Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 14

سورة القصص

وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ اسۡتَوٰۤی اٰتَیۡنٰہُ حُکۡمًا وَّ عِلۡمًا ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُحۡسِنِیۡنَ ﴿۱۴﴾

And when he attained his full strength and was [mentally] mature, We bestowed upon him judgement and knowledge. And thus do We reward the doers of good.

اور جب موسٰی ( علیہ السلام ) اپنی جوانی کو پہنچ گئے اور پورے توانا ہوگئے ہم نے انہیں حکمت و علم عطا فرمایا نیکی کرنے والوں کو ہم اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

How Musa killed a Coptic Man Allah tells: وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَى اتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا ... And when he reached maturity, and was complete, We bestowed on him Hukm and knowledge. Having described Musa's beginnings, Allah then tells us that when he reached maturity, and was complete in stature, Allah gave him Hukm and religious knowledge. ... Mujahid said that this means Prophethood. ... وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ And thus do We reward the doers of good. Then Allah describes how Musa reached the status that was decreed for him, that of Prophethood and speaking to Allah, as a direct consequence of killing the Coptic, which was the reason why he left Egypt and went to Madyan. Allah says:   Show more

گھونسے سے موت حضرت موسیٰ کے لڑکپن کا ذکر کیا اب ان کی جوانی کا واقعہ بیان ہو رہا ہے کہ اللہ نے انہیں حکمت وعلم عطا فرمایا ۔ یعنی نبوت دی ۔ نیک لوگ ایسا ہی بدلہ پاتے ہیں ، پھر اس واقعہ کا ذکر ہو رہا ہے جو حضرت موسی علیہ السلام کے مصر چھوڑنے کا باعث بنا اور جس کے بعد اللہ کی رحمت نے ان کارخ کیا ... یہ مصر چھوڑ کر مدین کی طرف چل دئیے ۔ آپ ایک مرتبہ شہر میں آتے ہیں یا تو مغرب کے بعد یا ظہر کے وقت کہ لوگ کھانے پینے میں یا سونے میں مشغول ہیں راستوں پر آمد ورفت نہیں تھی تو دیکھتے ہیں کہ دو شخص لڑ جھگڑرہے ہیں ۔ ایک اسرائیلی ہے دوسرا قبطی ہے ۔ اسرائیلی نے حضرت موسیٰ سے قبطی کی شکایت کی اور اس کا زور ظلم بیان کیا جس پر آپ کو غصہ آگیا اور ایک گھونسہ اسے کھینچ مارا جس سے وہ اسی وقت مرگیا ۔ موسیٰ گھبراگئے اور کہنے لگے یہ تو شیطانی کام ہے اور شیطان دشمن اور گمراہ ہے اور اس کا دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہونا بھی ظاہر ہے ۔ پھر اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرنے لگے اور استغفار کرنے لگے ۔ اللہ نے بھی بخشش دیا وہ بخشنے والا مہربان ہی ہے ۔ اب کہنے لگے اے اللہ تونے جو جاہ وعزت بزرگی اور نعمت مجھے عطافرمائی ہے میں اسے سامنے رکھ کر وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی کسی نافرمان کی کسی امر میں موافقت اور امداد نہیں کرونگا ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

141حکم اور علم سے مراد نبوت ہے تو اس مقام تک کس طرح پہنچے، اس کی تفصیل اگلی آیات میں ہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس سے مراد نبوت نہیں بلکہ عقل اور دانش اور وہ علوم ہیں جو انہوں نے اپنے آبائی اور خاندانی ما حول میں رہ کر سیکھے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢١] بچپن میں آپ کو خالص دیندارانہ ماحول میسر آگیا۔ لہذا آپ حضرت یعقوب اور یوسف کی تعلیم سے واقف ہوگئے۔ آپ کے والدین کا گھرانہ ایک شریف اور دیندار گھرانہ تھا اور بچہ جو عادات و خضائل اس عمر میں سیکھتا ہے وہی تمام زندگی اس میں نمایاں رہتی ہیں۔ اس کے بعد آپ شاہی خاندان کے فرد بنے تو مصر میں متداول جد... ید علوم سے بہرہ ور ہوئے اور اصول جہاں بانی اور حکمرانی بھی از خود اخذ کرتے رہے کیونکہ آپ میں خداداد ذہانت موجود تھی۔ اس مقام پر صحت اور علم سے مراد نبوت نہیں کیونکہ نبوت تو آپ کو بہت مدت بعد عطا ہوئی تھی۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَاسْتَوٰٓى : یہاں ایک لمبی بات حذف کردی گئی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے رضاعت کے ایام اپنی والدہ کے پاس گزرے، جس سے انھیں اپنے والدین، بھائی بہن اور خاندان سے شناسائی ہوگئی اور آئندہ بھی اس تعلق کی وجہ سے میل جول جاری رہا، جس سے وہ اپنے آبائے کرام ابراہیم، اسحاق اور یعقوب...  (علیہ السلام) اور ان کے دین سے واقف ہوگئے اور بنی اسرائیل کی زبوں حالت پر براہ راست مطلع رہنے لگے۔ رضاعت کے بعد شاہی محل میں منتقل ہونے کے ساتھ ان کی پرورش اور تربیت ایک شہزادے کی حیثیت سے ہوئی، انھیں اس وقت کے تمام علوم و فنون، لکھنے پڑھنے اور جہانبانی کے طریقے سکھائے گئے، جنگ میں درکار عام تربیت اور سپہ سالاری کے لیے خاص تربیت دی گئی۔ ان تمام چیزوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی خاص نگرانی اور تربیت تھی، جس کے ذریعے سے انھیں آنے والی ذمہ داری کے لیے تیار کیا گیا، حتیٰ کہ وہ اپنی پوری جوانی کو پہنچ گئے۔ ” بَلَغَ اَشُدَّهٗ “ کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورة یوسف (٢٢) وہاں یوسف (علیہ السلام) کے لیے صرف ” بَلَغَ اَشُدَّهٗ “ کا لفظ آیا ہے، جب کہ یہاں موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے ” وَاسْتَوٰٓى“ کا لفظ بھی آیا ہے، یعنی وہ پورے طاقت ور ہوگئے، کیونکہ جسمانی قوت یوسف (علیہ السلام) میں موسیٰ (علیہ السلام) جیسی نظر نہیں آتی۔ اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا : ” حُكْمًا “ کا معنی فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہے اور ” عِلْمًا “ سے مراد دنیا اور دین کا علم ہے، یعنی جوان ہونے پر ہم نے انھیں حق و باطل میں فیصلہ کرنے کی اہلیت عطا فرمائی اور دنیا و دین دونوں کا علم عطا فرمایا۔ جس میں سے دنیا کے علوم شاہی محل کے ذریعے سے حاصل ہوئے اور دین کا علم اور اس کا فہم والدہ کے گھر اور خاندان کے ذریعے سے حاصل ہوا۔ بعض مفسرین نے ” حُكْمًا وَّعِلْمًا “ سے مراد نبوت لی ہے، مگر یہاں یہ معنی درست معلوم نہیں ہوتا، کیونکہ نبوت تو اس کے دس سال بعد طور پر عطا ہوئی، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ : احسان کا معنی نیک کام کرنا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے احسان کی تفسیر ” أَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَإِنَّہُ یَرَاکَ “ کے ساتھ فرمائی ہے کہ ” اللہ کی عبادت ایسے کرنا گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، پھر اگر اسے نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ “ [ دیکھیے بخاري، الإیمان، باب سؤال جبریل ۔۔ : ٥٠ ] احسان کا ایک معنی یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی معاوضہ کی طلب یا خواہش کے بغیر کسی کے ساتھ نیکی کرنا، جیسا کہ بنی اسرائیل کے نیک لوگوں نے قارون کو نصیحت کی تھی : (وَاَحْسِنْ كَمَآ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَيْكَ ) [ القصص : ٧٧ ] ” اور احسان کر جیسے اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے۔ “ فرمایا : ” ہم محسنین کو ایسے ہی جزا دیتے ہیں “ اس سے معلوم ہوا موسیٰ (علیہ السلام) احسان کی صفت سے پوری طرح آراستہ تھے، جس کی جزا میں اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم و علم عطا فرمایا۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَلَمَّا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَاسْتَوَىٰ (And when he reached his maturity and became perfect - 28:14). The literal meaning of &ashudd (أَشُدَّ ) is to attain the peak of strength or intensity. For instance a person gradually develops from the position of juvenile weakness to the strength of adulthood. A time comes when he has attained full strength and vigour that he could achieve. Th... at point in life is called أَشُدَّ &ashudd. In different parts of the world and for different people this point in life varies according to climate, character of the land, race etc. Some people attain it early while others take time. ` Abd Ibn Humaid has reported that Sayyidna Ibn ` Abbas and Mujahid have placed the age of &ashudd as 33rd year of one&s life. This is called the age of perfection or the age of discernment, when the development of body stops after reaching its peak. After this age a period of hold commences, which lasts until the age of forty. This period is mentioned in the verse as اسْتَوَىٰ Istawa (translated above as became perfect). After the age of forty years the decline and weakness sets in. Hence, it can be said that &ashudd (أَشُدَّ ) of a person starts from the age of 33 years and lasts through 40 years. (Ruh, Qurtubi). آتَيْنَاهُ حُكْمًا وَعِلْمًا (We gave him wisdom and knowledge - 28:14) The word (حُکُم) lukm (translated above as &wisdom& ) is used here for prophethood, and the word &knowledge& refers to the knowledge of divine injunctions. وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلَىٰ حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا (And he entered the city at a time of unawareness of its people - 15). Most commentators have interpreted that the word &city& is used here for the main city of Egypt. The words &he entered& indicate that Musa (علیہ السلام) ، had gone away somewhere out of Egypt. Then he entered back at a time when people normally sleep. It is also mentioned in the incident of killing of the &Qibti& that it was the time when Musa (علیہ السلام) had already announced his prophethood and had started preaching the religion of truth. As a result of his preaching some people had converted, and were known as his disciples. The word مِن شِيعَتِهِ (from his group - 28:15) is a proof of that. All these versions give credence to the narration which is quoted by Ibn Ishaque and Ibn Zaid that when Musa (علیہ السلام) had started talking to the people about the religion of truth, the Pharaoh turned against him and wanted to kill him. But on the appeal of his wife, Sayyidah &Asiyah, he restrained himself, and instead commanded him to go in exile. After that Sayyidna Musa (علیہ السلام) shifted to some hiding place and would come to the city of Egypt occasionally in hiding. Most commentators are of the opinion that by عَلَىٰ حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا (28:15) the time of afternoon is meant, when people generally take a siesta. (Qurtubi) فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ (So Musa struck him with his fist). Wakaza (وَكَزَ ) means to box فَقَضَىٰ عَلَيْهِ (28:15). The phrase of Qadahu (قَضَاہ) and Qada &Alaihi (فَقَضَىٰ عَلَيْهِ ) is used when one is totally finished. Hence, here it means that he killed him. (Mazhari)   Show more

