Surat un Namal

Surah: 27

Verse: 24

سورة النمل

وَجَدۡتُّہَا وَ قَوۡمَہَا یَسۡجُدُوۡنَ لِلشَّمۡسِ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیۡطٰنُ اَعۡمَالَہُمۡ فَصَدَّہُمۡ عَنِ السَّبِیۡلِ فَہُمۡ لَا یَہۡتَدُوۡنَ ﴿ۙ۲۴﴾

I found her and her people prostrating to the sun instead of Allah , and Satan has made their deeds pleasing to them and averted them from [His] way, so they are not guided,

میں نے اسے اور اس کی قوم کو ، اللہ تعالٰی کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا ، شیطان نے ان کے کام انہیں بھلے کرکے دکھلا کر صحیح راہ سے روک دیا ہے پس وہ ہدایت پر نہیں آتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّهِ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ ... I found her and her people worshipping the sun instead of Allah, and Shaytan has made their deeds fair seeming to them, and has prevented them from the way, meaning, from the way of truth, ... فَهُمْ لاَ يَهْتَدُونَ so they have no guidance. Allah's saying: ... وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيل فَهُمْ لاَ يَهْتَدُونَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

241اس کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح پرندوں کو یہ شعور ہے کہ غیب کا علم انبیاء بھی نہیں جانتے، جیسا کہ ہدہد نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو کہا کہ میں ایک ایسی اہم خبر لایا ہوں جس سے آپ بھی بیخبر ہیں، اسی طرح وہ اللہ کی وحدانیت کا احساس و شعور بھی رکھتے ہیں۔ اسی لئے یہاں ہدہد نے حیرت واستعجاب کے انداز میں کہا کہ یہ ملکہ اور اس کی قوم اللہ کے بجائے، سورج کی پجاری ہے اور شیطان کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ جس نے ان کے لئے سورج کی عبادت کو بھلا کر کے دکھلایا ہوا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢٥] یعنی یہ لوگ سورج پرست بھی ہیں اور آخرت کے منکر بھی۔ لہذا وہ اپنی ساری کوششیں زیادہ سے زیادہ دولت کمانے اور اپنا معیار زندگی بلند کرنے میں صرف کر رہے ہیں۔ اور اسی کام کو اپنی زندگی کے منتہائے مقصد سمجھے بیٹھے ہیں اور شیطان نے انھیں یہی بات سمجھائی ہے کہ ان کی عقلی اور فکری قوتوں کا یہی بہترین مصرف ہے کہ وہ اپنی اس دنیا کی زندگی کو زیادہ سے زیادہ شاندار بنائیں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَجَدْتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُوْنَ للشَّمْسِ ۔۔ : یعنی ہر قسم کی نعمت میسر ہونے پر لازم تھا کہ وہ ان نعمتوں کے عطا کرنے والے کی عبادت کرتے اور اسی کو سجدہ کرتے، مگر میں نے دیکھا کہ اس کے بجائے وہ اور اس کی قوم سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے لیے ان کے اعمال خوش نما بنا دیے ہیں اور انھیں اصل راستے سے روک دیا ہے، لہٰذا وہ ہدایت نہیں پاتے۔ یعنی ان کے ہدایت نہ پانے کی وجہ یہ ہے کہ شیطان نے ان کی نگاہ میں سورج کی پرستش مزین کردی ہے، اس لیے وہ اپنے آپ کو حق پر سمجھ رہے ہیں۔ اب غلط راستے پر چلنے والا کوئی شخص یقین کرلے کہ میں صحیح جا رہا ہوں اور غلطی بتانے والے کی دشمنی پر اتر آئے تو وہ کبھی سیدھے راستے پر نہیں آسکتا۔ یہ کہہ کر ہد ہد نے گویا سلیمان (علیہ السلام) کو اس قوم سے جہاد کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ یہاں اعمال مزین کرنے کی نسبت شیطان کی طرف فرمائی ہے، کیونکہ وہ لوگوں کی نگاہ میں گناہ کو مزین کرتا ہے۔ دوسری جگہ کفار کے لیے اعمال مزین کرنے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمائی ہے، جیسا کہ اسی سورت کی آیت (٤) میں ہے، کیونکہ مخلوق کے ہر عمل کا خالق اللہ تعالیٰ ہے۔ ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو مخاطب کرکے فرمایا تھا : (وَاللّٰهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ ) [ الصافات : ٩٦ ] ” حالانکہ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا اور اسے بھی جو تم کرتے ہو۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ I have found her and her people prostrating to the sun - 27:24 This shows that her people were star-worshippers and used to worship the sun. Some believe that they were Zoroastrians, who worship fire and all forms of light. أَلَّا يَسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي يُخْرِ‌جُ الْخَبْءَ (that is, they do not prostrate to Allah who bring forth what is hidden - 25).This sentence is linked with the previous one, |"The Shaitan has beautified their deeds - 26|" and the sense is that the Shaitan had engrained in their minds that they should not bow down before Allah, or had prevented them from the righteous path so that they should not prostrate before Allah Ta’ ala.

وَجَدْتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُوْنَ للشَّمْسِ ، معلوم ہوا کہ اس کی قوم نجوم پرست تھی آفتاب کی عبادت کرتی تھی، بعض نے فرمایا کہ مجوس میں سے تھی جو آگ اور ہر روشنی کی پرستش کرتے ہیں۔ (قرطبی) اَلَّا يَسْجُدُوْا کا تعلق زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ یا فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيْلِ سے ہے یعنی شیطان نے ان کے ذہنوں میں یہی بٹھلا دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہ کریں یا یہ کہ ان کو حق کے راستہ سے اس طرح روک دیا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ نہ کریں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَجَدْتُّہَا وَقَوْمَہَا يَسْجُدُوْنَ لِلشَّمْسِ مِنْ دُوْنِ اللہِ وَزَيَّنَ لَہُمُ الشَّيْطٰنُ اَعْمَالَہُمْ فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِيْلِ فَہُمْ لَا يَہْتَدُوْنَ۝ ٢ ٤ۙ قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] سجد السُّجُودُ أصله : التّطامن «3» والتّذلّل، وجعل ذلک عبارة عن التّذلّل لله وعبادته، وهو عامّ في الإنسان، والحیوانات، والجمادات، وذلک ضربان : سجود باختیار، ولیس ذلک إلا للإنسان، وبه يستحقّ الثواب، نحو قوله : فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] ، أي : تذللوا له، وسجود تسخیر، وهو للإنسان، والحیوانات، والنّبات، وعلی ذلک قوله : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] ( س ج د ) السجود ( ن ) اسکے اصل معنی فرو تنی اور عاجزی کرنے کے ہیں اور اللہ کے سامنے عاجزی اور اس کی عبادت کرنے کو سجود کہا جاتا ہے اور یہ انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ( کیونکہ ) سجود کی دو قسمیں ہیں ۔ سجود اختیاری جو انسان کے ساتھ خاص ہے اور اسی سے وہ ثواب الہی کا مستحق ہوتا ہے جیسے فرمایا : ۔ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا[ النجم/ 62] سو اللہ کے لئے سجدہ کرو اور اسی کی ) عبادت کرو ۔ سجود تسخیر ی جو انسان حیوانات اور جمادات سب کے حق میں عام ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ : وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَالْأَرْضِ طَوْعاً وَكَرْهاً وَظِلالُهُمْ بِالْغُدُوِّ وَالْآصالِ [ الرعد/ 15] اور فرشتے ) جو آسمانوں میں ہیں اور جو ( انسان ) زمین میں ہیں ۔ چار ونا چار اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں اور صبح وشام ان کے سایے ( بھی اسی کو سجدہ کرتے ہیں ) شمس الشَّمْسُ يقال للقرصة، وللضّوء المنتشر عنها، وتجمع علی شُمُوسٍ. قال تعالی: وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] ، وقال : الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] ، وشَمَسَ يومَنا، وأَشْمَسَ : صار ذا شَمْسٍ ، وشَمَسَ فلان شِمَاساً : إذا ندّ ولم يستقرّ تشبيها بالشمس في عدم استقرارها . ( ش م س ) الشمس کے معنی سورج کی نکیر یا وہوپ کے ہیں ج شموس قرآن میں ہے ۔ وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَها [يس/ 38] اور سورج اپنے مقرر راستے پر چلتا رہتا ہے ۔ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبانٍ [ الرحمن/ 5] سورج اور چاند ایک حساب مقرر سے چل رہے ہیں ۔ شمس یومنا واشمس ۔ دن کا دھوپ ولا ہونا شمس فلان شماسا گھوڑے کا بدکنا ایک جگہ پر قرار نہ پکڑناز ۔ گویا قرار نہ پکڑنے ہیں میں سورج کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے ۔ دون يقال للقاصر عن الشیء : دون، قال بعضهم : هو مقلوب من الدّنوّ ، والأدون : الدّنيء وقوله تعالی: لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] ، ( د و ن ) الدون جو کسی چیز سے قاصر اور کوتاہ ہودہ دون کہلاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ دنو کا مقلوب ہے ۔ اور الادون بمعنی دنی آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ لا تَتَّخِذُوا بِطانَةً مِنْ دُونِكُمْ [ آل عمران/ 118] کے معنی یہ ہیں کہ ان لوگوں کو راز دار مت بناؤ جو دیانت میں تمہارے ہم مرتبہ ( یعنی مسلمان ) نہیں ہیں ۔ زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں شطن الشَّيْطَانُ النون فيه أصليّة «3» ، وهو من : شَطَنَ أي : تباعد، ومنه : بئر شَطُونٌ ، وشَطَنَتِ الدّار، وغربة شَطُونٌ ، وقیل : بل النون فيه زائدة، من : شَاطَ يَشِيطُ : احترق غضبا، فَالشَّيْطَانُ مخلوق من النار کما دلّ عليه قوله تعالی: وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15]: الشّيطان اسم لكلّ عارم من الجنّ والإنس والحیوانات . قال تعالی: شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] ( ش ط ن ) الشیطان اس میں نون اصلی ہے اور یہ شطن سے مشتق ہے جس کے معنی دور ہونیکے ہیں اور بئر شطون ( بہت گہرا کنوآں ) شطنت الدار ۔ گھر کا دور ہونا غربۃ شطون ( بطن سے دوری ) وغیرہ محاوارت اسی سے مشتق ہیں بعض نے کہا ہے کہ لفظ شیطان میں نون زائدہ ہے اور یہ شاط یشیط سے مشتق ہے جس کے معنی غصہ سے سوختہ ہوجانے کے ہیں ۔ اور شیطان کو بھی شیطان اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آگ سے پیدا ہوا ہے جیسا کہ آیت : ۔ وَخَلَقَ الْجَانَّ مِنْ مارِجٍ مِنْ نارٍ [ الرحمن/ 15] اور جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ۔ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ابو عبیدہ نے کہا ہے کہ شیطان ہر سر کش کو کہتے ہیں خواہ وہ جن وانس سے ہو یا دیگر حیوانات سے ۔ قرآن میں ہے : ۔ شَياطِينَ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ [ الأنعام/ 112] شیطان ( سیرت ) انسانوں اور جنوں کو صدد الصُّدُودُ والصَّدُّ قد يكون انصرافا عن الشّيء وامتناعا، نحو : يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] ، وقد يكون صرفا ومنعا نحو : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] ( ص د د ) الصدود والصد ۔ کبھی لازم ہوتا ہے جس کے معنی کسی چیز سے رو گردانی اور اعراض برتنے کے ہیں جیسے فرمایا ؛يَصُدُّونَ عَنْكَ صُدُوداً ، [ النساء/ 61] کہ تم سے اعراض کرتے اور کے جاتے ہیں ۔ اور کبھی متعدی ہوتا ہے یعنی روکنے اور منع کرنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال ان کو آراستہ کردکھائے اور ان کو سیدھے راستے سے روک دیا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٤) میں نے ان لوگوں کو دیکھا کہ وہ اللہ کو چھوڑ کر سورج کی پوجا کر رہے ہیں اور شیطان نے اس سورج کی پوجا کو ان کی نظر میں پسندیدہ بنا کر رکھا ہے اور ان کو شیطان نے راہ حق اور ہدایت سے روک رکھا ہے سو وہ راہ حق پر نہیں چلتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَصَدَّہُمْ عَنِ السَّبِیْلِ فَہُمْ لَا یَہْتَدُوْنَ ) ” شیطان نے انہیں گمراہ کردیا ہے اور اب انہیں راہ ہدایت کا شعور نہیں رہا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

