Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 22

سورة القصص

وَ لَمَّا تَوَجَّہَ تِلۡقَآءَ مَدۡیَنَ قَالَ عَسٰی رَبِّیۡۤ اَنۡ یَّہۡدِیَنِیۡ سَوَآءَ السَّبِیۡلِ ﴿۲۲﴾

And when he directed himself toward Madyan, he said, "Perhaps my Lord will guide me to the sound way."

اور جب مدین کی طرف متوجہ ہوئے تو کہنے لگے مجھے امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھی راہ لے چلے گا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاء مَدْيَنَ ... And when he went towards (the land of) Madyan, means, he took a smooth and easy route -- and he rejoiced because of that. ... قَالَ ... he said: عَسَى رَبِّي أَن يَهْدِيَنِي سَوَاء السَّبِيلِ It may be that my Lord guides me to the right way. meaning, the most straight route. And Allah did indeed do that, for He guided him to the straight path in this world and the Hereafter, and caused him to be guided and to guide others.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

221چناچہ اللہ نے ان کی یہ دعا قبول فرمائی اور ایسے سیدھے راستے کی طرف ان کی رہنمائی فرمائی جس سے ان کی دنیا بھی سنور گئی اور آخرت بھی یعنی وہ ہادی بھی بن گئے اور مہدی بھی، خود بھی ہدایت یافتہ اور دوسروں کو بھی ہدایت کا راستہ بتلانے والے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣١] مدین یہاں سے آٹھ دن کی مسافت پر تھا اور فرعون کی حدود سلطنت سے باہر تھا۔ آپ نے اس مخلص ساتھی سے یہ اطلاع پاتے ہی مدین کا رخ کیا اور بچتے بچاتے خوب چوکنے ہو کر وہاں سے نکل کھڑے ہوئے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ یا اللہ ! مجھے ان ظالموں کی دستبردار سے بچا لے اور ایسی راہ پر ڈال دے جو سیدھا مدین کو جاتا ہو اور میں ان ظالموں سے بچ کر وہاں پہنچ سکوں۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاۗءَ مَدْيَنَ ۔۔ : اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا قبول فرمائی اور انھیں اس راستے پر ڈال دیا جو مدین کی طرف جاتا تھا۔ مدین خلیج عقبہ کے مغربی ساحل پر ” مقنا “ سے چند میل بجانب شمال واقع تھا، آج کل اسے ” اَلْبِدَعْ “ کہتے ہیں۔ اس زمانے میں مدین فرعون کی سلطنت سے باہر تھا۔ مصر کی حکومت پورے جزیرہ نمائے سینا پر نہیں تھی، بلکہ صرف اس کے مغربی اور جنوبی علاقے تک محدود تھی۔ خلیج عقبہ کے مشرقی اور مغربی ساحل، جن پر بنی مدیان آباد تھے، وہ مصری اقتدار سے آزاد تھے، اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر سے نکلتے ہی مدین کا رخ کیا، کیونکہ قریب ترین آزاد اور آباد علاقہ وہی تھا، لیکن وہاں جانے کے لیے انھیں گزرنا بہرحال مصر کے مقبوضہ علاقوں ہی سے تھا اور مصر کی فوج سے بچ کر نکلنا تھا، اس لیے انھوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ مجھے سیدھے راستے پر ڈال دے، جس سے میں صحیح سلامت مدین پہنچ جاؤں۔ (تفہیم القرآن) 3 ابن ابی حاتم نے صحیح سند کے ساتھ سعید بن جبیر کے واسطے سے ابن عباس (رض) کا قول ذکر کیا ہے کہ ” موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے مدین کی طرف چلے تو ان کے پاس راستے میں سبزی اور درختوں کے پتوں کے سوا کھانے کی کوئی چیز نہ تھی، حتیٰ کہ پاؤں سے ننگے ہوگئے۔ مدین پہنچنے سے پہلے ہی ان کے پاؤں کے جوتے ٹوٹ کر گرگئے۔ جب سائے میں جا کر بیٹھے تو اس وقت وہ ساری مخلوق میں اللہ کے چنے ہوئے بندے تھے اور حال یہ تھا کہ بھوک سے پیٹ پیٹھ سے لگا ہوا تھا۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاءَ مَدْيَنَ (And when he set out towards Madyan - 28:22). Madyan (مَدْيَنَ ) is the name of a city in Sham (a large territory now consisting of Syria, Jordan, Lebanon and Palestine) which was named after Madyan, the son of Ibrahim (علیہ السلام) . This area was outside the empire of the Pharaoh. It was eight days journey from Egypt. When Sayyidna Musa (علیہ السلام) was taken over by the natural fright of the pursuing army of the Pharaoh, which was not in conflict either with the prophethood or with trust in Allah, he resolved to leave Egypt. Perhaps he decided to proceed toward Madyan because it was a habitation of the descendants of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) and he was also his progeny. When Sayyidna Musa (علیہ السلام) left Egypt, he was in a condition that he had neither any provisions for the journey nor any baggage, and also he did not know the route. In this state of helplessness he turned to Allah Ta` ala and asked عَسَىٰ رَ‌بِّي أَن يَهْدِيَنِي سَوَاءَ السَّبِيلِ (I hope my Lord will guide me to the straight path - 28:22), Allah Ta` ala accepted this prayer. Scholars have observed that the only food Musa علیہ السلام had during this journey was the leaves of trees. Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has said that this was the first trial and test of Sayyidna Musa (علیہ السلام) . Details of trials and tests of Musa (علیہ السلام) have already been described under Surah Taha while quoting a lengthy hadith.

خلاصہ تفسیر اور جب موسیٰ (علیہ السلام یہ دعا کر کے ایک سمت کو توکلا علی اللہ چلے اور بتائید غیبی) مدین کی طرف ہو لئے (چونکہ راستہ معلوم نہ تھا اس لئے تقویت و توکل اور نفس کو تسکین دینے کے لئے آپ ہی آپ) کہنے لگے کہ امید ہے کہ میرا رب مجھ کو (کسی مقام امن کا) سیدھا راستہ چلاوے گا (چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مدین جا پہنچے) اور جب مدین کے پانی (یعنی کنوئیں) پر پہنچے تو اس پر (مختلف) آدمیوں کا ایک مجمع دیکھا جو (اس کنوئیں سے کھینچ کھینچ کر اپنے مواشی کو) پانی پلا رہے تھے اور ان لوگوں سے ایک طرف (الگ) دو عورتیں دیکھیں کہ وہ (اپنی بکریاں) روکے کھڑی ہیں، موسیٰ (علیہ السلام) نے (ان سے) پوچھا تمہارا کیا مطلب ہے وہ دونوں بولیں کہ (ہمارا معمول یہ ہے کہ) ہم (اپنے جانوروں کو) اس وقت تک پانی نہیں پلاتے جب تک کہ یہ چرواہے (جو کنوئیں پر پانی پلا رہے ہیں) پانی پلا کر (جانوروں کو) ہٹا کر نہ لے جاویں (ایک تو حیا کے سبب، دوسرے مردوں سے مزاحمت ناتوانوں سے کب ہو سکتی ہے) اور (اس حالت میں ہم آتے بھی نہیں مگر) ہمارے باپ بہت بوڑھے ہیں (اور گھر پر اور کوئی کام کرنے والا ہی نہیں اور کام ضروری ہے اس مجبوری کو ہم کو آنا پڑتا ہے) پس (یہ سن کر) موسیٰ (علیہ السلام کو رحم آیا اور انہوں نے) ان کے لئے پانی (کھینچ کر ان کے جانوروں کو) پلایا (ور ان کو انتظار اور پانی کھینچنے کی تکلیف سے بچایا) پھر (وہاں سے) ہٹ کر (ایک) سایہ (کی جگہ) میں جا بیٹھے (خواہ کسی پہاڑ کا سایہ ہو یا کسی درخت کا) پھر (جناب باری میں) دعا کی کہ اے میرے پروردگار (اس وقت) جو نعمت بھی (قلیل یا کثیر) آپ مجھ کو بھیج دیں میں اس کا (سخت) حاجتمند ہوں (کیونکہ اس سفر میں کچھ کھانے پینے کو نہ ملا تھا۔ حق تعالیٰ نے اس کا یہ سامان کیا کہ وہ دونوں بیبیاں اپنے گھر لوٹ کر گئیں تو باپ نے معمول سے جلدی آجانے کی وجہ دریافت کی، انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کا پورا قصہ بیان کیا انہوں نے ایک لڑکی کو بھیجا کہ ان کو بلا لاؤ) موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس ایک لڑکی آئی کہ شرماتی ہوئی چلتی تھی (جو کہ اہل شرف کی طبعی حالت ہے اور آ کر) کہنے لگی کہ میرے والد تم کو بلاتے ہیں تاکہ تم کو اس کا صلہ دیں جو تم نے ہماری خاطر (ہمارے جانوروں کو) پانی پلا دیا تھا (یہ ان صاحبزادی کو اپنے والد کی عادت سے معلوم ہوا ہوگا کہ احسان کی مکافات کیا کرتے ہوں گے۔ موسیٰ (علیہ السلام) ساتھ ہو لئے گو مقصود موسیٰ (علیہ السلام) کا بالیقین اپنی خدمت کا معاوضہ لینا نہ تھا لیکن مقام امن اور کسی رفیق شفیق کے ضرور باقتضائے وقت جویاں تھے اور اگر بھوک کی شدت بھی اس جانے کا ایک جزو علت ہو تو مضائقہ نہیں اور اس کو اجرت سے کچھ تعلق نہیں اور ضیافت کی تو استدعا بھی بالخصوص حاجت کے وقت اور خصوصاً کریم و شریف آدمی سے کچھ ذلت نہیں چہ جائیکہ دوسرے کی استدعا پر ضیافت کا قبول کرلینا، راہ میں موسیٰ (علیہ السلام) نے ان بی بی سے فرمایا کہ تم میرے پیچھے ہوجاؤ میں اولاد ابراہیم سے ہوں، اجنبیہ کو بےوجہ بےقصد دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا، غرض اسی طرح ان بزرگ کے پاس پہنچے) سو جب ان کے پاس پہنچے اور ان سے تمام حال بیان کیا تو انہوں نے (تسلی دی اور) کہا کہ (اب) اندیشہ نہ کرو تم ظالم لوگوں سے بچ آئے (کیونکہ اس مقام پر فرعون کی عملداری نہ تھی کذا فی الروح، پھر) ایک لڑکی نے کہا کہ ابا جان (آپ کو آدمی کی ضرورت ہے اور ہم سیانی ہوگئیں اب گھر میں رہنا مناسب ہے تو) آپ ان کو نوکر رکھ لیجئے، کیونکہ اچھا نوکر وہ شخص ہی جو مضبوط (ہو اور) امانت دار (بھی) ہو (اور ان میں دونوں صفتیں ہیں، چناچہ قوت ان کے پانی کھینچنے سے اور امانت ان کے برتاؤ سے، خصوصاً راہ میں عورت کو پیچھے کردینے سے ظاہر ہوتی تھی اور اپنے باپ سے بھی بیان کیا تھا اس پر) وہ (بزرگ موسیٰ (علیہ السلام) سے) کہنے لگے میں چاہتا ہوں کہ ان دو لڑکیوں میں سے ایک کو تمہارے ساتھ بیاہ دوں اس شرط پر کہ تم آٹھ سال میری نوکری کرو (اور اس نوکری کا بدلہ وہی نکاح ہے، حاصل یہ کہ آٹھ سال کی خدمت اس نکاح کا مہر ہے) پھر اگر تم دس سال پورے کردو تو یہ تمہاری طرف سے (احسان) ہے (یعنی میری طرف سے جبر نہیں) اور میں (اس معاملہ میں) تم پر کوئی مشقت ڈالنا نہیں چاہتا (یعنی کام لینے اور وقت کی پابندی وغیرہ معاملہ کی فروعات میں آسانی برتوں گا اور) تم مجھ کو انشاء اللہ تعالیٰ خوش معاملہ پاؤ گے موسیٰ (علیہ السلام رضا مند ہوگئے اور) کہنے لگے کہ (بس تو) یہ بات میرے اور آپ کے (درمیان (پکی) ہوچکی، میں ان دونوں مدتوں میں سے جس (مدت) کو بھی پورا کر دوں مجھ پر کوئی جبر نہ ہوگا اور ہم جو (معاملہ) کی بات چیت کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کا گواہ (کافی) ہے (اس کو حاضر ناظر سمجھ کر عہد پورا کرنا چاہئے۔ ) معارف و مسائل وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاۗءَ مَدْيَنَ ، مدین ملک شام کے ایک شہر کا نام ہے جو مدین بن ابراہیم کے نام سے موسوم ہے۔ یہ علاقہ فرعونی حکومت سے خارج تھا۔ مصر سے مدین کی مسافت آٹھ منزل کی تھی۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جب فرعونی سپاہیوں کے تعاقب کا طبعی خوف پیش آیا، جو نہ نبوت و معرفت کے منافی ہے نہ توکل کے، تو مصر سے ہجرت کا ارادہ کیا اور مدین کی سمت شاید اس لئے متعین کی کہ مدین بھی اولاد ابراہیم (علیہ السلام) کی بستی تھی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی ان کی اولاد میں تھے۔ اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بالکل بےسروسامانی کے ساتھ اس طرح مصر سے نکلے کہ نہ کوئی توشہ ساتھ تھا نہ کوئی سامان اور نہ راستہ معلوم، اسی اضطرار کی حالت میں اللہ تعالیٰ جل شانہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا عَسٰى رَبِّيْٓ اَنْ يَّهْدِيَنِيْ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ ، یعنی امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھا راستہ دکھائے گا، اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی۔ مفسرین کا بیان ہے کہ اس سفر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی غذا صرف درختوں کے پتے تھے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ سب سے پہلا ابتلاء اور امتحان تھا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کے ابتلاءات اور امتحانات کی تفصیلات طورہ طہ میں ایک طویل حدیث کے حوالہ سے بیان ہوچکی ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَلَمَّا تَوَجَّہَ تِلْقَاۗءَ مَدْيَنَ قَالَ عَسٰى رَبِّيْٓ اَنْ يَّہْدِيَنِيْ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ۝ ٢٢ لقی اللِّقَاءُ : مقابلة الشیء ومصادفته معا، وقد يعبّر به عن کلّ واحد منهما، يقال : لَقِيَهُ يَلْقَاهُ لِقَاءً ولُقِيّاً ولُقْيَةً ، ويقال ذلک في الإدراک بالحسّ ، وبالبصر، وبالبصیرة . قال : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] ، وقال : لَقَدْ لَقِينا مِنْ سَفَرِنا هذا نَصَباً [ الكهف/ 62] . ومُلَاقَاةُ اللہ عز وجل عبارة عن القیامة، وعن المصیر إليه . قال تعالی: وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] ( ل ق ی ) لقیہ ( س) یلقاہ لقاء کے معنی کسی کے سامنے آنے اور اسے پالینے کے ہیں اور ان دونوں معنی میں سے ہر ایک الگ الگ بھی بولاجاتا ہے اور کسی چیز کا حس اور بصیرت سے ادراک کرلینے کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : لَقَدْ كُنْتُمْ تَمَنَّوْنَ الْمَوْتَ مِنْ قَبْلِ أَنْ تَلْقَوْهُ [ آل عمران/ 143] اور تم موت ( شہادت ) آنے سے پہلے اس کی تمنا کیا کرتے تھے اور ملاقات الہی سے مراد قیامت کا بپا ہونا اور اللہ تعالیٰ کے پاس چلے جانا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ مُلاقُوهُ [ البقرة/ 223] اور جان رکھو کہ ایک دن تمہیں اس کے دوبرو حاضر ہونا ہے ۔ مدن المَدينة فَعِيلَةٌ عند قوم، وجمعها مُدُن، وقد مَدَنْتُ مَدِينةً ، ون اس يجعلون المیم زائدة، قال تعالی: وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] قال : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص/ 15] . ( م دن ) المدینۃ ۔ بعض کے نزدیک یہ فعیلۃ کے وزن پر ہے اس کی جمع مدن آتی ہے ۔ اور مدنت مدینۃ کے معنی شہر آیا ہونے کے ہیں ۔ اور بعض کے نزدیک اس میں میم زیادہ ہے ( یعنی دین سے مشتق ہے ) قرآن پاک میں ہے : وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفاقِ [ التوبة/ 101] اور بعض مدینے والے بھی نفاق پر اڑے ہوئے ہیں ۔ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک آدمی آیا ۔ وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلى حِينِ غَفْلَةٍ مِنْ أَهْلِها [ القصص/ 15] اور وہ شہر میں داخل ہوئے ۔ عسی عَسَى طَمِعَ وترجّى، وكثير من المفسّرين فسّروا «لعلّ» و «عَسَى» في القرآن باللّازم، وقالوا : إنّ الطّمع والرّجاء لا يصحّ من الله، وفي هذا منهم قصورُ نظرٍ ، وذاک أن اللہ تعالیٰ إذا ذکر ذلک يذكره ليكون الإنسان منه راجیا لا لأن يكون هو تعالیٰ يرجو، فقوله : عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] ، أي : کونوا راجین ( ع س ی ) عسیٰ کے معنی توقع اور امید ظاہر کرنا کے ہیں ۔ اکثر مفسرین نے قرآن پاک میں اس کی تفسیر لازم منعی یعنی یقین سے کی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں طمع اور جا کا استعمال صحیح نہیں ہے مگر یہ ان کی تاہ نظری ہے کیونکہ جہاں کہیں قرآن میں عسی کا لفظ آیا ہے وہاں اس کا تعلق انسان کے ساتھ ہے نہ کہ اللہ تعالیٰ کیساتھ لہذا آیت کریمہ : ۔ عَسى رَبُّكُمْ أَنْ يُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ [ الأعراف/ 129] کے معنی یہ ہیں کہ تم اللہ تعالیٰ سے امید رکھو کہ تمہارے دشمن کو ہلاک کردے هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ سبل السَّبِيلُ : الطّريق الذي فيه سهولة، وجمعه سُبُلٌ ، قال : وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] ( س ب ل ) السبیل ۔ اصل میں اس رستہ کو کہتے ہیں جس میں سہولت سے چلا جاسکے ، اس کی جمع سبل آتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے ۔ وَأَنْهاراً وَسُبُلًا [ النحل/ 15] دریا اور راستے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢) اور موسیٰ (علیہ السلام) مدین کی طرف چل پڑے تو خیال ہوا کہ راستہ تو معلوم نہیں تو خود ہی کہنے لگے امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے مدین کی طرف سیدھا پہنچا دے گا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ (وَلَمَّا تَوَجَّہَ تِلْقَآءَ مَدْیَنَ ) ” نقشے پر دیکھیں تو مصر جزیرہ نمائے سینا کے ایک طرف ہے جبکہ مدین کا علاقہ اس کے دوسری طرف واقع ہے۔ گویا مصر سے مدین جانے کے لیے آپ ( علیہ السلام) کو پورا صحرائے سینا عبور کرنا تھا۔ آپ ( علیہ السلام) نے مدین جانے کا عزم اس لیے کیا کہ یہ علاقہ فرعون کی سلطنت سے باہر تھا۔ (قَالَ عَسٰی رَبِّیْٓ اَنْ یَّہْدِیَنِیْ سَوَآء السَّبِیْلِ ) ” یعنی اس لق و دق صحرا میں سفر کرتے ہوئے میرا رب مسلسل میری راہنمائی کرتا رہے گا اور اس طرح میں راستہ بھٹکنے سے بچا رہوں گا۔ ظاہر ہے کہ ایک وسیع و عریض صحرا میں راستہ بھٹک جانے والے مسافر کا انجام تو ہلاکت ہی ہوسکتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

31 Both the Bible and the Qur'an agree that after leaving Egypt the Prophet Moses had gone to live in Madyan (Midian). But the Talmud tells the absurd story that Moses fled to Ethiopia and became a great favourite with the king there. After the king's death the people made Moses their king and leader and gave him the widow of the king for a wife, but during the 40 years of his reign there he never had intercourse with his negro wife. Then the queen of Ethiopia, who was a wife to Moses in name only, said to the people, "Why should this stranger continue to rule over you '? He has never worshipped the gods of Ethiopia." At this the people of Ethiopia deposed him and made him many rich presents and dismissed him with great honours. Then he came to Midian and met with the events being mentioned below. At this time he was 67 years old. A clear proof of this story's being absurd is that according to it Assyria (northern Iraq) in those days was under Ethiopia, and the Prophet Moses and the Ethiopian king, his predecessor, had led military campaigns to crush the Assyrian revolts. Now anybody who has a little acquaintance with the history and geography can have a look at the map and see things for himself. Assyria could be under Ethiopian domination and have been attacked by the Ethiopian army only in case Egypt and Palestine and Syria had been under its subjugation, or the whole of Arabia under its sway, or, at least the Ethiopian navy so powerful as to have conquered 'Iraq across the Indian ocean and the Persian Gulf. History, however, does not support the view that the Ethiopians ever held sway over these countries, or their naval force was ever so powerful. This indicates how imperfect was the Israelites' knowledge of their own history, and how the Qur'an corrects their errors and presents thetrue facts in their pure form. Nevertheless, the Christian and the Jewish orientalists are never ashamed of asserting that the Qur'an has plagiarized the Israelite traditions for its narratives. 32 The right path: "The path that may take me to Midian safely." It should be borne in mind that Midian in those days was outside Pharaoh's empire. Egypt did not have control over the whole of the Sinai Peninsula but only on its western and southern parts. The Midianites who inhabited the eastern and western coasts of the Gulf of 'Agabah were free from Egyptian influence and authority. That is why the Prophet Moses had headed for Midian after leaving Egypt, because that was the nearest free and inhabited land. But to reach Midian he had to pass through Egyptian territories; avoiding the Egyptian police and military posts on the way. That is why he prayed to God to put him on the right track which should take him to Midian safely.

