Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 6

سورة القصص

وَ نُمَکِّنَ لَہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ نُرِیَ فِرۡعَوۡنَ وَ ہَامٰنَ وَ جُنُوۡدَہُمَا مِنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا یَحۡذَرُوۡنَ ﴿۶﴾

And establish them in the land and show Pharaoh and [his minister] Haman and their soldiers through them that which they had feared.

اور یہ بھی کہ ہم انہیں زمین میں قدرت و اختیار دیں اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ دکھائیں جس سے وہ ڈر رہے ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And We wished to do a favor to those who were weak in the land, and to make them rulers and to make them the inheritors, And to establish them in the land, and We let Fir`awn and Haman and their armies receive from them that which they feared. And Allah did indeed do this to them, as He says: وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُواْ يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الاَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَى عَلَى بَنِي إِسْرَايِيلَ بِمَا صَبَرُواْ وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُواْ يَعْرِشُونَ And We made the people who were considered weak to inherit the eastern parts of the land and the western parts thereof which We have blessed. And the fair Word of your Lord was fulfilled for the Children of Israel, because of their endurance. And We destroyed what Fir`awn and his people produced, and what they erected. (7:137) And Allah said: كَذَلِكَ وَأَوْرَثْنَـهَا بَنِى إِسْرَءِيلَ Thus and We caused the Children of Israel to inherit them. (26: 59) Fir`awn hoped that by his strength and power he would be saved from Musa, but that did not help him in the slightest. Despite his great power as a king he could not oppose the decree of Allah, which can never be overcome. On the contrary, Allah's ruling was carried out, for it had been written and decreed from past eternity that Fir`awn would meet his doom at the hands of Musa.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

