Surat ul Qasass

Surah: 28

Verse: 82

سورة القصص

وَ اَصۡبَحَ الَّذِیۡنَ تَمَنَّوۡا مَکَانَہٗ بِالۡاَمۡسِ یَقُوۡلُوۡنَ وَیۡکَاَنَّ اللّٰہَ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ مِنۡ عِبَادِہٖ وَ یَقۡدِرُ ۚ لَوۡ لَاۤ اَنۡ مَّنَّ اللّٰہُ عَلَیۡنَا لَخَسَفَ بِنَا ؕ وَیۡکَاَنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الۡکٰفِرُوۡنَ ﴿٪۸۲﴾  11

And those who had wished for his position the previous day began to say, "Oh, how Allah extends provision to whom He wills of His servants and restricts it! If not that Allah had conferred favor on us, He would have caused it to swallow us. Oh, how the disbelievers do not succeed!"

اور جو لوگ کل اس کے مرتبہ پر پہنچنے کی آرزو مندیاں کر رہے تھے وہ آج کہنے لگے کہ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ تعالٰی ہی اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور تنگ بھی؟ اگر اللہ تعالٰی ہم پر فضل نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا کیا دیکھتے نہیں ہو کہ ناشکروں کو کبھی کامیابی نہیں ہوتی ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

وَأَصْبَحَ الَّذِينَ تَمَنَّوْا مَكَانَهُ بِالاْأَمْسِ ... And those who had desired his position the day before, means, those witnessed him with his finery and had said: . قَالَ الَّذِينَ يُرِيدُونَ الْحَيَاةَ الدُّنيَا يَا لَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَا أُوتِيَ قَارُونُ إِنَّهُ لَذُو حَظٍّ عَظِيمٍ (Those who were desirous of the life of the world, said: "Ah, would that we had the like of what Qarun has been given! Verily, he is the owner of a great fortune.") When he was swallowed up in the earth, they: ... يَقُولُونَ وَيْكَأَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاء مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ ... began to say "Know you not that it is Allah Who expands the provision or restricts it to whomsoever He pleases of His servants. Wealth does not indicate that Allah is pleased with its owner, for Allah gives and withholds, allows times of difficulty and times of ease, raises and lowers, His is the most complete wisdom and most convincing proof. According to a Hadith narrated by Ibn Mas`ud, إِنَّ اللهَ قَسَمَ بَيْنَكُمْ أَخْلَقَكُمْ كَمَا قَسَمَ أَرْزَاقَكُمْ وَإِنَّ اللهَ يُعْطِي الْمَالَ مَنْ يُحِبُّ وَمَنْ لاَ يُحِبُّ وَلاَ يُعْطِي الاِْيمَانَ إِلاَّ مَنْ يُحِب Allah has allotted character among you just as He has allotted your provision. Allah gives wealth to those whom He loves and those whom He does not love, but He gives Faith only to those whom He loves. ... لَوْلاَ أَن مَّنَّ اللَّهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا ... Had it not been that Allah was Gracious to us, He could have caused the earth to swallow us up! meaning, `were it not for the kindness and grace of Allah towards us, we could have been swallowed up by the earth just as he was swallowed up, because we wanted to be like him.' ... وَيْكَأَنَّهُ لاَ يُفْلِحُ الْكَافِرُونَ Know you not that the disbelievers will never be successful. He was a disbeliever, and the disbelievers will never be successful before Allah in this world or in the Hereafter.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

