Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 11

سورة القصص

وَ قَالَتۡ لِاُخۡتِہٖ قُصِّیۡہِ ۫ فَبَصُرَتۡ بِہٖ عَنۡ جُنُبٍ وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ ﴿ۙ۱۱﴾

And she said to his sister, "Follow him"; so she watched him from a distance while they perceived not.

موسٰی ( علیہ السلام ) کی والدہ نے اس کی بہن سے کہا کہ تو اس کے پیچھے پیچھے جا ، تو وہ اسے دور ہی دور سے دیکھتی رہی اور فرعونیو کو اس کا علم بھی نہ ہوا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَالَتْ لاُِخْتِهِ قُصِّيهِ ... had We not strengthened her heart, so that she might remain as one of the believers. And she said to his sister: "Follow him." means, she told her daughter, who was older and was of an age to understand things, قُصِّيهِ (Follow him), means, follow his traces and look for information about him, try to find out about him around the city. So she went out to do that. ... فَبَصُرَتْ بِهِ عَن جُنُبٍ ... So she watched him from a far place (secretly), Ibn Abbas said, "Off to the side." Mujahid said, "It means she looked from afar." Qatadah said: "She started to look at him as if she was not really interested." ... وَهُمْ لاَ يَشْعُرُونَ while they perceived not. When Musa had settled into the house of Fir`awn, after the king's wife had begun to love him and asked Fir`awn not to kill him, they brought to him the wet nurses who were to be found in their household, and he did not accept any of them, refusing to take milk from them. So they took him out to the marketplace, hoping to find a woman who would be suitable to nurse him. When (his sister) saw him in their arms, she recognized him, but she did not give any indication nor did they suspect her. Allah says:

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

111موسیٰ کی بہن کا نام مریم بنت عمران تھا جس طرح حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کا مریم بنت عمران تھیں نام اور ولدیت دونوں میں اتحاد تھا۔ 112چناچہ وہ دریا کے کنارے کنارے، دیکھتی رہی تھی، حتّٰی کہ اس نے دیکھ لیا کہ اسکا بھائی فرعون کے محل میں چلا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٧] ام موسیٰ کے تین بچے تھے۔ سب سے بڑی لڑکی تھی۔ اس کے بعد ہارون پیدا ہوئے پھر ان کے ایک سال بعد موسیٰ کی پیدائش ہوئی۔ حضرت ہارون کی پیدائش تک بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کا حکم نافذ نہیں ہوا تھا۔ لہذا وہ بھی زندہ تھے اور بہن تو ان سے آٹھ دس سال بڑی تھی۔ جب ام ّموسیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا برد کرچکی اور دل بےقرار ہونے لگا تو ایک احتیاطی تدبیر اس کے ذہن میں آئی کہ شاید اس تدبیر کا کسی وقت فائدہ پہنچ جائے۔ اس نے موسیٰ کی بہن سے کہا کہ اس دریا کے کنارے کنارے چلی جاؤ۔ اور بچہ کو دیکھتی رہو کہ کہاں جاتا ہے۔ لیکن یہ احتیاط ملحوظ رکھنا کہ اس طریقہ سے چھپتی چھپاتی جانا کہ کسی کو یہ گمان نہ ہوسکے کہ یہ لڑکی اس ٹوکرے کی نگہداشت کر رہی ہے۔ اور اس کی ٹوہ میں لگی ہوئی ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب آل فرعون نے یہ تابوت دریا سے نکالا اور اس سے بچہ برآمد ہوا تو اس واقعہ کی خبر سارے شہر میں آناً فاناً پھیل گئی۔ اس وقت ام موسیٰ نے حضرت موسیٰ کی بہن سے کہا کہ جاؤ اور اس بچہ کا پتہ لگاؤ اور علیحدہ رہ کر دیکھنا کہ کیا ماجرا ہوتا ہے۔ لڑکی ہوشیار تھی وہ اس مقام پر پہنچ گئی جہاں بچہ کے گرد بھیڑ لگی تھی کہ وہاں وہ ایک طرف کھڑے ہو کر اور بےتعلق سی بن کر دور سے دیکھتی رہی اور لوگوں کی باتیں سنتی رہی مگر کسی کو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ لڑکی اس بچہ کی بہن ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَتْ لِاُخْتِهٖ قُصِّيْهِ ” قَصَّ یَقُصُّ “ کا معنی بیان کرنا بھی ہے اور پیچھے پیچھے جانا بھی۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں نے ان کی بہن سے کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے جاؤ۔ اس سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کے ایک بھائی ہارون تھے اور ایک بہن تھی۔ فَبَصُرَتْ بِهٖ عَنْ جُنُبٍ وَّهُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ : ” عن جنب “ کا معنی ” دور سے “ یا ” جانب سے “ یعنی وہ کنارے پر رہ کر ساتھ چلتی ہوئی دور سے اسے دیکھتی رہی، اس طرح کہ کسی کو معلوم نہیں ہوسکا کہ وہ اس کا پیچھا کر رہی ہے۔ اس سے اس لڑکی کی دانائی اور ذہانت کا پتا چلتا ہے۔ ماں نے صرف پیچھے پیچھے جانے کو کہا تھا، یہ اس کی دانش مندی تھی کہ پیچھے کس طرح جانا ہے۔ ایک عرب شاعر نے خوب کہا ہے ؂ إِذَا کُنْتَ فِيْ حَاجَۃٍ مُرْسِلاً فَأَرْسِلْ حَکِیْمًا وَ لَا تُوْصِہٖ ” جب تم کسی کام کے لیے بھیجو تو دانا آدمی کو بھیجو، پھر اسے سمجھانے کی ضرورت نہیں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَتْ لِاُخْتِہٖ قُصِّيْہِ۝ ٠ۡفَبَصُرَتْ بِہٖ عَنْ جُنُبٍ وَّہُمْ لَا يَشْعُرُوْنَ۝ ١١ۙ قصص الْقَصُّ : تتبّع الأثر، يقال : قَصَصْتُ أثره، والْقَصَصُ : الأثر . قال تعالی: فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] ، وَقالَتْ لِأُخْتِهِقُصِّيهِ [ القصص/ 11] ( ق ص ص ) القص کے معنی نشان قد م پر چلنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ۔ قصصت اثرہ یعنی میں اس کے نقش قدم پر چلا اور قصص کے معنی نشان کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : فَارْتَدَّا عَلى آثارِهِما قَصَصاً [ الكهف/ 64] تو وہ اپنے اپنے پاؤں کے نشان دیکھتے دیکھتے لوٹ گئے ۔ وَقالَتْ لِأُخْتِهِ قُصِّيهِ [ القصص/ 11] اور اسکی بہن کہا کہ اس کے پیچھے پیچھے چلی جا ۔ بصر البَصَر يقال للجارحة الناظرة، نحو قوله تعالی: كَلَمْحِ الْبَصَرِ [ النحل/ 77] ، ووَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] ( ب ص ر) البصر کے معنی آنکھ کے ہیں جیسے فرمایا ؛کلمح البصر (54 ۔ 50) آنکھ کے جھپکنے کی طرح ۔ وَ إِذْ زاغَتِ الْأَبْصارُ [ الأحزاب/ 10] اور جب آنگھیں پھر گئیں ۔ نیز قوت بینائی کو بصر کہہ لیتے ہیں اور دل کی بینائی پر بصرہ اور بصیرت دونوں لفظ بولے جاتے ہیں قرآن میں ہے :۔ فَكَشَفْنا عَنْكَ غِطاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ [ ق/ 22] اب ہم نے تجھ پر سے وہ اٹھا دیا تو آج تیری نگاہ تیز ہے ۔ جنب أصل الجَنْب : الجارحة، وجمعه : جُنُوب، قال اللہ عزّ وجل : فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة/ 35] ، وقال تعالی: تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة/ 16] ، وقال عزّ وجلّ : قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 191] . ثم يستعار من الناحية التي تليها کعادتهم في استعارة سائر الجوارح لذلک، نحو : الیمین والشمال، ( ج ن ب ) الجنب اصل میں اس کے معنی پہلو کے ہیں اس کی جمع جنوب ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ قِياماً وَقُعُوداً وَعَلى جُنُوبِهِمْ [ آل عمران/ 191] جو کھڑے اور بیٹھے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ۔ فَتُكْوى بِها جِباهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ [ التوبة/ 35] پھر اس سے ان ( بخیلوں ) کی پیشانیاں اور پہلو داغے جائیں گے ۔ تَتَجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضاجِعِ [ السجدة/ 16] ان کے پہلو بچھو نوں سے الگ رہنے ہیں ۔ پھر بطور استعارہ پہلو کی سمت کے معنی میں استعمال ہونے لگا ہے ۔ جیسا کہ یمین ، شمال اور دیگر اعضا میں عرب لوگ استعارات سے کام لیتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١١) آخر کار انہوں نے سنبھال کر یہ تدبیر سوچی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن مریم سے کہا ذرا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا سراغ تو لگاؤ چناچہ اس نے دور سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا اور ان لوگوں کو یہ خبر بھی نہیں تھی کہ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(فَبَصُرَتْ بِہٖ عَنْ جُنُبٍ وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ ) ” حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن اپنی والدہ کے کہنے پر دریا کے کنارے کنارے صندوق پر دھیان رکھے اس انداز سے چلتی رہی جیسے صندوق سے اس کا کوئی تعلق نہ ہو۔ اس طرح وہ بچے کے پیچھے پیچھے بڑی ہوشیاری سے فرعون کے محل میں پہنچ گئی۔ لیکن اس نے اپنے انداز سے وہاں بھی یہی ظاہر کیا جیسے وہ ایک راہ چلتی بچی ہے جو دریا میں تیرتے ہوئے صندوق کو دیکھنے کے لیے ادھر تک پہنچ گئی ہے اور یوں وہاں کسی کو اس کی اصل منصوبہ بندی کے بارے میں گمان تک نہ ہوا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13 That is, the girl walked along and watched the floating basket in such a manner that the enemies could not know that she had anything to do with the child in it. According to the Israelite traditions, this sister of the Prophet Moses was 10 to 12 years old. She followed up her brother intelligently and cleverly and ascertained that he had been picked up by the Pharaoh's household.