سورة القصص حاشیہ نمبر : 31 بائیبل کا بیان اس امر میں قرآن سے متفق ہے کہ حضرت موسی نے مصر سے نکل کر مدین کا رخ کیا تھا ۔ لیکن تلمود یہ بے سرو پا قصہ بیان کرتی ہے کہ حضرت موسی سے بھاگ کر حبش چلے گئے اور وہاں بادشاہ کے مقرب ہوگئے ۔ پھر اس کے مرنے پر لوگوں نے ان کو اپنا بادشاہ بنا لیا اور اس کی بیوہ سے ان کی شادی کردی ۔ 40 سال انہوں نے وہاں حکومت کی ، مگر اس پوری مدت میں اپنی حبشی بیوی سے کبھی مقاربت نہ کی ۔ 40 سال گزر جانے کے بعد اس عورت نے حبش کے باشندوں سے شکایت کی کہ اس شخص نے آج تک نہ تو مجھ سے زن و شو کا تعلق رکھا ہے اور نہ کبھی حبش کے دیوتاؤں کی پرستش کی ہے ، اس پر امرائے سلطنت نے انہیں معزول کر کے اور بہت سا مال دے کر ملک سے باحترام رخصت کردیا ، تب وہ حبش سے مدین پہنچے اور وہ واقعات پیش آئے جو آگے بیان ہورہے ہیں ، اس وقت ان کی 67 سال تھی ۔ اس قصے کے بے سروپا ہونے کی ایک کھلی دلیل یہ ہے کہ اسی قصے میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ اس زمانے میں اسیریا ( شمالی عراق ) پر حبش کی حکومت تھی ، اور اسیر یا والوں کی بغاوتیں کچلنے کے لیے حضرت موسی نے بھی اور ان کے پیش رو بادشاہ نے بھی فوجی چڑھائیاں کی تھیں ۔ اب جو شخص بھی تاریخ و جغرافیہ سے کوئی واقفیت رکھتا ہو وہ نقشے پر ایک نگاہ ڈال کر دیکھ سکتا ہے کہ اسیریا پر حبشہ کا تسلط اور حبشی فوج کا حملہ یا تو اس صورت میں ہوسکتا تھا کہ مصر اور فلسطین و شام پر اس کا قبضہ ہوتا ، یا پورا ملک عرب اس کے زیر نگیں ہوتا ، یا پھر حبش کا بیڑا ایسا زبردست ہوتا کہ وہ بحر ہند اور خلیج فارس کو عبور کر کے عراق فرح کرلیتا ۔ تاریخ اس ذکر سے خالی ہے کہ کبھی حبشیوں کو ان ممالک پر تسلط حاصل ہوا ہو یا ان کی بحری طاقت اتنی زبردست رہی ہو ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کا علم خود اپنی تاریخ کے بارے میں کتنا ناقص تھا اور قرآن ان کی غلطیوں کی تصحیح کر کے صحیح واقعات کیسی منقح صورت میں پیش کرتا ہے ۔ لیکن عیسائی اور یہودی مستشرقین کو یہ کہتے ذرا شرم نہیں آتی کہ قرآن نے یہ قصے بنی اسرائیل سے نقل کر لیے ہیں ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 32 یعنی ایسے راستہ پر جس سے میں بخیریت مدین پہنچ جاؤں ۔ واضح رہے کہ اس زمانہ میں مدین فرعون کی سلطنت سے باہر تھا ، مصر کی حکومت پورے جزیرہ نمائے سینا پر نہ تھی بلکہ صرف اس کے مغربی اور جنوبی علاقے تک محدود تھی ۔ خلیج عقبہ کے مشرقی اور مغربی سواحل جن پر بنی مدیان آباد تھے ، مصری اثر و اقتدار سے بالکل آزاد تھے ۔ اسی بنا پر حضرت موسی نے مصر سے نکلتے ہی مدین کا رخ کیا تھا کیونکہ قریب ترین آزاد اور آباد علاقہ وہی تھا ، لیکن وہاں جانے کے لیے انہیں گزرنا بہرحال مصر کے مقبوضہ علاقوں ہی سے تھا ، اور مصر کی پولیس اور فوجی چوکیوں سے بچ کر نکلنا تھا ، اسی لیے انہوں نے اللہ سے دعا کی کہ مجھے ایسے راستے پر ڈال دے جس سے میں صحیح و سلامت مدین پہنچ جاؤں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: مدین حضرت شعیب (علیہ السلام) کی بستی تھی اور وہ علاقہ فرعون کی حکومت سے باہر تھا اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے وہاں جانے کا ارادہ کیا لیکن شاید راستہ پوری طرح معلوم نہیں تھا، محض اندازے سے چل رہے تھے اس لئے یہ جملہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مجھے صحیح راستے پر ڈالدے گا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:22) توجہ۔ ماضی واحد مذکر غائب توجہ (تفعل) مصدر۔ وہ متوجہ ہوا۔ اس نے رخ کیا۔ اس نے (ادھر کو) منہ کیا۔ تلقائ۔ طرف ۔ لقاء سے۔ جس کے معنی ملاقات کرنے کے ہیں۔ اسم ہے بمعنی ملاقات کرنے اور آمنے سامنے ہونے کی جگہ کو تلقاء کہتے ہیں اور اسی اعتبار سے طرف اور جہت کے معنی میں مستعمل ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اور جگہ آیا ہے واذا صرفت ابصارہم تلقاء اصحب النار (7:47) اور جب ان کی نگاہیں اہل دوزخ کی طرف پھیری جائیں گے ! عسی ربی ان یھدینی۔ عسی افعال مقاریہ میں سے ہے بمعنی قریب ہے ممکن ہے۔ توقع ہے۔ اندیشہ ہے۔ کھٹکا ہے۔ (ہر دو مؤخر الذکر میں بھی قرب زمانہ کا مفہوم بھی موجود ہے) ۔ یہاں بمعنی توقع ہے۔ امید ہے (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الاتقان فی علوم القرآن جلد اول نوح چہلم) ۔ جملہ کے معنی ہوں گے : امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے (سیدھے راستہ کی) راہنمائی کریگا۔ سواء السبیل۔ وسطی راستہ۔ (جو نہ دائیں طرف کو جائے نہ بائیں طرف کو جائے بلکہ درمیانی راستہ جو سیدھا نصب العین کی طرف لیجائے) سیدھا راستہ۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ جو فرعون کی سلطنت سے باہر مصر سے آٹھ دن کی مسافت پر تھا۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 22 تا 28 اسرارومعارف اور جب آپ مصر سے چلے تو آپ کا رخ مدین کی طرف تھا اور دعا کی کہ مجھے رب کریم سے امید ہے کہ درست سمت کی رہنمائی فرمائیں گے اور میں کسی بہتر ٹھکانے پر پہنچ سکوں گا آخر چلتے چلتے آپ مدین کے کنویں پر پہنچ گئے آپ کسی سے واقف نہ تھے دیکھا بہت سے لوگ جمع ہیں اور اپنے مواشی اور ریوڑوں کو پانی پلا رہے ہیں مگر دو نوجوان لڑکیاں الگ سے اپنی بکریاں روکے کھڑی ہیں آپ کو تعجب ہوا تو پوچھ لیا کہ آپ اس طرح ریوڑ کو روک کر کیوں کھڑی ہیں تو انہوں نے بتایا کہ ہم مردوں میں مل کر تو کام نہیں کرسکتیں لہذا انتظار کرتی ہیں جب یہ لوگ اپنے مواشی کو پانی پلا کر چلے جاتے ہیں تو ہم اپنے ریوڑ کو پلاتی ہیں اور اتنا بھی نہ کرتے مگر مجبوری ہے گھر پہ ایک والد ہیں جو ضعیف ہیں اور کوئی کام کرنے والا نہیں۔ خواتین کے کام کرنے کا طریقہ : جہاں ضرورت ہو خواتین کام کرسکتی ہیں مگر مردوں کے ساتھ آزادانہ میل جول کی اجازت نہیں ہاں خواتین الگ رہ کر کام کریں یہی حنیفیہ کا مسلک ہے۔ موسیٰ (علیہ السلام) ڈول کھینچ کر ان کی بکریوں کو بھی پانی پلا دیا اور وہ گھر چلی گئیں آپ کسی سایہ کے نیچے جاکر بیٹھے اور دعا کی اے میرے پروردگار تو جو نعمت اور خیر عطا کرے تیری مرضی کہ میں اس وقت بہت ضرورت مند اور محتاج ہوں۔ اللہ کے الوالعزم رسول کی دعا سفر تھکاوٹ بھوک پیاس اور غریب الوطنی میں قبول ہوئی کہ ادھر وہ بچیاں ھر پہنچیں تو والد گرمی نے جلد آنے کا سبب پوچھا انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ سنایا تو فرمایا کہ انہیں بلا کرلے آؤ یہ شعیب (علیہ السلام) تھے آپ بوڑھے بھی تھے اور بینائی بھی نہ تھی ۔ چناچہ ان میں سے ایک بچی اس انداز سے موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچی کہ اس کے چلنے سے بھی حیا ٹپک رہی تھی یعنی ان کی دعا کا جواب آیا ۔ عورت میں حیا ہو تو اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے : واقعی عورت میں حیا ہو تو اللہ کریم کی بہت بڑی نعمت ہے کہ ایک خاتون کے ملنے سے انہیں گھر کنبہ اور ہمدرد سب کچھ میسر آگیا۔ چناچہ انہیں نے آکر فرمایا میرے والد آپ کو یاد فرماتے ہیں کہ آپ نے ہمارا کام کردیا وہ چاہتے ہیں کہ آپ کو اس کا کچھ معاوضہ دیں۔ آپ ساتھ چلے تو مفسرین فرماتے ہیں کہ خود آگے چلے اور انہیں اپنے پیچھے آنے اور راستہ بتانے کا فرمایا کہ اجنبی خاتون پر نظر نہ پڑے۔ جب شعیب (علیہ السلام) کے پاس پہنچے اور سب واقع بیان فرمایا تو انہوں نے فرمایا کہ اب یہاں کوئی خطرہ نہیں آپ اس ملک کی حدود سے باہر آگئے کوئی ڈرنے کی بات نہیں اب آپ اس ظالم قوم کے ہاتھ سے بچ نکلے۔ تب ان کی بیٹی نے درخواست کی کہ ابا انہیں ملازم رکھ لیجیے کہ ضرورت تو ہے اور یہ بڑے قوی بھی ہیں کہ پانی کھینچ نکالا اور امانت دار بھی ہیں کہ ہمارے ساتھ بہت دیانت و امانت کا معاملہ فرمایا ۔ کسی منصب کے لیے اس کا اہل ہونا اور دیانتدار ہونا شرط ہے : یہاں سے ثابت ہے کہ کسی ملازمت یا منصب کے لیے دو شرطوں کا ہونا ضروری ہے اول اس کام کی اہلیت رکھتا ہو دوسرے امین اور دیانتدار ہو کہ خلوص سے کام کرے تو انہوں نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنی ایک بیٹی آپ کے نکاح میں دے دوں مگر شرط یہ ہے کہ آٹھ برس ہمارا کام کریں گے۔ مہر اور خدمت : یہاں سول پیدا ہوتا ہے کہ کہ کیا بیوی کی خدمت اس کا مہر ہوسکتی ہے تو فقہا کے نزدیک اس کی ذاتی خدمت نہیں مگر ہاں اس کا کام ہو جیسے تجارتی منصوبہ یا کوئی اور کام فارم مواشی وغیرہ تو وہ کام کرنا اور اس کی اجرت مہر میں منتقل کردینا جائز ہے یا پھر جیسے یہاں سب کی خدمت تھی تو والد کا کام اس شرط پر کہ تنخواہ بیٹی کو مہر میں دے جائز ہے پھر یہ بیٹی کا حق ہے کہ وہ چاہے تو والد کو معاف کردے لہذا آپ نے فرمایا کہ آٹھ سال یہاں رہ کر ہماری خدمت کرو اور اگر دس سال کرو تو یہ تمہارا احسان ہوگا بہرحال دونوں میں سے جو مدت بھی آپ پوری کردیں درست ہے کہ میں آپ پر بوجھ نہیں بننا چاہتا نہ میعاد بڑھا کر اور نہ کوئی ایسا کام کرنے کا حکم دوں گا جو آپ نہ کرسکیں۔ اور ساتھ رہ کر آپ مجھے اللہ کا نیک بندہ پائیں گے کہ کسی کی بھلائی کا احساس و ثبوت اس کے کردار سے ملتا ہے۔ انہوں نے قبول کرلیا کہ دونوں میں سے جو عرصہ بھی پورا کردوں درست ہوگا ہمارے اس معاہدے پر اللہ کریم کو گواہ کرتے ہیں۔ بیٹی کا نکاح : یہاں اس بات کا اظہار ہے کہ بیٹی کا نکاح اس کا ولی کرے تو مناسب ہے مگر اس کی اجازت سے لیکن ار کوئی خاتون مرضی سے شرعی طریقے سے نکاح کرلے تو نکاح منعقد ہوجائے گا۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 22 تا 25 : توجہ ( متوجہ ہوا۔ اس نے رخ کیا) ‘ تلقاء (طرف۔ سمت) ‘ یسقون ( وہ پانی پلاتے ہیں) ‘ تذودان ( روکے ہوئے) ‘ ماخطبکما ( تم دونوں کا کیا معاملہ ہے) ‘ لانسقی (ہم نہیں پلاتیں) یصدر (واپس لے جاتا ہے۔ لے جاتے ہیں) ‘ الرعائ (راع) چرواہے) ‘ الظل (سایہ) ‘ تمشی (وہ چلتی ہے) تشریح : آیت نمبر 22 تا 25 : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرعون کی ظالمانہ کاروائیوں سے بچنے کے لئے ایک انجانی سی منزل کی طرف نکل کھڑے ہوئے۔ ہر مشکل کے وقت تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) اور صالحین کا ایک ہی طریقہ رہا ہے کہ وہ اپنے اللہ سے دعاکرکے مدد مانگتے ہیں چناچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بار گاہ رب العالمین میں عرض کیا الٰہی ! مجھے پوری توقع ہے کہ آپ مجھے کسی سیدھے راستے کی طرف ڈال دیں گے۔ اللہ نے ان کا رخ مدین کی طرف پھیر دیا۔ مدین جو کہ فرعون کی سلطنت سے باہرکا علاقہ تھا۔ آپ جب مدین کے کنویں پر پہنچے جہاں بہت سے لوگوں کی بھیڑ جمع تھی اور وہ اپنے اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دیکھا کہ دو لڑکیاں الگ تھلگ اپنے جانوروں کو روکے کھڑی ہیں۔ حضرت موسیٰ نے ان کی بےچارگی کو دیکھتے ہوئے پوچھا کہ تمہار کیا معاملہ ہے ؟ یعنی تم سب سے الگ تھلگ کیوں کھڑی ہو ؟ انہوں نے بتایا کہ ہم اس وقت تک اپنے جانوروں کو پانی نہیں پلاسکتیں جب تک یہ سارے چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلاکرنکل نہ جائیں۔ کہنے لگیں کہ ہمارے والد بہت بوڑھے اور کمزور ہیں اس لئے ہمیں یہ سب کچھ کرنا پڑتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جوان اور طاقت ور تھے انہوں نے آگے بڑھ کر ان لڑکویں کے جانوروں کو پانی پلادیا اور یقیناً ان کے گھر کے لئے پانی بھی دے دیا ہوگا۔ سفر کی شدید تکان اور بھوک پیاس کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بغیر کسی معاوضے کے یہ خدمت سرانجام دی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت مندوں اور کمزوروں کی مدد کرنا انبیاء کرام (علیہ السلام) کی ایک سنت ہے۔ جب یہ دونوں لڑکیاں خلاف معمول بہت جلد گھر آگئیں تو ان کے والد حضرت شعیب (علیہ السلام) نے حیرت سے پوچھا کہ آج اتنی جلدی تم کیسے آگئیں ؟ انہوں نے پورا واقعہ بتایا کہ ایک اجنبی مسافر نے ان کی کس طرح مدد کی۔ ادھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک درخت کے سائے میں بیٹھ کر رب العالمین سے عرض کرنے لگے کہ الٰہی ! آپ کی عنایتوں کا میں محتاج ہوں میرا پروردگار جو بھی نازل فرمائے گا اس کا میں حاجت مندہوں۔ جب حضرت شعیب (علیہ السلام) نے یہ پورا واقعہ سنا تو انہوں نے ان دونوں میں سے ایک لڑکی کو بھیجا کہ وہ اس مسافر کو ان کے پاس لے کر آئیں۔ چناچہ وہ شرم وحیا کا پیکر بنی ہوئی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس پہنچی اور کہا کہ ہمارے والد یہ چاہتے ہیں کہ آپ نے جو ہمارے ساتھ حسن سلوک کیا ہے شاید آپ کو اس کا صلہ دینا چاہتے ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) حضرت شعیب (علیہ السلام) کے پاس پہنچے اور پورا واقعہ کہہ سنایا۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے پورا واقعہ سننے کے بعد فرمایا کہ اے موسیٰ (علیہ السلام) آپ اب کسی طرح کا خوف نہ کریں آپ محفوظ جگہ ہیں اور آپ کو اللہ رب العالمین نے اس ظالم قوم سے نجات عطا فرمادی ہے۔ اس واقعہ کا بقیہ حصہ اگلی آیات میں آرہا ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ملک مدین کی طرف ہجرت اور راستے کی رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مصر میں پیدائش پائی اور ان کی تربیت بھی مصر شہر میں ہوئی تھی۔ ملک مصر سے باہر موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ پہلا سفر تھا وہ بھی انتہائی غم اور پریشانی کے عالم میں اچانک پیش آیا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نہیں جانتے تھے کہ مدین کی طرف کون سا راستہ جاتا ہے۔ معلوم نہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ارادۃً مدین کا سفر اختیار کیا یا اللہ تعالیٰ نے انھیں القاء فرمایا کیونکہ ابھی تک موسیٰ (علیہ السلام) کو نبوت عطا نہیں کی گئی تھی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مدین مصر کے قریب تر ہو۔ بہر حال یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ مدین مصر میں شامل نہ تھا۔ جس وجہ سے فرعون کی وہاں تک رسائی نہ تھی۔ اِ ن وجوہات کے پیش نظر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مدین کی طرف رخ کیا اور راستے میں مسلسل دعا کرتے رہے کہ میرے رب ! مجھے صحیح راستے کی رہنمائی فرما۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) مدین کے قریب پہنچے تو انھوں نے ایک گروہ کو اپنی بھیڑ بکریوں کو کنویں سے پانی پلاتے ہوئے پایا۔ جب وہ کنویں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ دونوں جوان لڑکیاں پانی کے انتظار میں کنویں سے ذراہٹ کر کھڑی ہوئی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے سے آگے بڑھ کر اپنے جانوروں کو پانی پلائے جا رہے ہیں۔ کسی نے خیال نہ کیا کہ ہم بچیوں کو جانوروں کو پانی پلانے کا موقع دیں۔ اس سے مدین کے معاشرے کی اخلاقی گراوٹ کا پتہ چلتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ صورتحال دیکھی تو بےقرار ہو کر لڑکیوں کی طرف

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

ولما توجہ تلقاء ۔۔۔۔۔۔ سوآء السبیل (22) ”(مصر سے نکل کر ) جب موسیٰ نے مدین کا رخ کیا تو اس نے کہا ” امید ہے کہ میرا رب ، مجھے ٹھیک راستے پر ڈال دے گا “۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) یکہ و تنہا مصر سے نکلنے پر مجبور کر دئیے گئے ہیں اور وہ ایک بےآب وگیاہ صحرا میں بغیر کسی زاد و عتاد کے جانب مدین رواں ہیں ، مدین کا علاقہ شام کے جنوب اور حجاز کے شمال میں ہے۔ یہ ایک طویل سفر ہے ، دور دراز کا سفر۔ جس کے لیے حضرت موسیٰ نے کوئی تیاری نہیں کی۔ وہ شہر سے نہایت ہی ڈر کی حالت میں سہمے ہوئے نکلے اور فرعون کے سردار ناصح نے انہیں مزید خوفزدہ کردیا تھا۔ اس لئے آپ نے ایک منٹ کی تاخیر کے بغیر وہاں سے نکل جانے میں عافیت سمجھی۔ اس ناصح کی نصیحت میں آپ نے کوئی شک نہ کیا اور نہ نکلنے میں کوئی تردد کیا۔ کسی کو راہنما بنانے کی تاخیر بھی نہ کی اور نہ کوئی رفیق سفر تلاش کیا۔ لکین صاف نظر آتا ہے کہ ان کا رخ اللہ کی طرف ہے ، اللہ کے آگے انہوں نے سرتسلیم خم کردیا ہے۔ صرف اللہ کی رہنمائی کے طالب ہیں۔ عسیٰ ربی ان یھدینی سوآء السبیل (28: 22) ” امید ہے کہ میرا رب مجھے ٹھیک راستے پر ڈال دے گا “۔ ایک بار پھر ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ خطرات میں گھر گئے ہیں۔ بچپن کے بعد وہ نہایت امن سے عیش و آرام سے زندگی بسر کر رہے تھے اور شاہی محل میں نہایت ہی آرام سے رہ رہے تھے لیکن وہی شہزادہ اب اکیلا اور تنہا صحرا نوردی کر رہا ہے اور اس کے پاس دنیا کا کوئی سازوسامان نہیں ہے۔ فرعون اور اس کے جاسوس اس کے تعاقب میں ہیں۔ ہر جگہ اس کی تلاش ہو رہی ہے۔ آج وہ اس سے انتقام لینا چاہتے ہیں اور اس سے وہ متاع حیات چھین لینا چاہتے ہیں۔ جو بچپن میں وہ نہ چھین سکے۔ لیکن قدرت کی جن قوتوں نے اسے اس وقت بچایا وہ آج بھی اس کے ساتھ ہیں۔ قدرت اسے اس کے دشمنوں کے سپرد کرنا ہرگز گوارہ نہیں کرتی۔ اس سے تو بہت سا کام لیا جانا ہے ، چناچہ وہ بےآب وگیاہ صحرا میں اکیلے جا رہے ہیں۔ اب وہ ایسے علاقے تک پہنچ گئے جہاں فرعون کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ نہ وہ انہیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

موسیٰ (علیہ السلام) کا مدین پہنچنا وہاں دو لڑکیوں کی بکریوں کو پانی پلانا پھر ان میں سے ایک لڑکی سے شادی ہونا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جب ایک شخص نے رائے دی کہ دربار والے تمہارے قتل کا مشورہ کر رہے ہیں تم یہاں سے نکل جاؤ تو وہ سرزمین مصر سے روانہ ہوگئے اور مدین کی طرف چل دیئے جو ملک شام کا ایک شہر ہے۔ یہ علاقہ فرعونی حکومت میں شامل نہیں تھا۔ اور وہ زمانہ پاسپورٹ اور ویزے کا بھی نہیں تھا جو شخص جس ملک میں اور جس شہر میں چاہتا جاسکتا تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے مدین کا رخ کیا وہاں کبھی تشریف نہیں لے گئے تھے راستہ معلوم نہیں تھا اللہ تعالیٰ سے خیر کی امید باندھ کر نکل کھڑے ہوئے اور یوں کہا کہ (عَسٰی رَبّْیْٓ اَنْ یَّھْدِیَنِیْ سَوَآء السَّبِیْلِ ) (امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھا راستہ بتادے گا) موسیٰ (علیہ السلام) تنہا تھے کوئی رہبر نہ تھا اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کر کے اور اللہ کی مدد سے سیدھی راہ پر چل کر مدین پہنچنے کی امید باندھ کر روانہ ہوگئے بالآخر صحیح سلامت مدین پہنچ گئے۔ پہنچ تو گئے لیکن وہاں کبھی نہ جانا ہوا تھا نہ کسی سے شناسائی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی مدد کے سوا کوئی ظاہری اور مجازی مددسامنے نہ تھی جب مدین پہنچے تو ایک کنوئیں پر گزر ہوا وہاں دیکھا کہ ایک بڑی جماعت ہے بھیڑ بھاڑ ہے بکریاں چرانے والے اپنی بکریاں لے کر آئے ہیں۔ اور انہیں پانی پلا رہے ہیں اور یہ بھی دیکھا کہ دو عورتیں اپنی بکریاں لیے کھڑی ہیں وہ اپنی بکریوں کو روک رہی ہیں تاکہ دوسروں کی بکریوں میں رل مل نہ جائیں اور دوسروں کا کھینچا ہوا پانی نہ پی لیں ورنہ پانی کھینچنے والے بکریوں کو مار بھگائیں گے جو ان کی اپنی نہیں ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان دونوں سے کہا کہ تمہارا کیا حال ہے، الگ کھڑے ہونے کا مقصد کیا ہے ان دونوں نے جواب دیا کہ یہ لوگ جو پانی پلا رہے ہیں، مرد ہیں ہم ان کے ساتھ ساتھ کنوئیں میں ڈول ڈال کر اپنی بکریوں کو پانی نہیں پلا سکتے، لہٰذا ہم یہ کرتے ہیں کہ جب چرواہے اپنے اپنے مویشیوں کو پانی پلا کر واپس لے جاتے ہیں تو ہم اپنی بکریوں کو پانی پلاتے ہیں۔ ایک تو عورت ذات مردوں کی بھیڑ میں ڈول نہیں کھینچ سکتی، دوسرے مردوں کے اختلاط سے بھی بچنا ہے چونکہ یہ ایک اشکال ہوتا تھا کہ بکریوں کو پانی پلانا تم دونوں کے ذمہ کیوں پڑا ؟ کیا تمہارے گھر میں کوئی مرد نہیں ہے اس لیے اس کا جواب بھی انہوں نے دے دیا (وَ اَبُوْنَا شَیْخٌ کَبِیْرٌ) کہہ کر بتادیا کہ ہمارے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ پانی پلانے کے لیے نہیں آسکتے اور اتنا کہنے کے بعد جو خاموشی اختیار کرلی اسی خاموشی میں یہ بھی بتادیا کہ نہ ہمارے شوہر ہیں اور نہ بھائی ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ترس آگیا اور جلدی سے آگے بڑھ کر ان کی بکریوں کو پانی پلا دیا اور پانی پلانے کے بعد کنوئیں سے ہٹ کر سایہ میں چلے گئے اور اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں متوجہ ہو کر عرض کیا (رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ) (اے میرے رب جو خیر آپ میرے لیے نازل فرمائیں میں اس کا محتاج ہوں۔ ) حضرت انبیائے کرام (علیہ السلام) اور مومنین صالحین کا یہی طریقہ رہا ہے کہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اور ہر مشکل میں اور ہر بےبسی میں اسی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ لفظ مِنْ خَیْرٍ میں جو نکرہ ہے اس کے عموم میں سب کچھ آگیا ہے۔ بھوک دور کرنے کا انتظام بھی، کچھ غذا بھی اور امن وامان بھی، نیز رہنے کا ٹھکانہ بھی، مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر سے روانہ ہو کر مدین پہنچے، پورے سفر میں سبزیوں کے پتے کھاتے رہے بھوک کی وجہ سے پیٹ کمر سے لگ گیا تھا بھوکے بھی تھے، دبلا پن بھی ظاہر ہو رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ سے جو خیر کا سوال کیا اس میں خاص طور سے کھانے والی چیز کا سوال بھی تھا۔ دونوں عورتیں آج اپنی بکریوں کو لے کر خلاف عادت جلدی گھر پہنچیں تو ان کے والد نے کہا کہ کیا بات ہے کہ آج تم جلدی آگئیں، انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے ہماری بکریوں کو پانی پلا دیا ہے اور ساتھ ہی اس شخص کی اچھی صفات بھی بیان کردیں۔ ان دونوں عورتوں کے والد نے کہا کہ اچھا جاؤ اس شخص کو بلا لاؤ۔ چناچہ ان دونوں میں سے ایک عورت آئی جو شرماتی ہوئی چل رہی تھی۔ روح المعانی میں لکھا ہے کہ اس نے اپنے چہرہ پر کپڑا ڈال رکھا تھا اس نے کہا کہ یقین جانئے کہ میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ کو پانی پلانے کا صلہ دیں۔ روح المعانی میں لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس کے ساتھ روانہ ہوگئے۔ لیکن انہوں نے پہلے ہی دیکھ لیا تھا کہ وہ شرماتی ہوئی آرہی ہے اور خود بھی شرمیلے تھے اور حیا و شرم تمام نبیوں کا شعار تھا لہٰذا اس عورت سے کہا کہ تو میرے پیچھے پیچھے چل اور مجھے راستہ بتاتی رہنا۔ دائیں بائیں جدھر کو مڑنا ہو بتادینا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی گوارہ نہ کیا کہ پردہ دار عورت کے پیچھے چلیں جو اچھی طرح کپڑوں کو ڈھانکی ہوتی تھی۔ اس طرح چلتے ہوئے اس لڑکی کے والد کے پاس پہنچے۔ جب ان کے پاس پہنچ گئے تو اپنا واقعہ بتایا۔ انہوں نے قصہ سن کر تسلی دی اور کہا کہ آپ خوفزدہ نہ ہوں آپ ظالم قوم سے نجات پا چکے ہیں جن لوگوں نے آپ کے قتل کا مشورہ کیا ہے ان کی دسترس سے نکل چکے ہیں اس ملک میں ان لوگوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ ان دونوں لڑکیوں میں سے ایک عورت نے کہا ابا جان اس شخص کو آپ ملازمت پر رکھ لیجیے۔ یہ بکریاں بھی چرائیں گے اور دوسری خدمت بھی انجام دیں گے۔ میرے نزدیک یہ شخص قوی بھی ہے امین بھی ہے اور ملازم رکھنے کے لیے وہی شخص بہتر ہے جو قوی ہو اور امین بھی ہو۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قوی ہونا ان کی بھری ہوئی جوانی سے ظاہر تھا اور پانی پلاتے وقت جو ان کا عمل دیکھا تھا اس سے بھی ان کی قوت و طاقت کا مظاہرہ ہوچکا تھا۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ جب ان دونوں عورتوں نے یوں کہا کہ ہم اس وقت تک پانی نہیں پلا سکتے جب تک چرواہے اپنے مویشیوں کو پانی پلا کر واپس نہ لے جائیں تو موسیٰ (علیہ السلام) نے دریافت فرمایا، کیا اس کنوئیں کے علاوہ کہیں اور بھی پانی ہے ؟ اس پر ان دونوں عورتوں نے کہا کہ ہاں قریب میں ایک کنواں اور ہے اسکے منہ پر ایک بھاری پتھر رکھا ہوا ہے اسے چند آدمی بھی مل کر نہیں اٹھا سکتے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ بتاؤ وہ کہاں ہے وہ دونوں انہیں اس کنویں پر لے گئیں حضرت موسیٰ نے ایک ہی ہاتھ سے اس پتھر کو ہٹا دیا پھر ان کی بکریوں کو پانی پلا کر پتھر کو اسی طرح کنویں کے منہ پر رکھ دیا جس طرح پہلے رکھا تھا۔ (روح المعانی ص ٦٣: ج ٢) اور موسیٰ (علیہ السلام) کا امین ہونا اس سے ظاہر ہوا کہ انہوں نے اپنی نظر تک کو خیانت سے بچایا اور یہاں تک احتیاط کی کہ عورت کو اپنے پیچھے چلنے کے لیے فرمایا اور خود آگے آگے چلے۔ شیخ مدین نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ان دونوں لڑکیوں میں سے تمہارے ساتھ ایک کا نکاح کر دوں، بشرطیکہ تم میرے پاس بطور اجیر آٹھ سال کام کرو۔ میری طرف سے تو آٹھ سال ہی کا مطالبہ رہے گا اور اگر تم دس سال پورے کر دو تو یہ تمہاری طرف سے بطور تفضل اور مہربانی کے ہوگا یعنی تمہاری طرف سے ایک احسان ہوگا۔ میں تمہیں تکلیف میں ڈالنا نہیں چاہتا، نہ دس سال پورے کرنے کے لیے کہوں گا اور نہ کاموں میں دارو گیر کروں گا۔ (قال فی الروح بالزام اتمام العشر والمناقشۃ فی مراعاۃ الاوقات واستیفاء الاعمال) ساتھ ہی یہ بھی فرمایا : (سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآء اللّٰہُ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ ) (کہ انشاء اللہ تم مجھے اچھے لوگوں میں پاؤگے) حسن معاملہ اور برتاؤ میں نرمی اور وفائے عہد میں تم مجھے اچھاپاؤ گے اور میری طرف سے کوئی دکھ تکلیف اور کدورت والی کوئی بات محسوس نہ کرو گے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو شیخ مدین کی پیش کش پسند آگئی اللہ تعالیٰ سے خیر کی دعا کی تھی اس کی قبولیت سامنے آگئی، نکاح کا بھی انتظام ہوگیا اور کھانے پینے کا بھی نیز رہنے کا ٹھکانہ بھی مل گیا، لہٰذا شیخ مدین کے جواب میں فرمایا کہ ہاں ٹھیک ہے یہ میرا اور آپ کا معاملہ اور معاہدہ ہوگیا، آپ بھی اپنی بات پر قائم رہیں اور میں بھی اس معاملے کے مطابق عمل کرتا رہوں گا جو آپ نے آٹھ یا دس سال کے لیے مجھ سے خدمت لینے کا معاملہ کیا۔ دونوں مدتوں میں جو بھی پورا کرلوں، مجھے اختیار ہے اگر آٹھ سال کے بعد میں نے کام چھوڑ دیا تو آپ کی طرف سے مجھ پر زیادہ تکلیف دینے کے لیے زیادتی نہ ہوگی۔ آخر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یوں کہا کہ (وَ اللّٰہُ عَلٰی مَانَقُوْلُ وَکِیْلٌ) (اللہ اس پر وکیل ہے جو ہم کہہ رہے ہیں) وکیل کا ترجمہ کسی نے نگران کا کیا ہے کسی نے گواہ کا کیا ہے اور کسی نے معنی معرف کا مراد لیا ہے۔ (وَ ھُوَ الَّذِیْ وُکِّلَ اِلَیْہِ الْاَمْرُ ) یہ سارے معانی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ وکیل بمعنی گواہ مراد لینے سے یہ مطلب ہوگا کہ ہم نے جو کچھ آپس میں معاہدہ و معاملہ کیا ہے ہم اس بارے میں اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتے ہیں کسی بھی فریق کو اپنے عہد کی مخالفت کرنے کی گنجائش نہ ہوگی۔ حضرت عتبہ بن ندر (رض) نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس تھے۔ آپ نے سورة طسٓمٓ پڑھی۔ یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے قصے تک پہنچ گئے (اور) فرمایا بلاشبہ موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی شرمگاہ کو پاک رکھنے کی اور اپنے پیٹ کی روزی حاصل کرنے کے لیے اپنی جان کو آٹھ سال یا دس سال مزدوری کے کام میں لگایا۔ (رواہ احمد وابن ماجہ ص ١٦٧) مفسر ابن کثیر (رض) نے متعدد روایات نقل کی ہیں جن میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پورے دس سال شیخ مدین کے پاس گزارے اور ان کی بکریاں چرائیں۔ (ابن کثیر ص ٣٨٦: ج ٣) شرح مواہب لدنیہ میں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت سیدہ فاطمہ (رض) حاضر خدمت ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ میرے اور علی کے پاس صرف ایک مینڈھے کی کھال ہے جس پر ہم رات کو سوتے ہیں اور دن کو اس پر اونٹ کو چارہ کھلاتے ہیں۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اے میری بیٹی ! صبر کر ! کیونکہ موسیٰ (علیہ السلام) نے دس برس تک اپنی بیوی کے ساتھ قیام کیا اور دونوں کے پاس صرف ایک عبا تھی (اسی کو اوڑھتے اور اسی کو بچھاتے تھے) اگر یہ روایت صحیح السند ہو تو پھر دس سال پورے کرنا متعین ہوجاتا ہے اور اس صورت میں حضرت عتبہ بن ندر (رض) کی روایت میں جو دس یا آٹھ سال کے الفاظ شک کے ساتھ ہیں اس شک کو راوی کے شک پر محمول کیا جائے گا۔ ١ ؂ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا کہ جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔ صحابہ نے عرض کیا، کیا آپ نے بھی بکریاں چرائی ہیں ؟ آپ نے فرمایا، ہاں چند قیراط کے عوض میں نے بھی اہل مکہ کی بکریاں چرائی ہیں۔ (رواہ البخاری ص ٣٠١) مرقات شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے کہ اس زمانہ میں ایک قیراط ایک درہم کا چھٹا حصہ ہوتا ہے۔ علماء نے فرمایا ہے کہ بکری ضعیف جنس ہے ادھر ادھر بھاگ جاتی ہے اسے مارا جائے تو ٹانگ ٹوٹنے کا اندیشہ ہوتا ہے لہٰذا بکری چرانے والے کو شفقت اور صبر سے ہی کام لینا پڑتا ہے۔ حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) نے پہلے بکریاں چرائیں، مزاج میں صبر اور تحمل کی شان پیدا ہوئی پھر ان کو نبوتیں عطا کی گئیں تاکہ مخالفین سے پیش آنے والی مصیبتوں پر صبر کرسکیں اور تحمل اور برداشت سے کام لیں۔ فوائد فائدہ اولیٰ : قرآن مجید میں اس کی تصریح نہیں ہے کہ ان دونوں عورتوں کے والد نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوئی معاوضہ دیایا کھانا کھلایا البتہ روح المعانی (ص ٦٥ ج ٢) میں ابن عساکر سے نقل کیا ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جب وہاں پہنچے تو شیخ رات کے کھانے کے لیے بیٹھے تھے انہوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا کہ آؤ کھانا کھاؤ۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا کہ مجھے ڈر ہے کہ یہ میرے پانی پلانے کا عوض بھی نہیں دے سکتے جس سے پوری زمین بھر جائے، شیخ نے کہا کہ یہ اجرت نہیں ہے۔ میرے اور میرے باپ دادوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ ہم مہمان نوازی کرتے ہیں اور کھانا کھلاتے ہیں، اس پر موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھالیا۔ ١ ؂ صحیح بخاری ص ٣٢٩ میں ہے کہ حضرت سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس (رض) سے دریافت کیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دونوں مدتوں میں سے کون سی مدت پوری کی، انہوں نے جواب میں فرمایا کہ دونوں میں جو اکثر اور اطیب تھی وہی پوری کی (یعنی دس سال شیخ مدین کی خدمت میں رہے) اللہ کے رسولوں کا یہ طریقہ رہا ہے کہ جب کوئی بات کہتے تھے تو اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ ولفظہ قضی اکثرھما واطیبھما ان رسول اللّٰہ اذا قال فعل (باب من امربانجاز الوعد) (اور حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دونوں مدتوں میں سے زیادہ اور بہتر مدت کو پورا کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا رسول جب کوئی بات کہتا ہے تو کر کے دکھاتا ہے) فائدہ ثانیہ : یہ شیخ مدین کون تھے جن کے یہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے قیام فرمایا ؟ اس کے بارے میں بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ یہ حضرت شعیب (علیہ السلام) تھے مفسر ابن کثیر (رض) نے حضرت حسن بصری (رض) کا یہ قول نقل کیا ہے لیکن بہت سے علماء نے فرمایا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ سے بہت پہلے گزر چکے تھے ان لوگوں کا استدلال سورة ہود کی آیت (وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْکُمْ بِبَعِیْدٍ ) سے ہے۔ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ لوط کی قوم زمانے کے اعتبار سے تم سے دور نہیں ہے اور یہ معلوم ہے کہ لوط (علیہ السلام) کی قوم کی ہلاکت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوئی تھی۔ حضرت موسیٰ اور حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے درمیان چار سو سال کا فصل تھا۔ پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے خسر شعیب (علیہ السلام) کیسے ہوسکتے ہیں ؟ بعض لوگوں نے اس اشکال کو یوں رفع کیا ہے کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کی عمر اتنی زیادہ دراز ہوئی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کا زمانہ پا لیا۔ لیکن اس کی کوئی سند نہیں۔ (ابن کثیر) صاحب روح المعانی نے حضرت ابو عبیدہ سے نقل کیا ہے کہ جو صاحب موسیٰ (علیہ السلام) کے خسر تھے ان کا نام اثرون تھا اور یہ حضرت شعیب (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے اور بعض حضرات نے ان کا نام ہارون اور بعض حضرات نے مروان اور بعض حضرات نے عاوید بتایا ہے اور ان سب کو حضرت شعیب (علیہ السلام) کا بھتیجا ظاہر کیا ہے۔ مفسر ابن جریر (رض) نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جس صاحب نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بطور اجیر اپنے یہاں رکھا تھا ان کا نام یثرب تھا۔ اس بارے میں بعض دیگر اقوال بھی ہیں۔ صاحب روح المعانی اور علامہ قرطبی (رض) کا رجحان اسی طرف ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خسر شعیب (علیہ السلام) ہی تھے، لیکن مفسر ابن کثیر (رض) نے ابن جریر سے نقل کیا ہے کہ (اِنَّ ھٰذَا لا یدرک الا بخبر و لا خبر تجب بہٖ الحجۃُ فِیْ ذٰلِکَ ) یعنی کسی حدیث کے بغیر اس کے بارے میں صحیح بات نہیں کہی جاسکتی اور اس بارے میں کوئی ایسی روایت سامنے نہیں ہے جس سے حجت قائم ہو سکے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ فائدہ ثالثہ : جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے شیخ مدین نے یوں کہا کہ میں آپ کو اپنے یہاں کام پر ملازم رکھنا چاہتا ہوں تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بلا تکلف اسے منظور فرما لیا اس سے معلوم ہوا کہ اپنی ضرورت اور حاجت کے لیے مزدوری کرنا کوئی عار اور عیب نہیں ہے، خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بارے میں فرمایا کہ میں نے بھی چند قیراط کے عوض اہل مکہ کی بکریاں چرائی ہیں۔ (کما مر فی الحدیث) بہت سے لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ کچھ پڑھ لکھ لیتے ہیں یا اپنے آپ کو کسی اونچے خاندان کا فرد سمجھتے ہیں تو ملازمت و مزدوری کرنے کو عار سمجھتے ہیں۔ بھوکے رہتے ہیں۔ حاجتیں رکی رہتی ہیں۔ لیکن مزدوری کرنے سے بچتے ہیں اور اس میں اپنی حقارت سمجھتے ہیں۔ قرضوں پر قرضے لیے چلے جاتے ہیں جبکہ ادائیگی کا بظاہر انتظام بھی نہیں ہوتا لیکن محنت مزدوری کر کے کسب حلال کی طرف نہیں بڑھتے۔ یہ صالحین کا طریقہ نہیں ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ مدین حضرت شعیب (علیہ السلام) کا شہر تھا۔ یہ شہر فرعون کی سلطنت سے باہر تھا اور مصر سے قریب بھی تھا اس لیے مدین کا رخ کیا۔ و مدین قریۃ شعیب (علیہ السلام) سمیت بمدین بن ابراہیم ولم تکن فی سلطان فرعون و بینہا و بین مصر مسیرۃ ثمانیۃ ایام (مدارک ج 3 ص 176) ۔ راستہ چونکہ صحیح معلوم نہ تھا اس لیے محض اندازے سے ایک راستہ پکڑ لیا اور خدا کے بھروسے پر چل دئیے کہ وہ اپنی مہربانی سے سیدھی راہ پر ڈال دے گا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

22۔ اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے مدین کی سمت اور مدین کی جانب رخ کیا تو کہا امید ہے کہ میرا پروردگار مجھے سیدھے راستہ پرچلائے گا اور مجھے سیدھی راہ پر لے جائیگا ۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے تو کلا علی اللہ یہ سفر اختیار کیا اللہ تعالیٰ نے ان کی صحیح رہنمائی فرمائی اور ان کو سیدھے راستے لگا دیا اور وہ ایک ایسی پگڈنڈی پڑگئے جو سیدھی مدین کو جاتی تھی ، آٹھ روز تک برابر سفر کرتے رہے گھاس پات کھا کر گزر کرتے اور حضرت حق تعالیٰ سے لو لگائے ہوئے چلے جاتے تھے آٹھ روز کی پیہم سفر کے بعد وہ مدین کے پانی پر پہنچ گئے ادھر فرعون کی پولیس اپنی حدود کے اندر جگہ جگہ دیکھتی پھر ی اور اس کو کہیں پتہ نہ چلا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یہ واقف نہ تھے راہ سے اللہ نے اسی راہ پر ڈال دیا ۔ 12