Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 24

سورة العنكبوت

فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوۡمِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوا اقۡتُلُوۡہُ اَوۡ حَرِّقُوۡہُ فَاَنۡجٰىہُ اللّٰہُ مِنَ النَّارِ ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ ﴿۲۴﴾

And the answer of Abraham's people was not but that they said, "Kill him or burn him," but Allah saved him from the fire. Indeed in that are signs for a people who believe.

ان کی قوم کا جواب بجز اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ کہنے لگے کہ اس اسےمار ڈالو یا اسے جلا دو ۔ آخر اللہ نے انہیں آگ سے بچا لیا اس میں ایمان والوں لوگوں کے لئے تو بہت سی نشانیاں ہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Response of Ibrahim's People -- and how Allah controlled the Fire Allah says: فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهِ ... So nothing was the answer of people, Allah tells us how Ibrahim's people stubbornly and arrogantly disbelieved, and how they resisted the truth with falsehood. After Ibrahim addressed them with his words of clear guidance, ... إِلاَّ أَن قَالُوا اقْتُلُوهُ أَوْ حَرِّقُوهُ ... except that they said: "Kill him or burn him." This was because proof had clearly been established against them, so they resorted to using their power and strength. قَالُواْ ابْنُواْ لَهُ بُنْيَـناً فَأَلْقُوهُ فِى الْجَحِيمِ فَأَرَادُواْ بِهِ كَيْداً فَجَعَلْنَـهُمُ الاٌّسْفَلِينَ They said: "Build for him a building and throw him into the blazing fire!" So they plotted a plot against him, but We made them the lowest. (37:97-98) They spent a long time gathering a huge amount of firewood, they built a fence around it, then they set it ablaze until its flames reached up to the sky. No greater fire had ever been lit. Then they went to Ibrahim, seized him and put him into a catapult, then they threw him into the fire. But Allah made it cool and safe for him, and after spending several days in it, he emerged unscathed. For this reason and others, Allah made him an Imam for mankind, for he offered himself to the Most Merciful, he offered his body to the flames, he offered his son as a sacrifice, and he gave his wealth to care for his guests. For all of these reasons he is beloved by the followers of all religions. ... فَأَنجَاهُ اللَّهُ مِنَ النَّارِ ... Then Allah saved him from the fire. means, He rescued him from it by making it cool and safe for him. ... إِنَّ فِي ذَلِكَ لاَيَاتٍ لِّقَوْمٍ يُوْمِنُونَ Verily, in this are indeed signs for a people who believe. Ibrahim, peace be upon him, explains to his people that idols are incapable of doing anything,

عقلی اور نقلی دلائل حضرت ابراہیم کا یہ عقلی اور نقلی دلائل کا وعظ بھی ان لوگوں کے دلوں پر اثر نہ کرسکا اور انہوں نے یہاں بھی اپنی اس شقاوت کا مظاہرہ کیا جواب تو دلیلوں کا دے نہیں سکتے تھے لہذا اپنی قوت سے حق کو دبانے لگے اور اپنی طاقت سے سچ کو روکنے لگے کہنے لگے ایک گڑھا کھودو اس میں آگ بھڑکاؤ اور اس آگ میں اسے ڈال دو کہ جل جائے ۔ لیکن اللہ نے ان کے اس مکر کو انہی پر لوٹا دیا مدتوں تک لکڑیاں جمع کرتے رہیں اور ایک گڑھا کھود کر اس کے اردگرد احاطے کی دیواریں کھڑی کرکے لکڑیوں میں آگ لگادی جب اس کے شعلے آسمان تک پہنچنے لگے اور اتنی زور کی آگ روشن ہوئی کہ زمین پر کہیں اتنی آگ نہیں دیکھی گئی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پکڑ کر باندھ کر منجنیق میں ڈال کر جھلاکر اس آگ میں ڈال دیا لیکن اللہ نے اسے اپنے خلیل علیہ السلام پر باغ وبہار بنادیا آپ کئی دن کے بعد صحیح سلامت اس میں سے نکل آئے ۔ یہ اور اس جیسی قربانیاں تھیں جن کے باعث آپ کو امامت کا منصب عطا ہوا ۔ اپنا نفس آپ نے رحمان کے لئے اپنا جسم آپ نے میزان کے لئے اپنی اولاد آپ نے قربان کے لئے اپنا مال آپ نے فیضان کے لئے کردیا ۔ یہی وجہ ہے کہ دنیاکے کل ادیان والے آپ سے محبت رکھتے ہیں ۔ اللہ نے آگ کو آپ کے لئے باغ بنادیا اس واقعہ میں ایمانداروں کے لئے قدرت الٰہی کی بہت سی نشانیاں ہیں ۔ آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ جن بتوں کو تم نے معبود بنا رکھاہے یہ تمہارا ایکا اور اتفاق دنیا تک ہی ہے ۔ مودۃ زبر کے ساتھ مفعول لہ ہے ۔ ایک قرأت میں پیش کے ساتھ بھی ہے یعنی تمہاری یہ بت پرستی تمہاری لئے گو دنیا کی محبت حاصل کرادے ۔ لیکن قیامت کے دن معاملہ برعکس ہوجائے گا مودۃ کی جگہ نفرت اور اتفاق کے بدلے اختلاف ہوجائے گا ۔ ایک دوسرے سے جھگڑوگے ایک دوسرے پر الزام رکھوگے ایک دوسرے پرلعنتیں بھیجوگے ۔ ہر گروہ دوسرے گروپ پر پھٹکار برسائے گا ۔ سب دوست دشمن بن جائیں گے ہاں پرہیزگار نیک کار آج بھی ایک دوسرے کے خیر خواہ اور دوست رہیں گے ۔ کفار سب کے سب میدان قیامت کی ٹھوکریں کھا کھا کر بالآخر جہنم میں جائیں گے ۔ گو اتنا بھی نہ ہوگا کہ ان کی کسی طرح مدد کرسکے ۔ حدیث میں ہے تمام اگلے پچھلوں کو اللہ تعالیٰ ایک میدان میں جمع کرے گا ۔ کون جان سکتا ہے کہ دونوں سمت میں کس طرف ؟ حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہمشیرہ ہیں جواب دیا کہ اللہ اور اس کارسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی زیادہ علم والا ہے ۔ پھر ایک منادی عرش تلے سے آواز دے گا کہ اے موحدو! بت توحید والے اپنا سر اٹھائیں گے پھر یہی آواز لگائے گا پھر سہ بارہ یہی پکارے گا اور کہے اللہ تعالیٰ نے تمہاری تمام لغزشوں سے درگزر فرمالیا ۔ اب لوگ کھڑے ہونگے اور آپ کی ناچاقیوں اور لین دین کا مطالبہ کرنے لگیں گے تو اللہ وحدہ لاشریک لہ کی طرف سے آواز دی جائے گی کہ اے اہل توحید تم تو آپس میں ایک دوسرے کو معاف کردو تمہیں اللہ بدل دے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