821مکان سے مراد دنیاوی مرتبہ و منزلت ہے جو دنیا میں عارضی طور پر ملتا ہے۔ جیسے قارون کو ملا تھا، مطلب یہ ہے کہ قارون کی سی دولت و حشمت کی آرزو کرنے والوں نے جب قارون کا عبرت ناک حشر دیکھا تو کہا کہ مال و دولت، اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس صاحب مال سے راضی بھی ہے۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کسی کو مال زیادہ دیتا ہے اور کسی کو کم اس کا تعلق اس کی مشیت اور حکمت بالغہ سے ہے جسے اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، مال کی فروانی اس کی رضا کی اور مال کی کمی اس کی نارضگی کی دلیل نہیں ہے نہ یہ معیار فضیلت ہے۔ 822یعنی ہم بھی اسی حشر سے دوچار ہوتے جس سے قارون دو چار ہوا۔ 823یعنی قارون نے دولت پا کر شکر گزاری کے بجائے ناشکری اور معصیت کا راست اختیار کیا تو دیکھ لو اس کا انجام بھی کیسا ہوا ؟ دیکھو مجھے جو دیدہ عبرت نگاہ ہو۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١١١] قارون کا یہ انجام دیکھ کر ان دنیا پر فریفتہ ہونے والوں کی آنکھیں کھل گئیں جو کل یہ سمجھ رہے تھے کہ قارون کس قدر خوش نصیب آدمی ہے۔ اور ان پر حقیقت واضح ہوگئی کہ جس شخص کے پاس مال ودولت کی فراوانی ہو۔ ضروری نہیں کہ اللہ بھی اس پر خود ہو۔ اگر ایسا ہوتا تو قارون کبھی اس عذاب الٰہی کا شکار نہ ہوتا۔ اور دوسری بات انھیں معلوم ہوئی کہ جب اللہ کا عذاب آتا ہے تو مال و دولت کس قدر بھی زیادہ ہو کسی کام نہیں آسکتا ہے۔ بلکہ بسا اوقات یہی مال و دولت عذاب الٰہی کو کھینچ لانے کا سبب بن جاتا ہے۔ لہذا انسان کی خوش نصیبی کا معیار مال و دولت ہرگز نہیں ہوسکتا۔ رزق کی کمی بیشی اور چیز ہے اور انسان کی فلاح اور خوش نصیبی اور چیز ہے۔ اور یہ اچھا ہوا کہ ہماری آرزو کرنے کے باوجود اللہ نے ہمیں مال و دولت کی فراوانی عطا نہیں کی ورنہ ہمارا بھی وہی حشر ہوتا جو قارون کا ہوا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَصْبَحَ الَّذِيْنَ تَمَـــنَّوْا مَكَانَهٗ بالْاَمْسِ ۔۔ : ” وَيْكَاَنَّ “ کی تفسیر میں کئی اقوال ہیں، بعض نے فرمایا، اس کا معنی ” أَلَمْ تَرَ أَنَّ “ (کیا تو نے نہیں دیکھا کہ) ہے۔ بعض نے فرمایا، یہ ” وَيْ “ ، ” کَ “ اور ” أَنَّ “ کا مجموعہ ہے۔ ” وَيْ “ تعجب کا کلمہ ہے، کاف تعلیل کے لیے ہے ( اس لیے) اور ” أَنَّ “ حرف تحقیق ہے۔ یعنی تعجب ہے، اس لیے کہ بیشک اللہ تعالیٰ ۔۔ اور بعض نے فرمایا ” وَيْ “ کلمہ تَنَدُّم ہے، یعنی ندامت اور افسوس کے اظہار کے لیے آتا ہے اور کاف حرف تشبیہ ہے (بمعنی گویا کہ) ۔ میں نے اسی کے مطابق ترجمہ کیا ہے : ” افسوس ! ایسا معلوم ہوتا ہے کہ۔ “ 3 یعنی کل جو لوگ مال و دولت اور جاہ و حشمت میں قارون کو حاصل مرتبے کی تمنا کر رہے تھے، صبح ہوئی تو وہی کہہ رہے تھے کہ افسوس ! معلوم یہی ہوتا ہے کہ رزق کا زیادہ ہونا یا کم ہونا کسی کے علم یا محنت پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور مرضی پر موقوف ہے۔ وہ جس کا رزق چاہتا ہے فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔ کسی کو رزق زیادہ دینے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے پاس مال کمانے کا ہنر زیادہ ہے اور کسی کا رزق تنگ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے پاس مال کمانے کا ہنر نہیں، نہ ہی مال کا زیادہ ہونا اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی یا کم ہونا اس کے ناراض ہونے کی دلیل ہے۔ اللہ تعالیٰ کے راضی ہونے کی علامت صرف اور صرف یہ ہے کہ وہ کسی کو ایمان کی دولت عطا فرما دے، جیسا کہ عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا : ( إِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی قَسَمَ بَیْنَکُمْ أَخْلاَقَکُمْ ، کَمَا قَسَمَ بَیْنَکُمْ أَرْزَاقَکُمْ ، وَإِنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُعْطِی الْمَالَ مَنْ أَحَبَّ وَمَنْ لاَ یُحِبُّ ، وَلاَ یُعْطِي الْإِیْمَانَ إِلاَّ مَنْ یُحِبُّ ) [ الأدب المفرد : ٢٧٥، قال الألباني صحیح، موقوف في حکم المرفوع، وانظر سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ : ٢٧١٤ ]” اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان تمہارے اخلاق اسی طرح تقسیم کیے ہیں جس طرح اس نے تمہارے رزق تقسیم کیے ہیں اور اللہ مال اسے بھی دیتا ہے جس سے محبت کرتا ہے اور اسے بھی جس سے محبت نہیں کرتا، مگر ایمان اس کے سوا کسی کو نہیں دیتا جس سے وہ محبت کرتا ہو۔ “ لَوْلَآ اَنْ مَّنَّ اللّٰهُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا ۔۔ : یعنی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں قارون کی طرح نہیں بنایا، ورنہ ہماری بھی یہی حالت ہوتی۔ ہم تو حرص کی وجہ سے ” يٰلَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِيَ قَارُوْنُ “ (کاش ! ہمارے لیے اس جیسا ہوتا جو قارون کو دیا گیا ہے) کہہ کر اس جیسے عذاب کے حق دار بن چکے تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ہماری آرزو پوری نہ کی، بلکہ قارون کا انجام آنکھوں سے دکھا کر رجوع کی توفیق فرمائی۔ اب معلوم ہوا کہ مال و دولت جتنا بھی جمع کرلیں کافر کبھی فلاح نہیں پاسکتے۔ 3 ابو کبشہ الانماری (رض) بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا۔ لمبی حدیث ہے، اس میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( إِنَّمَا الدُّنْیَا لِأَرْبَعَۃِ نَفَرٍ : عَبْدٍ رَزَقَہُ اللّٰہُ مَالاً وَعِلْمًا فَہُوَ یَتَّقِيْ رَبَّہُ فِیْہِ وَیَصِلُ فِیْہِ رَحِمَہُ وَیَعْلَمُ لِلّٰہِ فِیْہِ حَقًّا فَہٰذَا بِأَفْضَلِ الْمَنَازِلِ وَعَبْدٍ رَزَقَہُ اللّٰہُ عِلْمًا وَلَمْ یَرْزُقْہُ مَالاً فَہُوَ صَادِقُ النِّیَّۃِ یَقُوْلُ لَوْ أَنَّ لِيْ مَالاً لَعَمِلْتُ فِیْہِ بِعَمَلِ فُلاَنٍ فَہُوَ بِنِیَّتِہِ فَأَجْرُہُمَا سَوَاءٌ، وَعَبْدٍ رَزَقَہُ اللّٰہُ مَالاً وَلَمْ یَرْزُقْہُ عِلْمًا فَہُوَ یُخْبَطُ فِيْ مَالِہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ لاَ یَتَّقِيْ فیہِ رَبَّہُ وَلاَ یَصِلُ فِیْہِ رَحِمَہُ وَلاَ یَعْلَمُ لِلّٰہِ فِیْہِ حَقًّا فَہٰذَا بِأَخْبَثِ الْمَنَازِلِ وَعَبْدٍ لَمْ یَرْزُقْہُ اللّٰہُ مَالاً وَلاَ عِلْمًا فَہُوَ یَقُوْلُ لَوْ أَنَّ لِيْ مَالاً لَعَمِلْتُ فِیْہِ بِعَمَلِ فُلاَنٍ فَہُوَ بِنِیَّتِہِ فَوِزْرُہُمَا سَوَاءٌ ) [ ترمذي، الزھد، باب ما جاء مثل الدنیا مثل أربعۃ نفر : ٢٣٢٥ ] ” دنیا صرف چار آدمیوں کے لیے ہے، ایک وہ بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال اور علم عطا فرمایا، چناچہ وہ اس کے بارے میں اپنے رب سے ڈرتا ہے اور صلہ رحمی کرتا ہے اور اس میں اللہ کا حق جانتا ہے، یہ سب سے افضل مرتبے میں ہے اور ایک وہ بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے علم دیا، مگر مال نہیں دیا، چناچہ وہ سچی نیت والا ہے۔ کہتا ہے، اگر میرے پاس مال ہو تو میں فلاں شخص جیسا عمل کروں۔ سو یہ اس کی نیت ہے اور دونوں کا اجر برابر ہے۔ اور ایک وہ بندہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا، مگر علم نہیں دیا۔ چناچہ وہ اس میں علم کے بغیر ٹامک ٹوئیاں مارتا پھرتا ہے۔ نہ اس میں اپنے رب سے ڈرتا ہے، نہ اس میں صلہ رحمی کرتا ہے اور نہ اس میں اللہ کا کوئی حق جانتا ہے۔ سو وہ بدترین مرتبے میں ہے اور ایک وہ بندہ جسے اللہ نے نہ مال دیا ہے نہ علم۔ چناچہ وہ کہتا ہے، اگر میرے پاس مال ہو تو میں فلاں شخص جیسا عمل کروں تو یہ اس کی نیت ہے اور ان دونوں کا گناہ برابر ہے۔ “ جو لوگ کل قارون کے مرتبے کی تمنا کر رہے تھے اس حدیث کی رو سے قارون اور وہ دونوں گناہ میں برابر تھے، اس لیے انھوں نے اللہ کا احسان مانا کہ اس نے ہمیں قارون کی طرح زمین میں دھنسا نہیں دیا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَصْبَحَ الَّذِيْنَ تَمَـــنَّوْا مَكَانَہٗ بِالْاَمْسِ يَقُوْلُوْنَ وَيْكَاَنَّ اللہَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاۗءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَيَقْدِرُ۝ ٠ۚ لَوْلَآ اَنْ مَّنَّ اللہُ عَلَيْنَا لَخَسَفَ بِنَا۝ ٠ۭ وَيْكَاَنَّہٗ لَا يُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ۝ ٨٢ۧ صبح الصُّبْحُ والصَّبَاحُ ، أوّل النهار، وهو وقت ما احمرّ الأفق بحاجب الشمس . قال تعالی: أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] ، وقال : فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] ، والتَّصَبُّحُ : النّوم بالغداة، والصَّبُوحُ : شرب الصّباح، يقال : صَبَحْتُهُ : سقیته صبوحا، والصَّبْحَانُ : الْمُصْطَبَحُ ، والْمِصْبَاحُ : ما يسقی منه، ومن الإبل ما يبرک فلا ينهض حتی يُصْبَحَ ، وما يجعل فيه الْمِصْبَاحُ ، قال : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] ، ويقال للسّراج : مِصْبَاحٌ ، والْمِصْبَاحُ : مقرّ السّراج، والْمَصَابِيحُ : أعلام الکواكب . قال تعالی: وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] ، وصَبِحْتُهُمْ ماء کذا : أتيتهم به صَبَاحاً ، والصُّبْحُ : شدّة حمرة في الشّعر، تشبيها بالصّبح والصّباح، وقیل : صَبُحَ فلان أي : وَضُؤَ ( ص ب ح) الصبح والصباح دن کا ابتدائی حصہ جبکہ افق طلوع آفتاب کی وجہ سے سرخ ہو ۔ قرآن میں ہے ۔ أَلَيْسَ الصُّبْحُ بِقَرِيبٍ [هود/ 81] کیا صبح کچھ دور ہے ۔ فَساءَ صَباحُ الْمُنْذَرِينَ [ الصافات/ 177] تو جن کو ڈرسنا یا گیا ہے ۔ ان کے لئے برادن ہوگا ۔ التصبح صبح کے وقت سونا ۔ الصبوح صبح کی شراب کو کہتے ہیں اور صبحتہ کے معنی صبح کی شراب پلانے کے ہیں ۔ الصبحان صبح کے وقت شراب پینے والا ( مونث صبحیٰ ) المصباح (1) پیالہ جس میں صبوحی پی جائے (2) وہ اونٹ جو صبح تک بیٹھا رہے (3) قندیل جس میں چراغ رکھا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكاةٍ فِيها مِصْباحٌ الْمِصْباحُ فِي زُجاجَةٍ [ النور/ 35] اس کے نور کی مثال ایسی ہے گویا ایک طاق ہے جس میں چراغ اور چراغ ایک قندیل میں ہے ۔ اور چراغ کو بھی مصباح کہاجاتا ہے اور صباح کے معنی بتی کی لو کے ہیں ۔ المصا بیح چمکدار ستارے جیسے فرمایا : وَلَقَدْ زَيَّنَّا السَّماءَ الدُّنْيا بِمَصابِيحَ [ الملک/ 5] اور ہم نے قریب کے آسمان کو تاروں کے چراغوں سے زینت دی ۔ صبحتم ماء کذا میں صبح کے وقت انکے پاس فلاں پانی پر جاپہنچا اور کبھی صبیح یا صباح کی مناسبت سے بالوں کی سخت سرخی کو بھی صبح کہا جاتا ہے ۔ صبح فلان خوبصورت اور حسین ہونا ۔ تَّمَنِّي : تقدیر شيء في النّفس وتصویره فيها، وذلک قد يكون عن تخمین وظنّ ، ويكون عن رويّة وبناء علی أصل، لکن لمّا کان أكثره عن تخمین صار الکذب له أملك، فأكثر التّمنّي تصوّر ما لا حقیقة له . قال تعالی: أَمْ لِلْإِنْسانِ ما تَمَنَّى [ النجم/ 24] ، فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ [ البقرة/ 94] ، وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً [ الجمعة/ 7] والأُمْنِيَّةُ : الصّورة الحاصلة في النّفس من تمنّي الشیء، ولمّا کان الکذب تصوّر ما لا حقیقة له وإيراده باللفظ صار التّمنّي کالمبدإ للکذب، فصحّ أن يعبّر عن الکذب بالتّمنّي، وعلی ذلک ما روي عن عثمان رضي اللہ عنه :( ما تغنّيت ولا تَمَنَّيْتُ منذ أسلمت) «1» ، وقوله تعالی: وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة/ 78] قال مجاهد : معناه : إلّا کذبا «2» ، وقال غيره إلّا تلاوة مجرّدة عن المعرفة . من حيث إنّ التّلاوة بلا معرفة المعنی تجري عند صاحبها مجری أمنيّة تمنیتها علی التّخمین، وقوله : وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ [ الحج/ 52] أي : في تلاوته، فقد تقدم أنّ التّمنّي كما يكون عن تخمین وظنّ فقد يكون عن رويّة وبناء علی أصل، ولمّا کان النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم کثيرا ما کان يبادر إلى ما نزل به الرّوح الأمين علی قلبه حتی قيل له : لا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ [ طه/ 114] ، ولا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ [ القیامة/ 16] سمّى تلاوته علی ذلک تمنّيا، ونبّه أنّ للشیطان تسلّطا علی مثله في أمنيّته، وذلک من حيث بيّن أنّ «العجلة من الشّيطان» «3» . وَمَنَّيْتَني كذا : جعلت لي أُمْنِيَّةً بما شبّهت لي، قال تعالیٰ مخبرا عنه : وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] . ۔ التمنی کے معنی دل میں کسی خیال کے باندھے اور اس کی تصویرکھنیچ لینے کے ہیں پھر کبھی یہ تقدیر محض ظن وتخمین پر مبنی بر حقیقت مگر عام طور پر تمنی کی بنا چونکہ ظن وتحمین پر ہی ہوتی ہے اس لئے ا س پر جھوٹ کا رنگ غالب ہوتا ہے ۔ کیونکہ اکثر طور پر تمنی کا لفظ دل میں غلط آرزو میں قائم کرلینے پر بولا جاتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ أَمْ لِلْإِنْسانِ ما تَمَنَّى [ النجم/ 24] کیا جس چیز کی انسان آرزو کرتا ہے وہ اسے ضرور ملتی ہے ۔ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ [ البقرة/ 94] تو موت کی آرزو تو کرو ۔ وَلا يَتَمَنَّوْنَهُ أَبَداً [ الجمعة/ 7] اور یہ ہر گز نہیں کریں گے ۔ الامنیۃ کسی چیز کی تمنا سے جو صورت ذہن میں حاصل ہوتی ہے اسے امنیۃ کہا جاتا ہے ۔ اور کزب چونکہ کسی وغیرہ واقعی چیز کا تصور کر کے اسے لفظوں میں بیان کردینے کو کہتے ہیں تو گویا تمنی جھوت کا مبدء ہے مہذا جھوٹ کو تمنی سے تعبیر کر نا بھی صحیح ہے اسی معنی میں حضرت عثمان (رض) کا قول ہے ۔ ماتغنیت ولا منذ اسلمت کہ میں جب سے مسلمان ہوا ہوں نہ راگ گایا ہے اور نہ جھوٹ بولا ہے اور امنیۃ کی جمع امانی آتی ہے چناچہ فرمایا : ۔ وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لا يَعْلَمُونَ الْكِتابَ إِلَّا أَمانِيَّ [ البقرة/ 78] اور بعض ان میں ان پڑھ ہیں کہ اپنے خیالات باطل کے سوا ( خدا کی ) کتاب سے واقف نہیں ہیں ۔ مجاہد نے الا امانی کے معنی الا کذبا یعنی جھوٹ کئے ہیں اور دوسروں نے امانی سے بےسوچے سمجھے تلاوت کرنا مراد لیا ہے کیونکہ اس قسم کی تلاوت بھی اس منیۃ سے زیادہ وقعت نہیں رکھتی ہے جس کی بنا تخمینہ پر ہوتی ہے اور آیت کریمہ : ۔ وَما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَسُولٍ وَلا نَبِيٍّ إِلَّا إِذا تَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ [ الحج/ 52] اور ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر اس کا یہ حال تھا کہ ) جب وہ کوئی آرزو کرتا تھا تو شیطان اس کی آروزو میں ( وسوسہ ) ڈال دیتا تھا ۔ میں امنیۃ کے معنی تلاوت کے ہیں اور پہلے بیان ہوچکا ہے کہ تمنی ظن وتخمین سے بھی ہوتی ہے ۔ اور مبنی بر حقیقت بھی ۔ اور چونکہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قلب مبارک پر روح الامین جو وحی لے کر اترتے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی تلاوت کے لئے مبا ورت کرتے تھے حتیٰ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آیت لا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ [ طه/ 114] اور ولا تُحَرِّكْ بِهِ لِسانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ [ القیامة/ 16] کے ذریعہ منع فرما دیا گیا ۔ الغرض اس وجہ سے آپ کی تلاوت کو تمنی سے موسوم کیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ ایسی تلاوت میں شیطان کا دخل غالب ہوجاتا ہے اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا ہے ان العا جلۃ من الشیطان کہ جلد بازی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے منیتی کذا کے معنی فریب وہی سے جھوٹی امید دلانے کے ہیں ۔ چناچہ قرآن نے شیطان کے قول کی حکایت کرتے ہوئے فرمایا : ۔ وَلَأُضِلَّنَّهُمْ وَلَأُمَنِّيَنَّهُمْ [ النساء/ 119] اور ان کو گمراہ کرتا ۔ اور امید دلاتا رہوں گا ۔ «مَكَانُ»( استکان) قيل أصله من : كَانَ يَكُونُ ، فلمّا كثر في کلامهم توهّمت المیم أصليّة فقیل : تمكّن كما قيل في المسکين : تمسکن، واسْتَكانَ فلان : تضرّع وكأنه سکن وترک الدّعة لضراعته . قال تعالی: فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] . المکان ۔ بعض کے نزدیک یہ دراصل کان یکون ( ک و ن ) سے ہے مگر کثرت استعمال کے سبب میم کو اصلی تصور کر کے اس سے تملن وغیرہ مشتقات استعمال ہونے لگے ہیں جیسا کہ مسکین سے تمسکن بنا لیتے ہیں حالانکہ یہ ( ص ک ن ) سے ہے ۔ استکان فلان فلاں نے عاجز ی کا اظہار کیا ۔ گو یا وہ ٹہھر گیا اور ذلت کی وجہ سے سکون وطما نینت کو چھوڑدیا قرآن میں ہے : ۔ فَمَا اسْتَكانُوا لِرَبِّهِمْ [ المؤمنون/ 76] تو بھی انہوں نے خدا کے آگے عاجزی نہ کی ۔ وي وَيْ كلمةٌ تُذْكَرُ للتَّحَسُّر، والتَّنَدُّم، والتَّعَجُّب، تقول : وَيْ لعبد الله، قال تعالی: وَيْكَأَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ [ القصص/ 82] وَيْكَأَنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكافِرُونَ [ القصص/ 82] ، وقیل : وَيْ لِزيدٍ ، وقیل : وَيْكَ ، کان وَيْلَكَ فحذف منه اللام . ( و ی ) وی اسم صوت یہ کلمہ حسرت ندامت مدر اظہار تعجب کے م قع جیسے وی معبد اللہ عبداللہ پر افسوس یا تعجب ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ وَيْكَأَنَّ اللَّهَ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ [ القصص/ 82] ہائے شامت خدا ہی تو ۔۔۔۔۔ جس کے لئے چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے ۔ وَيْكَأَنَّهُ لا يُفْلِحُ الْكافِرُونَ [ القصص/ 82] ہائے خرابی کافر نجات نہیں پاسکتے ۔ بعضوی لزید ( بصلہ لام اور بعضوی زید ( بغیر لام بولتے ہیں اور بعض نے کہا ہے کہ دیک اصل میں ویلک ہی ہے لام حزف ہونے کے بعد ویک رہ گیا ہے ۔ بسط بَسْطُ الشیء : نشره وتوسیعه، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] والبِسَاط : الأرض المتسعة وبَسِيط الأرض : مبسوطه، واستعار قوم البسط لکل شيء لا يتصوّر فيه تركيب وتأليف ونظم، قال اللہ تعالی: وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] ، ( ب س ط ) بسط الشئ کے معنی کسی چیز کو پھیلانے اور توسیع کرنے کے ہیں ۔ پھر استعمال میں کبھی دونوں معنی ملحوظ ہوتے ہیں اور کبھی ایک معنی متصور ہوتا ہے ۔ چناچہ محاورہ ہے بسط لثوب ( اس نے کپڑا پھیلایا ) اسی سے البساط ہے جو ہر پھیلائی ہوئی چیز پر بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِساطاً [ نوح/ 19] اور خدا ہی نے زمین کو تمہارے لئے فراش بنایا ۔ اور بساط کے معنی وسیع زمین کے ہیں اور بسیط الارض کے معنی ہیں کھلی اور کشادہ زمین ۔ ایک گروہ کے نزدیک بسیط کا لفظ بطور استعارہ ہر اس چیز پر بولا جاتا ہے جس میں ترکیب و تالیف اور نظم متصور نہ ہوسکے ۔ اور بسط کبھی بمقابلہ قبض آتا ہے ۔ جیسے وَاللَّهُ يَقْبِضُ وَيَبْصُطُ [ البقرة/ 245] خدا ہی روزی کو تنگ کرتا ہے اور ( وہی اسے ) کشادہ کرتا ہے ۔ رزق الرِّزْقُ يقال للعطاء الجاري تارة، دنیويّا کان أم أخرويّا، وللنّصيب تارة، ولما يصل إلى الجوف ويتغذّى به تارة «2» ، يقال : أعطی السّلطان رِزْقَ الجند، ورُزِقْتُ علما، قال : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] ، أي : من المال والجاه والعلم، ( ر ز ق) الرزق وہ عطیہ جو جاری ہو خواہ دنیوی ہو یا اخروی اور رزق بمعنی نصیبہ بھی آجاتا ہے ۔ اور کبھی اس چیز کو بھی رزق کہاجاتا ہے جو پیٹ میں پہنچ کر غذا بنتی ہے ۔ کہاجاتا ہے ۔ اعطی السلطان رزق الجنود بادشاہ نے فوج کو راشن دیا ۔ رزقت علما ۔ مجھے علم عطا ہوا ۔ قرآن میں ہے : وَأَنْفِقُوا مِنْ ما رَزَقْناكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ [ المنافقون/ 10] یعنی جو کچھ مال وجاہ اور علم ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے صرف کرو شاء الشَّيْءُ قيل : هو الذي يصحّ أن يعلم ويخبر عنه، وعند کثير من المتکلّمين هو اسم مشترک المعنی إذ استعمل في اللہ وفي غيره، ويقع علی الموجود والمعدوم . وعند بعضهم : الشَّيْءُ عبارة عن الموجود «2» ، وأصله : مصدر شَاءَ ، وإذا وصف به تعالیٰ فمعناه : شَاءَ ، وإذا وصف به غيره فمعناه الْمَشِيءُ ، وعلی الثاني قوله تعالی: قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد/ 16] ، فهذا علی العموم بلا مثنويّة إذ کان الشیء هاهنا مصدرا في معنی المفعول . وقوله : قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام/ 19] ، فهو بمعنی الفاعل کقوله : فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون/ 14] . والْمَشِيئَةُ عند أكثر المتکلّمين كالإرادة سواء، وعند بعضهم : المشيئة في الأصل : إيجاد الشیء وإصابته، وإن کان قد يستعمل في التّعارف موضع الإرادة، فالمشيئة من اللہ تعالیٰ هي الإيجاد، ومن الناس هي الإصابة، قال : والمشيئة من اللہ تقتضي وجود الشیء، ولذلک قيل : ( ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن) «3» ، والإرادة منه لا تقتضي وجود المراد لا محالة، ألا تری أنه قال : يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] ، وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] ، ومعلوم أنه قد يحصل العسر والتّظالم فيما بين الناس، قالوا : ومن الفرق بينهما أنّ إرادة الإنسان قد تحصل من غير أن تتقدّمها إرادة الله، فإنّ الإنسان قد يريد أن لا يموت، ويأبى اللہ ذلك، ومشيئته لا تکون إلّا بعد مشيئته لقوله : وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] ، روي أنّه لما نزل قوله : لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] ، قال الکفّار : الأمر إلينا إن شئنا استقمنا، وإن شئنا لم نستقم، فأنزل اللہ تعالیٰ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» ، وقال بعضهم : لولا أن الأمور کلّها موقوفة علی مشيئة اللہ تعالی، وأنّ أفعالنا معلّقة بها وموقوفة عليها لما أجمع الناس علی تعلیق الاستثناء به في جمیع أفعالنا نحو : سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] ، سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] ، يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] ، ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] ، قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] ، وَما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ، وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] . ( ش ی ء ) الشیئ بعض کے نزدیک شی وہ ہوتی ہے جس کا علم ہوسکے اور اس کے متعلق خبر دی جاسکے اور اکثر متکلمین کے نزدیک یہ اسم مشترک ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے ما سوی پر بھی بولا جاتا ہے ۔ اور موجودات اور معدومات سب کو شے کہہ دیتے ہیں ، بعض نے کہا ہے کہ شے صرف موجود چیز کو کہتے ہیں ۔ یہ اصل میں شاء کا مصدر ہے اور جب اللہ تعالیٰ کے متعلق شے کا لفظ استعمال ہو تو یہ بمعنی شاء یعنی اسم فاعل کے ہوتا ہے ۔ اور غیر اللہ پر بولا جائے تو مشیء ( اسم مفعول ) کے معنی میں ہوتا ہے ۔ پس آیت کریمہ : ۔ قُلِ اللَّهُ خالِقُ كُلِّ شَيْءٍ [ الرعد/ 16] خدا ہی ہر چیز کا پیدا کرنے والا ہے ۔ میں لفظ شی چونکہ دوسرے معنی ( اسم مفعول ) میں استعمال ہوا ہے اس لئے یہ عموم پر محمول ہوگا اور اس سے کسی قسم کا استثناء نہیں کیا جائیگا کیونکہ شی مصدر بمعنی المفعول ہے مگر آیت کریمہ : ۔/ قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهادَةً [ الأنعام/ 19] ان سے پوچھو کہ سب سے بڑھ کر ( قرین انصاف ) کس کی شہادت ہے میں شے بمعنی اسم فاعل ہے اور اللہ تعالیٰ کو اکبر شھادۃ کہنا ایسے ہی ہے جیسا کہ دوسری ایت ۔ فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ [ المؤمنون/ 14] ( تو خدا جو سب سے بہتر بنانے والا بڑا بابرکت ہے ) میں ذات باری تعالیٰ کو احسن الخالقین کہا گیا ہے ۔ المشیئۃ اکثر متکلمین کے نزدیک مشیئت اور ارادہ ایک ہی صفت کے دو نام ہیں لیکن بعض کے نزدیک دونوں میں فرق سے ( 1 ) مشیئت کے اصل معنی کسی چیز کی ایجاد یا کسی چیز کو پا لینے کے ہیں ۔ اگرچہ عرف میں مشیئت ارادہ کی جگہ استعمال ہوتا ہے پس اللہ تعالیٰ کی مشیئت کے معنی اشیاء کو موجود کرنے کے ہیں اور لوگوں کی مشیئت کے معنی کسی چیز کو پالینے کے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کو چاہنا چونکہ اس کے وجود کو مقتضی ہوتا ہے اسی بنا پر کہا گیا ہے ۔ ما شَاءَ اللہ کان وما لم يَشَأْ لم يكن کہ جو اللہ تعالیٰ چاہے وہی ہوتا ہے اور جو نہ چاہے نہیں ہوتا ۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا کسی چیز کا ارادہ کرنا اس کے حتمی وجود کو نہیں چاہتا چناچہ قرآن میں ہے : ۔ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ [ البقرة/ 185] خدا تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا ۔ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْماً لِلْعِبادِ [ غافر/ 31] اور خدا تو بندوں پر ظلم کرنا نہیں چاہتا ۔ کیونکہ یہ واقعہ ہے کہ لوگوں میں عسرۃ اور ظلم پائے جاتے ہیں ۔ ( 2 ) اور ارادہ میں دوسرا فرق یہ ہے کہ انسان کا ارادہ تو اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے بغیر ہوسکتا ہے مثلا انسان چاہتا ہے کہ اسے موت نہ آئے لیکن اللہ تعالیٰ اس کو مار لیتا ہے ۔ لیکن مشیئت انسانی مشئیت الہیٰ کے بغیروجود ہیں نہیں آسکتی جیسے فرمایا : ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الإنسان/ 30] اور تم کچھ بھی نہیں چاہتے مگر وہی جو خدائے رب العلمین چاہے ایک روایت ہے کہ جب آیت : ۔ لِمَنْ شاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ [ التکوير/ 28] یعنی اس کے لئے جو تم میں سے سیدھی چال چلنا چاہے ۔ نازل ہوئی تو کفار نے کہا ہے یہ معاملہ تو ہمارے اختیار میں ہے کہ ہم چاہیں تو استقامت اختیار کریں اور چاہیں تو انکار کردیں اس پر آیت کریمہ ۔ وَما تَشاؤُنَ إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ «1» نازل ہوئی ۔ بعض نے کہا ہے کہ اگر تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیئت پر موقوف نہ ہوتے اور ہمارے افعال اس پر معلق اور منحصر نہ ہوتے تو لوگ تمام افعال انسانیہ میں انشاء اللہ کے ذریعہ اشتشناء کی تعلیق پر متفق نہیں ہوسکتے تھے ۔ قرآن میں ہے : ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّه مِنَ الصَّابِرِينَ [ الصافات/ 102] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائے گا ۔ سَتَجِدُنِي إِنْ شاءَ اللَّهُ صابِراً [ الكهف/ 69] خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے ۔ يَأْتِيكُمْ بِهِ اللَّهُ إِنْ شاءَ [هود/ 33] اگر اس کو خدا چاہے گا تو نازل کریگا ۔ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شاءَ اللَّهُ [يوسف/ 69] مصر میں داخل ہوجائیے خدا نے چاہا تو ۔۔۔۔۔۔۔ قُلْ لا أَمْلِكُ لِنَفْسِي نَفْعاً وَلا ضَرًّا إِلَّا ما شاء اللَّهُ [ الأعراف/ 188] کہدو کہ میں اپنے فائدے اور نقصان کا کچھ بھی اختیار نہیں رکھتا مگر جو خدا چاہے وما يَكُونُ لَنا أَنْ نَعُودَ فِيها إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّہُ رَبُّنا [ الأعراف/ 89] ہمیں شایان نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ہاں خدا جو ہمارا پروردگار ہے وہ چاہے تو ( ہم مجبور ہیں ) ۔ وَلا تَقُولَنَّ لِشَيْءٍ إِنِّي فاعِلٌ ذلِكَ غَداً إِلَّا أَنْ يَشاءَ اللَّهُ [ الكهف/ 24] اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کروں گا مگر ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر خدا چاہے ۔ قَدْرُ والتَّقْدِيرُ والقَدْرُ والتَّقْدِيرُ : تبيين كمّيّة الشیء . يقال : قَدَرْتُهُ وقَدَّرْتُهُ ، وقَدَّرَهُ بالتّشدید : أعطاه الْقُدْرَةَ. يقال : قَدَّرَنِي اللہ علی كذا وقوّاني عليه، فَتَقْدِيرُ اللہ الأشياء علی وجهين : أحدهما : بإعطاء القدرة . والثاني : بأن يجعلها علی مقدار مخصوص ووجه مخصوص حسبما اقتضت الحکمة، وذلک أنّ فعل اللہ تعالیٰ ضربان : ضرب أوجده بالفعل، ومعنی إيجاده بالفعل أن أبدعه کاملا دفعة لا تعتريه الزّيادة والنّقصان إلى إن يشاء أن يفنيه، أو يبدّله کالسماوات وما فيها . ومنها ما جعل أصوله موجودة بالفعل وأجزاء ه بالقوّة، وقدّره علی وجه لا يتأتّى منه غير ما قدّره فيه، کتقدیره في النّواة أن ينبت منها النّخل دون التّفّاح والزّيتون، وتقدیر منيّ الإنسان أن يكون منه الإنسان دون سائر الحیوانات . فَتَقْدِيرُ اللہ علی وجهين : أحدهما بالحکم منه أن يكون کذا أو لا يكون کذا، إمّا علی سبیل الوجوب، وإمّا علی سبیل الإمكان . وعلی ذلک قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] . والثاني : بإعطاء الْقُدْرَةِ عليه . وقوله : فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] ، تنبيها أنّ كلّ ما يحكم به فهو محمود في حكمه، أو يكون من قوله : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] ، وقرئ : فَقَدَرْنا «1» بالتّشدید، وذلک منه، أو من إعطاء القدرة، وقوله : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة/ 60] ، فإنه تنبيه أنّ ذلک حكمة من حيث إنه هو الْمُقَدِّرُ ، وتنبيه أنّ ذلک ليس كما زعم المجوس أنّ اللہ يخلق وإبلیس يقتل، وقوله : إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ، إلى آخرها . أي : ليلة قيّضها لأمور مخصوصة . وقوله : إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ، وقوله : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل/ 20] ، إشارة إلى ما أجري من تكوير اللیل علی النهار، وتكوير النهار علی اللیل، وأن ليس أحد يمكنه معرفة ساعاتهما وتوفية حقّ العبادة منهما في وقت معلوم، وقوله : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس/ 19] ، فإشارة إلى ما أوجده فيه بالقوّة، فيظهر حالا فحالا إلى الوجود بالصّورة، وقوله : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب/ 38] ، فَقَدَرٌ إشارة إلى ما سبق به القضاء، والکتابة في اللّوح المحفوظ والمشار إليه بقوله عليه الصلاة والسلام : «فرغ ربّكم من الخلق والخلق والأجل والرّزق» «1» ، والْمَقْدُورُ إشارة إلى ما يحدث عنه حالا فحالا ممّا قدّر، وهو المشار إليه بقوله : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] ، وعلی ذلک قوله : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر/ 21] ، قال أبو الحسن : خذه بقدر کذا وبقدر کذا، وفلان يخاصم بقدر وقدر، وقوله : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] ، أي : ما يليق بحاله مقدّرا عليه، وقوله : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى [ الأعلی/ 3] ، أي : أعطی كلّ شيء ما فيه مصلحته، وهداه لما فيه خلاصه، إمّا بالتّسخیر، وإمّا بالتّعلیم کما قال : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] ، والتَّقْدِيرُ من الإنسان علی وجهين : أحدهما : التّفكّر في الأمر بحسب نظر العقل، وبناء الأمر عليه، وذلک محمود، والثاني : أن يكون بحسب التّمنّي والشّهوة، وذلک مذموم کقوله : فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر/ 18- 19] ، وتستعار الْقُدْرَةُ والْمَقْدُورُ للحال، والسّعة في المال، القدر ( والتقدیر کے معنی کسی چیز کی کمیت کو بیان کرنے کے ہیں۔ کہاجاتا ہے ۔ قدرتہ وقدرتہ اور قدرہ ( تفعیل ) کے معنی کسی کو قدرت عطا کرنا بھی آتے ہیں محاور ہ ہے ۔ قدرنی اللہ علی کذا وتوانی علیہ اللہ نے مجھے اس پر قدرت عطافرمائی پس ، ، تقدیرالہی ِ ، ، کی دوصورتیں ہیں اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو قدرت بخشنا یا اللہ تعالیٰ کا اشیاء کو مقدار مخصوص اور طرز مخصوص پر بنانا جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے اس لئے کہ فعل دوقسم پر ہے اول ایجاد بالفعل یعنی ابتداء سے کسی چیز کو ایسا کامل وجو عطا کرنا کی جب تک مشیت الہی اس کے فنا یا تبدیل کی مقتضی نہ ہو اس میں کمی بیشی نہ ہوسکے جیسے اجرام سماویہ اور ومافیما کی تخلیق ( کہ ان میں تاقیامت کسی قسم کا تغیر نہیں ہوگا ) دوم یہ کہ اصول اشیاء کو بالفعل اور ان کے اجزاء کو بالقوۃ وجو عطافرمانا اور ان کو اس ندازہ کے ساتھ مقدر کرنا کہ اس کی خلاف ظہور پزیر نہ ہوسکیں جیسا کہ خرما کی گھٹلی کے متعلق تقیدر الہٰی یہ ہے کہ اس سے خرما کا درخت ہی اگتا ہے اور سیب بازیتون کا درخت نہیں اگ سکتا اسی طرح انسان کی منی سے انسان پی پیدا ہوتا ہے دوسرے جانور پیدا نہیں ہوسکتے ۔ پس تقدیر الہی کے دو معنی ہوئے ایک یہ کہ کسی چیز کے متعلق نفی یا اثبات کا حکم لگانا کہ یوں ہوگا اور یوں نہیں ہوگا ۔ عام اس سے کم وہ حکم برسبیل وجوب ہو یا برسبیل امکان چناچہ آیت ؛ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے ۔ میں یہی معنی مراد ہیں دوم کی چیز پر قدرت عطا کرنے کے ہیں ۔ اور آیت کریمہ ؛فَقَدَرْنا فَنِعْمَ الْقادِرُونَ [ المرسلات/ 23] پھر اندازہ مقرر کیا اور ہم ہی خوب اندازہ مقرر کرنے والے ہیں ۔ میں اس امر پر تنبیہ ہے کہ اللہ کا ہر حکم قابل ستائش ہے ۔ اور یہ آیت : قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْراً [ الطلاق/ 3] خدا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کررکھا ہے ۔ کے ہم معنی ہے اور اس میں ایک قراءت ققدر نا ( تشدیددال ) کے ساتھ بھی ہے اور اس کے معنی یا تو حکم کرنے کے ہیں اور یا اعطاء قدرت کے اور آیت کریمہ : نَحْنُ قَدَّرْنا بَيْنَكُمُ الْمَوْتَ [ الواقعة/ 60] ہم نے تم میں مرنا ٹھہراد یا ۔ میں اس امر تنبیہ ہے کہ موت مقدر کرنے والا چونکہ اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لئ یہ بھی عین حکمت کے مطابق ہے اور مجوس کا یہ علم غلط ہے کہ اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور ابلیس مارتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :إِنَّا أَنْزَلْناهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ [ القدر/ 1] ہم نے اس ( قرآن ) گوشب قدر میں نازل کرنا شروع کیا ۔ میں لیلۃ القدر سے خاص رات مراد ہے جسے اور مخصوصہ کی انجام دہی لے لئے اللہ نے مقرر کر رکھا ہے ۔ نیز فرمایا :إِنَّا كُلَّ شَيْءٍ خَلَقْناهُ بِقَدَرٍ [ القمر/ 49] ہم نے ہر چیز اندازہ مقرر کے ساتھ پیدا کی ہے ۔ اور آیت کریمہ : وَاللَّهُ يُقَدِّرُ اللَّيْلَ وَالنَّهارَ عَلِمَ أَنْ لَنْ تُحْصُوهُ [ المزمل/ 20] اور خدا تو رات اور دن ، کا اندازہ رکھتا ہے اس نے معلوم کیا کہ تم اس کی نباہ نہ سکوگے ۔ میں سلسلہ لیل ونہار کے اجرء کی طرف اشارہ ہے اور یہ کہ ان کے اوقات کی معرفت حاصل کرنا اور پھر اوقات معینہ ، میں حق عبادات ادا کرنا کسی کے لئے ممکن نہیں ہے اور آیت کریمہ : مِنْ نُطْفَةٍ خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ [ عبس/ 19] نطفے سے بنایا پھر اس کا اندازہ مقرر کیا ۔ میں ان قویٰ کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے نطفہ میں بالقوۃ ودیعت کر رکھے ہیں اور وہ قتا فوقتا صورت کا لباس بہن کر ظہور پذیر ہوتے ہیں آیت کریمہ : وَكانَ أَمْرُ اللَّهِ قَدَراً مَقْدُوراً [ الأحزاب/ 38] اور خدا کا حکم ٹھہرچکا ہے ۔ میں قدر کے لفظ سے ان امور کی طرف اشارہ ہے جن کا فیصلہ ہوچکا ہے اور وہ لوح محفوظ میں لکھے جا چکے ہیں جن کی طرف کہ آنحضرت نے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : فرغ ربکم من الخلق والاجل والرزق کہ اللہ تبارک وتعالیٰ خلق ۔ عمر اور رزق سے فارغ ہوچکا ہے اور مقدور کے لفظ سے ان امور کیطرف اشارہ ہے جو وقتا فوقتا ظہور پذیر ہوتے رہتے ہیں ۔ جن کی طرف آیت : كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ [ الرحمن/ 29] وہ ہر روز کام میں مصروف ر ہتا ہے ۔ میں اشارہ فرمایا ہے اسی معنی میں فرمایا : وَما نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَعْلُومٍ [ الحجر/ 21] اور ہم ان کو بمقدار مناسب اتارتے رہتے ہیں ۔ ابوالحسن نے کہا ہے کہ یہ قدر وقدر ( بفتح الدال وسکونہا ) دونوں طرح بولا جاتا ہے چناچہ محاورہ خذ بقدر کذا ) وقدر کذا ( کہ اتنی مقدار میں لے لو ) وفلان یخاصم بقدر وقدر اور آیت کریمہ : عَلَى الْمُوسِعِ قَدَرُهُ وَعَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهُ [ البقرة/ 236] یعنی ) مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپی حیثیت کے مطابق ۔ میں قدر کے معنی یہ ہیں کہ جو شخص اپنی مقدور کے مطابق اخراجات ادا کرے ۔ اور آیت کریمہ : وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدى[ الأعلی/ 3] اور جس نے ( اس کا ) اناازہ ٹھہرادیا ( پھر اس کو ) رستہ بتایا : کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہرچیز کو وہ سمجھ عطا فرمادیا جس میں اس کی مصلحت ہے اور اسے تعلیمی یا تسخیری طور پر ان چیزوں کی طرف ہدایت کردی ہے جن میں اس کی نجات مضمرہ جیسے فرمایا : أَعْطى كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدى [ طه/ 50] جس نے ہر چیز کو اس کی شکل و صورت بخشی پھر راہ دکھائی ۔ جب ، ، تقدیر ، ، کا فاعل انسان ہو تو اس کے دومعنی ہوتے ہیں ایک تقدیر محمود یعنی عقل وفکر کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی امر بچہ غور فکر کرنا اور پھر اس فارمولا کے مطابق کسی کام کو سرا نجام دینا ۔ دوم تقدیر مذموم کہ انسان اپنی تمنا اور خواہش کے پیمانہ کے مطابق کسی امر پر غور فکر کرے اور عقل وفکر سے کام نہ لے جیسے فرمایا فَكَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ [ المدثر/ 18- 19] اس نے فکر کیا اور تجویز کی یہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی ۔ اور استعارہ کے طورپر قدرۃ اور مقدور کے معنی حالت اور وسعت مالی کے بھی آتے ہیں اور قدر کے معنی اس معین وقت یا مقام کے بھی ہوتے ہیں جو کسی کام کے لئے مقرر ہوچکا ہو چناچہ فرمایا : إِلى قَدَرٍ مَعْلُومٍ [ المرسلات/ 22] ایک معین وقت تک ۔ نیز فرمایا : فَسالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِها [ الرعد/ 17] پھر اس سے اپنے اپنے اندازے کے مطابق نالے بہ نکلے ۔ یعنی نالے اپنے ( ظرف کے مطابق بہ نکلتے ہیں ایک قرات میں بقدر ھا ہے جو بمعنی تقدیر یعنی اندازہ ۔۔۔ کے ہے اور آیت کریمہ : وَغَدَوْا عَلى حَرْدٍ قادِرِينَ [ القلم/ 25]( اور کوشش کے ساتھ سویرے ہی جاپہنچے ( گویا کھیتی پر ) قادر ہیں ۔ میں قادرین کے معنی قاصدین کے ہیں یعنی جو وقت انہوں نے مقرر کر رکھا تھا ۔ اندازہ کرتے ہوئے اس وقت پر وہاں جا پہنچے اور یہی معنی آیت کریمہ : فَالْتَقَى الْماءُ عَلى أَمْرٍ قَدْ قُدِرَ [ القمر/ 12] تو پانی ایک کام کے لئے جو مقدر ہوچکا تھا جمع ہوگیا میں مراد ہیں ۔ اور قدرت علیہ الشئی کے معنی کسی پر تنگی کردینے کے ہیں گویا وہ چیز اسے معین مقدار کے ساتھ دی گئی ہے اس کے بالمقابل بغیر حساب ( یعنی بےاندازہ ) آتا ہے ۔ قرآن میں ہے : وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ [ الطلاق/ 7] اور جس کے رزق میں تنگی ہو ۔ یعنی جس پر اس کی روزی تنگ کردی گئی ہو ۔ نیز فرمایا : يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشاءُ وَيَقْدِرُ [ الروم/ 37] خدا جس پر جاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے ۔ فَظَنَّ أَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَيْهِ [ الأنبیاء/ 87] اور خیال کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے اور ایک قرآت میں لن نقدر علیہ سے اور اسی سے لفظ اقدر مشتق ہے جس کے معنی کوتاہ گردن آدمی کے ہیں اوراقدر اس گھوڑے کو بھی کہتے ہیں جس کے دوڑتے وقت پچھلے پاؤں ٹھیک اس جگہ پڑیں جہاں اگلے پاؤں پڑے تھے ۔ اور آیت کریمہ وما قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ [ الأنعام/ 91] ان لوگوں نے خدا کی قدرشناسی جیسی کرنی چاہیے تھی نہیں کی ۔ یعنی لوگ اس کی حقیقت کو نہیں پاسکے اور پھر اس امر پر تنبیہ کی ہے کہ وہ اس کی کنہہ کا ادارک بھی کیسے کرسکتے ہیں جب کہ اس کی شان یہ ہے کہوالْأَرْضُ جَمِيعاً قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيامَةِ [ الزمر/ 67] اور قیامت کے دن تمام زمین آں کی مٹھی میں ہوگی ۔ اور آیت کریمہ : أَنِ اعْمَلْ سابِغاتٍ وَقَدِّرْ فِي السَّرْدِ [ سبأ/ 11] کو کشادہ زر ہیں بناؤ اور کڑیوں کو اندازے سے جوڑ دو ۔ میں قدرفی السرد کے معنی یہ ہیں کہ مضبوطی اور محکم زر ہیں بناؤ ۔ اور مقدارالشئی اس وقت یاز مانہ وغیرہ کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کے لئے مقرر کیا گیا ہو ۔ قرآن میں ہے : يَوْمٍ كانَ مِقْدارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ [ المعارج/ 4] اور اس روز ( نازل ہوگا ) جس کا اندازہ پچاس ہزار برس کا ہوگا ۔ اور آیت کریمہ : لِئَلَّا يَعْلَمَ أَهْلُ الْكِتابِ أَلَّا يَقْدِرُونَ عَلى شَيْءٍ مِنْ فَضْلِ اللَّهِ [ الحدید/ 29]( یہ باتیں ) اسلئے ( بیان کی گئی ہیں ) کہ اہل کتاب جان لیں کہ وہ خدا کے فضل کے ساتھ مختص ہے ( یعنی اس میں تاویل سے چارہ نہیں ہے ) القدر ( دیگ) برتن جس میں گوشت پکایا جاتا ہے ۔ چناچہ فرمایا : وَقُدُورٍ راسِياتٍ [ سبأ/ 13] اور دیگیں جو ایک ہی جگہ رکھی ہیں ۔ اور قدرت اللحم کے معنی ہانڈی میں گوشت پکانے کے ہیں اور ہینڈیاں پکائے ہوئے گوشت کو قدیر کہاجاتا ہے ۔ القدار ( قصاب ) وہ شخص جو اونٹ کو نحر ( ذبح ) کرکے دیگ میں اس کا گوشت پکاتا ہے ۔ شاعر نے کہا ہے ( الکامل) (351) ضرب القدار نقیعۃ القدام جیسا کہ قصاب سفر سے آنے والے کی خوشی میں دعوت کے لئے گوشت کاٹتا ہے ۔ منن والمِنَّةُ : النّعمة الثّقيلة، ويقال ذلک علی وجهين : أحدهما : أن يكون ذلک بالفعل، فيقال : منَّ فلان علی فلان : إذا أثقله بالنّعمة، وعلی ذلک قوله : لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 164] والثاني : أن يكون ذلک بالقول، وذلک مستقبح فيما بين الناس إلّا عند کفران النّعمة، ولقبح ذلک قيل : المِنَّةُ تهدم الصّنيعة «4» ، ولحسن ذكرها عند الکفران قيل : إذا کفرت النّعمة حسنت المنّة . وقوله : يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات/ 17] فالمنّة منهم بالقول، ومنّة اللہ عليهم بالفعل، وهو هدایته إيّاهم كما ذكر، ( م ن ن ) المن المن کے معنی بھاری احسان کے ہیں اور یہ دوطرح پر ہوتا ہے ۔ ایک منت بالفعل جیسے من فلان علیٰ فلان یعنی فلاں نے اس پر گرا انبار احسان کیا ۔ اسی معنی میں فرمایا : ۔ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ [ آل عمران/ 164] خدا نے مومنوں پر بڑا احسان گیا ہے ۔ اور دوسرے معنی منۃ بالقول یعنی احسان جتلانا گو انسانی معاشرہ میں معیوب سمجھا جاتا ہے مگر جب کفران نعمت ہو رہا ہو تو اس کے اظہار میں کچھ قباحت نہیں ہے اور چونکہ ( بلاوجہ اس کا اظہار معیوب ہے اس لئے مشہور ہے ، المنۃ تھدم الصنیعۃ منت یعنی احسان رکھنا احسان کو بر باد کردیتا ہے اور کفران نعمت کے وقت چونکہ اس کا تذکرہ مستحن ہوتا ہے اس لئے کسی نے کہا ہے : جب نعمت کی ناشکری ہو تو احسان رکھنا ہیں مستحن ہے اور آیت کریمہ : ۔ يَمُنُّونَ عَلَيْكَ أَنْ أَسْلَمُوا قُلْ لا تَمُنُّوا عَلَيَّ إِسْلامَكُمْ [ الحجرات/ 17] یہ لوگ تم احسان رکھتے ہیں ۔ کہ مسلمان ہوگئے ہیں ، کہدو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو ۔ بلکہ خدا تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا رستہ دکھایا ۔ میں ان کی طرف سے منت بالقوم یعنی احسان جتلانا مراد ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے منت بالفعل یعنی انہیں ایمان کی نعمت سے نواز نامراد ہے۔ خسف الخُسُوف للقمر، والکسوف للشمس «1» ، وقال بعضهم : الکسوف فيهما إذا زال بعض ضوئهما، والخسوف : إذا ذهب كلّه . ويقال خَسَفَهُ اللہ وخسف هو، قال تعالی: فَخَسَفْنا بِهِ وَبِدارِهِ الْأَرْضَ [ القصص/ 81] ، وقال : لَوْلا أَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا لَخَسَفَ بِنا [ القصص/ 82] ، وفي الحدیث : «إنّ الشّمس والقمر آيتان من آيات اللہ لا يُخْسَفَانِ لموت أحد ولا لحیاته» «2» ، وعین خَاسِفَة : إذا غابت حدقتها، فمنقول من خسف القمر، وبئر مَخْسُوفَة : إذا غاب ماؤها ونزف، منقول من خسف اللہ القمر . وتصوّر من خسف القمر مهانة تلحقه، فاستعیر الخسف للذّلّ ، فقیل : تحمّل فلان خسفا . ( خ س ف ) الخسوف کا لفظ چاند کے بےنور ہونے اور کسوف کا لفظ سورج کے بےنور ہونے پر بولا جاتا ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ خسوف قدر ہے بےنور ہونے کو کہاجاتا ہے اور کسوف پوری طرح بےنور ہوجانے کو کہتے ہیں ، عام اس سے کہ وہ سورج ہو یا چاند کہاجاتا ہے خسفہ اللہ اللہ نے اسے زمین میں دھنسادیا ( متعدی ) خسف ھو ( لازمی ) زمین میں دھنس جانا ۔ قرآن میں ہے :۔ فَخَسَفْنا بِهِ وَبِدارِهِ الْأَرْضَ [ القصص/ 81] پس ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا ۔ لَوْلا أَنْ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْنا لَخَسَفَ بِنا [ القصص/ 82] اگر خدا ہم پر احسان نہ کرتا تو ہمیں بھی دھنسا دیتا ۔ حدیث میں ہے ( ا اا) ان الشمس والقمر ایتان من ایات اللہ لایخسفان لموت احد ولا لحیاتہ کہ سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں جو کسی کی موت پاپیدائش کی وجہ سے بےنور نہیں ہوتے ۔ اور عین خاسفہ ( اندر دھنسی ہوئی آنکھ ) کا محاورہ خسف القمر سے منقول ہے بئر مخسوفۃ وہ کنواں جس کا پانی غائب ہوگیا ہو اور چاند گہن لگنے سے چونکہ ماند پڑجاتا ہے اس لیے بطور استعارہ خسیف بمعنی ذلت ورسوائی بھی آجاتا ہے چناچہ کہا جاتا ہے ۔ تحمل فلان خسفا ۔ فلاں شخص ذلیل ہوگیا ۔ فلح الفَلْحُ : الشّقّ ، وقیل : الحدید بالحدید يُفْلَح أي : يشقّ. والفَلَّاحُ : الأكّار لذلک، والفَلَاحُ : الظَّفَرُ وإدراک بغية، وذلک ضربان : دنیويّ وأخرويّ ، فالدّنيويّ : الظّفر بالسّعادات التي تطیب بها حياة الدّنيا، وهو البقاء والغنی والعزّ ، ( ف ل ح ) الفلاح کے معنی پھاڑ نا کے ہیں مثل مشہور ہے الحدید بالحدید یفلح لوہالو ہے کو کاٹتا ہے اس لئے فلاح کسان کو کہتے ہیں ۔ ( کیونکہ وہ زمین کو پھاڑتا ہے ) اور فلاح کے معنی کامیابی اور مطلب وری کے ہیں اور یہ دو قسم پر ہے دینوی اور اخروی ۔ فلاح دنیوی ان سعادتوں کو حاصل کرلینے کا نام ہے جن سے دنیوی زندگی خوشگوار بنتی ہو یعنی بقاء لمال اور عزت و دولت ۔ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٨٢) اور گزشتہ زمانہ میں جو لوگ قارون جیسے ہونے کی تمنا کررہے تھے وہ آج ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ قارون جو کہا کرتا تھا کہ میری ہنر مندی سے مجھے یہ مال ملا ہے ایسا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے آزمائش کیلیے جس کو چاہے زیادہ مال دیتا ہے اور جس کو چاہے تنگی سے دینے لگتا ہے اور اس میں اس آدمی کے لیے فائدہ ہے اگر ہم پر اللہ تعالیٰ کی مہربانی نہ ہوتی کہ ہمیں اتنا مال اس نے نہیں دیا تو ہمیں بھی قارون کی طرح زمین میں دھنسا دیتا بس اچھی طرح معلوم ہوگیا کہ کافروں کو عذاب خداوندی سے نجات نہیں ملتی۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

