Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 37

سورة القصص

وَ قَالَ مُوۡسٰی رَبِّیۡۤ اَعۡلَمُ بِمَنۡ جَآءَ بِالۡہُدٰی مِنۡ عِنۡدِہٖ وَ مَنۡ تَکُوۡنُ لَہٗ عَاقِبَۃُ الدَّارِ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الظّٰلِمُوۡنَ ﴿۳۷﴾

And Moses said, "My Lord is more knowing [than we or you] of who has come with guidance from Him and to whom will be succession in the home. Indeed, wrongdoers do not succeed."

حضرت موسیٰ ( علیہ السلام ) کہنے لگے میرا رب تعالٰی اسے خوب جانتا ہے جو اس کے پاس کی ہدایت لے کر آتا ہے اور جس کے لئے آخرت کا ( اچھا ) انجام ہوتا ہے یقیناً بے انصافوں کا بھلا نہ ہوگا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقَالَ مُوسَى ... Musa said: Musa said in response to them: ... رَبِّي أَعْلَمُ بِمَن جَاء بِالْهُدَى مِنْ عِندِهِ ... My Lord knows best him who came with guidance from Him, meaning, `of me and you, and He will decide between me and you.' So he said: ... وَمَن تَكُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ ... and whose will be the happy end in the Hereafter. meaning, who will be supported and will prevail. ... إِنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ Verily, the wrongdoers will not be successful. refers to the idolators who associate others in worship with Allah.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

