Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 62

سورة القصص

وَ یَوۡمَ یُنَادِیۡہِمۡ فَیَقُوۡلُ اَیۡنَ شُرَکَآءِیَ الَّذِیۡنَ کُنۡتُمۡ تَزۡعُمُوۡنَ ﴿۶۲﴾

And [warn of] the Day He will call them and say, "Where are My 'partners' which you used to claim?"

اور جس دن اللہ تعالٰی انہیں پکار کر فرمائے گا کہ تم جنہیں اپنے گمان میں میرا شریک ٹھہرا رہے تھے کہاں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Idolators and Their Partners and the Enmity between Them in the Hereafter Allah tells: وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ ... And (remember) the Day when He will call to them and say: Allah informs of how He will rebuke the idolators on the Day of Resurrection, when He will call them and say: ... أَيْنَ شُرَكَايِيَ الَّذِينَ كُنتُمْ تَزْعُمُونَ "Where are My (so-called) partners whom you used to assert!" meaning, `where are the gods which you used to worship in the world, the idols and rivals! Can they help you or save you!' This is said in the nature of a rebuke and warning, as in the Ayah, وَلَقَدْ جِيْتُمُونَا فُرَادَى كَمَا خَلَقْنَـكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنَـكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ وَمَا نَرَى مَعَكُمْ شُفَعَأءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَأءُ لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنكُم مَّا كُنتُمْ تَزْعُمُونَ And truly, you have come unto Us alone as We created you the first time. You have left behind you all that which We had bestowed on you. We see not with you your intercessors whom you claimed to be partners with Allah. Now all relations between you and them have been cut off, and all that you used to claim has vanished from you. (6:94) His saying:

کہاں ہیں تمہارے بت مشرکوں کو قیامت کے دن پکار کر سامنے کھڑا کرکے اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا کہ دنیا میں جنہیں تم میرے سوا پوجتے رہے جن بتوں اور پتھروں کو مانتے رہے ہو وہ کہاں ہیں؟ انہیں پکارو اور دیکھو کہ وہ تمہاری کچھ مدد کرتے ہیں؟ یا وہ خود اپنی کوئی مدد کر سکتے ہیں؟ یہ صرف بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ہوگا ۔ جیسے فرمان ہے آیت ( وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّتَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَاۗءَ ظُهُوْرِكُمْ ۚ وَمَا نَرٰي مَعَكُمْ شُفَعَاۗءَكُمُ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِيْكُمْ شُرَكٰۗؤُا ۭ لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ 94؀ۧ ) 6- الانعام:94 ) یعنی ہم تمہیں ویسے ہی تن تنہا اور ایک ایک کرکے لائیں گے جیسے ہم نے اول دفعہ پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تمہیں یاد دلایا تھا وہ سب تم اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے ۔ ہم تو آج تمہارے ساتھ کسی سفارشی کو بھی نہیں دیکھتے جنہیں تم شریک الٰہی ٹھیرائے ہوئے تھے ۔ تم میں ان میں کوئی لگاؤ نہیں رہا اور تمہارے گمان کردہ شریک سب آج تم سے کھوئے ہوئے ہیں ۔ جن پر عذاب کی بات ثابت ہوچکی یعنی شیاطین اور سرکش لوگ اور کفر کے بانی اور شرک کی طرف لوگوں کو بلانے والے یہ سب بڑے بڑے لوگ اس دن کہیں گے کہ اے اللہ ہم نے انہیں گمراہ کیا اور انہوں نے ہماری کفریہ باتیں سنیں اور مانیں جیسے ہم بہکے ہوئے تھے انہیں بھی بہکایا ۔ ہم ان کی عبادت سے تیرے سامنے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے ( وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اٰلِهَةً لِّيَكُوْنُوْا لَهُمْ عِزًّا 81؀ۙ ) 19-مريم:81 ) انہوں نے اللہ کے سوا اور معبود بنالئے تاکہ وہ ان کے لئے باعث عزت بنیں لیکن ایسا نہیں ہونے کا یہ تو انکی عبادت سے بھی انکار کر جائیں گے اور الٹے ان کے دشمن بن جائیں گے ۔ اور آیت میں ہے ( وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنْ يَّدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَنْ لَّا يَسْتَجِيْبُ لَهٗٓ اِلٰى يَوْمِ الْقِيٰمَةِ وَهُمْ عَنْ دُعَاۗىِٕهِمْ غٰفِلُوْنَ Ĉ۝ ) 46- الأحقاف:5 ) اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتا ہے جو قیامت کی گھڑی تک انہیں جواب نہ دے سکیں اور وہ ان کی پکار سے بھی غافل ہوں اور قیامت کے دن لوگوں کے حشر کے موقعہ پر ان کے دشمن بن جائیں اور اس بات سے صاف انکار کردیں کہ انہوں نے انکی عبادت کی تھی ۔ حضرت خلیل اللہ علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا تھا کہ تم نے جن بتوں کی پوجا پاٹ شروع کر رکھی ہے ان سے صرف دنیاکی ہی دوستی ہے قیامت کے دن تو تم سب ایک دوسرے کے منکر ہوجاؤ گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجوگے ۔ اور آیت میں ہے ( اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِيْنَ اتُّبِعُوْا مِنَ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْا وَرَاَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِهِمُ الْاَسْـبَابُ ١٦٦؁ ) 2- البقرة:166 ) یعنی جو تابعداری کرنے والے تھے اور وہ ان کی پرجوش کی تابعداری کرتے رہے مگر یہ ان سے بری اور بیزار ہوجائیں گے یعنی عذابوں کو سامنے دیکھتے ہوئے سب تعلقات ٹوٹ جائیں گے ۔ ان سے فرمایا جائے گا کہ دنیا میں جنہیں پوجتے رہے ہو آج انہیں کیوں نہیں پکارتے؟ اب یہ پکاریں گے لیکن کوئی جواب نہ پائیں گے اور انہیں یقین ہوجائے گا کہ یہ آگ کے عذاب میں جائیں گے اس وقت آرزو کریں گے کہ کاش ہم راہ یافتہ ہوتے ؟ جیسے ارشاد ہے کہ آیت ( وَيَوْمَ يَقُوْلُ نَادُوْا شُرَكَاۗءِيَ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهُمْ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ مَّوْبِقًا 52؀ ) 18- الكهف:52 ) جس دن فرمائے گا کہ میرے ان شریکوں کو آواز دو جنہیں تم بہت کچھ سمجھ رہے تھے یہ پکاریں گے لیکن وہ جواب نہ دیں گے اور ہم ان کے اور ان کے درمیان آڑ کریں گے مجرم لوگ دوزخ کو دیکھیں گے پھر باور کرائیں گے کہ وہ اس میں گرنے والے ہیں لیکن اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے اسی قیامت والے دن ان سب کو سنا کر ایک سوال یہ بھی ہوگا کہ تم نے میرے انبیاء کو کیا جواب دیا ؟ اور کہاں تک ان کا ساتھ دیا ؟ پہلے توحید کے متعلق بازپرس تھی اب رسالت کے متعلق سوال جواب ہو رہے ہیں ۔ اسی طرح قبر میں بھی سوال ہوتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ تیرا نبی کون ہے؟ اور تیرا دین کیا ہے؟ مومن جواب دیتا ہے کہ میرا معبود صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور میرے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے ( سلام علیہ ) ہاں کافر سے کوئی جواب نہیں بن پڑتا وہ گھبراہٹ اور پریشانی سے کہتا ہے مجھے اسکی کوئی خبر نہیں ۔ اندھا بہرا ہو جاتا ہے جیسے فرمایا آیت ( وَمَنْ كَانَ فِيْ هٰذِهٖٓ اَعْمٰى فَهُوَ فِي الْاٰخِرَةِ اَعْمٰى وَاَضَلُّ سَبِيْلًا 72؀ ) 17- الإسراء:72 ) جو شخص یہاں اندھا ہے وہ وہاں بھی اندھا اور راہ بھولا رہے گا ۔ تمام دلیلیں ان کی نگاہوں سے ہٹ جائیں گی رشتے ناتے حسب نسب کی کوئی قدر نہ ہوگی نسب ناموں کا کوئی سوال نہ ہوگا ۔ ہاں دنیا میں توبہ کرنے والے ایمان اور نیکی کے ساتھ زندگی گزارنے والے تو بیشک فلاح اور نجات حاصل کرلیں گے یہاں عسی یقین کے معنی میں ہے یعنی مومن ضرور کامیاب ہونگے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