(وَیْکَاَنَّ اللّٰہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ ج) ” تصور کریں کہ اگر رات کو یہ واقعہ ہوا ہوگا تو صبح ہوتے ہی ہر طرف دھوم مچ گئی ہوگی۔ چناچہ وہی لوگ جو کل قارون کی آن بان کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے اب وہ اس خوفناک انجام سے بچ جانے پر اللہ تعالیٰ کا شکرادا کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہائے افسوس ‘ ہم بھول گئے تھے کہ رزق کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے قبضۂ قدرت میں رکھا ہوا ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے۔ (لَوْلَآ اَنْ مَّنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَا لَخَسَفَ بِنَا ط) ” یعنی ہم نے بھی اس جیسی دولت اور شان و شوکت کی خواہش کی تھی ‘ اس لیے عین ممکن تھا ہمیں بھی وہی سزا ملتی ‘ مگر اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں اس انجام سے بچا لیا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

101 That is "The extension or the restriction of provisions is always according to the will of Allah, and Allah's will is determined by His own reasons and considerations. His favouring somebody with generous provisions does not necessarily mean that AIIah is well pleased with him and is honouring him with gifts. Mostly it so happens that a person is under Allah's wrath, but He goes on favouring him with wore and more wealth till, at last, the same wealth causes A Ilah's torment to descend on him. Contrary to this, if somebody is being given restricted provisons it dces not necessarily mean that AIIah is displeased with him and is punishing him. Mostly the righteous then live in hardship although they are Allah's favourites, and in many cases the same hardship becomes a cause of Allah's mercy for them. Consequently, a person who does not understand this reality looks with envious eyes at the prosperity of those who actually deserve Allah's wrath." 102 That is, "We had the misconception, that worldly prosperity and wealth by themselves constituted real success. Therefore, we thought that Korah was highly .successful, but now we have come to know that real success is an entirely different thing, and it is never attained by the disbelievers." This moral of the story of Korah has been mentioned only in the Qur'an. The Bible and the Talmud are without it. However, according to the details given in these Iooks, when the Israelites left Egypt, Korah also accompanied theta along with his men, and then conspired against the Prophets Moses and Aaron and was joined in this by 250 of his followers. At last, Allah's wrath descended on him, and the earthopened up and swallowed him and his followers together with their possessions."