371یعنی مجھ سے اور تم سے زیادہ ہدایت کا جاننے والا اللہ ہے، اس لئے جو بات اللہ کی طرف سے آئے گی، وہ صحیح ہوگی یا تمہارے اور تمہارے باپ دادوں کی۔ 372اچھے انجام سے مراد آخرت میں اللہ کی رضامندی اور اس کی رحمت و مغفرت کا مستحق قرار پا جانا ہے اور یہ استحقاق صرف اہل توحید کے حصے میں آئے گا 373ظالم سے مراد مشرک اور کافر ہیں، کیونکہ ظلم کے معنی ہیں۔ وضع الشئ فی غیر محلہ کسی چیز کو اسکے اصل مقام سے ہٹا کر کسی اور جگہ رکھ دینا۔ مشرک بھی چونکہ الوہیت کے مقام پر ایسے لوگوں کو بٹھا دیتے ہیں جو اس کے مستحق نہیں ہوتے۔ اسی طرح کافر بھی رب کے اصل مقام سے ناآشنا ہی رہتے ہیں۔ اس لئے یہ لوگ سب سے بڑے ظالم ہیں اور یہ کامیابی سے یعنی آخرت میں اللہ کی رحمت و مغفرت سے محروم رہیں گے۔ اس آیت سے بھی معلوم ہوا کہ اصل کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے۔ دنیا میں خوشحالی اور مال و اسباب کی فراوانی حقیقی کامیابی کی نفی فرما رہا ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حقیقی کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے نہ کہ دنیا کی چند روزہ عارضی خوشحالی و فراوانی۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٤٨] یعنی تم نے مجھے ایک جادوگر سمجھا ہے حالانکہ میرا پروردگار میرے حال سے خوب واقف ہے کہ ہر شخص کے کاموں کے انجام کا فیصلہ بھی اسی کے ہاتھ میں ہے بہرحال ایک بات تو یقینی ہے اور وہ یہ ہے کہ ظالم اور بےانصاف لوگ کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ اگر میں نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرکے اللہ تعالیٰ پر جھوٹا الزام لگا دیا ہے تو میرا انجام کبھی بخیر نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح اگر میں اللہ کی طرف سچا رسول ہوں اور تم مجھے جادوگر کہہ کر دوسرے حیلے بہانوں سے مجھے جھٹلاؤ گے تو تمہارا بھی کبھی انجام بخیر نہ ہوگا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقَالَ مُوْسٰي رَبِّيْٓ اَعْلَمُ بِمَنْ جَاۗءَ بالْهُدٰى ۔۔ : مفسرین کہتے ہیں کہ بظاہر فرعون کی بات نقل کرنے کے بعد موسیٰ (علیہ السلام) کی بات نقل کرنے کے لیے ” قال “ ہی کافی تھا، ” واؤ “ کی ضرورت نہ تھی، مگر دونوں کی بات کا موازنہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ” واؤ “ کا ذکر کیا کہ فرعون نے یہ کہا اور موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ کہا۔ 3 موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ کلام اللہ تعالیٰ کی اس تلقین پر عمل کا ایک خوب صورت نمونہ ہے، جو اللہ تعالیٰ نے انھیں فرعون کی طرف بھیجتے ہوئے کی تھی، فرمایا : ( فَقُوْلَا لَهٗ قَوْلًا لَّيِّنًا لَّعَلَّهٗ يَتَذَكَّرُ اَوْ يَخْشٰى) [ طٰہٰ : ٤٤ ] ” پس اس سے بات کرو، نرم بات، اس امید پر کہ وہ نصیحت حاصل کرلے، یا ڈر جائے۔ “ فرعون کی ہٹ دھرمی کے جواب میں انھوں نے اسے جھوٹا کہنے یا کوئی سخت بات کرنے کے بجائے نرم لہجہ اختیار کرتے ہوئے فرمایا کہ میرا رب زیادہ جاننے والا ہے کہ اس کے پاس سے ہدایت لے کر کون آیا ہے اور اس گھر کا اچھا انجام کس کا ہوتا ہے ؟ ہاں ! اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ظالم لوگ کبھی فلاح نہیں پاتے۔ یہ اس طرح کی بات ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (قُلْ مَنْ يَّرْزُقُكُمْ مِّنَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ قُلِ اللّٰهُ ۙ وَاِنَّآ اَوْ اِيَّاكُمْ لَعَلٰى هُدًى اَوْ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ قُلْ لَّا تُسْـَٔــلُوْنَ عَمَّآ اَجْرَمْنَا وَلَا نُسْـَٔــلُ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ قُلْ يَجْمَعُ بَيْـنَنَا رَبُّنَا ثُمَّ يَفْتَـحُ بَيْـنَنَا بالْحَقِّ ۭ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِـيْمُ ) [ سبا : ٢٤ تا ٢٦ ]” کہہ تمہیں آسمانوں اور زمین سے رزق کون دیتا ہے ؟ کہہ دے اللہ۔ اور بیشک ہم یا تم ضرور ہدایت پر ہیں، یا کھلی گمراہی میں ہیں۔ کہہ دے نہ تم سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا جو ہم نے جرم کیا اور نہ ہم سے اس کے بارے میں پوچھا جائے گا جو تم کرتے ہو۔ کہہ ہم سب کو ہمارا رب جمع کرے گا، پھر ہمارے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور وہی خوب فیصلہ کرنے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ “ عَاقِبَةُ الدَّارِ : آلوسی نے فرمایا : ” الدار “ (اس گھر) سے مراد دنیا ہے، اس کا اچھا انجام ایسا خاتمہ ہے جو انسان کو اللہ کے فضل و کرم کے ساتھ جنت میں لے جائے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقَالَ مُوْسٰي رَبِّيْٓ اَعْلَمُ بِمَنْ جَاۗءَ بِالْہُدٰى مِنْ عِنْدِہٖ وَمَنْ تَكُوْنُ لَہٗ عَاقِبَۃُ الدَّارِ۝ ٠ۭ اِنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ۝ ٣٧ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کہال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ جاء جاء يجيء ومَجِيئا، والمجیء کالإتيان، لکن المجیء أعمّ ، لأنّ الإتيان مجیء بسهولة، والإتيان قد يقال باعتبار القصد وإن لم يكن منه الحصول، والمجیء يقال اعتبارا بالحصول، ويقال «1» : جاء في الأعيان والمعاني، ولما يكون مجيئه بذاته وبأمره، ولمن قصد مکانا أو عملا أو زمانا، قال اللہ عزّ وجلّ : وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] ، ( ج ی ء ) جاء ( ض ) جاء يجيء و مجيئا والمجیء کالاتیانکے ہم معنی ہے جس کے معنی آنا کے ہیں لیکن مجی کا لفظ اتیان سے زیادہ عام ہے کیونکہ اتیان کا لفط خاص کر کسی چیز کے بسہولت آنے پر بولا جاتا ہے نیز اتبان کے معنی کسی کام مقصد اور ارادہ کرنا بھی آجاتے ہیں گو اس کا حصول نہ ہو ۔ لیکن مجییء کا لفظ اس وقت بولا جائیگا جب وہ کام واقعہ میں حاصل بھی ہوچکا ہو نیز جاء کے معنی مطلق کسی چیز کی آمد کے ہوتے ہیں ۔ خواہ وہ آمد بالذات ہو یا بلا مر اور پھر یہ لفظ اعیان واعراض دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے ۔ اور اس شخص کے لئے بھی بولا جاتا ہے جو کسی جگہ یا کام یا وقت کا قصد کرے قرآن میں ہے :َ وَجاءَ مِنْ أَقْصَا الْمَدِينَةِ رَجُلٌ يَسْعى [يس/ 20] اور شہر کے پرلے کنارے سے ایک شخص دوڑتا ہوا آپہنچا ۔ هدى الهداية دلالة بلطف، وهداية اللہ تعالیٰ للإنسان علی أربعة أوجه : الأوّل : الهداية التي عمّ بجنسها كلّ مكلّف من العقل، والفطنة، والمعارف الضّروريّة التي أعمّ منها كلّ شيء بقدر فيه حسب احتماله كما قال : رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] . الثاني : الهداية التي جعل للناس بدعائه إيّاهم علی ألسنة الأنبیاء، وإنزال القرآن ونحو ذلك، وهو المقصود بقوله تعالی: وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا [ الأنبیاء/ 73] . الثالث : التّوفیق الذي يختصّ به من اهتدی، وهو المعنيّ بقوله تعالی: وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] ، وقوله : وَمَنْ يُؤْمِنْ بِاللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُ [ التغابن/ 11] الرّابع : الهداية في الآخرة إلى الجنّة المعنيّ بقوله : سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5] ، وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43]. ( ھ د ی ) الھدایتہ کے معنی لطف وکرم کے ساتھ کسی کی رہنمائی کرنے کے ہیں۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے چار طرف سے ہدایت کیا ہے ۔ ( 1 ) وہ ہدایت ہے جو عقل وفطانت اور معارف ضروریہ کے عطا کرنے کی ہے اور اس معنی میں ہدایت اپنی جنس کے لحاظ سے جمع مکلفین کا و شامل ہے بلکہ ہر جاندار کو حسب ضرورت اس سے بہرہ ملا ہے ۔ چناچہ ارشاد ہے : ۔ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى[ طه/ 50] ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر مخلوق کا اس کی ( خاص طرح کی ) بناوٹ عطا فرمائی پھر ( ان کی خاص اغراض پورا کرنے کی ) راہ دکھائی ۔ ( 2 ) دوسری قسم ہدایت کی وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیج کر اور کتابیں نازل فرما کر تمام انسانوں کو راہ تجارت کی طرف دعوت دی ہے چناچہ ایت : ۔ وَجَعَلْنا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنا[ الأنبیاء/ 73] اور ہم نے بنی اسرائیل میں سے ( دین کے ) پیشوا بنائے تھے جو ہمارے حکم سے ( لوگوں کو ) ہدایت کرتے تھے ۔ میں ہدایت کے یہی معنی مراد ہیں ۔ ( 3 ) سوم بمعنی توفیق خاص ایا ہے جو ہدایت یافتہ لوگوں کو عطا کی جاتی ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ اهْتَدَوْا زادَهُمْ هُدىً [ محمد/ 17] جو لوگ ، وبراہ ہیں قرآن کے سننے سے خدا ان کو زیادہ ہدایت دیتا ہے ۔ ۔ ( 4 ) ہدایت سے آخرت میں جنت کی طرف راہنمائی کرنا مراد ہوتا ہے چناچہ فرمایا : ۔ سَيَهْدِيهِمْ وَيُصْلِحُ بالَهُمْ [ محمد/ 5]( بلکہ ) وہ انہیں ( منزل ) مقصود تک پہنچادے گا ۔ اور آیت وَنَزَعْنا ما فِي صُدُورِهِمْ مِنْ غِلٍّ [ الأعراف/ 43] میں فرمایا ۔ عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ عاقب والعاقِبةَ إطلاقها يختصّ بالثّواب نحو : وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] ، وبالإضافة قد تستعمل في العقوبة نحو : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] ، ( ع ق ب ) العاقب اور عاقبتہ کا لفظ بھی ثواب کے لئے مخصوص ہے جیسے فرمایا : ۔ وَالْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ [ القصص/ 83] اور انجام نیک تو پرہیز گاروں ہی کا ہے ۔ مگر یہ اضافت کی صورت میں کبھی آجاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا [ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ دار الدَّار : المنزل اعتبارا بدورانها الذي لها بالحائط، وقیل : دارة، وجمعها ديار، ثم تسمّى البلدة دارا، والصّقع دارا، والدّنيا كما هي دارا، والدّار الدّنيا، والدّار الآخرة، إشارة إلى المقرّين في النّشأة الأولی، والنّشأة الأخری. وقیل : دار الدّنيا، ودار الآخرة، قال تعالی: لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ، أي : الجنة، ( د و ر ) الدار ۔ منزل مکان کو کہتے ہیں کیونکہ وہ چار دیواری سے گھرا ہوتا ہے بعض نے دراۃ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس کی جمع دیار ہے ۔ پھر دار کا لفظ شہر علاقہ بلکہ سارے جہان پر بولا جاتا ہے اور سے نشاۃ اولٰی اور نشاہ ثانیہ میں دو قرار گاہوں کی طرف اشارہ ہے بعض نے ( باضافت ) بھی کہا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ : لَهُمْ دارُ السَّلامِ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ الأنعام/ 127] ان کے لئے ان کے اعمال کے صلے میں پروردگار کے ہاں سلامتی کا گھر ہے ۔ فلح الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَح أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، ( ف ل ح ) الفلاح کے معنی پھاڑ نا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہالو ہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ ظلم وَالظُّلْمُ عند أهل اللّغة وكثير من العلماء : وضع الشیء في غير موضعه المختصّ به، إمّا بنقصان أو بزیادة، وإمّا بعدول عن وقته أو مکانه، قال بعض الحکماء : الظُّلْمُ ثلاثةٌ: الأوّل : ظُلْمٌ بين الإنسان وبین اللہ تعالی، وأعظمه : الکفر والشّرک والنّفاق، ولذلک قال :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] والثاني : ظُلْمٌ بينه وبین الناس، وإيّاه قصد بقوله : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ وبقوله : إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ [ الشوری/ 42] والثالث : ظُلْمٌ بينه وبین نفسه، وإيّاه قصد بقوله : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] ، ( ظ ل م ) ۔ الظلم اہل لغت اور اکثر علماء کے نزدیک ظلم کے معنی ہیں کسی چیز کو اس کے مخصوص مقام پر نہ رکھنا خواہ کمی زیادتی کرکے یا اسے اس کی صحیح وقت یا اصلی جگہ سے ہٹاکر بعض حکماء نے کہا ہے کہ ظلم تین قسم پر ہے (1) وہ ظلم جو انسان اللہ تعالیٰ کے ساتھ کرتا ہے اس کی کسب سے بڑی قسم کفر وشرک اور نفاق ہے ۔ چناچہ فرمایا :إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ [ لقمان/ 13] شرک تو بڑا بھاری ظلم ہے ۔ (2) دوسری قسم کا ظلم وہ ہے جو انسان ایک دوسرے پر کرتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : وَجَزاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ إلى قوله : إِنَّهُ لا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے مگر جو درگزر کرے اور معاملے کو درست کرلے تو اس کا بدلہ خدا کے ذمہ ہے اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنیوالوں کو پسند نہیں کرتا ۔ میں میں ظالمین سے اسی قسم کے لوگ مراد ہیں ۔ ۔ (3) تیسری قسم کا ظلم وہ ہے جو ایک انسان خود اپنے نفس پر کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ [ فاطر/ 32] تو کچھ ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٣٧) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میرا پروردگار اس شخص کو خوب جانتا ہے جو اس کے پاس سے رسالت و توحید لے کر آیا ہے اور جس کو آخرت میں جنت ملنے والی ہو، اور مشرکین کو عذاب خداوندی سے کبھی نجات نہیں ملے گی ،