621یعنی وہ بت یا اشخاص ہیں، جن کو تم دنیا میں میری الوہیت میں شریک گردانتے تھے، انھیں مدد کے لئے پکارتے تھے اور ان کے نام کی نذر نیاز دیتے تھے، آج کہاں ہیں ؟ کیا وہ تمہاری مدد کرسکتے ہیں اور تمہیں میرے عذاب سے چھڑا سکتے ہیں ؟ یہ تقریع وتوبیخ کے طور پر اللہ تعالیٰ ان سے کہے گا، ورنہ وہاں اللہ کے سامنے کس کو مجال دم زدنی ہوگی ؟ یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے سورة الانعام، (وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّتَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَاۗءَ ظُهُوْرِكُمْ ۚ وَمَا نَرٰي مَعَكُمْ شُفَعَاۗءَكُمُ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِيْكُمْ شُرَكٰۗؤُا ۭ لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ) 6 ۔ الانعام :94) اور دیگر بہت سے مقامات پر بیان فرمایا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٥] یہ آیت بھی مشرکین مکہ ہی سے متعلق ہے جو دنیوی مفادات کی خاطر شرک اور بت سے چمٹے رہنا چاہتے تھے۔ انھیں ان کی کرتوت کے نتیجہ سے آگاہ کیا جارہا ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایسے مشرکوں سے پوچھے گا تم یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ یہ دنیوی مفادات تمہیں میرے شریکوں کی وجہ سے مل رہے ہیں۔ اب بتلاؤ آج وہ کہاں ہیں تاکہ آج بھی تمہیں کچھ فائدہ پہنچاسکیں۔ اگر آج وہ تمہیں کچھ فائدہ پہنچا سکے شتو سمجھ لینا کہ دنیا میں بھی وہی فائدہ پہنچا رہے تھے اور اگر کچھ فائدہ نہ دے سکیں تو حقیقت تم پر خود واضح ہوجائے گی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَيَوْمَ يُنَادِيْهِمْ ۔۔ : یہ آیات بھی مشرکین مکہ ہی سے متعلق ہیں جو دنیوی مفادات کی خاطر شرک اور شرک کے عَلَم برداروں سے چمٹے ہوئے تھے، انھیں ان کے اس عمل بد کے انجام سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ الفاظ عام ہونے کی وجہ سے ان کا تعلق تمام کفار سے بھی ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ انھیں آواز دے کر دو سوال کریں گے، دونوں سوالوں سے مقصود پوچھنا نہیں بلکہ انھیں ذلیل کرنا اور ان کے شرکاء کے بےبس اور بےاختیار ہونے کا اظہار ہے۔ فَيَقُوْلُ اَيْنَ شُرَكَاۗءِيَ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ : یہ پہلا سوال ہے جو اللہ تعالیٰ مشرکین کو آواز دے کر ان سے کریں گے کہ بتاؤ کہاں ہیں میرے وہ شریک جن کے متعلق تم سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ تمہارے نفع یا نقصان کے مالک ہیں اور دنیوی مفادات ان کی بدولت حاصل ہو رہے ہیں، یا وہ تمہیں سفارش کر کے چھڑوا لیں گے ؟ دیکھیے سورة انعام (٩٤) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَيَوْمَ يُنَادِيْہِمْ فَيَقُوْلُ اَيْنَ شُرَكَاۗءِيَ الَّذِيْنَ كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ۝ ٦٢ ندا النِّدَاءُ : رفْعُ الصَّوت وظُهُورُهُ ، وقد يقال ذلک للصَّوْت المجرَّد، وإيّاه قَصَدَ بقوله : وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] أي : لا يعرف إلّا الصَّوْت المجرَّد دون المعنی الذي يقتضيه تركيبُ الکلام . ويقال للمرکَّب الذي يُفْهَم منه المعنی ذلك، قال تعالی: وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] وقوله : وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] ، أي : دَعَوْتُمْ ، وکذلك : إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] ونِدَاءُ الصلاة مخصوصٌ في الشَّرع بالألفاظ المعروفة، وقوله : أُولئِكَ يُنادَوْنَمِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] فاستعمال النّداء فيهم تنبيها علی بُعْدهم عن الحقّ في قوله : وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] ، وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] ، وقال : فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] ، وقوله : إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] فإنه أشار بِالنِّدَاء إلى اللہ تعالی، لأنّه تَصَوَّرَ نفسَهُ بعیدا منه بذنوبه، وأحواله السَّيِّئة كما يكون حال من يَخاف عذابَه، وقوله : رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] فالإشارة بالمنادي إلى العقل، والکتاب المنزَّل، والرّسول المُرْسَل، وسائر الآیات الدَّالَّة علی وجوب الإيمان بالله تعالی. وجعله منادیا إلى الإيمان لظهوره ظهورَ النّداء، وحثّه علی ذلك كحثّ المنادي . وأصل النِّداء من النَّدَى. أي : الرُّطُوبة، يقال : صوت نَدِيٌّ رفیع، واستعارة النِّداء للصَّوْت من حيث إنّ من يَكْثُرُ رطوبةُ فَمِهِ حَسُنَ کلامُه، ولهذا يُوصَفُ الفصیح بکثرة الرِّيق، ويقال : نَدًى وأَنْدَاءٌ وأَنْدِيَةٌ ، ويسمّى الشَّجَر نَدًى لکونه منه، وذلک لتسمية المسبَّب باسم سببِهِ وقول الشاعر : 435- كَالْكَرْمِ إذ نَادَى مِنَ الكَافُورِ «1» أي : ظهر ظهورَ صوتِ المُنادي، وعُبِّرَ عن المجالسة بالنِّدَاء حتی قيل للمجلس : النَّادِي، والْمُنْتَدَى، والنَّدِيُّ ، وقیل ذلک للجلیس، قال تعالی: فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] ومنه سمّيت دار النَّدْوَة بمكَّةَ ، وهو المکان الذي کانوا يجتمعون فيه . ويُعَبَّر عن السَّخاء بالنَّدَى، فيقال : فلان أَنْدَى كفّاً من فلان، وهو يَتَنَدَّى علی أصحابه . أي : يَتَسَخَّى، وما نَدِيتُ بشیءٍ من فلان أي : ما نِلْتُ منه نَدًى، ومُنْدِيَاتُ الكَلِم : المُخْزِيَات التي تُعْرَف . ( ن د ی ) الندآ ء کے معنی آواز بلند کرنے کے ہیں اور کبھی نفس آواز پر بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے ۔ چناچہ آیت کریمہ : ۔ وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] جو لوگ کافر ہیں ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ میں اندر سے مراد آواز و پکار ہے یعنی وہ چو پائے صرف آواز کو سنتے ہیں اور اس کلام سے جو مفہوم مستناد ہوتا ہے اسے ہر گز نہیں سمجھتے ۔ اور کبھی اس کلام کو جس سے کوئی معنی مفہوم ہوتا ہو اسے ندآء کہہ دیتے ہیں ۔ چناچہ قرآن پاک میں ہے ۔ وَإِذْ نادی رَبُّكَ مُوسی[ الشعراء/ 10] اور جب تمہارے پروردگار نے موسیٰ کو پکارا ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا نادَيْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ [ المائدة/ 58] اور جب تم لوگ نماز کے لئے اذان دیتے ہو ۔ میں نماز کے لئے اذان دینا مراد ہے ۔ اسی طرح آیت کریمہ : ۔ إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ [ الجمعة/ 9] جب جمعے کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے ۔ میں بھی نداء کے معنی نماز کی اذان دینے کے ہیں اور شریعت میں ند اء الصلوۃ ( اذان ) کے لئے مخصوص اور مشہور کلمات ہیں اور آیت کریمہ : ۔ أُولئِكَ يُنادَوْنَ مِنْ مَكانٍ بَعِيدٍ [ فصلت/ 44] ان کو گویا دور جگہ سے آواز دی جاتی ہے : ۔ میں ان کے متعلق نداء کا لفظ استعمال کر کے متنبہ کیا ہے کہ وہ حق سے بہت دور جا چکے ہیں ۔ نیز فرمایا ۔ وَاسْتَمِعْ يَوْمَ يُنادِ الْمُنادِ مِنْ مَكانٍ قَرِيبٍ [ ق/ 41] اور سنو جس دن پکارنے والا نزدیک کی جگہ سے پکارے گا ۔ وَنادَيْناهُ مِنْ جانِبِ الطُّورِ الْأَيْمَنِ [ مریم/ 52] اور ہم نے ان کو طور کے ذہنی جانب سے پکارا فَلَمَّا جاءَها نُودِيَ [ النمل/ 8] جب موسیٰ ان ان کے پاس آئے تو ندار آئی ۔ ۔ اور آیت کریمہ : ۔ إِذْ نادی رَبَّهُ نِداءً خَفِيًّا [ مریم/ 3] جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا میں اللہ تعالیٰ کے متعلق نادی کا لفظ استعمال کرنے سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکریا (علیہ السلام) نے اپنے گناہ اور احوال سینہ کے باعث اس وقت اپنے آپ کو حق اللہ تعالیٰ سے تصور کیا تھا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرنے والے کی حالت ہوتی ہے اور آیت کریمہ ؛ ۔ رَبَّنا إِنَّنا سَمِعْنا مُنادِياً يُنادِي لِلْإِيمانِ [ آل عمران/ 193] اے پروردگار ہم نے ایک ندا کرنے والے کو سنا ۔ جو ایمان کے لئے پکاررہا تھا ۔ میں منادیٰ کا لفظ عقل کتاب منزل رسول مرسل اور ان آیات الہیہ کو شامل ہے جو ایمان باللہ کے وجوب پر دلالت کرتی ہیں اور ان چیزوں کو منادی للا یمان اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ ندا کی طرح ظاہر ہوتی ہیں اور وہ پکارنے والے کی طرح ایمان لانے کی طرف دعوت دے رہی ہیں ۔ اصل میں نداء ندی سے ہے جس کے معنی رطوبت نمی کے ہیں اور صوت ندی کے معنی بلند آواز کے ہیں ۔ اور آواز کے لئے نداء کا استعارہ اس بنا پر ہے کہ جس کے منہ میں رطوبت زیادہ ہوگی اس کی آواز بھی بلند اور حسین ہوگی اسی سے فصیح شخص کو کثرت ریق کے ساتھ متصف کرتے ہیں اور ندی کے معنی مجلس کے بھی آتے ہیں اس کی جمع انداء واندید آتی ہے ۔ اور در خت کو بھی ندی کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ نمی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ تسمیۃ المسبب با سم السبب کے قبیل سے ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( 420 ) کالکرم اذا نادٰی من الکافور جیسا کہ انگور کا خوشہ غلاف ( پردہ ) سے ظاہر ہوتا ہے ۔ جیسا کہ منادی کرنے والے کی آواز ہوتی ہے ۔ کبھی نداء سے مراد مجالست بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے مجلس کو النادی والمسدیوالندی کہا جاتا ہے اور نادیٰ کے معنی ہم مجلس کے بھی آتے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ فَلْيَدْعُ نادِيَهُ [ العلق/ 17] تو وہ اپنے یاران مجلس کو بلالے ۔ اور اسی سے شہر میں ایک مقام کا نام درا لندوۃ ہے ۔ کیونکہ اس میں مکہ کے لوگ جمع ہو کر باہم مشورہ کیا کرتے تھے ۔ اور کبھی ندی سے مراد مخاوت بھی ہوتی ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے : ۔ فلان اندیٰ کفا من فلان وپ فلاں سے زیادہ سخی ہے ۔ ھو یتندٰی علیٰ اصحابہ ۔ وہ اپنے ساتھیوں پر بڑا فیاض ہے ۔ ما ندیت بشئی من فلان میں نے فلاں سے کچھ سخاوت حاصل نہ کی ۔ مندیات الکلم رسوا کن باتیں مشہور ہوجائیں ۔ شرك وشِرْكُ الإنسان في الدّين ضربان : أحدهما : الشِّرْكُ العظیم، وهو : إثبات شريك لله تعالی. يقال : أَشْرَكَ فلان بالله، وذلک أعظم کفر . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] ، والثاني : الشِّرْكُ الصّغير، وهو مراعاة غير اللہ معه في بعض الأمور، وهو الرّياء والنّفاق المشار إليه بقوله : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] ، ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ دین میں شریک دو قسم پر ہے ۔ شرک عظیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک ٹھہرانا اور اشراک فلان باللہ کے معنی اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے ہیں اور یہ سب سے بڑا کفر ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ إِنَّ اللَّهَ لا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ [ النساء/ 48] خدا اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے ۔ دوم شرک صغیر کو کسی کام میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے کو بھی جوش کرنے کی کوشش کرنا اسی کا دوسرا نام ریا اور نفاق ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : جَعَلا لَهُ شُرَكاءَ فِيما آتاهُما فَتَعالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ [ الأعراف/ 190] تو اس ( بچے ) میں جو وہ ان کو دیتا ہے اس کا شریک مقرر کرتے ہیں جو وہ شرک کرتے ہیں ۔ خدا کا ( رتبہ ) اس سے بلند ہے ۔ زعم الزَّعْمُ : حكاية قول يكون مظنّة للکذب، ولهذا جاء في القرآن في كلّ موضع ذمّ القائلون به، نحو : زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن/ 7] ، لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف/ 48] ، كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام/ 22] ، زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء/ 56] ، وقیل للضّمان بالقول والرّئاسة : زَعَامَةٌ ، فقیل للمتکفّل والرّئيس : زَعِيمٌ ، للاعتقاد في قوليهما أنهما مظنّة للکذب . قال : وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف/ 72] ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم/ 40] ، إمّا من الزَّعَامَةِ أي : الکفالة، أو من الزَّعْمِ بالقول . ( ز ع م ) الزعمہ اصل میں ایسی بات نقل کرنے کو کہتے ہیں جس میں جھوٹ کا احتمال ہو اس لئے قرآن پاک میں یہ لفظ ہمیشہ اس موقع پر آیا ہے جہاں کہنے والے کی مذمت مقصود ہے چناچہ فرمایا : ۔ زَعَمَ الَّذِينَ كَفَرُوا[ التغابن/ 7] کفار یہ زعم کو کہتے ہیں ۔ لْ زَعَمْتُمْ [ الكهف/ 48] مگر تم یہ خیال کرتے ہو ۔ كُنْتُمْ تَزْعُمُونَ [ الأنعام/ 22] جن کو شریک خدائی سمجھتے تھے ۔ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ [ الإسراء/ 56] جنہیں تم نے ) اللہ کے سوا ( معبود ) خیال کیا ۔ اور زعامۃ کے معنی ذمہ داری اٹھانے اور ریاست ( سرداری ) کے ہیں اور کفیل ( ضامن اور رئیں کو زعیم کہا جاتا ہے کیونکہ ان دونوں کی بات میں جھوٹ کا احتمال ہوسکتا ہے قرآن میں ہے : ۔ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ [يوسف/ 72] اور میں اس کا ذمہ دار ہوں ، أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمٌ [ القلم/ 40] ان میں سے کون اس کا ذمہ دار ہے ۔ یہاں زعیم یا تو زعامہ بمعنی کفالۃ سے ہے اور یا زعم بلقول سے ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٢) اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ابوجہل اور اس کے ساتھیوں کو پکار کرک ہے گا کہ وہ میرے شریک کہاں ہیں جن کی تم عبادت کر رہے تھے اور میرا شریک سمجھ رہے تھے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٦٢ (وَیَوْمَ یُنَادِیْہِمْ فَیَقُوْلُ اَیْنَ شُرَکَآءِ یَ الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ ) ” جن کے بارے میں تمہیں یہ زعم اور گمان ہوگیا تھا کہ وہ اللہ کے شریک ہیں ‘ وہ اب کہاں ہیں ؟

