Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 20

سورة النمل

وَ تَفَقَّدَ الطَّیۡرَ فَقَالَ مَا لِیَ لَاۤ اَرَی الۡہُدۡہُدَ ۫ ۖاَمۡ کَانَ مِنَ الۡغَآئِبِیۡنَ ﴿۲۰﴾

And he took attendance of the birds and said, "Why do I not see the hoopoe - or is he among the absent?

آپ نےپرندوں کی دیکھ بھال اور فرمانے لگے یہ کیا بات ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھتا؟ کیا واقعی وہ غیر حاضر ہے؟

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Absence of the Hoopoe Allah tells: وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ ... He inspected the birds, Mujahid, Sa`id bin Jubayr and others narrated from Ibn Abbas and others that the hoopoe was an expert who used to show Suleiman where water was if he was out in open land and needed water. The hoopoe would look for water for him in the various strata of the earth, just as a man looks at things on the surface of the earth, and he would know just how far below the surface the water was. When the hoopoe showed him where the water was, Suleiman would command the Jinn to dig in that place until they brought water from the depths of the earth. One day Suleiman went to some open land and checked on the birds, but he could not see the hoopoe. ... فَقَالَ مَا لِيَ لاَ أَرَى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَايِبِينَ and (Suleiman) said: "What is the matter that I see not the hoopoe Or is he among the absentees!" One day Abdullah bin Abbas told a similar story, and among the people was a man from the Khawarij whose name was Nafi` bin Al-Azraq, who often used to raise objections to Ibn Abbas. He said to him, "Stop, O Ibn Abbas; you will be defeated (in argument) today!" Ibn Abbas said: "Why?" Nafi` said: "You are telling us that the hoopoe can see water beneath the ground, but any boy can put seed in a trap and cover the trap with dirt, and the hoopoe will come and take the seed, so the boy can catch him in the trap." Ibn Abbas said, "If it was not for the fact that this man would go and tell others that he had defeated Ibn Abbas in argument, I would not even answer." Then he said to Nafi`: "Woe to you! When the decree strikes a person, his eyes become blind and he loses all caution." Nafi` said: "By Allah I will never dispute with you concerning anything in the Qur'an."

ہدہد ہدہد فوج سلیمان میں مہندس کا کام کرتا تھا وہ بتلاتا تھا کہ پانی کہاں ہے؟ زمین کے اندر کا پانی اس کو اسطرح نظر آتا تھا جیسے کہ زمین کے اوپر کی چیز لوگوں کو نظر آتی ہے ۔ جب سلیمان علیہ السلام جنگل میں ہوتے اس سے دریافت فرماتے کہ پانی کہاں ہے؟ یہ بتا دیتا کہ فلاں جگہ ہے ۔ اتنا نیچا ہے اتنا اونچا ہے وغیرہ ۔ حضرت سلیمان علیہ السلام اسی وقت جنات کو حکم دیتے اور کنواں کھود لیا جاتا پانی کی تلاش کا حکم دیا اتفاق سے وہ موجود نہ تھا ۔ اس پر آپ نے فرمایا آج ہدہد نظر نہیں آتا کیا پرندوں میں کہیں وہ چھپ گیا جو مجھے نظر نہ آیا ۔ یا واقع میں وہ حاضر نہیں؟ ایک مرتبہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ تفسیر سن کر نافع بن ارزق خارجی نے اعتراض کیا تھا یہ بکواسی ہر وقت حضرت عبداللہ کی باتوں پر بےجا اعتراض کیا کرتا تھا کہنے لگا آج تو تم ہارگئے ۔ حضرت عبداللہ نے فرمایا کیوں؟ اس نے کہا آپ جو یہ فرماتے ہو کہ ہدہد زمین کے تلے کا پانی دیکھ لیتا تھا یہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے ایک بچہ جال بچھاکر اسے مٹی سے ڈھک کر دانہ ڈال کر ہدہد کا شکار کرلیتا ہے اگر وہ زمین کے اندر کا پانی دیکھتا ہے تو زمین کے اوپر کا جال اسے کیوں نظر نہیں آتا ؟ آپ نے فرمایا اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ تو یہ سمجھ جائے گا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ لاجواب ہوگیا تو مجھے جواب کی ضرورت نہ تھی سن جس وقت قضا آجاتی ہے آنکھیں اندھی ہوجاتی ہیں اور عقل جاتی رہتی ہے ۔ نافع لاجواب ہوگیا اور کہا واللہ اب میں آپ پر اعتراض نہ کرونگا ۔ حضرت عبداللہ برزی ایک ولی کامل شخص تھے پیر جمعرات کا روزہ پابندی سے رکھا کرتے تھے ۔ اسی سال کی عمر تھی ایک آنکھ سے کانے تھے ۔ سلیمان بن زید نے ان سے آنکھ کے جانے کا سبب دریافت کیا تو آپ نے اس کے بتانے سے انکار کردیا ۔ یہ بھی پیچھے پڑ گئے مہینوں گذر گئے نہ وہ بتاتے نہ یہ سوال چھوڑتے آخر تنگ آکر فرمایا لو سن لو میرے پاس لولو خراسانی برزہ میں ( جو دمشق کے پاس ایک شہر ہے ) آئے اور مجھ سے کہا کہ میں انہیں برزہ کی وادی میں لے جاؤں میں انہیں وہاں لے گیا ۔ انہوں نے انگیٹھیاں نکالیں بخور نکالے اور جلانے شروع کئے یہاں تک کہ تمام وادی خوشبو سے مہکنے لگی ۔ اور ہر طرف سے سانپوں کی آمد شروع ہوگئی ۔ لیکن بےپرواہی سے بیٹھے رہے کسی سانپ کی طرف التفات نہ کرتے تھے ۔ تھوڑی دیر میں ایک سانپ آیا جو ہاتھ بھر کا تھا اور اسکی آنکھیں سونے کی طرح چمک رہی تھیں ۔ یہ بہت ہی خوش ہوئے اور کہنے لگے اللہ کا شکر ہے ہماری سال بھر محنت ٹھکانے لگی ۔ انہوں نے اس سانپ کو لے کر اس کی آنکھوں میں سلائی پھیر کر اپنی آنکھوں میں وہ سلائی پھیرلی میں نے ان سے کہاکہ میری آنکھوں میں بھی یہ سلائی پھیردو ۔ انہوں نے انکار کردیا میں نے ان سے منت سماجت کی بہ مشکل وہ راضی ہوئے اور میری داہنی آنکھ میں وہ سلائی پھیر دی اب جو میں دیکھتا ہوں تو زمین مجھے ایک شیشے کی طرح معلوم ہونے لگی جیسی اوپر کی چیزیں نظر آتی تھیں ایسی ہی زمین کے اندر کی چیزیں بھی دیکھ رہا تھا انہوں نے مجھے کہاچل اب آپ ہمارے ساتھ ہی کچھ دورچلے میں نے منظور کرلیا وہ باتیں کرتے ہوئے مجھے ساتھ لئے ہوئے چلے جب میں بستی سے بہت دور نکل گیا تو دونوں نے مجھے دونوں طرف سے پکڑلیا اور ایک نے اپنی انگلی ڈال کر میری آنکھ نکالی اور اسے پھینک دیا ۔ اور مجھیے یونہی بندھا ہوا وہیں پٹخ کر دونوں کہیں چل دئیے ۔ اتفاقا وہاں سے ایک قافلہ گذرا اور انہوں نے مجھے اس حالت میں دیکھ کررحم کھایا قیدوبند سے مجھے آزاد کردیا اور میں چلا آیا یہ قصہ ہے میری آنکھ کے جانے کا ( ابن عساکر ) حضرت سلیمان کے اس ہدہد کا نام عنبر تھا ، آپ فرماتے ہیں اگر فی الواقع وہ غیر حاضر ہے تو میں اسے سخت سزادوں گا اسکے پر نچوادوں گا اور اس کو پھنک دوں گا کہ کیڑے مکوڑے کھاجائیں یا میں اسے حلال کردونگا ۔ یا یہ کہ وہ اپنے غیر حاضر ہونے کی کوئی معقول وجہ پیش کردے ۔ اتنے میں ہدہد آگیا جانوروں نے اسے خبردی کہ آج تیری خیر نہیں ۔ بادشاہ سلامت عہد کرچکے ہیں کہ وہ تجھے مار ڈالیں گے ۔ اس نے کہایہ بیان کرو کہ آپ کے الفاظ کیا تھے؟ انہوں نے بیان کئے تو خوش ہو کر کہنے لگا پھر تو میں بچ جاؤں گا ۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں اس کے بچاؤ کی وجہ اس کا اپنی ماں کے ساتھ سلوک تھا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

201یعنی موجود تو ہے، مجھے نظر نہیں آرہا یا یہاں موجود ہی نہیں ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَآ اَرَى ۔۔ : اس سے سلیمان (علیہ السلام) کے کمال احتیاط، نظم و ترتیب اور بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے معاملے کی ذاتی طور پر نگرانی کا پتا چلتا ہے، حتیٰ کہ پرندوں میں سے ایک پرندے ہُد ہُد اور ہُد ہُد میں سے ایک خاص ہُد ہُد کی عدم موجودگی بھی ان سے مخفی نہ رہ سکی۔ خلفائے راشدین (رض) بھی چھوٹے سے چھوٹے معاملے کی بہ نفس نفیس خبر رکھتے تھے۔ امیر المومنین عمر بن خطاب (رض) کے حالات، خصوصاً ان کا شام کا سفر اس کی بہترین مثال ہے۔ فَقَالَ مَا لِيَ لَآ اَرَى : یعنی معاملہ کیا ہے، آیا ہُد ہُد یہاں موجود ہے اور مجھے نظر نہیں آ رہا، یا وہ ان میں سے ہے جو غائب ہیں ؟ معلوم ہوا جائزے میں اور بھی کئی لوگ غائب تھے، مگر ان کے متعلق باز پرس کا یہاں ذکر نہیں کیا گیا۔ ممکن ہے وہ اجازت سے غائب ہوں، یا ان کے تذکرے کی ضرورت نہ ہو۔ اس واقعہ سے انبیاء ( علیہ السلام) کے عالم الغیب ہونے کی نفی ہوتی ہے، کیونکہ اگر سلیمان (علیہ السلام) کو ہُد ہُد کے متعلق علم ہوتا تو یہ بات نہ کہتے۔ 3 اکثر مفسرین لکھتے ہیں کہ سلیمان (علیہ السلام) نے ہُد ہُد کو اس لیے طلب کیا تھا کہ وہ زمین کے نیچے پانی دیکھ لیتا تھا، مگر یہ بات بےدلیل ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اللہ تعالیٰ بتادیتا، یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا ذکر فرما دیتے۔ آیت کے الفاظ بھی اس مفہوم کے خلاف ہیں، کیونکہ اس میں ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) نے تمام پرندوں کا جائزہ لیا تو ایک خاص ہُد ہُد (الھدھد) کو غائب پایا۔ اس میں پانی کی ضرورت کے لیے ہُد ہُد کو طلب کرنے کا کوئی ذکر نہیں۔ ہُد ہُد کے متعلق سوال کی وجہ لشکر کا جائزہ تھا اور لشکر کا جائزہ مجاہدین کی معمول کی بات ہے۔ علاوہ ازیں پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لیے سلیمان (علیہ السلام) کو ہُد ہُد کی کوئی محتاجی نہ تھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انھیں جنوں اور عفریتوں کی وہ فوج عطا کر رکھی تھی جسے کسی بھی جگہ سے پانی لانا کچھ مشکل نہ تھا (جیسا کہ آنکھ جھپکنے میں ملکہ سبا کا تخت آجانا، اس کی واضح مثال ہے) ۔ کوئی قدیم مفسر اس قسم کی کوئی بےسروپا اسرائیلی روایت نقل کردیتا ہے تو بعد والے مفسرین اسے اندھا دھند نقل کرتے جاتے ہیں، یہ سوچتے ہی نہیں کہ اس کا کوئی ثبوت بھی ہے یا نہیں، حتیٰ کہ ایسی بہت سی بےسروپا باتوں کو متفق علیہ حقیقت سمجھ لیا جاتا ہے۔ (تفسیر السعدی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ‌ (And he checked the birds - 27:20). The word تَفَقَّدَ (tafaqqud) means to verify about the presence or absence of some people. Hence it is translated as to check. Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) was bestowed by Allah Ta’ ala the rule over Jinns, the beasts and the birds, apart from humans. As it is customary for the ruler to look after and take care of all of his subjects, it is stated in this verse وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ‌ That is Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) inspected the birds from his subjects, and made a note of the presence and absence of them all. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) also had the habit to keep himself informed about the wellbeing of his companions. If someone was absent, he used to go to his house to find out his welfare. If anyone was sick, he would go and visit him and do the needful nursing. If someone was afflicted with any trouble, he would make the effort to remove it. It is necessary for the rulers to take care of their subjects and for the saints of their disciples and students This verse has proved that Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) used to keep an eye on all types of his subjects, and used to keep himself fully informed about them, so much so that the absence of a small and weak bird like a hoopoe which has a small population compared to other birds, did not go unnoticed from him. It is also possible that his specific enquiry about the hoopoe was due to its small population and weak make-up among the species of birds. Therefore, he made special effort to keep his eyes on the weaker section of his subjects. Among the companions, Sayyidna ` Umar (رض) established the traditions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) in totality during his tenure as caliph. He used to go round the streets of Madinah during the nights to keep him fully abreast with the state of affairs. If he found any one in distress or need, he would help him out. A number of such incidents are related in his biography: He used to say |"If a wolf kills a lamb by the side of river Euphrates, for that too Umar will be answerable|". (Qurtubi) Such were the principles of rule and administration, which were taught by the prophets and practically demonstrated by the revered companions of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) . Because of these practices, the entire populace, both Muslims and non-Muslims, used to live in complete harmony and tranquility. Such justice and fair play, composure and tranquility were never witnessed ever in the whole world after their time. مَا لِيَ لَا أَرَ‌ى الْهُدْهُدَ أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ |"What is wrong with me that I do not see the hoopoe; rather he has disappeared? - 27:20 Taking account of one&s own Self Apparently Sulaiman (علیہ السلام) should have said at this occasion, “ What is wrong with the hoopoe that he is absent?|" But Sulaiman (علیہ السلام) asked about his own wrong when he said, |"What is wrong with me?|" Perhaps, it was because the hoopoe and all other birds were put under his control as a special reward. Initially it crossed his mind momentarily that probably His blessings have been curtailed for some slip on his part that a species of birds (the hoopoe) was not present. So, he made some soul searching to find out what could have been the reason for its absence? It was a case similar to that of the mystic saints who make enquiries from their Self before looking into the material causes for the relief of any distress, or when any blessing is reduced for them. It is their practice to take into account of any possible slips on their part in paying gratitude to Allah Ta’ ala for His bounties, which might have caused the withdrawal of the blessings from them. Qurtubi has quoted here the practice of these saints on the authority of Ibn al-` Arabi in the following words: اِذا فقدوا امالھم تفقّدوا اعمالھم That is ` when these saints do not succeed in their objectives, they take stock of their deeds to find out where have they committed the mistake&. After this initial stock-taking of Self and due considerations and deliberations it is said أَمْ كَانَ مِنَ الْغَائِبِينَ (rather, he has disappeared - 27:20). Here the word اَم is used for the meaning of the word بَل (rather) (Qurtubi). Therefore, the meaning of the sentence is ` It is not that my sight has faltered in locating the hoopoe, but in fact it is not present&. Reason for picking up hoopoe from among the birds, and an important warning Sayyidna ` Abdullah Ibn &Abbas (رض) was asked as to what was the reason that the hoopoe was picked up from all the birds. He replied that Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) had camped at a place where there was no water, and Allah Ta’ ala has bestowed such a peculiar instinct to hoopoe that it can see things under the ground and can also locate the underground water. Sayyidna Sulaiman (علیہ السلام) wanted to find out, through the proficiency of the hoopoe, the depth and extent of the underground water. Having known the location of the underground water, he would have commanded the Jinns to excavate the ground to bring the water up - a task they would have performed very quickly. Paradoxically, despite having the piercing sight, the hoopoe gets entrapped in the nets of the hunters. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has commented on this: قف یا وقّاف کیف یری الھدھد باطن الارض وھو لا یرٰی الفخّ حین یقع فیہ (قرطبی) ` 0 the people of knowledge! try to understand this fact that the hoopoe has the ability to see things under the ground, but the net spread out over the ground gets obscured from its sight, and hence it gets entrapped in that&. The bottom line to understand is that whatever is destined for a person through the divine decree, whether it is trouble or comfort, has to be enforced, and no one can escape from it by his wisdom, insight or through the use of force or money.

