٰۗـؤُا “ جمع کا لفظ اس لیے استعمال فرمایا ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بتائی ہوئی بہت سی باتوں کا مذاق اڑاتے رہے تھے، مثلاً قیامت، دنیا میں ان کو ملنے والی سزا، مسلمانوں کا غالب آنا، فتح مکہ، جہنم کا عذاب اور زقوم کا درخت وغیرہ۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَقَدْ كَذَّبُوْا فَسَيَاْتِيْہِمْ اَنْۢــبٰۗـؤُا مَا كَانُوْا بِہٖ يَسْتَہْزِءُوْنَ۝ ٦ كذب وأنه يقال في المقال والفعال، قال تعالی: إِنَّما يَفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] ، ( ک ذ ب ) الکذب قول اور فعل دونوں کے متعلق اس کا استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے ۔ إِنَّما ي... َفْتَرِي الْكَذِبَ الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ [ النحل/ 105] جھوٹ اور افتراء تو وہی لوگ کیا کرتے ہیں جو خدا کی آیتوں پر ایمان نہیں لاتے نبأ خبر ذو فائدة عظیمة يحصل به علم أو غَلَبَة ظنّ ، ولا يقال للخبر في الأصل نَبَأٌ حتی يتضمّن هذه الأشياء الثّلاثة، وحقّ الخبر الذي يقال فيه نَبَأٌ أن يتعرّى عن الکذب، کالتّواتر، وخبر اللہ تعالی، وخبر النبيّ عليه الصلاة والسلام، ولتضمُّن النَّبَإِ معنی الخبر قال اللہ تعالی: قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] ، ( ن ب ء ) النبا ء کے معنی خیر مفید کے ہیں جو علم یا غلبہ ظن کا فائدہ دے اور حقیقی منعی کے لحاظ سے کسی خبر تک اس میں تین چیزیں موجود نہ ہوں ۔ یعنی نہایت مفید ہونا اور اس سے علم یا غلبہ ظن کا حاصل ہونا اور نبا صرف اس خبر کو کہا جاتا ہے جس میں کذب کا احتمال نہ ہو ۔ جیسے خبر متواتر خبر الہیٰ اور خبر نبوی جیسے فرمایا : ۔ قُلْ هُوَ نَبَأٌ عَظِيمٌ أَنْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ [ ص/ 67 68] کہہ دو کہ یہ ایک بڑی ( ہولناک چیز کی ) خبر ہے جس کو تم دھیان میں نہیں لاتے اسْتِهْزَاءُ : ارتیاد الْهُزُؤِ وإن کان قد يعبّر به عن تعاطي الهزؤ، کالاستجابة في كونها ارتیادا للإجابة، وإن کان قد يجري مجری الإجابة . قال تعالی: قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] ، وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] ، ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر/ 11] ، إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء/ 140] ، وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام/ 10] والِاسْتِهْزَاءُ من اللہ في الحقیقة لا يصحّ ، كما لا يصحّ من اللہ اللهو واللّعب، تعالیٰ اللہ عنه . وقوله : اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15] أي : يجازيهم جزاء الهزؤ . ومعناه : أنه أمهلهم مدّة ثمّ أخذهم مغافصة «1» ، فسمّى إمهاله إيّاهم استهزاء من حيث إنهم اغترّوا به اغترارهم بالهزؤ، فيكون ذلک کالاستدراج من حيث لا يعلمون، أو لأنهم استهزء وا فعرف ذلک منهم، فصار كأنه يهزأ بهم كما قيل : من خدعک وفطنت له ولم تعرّفه فاحترزت منه فقد خدعته . وقد روي : [أنّ الْمُسْتَهْزِئِينَ في الدّنيا يفتح لهم باب من الجنّة فيسرعون نحوه فإذا انتهوا إليه سدّ عليهم فذلک قوله : فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 34] «2» وعلی هذه الوجوه قوله عزّ وجلّ : سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 79] . الا ستھزاء اصل میں طلب ھزع کو کہتے ہیں اگر چہ کبھی اس کے معنی مزاق اڑانا بھی آجاتے ہیں جیسے استجا بۃ کے اصل منعی طلب جواب کے ہیں اور یہ اجابۃ جواب دینا کے معنی میں استعمال ہوتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ قُلْ أَبِاللَّهِ وَآياتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِؤُنَ [ التوبة/ 65] کہو کیا تم خدا اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنسی کرتے تھے ۔ وَحاقَ بِهِمْ ما کانوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [هود/ 8] اور جس چیز کے ساتھ یہ استہزاء کیا کرتے ۔ تھے وہ ان کو گھر لے گی ۔ ما يَأْتِيهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كانُوا بِهِ يَسْتَهْزِؤُنَ [ الحجر/ 11] اور ان کے پاس کوئی پیغمبر نہیں آتا تھا مگر اس کے ساتھ مذاق کرتے تھے ۔إِذا سَمِعْتُمْ آياتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِها وَيُسْتَهْزَأُ بِها[ النساء/ 140] کہ جب تم ( کہیں ) سنو کہ خدا کی آیتوں سے انکار ہوراہا ہے ا اور ان کی ہنسی ارائی جاتی ہے ۔ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِنْ قَبْلِكَ [ الأنعام/ 10] اور تم سے پہلے بھی پیغمبروں کے ساتھ تمسخر ہوتے ہے ۔ حقیقی معنی کے لحاظ سے استزاء کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف صحیح نہیں ہے جیسا کہ لہو ولعب کا استعمال باری تعالیٰ کے حق میں جائز نہیں ہے لہذا آیت : ۔ اللَّهُ يَسْتَهْزِئُ بِهِمْ وَيَمُدُّهُمْ فِي طُغْيانِهِمْ يَعْمَهُونَ [ البقرة/ 15]( ان ) منافقوں سے ) خدا ہنسی کرتا ہے اور انہیں مہلت دیئے جاتا ہے کہ شرارت وسر کشی میں پڑے بہک رہے ہیں ۔ میں یستھزئ کے معنی یا تو استھزاء کی سزا تک مہلت دی اور پھر انہیں دفعتہ پکڑ لیا یہاں انہوں نے ھزء کی طرح دھوکا کھا یا پس یا اس مارج کے ہم معنی ہے جیسے فرمایا : ۔ ان کو بتریج اس طرح سے پکڑیں گے کہ ان کو معلوم ہی نہ ہوگا ۔ اور آہت کے معنی یہ ہیں کہ جس قدر وہ استہزار اڑا رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کے استہزار سے باخبر ہے تو گو یا اللہ تعالیٰ بھی ان کا مذاق اڑارہا ہے ۔ مثلا ایک شخص کسی کو دھوکہ دے ۔ اور وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہوکر اسے اطلاع دیئے بغیر اسے سے احتراز کرے تو کہا جاتا ہے ۔ خدعنہ یعنی وہ اس کے دھوکے سے باخبر ہے ۔ ایک حدیث میں ہے ۔ ان للستھزبین فی الدنیا الفتح لھم باب من الجنتہ فیسر عون نحوہ فاذا انتھرا الیہ سد علیھم ۔ کہ جو لوگ دنیا میں دین الہٰی کا مذاق اڑاتے ہیں قیامت کے دن ان کے لئے جنت کا دروازہ کھولا جائیگا جب یہ لوگ اس میں داخل ہونے کے لئے سرپ دوڑ کر وہاں پہنچیں گے تو وہ دروازہ بند کردیا جائیگا چناچہ آیت : ۔ فَالْيَوْمَ الَّذِينَ آمَنُوا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُونَ [ المطففین/ 34] تو آج مومن کافروں سے ہنسی کریں گے ۔ میں بعض کے نزدیک ضحک سے یہی معنی مراد ہیں اور آیت سَخِرَ اللَّهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذابٌ أَلِيمٌ [ التوبة/ 79] خدا ان پر ہنستا ہے اور ان کے لئے تکلیف دینے والا عذاب تیار ہے ۔ میں بھی اسی قسم کی تاویل ہوسکتی ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦) یہاں تک کہ انہوں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم کو جھٹلایا۔ سو ان کو عنقریب عذاب کی حقیقت معلوم ہوجائے گی یا یہ کہ قرآن کریم اور رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جو مذاق کرتے تھے اس کی سزا کی حقیقت ان کو عنقریب معلوم ہوجائے گی ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (قَدْ کَذَّبُوْا فَسَیَاْتِیْہِمْ اَنْبآؤُا مَا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِءُ وْنَ ) ” یعنی عذاب الٰہی کے ذریعے عنقریب ان کی پکڑ ہونے والی ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

