Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 36

سورة القصص

فَلَمَّا جَآءَہُمۡ مُّوۡسٰی بِاٰیٰتِنَا بَیِّنٰتٍ قَالُوۡا مَا ہٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّفۡتَرًی وَّ مَا سَمِعۡنَا بِہٰذَا فِیۡۤ اٰبَآئِنَا الۡاَوَّلِیۡنَ ﴿۳۶﴾

But when Moses came to them with Our signs as clear evidences, they said, "This is not except invented magic, and we have not heard of this [religion] among our forefathers."

پس جب ان کے پاس موسیٰ ( علیہ السلام ) ہمارے دیئے ہوئے کھلے معجزے لے کر پہنچے تووہ کہنے لگے یہ تو صرف گھڑا گھڑایا جادو ہے ہم نے اپنے اگلے باپ دادوں کے زمانہ میں کبھی یہ نہیں سنا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Musa before Fir`awn and His People Allah tells: فَلَمَّا جَاءهُم مُّوسَى بِأيَاتِنَا بَيِّنَاتٍ قَالُوا ... Then when Musa came to them with Our Clear Ayat, they said: Allah tells us how Musa and his brother Harun came before Fir`awn and his chiefs, and showed them the clear miracles and overwhelming proof that Allah had given them to confirm the truth of what they were saying about Allah being One and that His commandments were to be followed. Fir`awn and his chiefs saw that with their own eyes and realized that it was certainly from Allah, but because of their disbelief and sin they resorted to stubbornness and false arguments. This was because they were too evil and arrogant to follow the truth. They said: ... مَا هَذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُّفْتَرًى ... This is nothing but invented magic. meaning, fabricated and made up. They wanted to oppose him by means of their own tricks and their position and power, but this did not work. ... وَمَا سَمِعْنَا بِهَذَا فِي ابَايِنَا الاَْوَّلِينَ Never did we hear of this among our fathers of old. They were referring worshipping Allah Alone, with no partner or associate. They said: "We have never seen anyone among our forefathers following this religion; we have only ever seen people associating other gods in worship with Allah.

فرعونی قوم کا رویہ حضرت موسیٰ علیہ السلام خلعت نبوت سے اور کلام الٰہی سے ممتاز ہو کر بحکم اللہ مصر میں پہنچے اور فرعون اور فرعونیوں کو اللہ کی وحدت اور اپنی رسالت کی تلقین کے ساتھ ہی جو معجزے اللہ نے دئیے تھے انہیں دکھایا ۔ سب کو مع فرعون کے یقین کامل ہوگیا کہ بیشک حضرت موسیٰ اللہ کے رسول ہیں ۔ لیکن مدتوں کا غرور اور پرانا کفر سر اٹھائے بغیر نہ رہا اور زبانیں دل کے خلاف کر کے کہنے لگے یہ تو صرف مصنوعی جادو ہے ۔ اب فرعونی اپنے دبدے اور قوت وطاقت سے حق کے مقابلے پر جم گئے اور اللہ کے نبیوں کا سامنا کرنے پر تل گئے اور کہنے لگے کبھی ہم نے تو نہیں سنا کہ اللہ ایک ہے اور ہم تو کیا ہمارے اگلے باپ دادوں کے کان بھی آشنا نہیں تھے ۔ ہم سب کے سب مع اپنے بڑے چھوٹوں کے بہت سے معبودوں کو پوجتے رہے ۔ یہ نئی باتیں لے کر کہاں سے آگیا ؟ کلیم اللہ حضرت موسیٰ نے جواب دیا کہ مجھے اور تم کو اللہ خوب جانتا ہے وہی ہم تم میں فیصلہ کرے گا ہم میں سے ہدایت پر کون ہے؟ اور کون نیک انجام پر ہے؟ اس کا علم بھی اللہ ہی کو ہے وہ فیصلہ کردے گا اور تم عنقریب دیکھ لوگے کہ اللہ کی تائید کس کا ساتھ دیتی ہے؟ ظالم یعنی مشرک کبھی خوش انجام اور شاد کام نہیں ہوئے وہ نجات سے محروم ہیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

361یعنی یہ دعوت کہ کائنات میں صرف ایک ہی اللہ اس کے لائق ہے کہ اس کی عبادت کی جائے ہمارے لئے بالکل نئی بات ہے۔ یہ ہم نے سنی ہے نہ ہمارے باپ دادا اس توحید سے واقف تھے مشرکین مکہ نے بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بابت کہا تھا ' اس نے تو تمام معبودوں کو (ختم کر کے) ایک ہی معبود بنادیا ہے ؟ یہ تو بڑی ہی عجیب بات ہے '۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٦] موسیٰ یہ عظیم ذمہ اٹھائے طویٰ کے میدان سے واپس لوٹے۔ درمیان میں ایک خلا ہے جس کو قرآن نے غیر اہم سمجھ کر بتلانا چھوڑ دیا ہے۔ جو یہ کہ وہاں سے موسیٰ اپنے بال بچوں کو لے کر سیدھے اپنے گھر ہی پہنچے ہوں گے۔ وہاں والدین اور بہن بھائی سے ملاقات۔ اپنے بھائی ہارون سے تمام حالات کا تفصیلی تذکرہ وغیرہ چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ انہی ایام میں ہارون کو نبوت عطا ہوگی۔ قرآن آگے یہاں سے ان کا قصہ ذکر کرتا ہے کہ وہ دونوں بھائی فرعون کے دربار میں پہنچ گئے۔ ان کی رسائی دربار میں کس انداز سے ہوئی ؟ یہ بات معلوم نہیں۔ بہرحال دربار میں پہنچ کر موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کا پیغام تفصیل سے فرعون اور اس کے درباریوں تک پہنچ دیا۔ اور اس کی تفصیل دوسرے مقامات پر مذکور ہے۔ یہاں صرف اسی قدر ذکر کیا گیا ہے کہ جب فرعون اور اس کے درباریوں کے مطالبہ پر موسیٰ نے اپنی نبوت کی صداقت کے طور پر یہ دونوں معجزات دکھلائے تو اگرچہ فرعون کو آپ کی نبوت کا دل میں یقین ہوچکا تھا اور اسی وجہ سے اسے قتل کے جرم میں آپ کو قتل کردینے کی کسی وقت بھی ہمت نہ پڑی۔ تاہم عام لوگوں پر نبوت کے اثر کو دور رکھنے کے لئے انہوں نے فوراً یہ کہہ دیا کہ یہ بھلا کون سی نبوت کی علامت ہے۔ ایسی شعبدہ بازیاں تو دوسرے جادوگر بھی دکھلا سکتے ہیں۔ ان کو بھلا کبھی کسی نے نبی تسلیم کیا ہے ؟ [٤٧] ان باتوں کی تفصیل پہلے متعدد مقامات پر گزر چکی ہیں اور وہ باتیں یہ تھیں کہ مقتدر اعلیٰ اور مختار مطلق ہستی تم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ ہے۔ جو ساری کائنات کا خالق ومالک ہے۔ اسی نے مجھے رسول بنایا اور یہ معجزات بطور علامت دے کر تمہارے پاس بھیجا ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ تم سرکشی چھوڑ دو اپنی خدائی کے دعویٰ سے باز آجاؤ۔ اسی اللہ کو قانونی اور سیاسی اقتدار اعلیٰ تسلیم کرلو۔ اسی کی عبادت کرو۔ فرعون نے کہا کہ یہ تھا کہ میرے اوپر بھی کسی مختار مطلق ہستی ہونے کی بات ایسی بات ہے۔ جو ہم نے اپنے آباء سے کبھی نہیں سنی۔ جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہ فراعنہ مصر کئی پشتوں سے خود مختار و مطلق فرمانروا بنے بیٹھے تھے۔ اور قانونی اور سیاسی اختیارات میں اپنے اوپر کسی بالاتر ہستی کے قائل نہ تھے۔ اسی بات کو ان کے خدائی کے دعویٰ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَلَمَّا جَاۗءَهُمْ مُّوْسٰي بِاٰيٰتِنَا بَيِّنٰتٍ ۔۔ : موسیٰ (علیہ السلام) یہ ذمہ داری لے کر وادی طویٰ سے واپس لوٹے۔ درمیان کی بات قرآن نے یہاں چھوڑ دی ہے کہ وہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ اپنے گھر آئے۔ والدین اور بھائی بہنوں سے ملاقات کی، ہارون (علیہ السلام) کو نبوت عطا ہونے کا ماجرا سنایا، پھر دونوں بھائی فرعون اور اس کے سرداروں کو دعوت دینے کے لیے ان کے دربار میں پہنچے اور انھیں توحید الٰہی کی دعوت دی اور انھیں اللہ کی طرف سے اپنی رسالت کا اور بنی اسرائیل کو آزادی دینے کا حکم سنایا۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ دعوت سورة طٰہٰ (٤٧ تا ٥٤) اور شعراء (١٦ تا ٣٣) میں تفصیل سے بیان ہوئی ہے۔ جب فرعون نے ان کی دعوت قبول کرنے سے انکار کیا تو انھوں نے اپنی رسالت کی دلیل کے طور پر عصا اور ید بیضا کا معجزہ پیش کیا۔ فرعون کے پاس ان معجزوں کا کوئی جواب نہیں تھا، وہ دل سے موسیٰ (علیہ السلام) کے سچا نبی ہونے کو مان چکا تھا۔ دیکھیے بنی اسرائیل (١٠٢) اور نمل (١٤) مگر اس نے اپنی قوم کو بیوقوف بنانے کے لیے دو باتیں کہیں، ایک یہ کہ تمہارا عصا اور ید بیضا سحر مفتری ہے، یعنی تمہارا گھڑا ہوا اور بنایا ہوا جادو ہے، حقیقت اس کی کچھ نہیں۔ سورة اعراف (١٠٩ تا ١٢٦) ، طٰہٰ (٥٥ تا ٧٦) اور شعراء (٣٤ تا ٥١) میں اس کے جادوگر جمع کر کے ان معجزات کے مقابلے کا اور جادوگروں کے ناکام ہو کر مسلمان ہوجانے کا ذکر گزر چکا ہے۔ دوسری بات اس نے یہ کہی کہ ہم نے توحید کی یہ دعوت اپنے پہلے آبا و اجداد میں نہیں سنی۔ فرعون کی اس بات کی بنیاد محض آبا و اجداد کی تقلید تھی، جو ان لوگوں کی دلیل ہوتی ہے جن کے پاس کوئی دلیل نہ ہو اور وہ محض ہٹ دھرمی سے کسی غلط بات پر ڈٹ جائیں۔ بھلا یہ بھی کوئی دلیل ہے کہ میں نے خسارے کا سودا کرنا ہی کرنا ہے، کیونکہ میرے باپ نے خسارے کا سودا کیا تھا۔ فرعون ہی نہیں تمام باطل پرستوں کے پاس حق کے انکار کا یہی بہانہ ہوتا ہے۔ دیکھیے سورة بقرہ (١٧٠) ۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ فرعون کا یہ کہنا جھوٹ تھا کہ ہم نے اپنے پہلے آباء میں یہ بات نہیں سنی، کیونکہ اس سے پہلے مصر میں یوسف (علیہ السلام) گزر چکے تھے جو قید خانے میں بھی توحید کی دعوت کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے، جیسا کہ قریش مکہ کا یہ کہنا جھوٹ تھا کہ ہم نے اپنے آباء میں یہ بات نہیں سنی، حالانکہ ان کے آبا و اجداد میں ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) تھے جو بتوں کو توڑنے والے تھے اور توحید الٰہی کے زبردست علمبردار تھے، مگر فرعون اور قریش مکہ نے صرف ان آباء کو دلیل بنایا جو عقل و ہدایت دونوں سے خالی تھے، فرمایا : (اَوَلَوْ كَانَ اٰبَاۗؤُھُمْ لَا يَعْقِلُوْنَ شَـيْــــًٔـا وَّلَا يَهْتَدُوْنَ ) [ البقرۃ : ١٧٠ ]” کیا اگرچہ ان کے باپ دادا نہ کچھ سمجھتے ہوں اور نہ ہدایت پاتے ہوں۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر غرض جب ان لوگوں کے پاس موسیٰ (علیہ السلام) ہماری صریح دلیلیں لے کر آئے تو ان لوگوں نے (معجزات دیکھ کر) کہا کہ یہ تو محض ایک جادو ہے کہ (خواہ مخواہ اللہ تعالیٰ پر) افترا کیا جاتا ہے (کہ یہ اس کی جانب سے معجزات اور دلیل رسالت ہیں) اور ہم نے ایسی بات کبھی نہیں سنی کہ ہمارے اگلے باپ دادوں کے وقت میں بھی ہوئی ہو اور موسیٰ (علیہ السلام) نے (اس کے جواب میں) فرمایا کہ (جب باوجود دلائل صحیحہ قائم ہونے کے اور اس میں کوئی شبہ معقول نہ نکال سکنے کے بعد بھی نہیں مانتے تو یہ ہٹ دھرمی ہے اور اس کا اخیر جواب یہی ہے کہ) میرا پروردگار اس شخص کو خوب جانتا ہے جو صحیح دین اس کے پاس سے لے کر آیا ہے اور جس کا انجام (یعنی خاتمہ) اس عالم (دنیا سے) اچھا ہونے والا ہے ( اور بالیقین ظالم لوگ ( جو کہ ہدایت اور دین صحیح پر نہ ہوں) کبھی فلاح نہ پاویں گے (کیونکہ ان کا انجام اچھا نہ ہوگا۔ مطلب یہ کہ خدا کو خوب معلوم ہے کہ ہم میں اور تم میں کون اہل ہُدٰی ہے اور کون ظالم اور کون محمود العاقبت ہے اور کون محروم عن الفلاح پس ہر ایک کی حالت اور ثمرہ کا جلد ہی مرنے کے ساتھ ہی ظہور ہوجاوے گا اب نہیں مانتے تم جانو) اور (دلائل موسویہ دیکھ کر اور سن کر) فرعون کو (اندیشہ ہوا کہ کہیں ہمارے معتقدین ان کی طرف مائل نہ ہوجاویں تو لوگوں کو جمع کر کے) کہنے لگا اے اہل دربار مجھ کو تو تمہارا اپنے سوا کوئی خدا معلوم نہیں ہوتا (اس کے بعد تلبیس کے واسطے اپنے وزیر سے کہا کہ اگر اس سے ان لوگوں کا اطمینان نہ ہو تو) اے ہامان تم ہمارے لئے مٹی (کی اینٹیں بنوا کر ان) کو آگ میں پزاوہ لگا کر پکواؤ پھر (ان پختہ اینٹوں سے) میرے واسطے ایک بلند عمارت بنواؤ تاکہ (میں اس پر چڑھ کر) موسیٰ کے خدا کو دیکھوں بھالوں اور میں تو (اس دعوی میں کہ کوئی اور خدا ہے) موسیٰ کو جھوٹا ہی سمجھتا ہوں اور فرعون اور اس کے تابعین نے ناحق دنیا میں سر اٹھا رکھا تھا اور یوں سمجھ رہے تھے کہ ان کو ہمارے پاس لوٹ کر آنا نہیں ہے تو ہم نے (اس تکبر کی سزا میں) اس کو اور اس کے تابعین کو پکڑ کر دریا میں پھینک دیا (یعنی غرق کردیا) سو دیکھئے ظالموں کا انجام کیسا ہوا (اور موسیٰ (علیہ السلام) کے قول کا ظہور ہوگیا مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِ ۭ اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ ) اور ہم نے ان لوگوں کو ایسا رئیس بنایا تھا جو (لوگوں کو) دوزخ کی طرف بلاتے رہے اور (اسی واسطے) قیامت کے روز (ایسے بےکس رہ جاویں گے کہ) ان کا کوئی ساتھ نہ دے گا اور (یہ لوگ دونوں عالم میں خائب و خاسر ہوئے چنانچہ) دنیا میں بھی ہم نے ان کے پیچھے لعنت لگا دی اور قیامت کے دن بھی بدحال لوگوں میں سے ہوں گے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَلَمَّا جَاۗءَہُمْ مُّوْسٰي بِاٰيٰتِنَا بَيِّنٰتٍ قَالُوْا مَا ہٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًى وَّمَا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِيْٓ اٰبَاۗىِٕنَا الْاَوَّلِيْنَ۝ ٣٦ موسی مُوسَى من جعله عربيّا فمنقول عن مُوسَى الحدید، يقال : أَوْسَيْتُ رأسه : حلقته . بينات يقال : بَانَ واسْتَبَانَ وتَبَيَّنَ نحو عجل واستعجل وتعجّل وقد بَيَّنْتُهُ. قال اللہ سبحانه : وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] ، وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] ، ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] ، قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ، قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ، وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] ، وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ، لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] ، فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] ، وقال : شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] . ويقال : آية مُبَيَّنَة اعتبارا بمن بيّنها، وآية مُبَيِّنَة اعتبارا بنفسها، وآیات مبيّنات ومبيّنات . والبَيِّنَة : الدلالة الواضحة عقلية کانت أو محسوسة، وسمي الشاهدان بيّنة لقوله عليه السلام : «البيّنة علی المدّعي والیمین علی من أنكر» «2» ، وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . وقال سبحانه : أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] ، وقال : لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] ، جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] . والبَيَان : الکشف عن الشیء، وهو أعمّ من النطق، لأنّ النطق مختص بالإنسان، ويسمّى ما بيّن به بيانا . قال بعضهم : البیان يكون علی ضربین : أحدهما بالتسخیر، وهو الأشياء التي تدلّ علی حال من الأحوال من آثار الصنعة . والثاني بالاختبار، وذلک إما يكون نطقا، أو کتابة، أو إشارة . فممّا هو بيان بالحال قوله : وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] ، أي : كونه عدوّا بَيِّن في الحال . تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونا عَمَّا كانَ يَعْبُدُ آباؤُنا فَأْتُونا بِسُلْطانٍ مُبِينٍ [إبراهيم/ 10] . وما هو بيان بالاختبار فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 43- 44] ( ب ی ن ) البین کے معنی ظاہر اور واضح ہوجانے کے ہیں اور بینہ کے معنی کسی چیز کو ظاہر اور واضح کردینے کے قرآن میں ہے ۔ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنا بِهِمْ [إبراهيم/ 45] اور تم پر ظاہر ہوچکا تھا کہ ہم نے ان لوگوں کے ساتھ کس طرح ( کاملہ ) کیا تھا ۔ وَقَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنْ مَساكِنِهِمْ [ العنکبوت/ 38] چناچہ ان کے ( ویران ) گھر تمہاری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔ ولِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ [ الأنعام/ 55] اور اس لئے کہ گنہگاروں کا رستہ ظاہر ہوجائے ۔ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ [ البقرة/ 256] ہدایت صاف طور پر ظاہر ( اور ) گمراہی سے الگ ہوچکی ہو ۔ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآياتِ [ آل عمران/ 118] ہم نے تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سنا دیں ۔ وَلِأُبَيِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ الزخرف/ 63] نیز اس لئے کہ بعض باتیں جن میں تم اختلاف کررہے ہو تم کو سمجھا دوں وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ [ النحل/ 44] ہم نے تم پر بھی یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو ( ارشادت ) لوگوں پر نازل ہوئے ہیں وہ ان پر ظاہر کردو ۔ لِيُبَيِّنَ لَهُمُ الَّذِي يَخْتَلِفُونَ فِيهِ [ النحل/ 39] تاکہ جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں وہ ان پر ظاہر کردے ۔ فِيهِ آياتٌ بَيِّناتٌ [ آل عمران/ 97] اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں ۔ شَهْرُ رَمَضانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدىً لِلنَّاسِ وَبَيِّناتٍ [ البقرة/ 185] ( روزوں کا مہنہ ) رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن ( وال وال ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے ۔ اور بیان کرنے والے کے اعتبار ہے آیت کو مبینۃ نجہ کہا جاتا ہے کے معنی واضح دلیل کے ہیں ۔ خواہ وہ دلالت عقلیہ ہو یا محسوسۃ اور شاھدان ( دو گواہ ) کو بھی بینۃ کہا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت نے فرمایا ہے : کہ مدعی پر گواہ لانا ہے اور مدعا علیہ پر حلف ۔ قرآن میں ہے أَفَمَنْ كانَ عَلى بَيِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ [هود/ 17] بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل ( روشن رکھتے ہیں ۔ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ [ الأنفال/ 42] تاکہ جو مرے بصیرت پر ( یعنی یقین جان کر ) مرے اور جو جیتا رہے وہ بھی بصیرت پر ) یعنی حق پہچان کر ) جیتا رہے ۔ جاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّناتِ [ الروم/ 9] ان کے پاس ان کے پیغمبر نشانیاں کے کر آئے ۔ البیان کے معنی کسی چیز کو واضح کرنے کے ہیں اور یہ نطق سے عام ہے ۔ کیونکہ نطق انسان کے ساتھ مختس ہے اور کبھی جس چیز کے ذریعہ بیان کیا جاتا ہے ۔ اسے بھی بیان کہہ دیتے ہیں بعض کہتے ہیں کہ بیان ، ، دو قسم پر ہے ۔ ایک بیان بالتحبیر یعنی وہ اشیا جو اس کے آثار صنعت میں سے کسی حالت پر دال ہوں ، دوسرے بیان بالا ختیار اور یہ یا تو زبان کے ذریعہ ہوگا اور یا بذریعہ کتابت اور اشارہ کے چناچہ بیان حالت کے متعلق فرمایا ۔ وَلا يَصُدَّنَّكُمُ الشَّيْطانُ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ [ الزخرف/ 62] اور ( کہیں ) شیطان تم کو ( اس سے ) روک نہ دے وہ تو تمہارا علانیہ دشمن ہے ۔ یعنی اس کا دشمن ہونا اس کی حالت اور آثار سے ظاہر ہے ۔ اور بیان بالا ختیار کے متعلق فرمایا : ۔ فَسْئَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لا تَعْلَمُونَ بِالْبَيِّناتِ وَالزُّبُرِ وَأَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِمْ اگر تم نہیں جانتے تو اہل کتاب سے پوچھ لو ۔ اور ان پیغمروں ( کو ) دلیلیں اور کتابیں دے کر بھیجا تھا ۔ سحر والسِّحْرُ يقال علی معان : الأوّل : الخداع وتخييلات لا حقیقة لها، نحو ما يفعله المشعبذ بصرف الأبصار عمّا يفعله لخفّة يد، وما يفعله النمّام بقول مزخرف عائق للأسماع، وعلی ذلک قوله تعالی: سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] والثاني : استجلاب معاونة الشّيطان بضرب من التّقرّب إليه، کقوله تعالی: هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ، والثالث : ما يذهب إليه الأغتام «1» ، وهو اسم لفعل يزعمون أنه من قوّته يغيّر الصّور والطّبائع، فيجعل الإنسان حمارا، ولا حقیقة لذلک عند المحصّلين . وقد تصوّر من السّحر تارة حسنه، فقیل : «إنّ من البیان لسحرا» «2» ، وتارة دقّة فعله حتی قالت الأطباء : الطّبيعية ساحرة، وسمّوا الغذاء سِحْراً من حيث إنه يدقّ ويلطف تأثيره، قال تعالی: بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15] ، ( س ح ر) السحر اور سحر کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے اول دھوکا اور بےحقیقت تخیلات پر بولاجاتا ہے جیسا کہ شعبدہ باز اپنے ہاتھ کی صفائی سے نظرون کو حقیقت سے پھیر دیتا ہے یانمام ملمع سازی کی باتین کرکے کانو کو صحیح بات سننے سے روک دیتا ہے چناچہ آیات :۔ سَحَرُوا أَعْيُنَ النَّاسِ وَاسْتَرْهَبُوهُمْ [ الأعراف/ 116] تو انہوں نے جادو کے زور سے لوگوں کی نظر بندی کردی اور ان سب کو دہشت میں ڈال دیا ۔ دوم شیطان سے کسی طرح کا تقرب حاصل کرکے اس سے مدد چاہنا جیسا کہ قرآن میں ہے : هَلْ أُنَبِّئُكُمْ عَلى مَنْ تَنَزَّلُ الشَّياطِينُ تَنَزَّلُ عَلى كُلِّ أَفَّاكٍ أَثِيمٍ [ الشعراء/ 221- 222] ( کہ ) کیا تمہیں بتاؤں گس پر شیطان اترا کرتے ہیں ( ہاں تو وہ اترا کرتے ہیں ہر جھوٹے بدکردار پر ۔ اور اس کے تیسرے معنی وہ ہیں جو عوام مراد لیتے ہیں یعنی سحر وہ علم ہے جس کی قوت سے صور اور طبائع کو بدلا جاسکتا ہے ( مثلا ) انسان کو گدھا بنا دیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت شناس علماء کے نزدیک ایسے علم کی کچھ حقیقت نہیں ہے ۔ پھر کسی چیز کو سحر کہنے سے کبھی اس شے کی تعریف مقصود ہوتی ہے جیسے کہا گیا ہے (174) ان من البیان لسحرا ( کہ بعض بیان جادو اثر ہوتا ہے ) اور کبھی اس کے عمل کی لطافت مراد ہوتی ہے چناچہ اطباء طبیعت کو ، ، ساحرۃ کہتے ہیں اور غذا کو سحر سے موسوم کرتے ہیں کیونکہ اس کی تاثیر نہایت ہی لطیف ادرباریک ہوتی ہے ۔ قرآن میں ہے : بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَسْحُورُونَ [ الحجر/ 15]( یا ) یہ تو نہیں کہ ہم پر کسی نے جادو کردیا ہے ۔ یعنی سحر کے ذریعہ ہمیں اس کی معرفت سے پھیر دیا گیا ہے ۔ فری الفَرْيُ : قطع الجلد للخرز والإصلاح، والْإِفْرَاءُ للإفساد، والِافْتِرَاءُ فيهما، وفي الإفساد أكثر، وکذلک استعمل في القرآن في الکذب والشّرک والظّلم . نحو : وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] ، ( ف ری ) القری ( ن ) کے معنی چمڑے کو سینے اور درست کرنے کے لئے اسے کاٹنے کے ہیں اور افراء افعال ) کے معنی اسے خراب کرنے کے لئے کاٹنے کے ۔ افتراء ( افتعال کا لفظ صلاح اور فساد دونوں کے لئے آتا ہے اس کا زیادہ تر استعمال افسادی ہی کے معنوں میں ہوتا ہے اسی لئے قرآن پاک میں جھوٹ شرک اور ظلم کے موقعوں پر استعمال کیا گیا ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدِ افْتَرى إِثْماً عَظِيماً [ النساء/ 48] جس نے خدا کا شریک مقرر کیا اس نے بڑا بہتان باندھا ۔ سمع السَّمْعُ : قوّة في الأذن به يدرک الأصوات، وفعله يقال له السَّمْعُ أيضا، وقد سمع سمعا . ويعبّر تارة بالسمّع عن الأذن نحو : خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] ، وتارة عن فعله كَالسَّمَاعِ نحو : إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] ، وقال تعالی: أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] ، وتارة عن الفهم، وتارة عن الطاعة، تقول : اسْمَعْ ما أقول لك، ولم تسمع ما قلت، وتعني لم تفهم، قال تعالی: وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] ، ( س م ع ) السمع ۔ قوت سامعہ ۔ کا ن میں ایک حاسہ کا نام ہے جس کے ذریعہ آوازوں کا اور اک ہوتا ہے اداس کے معنی سننا ( مصدر ) بھی آتے ہیں اور کبھی اس سے خود کان مراد لیا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ خَتَمَ اللَّهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمْعِهِمْ [ البقرة/ 7] خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا رکھی ہے ۔ اور کبھی لفظ سماع کی طرح اس سے مصدر ی معنی مراد ہوتے ہیں ( یعنی سننا ) چناچہ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّهُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُولُونَ [ الشعراء/ 212] وہ ( آسمائی باتوں کے ) سننے ( کے مقامات ) سے الگ کردیئے گئے ہیں ۔ أَوْ أَلْقَى السَّمْعَ وَهُوَ شَهِيدٌ [ ق/ 37] یا دل سے متوجہ ہو کر سنتا ہے ۔ اور کبھی سمع کے معنی فہم و تدبر اور کبھی طاعت بھی آجاتے ہیں مثلا تم کہو ۔ اسمع ما اقول لک میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو لم تسمع ماقلت لک تم نے میری بات سمجھی نہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِذا تُتْلى عَلَيْهِمْ آياتُنا قالُوا قَدْ سَمِعْنا لَوْ نَشاءُ لَقُلْنا[ الأنفال/ 31] اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ( یہ کلام ) ہم نے سن لیا ہے اگر چاہیں تو اسی طرح کا ( کلام ) ہم بھی کہدیں ۔ أب الأب : الوالد، ويسمّى كلّ من کان سببا في إيجاد شيءٍ أو صلاحه أو ظهوره أبا، ولذلک يسمّى النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم أبا المؤمنین، قال اللہ تعالی: النَّبِيُّ أَوْلى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْواجُهُ أُمَّهاتُهُمْ [ الأحزاب/ 6] ( اب و ) الاب ۔ اس کے اصل معنی تو والد کے ہیں ( مجازا) ہر اس شخص کو جو کسی شے کی ایجاد ، ظہور یا اصلاح کا سبب ہوا سے ابوہ کہہ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آیت کریمہ ۔ { النَّبِيُّ أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ } [ الأحزاب : 6] میں آنحضرت کو مومنین کا باپ قرار دیا گیا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٦) غرض کہ جب موسیٰ (علیہ السلام) ان لوگوں کے پاس ہماری کھلی نشانیاں یعنی یدبیضاء اور عصا لے کر آئے تو ان لوگوں نے کہا موسیٰ (علیہ السلام) یہ جو تم لے کر آئے ہو یہ تو تمہارے خود کا گھڑا ہوا ایک جادو ہے اور تم جو کہتے ہو ہم نے کبھی بھی ایسی بات نہیں سنی کہ ہمارے آباؤ و اجداد کے وقت میں بھی ہوئی ہو۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(قَالُوْا مَا ہٰذَآ اِلَّا سِحْرٌ مُّفْتَرًی وَّمَا سَمِعْنَا بِہٰذَا فِیْٓ اٰبَآءِنَا الْاَوَّلِیْنَ ) ” ہمارے لیے یہ بالکل نئی بات ہے کہ اللہ جو اس کائنات کا خالق ہے وہ کسی انسان کو اپنا نمائندہ بنا کر دنیا میں بھیجے اور وہ اس حیثیت میں لوگوں سے اپنی اطاعت کا مطالبہ کرے۔ ہم نے اپنے باپ دادا سے بھی نہیں سنا کہ ان کے زمانے میں پہلے کبھی ایسا ہوا تھا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

49 The words of the Text mean "Fabricated or forged magic." If fabrication is taken to mean falsehood, it would mean, "The staff's turning into a serpent and the shining of the hand is not any real change in the nature of the thing itself, but a mere illusion, which this man calls a miracle in order to deceive us." And if it is taken to mean a forgery it will imply: "This person has forged something which appears to be a staff; but when it is thrown on the ground, it moves like a snake. As for the hand, he has rubbed something on it so that when he draws it out of the armpit, it shines. He himself works these magical tricks but tries to make us believe that these are miracles which God has granted him." 50 The reference is to the teachings which the Prophet Moses had presented while conveying this message of Tauhid. The details have been given at other places in the Qur'an. For example, according to Surah An-Naziyat: 18-19, he said to Pharaoh: "Will you mind to purify yourself, that I may guide you to your Lord so that you may have fear (of Him)?" And in Surah Ta Ha: 47-48: "We have come to you with Signs from your Lord; peace is for him who follows the Right Way. We have been informed by Revelation that there is punishment for him who rejects it and turns away." And: "We are Messengers from your Lord: so let the Israelites go with us." It was about these things that Pharaoh said, "Even our forefathers had never heard that there was a Being more powerful than Pharaoh of Egypt, Who was authorised to command him, to punish him, to send a man to his court to convey His instructions to him, and to warn the king of Egypt to fear Him. These are strange things which we are hearing today from a man like you."

سورة القصص حاشیہ نمبر : 49 اصل الفاظ ہیں سِحْرٌ مُّفْتَرًى افترا کیا ہوا جادو ۔ اس افترا کو جھوٹ کے معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ یہ لاٹھی کا اژدھا بننا اور ہاتھ کا چمک اٹھنا ، نفس شے میں حقیقی تغیر نہیں ہے بلکہ محض ایک نمائشی شعبدہ ہے جسے یہ شخص معجزہ کہہ کر ہمیں دھوکا دے رہا ہے ۔ اور اگر اسے بناوٹ کے معنی میں لیا جائے تو مراد یہ ہوگی کہ یہ شخص کسی کرتب سے ایک ایسی چیز بنا لایا ہے جو دیکھنے میں لاٹھی معلوم ہوتی ہے مگر جب یہ اسے پھینک دیتا ہے تو سانپ نظر آنے لگتی ہے ، اور اپنے ہاتھ پر بھی اس نے کوئی ایسی چیز مل لی ہے کہ اس کی بغل سے نکلنے کے بعد وہ یکایک چمک اٹھتا ہے ، یہ مصنوعی طلسم اس نے خود تیار کیا ہے اور ہمیں یقین یہ دلا رہا ہے کہ یہ معجزے ہیں جو خدا نے اسے عطا کیے ہیں ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : اشارہ ہے ان باتوں کی طرف جو تبلیغ رسالت کے سلسلے میں حضرت موسی نے پیش کی تھیں ، قرآن مجید میں دوسرے مقامات پر ان باتوں کی تفصیل دی گئی ہے ۔ النازعات میں ہے کہ حضرت موسی نے اس سے کہا: فَقُلْ هَلْ لَّكَ اِلٰٓى اَنْ تَـزَكّٰى ، وَاَهْدِيَكَ اِلٰى رَبِّكَ فَتَخْشٰى ۔ کیا تو پاکیزہ روش اختیار کرنے پر آمادہ ہے؟ اور میں تجھے تیرے رب کی راہ بتاؤں تو خشیت اختیار کرے گا ۔ سورہ طہ میں ہے کہ قَدْ جِئْنٰكَ بِاٰيَةٍ مِّنْ رَّبِّكَ ۭ وَالسَّلٰمُ عَلٰي مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰى ، اِنَّا قَدْ اُوْحِيَ اِلَيْنَآ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰي مَنْ كَذَّبَ وَتَوَلّٰى ۔ ہم تیرے پاس تیرے رب کی نشانی لائے ہیں ، اور سلامتی ہے اس کے لیے جو راہ راست کی پیروی کرے اور ہم پر وحی کی گئی ہے کہ سزا ہے اس کے لیے جو جھٹلائے اور منہ موڑے اور اِنَّا رَسُوْلَا رَبِّكَ فَاَرْسِلْ مَعَنَا بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِ يْلَ ۔ ہم تیرے رب کے پیغمبر ہیں ، تو ہمارے ساتھ بنی اسرائیل کو جانے دے ۔ انہی باتوں کے متعلق فرعون نے کہا کہ ہمارے باپ دادا نے کبھی یہ نہیں سنا تھا کہ فرعون مصر سے اوپر بھی کوئی ایسی مقتدر ہستی ہے جو اس کو حکم دینے کی مجاز ہو ، جو اسے سزا دے سکتی ہو ، جو اسے ہدایات دینے کے لیے کسی آدمی کو اس کے دربار میں بھیجے ، اور جس سے ڈرنے کے لیے مصر کے بادشاہ سے کہا جائے ۔ یہ تو نرالی باتیں ہیں جو آج ہم ایک شخص کی زبان سے سن رہے ہیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٣٦۔ ٣٧ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی ہارون (علیہ السلام) فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس معجزات لے کر گئے تو انہوں نے سرکشی کی راہ سے ان معجزات کو یہ کہا کہ یہ جادو جوڑا ہوا ہے اور ہم نے اپنے باپ دادا سے کبھی یہ نہیں سنا کہ فرعون کے سوا اور کوئی خدا ہے اسی کی عبادت چاہیے ہم نے تو یہی بات ہیمشہ دیکھی کہ لوگ فرعون کو خدا جانتے ہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا کہ میرا پروردگار ایسے شخص کی عقبے کی بہتری کو خوب جانتا ہے جو اس کے پاس سے ہدایت لایا یہ یاد رہے کہ مشرک لوگ جو بڑے ظالم ہیں کبھی فلاح نہ پاویں گے میرے تمہارے درمیان میں پروردگار جلد فیصلہ کرے گا۔ یہ اوپر ایک جگہ گزچکا ہے کہ فرعون کے زمانہ میں جادو کا بڑا زور تھا اس لیے فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزوں کو جادو ٹھہرایا ‘ سورة الشعرا میں گذر چکا ہے کہ فرعون اپنے کو خدا کہلواتا تھا اور موسیٰ (علیہ السلام) نے جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا تو اس نے صاف کہہ دیا کہ فرعون کے سوا کوئی دوسرا خدا تم قرار دوگے تو تم کو قید کردیا جائے گا اسی طرح آگے آتا ہے کہ فرعون نے اپنے دربار والوں سے کہا ما علمت لکم من اٰلہ غیری جس کا مطلب یہ ہے کہ فرعون اپنے آپ کو خدا جانتا تھا اور اپنے دربار والوں سے اپنے آپ کو خدا کہلواتا تھا اسی واسطے ان لوگوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی وحدانیت کی نصیحت کو سن کر اسے ایک اچنبھے کی بات قرار دیا۔ فرعون اتنی بات میں تو دہر یہ تھا کہ دہر یہ فرقہ کی طرح وہ خدا کی ہستی کا قائل نہیں تھا لیکن اس میں یہ بات دہر یہ فرقہ سے بڑھ کر تھی کہ وہ اپنے آپ کو خدا کہتا تھا۔ فرعون اور فرعونیوں کی گمراہی کی باتوں کا جو جو اب موسیٰ (علیہ السلام) نے دیا اس کا حاصل وہی ہے جو سورة نمل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے علم غیب کے موافق ان لوگوں کی دلی حالت کو ظاہر کر کے ان کی گمراہی کی باتوں کا جواب دیا ہے کہ جادو گروں کے ہار جانے اور قحط وغیرہ آفتوں کے موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے ٹل جانے کے سبب سے ان لوگوں کے دلوں میں تو یہ بات جم گئی ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کی خلاف عادت باتیں نہ جادو ہیں نہ فرعون کو خدا کو خدائی میں دخل ہے لیکن اپنی ناانصافی اور سرکشی کے سبب سے یہ لوگ ایسی بتایں کرتے ہیں موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی مختصر طور پر یہی جواب دیا کہ دل میں جم جانے والی اور ناانصافی کی باتوں کا اللہ تعالیٰ کو خوب خیال معلوم ہے مگر یہ یاد رکھو کہ عادت الٰہی کے موافق بےانصاف لوگ کبھی بھلائی کو نہیں پہنچتے صحیح بخاری ومسلم کے حوالہ سے حضرت علی (رض) کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ دنیا کے ہونے سے پہلے جو لوگ علم الٰہی میں گمراہ اور دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل قرار پاچکے ہیں وہ دنیا میں پیدا ہونے کے بعد ویسے ہی کام کرتے ہیں اور وہی کام ان کو اچھے نظر آتے ہیں۔ اس حدیث کو ان آیتوں کی تفسیر میں بڑا دخل ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) کے متواتر معجزے دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی ہستی اس کی قدرت اور موسیٰ (علیہ السلام) کی پیغمبری ان سب باتوں کا یقین تو فرعون اور ان کی ساتھیوں کے دلوں میں پیدا ہوگیا تھا لیکن یہ لوگ علم الٰہی میں گمراہ اور دوزخ میں جھونکے جانے کے قابل قرار پاچکے تھے اس لیے اپنی گمراہی کی باتوں سے باز نہ آئے آخر اللہ کہ رسول کی پیشین گوئی کے موافق دونوں جہان میں بھلائی سے محروم رہے دینا میں نہایت بےکسی سے ڈوب کر ہلاک ہوئے اور عقبیٰ کا عذاب جدا بھگتنا پڑا۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:36) بایتنا بینت۔ ب حرف جر۔ ایتنا۔ مضاف مضاف الیہ۔ بینت صفت آیات کی۔ جاء ب لے کر آیا۔ ہماری روشن اور واضح نشانیاں لے کر آیا۔ ما ھذا میں ما نافیہ ہے۔ سحر۔ موصوف صفت۔ مفتری۔ اسم مفعول افتراء (افتعال) مصدر خود ساختہ۔ گھڑا ہوا (جھوٹ) سحر تختلقہ لم یفعل قبلہ مثلہ۔ جھوٹ جو گھڑا گیا ہو اور قبل ازیں اس جیسا عمل میں نہ لایا گیا ہو۔ بھذا۔ میں باء زائدہ ہے ھذا سے مراد یا جادو ہے (جو نام انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کو دیا) یا اس سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا دعوی نبوت ہے یہ سمعنا کا مفعول ہے۔ فی ابائنا الاولین : فی بمعنی واقعا فی ایامہم (ان کے وقتوں میں وقوع پذیر ہونے والا۔ ابائنا۔ مضاف مضاف الیہ الاولین اباء کی صفت۔ عبارت کچھ یوں ہوگی۔ ما سمعنا بھذا جائنا او واقعا فی ایام ابائنا الاولین ہم نے اپنے پہلے آباء و اجداد کے زمانہ میں ایسی کوئی بات وقوع پذیر ہوتے نہیں سنی۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ کہ کسی نے اللہ کی طرف سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کیا ہو یا اس قسم کا جادو دکھایا ہو۔ یہاں آیات سے مراد معجزات ہیں۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 36 تا 42 : مفتری (گھڑا گیا۔ بنایا گیا) ‘ ماسمعنا (ہم نے نہیں سنا) ‘ عاقبۃ الدار (آخرت کا گھر) اوقد ( بھڑکادے۔ جلادے) الطین (مٹی۔ گارا) ‘ صرح ( بلند محل۔ اونچی بلڈنگ) ‘ اطلع (میں جھانکتا ہوں) نبذنا ( ہم نے پھینک دیا) ‘ المقبوحین ( بد حال لوگ) ۔ تشریح : آیت نمبر 36 تا 42 : جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کھلی نشانیوں یعنی معجزات کے ساتھ فرعون کے بھرے دربار میں پہنچے تو معجزات کو دیکھ کر فرعون کہنے لگا کہ یہ معجزات نہیں ہیں بلکہ خود سے گھڑا ہواوہ جادو ہے جس کے ذریعہ وہ لوگوں کے دل جیتنا چاہتا ہے۔ حالانکہ ایسی باتیں ہم نے پہلے تو کبھی بھی نہ دیکھیں نہ سنیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ میں نے جتنی نشانیاں پیش کی ہیں ان پر میرا پروردگار گواہ ہے۔ وہ رب خوب جانتا ہے جو اس کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہے۔ البتہ ایک بات مجھے معلوم ہے کہ اے فرعون تو جس تکبر اور غرور کے راستے پر چل رہا ہے وہ ظلم ہے اور اللہ کا دستور یہ ہے کہ ظالم کو کبھی فلاح اور کامیابی نصیب نہیں ہوتی۔ تکبر اور غرور سے فرعون کہنے لگا کہ اے درباریو ! مجھے تو زمین پر اپنے سوا کوئی دوسرا معبود معلوم نہیں ہے۔ مذاق اڑاتے ہوء کہنے لگا شاید آسمان پر ہو تو اے ہامان پکی اینٹوں کی ایک ایسی مضبوط اور اونچی بلڈنگ بنادے جس پر چڑھ کر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے معبود کو دیکھ سکوں۔ میرا خیال یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ جھوٹ ہے اور یہ جھوٹے لوگوں میں سے ہیں۔ فرعون اور اس کے لشکریوں کا غرور و کتبر بڑھتا چلا گیا اور وہ اس تصرو سے بےنیاز ہو کر چلتے رہے کہ ان کو آخر کار ایک دن اللہ کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ فرمایا جب فرعون اور اس کے ماننے والوں کا ظلم و ستم اور نافرمانی حد سے بڑھ گئی تب ہم نے فرعون اور اس کے لشکریوں کو سمندر میں غرق کردیا اور قیامت تک آنے والی نسلوں کو بتادیا کہ ظالموں کا انجام کس قدر بھیانک ہوا کرتا ہے۔ فرمایا کہ ہم نے ان ظالموں کو پیشوائی اور عظمت کا مقام عطا کیا تھا مگر انہوں نے لوگوں کو عدل و انصاف کے بجائے کفر اور ظلم کی طرف بلایا جس نے ان کو جہنم کے کنارے تک پہنچادیا جس سے ان کے چہرے بگڑ کر رہ گئے۔ چہر سیاہ اور آنکھیں نیلی پڑگئیں اور ایسے قابل لعنت بن گئے کہ اس دنیا میں اور آخرت میں وہ اللہ کی رحمت سے دور ہوگئے اور ہر ایک کے نزدیک لعنت و ملامت کا نشان بن کر رہ گئے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی ضمانت اور عطا کیے ہوئے معجزات کی وجہ سے فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی جرأت نہ کرسکا۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو سفر کے دوران دو عظیم معجزات عنایت فرمائے۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے معجزات ملنے کے بعد اپنے رب کے حضور دو التجائیں پیش کیں : بارِ الٰہ ! میرے بھائی ہارون کو میر اپشتی بان بنا اور میری زبان کی گرہ کھول دے۔ موسیٰ (علیہ السلام) کی دونوں گزارشات منطور کرلی گئیں۔ مصر واپس آکر موسیٰ (علیہ السلام) اپنے بھائی ہارون (علیہ السلام) کو لے کر۔ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ معجزات اور ٹھوس دلائل کے ساتھ فرعون اور اس کے حواریوں کے پاس پہنچے۔ فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ٹھوس اور واضح دلائل کی طرف توجہ کرنے کی بجائے معجزات کا مطالبہ کیا۔ جونہی اس کی زبان سے یہ مطالبہ ہوا تو موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا دست مبارک اپنی بغل میں دبا کر ان کے سامنے کیا۔ جس سے فرعون کے ایوان میں روشن قمقمے اور مختلف قسم کی قندیلوں کی روشنی ٹمٹماتے دیوں کی طرح مانند پڑگئے۔ یدبیضا دیکھ کر فرعون اور اس کے حواریوں کی آنکھیں چکا چوند رہ گئیں۔ اتنا واضح معجزہ دیکھنے کے باوجود فرعون نے موسیٰ (علیہ السلام) کو نبی ماننے سے انکار کردیا۔ تب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنا عصا زمین پر پھینکا وہ خوفناک اژدھا کی صورت اختیار کرکے اپنے جبڑے کھول کر فرعون کے ایوان میں رینگنے لگا۔ اژدھا جس طرف منہ کرتا فرعون اور اس کے درباری چیخیں مارتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوتے۔ بالآخر مجبور ہو کر انھوں نے موسیٰ (علیہ السلام) سے درخواست کی کہ اس اژدھا کو قابو کریں تاکہ ہم آپ کی بات سننے کے قابل ہو سکیں۔ جونہی موسیٰ (علیہ السلام) نے اژدھا کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا تو وہ پہلے کی طرح عصا بن گیا۔ دلائل سننے اور معجزات دیکھنے کے باوجود فرعون اور اس کے ساتھی کہنے لگے ” اے موسیٰ ! یہ خدائی معجزات نہیں بلکہ آپ کے بنائے ہوئے جادو کی کرشمہ سازیاں ہیں جہاں تک آپ کی باتوں اور دلائل کا معاملہ ہے یہ ایسی باتیں ہیں جو نہ صرف ہم نے نہیں سنیں بلکہ پہلے لوگوں سے بھی ان کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ “ موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کی ہٹ دھرمی دیکھ کر اس موقع پر فقط اتنا ارشاد فرمایا کہ میرا رب اس شخص کو خوب جانتا ہے جو اس کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہے اور وہ اس شخص کے حال سے بھی خوب واقف ہے جس کا آخرت میں ٹھکانہ بہتر ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر جو پہلا الزام لگایا وہ یہ تھا کہ ” اے موسیٰ ! تم جادوگر ہو۔ “ یہ ایسا الزام ہے جو بڑے بڑے انبیاء کرام (علیہ السلام) پر لگایا گیا۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انبیائے کرام (علیہ السلام) کی دعوت میں انتہا درجہ کی کشش اور ان کے معجزے ناقابل تمثیل ہوتے تھے۔ جن کا اثر زائل کرنے کے لیے آسان ترین الزام یہی تھا کہ ان کو جادوگر قرار دیا جائے۔ حالانکہ جادوگر گھٹیا کردار، افکار کے گندے اور پیٹ کے پجاری ہوتے ہیں۔ انبیاء کرام (علیہ السلام) اس قسم کی گراوٹ سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔ نبی اور جادوگر کے درمیان فرق سمجھنے کے لیے فہم القرآن جلد :1 کا صفحہ ٦٨ ملاحظہ فرمائیں۔ مسائل ١۔ فرعون اور اس کے ساتھیوں نے موسیٰ (علیہ السلام) کے ٹھوس دلائل اور کھلے معجزات کو جادو قرار دیا۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ ہدایت یافتہ اور گمراہ شخص کو خوب جانتا ہے۔ ٣۔ حقائق کو جھٹلانے والا ظالم ہوتا ہے ظالم کبھی فلاں نہیں پائیں گے۔ تفسیر بالقرآن جادو کا انجام : ١۔ جادوکفر ہے۔ (البقرۃ : ١٠٢) ٢۔ جادو کی اصلیت نہیں ہوتی۔ (الاعراف : ١١٦) ٣۔ جادو شیاطین کے ذریعے ہوتا ہے۔ (البقرۃ : ١٠٢) ٤۔ جادوگر کامیاب نہیں ہوتا۔ (طٰہٰ : ٦٩)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فلما جآءھم موسیٰ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ویوم القیمۃ ھم من المقبوحین (36 – 42) یہاں قرآن کریم نے نہایت ہی جلدی میں فرعون کا انجام بتا دیا اور ایک فیصلہ کن دار کے نتیجے میں اس کا کام تمام ہوگیا۔ یہاں جادوگروں کے مقابلے کو حذف کردیا گیا ہے جبکہ دوسری سورتوں میں بعض جگہ اجمال اور بعض جگہ تفصیل کے ساتھ اس کا ذکر ہوا ہے۔ یہ کڑی یہاں اس لیے حذف کردی گئی ہے کہ تکذہب کے بعد جلد ہی ہلاکت کا منظر پیش کردیا جائے ۔ اور نہ صرف یہ کہ دنیاوی عذاب کا ذکر ہو بلکہ آخرت کے عذاب کی ایک جھلک بھی دکھا دی جائے۔ اختصار اور جدلی کے ساتھ بات کو انجام پہنچانا اس سورت میں مقصود بالذات ہے۔ کیونکہ پوری سورت کا انداز یوں ہی ہے۔ اس سورت میں دست قدرت نمایاں طور پر متحرک نظر آتا ہے اس لیے یہاں بھی موسیٰ اور فرعون کے آمنے سامنے کے بعد جلد ہی فرعون کا انجام بد دکھا دیا گیا اور دست قدرت نے چشم زدن میں اس عظیم قوت کو ختم کردیا اور تفصیلات بیان کرنے کے بجائے جلدی سے آخری جھلک دکھا دی۔ فلما جآءھم موسیٰ ۔۔۔۔۔۔۔ الاولین (28: 36) ” پھر جب موسیٰ ۔۔۔۔ ان لوگوں کے پاس ہماری کھلی کھلی نشانیاں لے کر پہنچا تو انہوں نے کہا کہ ” یہ کچھ نہیں ہے مگر بناؤٹی جادو۔ اور یہ باتیں تو ہم نے اپنے باپ دادا کے زمانے میں کبھی سنیں ہی نہیں “۔ یہ ایک ایسی سچائی کا انکار ہے جس کا کوئی جواب ان سے بن نہ پڑتا تھا اور تمام زمانوں میں حاملین حق کے ساتھ مکذبین نے یہی سلوک کیا ہے۔ جب وہ لاجواب ہوگئے تو ایسی باتیں کرتے رہے۔ ان کا دعویٰ یہ رہا ہے کہ یہ جادو ہے۔ ان کے پاس اس کے سوا کوئی جواب نہیں ہے کہ یہ تو نئی بات ہے۔ اس قسم کی بات ہم نے کبھی اپنے آبا سے نہیں سنی۔ یہ لوگ حضرت موسیٰ کے معجزات کے مقابلے میں کوئی حجت اور دلیل نہیں پاتے اور نہ موسیٰ (علیہ السلام) کے مقابلے میں کوئی برہان پیش کرتے ہیں۔ وہ بس ایک مجمل بات کرتے ہیں جس سے نہ حق ثابت ہوتا ہے اور نہ باطل ۔ نہ کوئی دعویٰ رد ہوتا ہے اور نہ ثابت ہوتا ہے۔ کیا یہ بھی کوئی بات ہے کہ ہم نے یہ بات کبھی نہیں سنی۔ یہ محض شک کا اظہار ہے اور اہل باطل ہمیشہ جب سچائی کو تسلیم نہیں کرتے تو وہ اسے مشکوک بنانے کی سعی کرتے ہیں۔ ہر دور میں باطل کا یہی رویہ رہا۔ لہٰذا موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی یہاں بات مختصر کرتے ہوئے معاملہ کو اللہ کے حوالے کردیا۔ وقال موسیٰ ربی ۔۔۔۔۔۔۔ لا یفلح الظلمون (28: 37) ” موسیٰ نے جواب دیا “ میرا رب اس شخص کے حال سے خوب واقف ہے جو اس کی طرف سے ہدایت لے کر آیا ہے اور وہی بہتر جانتا ہے کہ آخری انجام کس کا اچھا ہونا ہے ، حق یہ ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے “۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف سے یہ نہایت ہی مہذب اور با ادب جواب ہے۔ یہ جواب بہت ہی واضح اور نصیحت آموز ہے لیکن اس میں کوئی تلمیح اور اشارہ اور اجمال نہیں ہے۔ یہ جواب پر اعتمادی کے ساتھ دیا گیا ہے اور حضرت موسیٰ کو پورا اطمینان ہے کہ حق و باطل کے اس مقابلے میں حق فلاح پائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تو خوب معلوم ہے کہ حضرت موسیٰ سچے ہیں اس لئے کہ وہ اللہ کی براہ راست ہدایت اور مکالمے کے تحت کام کر رہے ہیں۔ اور اچھا انجام ان لوگوں کے لیے ہے جو ہدایت پر ہیں اور ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے۔ یہ اللہ کی سنت ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ اگرچہ بعض معاملات بظاہر یوں نظر آتے ہیں کہ حق کو کامیابی حاصل نہیں ہو رہی ہے۔ یہ اللہ کی سنت ہے اور اسی سنت کے ساتھ حضرت موسیٰ بھی فرعون کے مقابلے میں اترے ہیں اور تمام انبیاء سنن الہیہ کے مطابق ہی کام کرتے ہیں۔ اب اس پر اطمینان ، مہذبانہ اور معقول جواب کا جواب الجواب فرعون کیا دیتا ہے محض دعویٰ سرکشی ، کھیل اور مزاح اور غرور لاابالی پن اور سستی۔ وقال فرعون یایھا الملا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ من الکذبین (28: 38) ” اور فرعون نے کہا ” اے اہل دربار ، میں تو اپنے سوا تمہارے کسی خدا کو نہیں جانتا۔ ہامان ، ذرا اینٹیں پکوا کر میرے لیے ایک اونچی عمارت تو بنوا ، شاید کہ اس پر چڑھ کر میں موسیٰ کے خدا کو دیکھ سکوں ، میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں “۔ اے سرداران مصر میں نہیں سمجھتا کہ میرے سوا تمہارا اور بھی کوئی حاکم والٰہ ہے۔ فسق و سرکشی کا ، یہ بلند ترین رویہ ہے اور سردار ظاہر ہے کہ وہ اقرار کریں گے۔ اب وہ یہاں اس نظریہ کا سہرا لیتا ہے جو اس دور میں مصر میں عام طور پر تسلیم کیا جاتا تھا کہ بادشاہوں کا نسب عامہ الہوں سے ملتا ہے۔ اس کے بعد وہ اس جبر کا سہارا بھی لیتا ہے جس کے مقابلے میں کوئی دماغ سوچتا نہیں اور کوئی شخص سر اٹھا کر نہیں چلتا۔ اور کوئی زبان یہ جرات نہیں کرتی کہ کوئی اختلافی بات کرے ، حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ بادشاہ انہی جیسا ایک بشر ہے جو پیدا ہوتا ہے اور مرتا ہے لیکن ان اساطیر اور پھر جبر کی بنا پر کہتا تھا اور یہ تسلیم کرتے تھے ، بغیر اعتراض اور تنقید کے۔ اب وہ ایک ایسی حرکت کرتا ہے جس سے بظاہر تو وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ فی الواقعہ حقیقت معلوم کرنا چاہتا ہے۔ اور وہ چاہتا ہے کہ موسیٰ کے الہہ کو وہ آسمانوں میں تلاش کرنے نکلا ہے لیکن دراصل وہ حضرت موسیٰ کے ساتھ ایک سنجیدہ مزاح کرتا ہے فاوقد لی یھا من ۔۔۔۔۔ الہ موسیٰ (28: 38) ” اے ہامان ، ذرا اینٹیں پکوا کر میرے لیے ایک اونچی عمارت تو بنوا ، شاید کہ اس پر چڑھ کر میں موسیٰ کے خدا کو دیکھ سکوں “۔ موسیٰ کہتا ہے کہ اس کا الٰہ آسمانوں میں ہے۔ بطور مزاح وہ کہتا ہے کہ مجھے تو اس میں شک ہے لیکن اس شک کے باوجود میں حقیقت معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ وانی لاظنہ من الکذبین (28: 38) ” میں تو اسے جھوٹا سمجھتا ہوں “۔ جس طرح دوسرے مقامات پر ہوا ، یہاں حضرت موسیٰ اور جادوگروں کا مقابلہ بھی ہوا۔ جس کو یہاں حذف کردیا گیا ہے۔ واستکبر ھو ۔۔۔۔۔ لا یرجعون (28: 39) ” اس نے اور اس کے لشکروں نے زمین میں بغیر کسی حق کے اس بڑائی کا گھمنڈ کیا اور سمجھے کہ انہیں کبھی ہماری طرف پلٹنا نہیں ہے “۔ جب ان کو یہ واہمہ ہوگیا کہ انہوں نے اللہ کی طرف نہیں پلٹنا تو انہوں نے زمین میں ناحق گھمنڈ شروع کردیا۔ اور معجزات اور پیغمبروں کو جھٹلایا۔ وہ معجزات جن کی تفصیلات اس سے قبل گزر گئی ہیں اور دوسری سورتوں میں ان کا مظاہرہ مفصل دکھایا گیا ہے۔ فاخذنہ و جنودہ فنبذنھم فی الیم (28: 40) ” آخر کار ہم نے اسے اور اس کے لشکروں کو پکڑا اور سمندر میں پھینک دیا “۔ یہ نہایت ہی اختصار کے ساتھ لیکن فیصلہ کن انداز میں سخت پکڑ اور ، سمندر میں پھینک دیا جانا ہے جس طرح انسان کسی کنکر اور کسی پتھر کو سمندر میں پھینک دیتا ہے۔ جس طرح موسیٰ کی والدہ نے شیرخوار موسیٰ کو فرعون کے ڈر سے دریا میں پھینک دیا تھا ، اس طرح اسے اور اس کے لشکروں کو سمندر میں پھینک دیا گیا۔ لیکن اس بچے کو اللہ نے بچانا تھا تو بچ گیا اور فرعون اور اس کے لشکروں کو غرق کرنا تھا تو غرق ہوگئے۔ سمندر ان کے لئے باعث ہلاکت ہوگیا۔ لہٰذا امن وامان بھی اللہ کے ہاں ہے اور ڈرنا ہے تو اللہ ہی سے ڈرنا چاہئے کہ وہ ڈرنے کا مستحق ہے۔ فانظر کیف کان عاقبۃ الظلمین (28: 40) ” دیکھو ، ان ظالموں کا کیسا انجام ہوا ؟ “ یہ انجام وہ منظر پر نظر آتا ہے۔ تمام دنیا کے سامنے ہے۔ اس میں مکذبین کے لیے بھی عبرت ہے اور نصیحت پانے والوں کے لیے بھی عبرت ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکش جباروں کو اللہ ہلاک کرنا چاہے تو چشم زدن میں نیست و نابود کردیتا ہے ، نصف سطر لکھنے سے بھی پہلے۔ اگلے لمحے فرعون اور اس کا لشکر اس دنیا سے اس جہاں میں ہیں اور فرعون اور اس کا لشکر وہاں بھی ایک عجیب منظر میں نظر آتے ہیں۔ ان کو حشر کے فیصلے کے بعد جہنم کی طرف بلایا جاتا ہے۔ فرعون وہاں بھی اپنے لاؤ لشکر سمیت جہنم کی طرف رواں دواں ہے جس طرح وہ تعاقب میں حضرت موسیٰ کے پیچھے رواں تھا۔ وجعلنھم ائمۃ یدعون الی النار (28: 41) ” ہم نے ان کو جہنم کی طرف دعوت دینے والے پیش رو بنا دیا “۔ کیا ہی بری دعوت ہے جو یہ لوگ دیتے ہیں۔ اور کیا ہی بری قیادت و امامت ہے جو یہ لوگ کرتے ہیں۔ ویقوم القیمۃ لاینصرون (28: 41) ” اور قیامت کے روز کہیں سے کوئی مدد نہ پاسکیں گے “۔ دنیا میں بھی ان کو ہزیمت اٹھانی پڑی اور آخرت میں بھی ان کو ناکامی کا سامنا کرنا ہوگا۔ سرکشی اور ظلم کا یہی بدلہ تو ہوتا ہے۔ وہاں صرف ناکامی ہی نہ ہوگی ، بلکہ ہر طرف سے لعنت و ملامت بھی ہوگی۔ اس زمین پر بھی اور آخرت میں حشر کے میدان میں بھی۔ واتبعنھم فی ۔۔۔۔۔ من المقبوحین (28: 42) ” ہم نے اس دنیا میں ان کے پیچھے لعنت لگا دی اور قیامت کے روز وہ بڑی قباحت میں مبتلا ہوں گے “۔ مقبوحین کا لفظ ہی ایسا ہے کہ اس کی آواز ہی اس کے مفہوم کو ظاہر کرتی ہے۔ ” قبح “ شرمندگی ، طعن ، تشنیع ، گندگی اور نفرت کے تمام مفہومات مقبوحین میں شامل ہیں۔ یہ اس لیے کہ زمین میں یہ کبر و غرور کا روپ اختصار کرتے تھے۔ عزت و جاہ اور قوت اور بندوں پر ظلم ان کا وطیرہ تھا۔ یہاں سیاق کلام میں مصر سے بنی اسرائیل کے ثروج کو نہایت ہی اختصار کے ساتھ اور فرعون کے انجام بد کی ایک جھلک سرعت کے ساتھ دکھانے کے بعد یہ دکھایا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ کو کس قدر مقام بلند عطا ہوا۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

رسالت سے سر فراز ہو کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مصر کو واپس ہونا، پھر فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس پہنچ کر حق کی دعوت دینا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مدین سے واپس ہوتے ہوئے وادی طویٰ میں نبوت سے سرفراز کیے گئے اور وہیں انہوں نے اللہ جل شانہٗ سے دعا کی کہ میرے بھائی ہارون کو بھی رسول بنا دیجیے تاکہ میں اور وہ مل کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس جائیں اور آپ کا فرمان پہنچائیں اللہ تعالیٰ نے دعا قبول فرمائی اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو بھی نبوت عطا فرما دی، جس کی کچھ تفصیل گزر چکی ہے۔ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) مصر پہنچے تو اپنے گھر گئے اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو ساتھ لیا۔ دونوں مل کر فرعون کے پاس پہنچے، فرعون اپنے درباریوں کے ساتھ موجود تھا۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ جل شانہٗ کو واحد معبود ماننے کی دعوت دی اور فرمایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ میں صحیح صحیح بات پہنچاؤں گا۔ (حَقِیْقٌ عَلٰٓی اَنْ لَّآ اَقُوْلَ عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الْحَقَّ ) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دو بڑے معجرے دکھائے۔ عصا کو ڈالا تو وہ اژدھا بن گیا اور گریبان میں ہاتھ ڈال کر نکالا تو وہ نہایت زیادہ سفید اور روشن تھا۔ سب دیکھنے والوں نے جب یہ دونوں معجزے دیکھ لیے تو فرعون اور اس کے درباری کہنے لگے کہ یہ جادو ہے جسے اس نے خود ہی بنا لیا ہے اور اس شخص کا یہ دعویٰ کہ میں نبی ہوں ایسا دعویٰ ہم نے اپنے باپ دادوں کے زمانوں میں تو نہیں سنا یہ بات انہوں نے جھوٹ کہی کیونکہ حضرت یوسف (علیہ السلام) مصر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پہلے تھے۔ اور وہ ایمان کی دعوت دیتے رہے تھے۔ چونکہ انہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کو جادو پر محمول کیا اس لیے مقابلہ کرنے کے لیے جادو گروں کو بلایا جس کا ذکر سورة اعراف (ع) اور سورة طہ (ع ٣) اور سورة شعراء (ع ٣) میں مذکور ہے۔ ان لوگوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے متعدد سوالات بھی کیے اور آپ نے بڑی جسارت اور بےباکی کے ساتھ جواب دیئے یہ سوال و جواب بھی سورة طہٰ اور سورة شعراء میں مذکور ہیں۔ چونکہ فرعون اور اس کے درباری حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی تکذیب پر تلے ہوئے تھے اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بھی فرمایا کہ (رَبِّیْٓ اَعْلَمُ بِمَنْ جَآء بالْھُدٰی مِنْ عِنْدِہٖ وَ مَنْ تَکُوْنُ لَہٗ عَاقِبَۃُ الدَّارِ ) (میرا رب خوب جانتا ہے اس کو جو ہدایت لے کر آیا اور اس شخص کو بھی جس کا انجام آخرت میں اچھا ہونے والا ہے) تم لوگ مجھے جھٹلاتے ہو لیکن میرے رب کو تو معلوم ہے کہ میں اس کا رسول ہوں جو شخص میری بات مان لے گا اس کا انجام اچھا ہوگا عاقِبَۃُ الدَّارِسے بعض حضرات نے دار دنیا کا انجام اور بعض حضرات نے دار آخرت کا انجام مراد لیا ہے اگر دار دنیا مراد ہو تو اس میں اس بات کی پیشگی اطلاع ہے کہ تم میری دعوت قبول نہ کرو گے تو تمہارا برا انجام ہوگا چناچہ ایسا ہوا کہ فرعون اور اس کے لشکر سمندر میں غرق کردیئے گئے۔ (اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ ) (بلاشبہ ظالم لوگ کامیاب نہیں ہوتے) صاحب روح المعانی لکھتے ہیں، کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے فرمان کا حاصل یہ ہے کہ میرے رب کو خوب معلوم ہے کہ فلاح اعظم کا کون اہل ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے نبی بنا دیا اور ہدایت دے کر بھیج دیا اور حسن عاقبت کا وعدہ فرما لیا اور اگر ایسی بات ہوتی جیسے تم کہتے ہو کہ تمہارے پاس ہدایت لانے والا جادو گر ہے افترا پر داز ہے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ نبی کیوں بناتا ؟ وہ غنی ہے حکیم ہے جھوٹوں کو اور جادوگروں کو رسالت اور نبوت سے نہیں نوازتا۔ فرعون نے جب یہ محسوس کیا کہ مصر کے لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات سے متاثر ہو رہے ہیں اور وہ جو معبود ہونے کا دعویٰ کرتا تھا اس میں رخنہ پڑ رہا ہے اور موسیٰ اور اس کا بھائی مجھے معبود ماننے کو تیار نہیں ہے تو اس نے اپنے درباریوں سے کہا کہ جہاں تک میں جانتا ہوں تمہارے لیے میرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔ (جب بڑوں کا معبود ہونے کا دعویٰ کردیا تو چھوٹے کس شمار میں ہوسکتے ہیں) اس کا دل تو جانتا تھا کہ موسیٰ (علیہ السلام) حق پر ہیں جیسا کہ سورة بنی اسرائیل میں ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا (لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ ھآؤُلَآءِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ بَصَآءِرَ ) (تو خوب جانتا ہے کہ یہ عجائبات خاص آسمان اور زمین کے پروردگار ہی نے بھیجے ہیں جو کہ بصیرت کے ذرائع ہیں) لیکن وہ انکار پر جما رہا اور خواص کی نظر ہٹانے کے لیے اور ان کے غور و فکر کو الجھانے کے لیے اپنے وزیر ہامان سے مخاطب ہوا اور کہنے لگا، (فَاَوْقِدْ لِیْ یٰھَامٰنُ عَلَی الطِّیْنِ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْٓ اَطَّلِعُ الآی اِلٰہِ مُوْسٰی وَ اِنِّیْ لَاَظُنُّہٗ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ ) (اے ہامان تو ایسا کر کہ اول کچی اینٹیں بنوا اور اس کام کے لیے ایک بھٹہ لگا پھر اس میں اینٹوں کو پکا کر بہت بڑی تعداد میں پکی اینٹیں تیار کر پھر ان اینٹوں سے ایک اونچا محل تیار کر، تاکہ میں اوپر چڑھ کر موسیٰ کے معبود کا پتہ چلاؤں۔ بلاشبہ میں اسے جھوٹوں میں سے سمجھتا ہوں) اس کا ذکر سورة زمر میں اس طرح سے ہے۔ (وَ قَالَ فِرْعَوْنُ یٰھَامٰنُ ابْنِ لِیْ صَرْحًا لَّعَلِّیْٓ اَبْلُغُ الْاَسْبَابَ اَسْبَاب السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ الآی اِلٰہِ مُوْسٰی) (اور فرعون نے کہا کہ اے ہامان میرے لیے ایک محل بنا دے تاکہ میں آسمانوں کے راستوں پر پہنچ جاؤں پھر میں موسیٰ کے رب کو دیکھوں) یہ بات جاہلوں کو بیوقوف بنانے کے لیے کہی۔ کتنا ہی بڑا محل بنا لیا جائے پہلے آسمان پر نہیں پہنچ سکتے۔ (پھر کوئی شخص زینہ سے چڑھ کر سارے آسمانوں پر کیسے پہنچ سکتا ہے) جو لوگ ایک بڑی مدت تک جہالت میں رہتے ہیں معبود حقیقی کو نہیں جانتے وہ ایسی باتوں میں آجاتے ہیں ورنہ عوام کے لیے تو اس کے جواب میں یہ کہہ دینا کافی تھا کہ تو اپنے آپ کو معبود بتاتا ہے حالانکہ تو آسمان پر پہنچنے کے لیے زینہ اور عمارت کا محتاج ہے اپنے اور تیرے چاہنے سے تو اینٹیں بھی وجود میں نہیں آسکتیں پہلے کچی اینٹیں بنائی جائیں پھر ان کو پکایا جائے۔ پھر عمارت بنائی جائے پھر تو اس پر چڑھے کیا ایسے عاجز کو بھی خدائی کا دعویٰ کرنا زیب دیتا ہے۔ جن لوگوں کو کچھ سمجھ عقل تھی وہ دنیاوی مفاد اور فرعون کی سطوت اور سلطنت کی وجہ سے دب گئے اور زبان نہ ہلا سکے۔ قال صاحب الروح ص ٨٠ ج و ایاما کان فالقوم کانوا فی غایۃ الغابۃ الغباوۃ والجھل و افراط العمایۃ و البلادۃ و الا لما نفق علیھم مثل ھذا الھذیان الخ ما قال۔ (تفسیر روح المعانی کے مصنف علامہ آلوسی (رح) فرماتے ہیں قوم ان دنوں ایسی انتہاء درجہ کی بےعقل اور جاہل، بالکل اندھی اور بیوقوف تھی ورنہ جب فرعون نے ان کے سامنے اس طرح کا ہذیان کہا تو انہیں سمجھ جانا چاہیے تھا ...... الخ) قرآن مجید میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ محل تیار ہوا یا نہیں اور تیار ہوا تو نتیجہ کیا نکلا۔ علامہ قرطبی نے سدی سے نقل کیا ہے کہ ہامان نے محل بنایا اور فرعون اس پر چڑھا اور اس نے آسمان کی طرف تیر پھینکے اور وہ خون میں بھرے ہوئے واپس ہوئے اس پر وہ کہنے لگا کہ میں نے موسیٰ کے معبود کو قتل کردیا۔ جب اس نے یہ بات کہی تو حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے اس محل میں اپنا ایک پر مارا جس کا ایک ٹکڑا فرعون کے لشکر پر گرا جس کی وجہ سے ہزاروں آدمی ہلاک ہوگئے اور ایک سمندر میں گرا اور ایک مغرب میں گرا جن لوگوں نے اس محل کے بنانے میں کام کیا تھا وہ سب ہلاک ہوئے۔ علامہ قرطبی نے نقل کردیا لیکن انہیں خود ہی اس کے صحیح ہونے پر تردد تھا اس لیے آخر میں وَ اللّٰہُ اَعْلَمُ بصحَّۃِ ذٰلِکَ فرما دیا۔ بعض مفسرین کا موقف یہ ہے کہ فرعون نے یہ بات بطور مذاق اڑانے کے کہی تھی کہ موسیٰ جو کہہ رہے ہیں کہ تمہارا اور تمہارے باپ دادوں کا رب وہ ہے جو آسمانوں اور زمینوں کا اور ان چیزوں کا رب ہے جو ان کے درمیان ہیں (کمافی سورة الشعراء) تو میں بھی تو اس کے رب کو دیکھوں یعنی مقصود محل بنانا کر اوپر چڑھانہ تھا بلکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا جھٹلانا مقصود تھا۔ (وَ اسْتَکْبَرَ ھُوَ وَ جُنُوْدُہٗ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ ) (اور فرعون نے اور اس کے لشکروں نے زمین میں ناحق تکبر کیا) (وَ ظَنُّوْٓا اَنَّھُمْ اِلَیْنَا لَا یُرْجَعُوْنَ ) (اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ ہماری طرف نہیں لوٹیں گے) یعنی قیامت کے دن کے قائل نہ تھے۔ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھا اور ان کا تکبر انہیں لے ڈوبا۔ (فَاَخَذْنٰہُ وَ جُنُوْدَہٗ فَنَبَذْنٰھُمْ فِی الْیَمِّ ) (سو ہم نے فرعون کو اور اس کے لشکروں کو پکڑ لیا اور انہیں سمندر میں پھینک دیا) (فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الظّٰلِمِیْنَ ) (سو اے مخاطب تو دیکھ لے ظالموں کا کیسا انجام ہوا)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

35:۔ موسیٰ (علیہ السلام) جب ان کے پاس گئے اور انہیں معجزے دکھائے تو وہ کہنے لگے یہ تو بڑا زبردست جادو ہے جو موسیٰ نے خود ایجاد کیا ہے ایسا جادو تو آج تک ہمارے باپ دادا کے زمانے میں بھی کہیں دیکھنے سننے میں نہیں آیا۔ (بحر) یا اس سے مراد موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت اور دعوت ہے کہ اللہ کے سوا سارے جہاں کا کوئی مالک و کارساز نہیں اور نہ اس کے سوا کوئی دعاء اور پکار کے لائق ہے۔ وما سمعنا بہذا یعنی بالذی تدعونا الیہ (معالم و خازن ج 5 ص 114) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

36۔ غرض جب موسیٰ (علیہ السلام) ہماری کھلی کھلی نشانیاں اور واضح دلائل اور معجزات لے کر فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس آیا تو وہ کہنے لگے کچھ نہیں یہ تو ایک جادو ہے جو محض افترا ہے اور خدا کی طرف منسوب کردیا گیا ہے اور ہم نے تو ایسی باتیں اپنے گزشتہ باپ دادوں کے زمانے میں ہوتی نہیں سنیں ۔ یعنی یہ تو محض ایک جادو ہے جو اللہ تعالیٰ پر افتراء کیا گیا ہے کہ یہ دلائل اس کی جانب سے ہیں حالانکہ جب وہ ہے ہی نہیں تو اس کے دلائل کیسے محض ایک ساحرانہ افترا ہے اور اگر ان باتوں کی اصل ہوتی تو اپنے بزرگوں سے تو ہم کبھی سنتے جب ہمارے بزرگوں میں بھی اس قسم کا کوئی چرچا نہیں اور نہ کبھی ان سے ہم نہ یہ باتیں سنیں تو سوائے اس کے کہ یہ ایک گھڑی ہوئی بات ہے اپنے جادو کو خدا کی دلیل بتانا اس کا محض افتراء ہے۔