خلاصہ تفسیر اور جب (پرورش پاکر) اپنی بھری جوانی (کی عمر) کو پہنچے اور (قوت جسمانیہ و عقلیہ سے) درست ہوگئے تو ہم نے ان کو حکمت اور علم عطا فرمایا (یعنی نبوت سے پہلے ہی فہم سلیم و عقل مستقیم جس سے حسن و قبح میں امتیاز کرسکیں عنایت فرمائی) اور ہم نیکو کاروں کو یوں ہی صلہ دیا کرتے ہیں (یعنی عمل صالح س... ے فیضان علمی میں ترقی ہوتی ہے۔ اس میں اشارہ ہے کہ فرعون کے مشرب کو موسیٰ (علیہ السلام) نے کبھی اختیار نہ کیا تھا بلکہ اس سے نفور رہے) اور (اسی زمانہ کا ایک واقعہ یہ ہوا کہ ایک بار) موسیٰ (علیہ السلام) شہر میں (یعنی مصر میں کذا فی الروح عن ابن اسحاق کہیں باہر سے) ایسے وقت پہنچے کہ وہاں کے (اکثر) باشندے بیخبر (پڑے سو رہے) تھے (اکثر روایات سے یہ وقت دوپہر کا معلوم ہوتا ہے اور بعض روایات سے کچھ رات گئے کا وقت معلوم ہوتا ہے کہ کذا فی الدر المنثور) تو انہوں نے وہاں دو آدمیوں کو لڑتے دیکھا، ایک تو ان کی برادری (یعنی بنی اسرائیل میں کا تھا اور دوسرا ان کے مخالفین (یعنی فرعون کے متعلقین ملازمین) میں سے تھا (دونوں کسی بات پر الجھ رہے تھے اور زیادتی اس فرعونی کی تھی) سو وہ جو ان کی برادری کا تھا اس نے (جو) موسیٰ (علہ السلام کو دیکھا تو ان) سے اس کے مقابلہ میں جو کہ ان کے مخالفین میں سے تھا مدد چاہی ( موسیٰ (علیہ السلام) نے اول اس کو سمجھایا جب اس پر بھی وہ باز نہ آیا) تو موسیٰ (علیہ السلام) نے (تادیباً دفع ظلم کیلئے) اس کو (ایک) گھوسا مارا سو اس کا کام بھی تمام کردیا (یعنی اتفاق سے وہ مر ہی گیا) موسیٰ (علیہ السلام اس خلاف توقع نتیجہ سے بہت پچھتائے اور) کہنے لگے کہ یہ تو شیطانی حرکت ہوگئی بیشک شیطان (بھی آدمی کا) کھلا دشمن ہے کسی غلطی میں ڈال دیتا ہے (اور نادم ہو کر حق تعالیٰ سے) عرض کیا کہ اے میرے پروردگار مجھ سے قصور ہوگیا آپ معاف کر دیجئے سو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا، بلاشبہ وہ غفور و رحیم ہے (گو ظہور اور علم اس معافی کا قطعی طور پر وقت عطاء نبوت کے ہوا کما فی النمل اِلَّا مَنْ ظَلَمَ ثُمَّ بَدَّلَ حُسْـنًۢا بَعْدَ سُوْۗءٍ فَاِنِّىْ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ اور اس وقت خواہ الہام سے معلوم ہوگیا ہو یا بالکل نہ معلوم ہوا ہو) موسیٰ (علیہ السلام) نے (توبہ عن الماضی کے ساتھ مستقبل کے متعلق یہ بھی) عرض کیا کہ اے میرے پروردگار چونکہ آپ نے مجھ پر (بڑے بڑے) انعامات فرمائے ہیں (جن کا ذکر طہ میں ہے وَلَقَدْ مَنَنَّا عَلَيْكَ مَرَّةً اُخْرٰٓى الی قولہ وَلَا تَحْزَنَ ) سو کبھی میں مجرموں کی مدد نہ کروں گا (یہاں مجرمین سے مراد وہ ہیں جو دوسروں سے گناہ کا کام کرانا چاہیں، کیونکہ گناہ کرانا کسی سے یہ بھی جرم ہے پس اس میں شیطان بھی داخل ہوگیا کہ وہ گناہ کراتا ہے اور گناہ کرنے والا اس کی مدد کرتا ہے خواہ عمداً یا خطاءً جیسے اس آیت میں ہے وکان الکافر علی ربہ ظہیراً ای للشیطان، مطلب یہ ہوا کہ میں شیطان کا کہنا کبھی نہ مانوں گا یعنی مواقع محتملہ خطاء میں احتیاط و تیقظ سے کام لوں گا اور اصل مقصود اتنا ہی ہے مگر شمول حکم کے لئے مجرمین جمع کا صیغہ لایا گیا کہ اوروں کو بھی عام ہوجاوے غرض اس اثناء میں اس کا چرچا ہوگیا مگر بجز اسرائیلی کے کوئی واقف راز نہ تھا اور چونکہ اسی کی حمایت میں یہ واقعہ ہوا تھا اس لئے اس نے اظہار نہیں کیا اس وجہ سے کسی کو اطلاع نہ ہوئی مگر موسیٰ (علیہ السلام) کو اندیشہ رہا، یہاں تک رات گزری) پھر موسیٰ (علیہ السلام) کو شہر میں صبح ہوئی خوف اور وحشت کی حالت میں کہ اچانک (دیکھتے کیا ہیں کہ) وہی شخص جس نے کل گزشتہ میں ان سے امداد چاہی ہے وہ پھر ان کو (مدد کے لئے) پکار رہا ہے کہ (کسی اور سے الجھ پڑا تھا) موسیٰ (علیہ السلام یہ دیکھ کر اور کل کی حالت یاد کر کے اس پر ناخوش ہوئے اور) اس سے فرمانے لگے بیشک تو صریح بد راہ (آدمی) ہے کہ روز لوگوں سے لڑا کرتا ہے موسیٰ (علیہ السلام) کو قرآئن سے معلوم ہوا ہوگا کہ اس کی طرف سے بھی کوئی غصہ ہوا ہے لیکن زیادتی فرعونی کی دیکھ کر اس کو روکنے کا ارادہ کیا) سو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اس پر ہاتھ بڑھایا جو دونوں کا مخالف تھا (مراد فرعونی ہے کہ وہ اسرائیلی کا بھی مخالف تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) کا بھی کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل میں سے ہیں اور وہ لوگ سب بنی اسرائیل کے مخالف تھے گویا بالتعیین موسیٰ (علیہ السلام) کو اسرائیلی نہ سمجھا ہو اور یا موسیٰ (علیہ السلام) چونکہ فرعون کے طریقہ سے نفور تھے یہ امر مشہور ہوگیا ہو اس لئے فرعون والے ان کے مخالف ہوگئے ہوں۔ بہرحال جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اس فرعونی پر ہاتھ لپکایا اور اس سے پہلے اسرائیلی پر خفا ہوچکے تھے تو اس سے اس اسرائیلی کو شبہ ہوا کہ شاید آج مجھ پر دارو گیر کریں گے تو گھبرا کر) وہ اسرائیلی کہنے لگا اے موسیٰ کیا (آج) مجھ کو قتل کرنا چاہتے ہو جیسا کہ کل ایک آدمی کو قتل کرچکے ہو (معلوم ہوتا ہے کہ) بس تم دنیا میں اپنا زور بٹھلانا چاہتے ہو اور صلح ( اور ملاپ) کروانا نہیں چاہتے (یہ کلمہ اس فرعونی نے سنا، قاتل کی تلاش ہو رہی تھی اتنا سراغ لگ جانا بہت ہے فوراً فرعون کو خبر پہنچا دی۔ فرعون اپنے آدمی کے مارے جانے سے برہم تھا یہ سن کر آشفتہ ہوا اور شاید اس سے اس کا وہ خواب کا اندیشہ قوی ہوگیا ہو کہ کہیں وہ شخص یہی نہ ہو، خصوصاً اگر موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعونی طریقہ کو ناپسند کرنا بھی فرعون کو معلوم ہو تو کچھ عداوت اس سبب سے ہوگی اس پر یہ مزید ہوا۔ بہرحال اس نے اپنے درباریوں کو مشورہ کے لئے جمع کیا اور اخیر رائے موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی قرار پائی) اور (اس مجمع میں) ایک شخص ( موسیٰ (علیہ السلام) کے محب اور خیر خواہ تھے وہ) شہر کے (اس) کنارے سے (جہاں یہ مشورہ ہو رہا تھا موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس نزدیک کی گلیوں سے) دوڑتے ہوئے آئے (اور) کہنے لگے کہ اے موسیٰ اہل دربار آپ کے متعلق مشورہ کر رہے ہیں کہ آپ کو قتل کردیں سو آپ (یہاں سے) چل دیجئے میں آپ کی خیر خواہی کر رہا ہوں پس (یہ سن کر) موسیٰ (علیہ السلام) وہاں سے (کسی طرف کو) نکل گئے، خوف اور وحشت کی حالت میں (اور چونکہ راستہ معلوم نہ تھا دعا کے طور پر) کہنے لگے کہ اے میرے پروردگار مجھ کو ان ظالم لوگوں سے بچا لیجئے (اور امن کی جگہ پہنچا دیجئے۔ معارف ومسائل وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَاسْتَوٰٓى، اشد کے لفظی معنے قوت و شدت کی انتہا پر پہنچنا ہے یعنی انسان بچپن کے ضعف سے تدریجاً قوت و شدت کی طرف بڑھتا ہے ایک وقت ایسا آتا ہے کہ اس کے وجود میں جتنی قوت و شدت آسکتی تھی وہ پوری ہوجائے اس وقت کو اشد کہا جاتا ہے اور یہ زمین کے مختلف خطوں اور قوموں کے مزاج کے اعتبار سے مختلف ہوتا ہے کسی کا اشد کا زمانہ جلد آجاتا ہے کسی کا دیر میں۔ لیکن حضرت ابن عباس اور مجاہد سے بروایت عبد ابن حمید یہ منقول ہے کہ اشد عمر کے تینتیس سال میں ہوتا ہے اسی کو سن کمال یا سن وقوف کہا جاتا ہے جس میں بدن کا نشو و نما ایک حد پر پہنچ کر رک جاتا ہے اس کے بعد چالیس کی عمر تک وقوف کا زمانہ ہے اسی کو استوی کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے چالیس سال کے بعد انحطاط اور کمزوری شروع ہوجاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عمر کا اشد تینتیس سال کی عمر سے شروع ہو کر چالیس سال تک رہتا ہے۔ (روح و قرطبی) اٰتَيْنٰهُ حُكْمًا وَّعِلْمًا، حکم سے مراد نبوت و رسالت ہے اور علم سے مراد احکام الہیہ شرعیہ کا علم ہے۔ وَدَخَلَ الْمَدِيْنَةَ عَلٰي حِيْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا، المدینہ سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک شہر مصر ہے۔ اس میں داخل ہونے کے لفظ سے معلوم ہوا کہ موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے باہر کہیں گئے ہوئے تھے پھر ایک روز اس شہر میں ایسے وقت داخل ہوئے جو عام لوگوں کی غفلت کا وقت تھا۔ آگے قتل قبطی کے قصہ میں اس کا بھی تذکرہ ہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی نبوت و رسالت کا اور دین حق کا اظہار شروع کردیا تھا اسی کے نتیج میں کچھ لوگ ان کے مطیع و فرمانبردار ہوگئے تھے جو ان کے متبعین کہلاتے تھے مِنْ شِيْعَتِهٖ کا لفظ اس پر شاہد ہے۔ ان تمام قرائن سے اس روایت کی تائید ہوتی ہے جو ابن اسحاق اور ابن زید سے منقول ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے ہوش سنبھالا اور دین حق کی کچھ باتیں لوگوں سے کہنے لگے تو فرعون ان کا مخالف ہوگیا اور قتل کا ارادہ کیا مگر فرعون کی بیوی حضرت آسیہ کی درخواست پر ان کے قتل سے باز آیا مگر ان کو شہر سے نکالنے کا حکم دیدیا۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) شہر میں کسی جگہ رہنے لگے اور کبھی کبھی چھپ کر مصر شہر میں آتے تھے اور عَلٰي حِيْنِ غَفْلَةٍ مِّنْ اَهْلِهَا سے مراد اکثر مفسرین کے نزدیک دوپہر کا وقت ہے جبکہ لوگ قیلولہ میں تھے۔ (قرطبی) فَوَكَزَهٗ مُوْسٰى، وکز کے معنے مکا مارنے کے ہیں، فَقَضٰى عَلَيْهِ ، قضاہ اور قضی علیہ کا محاورہ اس وقت بولا جاتا ہے جب کسی شخص کا بالکل کام تمام کردے اور فارغ ہوجائے۔ اسی لئے یہاں اس کے معنی قتل کردینے کے ہیں۔ (مظہری)   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَاسْتَوٰٓى اٰتَيْنٰہُ حُكْمًا وَّعِلْمًا۝ ٠ۭ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِـنِيْنَ۝ ١٤ بلغ البُلُوغ والبَلَاغ : الانتهاء إلى أقصی المقصد والمنتهى، مکانا کان أو زمانا، أو أمرا من الأمور المقدّرة، وربما يعبّر به عن المشارفة عليه وإن لم ينته إليه، فمن الانتهاء : بَلَغَ أَشُدَّ... هُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] ( ب ل غ ) البلوغ والبلاغ ( ن ) کے معنی مقصد اور متبٰی کے آخری حد تک پہنچے کے ہیں ۔ عام اس سے کہ وہ مقصد کوئی مقام ہو یا زمانہ یا اندازہ کئے ہوئے امور میں سے کوئی امر ہو ۔ مگر کبھی محض قریب تک پہنچ جانے پر بھی بولا جاتا ہے گو انتہا تک نہ بھی پہنچا ہو۔ چناچہ انتہاتک پہنچے کے معنی میں فرمایا : بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً [ الأحقاف/ 15] یہاں تک کہ جب خوب جو ان ہوتا ہے اور چالس برس کو پہنچ جاتا ہے ۔ شد الشَّدُّ : العقد القويّ. يقال : شَدَدْتُ الشّيء : قوّيت عقده، قال اللہ : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] ، ( ش دد ) الشد یہ شدد ت الشئی ( ن ) کا مصدر ہے جس کے معنی مضبوط گرہ لگانے کے ہیں ۔ قرآں میں ہے : وَشَدَدْنا أَسْرَهُمْ [ الإنسان/ 28] اور ان کے مفاصل کو مضبوط بنایا ۔ استوا أن يقال لاعتدال الشیء في ذاته، نحو : ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] ( س و ی ) المسا واۃ کسی چیز کے اپنی ذات کے اعتبار سے حالت اعتدال پر ہونے کے لئے بولا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوى[ النجم/ 6] یعنی جبرائیل ) طاقتور نے پھر وہ پورے نظر آئے حکمت ( نبوۃ) قال اللہ تعالی: وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] ، وقال صلّى اللہ عليه وسلم : «الصمت حکم وقلیل فاعله» أي : حكمة، وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] ، وقال تعالی: وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، قيل : تفسیر القرآن، ويعني ما نبّه عليه القرآن من ذلک : إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] ، أي : ما يريده يجعله حكمة، وذلک حثّ للعباد علی الرضی بما يقضيه . قال ابن عباس رضي اللہ عنه في قوله : مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] ، هي علم القرآن، ناسخه، مُحْكَمه ومتشابهه . قرآن میں ہے : ۔ وَآتَيْناهُ الْحُكْمَ صَبِيًّا [ مریم/ 12] اور ہم نے ان کو لڑکپن میں ہی دانائی عطا فرمائی تھی ۔ اور آنحضرت نے فرمایا کہ خاموشی بھی حکمت ہے ۔ لیکن بہت تھوڑے لوگ اسے اختیار کر ٹے ہیں ۔ یہاں ( آیت اور حدیث میں ) حکم کے معنی حکمت کہ میں قرآن میں ہے : ۔ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتابَ وَالْحِكْمَةَ [ آل عمران/ 164] اور ان ( لوگوں ) کو کتاب اور دانائی سکھایا کرے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَاذْكُرْنَ ما يُتْلى فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت کی باتیں سنائی جاتی ہیں ان کو یاد رکھو ۔ میں حکمت سے مراد تفسیر قرآن ہے یعنی جس پر کہ قرآن نے آیت إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ ما يُرِيدُ [ المائدة/ 1] میں تنبیہ کی ہے کہ اللہ جس چیز کو چاہتا ہے حکمت بنادیتا ہے تو اس میں ترغیب ہے کہ لوگوں کو اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیئے ۔ ابن عباس فرماتے ہیں ۔ مِنْ آياتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ [ الأحزاب/ 34] میں حکمت سے ناسخ منسوخ محکم اور متشابہات کا علم مراد ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤) جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اٹھارہ سال سے گزر کر چالیس سال کو پہنچے ہم نے ان کو حکمت اور نبوت عطا فرمائی اور اسی طرح ہم انبیاء کرام کو فہم ونبوت دیا کرتے ہیں یا یہ کہ صالحین کو علم و حکمت دیا کرتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ (وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَاسْتَوٰٓی اٰتَیْنٰہُ حُکْمًا وَّعِلْمًا ط) ” یعنی جب آپ ( علیہ السلام) کے ظاہری اور باطنی قویٰ پورے اعتدال کے ساتھ استوار ہوگئے اور آپ ( علیہ السلام) پختگی کی عمر کو پہنچ گئے تو آپ ( علیہ السلام) کو خصوصی علم و حکمت سے نوازا گیا۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس سے نب... وت مراد ہے ‘ مگر عمومی رائے یہی ہے کہ نبوت آپ ( علیہ السلام) کو بعد میں ملی۔   Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