4 That is, the people who show lack of feeling and interest for every rational attempt made to bring them to the right way, cannot be made to believe forcibly by sending down Signs from heaven. They only deserve to be shown their evil end after they have been duly warned and shown guidance, which they not Only treated with indifference but rejected scornfully. This evil end can be shown to them in...  several ways: (1) The Truth which they have bitterly opposed and scoffed at should prevail in the world in front of their very eyes in spite of their antagonism. (2) They should be visited by a painful torment and eliminated from the world. (3) Alter a few years of misguided life they should meet death and see for themselves that what they had been following wholeheartedly throughout their lives was nothing but falsehood and what the Prophets had been presenting was the very Truth, which they had been scoffing at. Thus the evil end can take place differently for different people as it happened in the past.  Show more

سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :4 یعنی جن لوگوں کا حال یہ ہو کہ معقولیت کے ساتھ ان کو سمجھانے اور راہ راست دکھانے کی جو کوشش بھی کی جائے اس کا مقابلہ بے رخی و بے التفاتی سے کریں ، ان کا علاج یہ نہیں ہے کہ ان کے دل میں زبردستی ایمان اتارنے کے لیے آسمان سے نشانیاں نازل کی جائیں ، بلکہ ایسے لوگ اس با... ت کے مستحق ہیں کہ جب ایک طرف انہیں سمجھانے کا حق پورا پورا ادا کر دیا جائے اور دوسری طرف وہ بے رخی سے گزر کر قطعی اور کھلی تکذیب پر ، اس سے بھی آگے بڑھ کر حقیقت کا مذاق اڑانے پر اتر آئیں ، تو ان کا انجام بد انہیں دکھا دیا جائے ۔ یہ انجام بد اس شکل میں بھی انہیں دکھایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں وہ حق ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی ساری مزاحمتوں کے باوجود غالب آ جائے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے ۔ اس کی شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان پر ایک عذاب الیم نازل ہو جائے اور وہ تباہ و بر باد کر کے رکھ دیے جائیں ۔ اور وہ اس شکل میں بھی ان کے سامنے آسکتا ہے کہ چند سال اپنی غلط فہمیوں میں مبتلا رہ کر وہ موت کی ناگزیر منزل سے گزریں اور آخر کار ان پر ثابت ہو جائے کہ سراسر باطل تھا جس کی راہ میں انہوں نے اپنی تمام سرمایہ زندگانی کھپا دیا اور حق وہی تھا جسے انبیاء علیہم السلام پیش کرتے تھے اور جسے یہ عمر بھر ٹھٹھوں میں اڑاتے رہے ۔ اس انجام بد کے سامنے آنے کی چونکہ بہت سی شکلیں ہیں اور مختلف لوگوں کے سامنے وہ مختلف صورتوں سے آسکتا ہے اور آتا رہا ہے اسی لیے آیت میں نَبَاء کے بجائے اَنْبَاء بصیغہ جمع فرمایا گیا ، یعنی جس چیز کا یہ مذاق اڑا رہے ہیں اس کی حقیقت آخر کار بہت سی مختلف شکلوں میں انہیں معلوم ہو گی ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(٦ تا ٢٢) یہ مسخراپن کا نتیجہ بدر کی لڑائی میں معلوم ہوا جس کا ذکر انس بن مالک (رض) کی صحیح روایتوں سے ایک جگہ گزر چکا ہے آگے فرمایا کہ کیا نہیں دیکھا انہوں نے غور سے زمین کی طرف کہ کس طرح اگائے ہم نے اس میں طرح طرح کے جوڑے میووں کے اور ہر قسم کی کھیتی یہ منکرین حشر کو قائل کیا ہے مطلب یہ ہے کہ جس ط... رح سوکھی زمین سوکھا اناج کا دانہ اور سوکھی ہر ایک پھل کی گٹھلی سب مردہ کے مانند ہوتے ہیں خدا کی قدرت سے مینہ برستا ہے جس سے زمین زندہ چیزوں کی طرح تروتازہ ہوجاتی ہے اور ہر اناج کے دانہ اور میوہ کی گٹھلیوں میں وہ جان پڑجاتی ہے کہ ایک دانہ سے ہزاروں دانے اور ایک گٹھلی سے ہزاروں پھل پیدا ہوجاتے ہیں اسی طرح دوسرے صور سے پہلے ایک مینہ برسے گا جس سے ان منکرین حشر کے جسم بن کر تیار ہوجاویں گے اور جس طرح ماں کے پیٹ میں پتلہ تیار ہوجانیکے بعد اس میں روح بھونک دی گئی ہے اسی طرح ان جسموں میں روح پھونک دی جاوے گی صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے ابوہریرہ (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے جس میں دوسرے صور سے پہلے کے اس مینہ کا ذکر تفصیل سے ہے۔ صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے انس بن مالک (رض) کی حدیث سورة انفال میں گزر چکی ہے کہ ابوجہل نے قرآن کی آیتوں کے جھٹلانے کے طور پر مسخراپن سے یہ کہا تھا کہ اگر یہ قرآن حق ہے تو ہم لوگوں پر آسمان سے پتھروں کا مینہ برسے ‘ ابوجہل کی اس شرارت کے سبب سے بدر کی لڑائی میں ابوجہل کو زیادہ ذلیل ہونا پڑا چناچہ جب یہ مرنے لگا تو عبداللہ بن مشعود (رض) نے اس کے سینہ پر چڑھ کر اس کی داڑھی پکڑ لی اور اس کو برا بھلا کہا جس کا ذکر صحیح بخاری کی انس بن مالک (رض) کی روایتوں میں تفصیل سے ہے ‘ فسأیتھم انباء ما کانوا بہ یستھزؤن ‘ کی یہ حدیث گویا تفسیر ہے ‘ پھر فرمایا اس میں نشانی ہے پروردگار کی قدرت کی جس نے زمین کو بچھایا اور آسمان کو ایک اونچی چھت بنایا انسان کو اور اس کی ضرورت کی چیزوں کو پیدا کیا باوجود اس کے پھر اکثر لوگ نہیں ایمان لاتے بلکہ اس کو اور اس کے رسولوں اور کتابوں کو جھٹلاتے ہیں اور اس کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں اور مناہی کی باتوں پر چلتے ہیں بیشک تیرا رب غالب ہے ہر شے پر اور رحیم ہے مخلوق پر۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ ماننے پر جلد مؤاخذہ نہیں کرتا بلکہ مہلت دیتا ہے پھر پکڑے گا پکڑنا زبردست اب آگے اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون اور اس کی قوم کی طرف جانے کا حکم دیا اور پکارا اس کو کوہ طور کے داہنے طرف سے اور کلام کیا اس کے ساتھ اور رسول بنایا اس کو اور چن لیا اس کو اس حکم کی تعمیل کے لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے جو عذر کیا وہ یہ تھا کہ میں ڈرتا ہوں اس سے کہ فرعونی لوگ مجھ کو جھٹلادیں اور مجھ کو غصہ آجاوے اور میں طاقت لسانی بھی نہیں رکھتا کیونکہ بوجہ لکنت کے صاف بول نہیں سکتا اس لیے میرے ساتھ ہارون ( علیہ السلام) کو بھی رسول بنایا جاوے علاوہ اس کے فرعون والوں کا مجھ پر یہ الزام ہے کہ میں نے ان کا ایک آدمی مار ڈالا تھا اس واسطے مجھ کو ڈر ہے کہ کہیں وہ مجھ کو قتل کر ڈالیں یہ عذر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پیش کئے اور ان عذروں کے دور کرنے کی اللہ تعالیٰ سے التجا کی جس کا ذکر سورة طٰہ میں ہے قَالَ رَبِّ اشَرُحْ لِیْ صَدْریْ وَیَسّرِلیِ اَمْرِیْ وَاحْلُلْ عُقْدَۃ مِّنْ لِسَانِیْ یَقَقَھوْا قَوْلِیْ ‘ مطلب یہ ہے کہ یا اللہ میرے دل میں سخت باتوں کی برداشت پیدا کردی جاوے تاکہ میں نبوت کی خدمت کو بردباری سے ادا کرسکوں اور میری زبان میں توتلا پن جو ہے جاتا رہے تاکہ پیغام نبوت پورا ادا ہو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا قَدْاُوْتِیْتَ سُؤْلَکَ یٰمُوْسیٰ جس کا مطلب یہ ہے کہ اے موسیٰ تمہاری التجا قبول ہوگئی حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے سینے کی کشادگی کا سوال اس واسطے کیا کہ غصہ نہ آئے اور زیان سے گرہ کا کھلنا اس واسطے چاہا کہ بچپن میں زبان جل گئی تھی اچھی طرح بات نہ کرسکتے تھے اس واسطے آپ کی التجا یہ تھی کہ وہ بات جاتی رہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زبان کے جل جانے کا قصہ سورة طٰہٰ میں گزر چکا اور قبطی کے مار ڈالنے کا خوف حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے دل میں تھا جس کے سبب سے مصر سے نکلے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا مت ڈرو اور جاؤ میری نشانیاں اور میں تمہارے ساتھ سب باتیں سنتا