سورة القصص حاشیہ نمبر : 101 یعنی اللہ کی طرف سے رزق کی کشادگی و تنگی جو کچھ بھی ہوتی ہے اس کی مشیت کی بنا پر ہوتی ہے اور اس مشیت میں اس کی کچھ دوسری ہی مصلحتیں کارفرما ہوتی ہیں ، کسی کو زیادہ رزق دینے کے معنی لازما یہی نہیں ہیں کہ اللہ اس سے بہت خوش ہے اور اسے انعام دے رہا ہے ۔ بسا اوقات ایک شخص اللہ کا نہایت مغضوب ہوتا ہے مگر وہ اسے بڑی دولت عطا کرتا چلا جاتا ہے ، یہاں تک کہ آخر کار یہی دولت اس کے اوپر اللہ کا سخت عذاب لے آتی ہے ، اس کے برعکس کسی کا رزق تنگ ہے تو اس کے معنی لازما یہی نہیں ہیں کہ اللہ تعالی اس سے ناراض ہے اور اسے سزا دے رہا ہے ۔ اکثر نیک لوگوں پر تنگی اس کے باوجود رہتی ہے کہ وہ اللہ کے محبوب ہوتے ہیں ، بلکہ بارہا یہی تنگی ان کے لیے خدا کی رحمت ہوتی ہے ، اس حقیقت کو نہ سمجھنے ہی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی ان لوگوں کی خوشحالی کو رشک کی نگاہ سے دیکھتا ہے جو دراصل خدا کے غضب کے مستحق ہوتے ہیں ۔ سورة القصص حاشیہ نمبر : 102 یعنی ہمیں یہ غلط فہمی تھی کہ دنیوی خوشحالی اور دولت مندی ہی فلاح ہے ، اسی وجہ سے ہم سمجھے بیٹھے تھے کہ قارون بڑی فلاح پارہا ہے ۔ مگر اب پتہ چلا کہ حقیقی فلاح کسی اور ہی چیز کا نام ہے اور وہ کافروں کو نصیب نہیں ہوتی ۔ قارون کے قصے کا یہ سبق آموز پہلو صرف قرآن ہی میں بیان ہوا ہے ۔ بائیبل اور تلمود دونوں میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہے ، البتہ ان دونوں کتابوں میں جو تفصیلات بیان ہوئی ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل جب مصر سے نکلے تو یہ شخص بھی اپنی پارٹی سمیت ان کے ساتھ نکلا ، اور پھر اس نے حضرت موسی و ہارون کے خلاف ایک سازش کی جس میں ڈھائی سو آدمی شامل تھے ۔ آخر اللہ کا غضب اس پر نازل ہوا اور یہ اپنے گھر بار اور مال اسباب سمیت زمین میں دھنس گیا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(28:81) اصبح افعال ناقصہ سے ہے اصباح (افعال) سے ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ وہ ہوگیا۔ اس نے صبح کی۔ اس کو صبح ہوئی۔ وہ (کرتے، کہنے) لگا۔ تمنوا۔ ماضی جمع مذکر غائب انہوں نے آرزو کی۔ انہوں نے تمنا کی تمنی تفعل سے جس کے معنی دل میں کسی خیال کے دل میں باندھنے اور اس کی تصویر کھینچ لینے کے ہیں۔ تمنی کا لفظ اکثر دل میں غلط آرزوئیں قائم کرلینے پر بولا جاتا ہے۔ منی مادہ۔ مکانہ۔ مضاف مضاف الیہ اس کی جگہ (یعنی اس جیسا ہونا) ۔ امس کل گزشتہ۔ ظرف زمان ہے۔ ابھی کل تک ، ای منذ زمان قریب۔ تھوڑا عرصہ قبل۔ مطلب یہ کہ وہ لوگ جو کل تک اس جیسا ہونے کی آرزو کرتے تھے وہ اب کہنے لگے۔ ویکان۔ یہ کلمہ تعجب و زجر ہے۔ مرکب ہےوی (جو تعجب پر دلالت کرتا ہے) ک ضمیر خطاب اور ان حرف مشبہ بالفعل سے۔ بمعنی تعجب ہے کہ) خبردار کہ۔ کسائی کا قول ہے کہ ویک حرف تندم (نادم ہونا) اور تعجب ہے۔ اس کی اصل ویلک ہے۔ اے۔ تو مرے۔ (اور ان حروف مشبہ بالفعل سے) تومرے اصل بات یہ ہے۔ اکثر علماء کے نزدیک ویکان ایک کلمہ ہے جس کا معنی بقول مجاہد الم یعلم (کیا وہ نہیں جانتا) ہے بقول قتادہ الم یروا (کیا انہوں نے نہیں دیکھا۔ اور بقول ابن عباس (رض) الم تر (کیا تو نہیں دیکھتا) ہے۔ یقدر۔ مضارع واحد مذکر غائب۔ قدر مصدر۔ (باب ضرب) وہ تنگ کرتا ہے ۔ لولا۔ اگر نہ ان من اللہ علینا۔ میں ان مصدریہ ہے من ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب من مصدر۔ (باب نصر) اس نے احسان کیا۔ اگر اللہ کا ہم پر احسان نہ ہوتا (جملہ شرطیہ) لخسف بنا۔ جواب شرط ہے۔ اور لام تاکید ہے۔ تو وہ ہم کو بھی دھنسا دیتا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے کسی کو رزق زیادہ دینے کا مطلب لازماً یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے خوش ہے۔ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ کسی کا رزق تنگ کرتا ہے تو اس کا مطلب لازماً یہ نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہے۔ بسا اوقات بےپناہ دولت انسان کی تباہی کا موجب بن جاتی ہے اور بسا اوقات تنگی انسان کے صبر و شکر کا امتحان لینے کے لئے آتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ مال تو اللہ تعالیٰ اپنے محبوب اور مبغوض دونوں کو دے دیتا ہے مگر ایمان کی دولت اسی کو نصیب ہوتی ہے جو اللہ کا محبوب ہوتا ہے۔ (ابن کثیر) 4 ۔ یعنی ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ دنیا کی خوشحالی اور دولت مندی ہی بڑی کامیابی ہے اور اس بنا پر ہم قارون کو بڑا بانصیب آدمی خیال کرتے تھے۔ لیکن اب معلوم ہوا کہ ہمارا یہ سمجھنا غلط تھا۔ اصل کامیابی اور حقیقی فلاح کچھ اور ہی ہے جو کافروں کو نصیب نہیں ہوتی بلکہ صرف اہل ایمان کے حصہ میں آتی ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