خلاصہ تفسیر (اور ایک بار یہ قصہ ہوا کہ) سلیمان (علیہ السلام) نے پرندوں کی حاضری لی تو (ہدہد کو نہ دیکھا) فرمانے لگے کہ کیا بات ہے کہ میں ہدہد کو نہیں دیکھتا کیا کہیں غائب ہوگیا ہے (اور جب معلوم ہوا کہ واقع میں غائب ہے تو فرمانے لگے) میں اس کو (غیر حاضری پر) سخت سزا دوں گا یا اس کو ذبح کر ڈالوں گا یا وہ کوئی صاف دلیل (اور غیر حاضری کا عذر) میرے سامنے پیش کردے (تو خیر چھوڑ دوں گا) تھوڑی دیر بعد وہ آ گیا اور سلیمان (علیہ السلام سے) کہنے لگا کہ ایسی بات معلوم کر کے آیا ہوں جو آپ کو معلوم نہیں ہوئی اور (اجمالی بیان اس کا یہ ہے کہ) میں آپ کے پاس قبیلہ سبا کی ایک پختہ خبر لایا ہوں (جس کا تفصیلی بیان یہ ہے کہ) میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ ان لوگوں پر بادشاہی کر رہی ہے اور اس کو (بادشاہی کے لوازم میں سے) ہر قسم کا سامان حاصل ہے اور اس کے پاس ایک بڑا تخت ہے (اور مذہبی حالت ان کی یہ ہے کہ) میں نے اس (عورت) کو اور اس کی قوم کو دیکھا کہ وہ خدا (کی عبادت) کو چھوڑ کر آفتاب کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے (ان) اعمال (کفر) کو ان کی نظر میں مرغوب کر رکھا ہے (اور ان اعمال بد کو مزین کرنے کے سبب) ان کو راہ (حق) سے روک رکھا ہے اس لئے وہ راہ (حق) پر نہیں چلتے کہ اس خدا کو سجدہ نہیں کرتے جو (ایسا قدرت والا ہے کہ آسمان اور زمین کی پوشیدہ چیزوں کو (جن میں سے بارش اور زمین کی نباتات بھی ہیں) باہر لاتا ہے اور (ایسا جاننے والا ہے کہ) تم لوگ (یعنی تمام مخلوق) جو کچھ (دل میں) پوشیدہ رکھتے ہو اور جو کچھ (زبان اور جسم کے اعضاء سے) ظاہر کرتے ہو وہ سب کو جانتا ہے (اس لئے) اللہ ہی ایسا ہے کہ اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے سلیمان (علیہ السلام) نے (یہ سن کر) فرمایا کہ ہم ابھی دیکھ لیتے ہیں کہ تو سچ کہتا ہے یا تو جھوٹوں میں سے ہے (اچھا) میرا یہ خط لے جا اور اس کو ان کے پاس ڈال دینا پھر (ذرا وہاں سے) ہٹ جانا، پھر دیکھنا کہ آپس میں کیا سوال و جواب کرتے ہیں ( پھر تو یہاں چلے آنا وہ لوگ جو کچھ کارروائی کریں گے اس سے تیرا سچ جھوٹ معلوم ہوجاوے گا۔ ) معارف و مسائل وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ ، تفقد کے لفظی معنے کسی مجمع کے متعلق حاضر و غیر حاضر کی تحقیق کرنے کے ہیں۔ اس لئے اس کا ترجمہ خبر گیری اور نگہبانی سے کیا جاتا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو حق تعالیٰ نے انسانوں کے علاوہ جنات اور دحوش و طیور پر حکومت عطا فرمائی تھی اور جیسا کہ حکمرانی کا اصول ہے رعایا کے ہر طبقہ کی نگرانی اور خبر گیری حاکم کے فرائض میں سے ہے اس کے مطابق اس آیت میں بیان فرمایا تَفَقَّدَ الطَّيْرَ یعنی سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی رعایا کے طیور کا معائنہ فرمایا اور یہ دیکھا کہ ان میں کون حاضر ہے کون غیر حاضر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بھی عادت شریفہ یہ تھی کہ صحابہ کرام کے حالات سے باخبر رہنے کا اہتمام فرماتے تھے جو شخص غیر حاضر ہوتا اگر بیمار ہے تو عیادت کے لئے تشرف لے جاتے تھے تیمار داری کرتے اور کسی تکلیف میں مبتلا ہے تو اس کے لئے تدبیر فرماتے تھے۔ حاکم کو اپنی رعیت کی اور مشائخ کو اپنے شاگردوں اور مریدوں کی خبر گیری ضروری ہے : آیت مذکورہ سے ثابت ہوا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنی رعایا کے ہر طبقہ پر نظر رکھتے اور ان کے حالات سے اتنے باخبر رہتے تھے کہ ہدہد جو طیور میں چھوٹا اور کمزور بھی ہے اور اس کی تعداد بھی دنیا میں بہ نسبت دوسرے طیور کے کم ہے وہ بھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی نظر سے اوجھل نہیں ہوا، بلکہ خاص ہدہد کے متعلق جو سوال آپ نے فرمایا اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ زمرہ طیور میں کم تعداد اور کمزور ہے، اس لئے اپنی رعیت کے کمزوروں پر نظر رکھنے کا زیادہ اہتمام فرمایا۔ صحابہ کرام میں حضرت فاروق اعظم نے اپنے زمانہ خلافت میں اس سنت انبیاء کو پوری طرح جاری کیا۔ راتوں کو مدینہ منورہ کی گلیوں میں پھرتے تھے کہ سب لوگوں کے حالات سے باخبر رہیں جس شخص کو کسی مصیبت و تکلیف میں گرفتار پاتے اس کی امداد فرماتے تھے جس کے بہت سے واقعات ان کی سیرت میں مذکور ہیں۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ |" اگر دریائے فرات کے کنارہ پر کسی بھیڑیئے نے کسی بکری کے بچے کو پھاڑ ڈالا تو اس کا بھی عمر سے سوال ہو گا |"۔ (قرطبی) یہ تھے وہ اصول جہانبانی و حکمرانی جو انبیاء (علیہم السلام) نے لوگوں کو سکھائے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ان کو عملاً جاری کر کے دکھلایا اور جس کے نتیجہ میں پوری مسلم و غیر مسلم رعایا امن و اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کرتی تھی، اور ان کے بعد زمین و آسمان نے ایسے عدل و انصاف اور عام دنیا کے امن و سکون اور اطمینان کا یہ منظر نہیں دیکھا۔ مَا لِيَ لَآ اَرَى الْهُدْهُدَ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَاۗىِٕـبِيْنَ ، سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ مجھے کیا ہوگیا کہ میں ہدہد کو مجمع میں نہیں دیکھتا۔ اپنے نفس کا محاسبہ : یہاں موقع تو یہ فرمانے کا تھا کہ ہدہد کو کیا ہوگیا کہ وہ مجمع میں حاضر نہیں۔ عنوان شاید اس لئے بدلا کہ ہدہد اور تمام طیور کا مسخر ہونا حق تعالیٰ کا ایک انعام خاص تھا۔ ہدہد کی غیر حاضری پر ابتداء میں یہ خوف دل میں پیدا ہوا کہ شاید میرے کسی قصور سے اس نعمت میں کمی آئی کہ ایک صنف طیور کی یعنی ہدہد غائب ہوگیا اس لئے اپنے نفس سے سوال کیا کہ ایسا کیوں ہوا ؟ جیسا کہ مشائخ صوفیہ کا معمول ہے کہ جب ان کو کسی نعمت میں کمی آئے یا کوئی تکلیف و پریشانی لاحق ہو تو وہ اس کے ازالہ کے لئے مادی اسباب کی طرف توجہ کرنے سے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کرتے تھے کہ ہم سے اللہ تعالیٰ کے حق شکر میں کونسی کوتاہی ہوئی جس کے سبب یہ نعمت ہم سے لے لی گئی۔ قرطبی نے اس جگہ بحوالہ ابن عربی ان بزرگوں کا یہ حال نقل کیا ہے۔ اذا فقدوا امالھم تفقدوا اعمالھم۔ یعنی ان حضرات کو جب اپنی مراد میں کامیابی نہیں ہوتی تو یہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے ہیں کہ ہم سے کیا قصور سرزد ہوا۔ اس ابتدائی محاسبہ نفس اور غور و فکر کے بعد فرمایا اَمْ كَانَ مِنَ الْغَاۗىِٕـبِيْنَ اس جگہ حرف ام بمعنے بل ہے (قرطبی) معنے یہ ہیں کہ یہ بات نہیں کہ ہدہد کے دیکھنے میں میری نظر نے خطاء کی بلکہ وہ حاضر ہی نہیں۔ طیور میں سے ہدہد کی تخصیص کی وجہ اور ایک اہم عبرت : حضرت عبداللہ بن عباس سے سوال کیا گیا کہ تمام پرندوں میں ہدہد کی تفتیش کی کیا وجہ پیش آئی تو آپ نے فرمایا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے کسی ایسے مقام میں قیام فرمایا جہاں پانی نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ نے ہدہد کو یہ خاصیت عطا فرمائی ہے کہ وہ زمین کے اندر کی چیزوں کو اور زمین کے اندر بہنے والے چشموں کو دیکھ لیتا ہے۔ مقصود حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا یہ تھا کہ ہدہد سے یہ معلوم کریں کہ اس میدان میں پانی کتنی گہرائی میں ہے اور کس جگہ زمین کھودنے سے پانی کافی مل سکتا ہے۔ ہدہد کی اس نشاندہی کے بعد وہ جنات کو حکم دیدیتے کہ اس زمین کو کھود کر پانی نکال لو وہ بڑی جلد کھود کر پانی نکال لیتے تھے۔ ہدہد اپنی تیز نظر اور بصیرت کے باوجود شکاری کے جال میں پھنس جاتا ہے اس پر حضرت ابن عباس نے فرمایا۔ قف یا وقاف کیف یری الھدھد باطن الارض وھو لا یری الفخ حین یقع فیہ (قرطبی) جاننے والو اس حقیقت کو پہچانو کہ ہدہد زمین کی گہرائی کی چیزوں کو دیکھ لیتا ہے مگر زمین کے اوپر پھیلا ہوا جال اس کی نظر سے اوجھل ہوجاتا ہے جس میں پھنس جاتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے جو امر تکلیف یا راحت کا کسی کے لئے مقدر کردیا ہے تو تقدیر الٰہی نافذ ہو کر رہتی ہے کوئی شخص اپنی فہم و بصیرت یا زور و زر کی طاقت کے ذریعہ اس سے نہیں بچ سکتا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ فَقَالَ مَا لِيَ لَآ اَرَى الْہُدْہُدَ۝ ٠ۡۖ اَمْ كَانَ مِنَ الْغَاۗىِٕـبِيْنَ۝ ٢٠ فقد الفَقْدُ : عدم الشیء بعد وجوده، فهو أخصّ من العدم، لأن العدم يقال فيه وفیما لم يوجد بعد . قال تعالی: ماذا تَفْقِدُونَ قالُوا : نَفْقِدُ صُواعَ الْمَلِكِ [يوسف/ 71- 72] ( ف ق د ) الفقد کے معنی ہیں کسی چیز کے وجود کے بعد اس کا نہ پایا جانا اور یہ عدم سے اخص ہے کیونکہ عدم فقد کو بھی کہتے ہیں ۔ اور کسی چیز کے سرے سے موجود نہ ہونے کو بھی قرآن میں ہے : ماذا تَفْقِدُونَ قالُوا : نَفْقِدُ صُواعَ الْمَلِكِ [يوسف/ 71- 72] تمہاری کیا چیز کھوئی گئی ہے ہو بولے کہ بادشاہ کے پانی پینے کا کلاس کھویا گیا ۔ طير الطَّائِرُ : كلُّ ذي جناحٍ يسبح في الهواء، يقال : طَارَ يَطِيرُ طَيَرَاناً ، وجمعُ الطَّائِرِ : طَيْرٌ «3» ، كرَاكِبٍ ورَكْبٍ. قال تعالی: وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] ، وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص/ 19] ، وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل/ 17] ، وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل/ 20] ( ط ی ر ) الطائر ہر پر دار جانور جو فضا میں حرکت کرتا ہے طار یطیر طیرا نا پرند کا اڑنا ۔ الطیر ۔ یہ طائر کی جمع ہے جیسے راکب کی جمع رکب آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلا طائِرٍ يَطِيرُ بِجَناحَيْهِ [ الأنعام/ 38] یا پرند جو اپنے پر دل سے اڑتا ہے ۔ وَالطَّيْرَ مَحْشُورَةً [ ص/ 19] اور پرندوں کو بھی جو کہ جمع رہتے تھے ۔ وَالطَّيْرُ صَافَّاتٍ [ النور/ 41] اور پر پھیلائے ہوئے جانور بھی ۔ وَحُشِرَ لِسُلَيْمانَ جُنُودُهُ مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ وَالطَّيْرِ [ النمل/ 17] اور سلیمان کے لئے جنون اور انسانوں اور پرندوں کے لشکر جمع کئے گئے ۔ وَتَفَقَّدَ الطَّيْرَ [ النمل/ 20] انہوں نے جانوروں کا جائزہ لیا ۔ هدد الهَدُّ : هدم له وقع، وسقوط شيء ثقیل، والهَدَّة : صوت وقعه . قال تعالی: وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبالُ هَدًّا[ مریم/ 90] وهدّدت البقرة : إذا أوقعتها للذّبح، والهِدُّ : المهدود کالذّبح للمذبوح، ويعبّر به عن الضّعيف والجبان، وقیل : مررت برجل هَدَّكَ من رجل کقولک : حسبک، وتحقیقه : يَهُدُّكَ ويزعجک وجود مثله، وهَدَّدْتُ فلانا وتَهَدَّدْتُهُ : إذا زعزعته بالوعید، والهَدْهَدَة : تحريك الصّبيّ لينام، والهُدْهُدُ : طائر معروف . قال تعالی: ما لِيَ لا أَرَى الْهُدْهُدَ [ النمل/ 20] وجمعه : هَدَاهِد، والهُدَاهِد بالضّمّ واحد، قال الشاعر : كهداهد کسر الرّماة جناحه ... يدعو بقارعة الطریق هديلا ( ھ دد ) الھد کے معنی کسی چیز کو زور کی آواز کے ساتھ گرادینے یا کسی بھاری چیز کے گرپڑنے کے ہیں اور کسی چزی کے گرنے کی آواز کو ھدۃ کہا جاتا ہے : ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَتَنْشَقُّ الْأَرْضُ وَتَخِرُّ الْجِبالُ هَدًّا[ مریم/ 90] زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہوکر گرپڑیں ۔ اور ھدوت البقرۃ کے معنی گائے کو ذبح کرنے کے لئے زمین پر گرانے کے ہیں اور ھد بمعنی مھد ود یعنی گرائی ہوئی چیز کے آتا ہے جیسے ذبح بمعنی مذبوح اور کمزور بزدل آدمی کو بھی ھد کہا جاتا ہے ۔ ایک محاورہ ہے : ۔ مررت برجل ھدک من رجل میں ایسے آدمی کے پاس سے گزرا جو تیرے لئے فلاں سے کافی ہے ۔ اصل میں اس کے معنی ہیں کہ وجود تجھے بےچین اور مضطرب کرتا ہے ۔ ھددت فلانا وتھددتہ میں نے اسے دھکایا اور ڈاریا ۔ الھد ھدۃ بچے کو سلانے کے لئے تھپکی دینا اور ہلا نا الھد ھد ۔ ایک جانور کا نام ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ ما لِيَ لا أَرَى الْهُدْهُدَ [ النمل/ 20] کیا سبب ہے کہ ہد ہد نظر نہیں آتا ۔ اس کی جمع ھدا ھد آتی ہے اور ھد ا ھد ضمہ کے ساتھ واحد ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( المکامل ) ( 451 ) کھد اھد کسرا الرماۃ جناحتہ بدعو لقارعتہ الطریق ھدیلا وہ اس حمام کی طرح پریشان تھا جس کے بازو شکاریوں نے توڑدیئے ہوں اور وہ راستہ میں کھڑا وادیلا کررہاہو ۔ غيب الغَيْبُ : مصدر غَابَتِ الشّمسُ وغیرها : إذا استترت عن العین، يقال : غَابَ عنّي كذا . قال تعالی: أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] ( غ ی ب ) الغیب ( ض ) غابت الشمس وغیر ھا کا مصدر ہے جس کے معنی کسی چیز کے نگاہوں سے اوجھل ہوجانے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے ۔ غاب عنی کذا فلاں چیز میری نگاہ سے اوجھل ہوئی ۔ قرآن میں ہے : أَمْ كانَ مِنَ الْغائِبِينَ [ النمل/ 20] کیا کہیں غائب ہوگیا ہے ۔ اور ہر وہ چیز جو انسان کے علم اور جو اس سے پودشیدہ ہو اس پر غیب کا لفظ بولا جاتا ہے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٠) ایک بار یہ قصہ ہوا کہ سلیمان (علیہ السلام) نے تمام پرندوں کی حاضری لی تو ہدہد کو نہ دیکھا تو فرمانے لگے کیا بات ہے کہ میں ہدہد کو اس کی جگہ پر نہیں پاتا اگر وہ پرندوں میں سے کہیں غائب ہوگیا ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

27 That is, the birds whose troops, as mentioned above, were included in the armies of Prophet Solomon like the troops of the men and jinns. It is just possible that the Prophet Solomon had employed them for communicating messages, hunting and performing other such services.