ہوں جس طرح سورة قصص میں فرمایا (سَنَشُدُ عضدک باخیک ونجعل لکما سلطانا فلا یصلون الیکما بایتنا انتما ومن اتبعکما الغلبون) ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم قوت دیں گے تیرے بازو کو تیرے بھائی کے ساتھ اور دیں گے تم کو ایسا غلبہ کہ نہ پہنچ سکیں گے وہ لوگ تم تک ہماری مدد سے بلکہ تم اور جو تمہارے ساتھ ہوں گے غالب رہو گے یہ قبطی کے مار ڈالنے کا قصہ سورة قصص میں آوے گا جس کا حاصل یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک فرعونی اور اسرائیلی کو جھگڑتے ہوئے دیکھا اس جھگڑے میں قصور فرعونی کا تھا اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) مدین کو چلے گئے اور وہاں نکاح کرلیا نکاح کے بعد کچھ عرصہ تک مدین میں رہے اور مدین سے مصر کی واپسی کے وقت کوہ طور پر اللہ تعالیٰ سے وہ باتیں ہوئیں جن کا ذکر ان آیتوں کے شروع میں ہے اور مصر میں آنے کے بعد فرعون سے وہ باتیں ہوئیں جن کا ذکر ان آیتوں کے آخر میں ہے حضرت موسیٰ کی التجا پر جب موسیٰ (علیہ السلام) اور ہارون (علیہ السلام) دونوں نبی ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم دونوں فرعون کے پاس جاکر کہو کہ ہم رب العالمین کے بھیجے ہوئے ہیں اے فرعون تو بنی اسرائیل کو اپنی قید سے اور عذاب سے چھوڑ دے وہ اللہ کے ایمان دار بندے ہیں اور ان کو ہمارے ساتھ کردے حضرت موسیٰ خدا کا یہ پیغام پہنچا چکے تو فرعون نے حضرت موسیٰ کی طرف حقارت کی نگاہ سے دیکھ کر کہا تو تو وہی ہے جسے ہم نے پرورش کیا ہمارے گھر میں اپنی عمر کے کئی سال رہا اس کا تو نے یہ بدلا کیا کہ ایک آدمی کو ہم لوگوں میں سے جان سے مار ڈالا تو بڑا ناشکرا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) نے لفظ کافرین کی تفسیر ناشکر کی ہے اور اس تفسیر کو ابن جریر نے قوی ٹھہرایا ہے فرعون کی ان باتوں کا حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے جواب دیا کہ میں نے یہ کام اس وقت کیا کہ نہ مجھ پر وحی آئی تھی اور نہ نبی رسول تھا حضرت عبداللہ بن عباس (رض) اور مجاہد وقتادہ نے ضلالت کی تفسیر جہالت کے ساتھ کی اور کہا انامن الضالین اس لیے فرمایا کہ عربی زبان میں ضلالت کا لفظ جہالت کی جگہ اکثر بولا جاتا ہے اسی واسطے ابن جریج کا قول ہے کہ عبداللہ بن مسعود (رض) کی قراءت بھی اسی طرح ہے۔ پھر کہا حضرت موسیٰ نے کہ بھاگا میں تم سے جب ڈرا میں تم سے ‘ اب میں اس حالت پر نہیں ہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو رسول بنا کر تیرے پاس بھیجا ہے اگر تو میری اطاعت کرے گا تو عذاب سے بچ جائے گا اور مخالفت کرے گا تو تو ہلاک ہوجاوے گا یہ جو تو مجھ پر احسان میری پرورش کا جتاتا ہے یہ بمقابلہ اس ظلم و زیادتی کے جو تو بنی اسرائیل کے ساتھ کر رہا ہے کچھ بھی نہیں کیونکہ تو نے ان کو غلام بنا رکھا ہے اور سخت سخت کام ان سے لیتا ہے فرعون کے گھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پرورش کا قصہ وہی فرعون کا خواب ہے جس کا ذکر سورة بقرہ میں گزر چکا ہے کہ فرعون نے خواب میں سوائے بنی اسرائیل کے محلہ کے مصر کے تمام گھروں کو آگ میں جلتے ہوئے دیکھا اور اس خواب کی یہ تعبیر قرار پائی کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا ایسا پیدا ہوگا جس کے سبب سے فرعونی بادشاہت مٹ جاوے گی فرعون نے اس تعبیر سے بچنے کے لیے بنی اسرائیل کے لڑکوں کے قتل کرنے کا حکم دیا مگر تقدیر الٰہی کے آگے آدمی کی تدبیر کیا چل سکتی ہے اخیر موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور فرعونیوں کے قتل سے اللہ تعالیٰ نے انہیں بچا لیا اور موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو دودھ پلا کر ایک صندوق میں لٹا دیتی تھیں اور ایک رسی باندھ کر اس صندوق کو