241ان آیات سے قبل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قصہ بیان ہو رہا تھا، اب پھر اس کا بقیہ بیان کیا جا رہا ہے، درمیان میں جملہ معترضہ کے طور پر اللہ کی توحید اور اس کی قدرت و طاقت کو بیان کیا گیا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ سب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے وعظ کا حصہ ہے۔ جس میں انہوں نے توحید و معاد کے اثبات میں دلائل دیئے ہیں، جن کا کوئی جواب جب ان کی قوم سے نہیں بنا تو انہوں نے اس کا جواب ظلم و تشدد کی اس کاروائی سے دیا، جس کا ذکر اس آیت میں ہے کہ اسے قتل کردو یا جلا ڈالو۔ چناچہ انہوں نے آگ کا ایک بہت بڑا الاؤ تیار کر کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو منجنیق کے ذریعے سے اس میں پھینک دیا۔ 242یعنی اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو گلزار کی صورت میں بدل کر اپنے بندے کو بچا لیا۔ جیسا کہ سورة انبیاء میں گزرا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٣٦] حضرت ابراہیم کے حالات کے درمیان آیت نمبر ١٩ سے لے کر آیت نمبر ٢٣ تک اللہ تعالیٰ کا اپنا کلام ہے۔ جس میں ربط مضمون کی نسبت سے توحید اور آخرت پر کچھ دلائل پیش کرنے کے بعد اب پھر حضرت ابراہیم کے حالات کی طرف غور کیا جارہا ہے۔ حضرت ابراہیم کے دلائل توحید کا جب قوم ابراہیم سے کوئی جواب بن نہ پڑا تو وہ اوچھے ہتھیاروں پر اتر ائے اور یہی باطل پرستوں کی عادت ہوتی ہے۔ یہاں حضرت ابراہیم کے ان کے بتوں کو توڑنے پھوڑنے کا واقعہ حذف کردیا گیا ہے۔ حضرت ابراہیم نے یہ کام اس لئے کیا تھا کہ قوم پر عملی طور پر واضح کرسکیں کہ ان کے معبود بالکل ناکارہ چیزیں ہیں جو اپنی حفاظت اور اپنے آپ سے نقصان کو دور نہیں کرسکتے وہ دوسروں کی مشکل کشائی کیسے کرسکتے ہیں۔ اسی مشاہداتی دلیل نے ان لوگوں کو اور بھی زیادہ مشتعل اور سیخ پا بنادیا۔ آخر انہوں نے یہ مشورہ کیا کہ ابراہیم کو مار ہی ڈالو اور اگر ایسا نہ کرو تو اسے آگ میں جلا ڈالو۔ آگ میں جلانے کے مشورہ میں بھی دو پہول ہیں۔ ایک یہ کہ یہ اسے دکھ دینے والا آگ کا عذاب دے کر مارنا چاہئے۔ دوسرے یہ کہ شاید یہ کہ آگ کا عذاب دیکھ کر اپنی باتوں سے باز رہنے کا عہد کرلے۔ بہرحال ان لوگوں نے لمبا چوڑا آگ کا الاؤ تیار کیا اور حضرت ابراہیم کو اس آگ میں پھینک دیا۔ [ ٣٧] لیکن اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم دیا کہ وہ حضرت ابراہیم کے حق میں ٹھنڈی اور غیر مضر بن جائے۔ چناچہ ابراہیم اس آگ میں اس طرح رہے جیسے کوئی شخص باغ اور گلزار میں رہتا ہے۔ اور اس میں نشانیاں یہ ہیں : (١) ہر چیز کی کچھ طبیعی خواص ہیں اور یہ خواص اللہ تعالیٰ نے ہی ہر چیز میں ودیعت کر رکھے ہیں۔ (٢) ان خواص میں اللہ تعالیٰ جب چاہے تبدیلی لاسکتا ہے۔ اگرچہ ایسا شاذ و نادر ہی ہوتا ہے تاہم اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ کہ اگر اللہ چاہے تو بعض اشیاء کے طبیعی خواص سلب بھی کرسکتا ہے اور ان میں تبدیلی بھی لاسکتا ہے۔ (٣) اللہ کے بندوں کو اللہ کی مدد پہنچتی ضرور ہے۔ مگر پہلے انھیں ابتلا کے دور سے گزارا جاتا ہے اور ایسی خرق عادت مدد صرف اس وقت آتی ہے جب اس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔ اس واقعہ پر منکرین معجزات کی تاویل اور اس کا جواب سورة انبیاء کے حاشیہ نمبر ٥٨ کے تحت ملاحظہ فرمائیے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِهٖٓ اِلَّا اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْهُ اَوْ حَرِّقُوْهُ : ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کے لوگ توحید اور آخرت کے متعلق ان کے دلائل کا جواب نہ دے سکے تو تشدد پر اتر آئے اور باطل پرستوں کا یہی شیوہ ہوتا ہے، ان کے پاس دلیل کا جواب دلیل نہیں ہوتا، بلکہ یہ ہوتا ہے کہ مار دو ، جلا دو ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کا ان کے بتوں کو توڑنے کا واقعہ حذف کردیا ہے۔ وہ واقعہ بھی بتوں کے باطل ہونے کی عملی دلیل تھا، جب وہ علمی اور عملی دلائل کے مقابلے میں لاجواب ہوگئے تو سب نے اتفاق کے ساتھ انھیں ختم کرنے کا فیصلہ کیا، تاہم اس میں اختلاف تھا کہ انھیں ختم کرنے کا طریقہ کیا ہو، تو وہ آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ اسے قتل کر دو یا جلا دو ۔ آخری فیصلہ یہی ہوا کہ اسے عبرت ناک طریقے سے جلا دو ، کیوں کہ وہ انھیں زیادہ سے زیادہ اذیت پہنچانا چاہتے تھے۔ اس کے لیے انھوں نے باقاعدہ ایک عمارت بنا کر اسے ایندھن سے بھر کر آگ سے جلا دینے کا اہتمام کیا، جیسا کہ فرمایا : (قَالُوا ابْنُوْا لَهٗ بُنْيَانًا فَاَلْقُوْهُ فِي الْجَــحِيْمِ ) [ الصافات : ٩٧ ] ” انھوں نے کہا اس کے لیے ایک عمارت بناؤ، پھر اسے بھڑکتی ہوئی آگے میں پھینک دو ۔ “ فَاَنْجٰىهُ اللّٰهُ مِنَ النَّارِ : اس جملے سے یہ بات خود بخود واضح ہو رہی ہے کہ ان لوگوں نے آخر کار ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینک دیا۔ یہاں صرف اتنا بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں آگ سے بچا لیا، مگر دوسری جگہ صراحت کے ساتھ فرمایا : (قُلْنَا يٰنَارُكُـوْنِيْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ ) [ الأنبیاء : ٦٩ ] ” ہم نے کہا اے آگ ! ابراہیم پر سراسر ٹھنڈک اور سلامتی بن جا۔ “ ظاہر ہے اگر انھیں آگ میں پھینکا ہی نہ گیا ہوتا تو آگ کو یہ حکم دینے کا کوئی مطلب نہیں تھا، نہ یہ بتانے کی ضرورت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں آگ سے بچا لیا۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ : ان نشانیوں میں سے سب سے پہلی نشانی تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی آزمائش ضرور کرتا ہے اور جو جتنا مقرب ہو آزمائش اتنی ہی سخت ہوتی ہے۔ اس واقعہ ہی کو دیکھ لیجیے، اللہ تعالیٰ کے لیے کچھ مشکل نہ تھا کہ وہ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کو ان پر ہاتھ ڈالنے ہی نہ دیتا، جیسا کہ موسیٰ (علیہ السلام) سے فرمایا : (فَلَا يَصِلُوْنَ اِلَيْكُمَا ) [ القصص : ٣٥ ] ” کہ یہ لوگ تم دونوں تک نہیں پہنچیں گے۔ “ اور یہ بھی ممکن تھا کہ ان کی قوم میں سے ان کا کوئی ہمدرد کھڑا کردیتا، جیسا کہ ہمارے رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے ابوطالب کو کھڑا کردیا، جس نے مشرک ہونے کے باوجود کہا ؂ وَاللّٰہِ لَنْ یَّصِلُوْا إِلَیْکَ بِجَمْعِہِمْ حَتّٰی أُوَسَّدَ فِي التُّرَابِ دَفِیْنَا ” اللہ کی قسم ! یہ لوگ اپنی جماعت کے ساتھ بھی تم تک نہیں پہنچیں گے، حتیٰ کہ مجھے مٹی میں دفن کردیا جائے۔ “ مگر اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے دنیا کا کوئی سبب یا ذریعہ نہیں رہنے دیا جس کے ساتھ وہ آگ میں جلنے سے بچ جائیں۔ یہاں آزمائش اور امتحان میں ابراہیم (علیہ السلام) کی کمال کامیابی ظاہر ہوتی ہے کہ دنیا کا ہر سہارا ختم ہونے اور شعلے مارتی ہوئی آگ سامنے دیکھنے کے باوجود انھوں نے نہ اللہ کی توحید کا دامن چھوڑا، نہ قوم کے سامنے جھکے، نہ کسی غیر کو پکارا، زبان سے نکلا تو یہی نکلا : ( حَسْبِيَ اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ ) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ( الذین قال لھم الناس۔۔ ) : ٤٥٦٤ ] ” مجھے اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے۔ “ دوسری نشانی یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کا صدق آزما لیا تو آگ کو ان کے لیے برد وسلام بنادیا، حالانکہ اس کا کام ہی جلانا ہے اور دنیا کے تمام ظاہری اسباب ختم ہونے کے باوجود کلمہ کن (کونی بردا وسلم ا) کے ساتھ انھیں بچا لیا۔ تیسری نشانی یہ کہ جس اللہ نے دنیا کی تمام چیزوں میں مختلف خاصیتیں رکھی ہیں، وہ اپنے خاص بندوں کے لیے ان میں ان کے الٹ خاصیتیں پیدا کردیتا ہے۔ پانی کا کام بہنا ہے، وہ اللہ کے حکم سے موسیٰ (علیہ السلام) اور بنی اسرائیل کی نجات کے لیے الگ الگ پہاڑوں کی شکل میں کھڑا ہوگیا۔ آگ کا کام جلانا ہے لیکن اللہ کے حکم سے وہ ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے گلزار بن گئی۔ چوتھی نشانی یہ کہ وہی مشرکین جنھوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو پکڑا، باندھا اور آگ میں پھینک دیا، آگ سے نکلنے کے بعد انھیں ذرہ برابر نقصان نہ پہنچا سکے، حالانکہ کچھ مشکل نہ تھا کہ وہ انھیں قید کردیتے یا قتل کردیتے، مگر یہ اللہ تعالیٰ کا زبردست ہاتھ تھا جس کے زیر حفاظت وہ ان کا بال بیکا نہ کرسکے۔ پانچویں نشانی یہ کہ اتنا بڑا معجزہ دیکھنے کے باوجود ان کی قوم کے لوگ کفر پر اڑے رہے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جب کوئی قوم انکار پر اڑ جاتی ہے تو بڑے سے بڑا معجزہ بھی انھیں نفع نہیں دیتا۔ اس سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا سچ ہونا ثابت ہوا : (اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ) [ البقرۃ : ٦ ] ” بیشک جن لوگوں نے کفر کیا ان پر برابر ہے، خواہ تو نے انھیں ڈرایا ہو یا انھیں نہ ڈرایا ہو، ایمان نہیں لائیں گے۔ “ اور دیکھیے سورة انعام (١١١) اسی لیے فرمایا کہ اس واقعہ میں ان لوگوں کے لیے بہت سے نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے ہیں۔ ” لقوم یومنون “ میں لام انتفاع کا ہے، یعنی ان نشانیوں سے فائدہ ایمان والے ہی اٹھاتے ہیں، ایمان سے محروم لوگوں کو ان سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر سو (ابراہیم (علیہ السلام) کی اس تقریر دلپذیر کے بعد) ان کی قوم کا (آخری) جواب بس یہ تھا کہ (آپس میں) کہنے لگے کہ ان کو یا تو قتل کر ڈالو یا ان کو جلا دو (چنانچہ جلانے کا سامان کیا) سو اللہ نے ان کو اس آگ سے بچا لیا (جس کا قصہ سورة انبیاء میں گذر چکا ہے) بیشک اس واقعہ میں ان لوگوں کے لئے جو کہ ایمان رکھتے ہیں کئی نشانیاں ہیں (یعنی یہ واقعہ کئی چیزوں کی دلیل ہے اللہ کا قادر ہونا، ابراہیم (علیہ السلام) کا نبی ہونا، کفر و شرک کا باطل ہونا اس لئے یہ ایک ہی دلیل متعدد دلائل کے قائم مقام ہوگئی) اور ابراہیم (علیہ السلام) نے (وعظ میں یہ بھی) فرمایا کہ تم نے جو خدا کو چھوڑ کر بتوں کو (معبود) تجویز کر رکھا ہے، بس یہ تمہارے باہمی دنیا کے تعلقات کی وجہ سے ہے (چنانچہ مشاہدہ ہے کہ اکثر آدمی اپنے تعلقات اور دوستی اور رشتہ داروں کے طریقہ پر رہتا ہے اور اس وجہ سے حق بات میں غور نہیں کرتا اور حق کو سمجھ کر بھی ڈرتا ہے کہ سب دوست اور رشتہ دار چھوٹ جاویں گے) پھر قیامت میں (تمہارا یہ حال ہوگا کہ) تم میں ایک دوسرے کا مخالف ہوجائے گا اور ایک دوسرے پر لعنت کرے گا (جیسا کہ سورة اعراف میں ہے لَّعَنَتْ اُخْتَهَا اور سورة سباء میں ہے يَرْجِــعُ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضِۨ الْقَوْلَ اور سورة بقرہ میں ہے اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِيْنَ اتُّبِعُوْا الخ خلاصہ یہ ہے کہ آج جن احباب و اقارب کی وجہ سے تم گمراہی کو اختیار کئے ہوئے ہو قیامت کے روز یہی احباب تمہارے دشمن بن جائیں گے اور (اگر تم اس بت پرستی سے باز نہ آئے تو) تمہارا ٹھکانا دوزخ ہوگا اور تمہا را کوئی حمایتی نہ ہوگا سو (اتنے وعظ پند پر بھی ان کی قوم نے نہ مانا) صرف لوط (علیہ السلام) نے ان کی تصدیق فرمائی اور ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں (تم لوگوں میں نہیں رہتا، بلکہ) اپنے پروردگار کی (بتلائی ہوئی جگہ کی) طرف ترک وطن کر کے چلا جاؤں گا بیشک وہ زبردست حکمت والا ہے (وہ میری حفاظت کرے گا اور مجھ کو اس کا ثمرہ دے گا) اور ہم نے (ہجرت کے بعد) ان کو اسحاق (بیٹا) اور یعقوب (پوتا) عنایت فرمایا اور ہم نے ان کی نسل میں نبوت اور کتاب (کے سلسلہ) کو قائم رکھا اور ہم نے ان کا صلہ ان کو دنیا میں بھی دیا اور آخرت میں بھی (بڑے درجہ کے) نیک بندوں میں ہوں گے (اس صلہ میں مراد قرب و قبول ہے، کقولہ تعالیٰ فی البقرة لَقَدِ اصْطَفَيْنٰهُ فِي الدُّنْيَا الخ)

