Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 64

سورة القصص

وَ قِیۡلَ ادۡعُوۡا شُرَکَآءَکُمۡ فَدَعَوۡہُمۡ فَلَمۡ یَسۡتَجِیۡبُوۡا لَہُمۡ وَ رَاَوُا الۡعَذَابَ ۚ لَوۡ اَنَّہُمۡ کَانُوۡا یَہۡتَدُوۡنَ ﴿۶۴﴾

And it will be said, "Invoke your 'partners' " and they will invoke them; but they will not respond to them, and they will see the punishment. If only they had followed guidance!

کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو بلاؤ وہ بلائیں گے لیکن انہیں وہ جواب تک نہ دیں گے اور سب عذاب دیکھ لیں گے کاش یہ لوگ ہدایت پا لیتے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَقِيلَ ادْعُوا شُرَكَاءكُمْ ... And it will be said (to them): "Call upon your partners," meaning, `to save you from the predicament you are in, as you hoped that they would do in this world.' ... فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُمْ وَرَأَوُا الْعَذَابَ ... and they will call upon them, but they will give no answer to them, and they will see the torment. means, they will realize for sure that they are inevitably destined for the Fire. His saying: ... لَوْ أَنَّهُمْ كَانُوا يَهْتَدُونَ If only they had been guided! means, when they see the punishment with their own eyes, they will wish that they had been among the guided in this world. This is like the Ayah, وَيَوْمَ يَقُولُ نَادُواْ شُرَكَأيِىَ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُواْ لَهُمْ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُم مَّوْبِقاً وَرَأَى الْمُجْرِمُونَ النَّارَ فَظَنُّواْ أَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوهَا وَلَمْ يَجِدُواْ عَنْهَا مَصْرِفًا And the Day He will say: "Call those partners of Mine whom you claimed." Then they will cry unto them, but they will not answer them, and We shall put a Mawbiq (a barrier) between them. And the criminals, shall see the Fire and apprehend that they have to fall in it. And they will find no way of escape from there. (18:52-53) Their attitude towards the Messengers on the Day of Resurrection Allah says: وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ مَاذَا أَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِينَ

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

641یعنی ان سے مدد طلب کرو، جس طرح دنیا میں کرتے تھے کیا وہ تمہاری مدد کرتے ہیں ؟ پس وہ پکاریں گے، لیکن وہاں کس کو یہ جرت ہوگی کہ جو یہ کہے کہ ہاں ہم تمہاری مدد کرتے ہیں ؟ 642یعنی یقین کرلیں گے کہ ہم سب جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں۔ 643یعنی عذاب دیکھ لینے کے بعد آرزو کریں گے کہ کاش دنیا میں ہدایت کا راستہ اپنا لیتے تو آج وہ اس حشر سے بچ جاتے۔ (وَيَوْمَ يَقُوْلُ نَادُوْا شُرَكَاۗءِيَ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهُمْ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ مَّوْبِقًا 52؀ وَرَاَ الْمُجْرِمُوْنَ النَّارَ فَظَنُّوْٓا اَنَّهُمْ مُّوَاقِعُوْهَا وَلَمْ يَجِدُوْا عَنْهَا مَصْرِفًا 53؀ ) 18 ۔ الکہف :53-52) میں بھی یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٨٨] ان معبود حضرات کی اس معذرت کے بعد اللہ تعالیٰ پھر مشرکوں سے کہیں گے کہ آج بھی اپنے معبودوں کو اپنی مدد کے لئے پکارو تو سہی۔ لیکن وہ معبود جو پہلے ہی ان سے بیزاری کا اعلان کرچکے تھے۔ وہ انھیں کچھ جواب نہ دے سکیں گے اور اس کی اصل وجہ یہ ہوگی کہ کیا عابد اور کیا معبود سب کو ہی اپنا انجام نظر آرہا ہوگا۔ اس وقت یہ سب حضرات نہایت حسرت کے ساتھ بول اٹھیں گے۔ کاش ! ہم نے دنیا میں ہدایت کا راستہ اختیار کیا ہوتا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَقِيْلَ ادْعُوْا شُرَكَاۗءَكُمْ ۔۔ : یعنی پہلے ان سے کہا جائے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جو تم گمان کرتے تھے ؟ ابھی وہ اس کا کوئی جواب نہیں دے پائے ہوں گے کہ ان سے کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو مدد کے لیے بلاؤ۔ وہ انھیں پکاریں گے تو وہ انھیں جواب نہیں دیں گے۔ اس وقت مایوس ہو کر تمنا کریں گے، کاش ! وہ دنیا میں ہدایت قبول کرتے ہوتے۔ بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا کہ شیاطین اور مشرکین جب اپنے شریکوں کے طور پر اللہ کے نیک بندوں کا نام لیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو پکارو، وہ کچھ جواب نہ دیں گے، کیونکہ وہ ان کی مشرکانہ حرکتوں سے واقف تھے نہ ہی ان پر خوش تھے۔ عین اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہنم سامنے لا کر کھڑی کردی جائے گی، تو انھیں یقین ہوجائے گا کہ ہم اس میں گرائے جانے والے ہیں۔ دیکھیے سورة کہف (٥٢، ٥٣) ۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَقِيْلَ ادْعُوْا شُرَكَاۗءَكُمْ فَدَعَوْہُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَہُمْ وَرَاَوُا الْعَذَابَ۝ ٠ۚ لَوْ اَنَّہُمْ كَانُوْا يَہْتَدُوْنَ۝ ٦٤ دعا الدُّعَاء کالنّداء، إلّا أنّ النّداء قد يقال بيا، أو أيا، ونحو ذلک من غير أن يضمّ إليه الاسم، والدُّعَاء لا يكاد يقال إلّا إذا کان معه الاسم، نحو : يا فلان، وقد يستعمل کلّ واحد منهما موضع الآخر . قال تعالی: كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ، ( د ع و ) الدعاء ( ن ) کے معنی ندا کے ہیں مگر ندا کا لفظ کبھی صرف یا آیا وغیرہ ہما حروف ندا پر بولا جاتا ہے ۔ اگرچہ ان کے بعد منادٰی مذکور نہ ہو لیکن دعاء کا لفظ صرف اس وقت بولا جاتا ہے جب حرف ندا کے ساتھ اسم ( منادی ) بھی مزکور ہو جیسے یا فلان ۔ کبھی یہ دونوں یعنی دعاء اور نداء ایک دوسرے کی جگہ پر بولے جاتے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِما لا يَسْمَعُ إِلَّا دُعاءً وَنِداءً [ البقرة/ 171] ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی ایسی چیز کو آواز دے جو پکار اور آواز کے سوا کچھ نہ سن سکے ۔ شرك ( شريك) الشِّرْكَةُ والْمُشَارَكَةُ : خلط الملکين، وقیل : هو أن يوجد شيء لاثنین فصاعدا، عينا کان ذلک الشیء، أو معنی، كَمُشَارَكَةِ الإنسان والفرس في الحیوانيّة، ومُشَارَكَةِ فرس وفرس في الکمتة، والدّهمة، يقال : شَرَكْتُهُ ، وشَارَكْتُهُ ، وتَشَارَكُوا، واشْتَرَكُوا، وأَشْرَكْتُهُ في كذا . قال تعالی: وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه/ 32] ، وفي الحدیث : «اللهمّ أَشْرِكْنَا في دعاء الصّالحین» «1» . وروي أنّ اللہ تعالیٰ قال لنبيّه عليه السلام : «إنّي شرّفتک وفضّلتک علی جمیع خلقي وأَشْرَكْتُكَ في أمري» «2» أي : جعلتک بحیث تذکر معي، وأمرت بطاعتک مع طاعتي في نحو : أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد/ 33] ، وقال تعالی: أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف/ 39] . وجمع الشَّرِيكِ شُرَكاءُ. قال تعالی: وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء/ 111] ، وقال : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] ، أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری/ 21] ، وَيَقُولُ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل/ 27] . ( ش ر ک ) الشرکۃ والمشارکۃ کے معنی دو ملکیتوں کو باہم ملا دینے کے ہیں ۔ بعض نے کہا ہے کہ ایک چیز میں دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کے شریک ہونے کے ہیں ۔ خواہ وہ چیز مادی ہو یا معنوی مثلا انسان اور فرس کا حیوانیت میں شریک ہونا ۔ یا دوگھوڑوں کا سرخ یا سیاہ رنگ کا ہونا اور شرکتہ وشارکتہ وتشارکوا اور اشترکوا کے معنی باہم شریک ہونے کے ہیں اور اشرکتہ فی کذا کے معنی شریک بنا لینا کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : وَأَشْرِكْهُ فِي أَمْرِي[ طه/ 32] اور اسے میرے کام میں شریک کر ۔ اور حدیث میں ہے (191) اللھم اشرکنا فی دعاء الصلحین اے اللہ ہمیں نیک لوگوں کی دعا میں شریک کر ۔ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر (علیہ السلام) کو فرمایا ۔ (192) انی شرفتک وفضلتک علی ٰجمیع خلقی واشرکتک فی امری ۔ کہ میں نے تمہیں تمام مخلوق پر شرف بخشا اور مجھے اپنے کام میں شریک کرلیا ۔ یعنی میرے ذکر کے ساتھ تمہارا ذکر ہوتا رہے گا اور میں نے اپنی طاعت کے ساتھ تمہاری طاعت کا بھی حکم دیا ہے جیسے فرمایا ۔ أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ [ محمد/ 33] اور خدا کی فرمانبرداری اور رسول خدا کی اطاعت کرتے رہو ۔ قران میں ہے : ۔ أَنَّكُمْ فِي الْعَذابِ مُشْتَرِكُونَ [ الزخرف/ 39]( اس دن ) عذاب میں شریک ہوں گے ۔ شریک ۔ ساجھی ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ [ الإسراء/ 111] اور نہ اس کی بادشاہی میں کوئی شریک ہے ۔ اس کی جمع شرگاء ہے جیسے فرمایا : ۔ : شُرَكاءُ مُتَشاكِسُونَ [ الزمر/ 29] جس میں کئی آدمی شریک ہیں ( مختلف المزاج اور بدخو ۔ أَمْ لَهُمْ شُرَكاءُ شَرَعُوا لَهُمْ مِنَ الدِّينِ [ الشوری/ 21] کیا ان کے وہ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لئے ایسا دین مقرد کیا ہے ۔ أَيْنَ شُرَكائِيَ [ النحل/ 27] میرے شریک کہاں ہیں ۔ استجاب والاستجابة قيل : هي الإجابة، وحقیقتها هي التحري للجواب والتهيؤ له، لکن عبّر به عن الإجابة لقلة انفکاکها منها، قال تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] ، وقال : ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر/ 60] ، فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة/ 186] ، فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران/ 195] ، وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری/ 26] وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری/ 38] ، وقال تعالی: وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي[ البقرة/ 186] ، الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] . ( ج و ب ) الجوب الاستحابتہ بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی اجابتہ ( افعال ) کے ہے اصل میں اس کے معنی جواب کے لئے تحری کرنے اور اس کے لئے تیار ہونے کے ہیں لیکن اسے اجابتہ سے تعبیر کرلیتے ہیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوتے ۔ قرآن میں ہے : اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ [ الأنفال/ 24] کہ خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو ۔ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ [ غافر/ 60] کہ تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری ( دعا ) قبول کرونگا ۔ فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ [ آل عمران/ 195] تو ان کے پرور گار نے ان کی دعا قبول کرلی ۔ وَيَسْتَجِيبُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ الشوری/ 26] اور جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے ان کی ( دعا) قبول فرماتا وَالَّذِينَ اسْتَجابُوا لِرَبِّهِمْ [ الشوری/ 38] اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں وَإِذا سَأَلَكَ عِبادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذا دَعانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي [ البقرة/ 186] اور اے پیغمبر جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو ( کہہ دو کہ ) میں تو ( تمہارے پاس ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیئے کہ میرے حکموں کو مانیں ۔ الَّذِينَ اسْتَجابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ ما أَصابَهُمُ الْقَرْحُ [ آل عمران/ 172] جنهوں نے باوجود زخم کھانے کے خدا اور رسول کے حکم کو قبول کیا ۔ رأى والرُّؤْيَةُ : إدراک الْمَرْئِيُّ ، وذلک أضرب بحسب قوی النّفس : والأوّل : بالحاسّة وما يجري مجراها، نحو : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] ، والثاني : بالوهم والتّخيّل، نحو : أَرَى أنّ زيدا منطلق، ونحو قوله : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] . والثالث : بالتّفكّر، نحو : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] . والرابع : بالعقل، وعلی ذلک قوله : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] ، ( ر ء ی ) رای الرؤیتہ کے معنی کسی مرئی چیز کا ادراک کرلینا کے ہیں اور قوائے نفس ( قوائے مدر کہ ) کہ اعتبار سے رؤیتہ کی چند قسمیں ہیں ۔ ( 1) حاسئہ بصریا کسی ایسی چیز سے ادراک کرنا جو حاسہ بصر کے ہم معنی ہے جیسے قرآن میں ہے : لَتَرَوُنَّ الْجَحِيمَ ثُمَّ لَتَرَوُنَّها عَيْنَ الْيَقِينِ [ التکاثر/ 6- 7] تم ضروری دوزخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لوگے پھر ( اگر دیکھو گے بھی تو غیر مشتبہ ) یقینی دیکھنا دیکھو گے ۔ ۔ (2) وہم و خیال سے کسی چیز کا ادراک کرنا جیسے ۔ اری ٰ ان زیدا منطلق ۔ میرا خیال ہے کہ زید جا رہا ہوگا ۔ قرآن میں ہے : وَلَوْ تَرى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا [ الأنفال/ 50] اور کاش اس وقت کی کیفیت خیال میں لاؤ جب ۔۔۔ کافروں کی جانیں نکالتے ہیں ۔ (3) کسی چیز کے متعلق تفکر اور اندیشہ محسوس کرنا جیسے فرمایا : إِنِّي أَرى ما لا تَرَوْنَ [ الأنفال/ 48] میں دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے ۔ (4) عقل وبصیرت سے کسی چیز کا ادارک کرنا جیسے فرمایا : ما كَذَبَ الْفُؤادُ ما رَأى[ النجم/ 11] پیغمبر نے جو دیکھا تھا اس کے دل نے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ملایا ۔ عذب والعَذَابُ : هو الإيجاع الشّديد، وقد عَذَّبَهُ تَعْذِيباً : أكثر حبسه في العَذَابِ. قال : لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] واختلف في أصله، فقال بعضهم : هو من قولهم : عَذَبَ الرّجلُ : إذا ترک المأكل والنّوم فهو عَاذِبٌ وعَذُوبٌ ، فَالتَّعْذِيبُ في الأصل هو حمل الإنسان أن يُعَذَّبَ ، أي : يجوع ويسهر، ( ع ذ ب ) العذاب سخت تکلیف دینا عذبہ تعذیبا اسے عرصہ دراز تک عذاب میں مبتلا رکھا ۔ قرآن میں ہے ۔ لَأُعَذِّبَنَّهُ عَذاباً شَدِيداً [ النمل/ 21] میں اسے سخت عذاب دوں گا ۔ لفظ عذاب کی اصل میں اختلاف پا یا جاتا ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ عذب ( ض ) الرجل کے محاورہ سے مشتق ہے یعنی اس نے ( پیاس کی شدت کی وجہ سے ) کھانا اور نیند چھوڑدی اور جو شخص اس طرح کھانا اور سونا چھوڑ دیتا ہے اسے عاذب وعذوب کہا جاتا ہے لہذا تعذیب کے اصل معنی ہیں کسی کو بھوکا اور بیدار رہنے پر اکسانا اهْتِدَاءُ يختصّ بما يتحرّاه الإنسان علی طریق الاختیار، إمّا في الأمور الدّنيويّة، أو الأخرويّة قال تعالی: وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] ، وقال : إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] ويقال ذلک لطلب الهداية نحو : وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] ، وقال : فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] ، فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] ، فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . ويقال المُهْتَدِي لمن يقتدي بعالم نحو : أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] تنبيها أنهم لا يعلمون بأنفسهم ولا يقتدون بعالم، وقوله : فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] فإن الِاهْتِدَاءَ هاهنا يتناول وجوه الاهتداء من طلب الهداية، ومن الاقتداء، ومن تحرّيها، وکذا قوله : وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] وقوله : وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] فمعناه : ثم أدام طلب الهداية، ولم يفترّ عن تحرّيه، ولم يرجع إلى المعصية . وقوله : الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ [ البقرة/ 157] أي : الذین تحرّوا هدایته وقبلوها وعملوا بها، وقال مخبرا عنهم : وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] . الاھتداء ( ہدایت پانا ) کا لفظ خاص کر اس ہدایت پر بولا جاتا ہے جو دینوی یا اخروی کے متعلق انسان اپنے اختیار سے حاصل کرتا ہے ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِها [ الأنعام/ 97] اور وہی تو ہے جس نے تمہارے لئے ستارے بنائے تاکہ جنگلوں اور در یاؤ کے اندھیروں میں ان سے رستہ معلوم کرو ۔ إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجالِ وَالنِّساءِ وَالْوِلْدانِ لا يَسْتَطِيعُونَ حِيلَةً وَلا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا[ النساء/ 98] اور عورتیں اور بچے بےبس ہیں کہ نہ تو کوئی چارہ کرسکتے ہیں اور نہ رستہ جانتے ہیں ۔ لیکن کبھی اھتداء کے معنی طلب ہدایت بھی آتے ہیں چناچہ فرمایا : ۔ وَإِذْ آتَيْنا مُوسَى الْكِتابَ وَالْفُرْقانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 53] اور جب ہم نے موسیٰ کو کتاب اور معجزے عنایت کئے تاکہ تم ہدایت حاصل کرو ۔ فَلا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ [ البقرة/ 150] سو ان سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تم کو اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہ راست پر چلو ۔ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا [ آل عمران/ 20] اگر یہ لوگ اسلام لے آئیں تو بیشک ہدایت پالیں ۔ فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ ما آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا [ البقرة/ 137] . تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہوجائیں ۔ المھتدی اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عالم کی اقتدا کر رہا ہے ہو چناچہ آیت : ۔ أَوَلَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَلا يَهْتَدُونَ [ المائدة/ 104] بھلا اگر ان کے باپ دادا نہ تو کچھ جانتے ہوں اور نہ کسی کی پیروی کرتے ہوں ۔ میں تنبیہ کی گئی ہے کہ نہ وہ خود عالم تھے اور نہ ہی کسی عالم کی اقتداء کرتے تھے ۔ اور آیت : ۔ فَمَنِ اهْتَدى فَإِنَّما يَهْتَدِي لِنَفْسِهِ وَمَنْ ضَلَّ فَقُلْ إِنَّما أَنَا مِنَ الْمُنْذِرِينَ [ النمل/ 92] تو جو کوئی ہدایت حاصل کرے تو ہدایت سے اپنے ہی حق میں بھلائی کرتا ہے اور جو گمراہی اختیار کرتا ہے تو گمراہی سے اپنا ہی نقصان کرتا ہے ۔ میں اھتداء کا لفظ طلب ہدایت اقتدا اور تحری ہدایت تینوں کو شامل ہے اس طرح آیت : ۔ وَزَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطانُ أَعْمالَهُمْ فَصَدَّهُمْ عَنِ السَّبِيلِ فَهُمْ لا يَهْتَدُونَ [ النمل/ 24] اور شیطان نے ان کے اعمال انہین آراستہ کر کے دکھائے ہیں اور ان کو رستے سے روک رکھا ہے پس وہ رستے پر نہیں آتے ۔ میں بھی سے تینوں قسم کی ہدایت کی نفی کی گئی ہے اور آیت : ۔ وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى [ طه/ 82] اور جو توبہ کرلے اور ایمان لائے اور عمل نیک کرے پھر سیدھے راستہ پر چلے اس کو میں بخش دینے والا ہوں ۔ میں اھتدی کے معنی لگاتار ہدایت طلب کرنے اور اس میں سستی نہ کرنے اور دوبارہ معصیت کی طرف رجوع نہ کرنے کے ہیں ۔ اور آیت : ۔ الَّذِينَ إِذا أَصابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ إلى قوله : وَأُولئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ«1» [ البقرة/ 157] اور یہی سیدھے راستے ہیں ۔ میں مھتدون سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت الہیٰ کو قبول کیا اور اس کے حصول کے لئے کوشش کی اور اس کے مطابق عمل بھی کیا چناچہ انہی لوگوں کے متعلق فرمایا ۔ وَقالُوا يا أَيُّهَا السَّاحِرُ ادْعُ لَنا رَبَّكَ بِما عَهِدَ عِنْدَكَ إِنَّنا لَمُهْتَدُونَ [ الزخرف/ 49] اے جادو گر اس عہد کے مطابق جو تیرے پروردگار نے تجھ سے کر رکھا ہے اس سے دعا کر بیشک

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٦٤) اور اس وقت ان مشرکین سے کہا جائے گا کہ اپنے معبودوں کو بلاؤ تاکہ وہ تم سے عذاب خداوندی دور کریں تو یہ مشرکین حیرت زدہ ہو کر اس مقصد کے لیے ان کو پکاریں گے سو وہ جواب بھی نہ دیں گے اس وقت یہ پیرو کار اور ان کے پیشوا اپنی آنکھوں سے عذاب کو دیکھ لیں گے اور تمنا کریں گے کہ کاش دنیا میں حق و ہدایت پر ہوتے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

89 That is, "Invoke them for help. In the world you had relied on them and rejected Our Commandments. So invoke them to come to your rescue here also and save you from the punishment."