18 That is, when he had attained his full mental and physical development. In this connection, different ages of the Prophet Moses have been mentioned in the Jewish traditions. Some say he was 18, others have mentioned 20 years and still others 40 years. According to the New Testament, he was 40 years old. (Acts, 7: 23). But the Qur'an does not mention any age. For the purpose of the incident bein... g mentioned in the following verses, it is enough to know that he had attained his full maturity at that time. 19 Hukum implies wisdom, understanding and power of judgement, and 'llm is both religious and worldly knowledge. The Prophet Moses became familiar with the teachings of his forefathers the Prophets Joseph. Jacob, Isaac and Abraham (peace be upon all of them) through his contact with his parents, and with the sciences prevalent in Egypt by virtue of his training as a prince in the king's palace. Here the gift of Hukm (wisdom) and `Ilm (knowledge) does nor refer to the gift of Prophethood, because Prophethood was bestowed on Moses several years afterwards, as is mentioned below, and has already been mentioned in Ash-Shu`araa: 21 above. Regarding his education and training while as a prince the New Testament says: "Moses was learned in all the wisdom of the Egyptians, and was mighty in words and' in deeds." (Acts, 7: 22). The Talmud says: Moses grew up, a handsome lad, in the palace of the king: he dressed royally, was honoured by the people, and seemed in all things of royal lineage. He visited the land of Goshen daily, observing the rigour with which his brethren were treated.... Moses urged the king of Egypt to grant the men of Goshen one day of rest from the labour, in each week, and the king acceded to his request. Moses said, "If you compel them to labour steadily their strength will fail them; for your benefit and profit allow them at least one day in the week for rest and renewal of strength", And the Lord was with Moses, and his fame extended through all the land. " (H. Polano: The Talmud Selection pp. 128-29).  Show more

