Commentary وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ (And he checked the birds - 27:20). The word تَفَقَّدَ (tafaqqud) means to verify about the presence or absence of some people. Hence it is translated as to check. Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) was bestowed by Allah Ta’ ala the rule over Jinns, the beasts and the birds, apart from humans. As it is customary for the ruler to look after and take care of all of his subjects, it is stated in this verse وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ That is Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) inspected the birds from his subjects, and made a note of the presence and absence of them all. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) also had the habit to keep himself informed about the wellbeing of his companions. If someone was absent, he used to go to his house to find out his welfare. If anyone was sick, he would go and visit him and do the needful nursing. If someone was afflicted with any trouble, he would make the effort to remove it. It is necessary for the rulers to take care of their subjects and for the saints of their disciples and students This verse has proved that Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) used to keep an eye on all types of his subjects, and used to keep himself fully informed about them, so much so that the absence of a small and weak bird like a hoopoe which has a small population compared to other birds, did not go unnoticed from him. It is also possible that his specific enquiry about the hoopoe was due to its small population and weak make-up among the species of birds. Therefore, he made special effort to keep his eyes on the weaker section of his subjects. Among the companions, Sayyidna ` Umar (رض) established the traditions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in totality during his tenure as caliph. He used to go round the streets of Madinah during the nights to keep him fully abreast with the state of affairs. If he found any one in distress or need, he would help him out. A number of such incidents are related in his biography: He used to say |"If a wolf kills a lamb by the side of river Euphrates, for that too Umar will be answerable|". (Qurtubi) Such were the principles of rule and administration, which were taught by the prophets and practically demonstrated by the revered companions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Because of these practices, the entire populace, both Muslims and non-Muslims, used to live in complete harmony and tranquility. Such justice and fair play, composure and tranquility were never witnessed ever in the whole world after their time. مَا لِيَ لَا أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ |"What is wrong with me that I do not see the hoopoe; rather he has disappeared? - 27:20 Taking account of one&s own Self Apparently Sulaiman (علیہ السلام) should have said at this occasion, “ What is wrong with the hoopoe that he is absent?|" But Sulaiman (علیہ السلام) asked about his own wrong when he said, |"What is wrong with me?|" Perhaps, it was because the hoopoe and all other birds were put under his control as a special reward. Initially it crossed his mind momentarily that probably His blessings have been curtailed for some slip on his part that a species of birds (the hoopoe) was not present. So, he made some soul searching to find out what could have been the reason for its absence? It was a case similar to that of the mystic saints who make enquiries from their Self before looking into the material causes for the relief of any distress, or when any blessing is reduced for them. It is their practice to take into account of any possible slips on their part in paying gratitude to Allah Ta’ ala for His bounties, which might have caused the withdrawal of the blessings from them. Qurtubi has quoted here the practice of these saints on the authority of Ibn al-` Arabi in the following words: اِذا فقدوا امالھم تفقّدوا اعمالھم That is ` when these saints do not succeed in their objectives, they take stock of their deeds to find out where have they committed the mistake&. After this initial stock-taking of Self and due considerations and deliberations it is said أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ (rather, he has disappeared - 27:20). Here the word اَم is used for the meaning of the word بَل (rather) (Qurtubi). Therefore, the meaning of the sentence is ` It is not that my sight has faltered in locating the hoopoe, but in fact it is not present&. Reason for picking up hoopoe from among the birds, and an important warning Sayyidna ` Abdullah Ibn &Abbas (رض) was asked as to what was the reason that the hoopoe was picked up from all the birds. He replied that Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) had camped at a place where there was no water, and Allah Ta’ ala has bestowed such a peculiar instinct to hoopoe that it can see things under the ground and can also locate the underground water. Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) wanted to find out, through the proficiency of the hoopoe, the depth and extent of the underground water. Having known the location of the underground water, he would have commanded the Jinns to excavate the ground to bring the water up - a task they would have performed very quickly. Paradoxically, despite having the piercing sight, the hoopoe gets entrapped in the nets of the hunters. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has commented on this: قف یا وقّاف کیف یری الھدھد باطن الارض وھو لا یرٰی الفخّ حین یقع فیہ (قرطبی) ` 0 the people of knowledge! try to understand this fact that the hoopoe has the ability to see things under the ground, but the net spread out over the ground gets obscured from its sight, and hence it gets entrapped in that&. The bottom line to understand is that whatever is destined for a person through the divine decree, whether it is trouble or comfort, has to be enforced, and no one can escape from it by his wisdom, insight or through the use of force or money.
خلاصہ تفسیر (اور ایک بار یہ قصہ ہوا کہ) سلیمان (علیہ السلام) نے پرندوں کی حاضری لی تو (ہدہد کو نہ دیکھا) فرمانے لگے کہ کیا بات ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھتا کیا کہیں غائب ہوگیا ہے (اور جب معلوم ہوا کہ واقع میں غائب ہے تو فرمانے لگے) میں اس کو (غیر حاضری پر) سخت سزا دوں گا یا اس کو ذبح کر ڈالوں گا یا وہ کوئی صاف دلیل (اور غیر حاضری کا عذر) میرے سامنے پیش کردے (تو خیر چھوڑ دوں گا) تھوڑی دیر بعد وہ آ گیا اور سلیمان (علیہ السلام سے) کہنے لگا کہ ایسی بات معلوم کر کے آیا ہوں جو آپ کو معلوم نہیں ہوئی اور (اجمالی بیان اس کا یہ ہے کہ) میں آپ کے پاس قبیلہ سبا کی ایک پختہ خبر لایا ہوں (جس کا تفصیلی بیان یہ ہے کہ) میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ ان لوگوں پر بادشاہی کر رہی ہے اور اس کو (بادشاہی کے لوازم میں سے) ہر قسم کا سامان حاصل ہے اور اس کے پاس ایک بڑا تخت ہے (اور مذہبی حالت ان کی یہ ہے کہ) میں نے اس (عورت) کو اور اس کی قوم کو دیکھا کہ وہ خدا (کی عبادت) کو چھوڑ کر آفتاب کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے (ان) اعمال (کفر) کو ان کی نظر میں مرغوب کر رکھا ہے (اور ان اعمال بد کو مزین کرنے کے سبب) ان کو راہ (حق) سے روک رکھا ہے اس لئے وہ راہ (حق) پر نہیں چلتے کہ اس خدا کو سجدہ نہیں کرتے جو (ایسا قدرت والا ہے کہ آسمان اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کو (جن میں سے بارش اور زمین کی نباتات بھی ہیں) باہر لاتا ہے اور (ایسا جاننے والا ہے کہ) تم لوگ (یعنی تمام مخلوق) جو کچھ (دل میں) پوشیدہ رکھتے ہو اور جو کچھ (زبان اور جسم کے اعضاء سے) ظاہر کرتے ہو وہ سب کو جانتا ہے (اس لئے) اللہ ہی ایسا ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے سلیمان (علیہ السلام) نے (یہ سن کر) فرمایا کہ ہم ابھی دیکھ لیتے ہیں کہ تو سچ کہتا ہے یا تو جھوٹوں میں سے ہے (اچھا) میرا یہ خط لے جا اور اس کو ان کے پاس ڈال دینا پھر (ذرا وہاں سے) ہٹ جانا، پھر دیکھنا کہ آپس میں کیا سوال و جواب کرتے ہیں ( پھر تو یہاں چلے آنا وہ لوگ جو کچھ کارروائی کریں گے اس سے تیرا سچ جھوٹ معلوم ہوجاوے گا۔ ) معارف و مسائل وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ ، تفقد کے لفظی معنے کسی مجمع کے متعلق حاضر و غیر حاضر کی تحقیق کرنے کے ہیں۔ اس لئے اس کا ترجمہ خبر گیری اور نگہبانی سے کیا جاتا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ نے انسانوں کے علاوہ جنات اور دحوش و طیور پر حکومت عطا فرمائی تھی اور جیسا کہ حکمرانی کا اصول ہے رعایا کے ہر طبقہ کی نگرانی اور خبر گیری حاکم کے فرائض میں سے ہے اس کے مطابق اس آیت میں بیان فرمایا تَفَقَّدَ الطَّيْرَ یعنی سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی رعایا کے طیور کا معائنہ فرمایا اور یہ دیکھا کہ ان میں کون حاضر ہے کون غیر حاضر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بھی عادت شریفہ یہ تھی کہ صحابہ کرام کے حالات سے باخبر رہنے کا اہتمام فرماتے تھے جو شخص غیر حاضر ہوتا اگر بیمار ہے تو عیادت کے لئے تشرف لے جاتے تھے تیمار داری کرتے اور کسی تکلیف میں مبتلا ہے تو اس کے لئے تدبیر فرماتے تھے۔ حاکم کو اپنی رعیت کی اور مشائخ کو اپنے شاگردوں اور مریدوں کی خبر گیری ضروری ہے : آیت مذکورہ سے ثابت ہوا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنی رعایا کے ہر طبقہ پر نظر رکھتے اور ان کے حالات سے اتنے باخبر رہتے تھے کہ ہدہد جو طیور میں چھوٹا اور کمزور بھی ہے اور اس کی تعداد بھی دنیا میں بہ نسبت دوسرے طیور کے کم ہے وہ بھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی نظر سے اوجھل نہیں ہوا، بلکہ خاص ہدہد کے متعلق جو سوال آپ نے فرمایا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ زمرہ طیور میں کم تعداد اور کمزور ہے، اس لئے اپنی رعیت کے کمزوروں پر نظر رکھنے کا زیادہ اہتمام فرمایا۔ صحابہ کرام میں حضرت فاروق اعظم نے اپنے زمانہ خلافت میں اس سنت انبیاء کو پوری طرح جاری کیا۔ راتوں کو مدینہ منورہ کی گلیوں میں پھرتے تھے کہ سب لوگوں کے حالات سے باخبر رہیں جس شخص کو کسی مصیبت و تکلیف میں گرفتار پاتے اس کی امداد فرماتے تھے جس کے بہت سے واقعات ان کی سیرت میں مذکور ہیں۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ |" اگر دریائے فرات کے کنارہ پر کسی بھیڑیئے نے کسی بکری کے بچے کو پھاڑ ڈالا تو اس کا بھی عمر سے سوال ہو گا |"۔ (قرطبی) یہ تھے وہ اصول جہانبانی و حکمرانی جو انبیاء (علیہم السلام) نے لوگوں کو سکھائے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان کو عملاً جاری کر کے دکھلایا اور جس کے نتیجہ میں پوری مسلم و غیر مسلم رعایا امن و اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتی تھی، اور ان کے بعد زمین و آسمان نے ایسے عدل و انصاف اور عام دنیا کے امن و سکون اور اطمینان کا یہ منظر نہیں دیکھا۔ مَا لِيَ لَآ اَرَى الْهُدْهُدَ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَاۗىِٕـبِيْنَ ، سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے کیا ہوگیا کہ میں ہدہد کو مجمع میں نہیں دیکھتا۔ اپنے نفس کا محاسبہ : یہاں موقع تو یہ فرمانے کا تھا کہ ہدہد کو کیا ہوگیا کہ وہ مجمع میں حاضر نہیں۔ عنوان شاید اس لئے بدلا کہ ہدہد اور تمام طیور کا مسخر ہونا حق تعالیٰ کا ایک انعام خاص تھا۔ ہدہد کی غیر حاضری پر ابتداء میں یہ خوف دل میں پیدا ہوا کہ شاید میرے کسی قصور سے اس نعمت میں کمی آئی کہ ایک صنف طیور کی یعنی ہدہد غائب ہوگیا اس لئے اپنے نفس سے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہوا ؟ جیسا کہ مشائخ صوفیہ کا معمول ہے کہ جب ان کو کسی نعمت میں کمی آئے یا کوئی تکلیف و پریشانی لاحق ہو تو وہ اس کے ازالہ کے لئے مادی اسباب کی طرف توجہ کرنے سے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کرتے تھے کہ ہم سے اللہ تعالیٰ کے حق شکر میں کونسی کوتاہی ہوئی جس کے سبب یہ نعمت ہم سے لے لی گئی۔ قرطبی نے اس جگہ بحوالہ ابن عربی ان بزرگوں کا یہ حال نقل کیا ہے۔ اذا فقدوا امالھم تفقدوا اعمالھم۔ یعنی ان حضرات کو جب اپنی مراد میں کامیابی نہیں ہوتی تو یہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں کہ ہم سے کیا قصور سرزد ہوا۔ اس ابتدائی محاسبہ نفس اور غور و فکر کے بعد فرمایا اَمْ كَانَ مِنَ الْغَاۗىِٕـبِيْنَ اس جگہ حرف ام بمعنے بل ہے (قرطبی) معنے یہ ہیں کہ یہ بات نہیں کہ ہدہد کے دیکھنے میں میری نظر نے خطاء کی بلکہ وہ حاضر ہی نہیں۔ طیور میں سے ہدہد کی تخصیص کی وجہ اور ایک اہم عبرت : حضرت عبداللہ بن عباس سے سوال کیا گیا کہ تمام پرندوں میں ہدہد کی تفتیش کی کیا وجہ پیش آئی تو آپ نے فرمایا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے کسی ایسے مقام میں قیام فرمایا جہاں پانی نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ نے ہدہد کو یہ خاصیت عطا فرمائی ہے کہ وہ زمین کے اندر کی چیزوں کو اور زمین کے اندر بہنے والے چشموں کو دیکھ لیتا ہے۔ مقصود حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا یہ تھا کہ ہدہد سے یہ معلوم کریں کہ اس میدان میں پانی کتنی گہرائی میں ہے اور کس جگہ زمین کھودنے سے پانی کافی مل سکتا ہے۔ ہدہد کی اس نشاندہی کے بعد وہ جنات کو حکم دیدیتے کہ اس زمین کو کھود کر پانی نکال لو وہ بڑی جلد کھود کر پانی نکال لیتے تھے۔ ہدہد اپنی تیز نظر اور بصیرت کے باوجود شکاری کے جال میں پھنس جاتا ہے اس پر حضرت ابن عباس نے فرمایا۔ قف یا وقاف کیف یری الھدھد باطن الارض وھو لا یری الفخ حین یقع فیہ (قرطبی) جاننے والو اس حقیقت کو پہچانو کہ ہدہد زمین کی گہرائی کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے مگر زمین کے اوپر پھیلا ہوا جال اس کی نظر سے اوجھل ہوجاتا ہے جس میں پھنس جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے جو امر تکلیف یا راحت کا کسی کے لئے مقدر کردیا ہے تو تقدیر الٰہی نافذ ہو کر رہتی ہے کوئی شخص اپنی فہم و بصیرت یا زور و زر کی طاقت کے ذریعہ اس سے نہیں بچ سکتا۔