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْہُ اَوْ حَرِّقُوْہُ فَاَنْجٰىہُ اللہُ مِنَ النَّارِ۝ ٠ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ۝ ٢٤ جوب والجواب يقال في مقابلة السؤال، والسؤال علی ضربین : طلب مقال، وجوابه المقال . وطلب نوال، وجوابه النّوال . فعلی الأول : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف/ 31] ، وعلی الثاني قوله : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس/ 89] ، أي : أعطیتما ما سألتما . ( ج و ب ) الجوب جواب کا لفظ سوال کے مقابلہ میں بھی استعمال ہوتا ہے اور سوال دو قسم پر ہے ( 1) گفتگو کا طلب کرنا اس کا جواب گفتگو ہی ہوتی ہے (2) طلب عطا یعنی خیرات طلب کرنا اس کا جواب یہ ہے کہ اسے خیرات دے دی جائے چناچہ اسی معنی کے اعتبار سے فرمایا : أَجِيبُوا داعِيَ اللَّهِ [ الأحقاف/ 31] خدا کی طرف سے بلانے والے کی باٹ قبول کرو ۔ اور جو شخص خدا کی طرف بلانے والے کی باٹ قبول نہ کرے ۔ اور دوسرے معنی کے اعتبار سے فرمایا : : قَدْ أُجِيبَتْ دَعْوَتُكُما فَاسْتَقِيما [يونس/ 89] ، کہ تمہاری دعا قبول کرلی گئی تو ہم ثابت قدم رہنا قوم والقَوْمُ : جماعة الرّجال في الأصل دون النّساء، ولذلک قال : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] ، ( ق و م ) قيام القوم۔ یہ اصل میں صرف مرودں کی جماعت پر بولا جاتا ہے جس میں عورتیں شامل نہ ہوں ۔ چناچہ فرمایا : ۔ لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الآية [ الحجرات/ 11] قتل أصل القَتْلِ : إزالة الروح عن الجسد کالموت، لکن إذا اعتبر بفعل المتولّي لذلک يقال : قَتْلٌ ، وإذا اعتبر بفوت الحیاة يقال : موت . قال تعالی: أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] ( ق ت ل ) القتل ( ن ) الموت کی طرح اس کے معنی بھی جسم سے روح کو زائل کرنے کے ہیں لیکن موت اور قتل میں فرق یہ ہے کہ اگر اس فعل کو سرا انجام دینے والے کا اعتبار کیا جائے تو اسے قتل کہا جاتا ہے اور اگر صرف روح کے فوت ہونے کا اعتبار کیا جائے تو اسے موت کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَإِنْ ماتَ أَوْ قُتِلَ [ آل عمران/ 144] حرق يقال : أَحْرَقَ كذا فاحترق، والحریق : النّار، وقال تعالی: وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج/ 22] ، وقال تعالی: فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة/ 266] ، وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء/ 68] ، لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه/ 97] ، و ( لنحرقنّه) قرئا معا، فَحَرْقُ الشیء :إيقاع حرارة في الشیء من غير لهيب، کحرق الثوب بالدّق ۔ ( ح ر ق ) احرق کذا ۔ کسی چیز کو جلانا ) احترق ( جلنا ) الحریق ( آگ) قرآن میں ہے :۔ وَذُوقُوا عَذابَ الْحَرِيقِ [ الحج/ 22] کہ عذاب ( آتش ) سوزاں کے مزے چکھتے رہو ۔ فَأَصابَها إِعْصارٌ فِيهِ نارٌ فَاحْتَرَقَتْ [ البقرة/ 266] تو ( ناگہاں ) اس باغ پر آگ کا بھرا ہوا بگولا چلے اور وہ جل ( کر راکھ کا ڈھیرہو ) جائے ۔ وقالُوا : حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا آلِهَتَكُمْ [ الأنبیاء/ 68] ( تب ) وہ کہنے لگے ۔۔۔۔ تو اس کو جلادو اور اپنے معبودوں کی مدد کرو ۔ لَنُحَرِّقَنَّهُ [ طه/ 97] ہم اسے جلا دیں گے ۔ ایک قرآت میں لنحرقنہ ہے ۔ پس حرق الشئ کے معنی کسی چیز میں بغیر اشتعال کے جلن پیدا کرنے کے ہیں جیسے دھوبی کے پٹخنے سے کپڑے کا پھٹ جانا ۔ نجو أصل النَّجَاء : الانفصالُ من الشیء، ومنه : نَجَا فلان من فلان وأَنْجَيْتُهُ ونَجَّيْتُهُ. قال تعالی: وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] ( ن ج و ) اصل میں نجاء کے معنی کسی چیز سے الگ ہونے کے ہیں ۔ اسی سے نجا فلان من فلان کا محاورہ ہے جس کے معنی نجات پانے کے ہیں اور انجیتہ ونجیتہ کے معنی نجات دینے کے چناچہ فرمایا : ۔ وَأَنْجَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا[ النمل/ 53] اور جو لوگ ایمان لائے۔ ان کو ہم نے نجات دی ۔ نار والنَّارُ تقال للهيب الذي يبدو للحاسّة، قال : أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] ، ( ن و ر ) نار اس شعلہ کو کہتے ہیں جو آنکھوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ أَفَرَأَيْتُمُ النَّارَ الَّتِي تُورُونَ [ الواقعة/ 71] بھلا دیکھو کہ جو آگ تم در خت سے نکالتے ہو ۔ الآية والآية : هي العلامة الظاهرة، وحقیقته لکل شيء ظاهر، وهو ملازم لشیء لا يظهر ظهوره، فمتی أدرک مدرک الظاهر منهما علم أنه أدرک الآخر الذي لم يدركه بذاته، إذ کان حكمهما سواء، وذلک ظاهر في المحسوسات والمعقولات، فمن علم ملازمة العلم للطریق المنهج ثم وجد العلم علم أنه وجد الطریق، وکذا إذا علم شيئا مصنوعا علم أنّه لا بدّ له من صانع . الایۃ ۔ اسی کے معنی علامت ظاہر ہ یعنی واضح علامت کے ہیں دراصل آیۃ ، ، ہر اس ظاہر شے کو کہتے ہیں جو دوسری ایسی شے کو لازم ہو جو اس کی طرح ظاہر نہ ہو مگر جب کوئی شخص اس ظاہر شے کا ادراک کرے گو اس دوسری ( اصل ) شے کا بذاتہ اس نے ادراک نہ کیا ہو مگر یقین کرلیاجائے کہ اس نے اصل شے کا بھی ادراک کرلیا کیونکہ دونوں کا حکم ایک ہے اور لزوم کا یہ سلسلہ محسوسات اور معقولات دونوں میں پایا جاتا ہے چناچہ کسی شخص کو معلوم ہو کہ فلاں راستے پر فلاں قسم کے نشانات ہیں اور پھر وہ نشان بھی مل جائے تو اسے یقین ہوجائیگا کہ اس نے راستہ پالیا ہے ۔ اسی طرح کسی مصنوع کے علم سے لامحالہ اس کے صانع کا علم ہوجاتا ہے ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٤) اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی توحید خداوندی کی دعوت کے بعد ان کی قوم کا بھی یہی جواب تھا کہ ان کو یا تو قتل کر ڈالویا ان کو آگ میں جلا دو لہذا اللہ تعالیٰ نے صحیح وسالم ان کو اس آگ سے بچا لیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کے ساتھ جو ہم نے معاملہ کیا اس میں ان حضرات کے لیے جو کہ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں بڑی نشانیاں ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