سورة القصص حاشیہ نمبر : 89 یعنی انہیں مدد کے لیے پکارو ۔ دنیا میں تو تم نے ان پر بھروسا کر کے ہماری بات رد کی تھی ۔ اب یہاں ان سے کہو کہ آئیں اور تمہاری مدد کریں اور تمہیں عذاب سے بچائیں ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٦٤ تا ٧٣۔ اوپر کی آیتوں میں جس طرح اللہ تعالیٰ نے قریش کو طرح طرح کی فہمائش کی ہے اسی طرح کی فہمایش ان آیتوں میں ہے حاصل اس فہمایش کا یہ ہے کہ اللہ کی عبادت چھوڑ کر جو یہ لوگ بتوں کی پوجا کرتے ہیں ان کو اتنی سمجھ نہیں کہ اللہ کی پیدا کی ہوئی ہزارہا نعمتوں میں سے مثلا ایک دن رات ہے ایک رات اگر اللہ کے حکم سے آفتاب نہ نکلے اور زمین کے اندر روکا ہی رہ جاوے یا جس طرح ہر روز شام کو اللہ کے حکم سے سورج غروب ہوتا ہے اسی طرح ایک رات کو غروب نہ ہو اور بجائے رات کے دن اور بجائے دن کے رات ہوجاوے اور ان لوگوں کے دن اور رات کے عادتی اور مقررہ کاموں میں ہرج پڑجاوے تو بھلا ان کے بتوں میں قدرت ہے کہ ان کے اس حرج کے رفع کرنے کے لیے اللہ کے انتظام کے موافق پھر رات اور دن کو قائم کردیں یہ تو ان کے بتوں اور شیاطینوں کی دنیا میں جو عاجزی ہے اس کا حال ہوا اب عقبیٰ میں یہ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے جن اور شیاطین وہاں ان کی اللہ سے سفارش کریں گے اللہ ان کو خبر دیتا ہے کہ قیامت کے ان کے یہ جھوٹے معبود بالکل ان سے بیزار ہوجائیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو قائل کرنے کے لیے قیامت کے دن جب ان لوگوں سے کہے گا کہ تم اپنے معبودوں کو بلاؤ تاکہ وہ تمہاری گے بلکہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو قائل کرنے کے لیے قیامت کے دن جب ان لوگوں کو قائل کرنے کے لیے قیامت کے دن جب ان لوگوں سے کہوے گا کہ تم اپنے معبودوں کو بلاؤ تاکہ وہ تمہاری سفارش کریں تو کبھی تو ان کو جواب تک نہیں دیویں گے اور کبھی جواب دیویں گے تو یہ الٹا جواب دیں گے کہ جیسے گمراہ یہ ویسے ہی ہم پھر ہم ان کی کیا سفارش کرسکتے ہیں پھر اب یہ ظاہر بات ہے کہ تعظیم تو اسی کی کوئی کیا کرتا ہے جس سے دین یا دنیا کا کسی طرح کا کام نکلے وہ بات اللہ ہی وحدہ لاشریک میں ہے اور ان کے بتوں میں کچھ بھی نہیں پھر یہ لوگ کس استحقاق سے بتوں کو اپنا معبود ٹھہراتے ہیں اور اللہ کے رسول اسی طرح کے جھوٹے معبودوں کی مذمت اور خالص اللہ کی عبادت کی ہدایت ان نادانوں کو جو کرتے ہیں تو یہ اللہ کے رسول کی مخالفت پر کیوں کمر باندھتے ہیں آج یہ لوگ اللہ کے رسول کی مخالفت کو ایک سر سری بات سمجھتے ہیں کل قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ ان کو اپنے سامنے کھڑا کر کے ان سے پوچھے گا کہ بتلاؤ تم لوگوں نے اللہ کہ رسولوں کی کبا فرماں برداری کی تو ان کے ہوش اڑ جائیں گے اور ان کو جواب تک نہ آوے گا یہ توحید اور اطاعت رسول کا سوال گویا آخری سوال ہے جو میدان قیامت میں خاص اللہ تعالیٰ کے روبرو ہوگا اور یوں تو توحید اور اطاعت رسول کی پرسش آدمی کی قبر میں دفناتے ہی شروع ہوجاتی ہے چناچہ صحیح حدیثیں ١ ؎ اوپر گذر چکی ہیں کہ دفنانے والے لوگ ابھی قبرستان سے پلٹ کر بھی نہیں آتے کہ منکر نکیر دو فرشتے مردہ کے پاس آن کر اس سے توحید اور اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سوال شروع کردیتے ہیں جو شخص توحید اور اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ثابت قدم دنیا سے اٹھا ہے وہ ان کے سوال کا جواب پورا پورا دیتا ہے