5۔ گو چند روزہ مزے لوٹ لیں مگر انجام پھر خسران ہے، پس فلاح معتد بہ اہل ایمان ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

” صبر کرنیوالوں کی جزاء حساب و کتاب کے بغیر جنت کا داخلہ ہے۔ “ حضرت عمر (رض) فرمایا کرتے تھے وہ شخض زندگی کے حقائق سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔ جس میں صبر و استقامت کا فقدان ہو۔ (سیرت عمر فاروق (رض) (قُلْ آمَنْتُ باللّٰہِ ثُمَّ اسْتَقِمْ ) [ رواہ البخاری : کتاب الایمان ] ” اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرو اور پھر اس پہ ڈٹ جاؤ۔ “ تفسیر بالقرآن صبر کا مفہوم اور اس کا صلہ : ١۔ جو لوگ صبر اور نیک عمل کرتے ہیں ان کے لیے مغفرت اور اجرعظیم ہے۔ (ہود : ١١) ٢۔ صبربڑے کاموں میں سے ایک کام ہے۔ (الاحقاف : ٣٥) ٣۔ صبر کرنے والوں کا انجام بہترین ہوتا ہے۔ (الحجرات : ٥) ٤۔ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٥٣) ٥۔ صبر کرنے والے کامیاب ہوں گے۔ (المومنون : ١١١) ٦۔ صبر کرنے والے بغیرحساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔ (الزمر : ١٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