37 From here the discourse again turns to the story of the Prophet Abraham. 38 That is, they had no answer to the Prophet Abraham's rational arguments. The only answer they gave was: "Cut off the tongue that talks the truth and Iet not the person live, who points out our error and tells us to give it up. " The words, "Kill him or burn him", indicate that the whole crowd was unanimous that the Prophet Abraham should be put to death. However, they differed about the method. Some said that he should be killed, and others said that he should be burnt alive, so that no one in future should dare say the sort of the thing he said. 39 This sentence by itself shows that they had at last decided to burn the Prophet Abraham and he was cast into the fire. Here it has only been said that Allah saved him from the fire; but in Surah AI-Anbiyaa it has been elucidated that Allah commanded: "O fire! Be cool and become safe for Abraham!" (v. 69) Evidently, if he was not at aII cast into the fire, the Command to the fire to become cool and safe would be meaningless. This proves that properties of all things are dependent on Allah's Command and whenever He pleases He can change the property of anything He likes. Normally fire burns and every combustible thing catches tire. But this property of the tire is not of its own acquisition but given by God. And this property has in no way tied up God that He thay give no Command against it. He is the Master of His fire. He can command it any time to give up the property of burning. At any time He can turn a furnace into a bed of roses. But events contrary to the course of nature occur only rarely to serve some great purpose or cause. However, the usual phenomena to which we are accustomed in our daily lives, cannot be made an argument to say that Allah's power has been tied up with these, and nothing unusual can take place even by Allah's Command. >40 "Signs ... believe": Signs for the believers in this that the Prophet Abraham did not follow the religion of his family, community and country but Followed the true knowledge through which he came to know that shirk is falsehood and Tauhid the Reality; and in this that he went on exhorting his people to accept the Truth and to desist from falsehood in spite of their stubbornness and prejudices; and in this that he was even prepared to suffer the horrible punishment by the fire, but was not prepared to give up the Truth; and in this that Allah did not even spare the Prophet Abraham, His Friend, from the trials and tests; and in this that when the Prophet Abraham got successfully through the tests set by AIIah, then did come Allah's succour, and in such a miraculous way that the bonfire was turned cool for him!