سورة النمل حاشیہ نمبر : 27 یعنی ان پرندوں کا جن کے متعلق اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ جن اور انس کی طرح ان کے لشکر بھی حضرت سلیمان کے عساکر میں شامل تھے ، ممکن ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ان سے خبر رسانی ، شکار اور اسی طرح کے دوسرے کام لیتے ہوں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(27:20) تفقد الطیر : تفقد ماضی واحد مذکر غائب نفقد (تفعیل) مصدر۔ جس کے معنی گم شدہ چیز کی تلاش کرنے کے ہیں فقد مادہ۔ اس سے فقد یفقد (ضرب) فقد بمعنی گم کرنا یا کھودینا کے ہیں۔ جیسے قرآن مجید میں ہے ماذا تفقدون (12:71) تمہاری کیا چیز گم ہوئی ہے۔ الطیر۔ اسم جمع ہے اس کا واحد طائر ہے۔ تفقد الطیر اس نے پرندوں کی حاضری لی۔ اس نے پرندوں کا جائز ہ لیا۔ بسلطن : سلطن حجت ۔ سند۔ برہان۔ قوت۔ حکومت۔ سلطن مبین۔ واضح سند۔ معقول عذر۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ یعنی کیا دوسرے پرندوں میں چھپ گیا ہے جو نظر نہیں آرہا ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 20 تا 37 : تفقد (اس نے جائزہ لیا۔ اس نے ڈھونڈا) ‘ مکت (وہ ٹھہرا۔ اس نے دیر کی) نباء (خبر) ‘ وجدت ( میں نے پایاض تملک ( وہ بادشاہت کرتی ہے) اوتیت (دیا گیا) الخبئ (پوشیدہ) القہ ( اس کو ڈال دے) افتونی ( مجھے بتائو۔ مجھے مشورہ دو ) ‘ قاطعۃ (کاٹنے والی) ‘ تشھدون ( تم موجود ہو) اولوقوۃ (قوت و طاقت والا) ‘ اولوباس ( لڑنے والے) ‘ تامرین (تو کیا حکم دیتی ہے) ‘ مرسلۃ ( بھیجنے والی) ‘ نظرۃ (دیکھنے والی) ‘ اتمدون (کیا تم مدد کرتے ہو) تفرحون ( وہ اتراتے ہیں۔ خوش ہوتے ہیں) ‘ صغرون (ذلیل و خوارہونے والے) ۔ تشریح : آیت نمبر 20 تا 37 : حضرت سلیمان (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ایک عظیم پیغمبر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت کے ساتھ ساتھ ایک ایسی حکومت و سلطنت بھی عطافرمائی تھی کہ جس میں صرف انسان ہی نہیں بلکہ جنات اور پرندے بھی انکے تابع کردیئے گئے تھے اور وہ اللہ کے حکم سے ہر جان دار یہاں تک کہ چیونٹی جیسی معمولی اور چھوٹی سی مخلوق کی زبان تک کو سمجھتے تھے۔ ہد ہد جو ارض شام و فلسطین کا ایک ایسا پرندہ ہے جو زمین کی تہہ میں یہ آسانی سے دیکھ سکتا ہے کہ پانی کہاں موجود ہے۔ یقیناً حضرت سلیمان (علیہ السلام) جو ایک عظیم لشکر کے مالک تھے جب بھی جہاد کے لئے نکلتے تو پورے لشکر کے لئے پانی ایک بہت بڑا مسئلہ ہوتا تھا جس کے لئے ہد ہد جیسے پرندے سے کا م لیا جاتا تھا۔ ایک دن حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے لشکر میں ہد ہد کو نہ دیکھ کر پوچھا کہ ہد ہد کہاں ہے اور جس مقصد کے لئے اس کو بھیجا گیا تھا اس میں کوتاہی کیوں کی گئی ہے۔ اگر اس کی کوتاہی ثابت ہوگئی تو نہ صرف اس کو سخت سزادی جائے گی بلکہ اس ذبح کردیا جائے گا۔ چند روز کے بعد ہد ہد پرندہ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دربار میں حاضر ہوا تو اس سے پوچھا گیا کہ وہ کہاں اور کیوں غائب ہوگیا تھا اور اس کے ذمے جو کام لگایا گیا تھا اس میں کوتاہی کیوں کی گئی ؟ ہد ہد نے کہا کہ میں اڑتے ہوئے ایک ایسے ملک میں گیا جہاں عورت حکمرانی کررہی ہے جس کے پاس نہ صرف تمام وسائل ‘ مال و دولت موجود ہے بلکہ اس کا تخت سلطنت بھی بہت وسیع ہے۔ یہ قوم سورج کو اپنا معبود مانتی ہے۔ ایک اللہ کو چھوڑ کر وہ شیطان کی پیروی کرتی ہے۔ شیطان نے ان کے برے اعمال کو ان کی نگاہوں میں اتنا خوبصورت بنادیا ہے کہ جس سے وہ صراط مستقیم کو چھوڑ کر گم راہی میں جا پڑے ہیں حالانکہ ان کو اس اللہ کی عبادت و بندگی کرنا چاہیے تھی جو تمام آسمانوں اور زمین کے بھیدوں سے واقف ہے۔ اسی نے زمین کو سزسبز و شاداب بنایا ہے ‘ وہی معبود برحق ہے اور اس کا تخت سلطنت ہی سب سے بلند وبالا ہے۔ ہد ہدنے کہا شاید آپ کو اس سلطنت اور اس کی حکمران کے متعلق معلومات نہیں ہیں۔ مجھے جو معلوم ہواوہ میں نے عرض کردیا ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے شان پیغمبری کے مطابق اللہ کے نام سے اس خط کو شروع کیا اور فرمایا کہ تمہیں جیسے ہی میرا خط ملے تو ایک فرماں بردار کی طرح فوراً حاضر ہوجائو۔ خط کی مہر اور شاہی انداز سے لکھے گئے اس خط سے ملکہ بلقیس نے اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ یہ خط ایک عظیم بادشاہ نے لکھا ہے جن سے وہ واقف بھی تھی۔ یہ دعوت ملکہ بلقیس کا تاج و تخت ‘ حکومت و سلطنت حاصل کرنے کے لئے نہ تھی بلکہ اسلام کے اس مزاج کی عکاسی تھی جو اس نے ہمیش انسانوں کو راہ راست پر رکھنے کے لئے اختیار کی ہے تاکہ وہ کفر و شرک کو چھوڑ کر دین اسلام کی سچائیوں کی طرف آجائیں چناچہ خود مختار قوموں کو یہ کہا گیا کہ وہ دین اسلام کو ایک سچادین سمجھ کر اس کو قبول کرلیں تاکہ وہ ان کے بھائی بن کر برابر کی بنیاد اسلامی نظام کا ایک حصہ بن جائیں اور اگر وہ اس کو قبول نہیں کرتے تو اسلامی حکومت کی تابع داری قبول کرلیں اور سیدھے ہاتھ سے جزیہ اداکریں تاکہ ان کی حفاظت کی جاسکے۔ اور اگر یہ دونوں سورتیں ممکن نہ ہوں تو پھر وہ جنگ کے لیے تیار ہوجائیں۔ تلوار خود فیصلہ کردے گی کہ کس کو حکمرانی کا حق حاصل ہے۔ ملکہ بلقیس جنوبی عرب کی مشہور تجارت پیشہ ‘ ترقی یافتہ اور مال دار قوم سبا کی حکمران تھی جس قوم سبانے دنیا پر ایک ہزار سال تک حکمرانی کی ہے اور دنیاوی وسائل میں بہت مشہور ہے۔ اس نے پانی کو روکنے اور اس کو تقسیم کرنے کے لئے ایسے بہترین بند باندھ رکھے تھے کہ جس سے یہ ملک سر سبز و شاداب نظر آتا تھا۔ سورة سبا میں اس کی کچھ تفصیلات ملتی ہیں۔ غرضیکہ جب ملکہ بلقیس کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا یہ خط پہنچا تو اس نے ملک کے تمام ذمہ داروں کو جمع کرکے پوچھا کہ میں ہمیشہ تم سے مشورہ کرتی ہوں مجھے یہ مشورہ دو کہ ہمیں اس موقع پر کیا کرنا چاہیے کہنے لگے کہ ہم بہترین اور ہر اعتبار سے جنگ کرنے کی عظیم صلاحیتیں رکھتے ہیں اگر ہمارے اوپر جنگ مسلط کی گئی تو ہم اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں ہمیں کسی سے دبنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لوگوں نے کہا کہ ہم تو ہر طرح تیار ہیں باقی آپ جیسے بہتر سمجھیں فیصلہ کرلیجئے ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ مشورہ کے بعد ملکہ بلقیس جو نہایت ذہین عورت تھی اس نے عقل مندی اور ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے بادشاہوں کا طریقہ یہ ہے کہ جب وہ کسی ملک میں فاتحانہ داخل ہوتے ہیں تو اس ملک کو تباہ و برباد کر ڈالتے ہیں اور وہاں کے باعزت لوگوں کو ذلیل وخوارکرکے رکھ دیتے ہیں۔ میں اپنی طاقت پر بےجا گھمنڈ کرنے کے بجائے ایک ایسا طریقہ اختیار کرتی ہوں جس سے اندازہ ہوجائے گا کہ سیلما (علیہ السلام) کیا چاہتے ہیں۔ انہیں ہماری دولت سے غرض ہے یا وہ ہمیں دین اسلام کی دعوت دے رہے ہیں۔ اس نے بڑے قیمتی تحفے بھیجے جس میں سونا ‘ چاندی ‘ قیمتی جواہرات کے علاوہ کچھ غلام اور باندیاں بھی بھیجیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ردعمل کا اظہار کریت ہوئے تحفے لانے والوں سے کہا کہ مجھے اللہ نے اس سے بھی زیادہ دیا ہے۔ میں نے یہ سب کچھ اس لئے نہیں کہا تھا کہ مجھے تمہاری دولت اور تحفوں کی ضرورت ہے بلکہ میں نے دین اسلام پیش کیا تھا۔ لہٰذا یہ تحفے قبول کرنے سے انکار کرتا ہوں۔ ملکہ سے جا کر کہہ دینا کہ اگر تم نے میری اس دعوت کو قبول نہ کیا تو میں ایک ایسے زبردست لشکر کے ساتھ حملہ کرنے والا ہوں جس کے سامنے تم اور تمہاری طاقت ٹھہر نہ سکے گی۔ گویا اب میدان جنگ میں تلوار ہی فیصلہ کرے گی۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے واقعہ کی بقیہ تفصیل اس کے بعد کی آیات میں آرہی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) جو اپنے وقت کے عظیم بادشاہ ہی نہ تھے بلکہ اللہ کی طرف سے نبوت کے مقام پر مقرر فرمائے گئے تھے ۔ آپ نے ملکہ بلقیس کو دعوت اسلام دے کر صراط مستقیم کی طرف بلایا ہے تاکہ وہ سورج کی عبادت و بندگی کو چھوڑ کر ایک اللہ کی عبادت کریں اور اپنے کفر و شرک سے توبہ کرلیں۔ ان کا مقصد حکومت و سلطنت یا مال و دولت سمیٹنا نہیں تھا کیونکہ اللہ نے ان کو اتنا کچھ عطا فرمایا تھا اور ہر مخلوق پر حکمرانی حاصل تھی کہ اس سے پہلے کسی کو نصیب نہ ہوئی تھی۔ چنانچہ جب ملکہ بلقیس نے سونے ‘ چاندی اور جواہرات وغیرہ بھیجے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ملکہ بلقیس پر اس بات کو واضح کردیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ملکہ کا قبول اسلام یا اسلامی حکومت کے تابع داری مطلوب تھی دنیا کا سازو سامان کوئی حیثیت نہ رکھتا تھا۔ یہ وہ اسلامی مزاج تھا جس پر صحابہ کرام نے بھی عمل کیا۔ وہ جب بھی کسی سے جنگ کرتے تھے تو سب سے پہلے ان کو اسلام کی طرف بلاتے تھے اور ان پر واضح کردیتے تھے کہ اگر انہوں نے اسلام قبول کرلیا تو وہ ہمارے بھائی ہیں اور تمام حقوق میں برابر ہیں۔ اگر وہ دین کو قبول نہیں کرتے تو اسلامی حکومت کی ذمہ داری میں آجائیں اور ایک معمولی ساٹیکس اداکریں یعنی جزیہ دیں۔ اگر وہدونوں میں سے کسی بات کو قبول نہ کریں تو پھر جنگ کے لئے تیار ہوجائیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ یا تو طیور کو کچھ خدمتیں سپرد کر رکھی ہوں گی، اس لئے حاضری لی، یا یہ کہ محض انضباط و انتظام کے لئے مثل امراء اجناد کے ایسا کیا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا اپنے لشکر کا جائزہ لینا اور ہد ہد کے بارے میں رپورٹ طلب کرنا۔ آیت ١٧ میں بیان ہوا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جنوں، انسانوں اور پرندوں کو الگ الگ منظم کر رکھا تھا۔ اسی اصول کے پیش نظر انھوں نے ایک علاقہ کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے سفر کے دوران ایک مقام پر پہنچ کر اپنے لشکر کا جائزہ لیا تو انھوں نے ہدہد پرندے کو لشکر میں غائب پایا۔ غضبناک ہو کر فرمایا کیا وجہ ہے ہد ہد نظر نہیں آیا۔ کیا وہ غیر حاضر ہے ؟ اگر اس نے غیر حاضری کی معقول وجہ نہ بتلائی تو میں اسے سخت سزا دوں گا یا پھر اسے ذبح کرڈالوں گا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے رویہّ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص کو کتنا بڑا اقتدار اور فضیلت حاصل ہو۔ اسے بھی کسی کو سزا دینے سے پہلے صفائی کا موقعہ دینا چاہیے۔ اس مقام پر بھی بعض عقل پرستوں نے اپنی عقل کے خوب گھوڑے دوڑائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں ہدہد سے مراد پرندہ نہیں بلکہ کسی انسان کا لقب یا نام ہے شاید انہی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ خود نہیں بدلتے قرآن کو بدل دیتے ہیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جس ہدہد کو خط دے کر بھیجا اسے یعنور کہا جاتا تھا، علامہ دمیری نے حضرت ابن عباس کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس پرندے سے پانی کی تلاش کا کام لیا کرتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ صلاحیت بخشی ہے کہ یہ زمین کے اندر پانی کو اس طرح دیکھ لیتا ہے جس طرح آدمی برتن میں پڑے ہوئے پانی کو دیکھتا ہے۔ مسائل ١۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) مختلف موقعوں پر اپنے لشکروں کا جائزہ لیا کرتے تھے۔ ٢۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نہ صرف پیغمبر تھے بلکہ بیدار مغز حکمران بھی تھے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