اور طرح طرح کی راحت ایسے شخص کے لیے اس وقت سے پیدا ہوجاتی ہے اور جو توحید اور طاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کچا ہے وہ ان کے سوال کے جواب کے وقت ہائے ہائے کر کے رہ جاتا ہے اور اس وقت سے طرح طرح کے عذاب میں گرفتار ہوجاتا ہے غرض تھوڑے دنوں کی دنیا کی زیست ہے اور اس زیست میں کمائی کی چیز توحید اور اطاعت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بڑھ کر کوئی نہیں اللہ سب کو اس کمائی کا شوق دیوے حاصل مطلب یہ ہے کہ جب سب نبی اور امتیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے روبر کھڑے ہوں گے تو پہلے ہر ایک امت کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تم کو تمہارے نبی نے اللہ کی وحدانیت اور شرک سے بچنے کی جو نصیحت کی تو تم لوگوں نے اس نصیحت پر کیا عمل کیا اس کا جواب نہ ہر ایک مشرک کو خود سوجھے گا نہ ایک کو دوسرا عزیز قریب کچھ مدد دے سکے گا غرض اس موقع پر جنھوں نے مرنے سے پہلے شرک کو چھوڑ کر کچھ نیک عمل دنیا میں کرلیے ان کو نجات کی امید ہوسکتی ہے ورنہ ایسے موقع پر مشرک کو اپنی نجات کی کچھ امید نہ رکھنی چاہیے مشرک کی نجات نہ پانے کا اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ ہے اس کا ذکر سورة النسآء میں گذر چکا ہے پھر فرمایا کہ دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ہر ایک شخص کی نیت اور عملوں کا سب حال اپنے علم ازلی کے موافق لوح محفوظ میں لکھ لیا ہے اسی کے موافق دنیا کا انتظام چل رہا ہے اس انتظام میں ان مشرکوں کی پسند کا کچھ دخل نہیں ہے جو یہ لوگ بجائے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ولید بن مغیرہ یا عروہ بن مسعود کا نبی ہونا پسند کرتے ہیں اللہ ان مشرکوں کی ان باتوں سے الگ ہے اور ان مشرکوں کی بکواس سے کیا ہوتا ہے یہ لوگ اپنی ناسمجھی سے ایسی بکواس لگاتے ہیں ورنہ سمجھ دار لوگ اللہ کی حکمت اور نشانیاں دیکھ کر اسی کو اپنا معبود جانتے ہیں اور دنیا میں بھی اس کی قدرت اور اس کی حکمت کی تعریف کرتے ہیں اور عقبیٰ میں بھی کریں گے اور عقبیٰ کا جزاو سزا کا فیصلہ اللہ کے ہاتھ ہے اسی لیے اس فیصلہ کے وقت جب سب مخلوقات اس کے روبرو کھڑی ہوگی تو ان مشرکوں کو اپنی اس بکواس کا نتیجہ معلوم ہوجائے گا اب آگے رات دن کی نعمت کا احسان جتلایا تاکہ لوگ اس کے شکریہ میں خالص اللہ کی عبادت کریں مشرکوں کو شرک کی برائی دوبارہ جتلانے کے لیے فرمایا کہ قیامت کے دن مشرکوں سے کہا جاوے گا کہ کہاں ہیں وہ اللہ کے شریک جن کا تم کو دنیا میں بڑا گھمنڈ تھا کہ وہ تمہاری شفاعت کریں گے۔ مشرکین مکہ میں یہ دونوں شخص ولید اور عرہ ذراز وردار تھے اس لیے مشرکین مکہ کہتے تھے کہ بجائے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ان دونوں شخصوں میں کوئی نبی ہوتا تو اچھا تھا اللہ تعالیٰ نے یہ اسی کا جواب ان آیتوں میں دیا ہے سورة زخرف میں مشرکین مکہ کے اس قول کی تفصیل زیادہ آوے گی صحیح بخاری شریف کے حوالہ سے ابوسعید خدری (رض) کی حدیث ١ ؎ آگے کی آیت کی تفسیر میں جو آتی ہے وہی حدیث ان آیتوں کی بھی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل آگے کی آیت کی تفسیر سے سمجھ میں آسکتا ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ پچھلی امتوں کے لوگ جب قیامت کے دن اپنے رسولوں کو جھٹلا کر اللہ تعالیٰ کے روبرو یہ کہویں گے کہ یا اللہ قرآن میں پچھلا سب حال ہے اس لیے ہم گواہی دیتے ہیں کہ قرآن سے پہلے کے سب انبیاء نے تیرا ہر ایک حکم اپنی امت سے لوگوں کو پہنچا دیا ہے اسی گواہی پر فیصلہ ہوگا۔ (١ ؎ بحوالہ مشکوٰۃ باب اثبات عذاب القبر۔ ) (١ ؎ بحوالہ مشکوٰۃ باب اخبات عذاب القبر۔ )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:64) ادعوا فعل امر جمع مذکر غائب ۔ دعوۃ مصدر (باب نصر) تم پکارو۔ تم بلاؤ۔ خطاب شریک ٹھہرانے والوں سے ہے۔ شرکاء کم۔ مضاف مضاف الیہ۔ ہمارے شرکاء یعنی تمہارے وہ معبودان باطل جب کو تم نے اللہ کا شریک ٹھہرایا تھا۔ فدعوھم۔ پس وہ ان کو پکاریں گے۔ لم یستجیبوا۔ مضارع نفی جحد بلم۔ صیغہ جمع مذکر غائب۔ وہ جواب نہیں دیں گے ! ضمیر فاعل معبود ان باطل کی طرف راجع ہے عاوا العذاب۔ رأوا ماضی جمع مذکر غائب ۔ (یہاں ماضی بمعنی مستقبل ہے) وہ دیکھ لیں گے۔ ضمیر فاعل شریک ٹھہرانے والوں کی طرف راجع ہے۔ لو انھم کانوا یھتدون ۔ اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) لو حرف تمنا ہے اور جملہ کا مطلب ہے تمنوا لو کانوا مھتدین۔ وہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ ہدایت پانے والے ہوتے۔ (2) یہ جملہ معترضہ ہے اور لو حرف تمنا ہے کاش یہ لوگ ہدایت یافتہ ہوتے (دنیا میں) (3) یہ جملہ شرطیہ ہے اور لو شرطیہ ہے اور جواب لو محذوف ہے ای لوانھم کانوا فی الدنیا مھتدین مؤمنین لما رأو العذاب اگر یہ دنیا میں ہدایت یافتہ اور ایمان والے ہوتے تو (آخرت میں) یہ عذاب نہ دیکھتے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

8 ۔ یعنی خالص توحید کا راستہ اختیار کرتے تو آج اس انجام بد سے دوچار نہ ہوتے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖ 61:۔ انہیں پھر کہا جاوے گا جن معبودوں کو کارساز اور سفارشی سمجھتے تھے آج انہیں مدد کے لیے پکارو۔ چناچہ وہ پکاریں گے مگر کہیں سے کوئی جواب نہیں آئے گا۔ اب عذاب جہنم ان کے سامنے ہوگا اور حسرت و تاسف سے کہیں گے کاش ! وہ دنیا میں ہدایت قبول کرلیتے تو آج اس حسرت وندامت اور اس المناک عذاب سے دوچار نہ ہونا پڑتا۔ لَوْ شرطیہ ہے اور اس کا جواب لما راوا العذاب محذوف ہے (روح) یا لَوْ تمنی کیلئے ہے اس صورت میں جواب کی ضرورت نہیں اور لَوْ سے پہلے فعل تمنا مقدر ہوگا ای تمنوا لو انہم کانوا مہتدین فلا یحتاج الی الجواب (روح ج 20 ص 102) ۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

64۔ اور کہا جائیگا تم لوگ اپنے شرکاء کو پکارو چناچہ یہ مشرک ان کو پکاریں گے سو وہ ان پکارنے والوں کو جواب ہی نہ دیں گے۔ اور مشرک اپنی آنکھوں سے عذاب کو دیکھیں گے کاش وہ لوگ دنیا میں صحیح راستے پر ہوتے اور ان مشرکوں سے کہا جائیگا یہ کہنا یا تو حق تعالیٰ کی طرف سے ہوگا یا فرشتے کہیں گے کہ اپنے ان شرکاء کو اپنی مدد کیلئے پکارو چناچہ یہ اپنی امداد وغایت کے لئے ان کو پکاریں گے مگر وہ ان کو جواب ہی نہ دیں گے اور عذاب ان کے سامنے آجائے گا اور یہ اس عذاب کو دیکھ رہے ہوں گے کاش وہ لوگ راہ یافتہ ہوتے اور دنیا میں صحیح راستہ اختیار کرلیتے ، یعنی وہ معبود ان باطلہ جب ان کی کوئی مدد نہ کرسکیں گے تو انکو حسرتو ندامت ہوگی اور یہ مشرک تمنا کریں گے کہ وہ بھی معبودان باطلہ کو چھوڑ کر راہ راست قبول کرلیتے تو آج اس بلا میں مبتلا نہ ہوتے یعنی مسلمان ہوجاتے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں یعنی اس وقت یہ آرزو کریں گے جن نیکوں کو پوجتے تھے دے جواب نہ دیں گے کہ دے راضی نہ تھے یا خبر نہیں رکھتے تھے 12