30 This shows that the people of Saba' at that lime followed the religion of sun-worship, which is also supported by the ancient traditions of Arabia. Ibn ishaq has cited the genealogists' saying to the effect that Saba' have in fact descended from an ancestor whose name was `Abd Shams (slave of the sun, or sun-worshipper) and title Saba'. This is supported by the Israelite traditions as well. According to these when the hud=hud arrived with the Prophet Solomon's letter, the queen of Sheba was going for the worship of the sun-god, and it threw the letter on the way before the queen. 31 The style shows that the sentences from here to the end of the paragraph are not a part of the hud-bud's speech but its speech ended with: "they prostrate themselves before the sun", and these words are an addition by Allah to its speech. 'I his opinion is supported by the sentence: "He knows all that you conceal and reveal." These words give the impression that the speaker and the addressees here are not he hud-hud and the Prophet Solomon and his courtiers respectively, but the speaker is Allah and the addressees the mushriks of Makkah, for whose admonition this story has been related. From among the commentators, 'Allamah Alusi;, the author of Ruh-al-Ma ani, also has preferred the same opinion. 32 That is, Satan has made them believe that earning the worldly wealth and making, their lives more and more grand and pompous is the only real and fit use of their mental and intellectual and physical powers. Apart from these, they need not think seriously on anything else: they need not bother themselves to see whether there was any factual reality behind the apparent life of the world or not, and whether the basis of their religion, morality, culture and system of life accorded with that Reality or went utterly against it. Satan satisfied them that when they were making adequate progress in respect of wealth and power and worldly grandeur, they had no need to see whether their beliefs and philosophies and theories were correct or not, for the only proof of their being correct was that they were earning wealth and enjoying life to their hearts content.

سورة النمل حاشیہ نمبر :30 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم اس زمانے میں آفتاب پرستی کے مذہب کی پیرو تھی ، عرب کی قدیم روایات سے بھی اس کا یہی مذہب معلوم ہوتا ہے ، چنانچہ ابن اسحاق علمائے انساب کا یہ قول نقل کرتا ہے کہ سبا کی قوم دراصل ایک مورث اعلی کی طرف منسوب ہے جس کا نام عبد شمس ( بندہ آفتاب یا سورج کا پرستار ) اور لقب سبا تھا ۔ بنی اسرائیل کی روایات بھی اسی کی تائید کرتی ہیں ، ان میں بیان کیا گیا ہے کہ ہدہد جب حضرت سلیمان کا خط لیکر پہنچا تو ملکہ سبا سورج دیوتا کی پرستش کے لیے جارہی تھی ۔ ہدہد نے راستے ہی میں وہ خط ملکہ کے سامنے پھینک دیا ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 31 انداز کلام سے اسیا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں سے آخر پیرا گراف تک کی عبادت ہدہد کے کلام کا جز نہیں ہے بلکہ سورج کے آگے سجدہ رکتی ہے پر اس کی بات ختم ہوگئی اور اس کے بعد اب یہ ارشاد اللہ تعالی کی طرف سے اس پر بطور اضافہ ہے ۔ اس قیاس کو جو چیز تقویت دیتی ہے وہ یہ فقرہ ہے وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ اور وہ سب کچھ جانتا ہے جسے تم چھپاتے اور ظاہر کرتے ہو ۔ ان الفاظ سے یہ گمان غالب ہوتا ہے کہ متکلم ہدہد اور مخاطب حضرت سلیمان کے اہل دربار نہیں ہیں بلکہ متکلم اللہ تعالی اور مخاطب مشرکین مکہ ہیں جن کو نصیحت کرنے ہی کے لیے یہ قصہ سنایا جارہا ہے ، مفسرین میں سے علامہ آلوسی ، صاحب روح المعانی بھی اسی قیاس کو ترجیح دیتے ہیں ۔ سورة النمل حاشیہ نمبر : 32 یعنی دنیا کی دولت کمانے اور اپنی زندگی کو زیادہ سے زیادہ شاندار بنانے کے جس کام میں وہ منہمک تھے ، شیطان نے ان کو بجھا دیا کہ بس یہی عقل و فکر کا ایک مصروف اور قوائے ذہنی و جسمانی کا ایک استعمال ہے ، اس سے زیادہ کسی دیز پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی حاجت ہی نہیں ہے کہ تم خواہ مخواہ اس فکر میں پڑو کہ اس ظاہر حیات دنیا کے پیچھے حقیقت واقعیہ کیا ہے اور تمہارے مذہب ، اخلاق ، تہذیب اور نظام حیات کی بنیادیں اس حقیقت سے مطابقت رکھتی ہیں یا سراسر اس کے خلاف جارہی ہیں ، شیطان نے ان کو مطمئن کردیا کہ جب تم دنیا میں دولت اور طاقت اور شان و شوکت کے لحاظ سے بڑھتے ہی چلے جارہے ہو تو پھر تمہیں یہ سوچنے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ ہمارے یہ عقائد اور فلسفے اور نظریے ٹھیک ہیں یا نہیں ۔ ان کے ٹھیک ہونے کی تو یہی ایک دلیل کافی ہے کہ تم مزے سے دولت کما رہے ہو اور عیش اڑا رہے ہو ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ ” چناچہ وہ آفتاب پرستی کو بڑے ثواب کا کام سمجھتے ہیں۔ “

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : ہد ہد کی رپورٹ کا مذہبی حصہ۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے سامنے ہد ہد نے اپنے چشم دید مشاہدات میں یہ بات بھی عرض کی کہ میں نے ملک سبا کی حکمران اور اس کی قوم کو اس حالت میں دیکھا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا سورج کو سجدہ کرتے ہیں اور یہ کام شیطان نے ان کے لیے خوبصورت بنا دیا ہے۔ ملکہ سبا : شیطان نے نہ صرف شرک کو ان کے لیے خوبصورت بنا کے پیش کیا ہے بلکہ اس نے انھیں صراط مستقیم سے روک رکھا ہے جس بنا پر وہ صراط مستقیم سمجھنے اور اس پر گامزن ہونے کے لیے تیار نہیں تھے۔ یہ بات فہم القرآن میں کئی مرتبہ عرض ہوچکی ہے کہ شیطان شرک اور برے اعمال کو اس طرح خوبصورت کرکے پیش کرتا ہے کہ لوگ شرک اور دیگر جرائم کو گناہ سمجھنے کی بجائے اپنی تہذیب کا حصہ، معاشرتی روایات اور نیکی سمجھتے ہیں۔ جس بناء پر انھیں اس بات کا احساس نہیں ہوتا کہ ہم نیکی کی بجائے گناہ کر رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ شرک اور دیگر گناہوں کو چھوڑناتو درکنار ایسے لوگ ان کے خلاف کوئی بات سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہوتے۔ یہ کسی فرد یا قوم کی گمراہی کی انتہا ہوتی ہے کہ وہ حق قبول کرنے کی بجائے گمراہی میں آگے بڑھتی جائے۔ اور اسے مذہب اور ثقافت کے نام پر کرتی رہے۔ ہد ہد کی رپورٹ اور قرآن مجید کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ شرک ایسا غلیظ عمل ہے جس سے پرندے بھی نفرت کرتے ہیں۔ ہدہد کے بیان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسان کی جبلت میں عقیدہ توحید سمودیا ہے اسی طرح ہی جانوروں کی فطرت میں عقیدہ توحید کا شعور رکھا ہے۔ جس بناء پر ہد ہد نے شرک سے نفرت کرتے ہوئے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خدمت میں یہ عرض کی کہ سبا کی ملکہ اور اس کی قوم کتنی ناعاقبت اندیش ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ نہیں کرتے حالانکہ اللہ وہ ذات ہے جو زمینوں آسمانوں کی چھپی ہوئی چیزوں کو نکالتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جو لوگ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں وہی عرش عظیم کا رب ہے۔ اس آیت اور قرآن مجید کے دیگر مقامات سے ثابت ہوتا ہے کہ پرندے اور دیگر مخلوق بھی اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرتے ہیں اور انھیں پوری طرح اپنے معبود حقیقی کی الوہیت اور اس کی عبادت کرنے کا شعور بخشتا گیا ہے۔ مشرک ” اللہ “ کے سوا دوسروں کو سجدہ کرتے ہیں۔ مومنوں کو حکم ہے کہ جب ان آیات کی تلاوت کرتے ہوئے ” رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم “ کے الفاظ تک پہنچیں تو وہ اللہ کے حضور سجدہ کریں۔ (وَمِنْ اٰیٰتِہٖ الَّیْلُ وَالنَّھَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لاَ تَسْجُدُوْا للشَّمْسِ وَلاَ لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَھُنَّ إِنْ کُنْتُمْ إِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ ) [ حٰم السجدۃ : ٣٧] ” رات اور دن، سورج اور چاند اللہ کی نشانیاں ہیں۔ سورج چاند کو سجدہ نہ کر وبل کہ اس ذات کبریاء کو سجدہ کرو جس نے ان کو پیدا کیا ہے اگر واقعتا تم اسی کی عبادت کرنے والے ہو۔ “ (عَنْ قَیْسِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ أَتَیْتُ الْحِیْرَۃَ فَرَأَیْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِمَرْزُبَانٍ لَّھُمْ فَقُلْتُ رَسُوْلُ اللّٰہِ أَحَقُّ أَنْ یُّسْجَدَ لَہٗ قَالَ فَأَتَیْتُ النَّبِيَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَقُلْتُ إِنّيآ أَتَیْتُ الْحِیْرَۃَ فَرَأَیْتُھُمْ یَسْجُدُوْنَ لِمَرْزُبَانٍ لَّھُمْ فَأَنْتَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ أَحَقُّ أَنْ نَسْجُدَ لَکَ قَالَ أَرَأَیْتَ لَوْ مَرَرْتَ بِقَبْرِيْ أَکُنْتَ تَسْجُدُ لَہٗ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَ فَلَا تَفْعَلُوْا لَوْ کُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ یَّسْجُدَ لِأَحَدٍ لَأَمَرْتُ النِّسَآءَ أَنْ یَسْجُدْنَ لِأَزْوَاجِھِنَّ لِمَا جَعَلَ اللّٰہُ لَھُمْ عَلَیْھِنَّ مِنَ الْحَقِّ ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب النکاح، باب فی حق الزوج علی المرأۃ ] ” حضرت قیس بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں حیرہ گیا تو میں نے وہاں کے لوگوں کو بادشاہ کو سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے کہا : اللہ کے رسول سجدے کے زیادہ لائق ہیں۔ میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے عرض کی : میں نے حیرہ میں دیکھا کہ لوگ اپنے بادشاہ کو سجدہ کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول ! آپ زیادہ حقدار ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بتلائیے ! اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو تو کیا اسے سجدہ کرو گے ؟ میں نے کہا : نہیں۔ آپ نے فرمایا : ایسے نہ کرو اگر میں نے کسی کو کسی کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دینا ہوتا تو اللہ تعالیٰ نے مردوں کا عورتوں پر جو حق رکھا اس وجہ سے عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوندوں کے سامنے سجدہ کیا کریں۔ “ ” جب فرشتوں نے آدم (علیہ السلام) کی وسعت علم اور اپنے عجز کا اعتراف کرلیا تو پروردگار عالم نے انہیں حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ سجدہ کا لغوی معنی ہے تذلّل اور خضوع اور شریعت میں اس کا معنٰی ہے ” وضع الجبھۃ علی الأرض “ پیشانی کا زمین پر رکھنا۔ بعض علماء کے نزدیک یہاں سجدہ کا لغوی معنٰی مراد ہے کہ فرشتوں کو ادب واحترام کرنے کا حکم دیا گیا لیکن جمہور علماء کے نزدیک شرعی معنیٰ مراد ہے۔ یعنی فرشتوں کو حکم دیا گیا کہ آدم (علیہ السلام) کے سامنے پیشانی رکھ دیں۔ اب اس سجدہ کی دو صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ پیشانی جھکانے والا یہ اعتقاد کرے کہ جس کے سامنے میں پیشانی جھکا رہا ہوں وہ خدا ہے تو یہ عبادت ہے اور یہ بھی کسی نبی کی شریعت میں جائز نہیں بلکہ انبیاء کی بعثت کا مقصد اولین تھا ہی یہی کہ وہ انسانوں کو صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیں اور دوسروں کی عبادت سے منع کریں تو یہ کیونکر ہوسکتا ہے کہ جس چیز سے روکنے کے لیے انبیاء تشریف لائے اس فعل کا ارتکاب خود کریں یا کسی کو اجازت دیں۔ دوسری صورت یہ ہے کہ جس کے سامنے سجدہ کیا جارہا ہے اس کی عزت واحترام کے لیے ہو عبادت کے لیے نہ ہو تو اس کو سجدہ تحیہ کہتے ہیں۔ یہ پہلے انبیاء کرام کی شریعتوں میں جائز تھا لیکن حضور کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے بھی منع فرمادیا۔ اب تعظیمی سجدہ بھی ہماری شریعت میں حرام ہے۔ “ [ ضیاء القرآن، جلد اول ‘ البقرہ : ٣٤] خبکی تعریف : ” پوشیدہ چیزوں کو آسمان و زمین سے نکالنا مثلاً پانی کو آسمان سے نباتات کو زمین سے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ کرنا جائز نہیں۔ ٢۔ غیر اللہ کو سجدہ کرنے سے پرندے بھی نفرت کرتے ہیں۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ ٤۔ اللہ ہی معبودِ حق ہے اس کے سوا کسی کی عبادت کرنا جائز نہیں۔ تفسیر بالقرآن شیطان کن لوگوں کے لیے ان کے اعمال خوبصورت بناتا ہے : ١۔ شیطان نے اکثر مشرکین کے لیے قتل اولاد کا عمل مزّین کردیا۔ (الانعام : ١٣٧) ٢۔ قوم عاد وثمود کے اعمالِ بد کو شیطان نے مزّین کردیا۔ (العنکبوت : ٣٨) ٣۔ ہر گروہ کے بد اعمال کو شیطان نے ان کے لیے مزّین کردیا ہے۔ (الانعام : ١٠٩) ٤۔ ظالموں کے دل سخت ہوگئے اور شیطان ان کے اعمال کو مزین کر دکھاتا ہے۔ (الانعام : ٤٣) ٥۔ اللہ کے علاوہ سورج کو سجدہ کرنے والوں کے برے اعمال کو شیطان نے ان کے لیے مزین کردیا۔ (النمل : ٢٤)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

(24) اور میں نے اس عورت کو اور اس کی قوم کو پایا کہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر آفتاب کو سجدہ کرتے ہیں اور شیطان نے ان کے لئے ان کے اعمال کو خوش نما خوش منظر اور مزین کردیا ہے اور ان کو صحیح راہ سے روک دیا ہے لہٰذا وہ راہ حق نہیں پاتے یعنی وہ لوگ آفتاب پرست ہیں شیطان نے ان کو تباہ کر رکھا ہے اور ان کی مشرکانہ رسوم کو ان کی نظروں میں آراستہ کردیا ہے لہٰذا وہ سیدھی راہ کا تجسس بھی نہیں کرتے اور جب ان کو راہ حق کی تلاش ہی نہیں تو راہ حق کو پائیں کیسے شاید ان کے خلاف جہاد کی ترغیب کو یہ الفاظ ہُد ہُد نے کہے ہوں۔