وتفقد……مبین (١٣) اس منظر میں حضرت سلیمان ایک نبی اپنے ایک عظیم و کثیر لشکر میں نظر آتے ہیں۔ جب وہ پرندوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہد ہد کو غائب پاتے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک خاص ہد ہد تھا جسے اس لشکر میں ہونا چاہئے تھا۔ یہ کوئی عام ہد ہد نہ تھا کہ جس طرح لاکھوں میں سے ایک غائب ہو ۔ یا کرہ ارض کے تمام ہد ہدوں میں سے صرف ایک کم تھا۔ نیز اس سے یہ بھی معلمو ہوتا ہے کہ یہ مخصوص ہد ہد ایک خاص کردار رکھتا تھا اور مخصوص خصوصیات رکھتا تھا۔ یہ نہایت ہی بیدار مغز ، باریک بیں اور عقلمند ہد ہد تھا۔ اور سلیمان (علیہ السلام) کی شخصیت بھی معلوم ہوتی ہے کہ آپ اپنی اس عظیم الشان فوج پر بھی پوری نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ فوج کو اول و آخر تک جانتے ہیں۔ وہ اسکیبارے میں ایک اعلیٰ کمانڈر انچیف کے جچے تلے جامع الفاظ میں وپچھتے ہیں۔ مالی لا اری الھدھد ام کان من الغآئبین (٨٢ : ٠٢) ” کیا بات ہے میں ہد ہد کو نہیں دیکھ رہا۔ کیا وہ غائب ہوگیا ہے۔ “ معلوم ہوتا ہے کہ ہد ہد غائب ہے اور سب کو معلوم ہوتا ہے کہ جب بادشاہ اس کے بارے میں پوچھتے ہیں تو وہ بغیر اجازت کے غائب ہے۔ لہٰذا اس معاملے کو اب سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ تاکہ فوج کے اندر افراتفری نہ ہو اور دوسری لوگ بھی ادھر ادھر کھسکنا شروع نہ کردیں۔ کیونکہ بادشاہ کی جانب سے اس انکوائری کے بعد بات تو راز نہ رہی تھی۔ اگر اس پر سنجیدگی سے غور نہ کیا گیا تو یہ دوسرے فوجیوں کے لئے ایک بری مثال ہوگی۔ چناچہ حضرت سلیمان اپنی فوج کے اس سپاہی کی غیر حاضری کو بڑی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ لا عذبنہ عذاباً شدیداً اولا اذبحنہ (٨٢ : ١٢) ” میں اسے سخت سزا دوں گا یا اسے ذبح کر دوں گا۔ “ لیکن بہرحال آپ نبی تھے ……جبار نہ تھے ۔ ابھی تو آپ نے ہد ہد کے عذرات نہیں سنے ، اسے نوٹس نہیں دیا گیا ، لہٰذا فیصلہ عذرات سننے کے بعد ہوگا۔ بغیر سنے فیصلہ اسلامی اصول عدل کے خلاف ہے۔ چناچہ کہا جاتا ہے۔ ولیاتینی بسلطن مبین (٨٢ : ١٢) ” یا اسے مرے سامنے معقول وجہ پیش کرنی ہوگی۔ “ یعنی ایسی دلیل اور ایسا عذر جس کی وج ہ سے وہ مواخذے سے بچ جائے اور عذر معقول ہو۔ اب پردہ گرتا ہے اس قصے کا یہ پہلا منظر ہے۔ سلیمان (علیہ السلام) دوسرے کاموں میں مشغول ہیں یا ہد ہدی ہی کی تلاش میں ہیں۔ بہرحال ہد ہد آجاتا ہے۔ اس کے پاس ایک چونکا دینے والی خبر ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لئے بھی حیران کن اور ہمارے لئے بھی حیرن کن جو ہم آج اس منظر کو دیکھ رہے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا پرندوں کی حاضری لینا، ہدہد کا غائب ہونا اور ملک سبا سے ایک ملکہ کی خبر لانا اور اس کے نام حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا خط لیجانا اور ملکہ کا ہدیہ بھیجنا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت انسان جنات چرند پرند سب پر تھی وہ ان سب کے بادشاہ تھے، اور یہ چیزیں ان کے لشکر کا جزو تھیں ایک بار جانوروں کی حاضری لی تو جانور جمع ہوگئے لیکن ان میں ہدہد حاضر نہیں ہوا (ممکن ہے انہوں نے ہر جنس کے بڑے ہی کو بلایا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ تمام جانوروں کو جمع ہونے کا حکم دیا ہو سب جانور جمع ہوگئے ہدہد بھی سب آگئے لیکن ان کا سردار حاضر نہ ہوا ہو) جب مطلوبہ ہدہد کو انہوں نے حاضر نہ پایا تو فرمانے لگے کیا بات ہے مجھے ہدہد نظر نہیں آ رہا ہے۔ کیا کسی ایسے گوشہ میں ہے جسے میں دیکھ نہیں پاتا یا وہ موجود ہی نہیں ہے اسے یا تو سخت سزا دوں گا یا اسے ذبح کر ڈالوں گا الا یہ کہ اپنی غیر حاضری کا عذر واضح دلیل کے ساتھ بیان کرے، ابھی ذرا سی ہی دیر گزری تھی کہ ہدہد حاضر ہوگیا اور اس نے کہا کہ میں ملک سبا میں چلا گیا تھا اور میں ایسی چیز کی خبر لایا ہوں جس کا آپ کو علم نہیں ہے (علم ایسی ہی چیز ہے جس سے بات کرنے کا حوصلہ ہوجاتا ہے) ۔ میں ملک سبا سے ایسی خبر لایا ہوں جو بالکل یقینی ہے اور وہ خبر یہ ہے کہ وہاں ایک عورت کی بادشاہت چلتی ہے اس عورت کے پاس شاہی ضرورت کی ہر چیز موجود ہے ایک بڑا تخت ہے جس پر وہ بیٹھتی ہے یہ عورت اور اس کی قوم کے لوگ مشرک ہیں اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر جو تنہا ہے اور معبود حقیقی ہے سورج کو سجدہ کرتے ہیں شیطان ان کے پیچھے لگا ہوا ہے اس نے ان کے اعمال شرکیہ کو مزین کردیا ہے اور انہیں راہ حق سے ہٹا رکھا ہے، راہ حق تو یہ ہے کہ وہ اللہ کو سجدہ کریں جو آسمانوں اور زمینوں کی پوشیدہ چیزوں کو نکالتا ہے اور ان سب چیزوں کو جانتا ہے جنہیں آپ لوگ چھپاتے ہیں اور ظاہر کرتے ہیں، شیطان نے راہ حق سے ہٹا کر انہیں شرک پر لگا دیا ہے اب وہ اسی پر جمے ہوئے ہیں، جبکہ ساری مخلوق پر لازم ہے کہ اللہ ہی کی عبادت کریں اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ جب ہدہد نے اپنا بیان دے دیاتو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ اچھا ہم ابھی پتہ چلا لیتے ہیں کہ تو اپنی بات میں سچا ہے یا جھوٹا ہے میں ایک خط لکھتا ہوں اور تیرے ہی ذریعہ بھیجتا ہوں میرا یہ خط لیجا اور جہاں ملکہ سبا اور اس کے درباری لوگ بیٹھتے ہیں وہاں جا کر اس کو ڈال دینا پھر وہاں سے ہٹ جانا تاکہ وہ اسے پڑھیں اور آپس میں گفتگو اور مشورہ کریں وہاں سے ہٹ تو جانا لیکن اتنی دور بھی نہ ہوجانا کہ ان کی باتوں اور مشوروں کا پتہ نہ چلے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے خط لکھا جس کے الفاظ یہ تھے (اِِنَّہٗ مِنْ سُلَیْمٰنَ وَاِِنَّہٗ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ اَلَّا تَعْلُوْا عَلَیَّ وَاْتُوْنِیْ مُسْلِمِیْنَ ) (بلاشبہ وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور وہ یہ کہ اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو رحمن ہے رحیم ہے تم لوگ میرے مقابلہ میں بڑائی نہ جتاؤ اور میرے پاس فرماں بردار ہو کر آجاؤ) ۔ اس خط لکھنے کا یہ ادب معلوم ہوا کہ خط لکھنے والا پہلے اپنا نام لکھے تاکہ مکتوب الیہ کو معلوم ہوجائے کہ جو خط میں پڑھ رہا ہوں وہ کس کی طرف سے ہے۔ دوسرا ادب یہ معلوم ہوا کہ خط کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا جائے۔ اگرچہ کسی کافر کے نام خط لکھا جا رہا ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو شاہ روم ہرقل کو دعوت اسلام کا خط لکھا تھا اس کی ابتداء بھی اسی طرح ہے کہ پہلے آپ نے اپنا اسم گرامی لکھا پھر بسم اللہ الرحمن الرحیم من محمد عبداللہ و رسولہ الی ھرقل عظیم الروم سلام علی من اتبع الھدی تحریر فرمایا اس میں سلام کا اضافہ ہے لیکن السلام علیکم نہیں ہے بلکہ یوں ہے کہ اس پر سلام ہو جو ہدایت کا اتباع کرے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کے دربار میں تشریف لے گئے تھے تو انہوں نے بھی والسلام علی من اتبع الھدی فرمایا تھا۔ معلوم ہوا کہ زبانی یا تحریری طور پر کافروں کو سلام نہ کیا جائے اگر ان کو سلام کرنا ہو تو سلام علی من اتبع الھدی یا اس کے ہم معنی الفاظ کہہ دیں یا لکھ دیں چونکہ سلام لکھنا کوئی فرض واجب نہیں ہے اس لیے حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنے مکتوب گرامی میں تحریر نہیں فرمایا، یہ معلوم ہوچکا تھا کہ جس عورت کو خط لکھا جا رہا ہے وہ اور اس کی قوم سورج کو سجدہ کرتے ہیں اس لیے اللہ کا نام شروع میں لکھ دیا اور یہ بھی بتادیا کہ وہ رحمن و رحیم ہے اس کی طرف رجوع کریں گے تو اس کی رحمت سے نوازے جائیں گے، پھر بڑی جسارت اور دلیری کے ساتھ تحریر فرمایا کہ تم لوگ مقابلہ میں بڑے نہ بنو۔ تکبر نہ کرو اور ساتھ ہی یہ بھی لکھ دیا کہ تم میرے پاس فرماں بردار ہو کر آجاؤ، خط لکھ کر ہدہد کے حوالے کردیا۔ حسب الحکم ہدہد نے خط لے جا کر اس مجلس میں ڈال دیا جس میں ملکہ سبا اور اس کے ارکان دولت موجود تھے وہاں خط ڈال کر ہدہد ذرا دورہٹ گیا ملکہ نے خط کھولا پڑھا اور اس کا مضمون اپنے درباریوں کو سنایا، خط بہت جاندار تھا کسی صاحب اقتدار کو یہ لکھا جائے کہ تم میرے مقابلہ میں بڑے نہ بنو اور فرماں بردار ہو کر آجاؤ، یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے، ملکہ سبا نے سمجھ لیا کہ خط لکھنے والا ہم سے بڑھ کر صاحب اقتدار معلوم ہوتا ہے، اگر ہم کوئی الٹا سیدھا جواب لکھ دیں تو یہ اپنی بڑائی جتانا ہوگا، اگر صاحب مکتوب نے ہم پر حملہ کردیا تو ممکن ہے کہ ہم مغلوب ہوجائیں، جس سے ہماری حکومت بھی تباہ ہوجائے اور رعیت کو بھی نا گوار احوال سے دو چار ہونا پڑے لہٰذا ہمیں سنجیدگی سے بصیرت کے ساتھ اس مسئلہ سے نبٹنا چاہیے۔ خط پڑھ کر ملکہ سبا نے اپنے درباریوں سے کہا کہ تم لوگ جانتے ہو کہ میں اہم معاملات میں تمہارے مشورے کے بغیر کبھی کوئی اقدام نہیں کرتی اس لیے اب تم مشورہ دو کہ مجھ کو کیا کرنا چاہیے ؟ ارکان دولت نے کہا جہاں تک مرعوب ہونے کا تعلق ہے تو اس کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ ہم زبردست طاقت اور جنگی قوت کے مالک ہیں، رہا مشورہ کا معاملہ تو فیصلہ آپ کے ہاتھ ہے جو مناسب ہو اس کے لیے حکم کیجیے۔ ملکہ نے کہا کہ بیشک ہم طاقتور اور صاحب شوکت ہیں، لیکن سلیمان کے معاملہ میں ہم کو عجلت نہیں کرنی چاہیے، پہلے ہم کو اس کی قوت و طاقت کا اندازہ کرنا ضروری ہے کیونکہ جس عجیب طریقہ سے ہم تک یہ پیغام پہنچا ہے وہ اس کا سبق دیتا ہے کہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا مناسب ہے، میرا ارادہ یہ ہے کہ چند قاصد روانہ کروں جو سلیمان کے لیے عمدہ اور بیش بہا تحائف لے جائیں اس بہانہ سے وہ اس کی شوکت و عظمت کا اندازہ لگا سکیں گے اور یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ وہ ہم سے کیا چاہتا ہے۔ اگر واقعی وہ زبردست قوت و شوکت کا مالک اور شاہنشاہ ہے تو پھر اس سے ہمارا لڑنا مصیبت کو دعوت دینا ہے اس لیے کہ صاحب طاقت و شوکت بادشاہوں کا یہ دستور ہے کہ جب وہ کسی بستی میں فاتحانہ غلبہ کے ساتھ داخل ہوتے ہیں تو اس شہر کو برباد اور با عزت شہریوں کو ذلیل و خوار کردیتے ہیں۔ ہمیں بلاوجہ بربادی مول لینے کی کیا ضرورت ہے ؟ چنانچہ ملکہ نے چند ہدایا اور تحفہ جات تیار کیے اور اپنے چند اہل کاروں کو قاصد بنا کر بھیج دیا جب وہ لوگ یہ اموال ہدایا اور تحفے لے کر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کیا تم لوگ مال کے ذریعہ میری مدد کرنا چاہتے ہو جس کی وجہ سے یہ تحفے لائے ہو ؟ سو اللہ نے مجھے جو کچھ عطا فرمایا ہے وہ اس سے بہتر ہے جو اس نے تمہیں دیا ہے، (کیونکہ تمہارے پاس تو زمین ہی کا کچھ حصہ ہے اور میرے لیے تو زمین کے اندر تانبے کی نہر بہہ رہی ہے اور میری فوج میں انسان بھی ہیں جنات بھی ہیں وحوش بھی ہیں اور طیور بھی ان چیزوں کا حضرت سلیمان کے جواب میں تذکرہ نہیں ہے البتہ (مَا اٰتَانِیَ اللّٰہُ ) کے عموم میں یہ سب چیزیں داخل ہیں) حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے مزید فرمایا (بَلْ اَنْتُمْ بِھَدِیَّتِکُمْ تَفْرَحُوْنَ ) یعنی ہمیں تو تمہارے تحفوں کے ملنے کی خوشی نہیں ہے بلکہ تم ہی اپنے ہدیہ پر خوش ہو رہے ہو پھر قاصدوں میں جو ایک خصوصی قاصد تھا اس سے فرمایا کہ (ارْجِعْ اِِلَیْہِمْ ) کہ جاؤ ان کے پاس واپس چلے جاؤ (اور اپنے ہدایا بھی لے جاؤ کما فی روح المعانی) اگر ہماری بات نہ مانی اور ہمارے پاس فرماں بردار ہو کر نہ آئے تو ہم ان کے پاس ایسی فوجیں لے کر آئیں گے جن کا وہ مقابلہ نہ کرسکیں گے اور ہم ان کو وہاں سے ذلیل کر کے نکالیں گے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

21:۔ اسی اثنا میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے پرندوں کی پڑتال کی تو ہدہد کو نہ پایا۔ فرمایا کیا بات ہے ہدہد مجھے ہی نظر نہیں آرہا ہے یا وہ ہے ہی غیر حاضر۔ “ لاعذبنہ الخ ” جب معلوم ہوا کہ وہ غیر حاضر ہے تو فرمایا میں اسے سخت سزا دوں گا یا اسے ذبح کر ڈالوں گا یا پھر وہ اپنی غیر حاضری کی کوئی معقول اور واضح دلیل پیش کرے گا اس سے واضح ہوگیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) غیب داں نہ تھے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(20) اور سلیمان (علیہ السلام) نے پرندوں کی خبر لی، جائز ہ لیا اور حاضری لی تو کہنے لگا مجھے کیا ہوگیا کہ میں ہدُ ہُد کو نہیں دیکھتا کیا وہ کہیں غائب ہوگیا یعنی پرندوں کی حاضری لی تو ہُد ہُد کو نہ پایا تو فرمایا کہ مجھ کو کیا ہوا کہ میں ہُد ہُد کو نہیں دیکھتا وہ پرندوں کی بھیڑ میں مجھے دکھائی نہیں دیتا وہ کہیں غائب ہے حضرت سلیمان (علیہ السلام) پرندوں سے مختلف کام لیتے تھے شاید ہُد ہُد کو بھی کوئی خدمت سپرد ہو اور اس خدمت کے لئے اس کی ضرورت ہو کہتے ہیں ہُد ہُد کو یہ حس عطا کی گئی ہے کہ وہ زمین پر سے زمین کے اندر کے پانی کا پتہ معلوم کرلیتا ہے کہ پانی کتنے فاصلہ پر ہے اسی قسم کی ممکن ہے کوئی ضرورت پیش آئی ہو بہرحال ! جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ہُد ہُد کو نہ پایا تو تادیباً فرمایا۔