دریا نیل میں ڈال دیا کرتی تھیں ایک دن صنددق کی رسی کھل گئی اور وہ صندوق بہتا بہتا فرعون کے گھر پہنچ گیا آسیہ فرعون کی بی بی نے وہ صندوق پانی میں سے نکلوایا اور کھولا تو اس سے ایک لڑکا نکلا ‘ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی الفت آسیہ کے دل میں ڈال دی اس لیے آسیہ نے موسیٰ (علیہ السلام) کے پالنے کی اجازت فرعون سے چاہی اور فرعون نے اجازت دے دی بچہ پلنے میں آسیہ نے ایک دن موسیٰ (علیہ السلام) کو فرعون کی گودی میں دے دیا موسیٰ (علیہ السلام) نے آیندہ کی نبوت کے جوش میں فرعون کی ڈاڑھی نوچ ڈالی جس سے فرعون کو اندیشہ ہوا کہ شاید یہ وہی فرعونی بادشاہت کو مٹانے والا لڑکا ہے۔ اس اندیشہ کے سبب سے فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے قتل کا قصد کیا مگر آسیہ نے فرعون کو سمجھایا کہ ناسمجھ بچہ کی بات کا کچھ خیال نہ کرنا چاہیے اخیر میاں بی بی کی قیل وقال کے بعد یہ صلاح ٹھہری کہ ایک رکابی میں آگ کے دھکتے ہوئے انگارے اور دوسری رکابی میں کچھ جواہرات ڈال کر دونوں رکابیاں اس بچہ کے سامنے رکھ دی جاویں اگر یہ بچہ جواہرات کی رکابی میں ہاتھ ڈالے تو جان لینا کہ سمجھ دار ہے اور اگر انگاروں کی رکابی میں ہاتھ ڈال دیوے تو ناسمجھ ہے جس وقت یہ دونوں رکابیاں موسیٰ (علیہ السلام) کے سامنے رکھی گئیں تو موسیٰ (علیہ السلام) چاہتے تھے کہ جواہرات کی رکابی میں ہاتھ ڈالیں لیکن جبرئیل (علیہ السلام) نے موسیٰ (علیہ السلام) کا ہاتھ پکڑ کر انگاروں کی رکابی میں ڈال دیا اور ایک انگارہ ان کے منہ میں بھی دے دیا جس سے ان کی زبان جل کر توتلی ہوگئی ‘ ان آیتوں میں ولا ینطلق لسانی کے لفظوں سے موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی زبان کے اس توتلی پن کے مطلب کو ادا کیا ہے۔ فرعون کے خواب کا قصہ اور موسیٰ (علیہ السلام) کے زبان جل جانے کا قصہ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کے شاگردوں میں سے مجاہد اور سعید بن جبیر کے قول کے موافق تفسیر سدی اور تفسیر ابن جریر میں معتبر سند سے ہے۔ اس تفسیر میں سفیان ثوری کا یہ قول ایک جگہ گزر چکا ہے کہ تفسیر کے باب میں مجاہد (رح) اور سعید بن جبیر کی روایت کا بڑا اعتبار ہے سفیان بن سعید ثوری (رح) معتبر تبع تابعین میں ہیں حدیث کی سب کتابوں میں ان سے روایتیں ہیں یہ آسیہ بنت مزاحم فرعون کی بی بی جنہوں نے فرعون سے موسیٰ (علیہ السلام) کے پالنے کی اجازت لی بنی اسرائیل میں بڑی کامل عورتوں میں سے ہیں چناچہ صحیح بخاری میں ابوموسیٰ اشعری (رض) ١ ؎ سے اور ترمذی میں انس بن مالک (رض) ٢ ؎ سے جو روایتیں ہیں ان میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مردوں میں سے تو بہت کامل لوگ گزرے مگر عورتوں میں مریم بنت عمران خدیجہ بنت خو یلد فاطمہ بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آسیہ بنت مزاحکم یہ چار عورتیں کامل ہیں ‘ فرعون کو جب آسیہ کی توحید الٰہی پر قائم ہوجانے کا حال معلوم ہوگیا تو اس ظالم نے طرح طرح کے عذاب سے آسیہ کو شہید کیا مگر آسیہ رحمھا اللہ نے ان سب عذابوں کو جھیلا اور مرتے دم تک اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو نہیں چھوڑا۔ (١ ؎ مشکوٰۃ باب بدء الخلق فصلی اوں ‘ ) (٢ ؎ مشکوٰۃ باب مناقت ازواج النبی ‘ فصل دوسری۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(26:6) فقد کذبوا۔ منجملہ دیگر خواص کے قد ماضی کو ماضی قریب کے معنی میں کردیتا ہے اور کبھی تحقیق کے معنی دیتا ہے ۔ فقد کذبوا تحقیق یہ لوگ (پیام حق اور پیام برحق دونوں کو) جھٹلا چکے ہیں یا انہوں نے جھٹلا دیا ہے۔ یہاں حق سے انکار کی مختلف صورتیں بیان فرمائی ہیں۔ اولا :۔ حق سے اعراض روگردانی۔ کبھی حق کو...  جادو کہہ کر۔ کبھی اس کو اساطیر الاولین گردان کر اور کبھی اس کو شعر گوئی بیان کرکے۔ پھر اس اعراض اور روگردانی کو آگے بڑھایا۔ اور کہہ دیا کہ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ پھر اس پر ہی اکتفاء نہ کیا۔ بلکہ خفیۃ واعلانا خلوت میں اور جلوت میں قولا فعلا اس کے استہزاء میں کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھا۔ فسیاتیہم : ف تعقیب کا ہے۔ س مضارع کو مستقبل قریب کے ساتھ مخصوص کردیتا ہے بمعنی اب۔ ابھی۔ قریب۔ عنقریب۔ یاتی فعل مضارع واحد مذکر غائب ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ پس وہ جلد ان پر آجائے گا۔ پس وہ عنقریب ان کو آلے گا۔ پس وہ جلد ان کے پاس آجائے گا۔ انبؤا۔ خبریں ۔ حقیقتیں ۔ نبأ کی جمع۔ جس سے بڑا فائدہ اور یقین یا ظن غالب حاصل ہو اسے نبأ کہتے ہیں۔ جس خبر میں یہ باتیں موجود نہ ہوں اس کو نبأ نہیں بولتے کیونکہ کوئی خبر نبأ کہلانے کی مستحق ہی نہیں جب تک کہ وہ شائبہ کذب سے پاک نہ ہو۔ جیسے وہ خبر جو بطریق تواتر ثابت ہو یا جس کو اللہ اور اس کے رسول نے بیان کیا ہو۔ انبؤا مجاف ہے اور اگلا جملہ ما کانوا بہ یستھزء ون ۔ مضاف الیہ ہے اس امر کی خبریں جس کا یہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ انبؤا بصیغہ جمع آیا ہے جس طرح اعراض و تکذیب و استہزاء کی مختلف صورتیں تھیں اسی طرح آخر کار ان کی حقیقت بھی بہت سی مختلف شکلوں میں انہیں معلوم ہوگی۔ ما موصولہ بمعنی الذی جس امر کا ۔ جس بات کا۔ کانوا یستھزء ون ۔ ماضی استمراری جمع مذکر غائب۔ وہ مذاق اڑایا کرتے تھے۔ وہ اسہزا کیا کرتے تھے یا اڑاتے رہے ہیں۔ ترجمہ پس عنقریب ان کو اس چیز کی حقیقت (مختلف طریقوں سے) معلوم ہوجائے گی جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں۔ بعض کے نزدیک انبؤا مراد عقوبات ہیں یعنی عنقریب ان کو اس استہزاء کی سزا مل جائے گی خواہ وہ شکست سے دہزیمت کی صورت میں ہو جیسے جنگ بدر وغیرہ میں خواہ ان کی توقعات کی موت کی شکل میں ہو کہ ان کی خواہشات و توقعات کے علی الرغم کار حق کا غلبہ۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : نئی نشانیاں اور معجزات کا مطالبہ کرنے والوں کو جواب۔ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نئی نئی نشانیاں اور معجزات کا مطالبہ کرنے والوں کو سمجھایا گیا کہ اگر تم حقیقتاً ہدایت کے طالب ہو تو پھر اللہ تعالیٰ کی ذات اور قدرت کو پہچاننے کے لیے کیا کافی نہیں کہ جس دھرتی پر تم ... رہتے ہو اس پر غور کرو ؟ اگر تم اخلاص کی نظر سے دیکھو اور غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے فائدے کے لیے زمین میں کس قدر عمدہ چیزیں پیدا فرمائی ہیں غور کرنے والے کے لیے یقیناً اس میں عظیم نشانی ہے۔ لیکن لوگوں کی اکثریت ایمان لانے کے لیے تیار نہیں۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر غالب ہے کہ وہ حقائق ٹھکرانے والوں کو تہس نہس کر دے لیکن وہ اپنی شفقت و مہربانی کی وجہ سے انہیں مہلت پر مہلت دیے جا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو حقائق جاننے اور ہدایت پانے کے لیے نباتات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے کہ کیا انسان اس بات پر غور نہیں کرتا کہ ایک ہی قسم کی زمین ہوتی ہے ایک جیسی آب و ہوا اور ایک ہی پانی سے سیراب ہوتی ہے ؟ زمین کے ایک دوسرے سے ملے ہوئے مختلف طبقات اور قطعات ہیں جنہیں ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کی فصلوں اور پھلوں کو ایک دوسرے پر لذت، رنگت اور فوائد کے اعتبار سے فوقیت حاصل ہے۔ جس طرح جاندار چیزوں کے جوڑے ہیں ویسے ہی پودوں، درختوں اور پوری نباتات کے جوڑے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کے پھلوں کے بھی جوڑے پیدا کیے گئے ہیں۔ ایک ہی قسم کا پھل ہونے کے باوجود کوئی میٹھا ہے، کوئی کڑوا، کوئی ترش اور کوئی پھیکا ہے ایک ناقص ہے دوسرا اعلیٰ قسم کا نہایت قیمتی اور مفید ہے۔ پرانے زمانے کے انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ پودوں میں بھی جانوروں کی طرح نر اور مادہ ہوتے ہیں۔ آج نباتات کا جدید علم بتاتا ہے کہ ہر پودے کی نر اور مادہ صنف ہوتی ہے۔ حتی کہ وہ پودے جو یک صنفی (Unise xual) ہوتے ہیں ان میں بھی نر اور مادہ کے امتیازی اجزا یکجا ہوتے ہیں۔ مسائل ١۔ انسان کو نباتات پر غور کرنا چاہیے۔ ٢۔ دلائل جاننے کے باوجود لوگوں کی اکثریت ایمان نہیں لایا کرتی۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر غالب ہونے کے باوجود شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے۔ تفسیر بالقران اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ نباتات کی ایک جھلک : ١۔ اللہ نے پانی سے ہر قسم کی نباتات کو پیدا کیا۔ (الانعام : ٩٩) ٢۔ اللہ پانی سے تمہارے لیے کھیتی، زیتون، کھجور اور انگور اگاتا ہے۔ (النحل : ١١) ٣۔ اللہ نے کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (المومنون : ١٩) ٤۔ اللہ نے زمین میں کھجوروں اور انگوروں کے باغات پیدا کیے۔ (یٰس : ٣٤) ٥۔ اللہ نے باغات، کھجور کے درخت اور کھیتی پیدا کی جو ذائقہ کے لحاظ سے مختلف ہیں۔ (الانعام : ١٤١) ٦۔ تمہارے لیے نباتات کو زمین پر پھیلا کر مسخر کیا، ان کی اقسام مختلف ہیں۔ (النحل : ١٣) ٧۔ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا اور اس سے مختلف انواع کے پھل پیدا فرمائے۔ (فاطر : ٢٧) ٨۔ اللہ زمین سے کھیتی نکالتا ہے جس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔ (الزمر : ٢١)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فقد ……یستھزء ون (٦) اور یہ تہدید نہایت خفیہ اور مجمل ہے اور عذاب مجہول ہے۔ یہ لوگ چونکہ ان دھمکیوں کو ایک مذاق سمجھنے تھے ، اس لئے اللہ نے دھمکی کا انداز بیان بھی استہزائیہ کردیا۔ فسیاتیھم انبواما کانوا بہ یستھزون (٢٦ : ٦) ” عنقریب ان کو اس چیز کی حقیقت معلوم ہوجائے گی جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں۔...  “ یعنی اس عذاب کی خبریں ان تک پہنچ جائیں گی۔ جس کا یہ مذاق اڑاتے ہیں۔ ان لوگوں تک اس عذاب کی صرف خبریں ہی نہ پہنچیں گی بلکہ یہ لوگ عذاب چکھیں گے بھی اور یہ بذات خود خبر بن جائیں گے۔ اور ان پر جو مصیبت آئے گی لوگ گلی کوچوں میں اس کی داستانیں ایک دوسرے کو سناتے رہیں گے۔ یہ چونکہ مذاق اڑاتے تھے ، اس لئے اس تہدید میں بھی مذاقیہ جواب دیا گیا۔ لیکن یہ مذاق تہدید سے بھرا ہوا ہے۔ یہ لوگ ایک خارق عادت طبیعی معجزے کا مطالبہ کرتے ہیں اور اللہ کی ان روشن اور روشن اور چمک دار آیات و معجزات کا نوٹس نہیں لیتے جو ان کے اردگرد پھیلی ہوئی ہیں اور ان آیات و نشانات کے ہوتے ہوئے کسی قلب مفتوح اور کسی حساس بصیرت کو تو مزید کسی دلیل اور برہان کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس کائنات کا صفحہ اس قدر عجیب ہے کہ انسانی دل و دماغ اس کو دیکھ کر مطمئن ہوجاتا ہے۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(6) بہرحال ! یہ تکذیب کرچکے اب عنقریب ان کو اس بات کی حقیقت معلوم ہوجائے گی جس بات کا یہ لوگ مذاق اڑایا کرتے تھے اور جس چیز سے یہ تمسخر اور ہنسی کیا کرتے تھے۔ یعنی اس بےرخی اور اعراض کا نتیجہ یہ ہوا کہ صریح تکذیب کرنے لگے اور تکذیب کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمسخر اور ہنسی پر اتر آئے جیسا کہ ہر برے کام میں ... ہوا کرتا ہے بہرحال جب موت کے وقت یا قیامت میں عذاب کا معائنہ کریں گے اس وقت آنکھیں کھلیں گی کہ پیغمبروں نے سچ کہا تھا اور ہم غلطی اور اپنی آبائی جہالت میں مبتلا تھے۔  Show more