سورة القصص حاشیہ نمبر : 18 یعنی جب ان کا جسمانی و ذہنی نشوونما مکمل ہوگیا ، یودی روایات میں اس وقت حضرت موسی کی مختلف عمریں بتائی گئی ہیں ۔ کسی نے 18 سال لکھی ہے ، کسی نے 20 سال ، اور کسی نے 40 سال ۔ بائیبل کے نئے عہد نامے میں 40 سال عمر بتائی گئی ہے ۔ ( اعمال 7 ۔ 23 ) لیکن قرآن کسی عمر ک... ی تصریح نہیں کرتا ۔ جس مقصد کے لیے قصہ بیان کیا جارہا ہے اس کے لیے بس اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ آگے جس واقعہ کا ذکر ہورہا ہے وہ اس زمانے کا ہے جب حضرت موسی پورے شباب کو پہنچ چکے تھے ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 19 حکم سے مراد حکمت ، دانائی ، فہم و فراست اور قوت فیصلہ ۔ اور علم سے مراد دینی اور دنیوی علوم دونوں ہیں ۔ کیونکہ اپنے والدین کے ساتھ ربط ضبط قائم رہنے کی وجہ سے ان کو اپنے باپ دادا ( حضرت یوسف ، یعقوب ، اسحاق اور ابراہیم علیہم السلام ) کی تعلیمات سے بھی واقفیت حاصل ہوگئی ، اور بادشاہ وقت کے ہاں شاہزادے کی حیثیت سے پرورش پانے کے باعث ان کو وہ تمام دنیوی علوم بھی حاصل ہوئے جو اس زمانے کے اہل مصر میں متداول تھے ، اس حکم اور علم کے عطیہ سے مراد نبوت کا عطیہ نہیں ہے ۔ کیونکہ حضرت موسی کو نبوت تو اس کے کئی سال بعد عطا فرمائی گئی ، جیسا کہ آگے آرہا ہے اور اس سے پہلے سورہ شعراء ( آیت 21 ) میں بھی بیان ہوچکا ہے ۔ اس زمانہ شاہزادگی کی تعلیم و تربیت کے متعلق بائیبل کی کتاب الاعمال میں بتایا گیا ہے کہ موسی نے مصریوں کے تمام علوم کی تعلیم پائی اور وہ کام اور کلام میں قوت والا تھا ( 7 ۔ 22 ) تلمود کا بیان ہے کہ موسی علیہ السلام فرعون کے گھر میں ایک خوبصورت جوان بن کر اٹھے ۔ شاہزادوں کا سا لباس پہنتے تھے ، شاہزادوں کی طرح رہتے ، اور لوگ ان کی نہایت تعظیم و تکریم کرتے تھے ، وہ اکثر جشن کے علاقے میں جاتے جہاں اسرائیلیوں کی بستیاں تھیں ، اور ان تمام سختیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے جو ان کی قوم کے ساتھ قبطی حکومت کے ملازمین کرتے تھے ، انہی کی کوشش سے فرعون نے اسرائیلیوں کے لیے ہفتہ میں ایک دن کی چھٹی مقرر کی ۔ انہوں نے فرعون سے کہا کہ دائما مسلسل کام کرنے کی وجہ سے یہ لوگ کمزور ہوجائیں گے اور حکومت ہی کے کام کا نقصان ہوگا ۔ ان کی قوت بحال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں ہفتے میں ایک دن آرام کا دیا جائے ۔ اسی طرح اپنی دانائی سے انہوں نے اور بہت سے ایسے کام کیے جن کی وجہ سے تمام ملک مصر میں ان کی شہرت ہوگئی تھی ۔ ( اقتباسات تلمود ۔ صفحہ 129 )   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