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 37 یہاں سے پھر سلسلہ کلام حضرت ابراہیم کے قصے کی طرف مڑتا ہے ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 38 یعنی حضرت ابراہیم کے معقول دلائل کا کوئی جواب ان کے پاس نہ تھا ۔ ان کا جواب اگر تھا تو یہ کہ کاٹ دو اس زبان کو جو حق بات کہتی ہے اور جینے نہ دو اس شخص کو جو ہماری غلطی ہم پر واضح کرتا ہے اور ہمیں اس سے باز آنے کے لیے کہتا ہے ۔ قتل کردو یا جلا ڈالو کے الفاظ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ پورا مجمع اس بات پر متفق تھا کہ حضرت ابراہیم کو ہلاک کردیا جائے ، البتہ ہلاک کرنے کے طریقے میں اختلاف تھا ۔ کچھ لوگوں کی رائے یہ تھی کہ قتل کیا جائے ، اور کچھ کی رائے یہ تھی کہ زندہ جلا دیا جائے تاکہ ہر شخص کو عبرت حاصل ہو جسے آئندہ کبھی ہماری سرزمین میں حق گوئی کا جنون لاحق ہو ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 39 اس فقرے سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ ان لوگوں نے آخر کار حضرت ابراہیم کو جلانے کا فیصلہ کیا تھا اور وہ آگ میں پھینک دیے گئے تھے ۔ یہاں بات صرف اتنی کہی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو آگ سے بچا لیا ۔ لیکن سورہ الانبیاء میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ آگ اللہ تعالی کے حکم سے حضرت ابراہیم کے لیے ٹھنڈی اور غیر مضر ہوگئی: قُلْنَا يٰنَارُكُـوْنِيْ بَرْدًا وَّسَلٰمًا عَلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ ( آیت 69 ) ہم نے کہا اے آگ ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر ۔ ظاہر ہے کہ اگر ان کو آگ میں پھینکا ہی نہ گیا ہو تو آگ کو یہ حکم دینے کے کوئی معنی نہیں ہیں کہ تو ان پر ٹھنڈی ہو جا اور ان کے لیے سلامتی بن جا ۔ اس سے یہ بات صاف طور پر ثابت ہوتی ہے کہ تمام اشیاء کی خاصیتیں اللہ تعالی کے حکم پر مبنی ہیں ، اور وہ جس وقت جس چیز کی خاصیت کو چاہے بدل سکتا ہے ۔ معمول کے مطابق آگ کا عمل یہی ہے کہ وہ جلائے اور آتش پذیر چیز اس میں پڑ کر جل جائے ۔ لیکن آگ کا یہ معمول اس کا اپنا قائم کیا ہوا نہیں ہے بلکہ خدا کا قائم کیا ہوا ہے ۔ اور اس معمول نے خدا کو پابند نہیں کردیا ہے کہ وہ اس کے خلاف کوئی حکم نہ دے سکے ۔ وہ اپنی آگ کا مالک ہے ، کسی وقت بھی وہ اسے حکم دے سکتا ہے کہ وہ جلانے کا عمل چھوڑ دے ، کسی وقت بھی وہ اپنے ایک اشارے سے آتش کدے کو گلزار میں تبدیل کرسکتا ہے ۔ یہ غیر معمولی خرق عادت اس کے ہاں روز روز نہیں ہوتے ، کسی بڑی حکمت اور مصلحت کی خاطر ہی ہوتے ہیں ، لیکن معمولات کو جنہیں روز مرہ دیکھنے کے ہم خوگر ہیں ، اس بات کے لیے ہرگز دلیل نہیں ٹھہرایا جاسکتا کہ اللہ تعالی کی قدرت ان سے بندھ گئی ہے اور خلاف معمول کوئی واقعہ اللہ کے حکم سے بھی نہیں ہوسکتا ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 40