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

85 This discourse is in continuation of the fourth answer, and is linked with the last sentence of the preceding verse. It means to imply this: Those who persist in the evil of shirk and idol-worship and refuse to believe in the Prophet only for the sake of their worldly interests, will meet with such and such evil consequences in the eternal life of the Hereafter. They should, therefore, carefully judge for themselves whether it would be a good bargain if they were to be doomed to such an end, after they had enjoyed fully the provisions and adornments of the short worldly life even if no calamity befell them in the world.

سورة القصص حاشیہ نمبر : 85 یہ تقریر بھی اسی چوتھے جواب کے سلسلہ میں ہے ، اور اس کا تعلق اوپر کی آیت کے آخری فقرے سے ہے اس میں یہ بتایا جارہا ہے کہ محض اپنے دنیوی مفاد کی خاطر شرک و بت پرستی اور انکار نبوت کی جس گمراہی پر یہ لوگ اصرار کر رہے ہیں ، آخرت کی ابدی زندگی میں اس کا کیسا برا نتیجہ انہیں دیکھنا پڑے گا ، اس سے یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ فرض کرو دنیا میں تم پر کوئی آفت نہ بھی آئے اور یہاں کی مختصر سی زندگی میں تم حیات دنیا کی متاع و زینت سے خوب بہرہ اندوز بھی ہولو ، تب بھی اگر آخرت میں اس کا انجام یہی کچھ ہونا ہے تو خود سوچ لو کہ یہ نفع کا سودا ہے جو تم کر رہے ہو ، یا سراسر خسارے کا سودا ؟

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

35: اس سے مراد ہو شیاطین ہیں جن کو کافروں نے معبود بنا رکھا تھا۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:62) یوم۔ مفعول فیہ ہے فعل محذوف کا۔ ای اذکر یوم۔ ینادیہم : ینادی مضارع واحد مذکر غائب۔ نادی ینادی مناداۃ (مفاعلۃ) وہ پکارے گا۔ وہ بلائے گا۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب ان کو وہ ان کو پکارے گا۔ ضمیر فاعل اللہ کی طرف راجع ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ ان کے قیامت کے دن بالواسطہ یا بلاواسطہ پکارے گا (اور یہ نداء اہانت و توبیخ کی ہوگی) ۔ فیقول۔ میں ف عاطفہ ہے یقول کی ضمیر فاعل کا مرجع بھی اللہ تعالیٰ ہے ۔ کنتم تزعمون۔ ماضی استمراری صیغہ جمع مذکر غائب زعم (نصر) سے مصدر۔ اسی لئے قرآن مجید میں جہاں بھی زعم کا استعمال ہوا ہے وہاں کہنے والے کی مذمت ہی مقصود ہے۔ کنتم تزعمون تم دعوی کیا کتے تھے۔ تم خیال کیا کرتے تھے (کہ میرے شریک ہیں) اور جگہ اس کا استعمال زعمتم من دونہ (17:56) جنہیں تم نے اس (اللہ) کے سوا (معبود) خیال کیا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