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

51 That is, "You think I am a magician and a forger, but my Lord is well aware of me. He knows what sort of a man is the person whom He has appointed as a Messenger; and the final judgement rests with Him. If I am a liar, I shall meet an evil end; and if you are a liar, you should know that your end will not be good. In any case, the inevitable fact is that the unjust will not attain true success. He who is not Allah's messenger but falsely presents himself as a messenger for selfish motives, is also unjust and will not attain success. And the one who rejects a true Messenger by false accusations and suppresses the Truth by deceit and fraud, is also unjust and will never attain success."

سورة القصص حاشیہ نمبر : 51 یعنی تو مجھے ساحر اور افترا پرداز قرار دیتا ہے ، لیکن میرا رب میرے حال سے خوب واقف ہے ، وہ جانتا ہے کہ جو شخص اس کی طرف سے رسول مقرر کیا گیا ہے وہ کیسا آدمی ہے ۔ اور آخری انجام کا فیصلہ اسی کے ہاتھ میں ہے ، میں جھوٹا ہوں تو میرا انجام برا ہوگا اور تو جھوٹا ہے تو پھر خوب جان لے کہ تیرا انجام اچھا نہیں ہے ۔ بہرحال یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ ظالم کے لیے فلاح نہیں ہے ، جو شخس خدا کا رسول نہ ہو اور جھوٹ موٹ کا رسول بن کر اپنا کوئی مفاد حاصل کرنا چاہے وہ بھی ظالم ہے اور فلاح سے محروم رہے گا ، اور جو طرح طرح کے جھوٹے الزامات لگا کر سچے رسول کو جھٹلائے اور مکاریوں سے صداقت کو دبانا چاہے وہ بھی ظالم ہے اور اسے کبھی فلاح نصیب نہ ہوگی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

