18 That is, when he had attained his full mental and physical development. In this connection, different ages of the Prophet Moses have been mentioned in the Jewish traditions. Some say he was 18, others have mentioned 20 years and still others 40 years. According to the New Testament, he was 40 years old. (Acts, 7: 23). But the Qur'an does not mention any age. For the purpose of the incident bein... g mentioned in the following verses, it is enough to know that he had attained his full maturity at that time.
19 Hukum implies wisdom, understanding and power of judgement, and 'llm is both religious and worldly knowledge. The Prophet Moses became familiar with the teachings of his forefathers the Prophets Joseph. Jacob, Isaac and Abraham (peace be upon all of them) through his contact with his parents, and with the sciences prevalent in Egypt by virtue of his training as a prince in the king's palace. Here the gift of Hukm (wisdom) and `Ilm (knowledge) does nor refer to the gift of Prophethood, because Prophethood was bestowed on Moses several years afterwards, as is mentioned below, and has already been mentioned in Ash-Shu`araa: 21 above.
Regarding his education and training while as a prince the New Testament says: "Moses was learned in all the wisdom of the Egyptians, and was mighty in words and' in deeds." (Acts, 7: 22). The Talmud says: Moses grew up, a handsome lad, in the palace of the king: he dressed royally, was honoured by the people, and seemed in all things of royal lineage. He visited the land of Goshen daily, observing the rigour with which his brethren were treated.... Moses urged the king of Egypt to grant the men of Goshen one day of rest from the labour, in each week, and the king acceded to his request. Moses said, "If you compel them to labour steadily their strength will fail them; for your benefit and profit allow them at least one day in the week for rest and renewal of strength", And the Lord was with Moses, and his fame extended through all the land. " (H. Polano: The Talmud Selection pp. 128-29). Show more
سورة القصص حاشیہ نمبر : 18
یعنی جب ان کا جسمانی و ذہنی نشوونما مکمل ہوگیا ، یودی روایات میں اس وقت حضرت موسی کی مختلف عمریں بتائی گئی ہیں ۔ کسی نے 18 سال لکھی ہے ، کسی نے 20 سال ، اور کسی نے 40 سال ۔ بائیبل کے نئے عہد نامے میں 40 سال عمر بتائی گئی ہے ۔ ( اعمال 7 ۔ 23 ) لیکن قرآن کسی عمر ک... ی تصریح نہیں کرتا ۔ جس مقصد کے لیے قصہ بیان کیا جارہا ہے اس کے لیے بس اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ آگے جس واقعہ کا ذکر ہورہا ہے وہ اس زمانے کا ہے جب حضرت موسی پورے شباب کو پہنچ چکے تھے ۔
سورة القصص حاشیہ نمبر : 19
حکم سے مراد حکمت ، دانائی ، فہم و فراست اور قوت فیصلہ ۔ اور علم سے مراد دینی اور دنیوی علوم دونوں ہیں ۔ کیونکہ اپنے والدین کے ساتھ ربط ضبط قائم رہنے کی وجہ سے ان کو اپنے باپ دادا ( حضرت یوسف ، یعقوب ، اسحاق اور ابراہیم علیہم السلام ) کی تعلیمات سے بھی واقفیت حاصل ہوگئی ، اور بادشاہ وقت کے ہاں شاہزادے کی حیثیت سے پرورش پانے کے باعث ان کو وہ تمام دنیوی علوم بھی حاصل ہوئے جو اس زمانے کے اہل مصر میں متداول تھے ، اس حکم اور علم کے عطیہ سے مراد نبوت کا عطیہ نہیں ہے ۔ کیونکہ حضرت موسی کو نبوت تو اس کے کئی سال بعد عطا فرمائی گئی ، جیسا کہ آگے آرہا ہے اور اس سے پہلے سورہ شعراء ( آیت 21 ) میں بھی بیان ہوچکا ہے ۔
اس زمانہ شاہزادگی کی تعلیم و تربیت کے متعلق بائیبل کی کتاب الاعمال میں بتایا گیا ہے کہ موسی نے مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی اور وہ کام اور کلام میں قوت والا تھا ( 7 ۔ 22 ) تلمود کا بیان ہے کہ موسی علیہ السلام فرعون کے گھر میں ایک خوبصورت جوان بن کر اٹھے ۔ شاہزادوں کا سا لباس پہنتے تھے ، شاہزادوں کی طرح رہتے ، اور لوگ ان کی نہایت تعظیم و تکریم کرتے تھے ، وہ اکثر جشن کے علاقے میں جاتے جہاں اسرائیلیوں کی بستیاں تھیں ، اور ان تمام سختیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے جو ان کی قوم کے ساتھ قبطی حکومت کے ملازمین کرتے تھے ، انہی کی کوشش سے فرعون نے اسرائیلیوں کے لیے ہفتہ میں ایک دن کی چھٹی مقرر کی ۔ انہوں نے فرعون سے کہا کہ دائما مسلسل کام کرنے کی وجہ سے یہ لوگ کمزور ہوجائیں گے اور حکومت ہی کے کام کا نقصان ہوگا ۔ ان کی قوت بحال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ہفتے میں ایک دن آرام کا دیا جائے ۔ اسی طرح اپنی دانائی سے انہوں نے اور بہت سے ایسے کام کیے جن کی وجہ سے تمام ملک مصر میں ان کی شہرت ہوگئی تھی ۔ ( اقتباسات تلمود ۔ صفحہ 129 ) Show more