4 ۔ ” اور ان کی سفارش پر تکیہ کر کے گناہ پر گناہ کئے جاتے تھے “۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 62 تا 67) ۔ ینا دی (وہ آواز دیتا ہے ) ۔ این (کہاں ) ۔ شرکاء ی (میرے شریک ) ۔ تزعمون (تم گھمنڈ کرتے ہو۔ تم گمان کرتے ہو ) ۔ حق علیھم (جن پا ثابت ہوگیا ) ۔ اغوینا (ہم نے بہکایا ) ۔ تبرءنا (ہم نے بیزاری کا اظہار کیا ) ۔ عمیت علیھم ( ان پر اندھی ہوگئی۔ ان کو نہ سوجھی ) ۔ تشریح : آیت نمبر (62 تا 67 ) ۔ ” ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان مشرکین کی بےچارگی اور حسرت و افسوس کی تفصیل بیان کی ہے جو قیامت کے ہولناک دن بری طرح ذلیل و خوار ہوجائیں گے اور مجرم کی حیثیت سے اللہ کے سامنے حاضر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ آج کے دن اپنے ان معبودوں کو پکارو جنہیں تم میر شریک بنا کر گھمنڈ کرتے تھے ان کو اپنا مشکل کشا مانتے تھے۔ اس دن سب سے آگے بڑھ کر وہ جھوٹے معبود بولیں گے جن پر عذاب کا فیصلہ ثابت ہوچکا ہوگا کہ اے ہمارے پروردگار یہ وہی ہیں جن کو ہم نے بہکایا اور گمراہ کیا تھا کیونکہ ہم تو خود ہی گمراہ تھے۔ اگر ہم نے ان کو گمراہ کیا تو اس میں تنہا ہمارا قصور نہیں ہے کیونکہ ہم نے ان کو گمراہی پر مجبور نہیں کیا تھا۔ اس گمراہی میں ان کی اپنی مرضی بھی شامل تھی۔ اللہ تعالیٰ ان مشرکین سے فرمائیں گے کہ اب تم اپنے معبودوں کو اپنی مدد اور چائو کے لئے پکارو۔ جب وہ ان کو اپنی مدد کے لئے پکاریں گے تو انہیں کوئی جواب نہ ملے گا کیونکہ وہ خود مصیبت اور مشکل میں پھنسے ہوئے ہوں گے۔ اس وقت جب وہ عذاب کو دیکھیں گے تہ کہہ اٹھیں گے کہ کاش ہم دنیا میں کسی سیدھے راستے پر ہوتے تو یہ دن دیکھنا نہ پڑتا۔ ابھی وہ مشرکین اپنے معبودوں سے مایوسی پر افسوس کر رہے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان سے پوچھیں گے کہ بتائو تم نے اللہ کے پیغمبروں کی بات کیوں نہ مانی اور جو پیغام وہ سنانے آئے تھے اسے کیون نہ سنا ؟ اس سوال سے ان پر ایسی گھبراہٹ طاری ہوجائے گی کہ ان کے ہوش اڑ جائیں گے اور انہیں کچھ بھی یاد نہ آئے گا اور ایسا لگے گا جیسے ان کے منہ پر تالے پڑگئے ہیں وہ اس حالت میں ایک دوسرے سے اس سوال کا جواب پوچھنے کے قابل بھی نہ رہیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن لوگوں نے اسی دنیا میں توبہ کرلی وہ گی اور ایمان لا کر عمل صالح کا راستہ اختیار کرلیا ہوگا وہ اس بات کی امید رکھ سکتے ہیں کہ انہیں آخرت میں ہر طرح کی کامیابیاں عطا کی جائیں گی۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ مراد اس سے شیاطین ہیں کہ ان ہی کی اطاعت مطلقہ سے شکر کرتے تھے اس لئے ان کا شرکاء کہا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : آخرت کے مقابلے میں دنیا کو ترجیح دینے والوں کا انجام۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مشرکوں کے سامنے شرک کی حیثیت واضح کرنے اور انھیں ایک دوسرے کے سامنے ذلیل کرنے کے لیے حکم صادر فرمائے گا کہ میری ذات اور صفات میں شریک کرنے والو ! وہ لوگ کہاں ہیں جن کو تم سفارشی اور حاجت روا، مشکل کشا سمجھ کر میرے شریک بنایا کرتے تھے ؟ اس وقت حقیقت واضح ہوچکی ہوگی کہ آج ہم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرسکتے۔ اس لیے مریدوں سے پہلے پیر، عابد سے پہلے معبود پکار اٹھیں گے اے ہمارے رب ! بیشک یہی لوگ ہیں جنہیں ہم نے گمراہ کیا۔ یہ اسی طرح گمراہ ہوئے جس طرح ہم گمراہ تھے۔ پھر مریدوں کو موقعہ دیا جائے گا کہ بلاؤ اپنی مدد کے لیے جن کو دنیا میں تم مشکل کشا اور سفارشی سمجھتے تھے۔ جب غلط پیروں کو ان کے مریدمدد کے لیے پکاریں گے تو وہ ” اللہ “ کا عذاب دیکھتے ہی اپنی برأت کا اظہار کرتے ہوئے کہیں گے کہ اے اللہ یہ صرف ہماری عبادت نہیں کرتی تھے بلکہ جگہ جگہ ٹکریں مارتے پھرتے تھے۔ دنیا میں مشرک کی یہی حالت ہوتی ہے کہ وہ بیک وقت کئی مزاروں کے چکر کاٹتا اور دردر کی ٹھوکریں کھاتا پھرتا ہے۔ مجرم اس بات کا بھی اظہار کریں گے کہ کاش ہم ہدایت یافتہ ہوتے۔ بخاری شریف میں کئی مقامات پر رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان درج ہے جس میں آپ نے توحید کی برکات کا یوں ذکر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ محشر کے میدان میں اعلان فرمائیں گے جو دنیا میں کسی کی عبادت کرتا تھا وہ اس کے پاس چلا جائے۔ مشرک اپنے اپنے پیروں اور معبودوں کے پاس چلے جائیں گے لیکن کچھ لوگ کھڑے رہیں گے۔ جن میں فاسق لوگ بھی ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان سے سوال فرمائیں گے کہ تم کیوں نہیں جاتے ؟ وہ عرض کریں گے کہ ہم دنیا میں تیرے ساتھ کسی کو مشکل کشا، حاجت روا، دستگیر اور آپ کی ذات کے ساتھ کسی کو شریک نہیں گردانتے تھے اب بھی تیری ذات کبریا کو چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔ چناچہ شرک سے اجتناب کرنے اور توحید کے صلہ میں انہیں معاف کردیا جائے گا۔ [ رواہ البخاری تفسیر سورة النساء ] مسائل ١۔ قیامت کے دن پیروں اور مریدوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنے کا موقعہ دیا جائے گا۔ ٢۔ غلط پیر مریدوں کے بولنے سے پہلے مریدوں کو گمراہ کرنے کا اعتراف کریں گے۔ ٣۔ ” اللہ “ کا عذاب دیکھ کر قیامت کے دن پیر، مرید اپنی گمراہی پر افسوس کا اظہار کریں گے۔ تفسیر بالقرآن قیامت کے دن گمراہ پیروں اور مریدوں کا آپس میں جھگڑنا : ١۔ قیامت کے دن پیر مرید ایک دوسرے کا انکار کریں گے اور ایک دوسرے پر پھٹکار کریں گے۔ (العنکبوت : ٢٥) ٢۔ قیامت کے دن پیشوا اپنے پیرو کاروں سے براءت کا اظہار کریں گے۔ (البقرۃ : ١٦٦) ٣۔ قیامت کے دن گمراہ پیروں اور لیڈروں کے پیچھے لگنے والے کہیں گے اگر دنیا میں جانا ہمارے لیے ممکن ہو تو ہم تم سے علیحدگی اختیار کریں گے۔ (البقرۃ : ١٦٥) ٤۔ کمزور بڑوں سے کہیں گے کہ اگر تم نہ ہوتے تو ہم مومن ہوتے۔ (سبا : ٣٢۔ ٣١) ٥۔ قیامت کے دن مجرم دوزخ میں جھگڑیں گے تو چھوٹے لوگ اپنے بڑوں سے کہیں گے کہ ہم تو تمہارے تابع تھے۔ (المومن : ٤٨) ٦۔ قیامت کے دن جہنمیوں کا آپس میں جھگڑنا یقینی ہے۔ ( ص : ٦٤ )

