4 That is, the people who show lack of feeling and interest for every rational attempt made to bring them to the right way, cannot be made to believe forcibly by sending down Signs from heaven. They only deserve to be shown their evil end after they have been duly warned and shown guidance, which they not Only treated with indifference but rejected scornfully. This evil end can be shown to them in... several ways:
(1) The Truth which they have bitterly opposed and scoffed at should prevail in the world in front of their very eyes in spite of their antagonism.
(2) They should be visited by a painful torment and eliminated from the world.
(3) Alter a few years of misguided life they should meet death and see for themselves that what they had been following wholeheartedly throughout their lives was nothing but falsehood and what the Prophets had been presenting was the very Truth, which they had been scoffing at. Thus the evil end can take place differently for different people as it happened in the past. Show more
سورة الشُّعَرَآء حاشیہ نمبر :4
یعنی جن لوگوں کا حال یہ ہو کہ معقولیت کے ساتھ ان کو سمجھانے اور راہ راست دکھانے کی جو کوشش بھی کی جائے اس کا مقابلہ بے رخی و بے التفاتی سے کریں ، ان کا علاج یہ نہیں ہے کہ ان کے دل میں زبردستی ایمان اتارنے کے لیے آسمان سے نشانیاں نازل کی جائیں ، بلکہ ایسے لوگ اس با... ت کے مستحق ہیں کہ جب ایک طرف انہیں سمجھانے کا حق پورا پورا ادا کر دیا جائے اور دوسری طرف وہ بے رخی سے گزر کر قطعی اور کھلی تکذیب پر ، اس سے بھی آگے بڑھ کر حقیقت کا مذاق اڑانے پر اتر آئیں ، تو ان کا انجام بد انہیں دکھا دیا جائے ۔ یہ انجام بد اس شکل میں بھی انہیں دکھایا جا سکتا ہے کہ دنیا میں وہ حق ان کی آنکھوں کے سامنے ان کی ساری مزاحمتوں کے باوجود غالب آ جائے جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے ۔ اس کی شکل یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان پر ایک عذاب الیم نازل ہو جائے اور وہ تباہ و بر باد کر کے رکھ دیے جائیں ۔ اور وہ اس شکل میں بھی ان کے سامنے آسکتا ہے کہ چند سال اپنی غلط فہمیوں میں مبتلا رہ کر وہ موت کی ناگزیر منزل سے گزریں اور آخر کار ان پر ثابت ہو جائے کہ سراسر باطل تھا جس کی راہ میں انہوں نے اپنی تمام سرمایہ زندگانی کھپا دیا اور حق وہی تھا جسے انبیاء علیہم السلام پیش کرتے تھے اور جسے یہ عمر بھر ٹھٹھوں میں اڑاتے رہے ۔ اس انجام بد کے سامنے آنے کی چونکہ بہت سی شکلیں ہیں اور مختلف لوگوں کے سامنے وہ مختلف صورتوں سے آسکتا ہے اور آتا رہا ہے اسی لیے آیت میں نَبَاء کے بجائے اَنْبَاء بصیغہ جمع فرمایا گیا ، یعنی جس چیز کا یہ مذاق اڑا رہے ہیں اس کی حقیقت آخر کار بہت سی مختلف شکلوں میں انہیں معلوم ہو گی ۔ Show more