سورة القصص حاشیہ نمبر : 13 یعنی لڑکی نے اس طریقے سے ٹوکرے پر نگاہ رکھی کہ بہتے ہوئے ٹوکرے کے ساتھ ساتھ وہ اس کو دیکھتی ہوئی چلتی بھی رہی اور دشمن یہ نہ سمجھ سکے کہ اس کا کوئی تعلق اس ٹوکرے کے ساتھ ہے ، اسرائیلی روایات کے مطابق حضرت موسی کی یہ بہن اس وقت 10 ۔ 12 برس کی تھیں ۔ ان کی ذہانت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ انہوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ بھائی کا پیچھا کیا اور یہ پتہ چلا لیا کہ وہ فرعون کے محل میں پہنچ چکا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:11) قصیہ۔ قصی فعل امر واحد مؤنث حاضر۔ قص یقص (مضاعف باب نصر) قص وقصص۔ وعلی اثرہ کسی کے پیچھے جانا۔ کسی کے نشان قدم پر چلنا۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب حضرت موسیٰ کی طرف راجع ہے۔ تو اس کے پیچھے پیچھے جا۔ اور جگہ اسی معنی میں آیا ہے فارتدا علی اثارھما قصصا۔ (18:64) تو وہ اپنے پاؤں کے نشانات پر الٹے لوٹے۔ اخبار متتبعہ کو القصص (واحد، القصۃ) کہتے ہیں ۔ فبصرت بہ ای ابصرتہ وہ اس کو دیکھتی رہی یعنی اس کے پیچھے پیچھے چلی اور اسے نظروں میں رکھا۔ ف فصیحت کے لئے ہے۔ عن جنب۔ الجنب اصل میں اس کے معنی پہلو۔ طرف کے ہیں ۔ اور پہلو کے معنی میں اس کی جمع جنوب ہے جیسے کہ قرآن مجید میں اور جگہ ہے قیاما وقعودا او علی جنوبھم (3:191) جو کھڑے اور بیٹھے ہوئے اور پہلوؤں پر لیٹے ہوئے ۔۔ پھر بطور استعارہ پہلو کی سمت کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ جیسا کہ یمین ۔ شمال اور دیگر اعضائیں عرب لوگ لوگ استعارات سے کام لیتے ہیں ۔ شاعر نے کہا ہے کہ :۔ من عن یمینی مرۃ وامامی۔ (کبھی دائیں جانب ست اور کبھی سامنے سے) ۔ الجنب سے فعل دو معنی میں استعمال ہوتا ہے :۔ (1) کسی کی سمت مخالف کو جانا یا اس سے دور ہونا۔ یا دور کرنا۔ بچنا۔ بچانا۔ جیسے وسیجنبھا الاتقی (92:17) اور پرہیزگار اس سے دور رکھا جائے گا۔ (باب تفعیل) اسے سے باب افتعال سے اجتناب ہے۔ بمعنی بچنا۔ پہلو تہی کرنا۔ جیسے واجتنبوا اقول لزور (22:30) اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔ اسے سے اجنبی ہے جس میں دوری کا مفہوم پایا جاتا ہے یا جنب بمعنی جنبی۔ جسے جنابت لاحق ہو۔ جس غسل واجب ہو۔ کہ جب تک وہ غسل نہ کرے نماز اور مسجد سے دور رہتا ہے۔ آیر ہذا میں بھی جنب اسی ” دور “ کے معنی میں آیا ہے۔ ای عن بعد دور سے اسی معنی میں ہے والجار الجنب (4:36) اور دور رہنے والے پڑوسی۔ فبصرت بہ عن جنب۔ پس وہ اسے دور سے دیکھتی رہی۔ (2) سمت موافق کو آنا۔ یا اس کے قریب ہونا۔ مائل ہونا۔ مشتاق ہونا جیسے الصاحب بالجنب (4:36) قریبی دوست، پہلو کا رفیق وہم لا یشعرون۔ اور وہ لوگ (حقیقت کو) نہیں سمجھتے تھے۔ (کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن ہے اور ان کی تاڑ میں ان کے پیچھے آئی ہے)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ کہ وہ بچے کی بہن ہے اور یہ معلوم کرنے کے لئے ساتھ ساتھ چلی آرہی ہے کہ اسے کون اٹھاتا ہے اور کدھر لے جاتا ہے ؟