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

9: حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے واقعے کے لیے دیکھئے سورۂ انبیاء :51

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

٢٤۔ اوپر ایک جگہ یہ بات گزر چکی ہے کہ قرآن شریف میں جگہ جگہ پچھلے انبیا اور پچھلی امتوں کا ذکر جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ہر ایک مقام میں تاریخی ثبوت کے طور پر اللہ تعالیٰ کو ایک نئی بات لوگوں کے ذہن میں ان قصوں سے جمانی منظور ہوئی ہے چناچہ یہاں اوپر کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اسلام لانے کے بعد اللہ تعالیٰ لوگوں کو جانچتا ہے تاکہ جانچ کے وقت وہ صبر کریں اور اس صبر کے اجر میں اللہ تعالیٰ ان کو بڑے بڑے رتبے عقبیٰ میں عنایت فرماوے اب حضرت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) تک جانچ کے طور پر ان کی امت کے اچھے لوگوں کو یا خود انبیا کو طرح طرح کی تکلیفیں جو پہنچی تھیں ان کا ذکر اس لیے فرمایا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تسکین ہوجاوے اور پچھلے تاریخی حالات سے آپ کے ذہن میں یہ بات خوب اچھی طرح جم جاوے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں کچھ جانچ کے موقع جو پیش آرہے ہیں یہ کچھ نئی بات نہیں ہے بلکہ جب سے اللہ تعالیٰ کی شریعت کے احکام روئے زمین پر پہنچے ہیں اور سب سے پہلے صاحب شریعت نبی حضرت نوح (علیہ السلام) نے اللہ کے حکم سے اہل زمین کی ہدایت شروع کی ہے اسی وقت سے یہ عادت الٰہی جاری ہے کہ ہر نبی کی امت کی سرکشی کے سبب سے ان انبیاء ( علیہ السلام) کو یا امت کے اچھے لوگوں کو طرح طرح کی تکلیفیں رہیں اور وہ تکلیفیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان انبیا کے حق میں ایک جانچ اور آزمائش تھی۔ آزمائش کے زمانہ میں جو صبر وثابت قدمی ان انبیاء نے کی اس کا اجر اللہ تعالیٰ کی درگاہ سے ان کو عقبیٰ میں تو جدا ملے گا اور دنیا میں اللہ تعالیٰ نے ان کو خوش کیا کہ آزمائش کی مدت جو اللہ تعالیٰ کے حکم میں تھی اس مدت کے گزرنے کے ساتھ ہی اللہ کے رسولوں کا آخر بول بالا ہوا اور جتنے سرکش اور شریر لوگ ہر ایک نبی کی امت میں تھے وہ ایک دم میں غارت ہوگئے اللہ چاہتا تو وہ شریر لوگ شرارت ہی یا تو نہ کرتے تو شروع شرارت کے زمانہ میں ہلاک ہوجاتے لیکن جو کچھ پچھلے زمانہ میں ہوا اور نبی آخر الزمان کے زمانہ میں ہو رہا ہے اس میں یہی مصلحت الٰہی ہے کہ انبیاء کا رتبہ بلند ہو اور سرکشی کے سبب سے ایک زمانہ کے لوگوں کہ ہلاک ہوجانے کا حال سن کر دوسرے زمانہ کے لوگوں کو عبرت ہو چناچہ اس مصلحت الٰہی کے موافق ظہور ہوا کہ مدت آزمائش پوری ہوتے ہی وہ مکہ جہاں گلی گلی کفر اور شرک نظر آتا تھا جہاں کے کفر اور شرک کے سبب سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وہاں سے ہجرت کا حکم دیا تھا۔ اور جہاں سے ہجرت کرنا دین میں بڑا ثواب قرار پایا تھا وہی مکر ایسا دارالا من اور دارلاسلام ہوگیا کہ اور جگہ سے اہل اسلام وہاں ہجرت کر کے جانے لگے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے لوگوں کو قرآن شریف کے قصوں میں پچھلے زمانہ کے لوگوں کا حال سن کر وہ عبرت ہوئی کہ جن بستیوں میں ہزا رہا برس سے بت پرستی چلی آتی تھی کل تئیس ٢٣ برس کے زمانہ نزول قرآن شریف میں ان بستیوں کی گلی گلی اہل اسلام سے آباد ہوگئی جو لوگ دین محمدی کے دشمن تھے وہی دین محمدی کے حامی اور مددگار بن گئے غرض ہر کام کا وقت مقررہ آنے کی دیر ہے ہجرت سے پہلے تیرہ برس آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں رہے اور مسلمانوں کی تعداد سو سے زیادہ نہ بڑھی جب وقت مقررہ آگیا ہجرت کے دسویں سال حجۃ الوداع میں بعضے صحابہ (رض) کی روایت سے سوا لاکھ اور بعض روایتوں سے اس سے بھی زیادہ مسلمان مکہ میں موجود تھے حاصل مطلب اس آیت کا یہ ہے۔ کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم نے ابراہیم (علیہ السلام) کی باتیں سن کر ابراہیم (علیہ السلام) کے مار ڈالنے یا آگ میں جلا دینے کا ارادہ کیا اور جب ان لوگوں نے اپنے ارادہ کے موافق ابراہیم (علیہ السلام) کا ننگا کر کے آگ میں ڈالا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل کو اس آگ کے صدمہ سے بچا دیا جس کے سننے سے ایماندار لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بڑی نشانی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے نازک وقت میں اپنے خلیل کی کیسی مدد کی کہ آگ جیسی چیز میں جلانے کی تائیر باقی نہ رہی اور اللہ کے خلیل سے جن لوگوں نے اپنے بتوں کے توڑنے کا بدلہ لنام چاہا تھا وہ لوگ اپنے ارادہ میں کامیاب نہیں ہوئے اوپر گزر چکا ہے کہ پچھلے قصے قرآن شریف میں فقط قصوں کی طرح نہیں بلکہ تاریخی شہادت کے طور پر ذکر کئے جاتے ہیں اور اس ضرورت سے بعضے قصوں کو مختصر بھی کردیا جاتا ہے اس کی مثال ان آیتوں سے بھی سمجھ میں آسکتی ہے کہ یہاں جانچ کے بعد انبیاء کی مدد جو غیب سے کی جاتی ہے اس کا ذکر تھا اس لیے ابراہیم (علیہ السلام) کے آگ سے بچا دینے کا ذکر فرمایا جس سبب سے ان لوگوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا تھا وہ قصہ سورة انبیاء میں گزر چکا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) نے ان لوگوں کے بتوں کو توڑ ڈالا تھا صحیح بخاری مسلم کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) کی حدیث اوپر گزر چکی ہے کہ نمرود اور اس کے ساتھیوں نے ابراہیم (علیہ السلام) کو ننگا کر کے جو آگ میں ڈالا تھا اس جانچ کے صبر کے اجر میں قیامت کے دن سب سے پہلے ان کو کپڑے پہنائے جاویں گے اس حدیث کو آیت کی تفسیر میں یہ دخل ہے کہ آیت میں ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ سے بچا دینے کی دنیا کی مدد کا ذکر ہے اور حدیث ١ ؎ میں ابراہیم (علیہ السلام) کی اس مدد کا ذکر ہے کہ قیامت کے دن سب سے پہلے ان کو کپڑے پہنائے جاویں گے۔ (١ ؎ مشکوٰۃ باب الحشر )

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:24) فما کان جواب قومہ۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے کلام جو آیۃ 18 کے ساتھ ختم ہوا ۔ یہاں ان کی قوم کی طرف سے جواب بیان ہوتا ہے۔ فانجہ میں ف فصیحت کا ہے یعنی فالقوہ فی النار فانجہ اللہ منھا۔ یعنی انہوں نے اس کو آگ میں ڈالا۔ سو اللہ تعالیٰ نے اس کو آگ سے بچا لیا۔ (نیز ملاحظہ ہو ( آیات 21:68 تا 70) سورة الانبیائ)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