61یہاں زمین سے مراد ارض شام ہے جہاں وہ کنعانیوں کی زمین کے وارث بنے کیونکہ مصر سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل مصر واپس نہیں گئے، واللہ اعلم۔ 62یعنی انھیں جو اندیشہ تھا کہ ایک اسرائیلی کے ہاتھوں فرعون کی اور اس کے ملک و لشکر کی تباہی ہوگی، ان کے اس اندیشے کو ہم نے حقیقت کر دکھایا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨] فرعون کا وزیر جو اس ظلم و ستم کا شریک اور آلہ کار بنا ہوا تھا۔ اس کی تفصیل اسی سورة میں آگے مذکور ہے۔۔[٩] یعنی فرعون ہامان اور ان کے ساتھیوں کی کوشش یہ تھی کہ بنی اسرائیل کو اتنا کمزور بنادیا جائے کہ وہ آئندہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہیں۔ اسی غرض سے ان کی نسل ختم کردینے کی سکیم تیار کی گئی تھی۔ مگر ہم یہ چاہتے تھے کہ جس خطرہ کی روک تھام کے لئے وہ سارے پاپڑ بیل رہے تھے وہی خطرہ ہم ان کی آنکھوں سے انھیں دکھادیں۔ اور وہ اپنے جیتے جی یہ دیکھ لیں کہ اللہ کی تقدیر کبھی ٹل نہیں سکتی، نہ اسے کوئی طاقت روک سکتی یا اس میں تاخیر پیدا کرسکتی ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْاَرْضِ ۔۔ : ہامان فرعون کا وزیر تھا، جو ظلم و ستم میں اس کا شریک اور آلہ کار تھا۔ یعنی ہم چاہتے تھے کہ انھیں زمین میں اقتدار بخشیں اور ان کا سِکّہ جما دیں اور فرعون، ہامان اور ان کے لشکروں نے جس خطرے کی وجہ سے بنی اسرائیل کے لڑکوں کو قتل کرنا شروع کیا تھا کہ کہیں ان کی تعداد اور قوت اتنی نہ بڑھ جائے کہ وہ ہماری حکومت پر قابض ہوجائیں، بنی اسرائیل ہی کے ذریعے سے وہ خطرہ انھیں حقیقت بنا کر دکھا دیں اور وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ اللہ کی تقدیر کبھی ٹل نہیں سکتی، نہ اس کے ارادے کو پورا ہونے سے کوئی طاقت روک سکتی ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَاللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰٓي اَمْرِهٖ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ ) [ یوسف : ٢١ ] ” اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَنُمَكِّنَ لَہُمْ فِي الْاَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ وَجُنُوْدَہُمَا مِنْہُمْ مَّا كَانُوْا يَحْذَرُوْنَ۝ ٦ مكن المَكَان عند أهل اللّغة : الموضع الحاوي للشیء، قال : وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف/ 10] ( م ک ن ) المکان اہل لغت کے نزدیک مکان اس جگہ کو کہتے ہیں جو کسی جسم پر حاوی ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ [ الأعراف/ 10] اور ہم نے زمین میں تمہارا ٹھکانا بنایا ۔ جند يقال للعسکر الجُنْد اعتبارا بالغلظة، من الجند، أي : الأرض الغلیظة التي فيها حجارة ثم يقال لكلّ مجتمع جند، نحو : «الأرواح جُنُودٌ مُجَنَّدَة» «2» . قال تعالی: إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات/ 173] ( ج ن د ) الجند کے اصل معنی سنگستان کے ہیں معنی غفلت اور شدت کے اعتبار سے لشکر کو جند کہا جانے لگا ہے ۔ اور مجازا ہر گروہ اور جماعت پر جند پر لفظ استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے ( حدیث میں ہے ) کہ ارواح کئ بھی گروہ اور جماعتیں ہیں قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ جُنْدَنا لَهُمُ الْغالِبُونَ [ الصافات/ 173] اور ہمارا لشکر غالب رہے گا ۔ حذر الحَذَر : احتراز من مخیف، يقال : حَذِرَ حَذَراً ، وحذرته، قال عزّ وجل : يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] ، وقرئ : وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَ 3» ، وقال تعالی: وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] ، وقال عزّ وجل : خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] ، أي : ما فيه الحذر من السلاح وغیره، وقوله تعالی: هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] ، وقال تعالی: إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] ، وحَذَارِ ، أي : احذر، نحو : مناع، أي : امنع . ( ح ذ ر) الحذر ( س) خوف زدہ کرنے والی چیز سے دور رہنا کہا جاتا ہے حذر حذرا وحذرتہ میں اس سے دور رہا ۔ قرآن میں ہے :۔ يَحْذَرُ الْآخِرَةَ [ الزمر/ 9] آخرت سے ڈرتا ہو ۔ وإنّا لجمیع حَذِرُون، وحاذِرُونَاور ہم سب باسازو سامان ہیں ۔ ایک قرآت میں حذرون ہے هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ [ المنافقون/ 4] یہ تمہاری دشمن میں ان سے محتاط رہنا ۔ إِنَّ مِنْ أَزْواجِكُمْ وَأَوْلادِكُمْ عَدُوًّا لَكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ [ التغابن/ 14] تمہاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمہارے دشمن ( بھی ) ہیں سو ان سے بچتے رہو۔ حذر ۔ کسی امر سے محتاط رہنے کے لئے کہنا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ [ آل عمران/ 28] اور خدا تم کو اپنے ( غضب ) سے محتاط رہنے کی تلقین کرنا ہے الحذر بچاؤ ۔ اور آیت کریمہ :۔ خُذُوا حِذْرَكُمْ [ النساء/ 71] جہاد کے لئے ) ہتھیار لے لیا کرو ۔ میں حذر سے مراد اسلحۃ جنگ وغیرہ ہیں جن کے ذریعہ دشمن سے بچاؤ حاصل ہوتا ہے حذار ( اسم فعل بمعنی امر ) بچو جیسے مناع بمعنی امنع خوف الخَوْف : توقّع مکروه عن أمارة مظنونة، أو معلومة، كما أنّ الرّجاء والطمع توقّع محبوب عن أمارة مظنونة، أو معلومة، ويضادّ الخوف الأمن، ويستعمل ذلک في الأمور الدنیوية والأخروية . قال تعالی: وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] ( خ و ف ) الخوف ( س ) کے معنی ہیں قرآن دشواہد سے کسی آنے والے کا خطرہ کا اندیشہ کرنا ۔ جیسا کہ کا لفظ قرائن دشواہد کی بنا پر کسی فائدہ کی توقع پر بولا جاتا ہے ۔ خوف کی ضد امن آتی ہے ۔ اور یہ امور دنیوی اور آخروی دونوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے : قرآن میں ہے : ۔ وَيَرْجُونَ رَحْمَتَهُ وَيَخافُونَ عَذابَهُ [ الإسراء/ 57] اور اس کی رحمت کے امید وار رہتے ہیں اور اس کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦) اور حکومت دین اور فرعون اور ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ بات دکھائیں جس سے وہ بنی اسرائیل کی طرف سے ڈرا کرتے تھے یعنی بادشاہت کے ختم ہوجانے سے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦ (وَنُمَکِّنَ لَہُمْ فِی الْاَرْضِ ) ” ہم نے فیصلہ کیا کہ دنیا میں ہم بنی اسرائیل کو حکومت ‘ طاقت اور سربلندی عطا کریں گے۔ (وَنُرِیَ فِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ وَجُنُوْدَہُمَا مِنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَحْذَرُوْنَ ) ” ہامان فرعون کا وزیر تھا۔ ان لوگوں کو بنی اسرائیل کی طرف سے کیا خطرہ تھا ؟ اس کے بارے میں دو توجیہات ملتی ہیں۔ ان میں سے جو توجیہہ ہماری تفسیری روایات میں بہت تکرار سے بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ فرعون نے ایک خواب دیکھا تھا جس سے اسے یہ اشارہ ملا کہ اسرائیلیوں کے ہاں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جو اسے اور اس کی سلطنت کو ختم کر دے گا۔ چناچہ اس نے اسرائیلیوں کے ہاں پیدا ہونے والے ہر لڑکے کو قتل کرنے کا فیصلہ کرلیا اور پھر اس نے اپنے اس فیصلے پر سختی سے عمل درآمد بھی کروایا۔ یہ روایت تلمود میں بیان ہوئی ہے (اور تلمود سے ہی ہماری تفسیری روایات میں آئی ہے) لیکن نہ تو اس کا ذکر تورات میں کہیں ملتا ہے اور نہ ہی قرآن میں ایسا کوئی اشارہ موجود ہے۔ (البتہ اس سے ملتے جلتے ایک خواب کا ذکر انجیل میں ضرور ہے جو حضرت مسیح (علیہ السلام) کی پیدائش کے زمانے میں متعلقہ علاقے کے یہودی بادشاہ نے دیکھا تھا اور اس خواب کے بعد وہ بادشاہ آپ ( علیہ السلام) کی جان کے درپے ہوگیا تھا۔ ) اس سلسلے میں دوسری توجیہہ البتہ منطقی اور عقلی نوعیت کی ہے اور وہ یہ کہ فرعون اور اس کے مشیروں کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ بنی اسرائیل کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اگر ان کی تعداد میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو بہت جلد یہ لوگ ان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں اور اسی خدشے کے پیش نظر انہوں نے اسرائیلیوں کی نرینہ اولاد کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ بالکل اسی نوعیت کی ایک سوچ ماضی قریب میں ہندوستان کے اندر مسلمانوں کے خلاف بھی پیدا ہوئی تھی ‘ جب ہندوؤں کو بھی بالکل ایسا ہی اندیشہ لاحق ہوا کہ مسلمانوں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اس طرح یہ لوگ مستقبل میں ان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ چناچہ اسی اندیشے کے تحت اندرا گاندھی کے دور حکومت میں مسلمانوں کی جبری نس بندی کے لیے طرح طرح کے حربے آزمائے گئے۔ اور پھر اسی کے رد عمل کے طور پر مسلمانوں نے انتخابی معرکے میں کانگرس کے خلاف علم بغاوت بلند کیا اور یوں اندرا گاندھی کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے۔ بہر حال اس حوالے سے ان دونوں توجیہات کا اپنی اپنی جگہ پر درست ہونے کا امکان بھی ہے۔ یعنی ممکن ہے فرعون اسرائیلیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے بھی خائف ہو اور اس نے ایسا کوئی خواب بھی دیکھا ہو جس سے اسے اپنا اقتدار ڈولتا ہوا محسوس ہو اہو۔ واللہ اعلم !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

7 That is, "Bestow on them inheritance of the land so that they should be rulers over it. 8 The Western orientalists have been very critical of this. They say that Haman was a courtier of the Persian King Xerxes, who reigned hundreds of years after the Prophet Moses, from 486 to 465 B.C., but the Qur'an has made him a minister of Pharaoh in Egypt. This is nothing but an instance of sheer prejudice. After all, what historical evidence have these orientalists got to prove that there never lived any other person called Haman before Xerxes' courtier Haman? If an orientalist has been able to discover, through authentic means, a complete list of ali the ministers and chiefs and courtiers of the Pharaoh under discussion which dues not contain the name of Haman he should make it public, or publish a photostat of it, because there could be no better or more effective instrument than this c f the refutation of the Our'an.

سورة القصص حاشیہ نمبر : 8 مغربی مستشرقین نے اس بات پر بڑی لے دے کی ہے کہ ہامان تو ایران کے بادشاہ اخسویرس یعنی خشیارشا ( Xerxes ) کے دربار کا ایک امیر تھا ، اور اس بادشاہ کا زمانہ حضرت موسی کے سینکڑوں برس بعد 486 اور 465 قبل مسیح میں گزرا ہے ، مگر قرآن نے اسے مصر لے جاکر فرعون کا وزیر بنا دیا ۔ ان لوگوں کی عقل پر تعصب کا پردہ پڑا ہوا نہ ہو تو یہ خود غور کریں کہ آخر ان کے پاس یہ یقین کرنے کے لیے کیا تاریخی ثبوت موجود ہے کہ اخسویرس کے درباری ہامان سے پہلے دنیا میں کوئی شخص کبھی اس نام کا نہیں گزرا ہے ۔ جس فرعون کا ذکر یہاں ہورہا ہے اگر اس کے تمام وزراء اور امراء اور اہل دربار کی کوئی مکمل فہرست بالکل مستند ذریعے سے کسی مستشرق صاحب کو مل گئی ہے جس میں ہامان کا نام مفقود ہے تو وہ اسے چھپائے کیوں بیٹھے ہیں؟ انہیں اس کا فوٹو فورا شائع کردینا چاہیے ۔ کیونکہ قرآن کی تکذیب کے لیے اس سے زیادہ موثر ہتھیار انہیں کوئی اور نہ ملے گا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