١٤ تا ٢٦۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نابالغی اور بچپن کا حال بیان کردیا تو فرمایا کہ جب وہ جوانی کو پہنچ گئے اور دشمن کے گھر پرورش پاکر سب طرح سنبھل گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم اور سمجھ دونوں عنایت کئے پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مصر سے نکل کر مدین میں پہنچن... ے کا سبب بیان فرمایا کہ ایک دن موسیٰ (علیہ السلام) مصر کے بازار میں تھے کہ انہوں نے دو شخصوں کو لڑتے ہوئے دیکھا جن میں ایک ان کے گروہ میں سے تھا اور دوسرا ان کے دشمنوں سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) نے حین غفلۃ کی تفسیر میں فرمایا ہے کہ وہ دوپہر کا وقت تھا اسرائیل نے فریاد کی تو موسیٰ (علیہ السلام) نے فرعونی کے ایک گھونسا مارا جس سے وہ فرعونی مرگیا تو فرمایا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ شیطانی کام ہے۔ وہ کھلا دشمن ہے بہکانے والا موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے یہ عرض کی کہ اے رب میرے، ظلم کیا میں نے اپنی جان پر پس بخشش کر میرے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ چوک بخش دی کہ وہ بڑا بخشش کرنے والا مہربان ہے موسیٰ (علیہ السلام) کا ارادہ اس قبطی کے مار ڈالنے کا نہ تھا اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کے مرنے کے بعد پچھتائے اور اس کو ریت میں دفن کردیا اور اپنے اس قصور پر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) ہمیشہ پشیمان رہے یہاں تک کہ قیامت کے روز جب لوگ ان سے شفاعت کرانا چاہنگے تو وہ فرمائیں گے اِنِّی قَتَلْتُ نَفْسًا لَّمْ اُوْمَرْ بِقَتْلِھَا جس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے ایک جان کو قتل کر ڈالا جس کا مجھ کو حکم نہ تھا یہ ٹکڑا شفاعت والی حدیث کا ہے جو صحیح بخاری اور مسلم میں ابوہریرہ (رض) کی حدیث ١ ؎ سے ہے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس اسرائیلی مظلوم کی یہ مدد کی تھی کہ اس سے اس کے ظالم دشمن کو دفع کیا تھا لیکن اتفاق سے وہ قبطی مرگیا غرضیکہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قبطی کو مار ڈالا تو صبح کے وقت راہ دیکھتے اٹھے کہ مقتول کے وارث فرعون کے پاس فریادی گئے ہوں گے دیکھا چاہئے کہ کس کے اوپر خون ثابت ہوا بھی تک یہ بات پوشیدہ تھی کہ کس نے مارا کہ ناگہاں وہی شخص جس کی مدد میں موسیٰ (علیہ السلام) نے کل فرعونی کو مارا تھا دوسرے فرعونی کے ساتھ جھگڑ رہا تھا جب حضرت موسیٰ اس پر سے گذرے تو پھر اس نے فریاد کی حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے خفا ہو کر اس سے کہا کہ تو تو صریح بےراہ ہے کہ ہر روز ہر ایک سے الجھتا ہے اور مجھے لڑواتا ہے پھر جب اس ظالم پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہاتھ ڈالنا چاہا تو مظلوم نے جانا کہ مجھے مارنا چاہتے ہیں کیوں کہ مجھ ہی پر خفا ہوئے ہیں اور اپنے بچانے کے واسطے کہتے لگا کہ موسیٰ ( علیہ السلام) تم چاہتے ہو کہ جس طرح تم نے ایک آدمی کو مار ڈالا اسی طرح مجھ کو بھی آج مار ڈالو اس سے پیشتر پہلے روز کا معاملہ سوائے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) اور اس اسرائیلی کے کوئی اور نہیں جانتا تھا فرعونی نے قتل کیا ہے فرعون بہت غضبناک ہوا اور موسیٰ ( علیہ السلام) کے مارنے کا ارادہ کیا اور کئی پیادے مقرر کئے کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کو تلاش کر کے لاویں ‘ اتنے میں پیادوں کے آنے سے پہلے ایک شخص نے موسیٰ (علیہ السلام) سے آن کر کہا کہ اے موسیٰ ( علیہ السلام) تم اس شہر سے کہیں اور چلے جاؤ فرعونی لوگ تمہارے مارنے کی صلاح کر رہے ہیں میں تمہارا خیر خواہ ہوں اس لیے میں نے تم کو یہ خبر دی ہے اس شخص کا نام حزقیل تھا فرعون کے لوگوں میں سے یہی مسلمان تھا اقصی المدینہ شہر کے دوسرے کنارے کو کہتے ہی مطلب یہ ہے کہ وہ اتنا تیز آیا اور نزدیک کا راستہ اختیار کیا کہ فرعون کے سپاہی سے پہلے موسیٰ ( علیہ السلام) تک پہنچ گیا اور ان کو فرعون کے ارادہ سے آگاہ کردیا اس وقت حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) تنہا شہر سے باہر نکلے اور اس سے پیشتر انہوں نے کبھی سفر نہیں کیا تھا اتنی عمر عیش و عشرت میں گذاری تھی ڈرتے ہوئے شہر سے نکلے بعضے مفسروں نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ گھوڑے پر سوار بھیجا اس نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کو راستہ بتایا غرضیکہ مدین کی طرف متوجہ ہو کر کہا مجھ کو امید ہے کہ میرا پروردگار مجھ کو سیدھے راستہ پر لے جاوے جب مدین کے پانی پر پہنچے تو دیکھا کہ ایک کنویں پر لوگ اپنی بکریوں کو پانی پلا رہے ہیں اور دو عورتیں اپنی بکریوں کو رو کے ہوئے الگ کھڑی ہیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان عورتوں سے پوچھا کہ تم کیوں نہیں ان کے ساتھ اپنی بکریوں کو پانی پلاتیں انہوں نے کہا کہ جب یہ لوگ فارغ ہو کر چلے جائیں گے تو ان کا بچا ہوا پانی ہم اپنی بکریوں کو پلاویں گے کیونکہ ہم خود تو پانی کا ڈول کھینچ نہیں سکتے اور ہمارے باپ بہت بوڑھے ہیں معتبر سند سے مصنف ابوبکر ابن ابی شیبہ میں حضرت عمر (رض) سے روایت ١ ؎ ہے کہ جب کنویں پر کے لوگ اپنی بکریوں کو پانی پلا چکے تو کنویں کے منہ پر انہوں نے ایک پتھر رکھ دیا جس کی دس آدمی اٹھاتے تھے یہ حال دیکھ کر موسیٰ (علیہ السلام) پتھر کے نزدیک آئے اور اس کو اٹھایا اور ان دونوں عورتوں کی بکریوں کو اچھی طرح پانی پلادیا اور حضرت عبداللہ بن عباس (رض) ٢ ؎ نے فرمایا کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر سے جو مدین تک سفر کیا تو ان کے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ تھی اور ننگے پاؤں تھے مدین تک ابھی نہ پہنچے تھے کہ پاؤں کے تلووں میں چھالے پڑگئے تھے اور تلووں کی کھال اتر پڑی تھی درخت کے سایہ میں بیٹھے مدین فرعون کی عملداری سے باہر مصر سے دس دن کے راستے تھے اور وہ دو عورتیں جو اپنی بکریوں کو روکے کھڑی تھیں حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بیٹیاں تھیں حضرت شعیب (علیہ السلام) بیٹیوں کے بکریاں چرانے پر خوش تھے کیونکہ کوئی نبی ایسا نہیں جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں چناچہ صحیح بخاری کی ابوہریرہ (رض) کی روایت ١ ؎ میں اس کا ذکر ہے غرضیکہ جب وہ دونوں لڑکیاں ہر روز کی بہ نسبت سویرے سے بکریاں لے کر اپنے باپ کے پاس آئیں تو باپ کو تعجب ہوا جب لڑکیوں کو زبانی سے قصہ سنا تو باب نے ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بلانے کو بھیجا وہ آئی اور موسیٰ (علیہ السلام) کے بلانے کو بھیجا وہ آئی اور موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا میرا باپ تم کو بلاتا ہے کہ پانی پلانے کی اجرت دے معتبر سند سے تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت عمر (رض) سے روایت ٢ ؎ ہے کہ وہ آستین سے منہ ڈھانک کر آئی غرضیکہ جب موسیٰ (علیہ السلام) حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس آئے اور انہوں نے اپنی وہ سرگذشت بیان کی کہ جس کے سب سے مصر سے نکلے تو حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کہا اب کچھ نہ ڈرو تم ظالم قوم کے ظلم سے بچ گئے مطلب یہ کہ تم ان کی عملداری سے باہر نکل آئے کہ یہاں ان کی حکومت نہیں ہے اس میں اختلاف ہے کہ کونسی لڑکی نے دونوں میں سے یہ کہا کہ ائے باپ اس کو مزدوری پر نوکر رکھ لو بعض نے کہا جو لڑکی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بلانے گئی تھی اس نے کہا کہ اے باپ اس کو بکریاں چرانے کے اسطے نو کر رکھ لو اور جب لڑکی نے یہ بات کہی کہ یہ صاحب قوت اور امانت دار ہے تو باپ نے کہا تجھ کو اس شخص کی طاقت اور امانت کا حال کیونکہ معلوم ہوا اس نے جواب میں کہا کہ کنویں کے منہ پر سے اس پتھر کو اٹھا لیا جس کو دس آدمی اٹھاتے ہیں اور جب وقت میں اس کو بلا کر لائی تو اس کے آگے آگے چلتی تھی اس نے کہا کہ میرے پچھے پیچھے چل جب کوئی راستہ نیا آوے یا کئی راہیں ہوں تو جونسے راستے پر چلنا مقصود ہو اس کی طرف کنکر پھینک دے میں سمجھ جاؤں گا کہ اس طرح جانا ہے اتیناہ حکما وعلما کر تفسیر میں مجاہد کا قول ہے کہ انبیاء کو نبوت سے پہلے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی جان لینے کی سمجھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جاتی ہے جس سے انبیاء اپنے دل میں اللہ تعالیٰ کے وحدہ لاشریک ہونے کا حکم قائم کرلیتے ہیں اسی کو انتباہ حکما وعلما فرمایا سورة انعام میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا جو قصہ گذر چکا ہے کہ انہوں نے سورج چاند اور تاروں کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کو وحدہ لاشریک جان لیا اس سے اور صحیح بخاری ١ ؎ کی حضرت عائشہ (رض) کی اس حدیث سے جس میں یہ ذکر ہے کہ نبوت سے پہلے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غار حرا میں جاکر خالص اللہ کی عبادت کیا کرتے تھے مجاہد کے اس قول کی پوری تائید ہوتی ہے کہ انبیاء کو نبوت سے پہلے توحید کی سمجھ اللہ تعالیٰ طرف سے دی جاتی ہے آگے آتا ہے کہ نبوت سے پہلے کی اس حالت کے دس برس کے بعد مدین سے مصر کو واپس آتے وقت موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت عطا ہوئی ہے اس لیے جن مفسروں نے نبوت سے پہلے کی اس حالت کی تفسیر نبوت کو قرار دیا ہے وہ تفسیر صحیح نہیں ہے صحیح بخاری ومسلم ٢ ؎ میں سلیمان بن صرد سے روایت ہے جس آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غصہ کے وقت اعوذ بااللہ من الشیطان الرحیم پڑھنے کی ہدایت فرمائی ہے اس سے معلوم ہوا کہ انسان کو غصہ شیطان کے بہکانے سے آتا ہے جو اعوذ کے پڑھنے سے جاتا رہتا ہے۔ غصہ کی حالت میں فرعون کے شخص کے گھونسا مارنے کو موسیٰ (علیہ السلام) نے شیطانی کام جو کہا اس کی تفسیر اس حدیث سے اچھی طرح متجھ میں آسکتی ہے یہ سلیمان بن صرد کو فی صحابہ میں ہیں حدیث کی سب کتابوں میں ان سے روایت ہے گھونسا مارنے سے بطور عادت کے آدمی نہیں مرتا اس لیے یہ قتل خطا کی صورت تھی جو موسیٰ (علیہ السلام) سے ظہور میں آئی مقتول کے وارث بغیر عہد والے مشرک تھے اس واسطے بغیر خون بہا کے اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی خطا کو معاف کردیا صحیح بخاری ومسلم میں ابوہریرہ (رض) سے روایت ٣ ؎ ہے کہ سلیمان (علیہ السلام) کے اپنی نوے بیبیوں سے نوے لڑکے پیدا ہونے کی قسم کھائی مگر انشاء اللہ کہنا بھول گئے اس لیے کوئی لڑکا پیدا نہیں ہوا یہ حدیث اس بات کی تفسیر ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) بھی فَلَنْ اکون ظھیر المجرمین کے بعد انشاء اللہ کہنا بھول گئے اس لیے دوسرے دن پر وہی قصہ پیش آیا “ ١ ؎ الترغیب والترہیب ص ٤٤٤ ج ٤ باب فی الشفاعۃ وغیرہا۔ ) (١ ؎ تفسیر الدر المنثور ص ٢٤ ١ ج ٥ ) ٢ ؎ ایضا (١ ؎ مشکوٰۃ باب المبعث وبدء الوحی۔ ) (٢ ؎ تفسیر ابن کثیر ص ٣٨٤ ج ٣ ) (١ ؎ مشکوٰۃ باب المبعث وبدء الوحی ) (٢ ؎ الترغیب والترہیب ص ٤٥٠ ج ٣‘ ) (٣ ؎ مشکوٰۃ باب بدء الخلق وذکر الانبیاء ( علیہ السلام) ۔ )  Show more