واصبح الذین تمترا مکانہ ۔۔۔۔۔۔ لا یفلح الکفرون (82) اب یہ لوگ اس بات پر اللہ کی حمد و ثنا کر رہے ہیں کہ اللہ نے ان کی دعا قبول نہ کی۔ اور ان کو وہ دولت نہ دی جس کی وہ تمنا کرتے تھے اور جو دولت قارون کو دی گئی وہ ان کو نہ دی گئی۔ ورنہ ان کی حالت بھی وہ ہوجاتی جو چوبیس گھنٹوں میں قارون کی ہوگئی۔ ان کو اب ہوش آیا کہ دولت اس بات کی علامت اور دلیل نہیں ہے کہ دولت مند پر اللہ کا فضل ہے اور اللہ اس سے راضی ہے بلکہ اللہ اپنے بندوں میں سے کسی کو کم رزق دیتا ہے اور کسی کو زیادہ دیتا ہے یہ اس لیے نہیں ہے کہ اللہ ان سے راضی ہے یا ناراض ہے۔ رزق کی فراہمی کے اسباب اور ہیں۔ اگر وافر رزق اللہ کی رضا مندی کی دلیل ہوتا تو قارون اللہ کی اس شدید گرفت اور پکڑ میں نہ آتا ایسے ضعیف الاعتقاد لوگوں کو اب معلوم ہوا کہ کافر کبھی فلاح نہیں پاتے۔ قارون کے بارے میں قرآن نے کلمہ کفر نقل نہیں کیا گیا۔ البتہ مال و دولت پر غرور کرنا اور یہ سوچ رکھنا کہ یہ دولت اس نے خود اپنے علم و حکمت کے زور سے کمائی ہے ، یہ بھی ایک قسم کا کفر ہے اور اس کا انجام ایس اہوا جو کافرون کا ہوتا ہے یعنی مکمل تباہی اور ہلاکت۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

77:۔ کل جن لوگوں نے قارون کی شان و شوکت دیکھ کر اس جیسی دولت اور شان کی تمنا کی تھی اب وہ اپنی باتوں پر ندامت کا اظہار کرنے لگے اور کہا دولت کی فراخی اور تنگی اللہ کے اختیار میں ہے وہ جسے چاہے دولتمند بنائے اور جسے چاہے تنگدست کرے اور اس کی حکمتیں بھی وہی جانتا ہے۔ اللہ کا شکر اور احسان ہے کہ اس نے ہمیں اس قدر دولت نہیں دی ورنہ ہم بھی قارون کی طرح سرکش اور خدا کے نافرمان اور باغی ہوجاتے اور ہمارا بھی وہی حشر ہوتا جو قارون کا ہوا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

82۔ اور کل گزشتہ جو لوگ اس جیسا ہونے کی تمنا کررہے تھے اور اس کا درجہ حاصل کرنے کی خواہش کر رہے تھے وہ کہنے لگے ارے خرابی کی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کے لئے چاہتا روزی کو فراخ کردیتا ہے اور جس کے لئے چاہتا ہے اس کو نپی تلی روزی دیتا اور روزی کی تنگی اور کمی کردیتا ہے اگر اللہ تعالیٰ ہم پر احسان اور مہربانی نہ فرماتا تو ہم کو بھی دھنسا دیتا افسوس واقعی بات تو یہ ہے کہ نا سپاسوں اور منکروں کو فلاح نصیب نہیں ہوا کرتی ۔ یعنی جو لوگ اپنی نادانی سے کل تک یلیت لنا مثل ما اوتی قارون کہہ رہے تھے آج قارون کا حشردیکھ کر صبح صبح تعجب سے کہنے لگے بس جی معلوم ہوگیا روزی کی فراخی اور بندوں میں کسی پر تنگی یہ نصیب اور بدنصیب کی علامت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اسکی تکوینی مصلحت پر موقوف ہے ہمارا خیال غلط تھا کہ قارون بڑا نصیبے والا ہے غرق ہوجانے کے بعد معلوم ہوا بڑا بدنصیب تھا اور بس جی یہ معلوم ہوا کہ نافرمان اور نا سپاسوں کو فلاح نصیب نہیں ہوتی ہماری غربت اور تنگدستی نے ہم کو بچایا نہ معلوم ہم مالدار بن جاتے تو کیسے ثابت ہوتے اگر ہم کفران نعمت کے مرتکب ہوتے تو شاید ہمارا حشر بھی قارون جیسا ہوتا اور ہم کو بھی اللہ تعالیٰ زمین میں دھنسا دیتا آگے نیک بندوں کے انجام کا ذکر ہے۔