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

12:۔ ماں کی مامتا کو کب قرار آتا ہے فورًا اپنی بیٹی موسیٰ (علیہ السلام) کی ہمشیرہ حضرت مریم بنت عمران (یہ مریم بنت عمرا والدہ مسیح (علیہ السلام) کے علاوہ ہیں) کو تفتیش احوال کے لیے فرعون کے گھر اس کے پیچھے پیچھے بھیجا تاکہ معلوم کرے کہ وہ اس کے ساتھ کس طرح پیش آتے ہیں۔ چناچہ وہ گئیں اور دور سے سب کچھ دیکھتی رہیں اس طرح کہ کسی کو پتہ نہ چل سکا کہ وہ تفتیش احول کے لیے وہاں کھڑی ہیں۔ عن جنب ای عن بعد یعنی دور سے (بحر) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

11۔ اور موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں نے موسیٰ (علیہ السلام) کی بہن سے کہا تو ذرا موسیٰ (علیہ السلام) کے پیچھے چلی جا اور ذرا موسیٰ (علیہ السلام) کا پتہ لگا چناچہ موسیٰ (علیہ السلام) کو وہ دور سے اجنبی بنی ہوئی دیکھتی رہی اور فرعون والوں کو اس کا احساس بھی نہ ہوا ۔ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ماں نے بچہ کا حال معلوم کرنے کی غرض سے ان کی بہن مریم یا کلثوم کو ان کے پیچھے بھیجا ۔ تا کہ وہ دور سے یا اجنبی بنی ہوئی موسیٰ (علیہ السلام) کا حال دیکھتی رہے چناچہ وہ لڑکی فرعون کے محل میں پہنچ گئی اور سب کچھ اجنبی بنی ہوئی دیکھتی رہی اور محل والوں کو اس کی خبر بھی نہ ہوئی کہ یہ لڑکی کون ہے۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) کی پرورش کا معاملہ طے ہوگیا اور حضرت آسیہ بنت زاحم جو فرعون کی بیوی تھیں ان کے سپرد کردیئے گئے تو مختلف دایہ بلائی گئیں اور حضر ت موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی گود میں دیا گیا لیکن انہوں نے کسی دایہ کی چھاتی اور دودھ کو منہ میں نہیں لیا اس کو ارشاد فرماتے ہیں۔