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:14) اشدہ۔ مضاف، مجاف الیہ۔ اس کا زور جوانی۔ اس کا پورا زور۔ اشد یشد (افعال) شد مادہ۔ عقل یا عمر کی پختگی کو پہنچنا۔ الاشدوا الاشد پورا جوبن۔ پورا زور۔ بلغ فلان اشدہ وہ سن بلوغ کو پہنچا۔ وہ جوانی کی عمر تک پہنچا وہ اپنے شباب کو پہنچا۔ شدید جمع اشداء وشداد وشدود۔ بہادر۔ قوی ۔ مضبوط استوی۔ نشو و ... نما میں بہمہ وجوہ مکمل ہوگیا۔ اپنی ہر صفت میں تکمیل و اعتدال کی اس حد تک پہنچ جانا۔ تاکہ مکمل اطمینان و قرار و دل جمعی حاصل ہوجائے۔ حکما۔ حکمت (یعنی نبوت) وعلما (دین و شریعت کا) علم۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

9 ۔ عموماً جوانی کی کم سے کم عمر 18 سال، اور زیادہ سے زیادہ 34 سال شمار ہوتی ہے۔ (شوکانی) مگر قرآن میں چالیس برس مذکور ہیں۔ دیکھئے احقاف :15 ۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 14 تا 21 اسرارو معارف جب موسیٰ (علیہ السلام) جوانی کو پہنچے تو وہ بہت سمجھدار اور باعلم تھے ہم نے انہیں علم و احکمت کہ فطرت سلیمہ قبل از بعثت نبی کو نصیب ہوتی ہے عطا فرمائی۔ اور نیکی کے کرنے والے مخلص لوگوں کو ایسا ہی بدلہ دیا جاتا ہے۔ نیکی سے دنیا کے امور کو سمجھنے کی استعداد بھی زیادہ ہوجاتی...  ہے : یہ ثابت ہوا کہ خلوص کے ساتھ نیک اعمال کرنے سے دنیا کے معاملات کو بہتر سمجھنے کی صلاحیت عطا ہوتی ہے ہمارے ہاں جو نیک لوگوں کے زیادہ بھولے ہونے کی بات ہے تو غالبا یہاں نیکی صرف عبادت کو سمجھ لیا گیا ہے جبکہ نیکی سے مراد عبادت اور پوری عملی زندگی میں بھرپور حصہ لینا ہے۔ اللہ کرے ہمارے عبادت گزار لوگ بھی عملی زندگی میں شریک ہوجائیں کہ نیکی غالب آسکے۔ ایک روز آپ ایسے وقت شہر میں آئے جب اکثر لوگوں کے آرام کا وقت تھا تو آپ نے دیکھا کہ دو آدمی آپس میں لڑ رہے تھے ایک تو ان کے گروہ یعنی بنی اسرائیل میں سے تھا اور دوسرا ان کے دشمن یعنی قبطیوں کے گروہ سے۔ لفظ شیعہ : موسی (علیہ السلام) ابھی مبعوث نہ ہوئے اور اسرائیلی ابھی اسلام سے واقف نہ تھے محض ان کا گروہ تھے کہ وہ ان کی حمایت کرتے تھے لہذا یہاں بھی لفظ شیعہ استعمال ہوا۔ قبول اسلام کے بعد انہیں کہیں بھی شیعہ نہیں کہا گیا۔ چنانچہ اسرائیلی جو مار کھا رہا تھا وہ مدد کے لیے چلایا موسیٰ (علیہ السلام) نے قبطی کو روکنا چاہا وہ ان سے الجھ گیا انہوں نے اسے مکہ دے مارا اور ایسا سخت پڑا کہ اس کا کام ہی تمام ہوگیا۔ آپ نے فورا فرمایا کہ یہ کام شیطان کا ہے کہ اس نے یہ فساد کھڑا کرکے میرے لیے مشکلات پیدا کردیں۔ اور اے میرے پروردگار مجھ سے بھی بہت بڑی غلطی ہوگئی تو مجھے معاف فرمادے لہذا اللہ نے معاف فرما دیا کہ وہ بہت بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ موسی (علیہ السلام) کی توبہ : یہاں علماء نے موسیٰ (علیہ السلام) کی توبہ قبطی کے قتل سے بیان فرمائی ہے اور لکھا ہے کہ اگر چہ آپ نے قتل کے ارادہ سے نہ مارا تھا کہ جرم قرار پاتا محض اتفاقا اس کی موت کا سبب بن گیا پھر بھی انبیاء کی شان ہے کہ مباحات میں بھی توبہ کرتے ہیں مگر ایک پہلو اس بات میں یہ بھی ہے کہ شیطان نے اس اسرائیلی اور قبطی کو لڑا کر موسیٰ (علیہ السلام) کو الجھا دیا تو آپ نے غصہ میں مکہ مارا تو قبطی مرگیا یوں آپ کے لیے بلاوجہ قبل بعثت ہی ایک مصیبت کھڑی ہوگئی تو آپ نے فرمایا یہ سب شیطان کا کیا دھرا تھا اللہ کریم مجھے معاف کردے تو آئندہ میں کسی مجرم یعنی منہادی کی مدد نہ کروں گا کہ یہ اسرائیلی بھی تو کوئی جھگڑالو قسم کا آدمی تھا اور اس پر شیطان کا قابو چل گیا لیکن اللہ کارساز ہے۔ شیطان نے دشمنی کی انہیں شہر چھوڑنا پڑا مر شعیب (علیہ السلام) کی جمعیت میسر آگئی اور شبانی سے کلیمی پہ جا پہنچے۔ آپ دوسرے روز پھر شہر سے گزرے تو خوف بھی تھا کہ کل کا واقعہ کسی کے علم میں نہ آگیا ہو اور کوئی فساد کھڑا نہ ہوجائے کہ اچانکوہ آدی جس کی پہلے مدد فرمائی تھی پھر ایک قبطی سے الجھا ہوا ملا۔ آج پھر وہ مار کھا رہا تھا اور مدد کے لیے چلا رہا تھا آپ نے فرمایا کہ تو بھی اچھا آدمی نہیں ہے اور خود بےراہ آدمی ہے اور فسادی ہے اور اسے چھڑانے کے لیے آگے بڑھے ۔ جھوٹا آدمی الزام تراشی کرتا ہے : اس نے سمجھا کہیں مجھے بھی مکہ نہ جڑ دیں تو کہنے لگا کہ موسیٰ کیا آج آپ مجھے مار دینا چاہتے ہیں جیسے کل ایک آدمی کو قتل کرچکے ہیں آپ بھی محض دنیا پہ اپنی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں نیکی یا اصلاح کرنے کا آپکا ارادہ نہیں۔ جھوٹا تھا اس لیے ان پر الزامات لگائے مگر قبطی کے قتل والی بات اہل دربار تک جا پہنچی فرعون پہلے ہی ان کی طرف سے مطمعن نہ تھا قتل کا حکم صادر کردیا تو دربار میں کوئی آدمی ان کو چاہنے والا بھی تھا وہ دوڑا اور موسیٰ (علیہ السلام) کو خبر دی اور کہ کہ امراء دربار آپ کے قتل کی سازش کر رہے ہیں اور میں آپ کی بھلائی چاہتا ہوں لہذا میں یہ عرض کروں گا کہ آپ فورا شہر بھی چھوڑ دیں اور حکومت مصر کی حدود سے چلے جائیں۔ آپ بڑے خوفناک انداز میں بہت احتیاط کے ساتھ نکل ھڑے ہوئے یہ دعا بھی کرتے جاتے تھے کہ اے اللہ مجھے ظالموں سے بچا لے اور میری حفاظت فرما۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 14 تا 17 بلغ (پہنچ گیا) ‘ اشد (قوت۔ جوانی) ‘ استوی (پورا ہوگیا۔ برابر ہوا) ‘ رجلین (رجل) دو مرد ‘ استغاث (اس نے فریاد کی) ‘ وکز ( مکامارا۔ گھونسا مارا) ‘ قضیٰ (پورا ہوگیا) ‘ ظھیر (مدد گار۔ مدد کرنے والا) ۔ تشریح : آیت نمبر 14 تا 17 : اللہ تعالیٰ نے اس سورت میں حضرت موسیٰ (علیہ...  السلام) کے واقعات زندگی ذرا تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اس سلسلہ میں ارشاد فرمایا ہے کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پچیس تیس سال کے کڑیل جوان یعنی جسمانی ‘ عقلی اور قلبی اعتبار سے متوازن شخصیت بنکر ابھرے تو شاہی محل میں پرورش پانے کیوجہ سے چہرے پر رعب اور گفتگو میں ایک خاص وقار جھلکتا نظر آتا تھا۔ وہ اکثر بنی اسرائیل کی بستیوں میں تشریف لے جاتے اور اپنی آنکھوں سے حکمران طبقے قبطیوں کے ظلم و ستم کو دیکھتے تھے۔ ایک دن جب سڑکیں ویران اور سنسان پڑی ہوئی تھیں تو آ پنے دیکھا کہ ایک قبطی جو فرعون کے باور چیوں میں سے تھا اور ایک اسرائیلی آپس میں ایک دوسرے سے مار پیٹ کررہے ہیں۔ جب اسرائیلی نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو آتے دیکھا تو اس نے قبطی کے ظلم و زیادتی سے بچنے کے لئے ان سے فریاد کی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس قبطی کو سمجھانے اور بیچ بچائو کرنے کی کوشش کی مگر اس قبطی پر اپنی برتری کا جنوں سوار تھا۔ اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شان میں بھی گستاخانہ انداز اختیار کیا مگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے نہایت تحمل اور برداشت سے کام لیا اور ایک دوسرے کو چھڑانے میں قبطی کے ایک گھونسا مارا تو وہ اس گھونسے کی تاب نہ لا کر مر گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بہت افسوس ہوا کیونکہ ان کا مقصد قبطی کو تنبیہ کرنا تھا قتل کرنا نہیں تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اسی وقت اللہ کی بار گاہ میں شرمندگی اور ندامت کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا الہٰی ! یہ جو کچھ بھی ہواوہ شیطان کی حرکتوں کا اثر ہے وہ شیطان جو انسان کا کھلا دشمن ہے۔ الہی مجھ سے زیادتی ہوگئی ہے مجھے معاف کر دیجئے۔ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں کی خطاؤں کو معاف کرنے والا مہربان ہے اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس غلطی کو معاف کردیا کیونکہ انہوں نے یہ قتل ارادہ اور قصد کے ساتھ نہیں کیا تھا بلکہ اپ تو دونوں میں صلح کرانے کی جدوجہد فرما رہے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی عرض کردیا الہی ! میرے اوپر تو آپ کے بہت احسانات ہیں اب میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ معاملے کی تحقیق ہونے تک کسی کی حمایت نہیں کروں گا۔ اس واقعہ کی بقیہ تفصیلات تو اس سے بعد کی آیات میں آرہی ہیں۔ ان آیات کے سلسلہ میں چند باتیں عرض ہیں۔ (1) یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ منصب نبوت پر فائز نہیں ہوئے تھے۔ (2) اگر کہیں آپس میں جھگڑا ہوجائے تو ان میں صلح صفائی کرانے کی کوشش کرنا نہایت ثواب کا کام ہے۔ (3) اگر کسی سے کوئی غلطی ہوجائے تو اس کو فوراً ہی اللہ سے معافی مانگ لینا چاہیے۔ اللہ اپنے بندوں پر اس قدر مہربان ہے کہ وہ اپنے بندوں کی خطاؤں کو معاف کرنے کی پوری قدرت رکھتا ہے اور عام طور پر وہ معاف فرمادیتا ہے۔ (4) جب تک معاملے کی پوری طرح تحقیق نہ ہوجائے اس وقت تک کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ محض گمان پر فیصلہ کرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ ہو سکتا ہے وہ گمان محض ایک گمان ہی ہوا اور اصلیت کچھ بھی نہ ہو۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ یعنی نبوت سے پہلے ہی فہم سلیم و عقل مستقیم جس سے حسن و قبح میں امتیاز کرسکیں عنایت فرمائی۔ 5۔ اس میں اشارہ ہے کہ فرعون کے مشرب کو موسیٰ (علیہ السلام) نے کبھی اختیار نہ کیا تھا بلکہ اس سے نفور رہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا فرعون کے ہاں جوان ہونا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے انھیں علم و حکمت عطا کیا جانا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت فرعون کے ہاں پہنچایا۔ جس میں بڑی بڑی تین حکمتیں پنہاں تھیں۔ ١۔ لوگوں کو معلوم ہو کہ علم نجوم کی کوئی ... حیثیت نہیں اور اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی غیب کا علم نہیں جانتا۔ اگر علم نجوم کی کوئی حقیقت ہوتی تو فرعون کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ یہ وہی بچہ ہے جس کے لیے میں ہزاروں بچوں کا قتل عام کروا چکا ہوں۔ ظاہر ہے کہ معلوم ہونے کی صورت میں وہ موسیٰ (علیہ السلام) کو فوری طور پر قتل کردیتا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے یہ ثابت کر دکھایا کہ اس نے فرعون جیسے قاتل اور ظالم کے ہاں اس کے دشمن کی پرورش کر وا سکتا ہے۔ ٣۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی اس لیے فرعون کے ہاں پرورش کروائی گئی تاکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو امور سلطنت چلانے کی تربیت دی جائے۔ اِس لیے ارشاد فرمایا ہے کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) بھرپور جوانی کو پہنچے اور ان کی صلاحیتوں میں شباب آیا تو اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم اور علم سے سرفراز فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اس طرح ہی نیکی کرنے والوں کو جزا دیتا ہے۔ اگر حکم اور علم سے مراد نبوت ہے تو وہ انھیں مدین سے واپسی پر عطا کی گئی تھی۔ یہاں اس کا تذکرہ کرنے سے مراد بات کی تکمیل کرنا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی والدہ کے ہاں نہیں لوٹایا بلکہ انھیں علم نبوت اور بنی اسرائیل پر حکمران بھی بنایا تھا۔ (عَنِ ابْنِ عَبَّا سٍ قَالَ بُعِثَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لِاَرْبَعِیْنَ سَنَۃً فَمَکَثَ بِمَکَّۃَ ثَلٰثَ عَشَرَۃَ سَنَۃً یُّوْ حٰی اِلَیْہِ ثُمَّ اُ مِرَ بالْھِجْرَۃِ فَھَاجَرَ عَشْرَ سِنِیْنَ وَمَاتَ وَھُوَابْنُ ثَلٰثٍ وَّسِتِّیْنَ سَنَۃً ) [ رواہ البخاری : باب مَبْعَثِ النَّبِیِّ ] ” حضرت ابن عباس (رض) کا بیان ہے کہ رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو چالیس سال کی عمر میں نبوت سے سرفراز کیا گیا۔ اس کے بعد آپ تیرہ سال مکہ معظمہ میں رہے اور آپ کی طرف وحی کی جاتی رہی۔ پھر آپ کو ہجرت کا حکم ہوا اور وہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دس سال بسر کیے۔ تریسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔ “  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