23: ٹھکانے سے مراد دنیا بھی ہوسکتی ہے کہ دنیا میں اچھا انجام کس کا ہوگا کہ خاتمہ بخیر ہو، اور آخری مراد ہوسکتی ہے کہ آخرت میں انجام بہتر ہو۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:37) عاقبۃ۔ انجام کار۔ اختتام۔ اخیر۔ الداری الدنیا۔ یہاں عاقبۃ سے مراد عاقبت محمود ہے یعنی کسی کی دنیاوی زندگی کا اخیر نہتر ہوتا ہے کہ اسے قیامت میں جنت نصیب ہو۔ انہ لایفلح الظلمون۔ میں انہ کی ضمیر ضمیر شان کی ہے ۔ اور شان یہ ہے کہ ظالم (کبھی) فلاح نہیں پاتے۔ بیشک بات یہ ہے کہ ظالم بامراد نہیں ہوتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ مطلب یہ ہے کہ تم مجھے جھوٹا اور جادوگر قرار دے رہے ہو لیکن میرا رب میرے حال سے پوری طرح واقف ہے۔ اسے خوب معلوم ہے کہ جس شخص کو اس نے اپنا رسول بنایا ہے اور اس کے ذریعہ اپنی ہدایت بھیجی ہے وہ کس سم کا آدمی ہے۔ اگر میں جھوٹا ہوں تو میرا انجام برا ہوگا اور اگر تم مجھے جھٹلا کر ظلم کر رہے ہو تو خوب سمجھ لو کہ ظالموں کا انجام کیا ہوتا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ مطلب یہ کہ خدا کو خوب معلوم ہے کہ ہم میں اور تم میں کون اہل ہدی ہے، اور کون ظالم، اور کون محمود العاقبت ہے، اور کون محروم عن الفلاح۔ پس ہر ایک کی حالت اور ثمرہ کا جلدی مرنے کے ساتھ ہی ظہور ہوجاوے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

36:۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے انکے جواب میں فرمایا جسے اللہ تعالیٰ نے رسالت و نبوت کا اہل سمجھ کر ہدایت کا پیغام دے کر بھیجا ہے اور جسے اس نے حسن عاقبت کا وعدہ دیا ہے اللہ اسے تم سے زیادہ جانتا ہے۔ اگر وہ ساحر و مفتری ہوتا جیسا کہ تمہارا خیال ہے تو وہ اسے منصب نبوت پر فائز نہ فرماتا کیونکہ ایسے مفتری اس کے نزدیک فوز و فلاح کے مستحق نہیں (روح و مدارک) ۔ امر ثالث یعنی قل ربی اعلم من جاء بالہدی الخ اس پر متفرع ہے۔ جس طرح موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب دیا تھا ایسا ہی جواب دینے کاحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا گیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

37۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا میرا پروردگار اس شخص کو خوب جانتا ہے جو اس کے پاس سے صحیح دین اور ہدایت و رہنمائی لیکر آتا ہے اور وہی اس کو بھی جانتا ہے جس کے حق میں اس عالم کا انجام بہتر اور اچھا ہونے والا ہے اور جس کی عاقبت محمود ہونیوالی ہے اور یہ یقینی بات ہے کہ ظالم اور ناانصاف کبھی فلاح نہیں پاتے اور مقصد میں کامیاب نہیں ہوتے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ فرعونی ایک سیدھی سادھی اور معقول دلیل کو نہیں سمجھتے اور اس کو سحر و افترا اور ایک انوکھی نئی بات بتاتے ہیں تو انہوں نے فرمایا تم مانو یا نہ مانو جانو یا نہ جانو میرا پروردگار تو اس کو خوب جانتا ہے جو اس کے پاس سے دین کی روشنی اور ہدایت لے کر آیا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ اس دنیا کا انجام کس کے لیے اچھا ہونے والا ہے اور کس کا خاتمہ بخیر ہونیوالا ہے اور کس کی عاقبت محمود ہوگی اور پچھلا گھرکس کو ملنے والا ہے یعنی جو اسلام کا پابند ہوگا اسی کا انجام اچھا ہوگا اور پچھلا گھر اسی کو ملنے والا ہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ ظالم اور ستم گاروں اور بد دینوں کو فلاح اور کامیابی نصیب ہونے والی نہیں۔