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اب قیامت کے مناظر جس میں ان لوگوں سے یوں سوال و جواب ہوگا اور اس سے اندازہ ہوگا کہ وہاں ان کی حالت زار کیسی ہوگی ۔ ویوم ینادھم فیقول ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان یکون من المفلحین (62 – 67) پہلاسوال تو سرزنش کے لیے ہوگا اور اس سے محض ان کو شر مندہ کرنا مطلوب ہوگا۔ این شرکاءی الذین کنتم تزعمون (28: 62) ” کہاں ہیں وہ شریک جن کا تم گمان رکھتے تھے “۔ اللہ کو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ اس دن اس قسم کے کسی شریک کا وجود نہ ہوگا ۔ اور اس دن ان کے متبعین کو بھی کچھ پتہ نہ ہوگا کہ ان شرکاء کا کوئی وجود ہے یا نہیں ۔ نہ یہ لوگ ان شرکاء تک پہنچ سکیں گے ۔ یہ سوال دراصل ان لوگوں کو مجمع عام میں شرمندہ کرنے اور سرزنش کرنے کے لیے کیا جائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ جن کے متعلق یہ سوال کیا گیا وہ یہاں جواب نہیں دیتے کیونکہ یہ سوال جواب طلب ہی نہیں ہے بلکہ وہ لوگ کوشش کرتے ہیں کہ ان کے جو متبعین گمراہ ہوئے اور ان کی پیروی اختیار کی ان کے اس جرم سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار دیں ۔ جیسا کہ کبراء قریش لوگوں کو گمراہی پر آمادہ کرتے تھے اور ان کو اللہ کی راہ سے روکتے تھے ۔ اسلیے ان کا جواب یوں ہوگا ربنا ھولاء الذین ۔۔۔۔۔۔۔ یعبدون (28: 63) ” اے ہمارے رب ، بیشک یہی لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ کیا تھا ۔ انہیں ہم نے اسی طرح گمراہ کیا جس طرح ہم خود گمراہ ہوئے ۔ ہم آپ کے سامنے برات اظہار کرتے ہیں ۔ یہ ہماری کوئی بندگی نہ کرتے تھے “۔ ہمارے رب ہم نے ان کو زبر دستی گمراہ نہیں کیا ۔ ان کے دل دماغ پر ہمیں کوئی کنٹر ول حاصل نہ تھا ۔ یہ لوگ اپنی مرضی اور آزادانہ اختیار سے گمراہی میں پڑے جیسا کہ ہم خود بغیر کسی مجبوری کے گمراہی میں پڑے ۔ تبرانا الیک (28: 63) ” ہم آپ کے سامنے برات اظہار کرتے ہیں “ کہ ہم نے ان کو گمراہ کیا ہے ۔ ما کانوا ایانا یعبدون (28: 63) ” یہ ہماری بندگی تو نہ کرتے تھے “۔ بلکہ یہ بتوں ، آستانوں اور دوسری مخلوقات کی بندگی کرتے تھے۔ ہم نے ان سے یہ نہ کہا تھا کہ ہم تمہارے الٰہ ہیں ، اور نہ وہ وہاں ہماری عبادت کرتے تھے۔ اب ان کو اس مقام شرمندگی کی طرف لایا جا رہا ہے جس کی طرف وہ بات کا رخ کرنا نہیں چاہتے جس سے وہ بات کر پھیر کر دوسری طرف لے جانا چاہتے ہیں یعنی وہ شرکاء جو ان لوگوں کو اللہ کے سوا پکڑے ہوئے تھے۔ وقیل ادعوا شرکآء کم (28: 64) ” پھر کہا جائے گا کہ پکارو ، ان ٹھیرائے ہوئے شریکوں کو “۔ یعنی ان کو پکارو ، اور ان کی سیرت سے بہ بھاگو ، ان کو پکارو کہ وہ اب تمہیں تمہاری پکار کو پہنچیں۔ تمہیں اس مصیبت سے چھڑائیں ، ان کو پکارو کہ آج دن ہے ان کے کام کرنے کا۔ یہی تو ان کا فائدہ تھا۔ یہ بدبخت لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان شرکاء کو آج پکارنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے ، لیکن بامر مجبوری وہ احکام الہیہ کو بچا لائیں گے۔ فدعوھم فلم یستجیبو الھم (28: 64) ” یہ انہیں پکاریں گے مگر وہ ان کو کوئی جواب نہ دیں گے “۔ ان شرکاء سے یہی توقع تھی کہ وہ کوئی جواب نہ دیں گے۔ البتہ آواز اس لیے دلوائی جائے گی تاکہ یہ پکارنے والے اچھی اطرح ذلیل ہوں۔ ورآوا العذاب (28: 64) ” اور یہ لوگ عذاب دیکھ لیں گے “۔ یعنی اس بحث و مباحثے کے درمیان ہی عذاب دیکھ لیں گے۔ یہ اس عذاب ہی کی طرف بڑھ رہے ہوں گے اور عذاب ان کو نظر آجائے گا۔ اس ذلیل کرنے والے منظر کے بعد پھر اسی عذاب کا منظر ہوگا۔ یہ شرمسار کنندہ منظر جب اپنی انتہاؤں پر ہوتا ہے تو اچانک ان پر وہ ہدایت پیش کردی جاتی ہے کہ کاش تم اسے قبول کرلیتے۔ اس برے حال میں یہ لوگ یہی آرزو کرتے ہوں گے کہ اے کاش کہ وہ ایسا کرتے ، دنیا میں تو یہ ہدایت ان کے دسترس میں تھی اور اگر وہ لبیک کہہ کر اسے قبول کرلیتے تو آج یہ حالت نہ ہوتی۔ لو انھم کانوا یھتدون (28: 64) ” کاش وہ ہدایت اختیار کرنے والے ہوتے “۔ اب سیاق کلام انہیں اس کربناک منظر کی طرف لے جاتا ہے۔ ویوم ینادھم فیقول ماذا اجبتم المرسلین (28: 65) ” اور وہ دن جب وہ ان کو پکارے گا اور پوچھے گا کہ جو رسول بھیجے گئے تھے انہیں تم نے کیا جواب دیا تھا ؟ “ اور اللہ کو تو خوب معلوم ہے کہ انہوں نے رسولوں کو کیا جواب دیا تھا۔ لیکن یہ باز پرس محض ذلیل اور شرمسار کرنے کیلئے ہوگا۔ اس سوال کے جواب میں وہ خاموش ہوں گے بلکہ مدہوش کھڑے ہوں گے۔ اس لیے کہ وہ سخت کرب میں مبتلا ہوں گے اور ان کو سمجھ میں نہ آ رہا ہوگا کہ وہ کیا جواب دیں۔ فعمیت علیھم ۔۔۔۔۔ لا یتسائلون (28: 66) ” اس وقت کوئی جواب ان کو نہ سوجھے گا اور نہ آپس میں ایک دوسرے سے پوچھ سکیں گے “۔ انداز گفتگو اس منظر میں لوگوں کی ایسی تصویر کھینچتا ہے کہ گویا وہ اندھے ہیں۔ گویا ” خبریں “ اندھی ہوگئی ہیں اور وہ ان تک پہنچ نہیں پاتیں۔ جس طرح اندھا آدمی کسی جگہ نہیں پہنچ جاتا۔ وہ کچھ نہیں جانتے۔ نہ پوچھ سکتے ہیں ، نہ جواب دے سکتے ہیں۔ مدہوشی کی سی حالت میں کھڑے ہیں۔ فاما من تاب ۔۔۔۔۔ من المفلحین (28: 67) ” البتہ جس نے آج توبہ کرلی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے وہی یہ توقع کرسکتا ہے کہ وہاں فلاح پانے والوں میں سے ہوگا ؟ “ یہ صفحہ بالمقابل ہے ۔ جب غم اور تکلیف مشرکین کے لیے عروج پر ہوگی ، اس وقت توبہ کرنے والوں ، ایمان لانے والوں اور عمل کرنے والوں کے لئے ایسی فلاح ہوگی۔ اس لیے اے لوگو ! یہ موقع ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ، ابھی تمہارے سامنے کھلا وقت ہے ، بہتر ہے کہ اسے اختیار کرلو۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