2: انہیں جو خطرہ تھا کہ کوئی بچہ بڑا ہو کر ان کے زوال کا باعث بنے گا، اسی سے بچنے کے لیے وہ تدبیریں کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم یہ چاہتے تھے کہ انہیں یہ دکھائیں کہ ان کی ساری تدبیریں ناکام ہوگئی ہیں اور وہ خطرہ حقیقت بن کر سامنے آگیا ہے۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:6) ونمکن لہم واؤ عطف کی ہے۔ نمکن کا عطف ان نمن پر ہے۔ نمکن مضارع منصوب جمع متکلم۔ تمکین مصدر (باب تفعیل) ہم ان کو قدرت دیں۔ ہم ان کو تسلط بخشیں۔ تمکینکا لغوی معنی ہے کسی کو ایسی جگہ دیتا کہ وہ اس میں جماؤ کرسکے۔ مجازا حکومت اور قدرت دینے کا معنی ہوگیا۔ نری مضارع جمع متکلم اراء ۃ افعال مصدر ان نری۔ کہ ہم دکھا دیں۔ بےبس و ناتواں گروہ کے ہاتھوں (یعنی بنی اسرائیل) ۔ منہم کا تعلق نری سے ہے یعنی ہم فرعون و ہامان اور ان کی فوجوں کو بنی اسرائیل کے ہاتھوں وہ چیزیں دکھادیں جس کا وہ اندیشہ کرتے تھے ۔ بعض کے نزدیک یہ یحذرون سے متعلق ہے لیکن الصلۃ لاتقدم علی الموصول۔ صلہ موصول سے مقدم نہیں ہوتا۔ ما کانوا یحذرون ۔ میں ما موصولہ ہے یعنی جس کا وہ اندیشہ کرتے تھے۔ یحذرون مضارع صیغہ جمع مذکر غائب کانوا یحذرون۔ ماضی استمراری ہے وہ ڈرتے تھے) وہ اندیشہ کرتے تھے۔ حذر مصدر (باب سمع) ضرر سے بچاؤ کرنا۔ ڈرنا۔ فرعون وھامان وجنودھما تینوں نری کا مفعول اول ہیں اور ماکانوا یحذرون مفعو دوم۔ مطلب یہ ہے کہ فرعون اور اس کے رؤسا ، بنی اسرائیل میں حضرت موسیٰ کی پیدائش اور ان کے ہاتھوں اپنی تباہی سے خائف تھے اور اس سے بچنے کے لئے انہوں نے بنی اسرائیل کے نوزائدہ بچے قتل کرنا شروع کر دئیے تھے لیکن اللہ کو جو منظور تھا وہ ہو کر رہا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پیدا ہوئے اور فرعون کے گھر ہی پرورش پائی اور بعد میں ان ہی کی بددعا سے مختلف آفات ارضی و سماوی سے ان کا ناک میں دم رہا اور انجام کار دریائے نیل میں غرقاب ہوئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ اور وہ یہ کہ کہیں نجومیوں کا کہنا سچ نہ نکلے اور بنی اسرائیل ہمارے ملک و مال کے وارث نہ ہوجائیں۔ (قرطبی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ مراد اس سے زوال سلطنت و ہلاکت ہے کہ اسی سے بچاو کرنے کے لئے ابناء بنی اسرائیل کو بنا بر تعبیر ایک خواب کے جو فرعون نے دیکھا تھا اور نجومیوں نے تعبیر دی تھی قتل کر رہا تھا، پس ہمارے قضا و قدر کے سامنے ان لوگوں کی تدبیر کچھ کام نہ آئی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

6۔ اور ہم انہی کو ملک میں صاحب تصرف اور ذی اقتدار بنائیں اور ملک میں ان کو جمادیں اور فرعون اور ہامان اور ان دونوں کے لشکروں کو ان بنی اسرائیل کی جانب سے اور ان کے ہاتھوں سے وہ واقعات دکھائیں اور وہ چیزیں دکھلائیں جن چیزوں سے وہ خوف کھاتے اور ڈرا کرتے تھے۔ یعنی ہم کو یہ بھی منظور تھا کہ ان کمزوروں کو حکومت عطا کریں اور فرعون و ہامان اور ان کے پیروں کو انہی کمزورلوگوں کے ہاتھوں وہ واقعات دکھلائیں جن کا ان کو خوف تھا وہ چونکہ زورال سلطنت سے ڈرتے تھے اور ان کو یہ اندیشہ تھا کہ بنی اسرائیل کو اگر ڈھیل دی گئی تو یہ ہم سے ملک چھین لیں گے اور خود ملک مصر کے مالک بن جائیں گے اور ان کو یہ خبر نہ تھی کہ قضاء و قدر کا یہی فیصلہ ہے اور قدرت کو یہی منظور ہے کہ کمزوروں اور ناتوانوں کو موقعہ دیا جائے اور جس بات کا فرعونیوں کو ڈر تھا وہ بات سامنے آ کررہے۔