” بلوغ اشد “ کے معنی ہیں جب آپ کی جسمانی قوتیں مکمل ہوگئیں اور استواء کا مفہوم ہے جسمانی اور عقلی اعتبار سے پختگی تک پہنچنا۔ یہ درجہ بالعموم تیس سال کی عمر میں حاصل ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس عرصے تک حضرت موسیٰ کیا فرعون کے قصر شاہی ہی میں رہے ؟ اور فرعون اور اس کی بیوی کے لے پالک اور محبنی رہے یا یہ...  ان سے علیحدہ ہوگئے اور انہوں نے قصر شاہی کو چھوڑ دیا۔ اس لیے کہ شاہی محلات کے گندے اور سڑے ہوئے ماحول میں کسی ایسے شخص کا رہنا ممکن ہی نہیں جس کی روح پاک و صاف ہو اور جس سے مستقبل میں نبوت کا کام لیا جانا ہے۔ خصوصاً جبکہ ان کی ماں نے ان کو یہ بات بتا دی ہوگی کہ ان کی شناخت کیا ہے۔ ان کی قوم کیا ہے اور ان کا دین کیا ہے اور اس کے بعد جب وہ دیکھ رہے ہوں گے کہ ان کی قوم پر کسی قدر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ، ان کو کس قدر ذلیل و خوار کر کے رکھا جا رہا ہے اور معاشرے کے اندر ایک ہمہ گیر فساد برپا ہے اور ہر طرف ظلم و تشدد کا دور دورہ ہے۔ لیکن ہمارے پاس ان کی اس زندگی کے بارے میں کوئی مستند ذریعہ علم نہیں ہے۔ البتہ بعد میں آنے والے واقعات کی بنیاد پر انسان ان کی اس زندگی کے بارے میں قیاس کرسکتا ہے۔ بعد میں اس پر تبصرہ کریں گے۔ یہاں اس پر غور کرنا ہے کہ علم و حکمت عطا کرنے کے بعد اللہ نے اس پر یہ تبصرہ کیا ہے۔ وکذلک نجزی المحسنین (28: 14) ” ہم نیک لوگوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں “۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے پاکیزگی اور احسان کی زندگی اپنا لی تھی اور یہ علم و حکمت جزائے احسان تھا۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ایک شخص کا قتل ہوجانا پھر مصر چھوڑ کر مدین چلے جانا ان آیات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے مصر سے نکل جانے کا اور اس کے لیے ایک قبطی کے قتل کا بہانہ بن جانے کا ذکر ہے اور چونکہ مصر سے نکل کر مدین تشریف لے گئے تھے اور وہاں سے واپس ہو کر راستہ میں نبوت سے سر فراز کردیئے گ... ئے تھے اس لیے قتل قبطی کے قصہ سے پہلے یہ بیان فرما دیا کہ جب وہ اپنی بھری جوانی کو پہنچ گئے اور صحت اور تندرستی کے اعتبار سے خوب اچھی طرح مضبوط اور ٹھیک ہوگئے تو ہم نے انہیں حکمت اور علم عطا فرما دیا اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ اس سے فہم سلیم اور عقل مستقیم مراد ہے۔ جو مدین کو جانے سے پہلے انہیں عطا کردی گئی تھی۔ (وَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ) (اور ہم اسی طرح اچھے کام کرنے والوں کو بدلہ دیا کرتے ہیں) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک دن کہیں شہر سے باہر تشریف لے گئے (ممکن ہے کہ اپنی والدہ کے پاس تشریف لے گئے ہوں جو بظاہر شہر سے دور کسی دیہات میں رہتی ہوں گی) پھر وہاں سے شہر میں ایسے وقت داخل ہوئے جو عام طور سے لوگوں کے غفلت کا وقت تھا، بعض مفسرین نے فرمایا کہ وہ دوپہر کا وقت تھا جبکہ لوگ سو چکے تھے۔ جب شہر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ دو آدمی آپس میں لڑ رہے ہیں ایک آدمی ان کی جماعت میں سے تھا یعنی اسرائیلی تھا اور دوسرا شخص ان کے دشمنوں میں سے تھا یعنی فرعون کی قوم میں سے جنہیں قوم قبط کہا جاتا تھا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی برادری والے شخص کو اپنا ایک آدمی نظر آگیا اور آدمی بھی وہ جو خوب جوانی میں بھرا ہوا تھا اور قوت جسمانیہ کے اعتبار سے بالکل مضبوط اور پکا تھا۔ اس نے آپ سے مدد مانگی اور کہنے لگا کہ دیکھئے یہ شخص مجھ پر زیادتی کر رہا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کو ایک گھونسہ مار دیا جس سے اس کا کام تمام ہوگیا یعنی اس کا دم نکل گیا اور جان جاتی رہی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مقصود اس کو جان سے مارنا نہ تھا تادیباً ایک گھونسہ مارا تھا لیکن ایک ہی گھونسہ اس کی موت کا بہانہ بن گیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بڑی پشیمانی ہوئی کہ ایک شخص کا قتل ہوگیا لہٰذا انہوں نے اول تو یوں کہا کہ یہ ایک شیطانی حرکت ہوگئی اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے اس کا کام گمراہ کرنا ہے بنی آدم سے ایسی حرکتیں کراتا رہتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب ہوتی ہیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں دعا کی کہ اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا لہٰذا میری مغفرت فرمائیے۔ لہٰذا للہ تعالیٰ نے مغفرت فرما دی۔ اہل خیر اور اہل اصلاح کا یہ طریقہ ہے کہ بلا ارادہ بھی اگر ان سے کوئی ایسا کام سرزد ہوجائے جو گناہ کی فہرست میں آسکتا ہو تو اس کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہیں۔ اور قتل خطا میں تو دیت بھی لازمی ہوتی ہے لیکن چونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کافر حربی کا قتل کیا تھا اور اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی شریعت بھی جاری نہیں تھی اس لیے دیت کا سوال پیدا نہیں ہوا۔ لیکن قتل نفس کی وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے حضور مغفرت کی درخواست پیش کردی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی مغفرت فرما دی (اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ ) (بلاشبہ اللہ غفور ہے رحیم ہے) ۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

15:۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) سن نمو کی انتہا کو پہنچ گئے اور ان کی ذہنی اور جسمانی قوتیں حد کمال کو پہنچ گئیں تو ہم نے ان کو عقل اور علم و فہم کی دولت عطا کی یعنی دین کے معاملات میں گہری سمجھ اور حکمت یعنی صحیح قوت فیصلہ سے سرفراز فرمایا ای الفقہ والعقل والعلم فی الدین فعلم موسیٰ و حکم قبل ان یبعث نب... یا (معالم ج 5 ص 138) ۔ بعض نے حکم و علم سے نبوت اور علم نبوت مراد لیا ہے لیکن اس صورت میں ترتیب قصہ میں تقدیم و تاخیر ہوگی کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت مدین سے واپسی پر راستے میں ملی اور قتل قبطی اور سفر مدین وغیرہ واقعات نبوت سے پہلے کے ہیں لیکن پہلی صورت میں تقدیم و تاخیر ماننے کی ضرورت نہیں۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

14۔ اور جب موسیٰ (علیہ السلام) اپنی جوانی کو پہنچا اور شباب کے کمال کو پہنچ گیا تو ہم نے اس کو حکمت و دانش عطا فرمایا اور فہم صحیح اور علم عطا کیا اور ہم نیک روش اختیار کرنیوالوں کو ایساہی صلہ عطا کیا کرتے ہیں ۔ یعنی بھر پور جوانی لفظ اشد کو کہتے ہیں کہ سترہ سال کی عمر سے تیس سال تک ہے اور استوی تیس...  سے لیکر چالیس سال کی عمر تک کو کہتے ہیں ۔ بہر حال ! جب جوانی آئی اور جسمانی قوی درست اور مستحکم ہوئے تو حضر ت حق تعالیٰ کی طرف سے علم و حکمت عطا ہوئے اور آخر میں فرمایا ہمارا عام قاعدہ یہی ہے کہ نیکو کاروں کو اسی قسم کا صلہ اور بدلا دیا کرتے ہیں ۔  Show more