59:۔ یہ تخویف اخروی ہے۔ شرکاء سے وہ تمام معبودان غیر اللہ مراد ہیں جن کو مشرکین کارساز اور شفیع سمجھ کر پکارتے ہیں خواہ وہ جن ہوں یا انسان ہوں یا فرشتے۔ المراد بالشرکاء من عبد من دون اللہ تعالیٰ من ملک او جن او انس او کو کب او صنم او غیر ذلک (روح ج 20 ص 100، بحر ج 7 ص 128) ۔ قیامت کے دن مشرکین کی حسرت ویاس میں اضافہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ ان سے سوال کرے گا آج وہ تمہارے معبود کہاں ہیں جنہیں تم دنیا میں حاجت روا اور کارساز سمجاھ کرتے تھے اور جن کے بارے میں تمہارا عقیدہ تھا کہ وہ خدا کے یہاں تمہارے سفارشی ہیں۔ آج وہ تمہاری مدد کیوں نہیں کرتے اور تمہیں میرے عذاب سے کیوں نہیں چھڑاتے ؟ این ما کنتم تعبدونہ و تجعلونہ شریکا فی العبادۃ و تزعمون انہ یشفع این ھو لینصرکموی خلصکم من ھذا الذی نزل بکم (کبیر ج 6 ص 622) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

62۔ اور وہ دن قابل ذکر ہے جس دن اللہ تعالیٰ ان منکروں کو پکار کر فرمائے گا وہ میرے شریک کہاں ہیں جن کو تم میرا شریک سمجھا کرتے تھے۔ یعنی جن لوگوں کو میرا شریک ٹھہراتے تھے اور دعویٰ کیا کرتے تھے کہ وہ میرے شرکاء ہیں آج وہ شریک کہاں ہیں۔