6 ۔ ” ان کو آگ میں ڈال دیا “ کی اگرچہ آیت میں تصریح نہیں ہے لیکن بعد کے جملہ ” اللہ تعالیٰ نے اس کو آگ سے بچا دیا “ سے خود بخود نکلتی ہے۔ باقی رہا آگ کا ٹھنڈا ہونا تو اس کی تصریح سورة انبیا کی اس آیت میں کردی گئی ہے : قلنا یا نارکونی بردا و سلاما علی ابرایم۔ (آیت :69) ہم نے کہا اے آگ ابراہیم ( علیہ السلام) کے لئے ٹھنڈک اور راحت بن جا۔ “ ظاہر ہے کہ اگر حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا ہی نہ گیا ہو تو آگ کو یہ حکم دینے کے کوئی معنی ہی نہیں ہیں اور نہ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں آگ سے بچا یا۔ 7 ۔ کہ کس طرح حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنے خاندان اور اپنی قوم کی مخالفت مول لی اور بڑی سے بڑی آزمائش کا سامنا کیا حتی کہ آگ میں ڈال دیئے گئے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر موقع پر ان کی مدد فرمائی اور آگ تک کو ان پر ٹھنڈک اور آرام بن جانے کا حکم دیا۔ (شوکانی وغیرہ)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن : آیت نمبر 24 تا 27 : اقتلوا (تم قتل کرو۔ تم مارو) حرقوا (جلاڈالو) ‘ انجی ( اس نے نجات دی) ‘ مودۃ (دوستی۔ محبت) یلعن ( وہ لعنت کرتا ہے) ‘ ماوی ( ٹھکانا) ‘ مھاجر ( ہجرت کرنے والا) وھبنا (ہم نے دیا) ۔ تشریح : آیت نمبر 24 تا 27 : ان آیات سے پہلے حضرت ابراہیم خلیل اللہ (علیہ السلام) کا ذکر کیا جارہا تھا کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پوری قوم کے سامنے ان کے بتوں کی بےبسی اور کمزوریوں کو ظاہر کرکے ان کو خالص توحید کی دعوت دی تو چاروں طرف ایک شورمچ گیا۔ اور قوم نے کہنا شروع کیا کہ ابراہیم کو یا تو قتل کردینا جائے یا آگ میں جلا کر بھسم کردیا جائے چونکہ ان کے پاس کوئی دلیل تو موجود نہ تھی اس لئے انہوں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں جلاکر خاک کردینے کا فیصلہ کرکے اس کی زبردست تیاریاں شروع کردیں اور لکڑیاں جمع کرکے ان میں آگ لگادی جب آگ کے شعلے بلند ہوگئے تو انہوں نے کسی ذریعہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ کی طرف اچھال دیا تاکہ وہ آگ کے درمیانی حصے میں گریں اور بچ نہ سکیں۔ مگر اللہ نے آگ کو حکم دیا کہ اے آگ ابراہیم (علیہ السلام) پر سلامتی کے ساتھ ٹھنڈی ہوجا۔ چنانچ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکا گیا تو وہ آگ ایک ایسا آرام دہ باغیچہ بن گئی جس میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہایت سکون و اطمینان سے سات دن تک رہے۔ نمرود اور اسکی قوم نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اتنی بڑی آگ میں ڈالے جانے کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا بچنا ممکن نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس آگ سے نجات عطا فرمائی اور ساری دنیا کو بتادیا کہ جس کی حفاظت اللہ کی طرف سے کی جاتی ہے اس کو کوئی شخص نقصان نہیں پہنچا سکتا یہ ایمان اور یقین رکھنے والوں کے لئے اللہ کی طرف سے ایک کھلی ہوئی نشانی ہے جس میں عبرت و نصیحت کے بیشمار پہلو موجود ہیں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ لوگو ! تم نے جو بھی اپنے معبود بنارکھے ہیں ان کا مقصد محض دنیا کے وقتی فائدے ‘ میل جول اور اتحاد کو قائم رکھنا ہے۔ فرمایا کہ یہ پر فریب اتحاد و اتفاق تمہارے کب تک کام آئے گا۔ آخر کار موت کے ساتھ ہی جب ہر شخص کو اللہ کی بار گاہ میں حاضر ہونا ہے اس وقت جب ساری حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی تو یہ وقتی اتحاد و اتفاق ‘ دوستیاں ‘ رشتہ داریاں اور تعلقات اس طرح دشمنی میں بدل جائیں گے کہ ہر ایک دوسرے کو برا بھلاکہتے ہوئے ایک دوسرے کو لعنت ملامت کرتا نظر آئے گا۔ جب ان کو برے اعمال کی وجہ سے جہنم کی بھڑکتی آگ میں جھونکا جائے گا اس وقت ان کا نام نہاد اتفاق و اتحاد ان کے کام نہ آسکے گا۔ اس وقت انکے جھوٹے معبود ان کے کسی کام نہ آسکیں گے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی مسلسل تبلیغ اور جدوجہد کے نتیجے میں ان کے بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اطاعت کی تصدیق کی اور ان کی مکمل اطاعت و پیروی اختیار فرمائی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس اتنے بڑے واقعہ کے بعد اپنی بیوی حضرت سارہ اور اپنے بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) کو لے کر عراق سے فلسطین کی طرف ہجرت فرماگئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے اٹھارہ سال کے بعد ان کو حضرت اسحاق (علیہ السلام) جیسے لائق فرزند اور حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے حضرت یعقوب (علیہ السلام) جیسے پوتے کو ایک نعمت کے طور پر عطا فرمایا۔ حضرت یعقوب (علیہ السلام) جن کا لقب اسرائیل تھا ان سے بنی اسرائیل کا سلسلہ شروع ہوا اور اس طرح ان کے گھرانے میں نبوت و رسالت کی عظمتیں قائم ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں یہ عظیم اجر عطا فرما اور آخرت میں تو وہ صالحین میں سے ہوں گے۔ اس طرح نبوت و رسالت کا سلسلہ قائم ہوا اور آخر میں حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد میں سے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آخری نبی اور رسول بنا بھیجا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دن رات کی جدوجہد اور اللہ کے فضل و کرم سے ان کی اولاد میں سیکڑوں بلکہ بعض روایات کے مطابق ہزاروں پیغمبر تشریف لائے اور اس طرح آپ کی اولاد کے ذریعہ اللہ کا دین ساری دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گیا۔ ان آیات کے سلسلہ میں چند باتیں عرض ہیں۔ (1) ساری دنیا مل کر بھی اگر کسی کو نقصان پہنچانا چاہے تو اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ البتہ اگر اللہ ہی چاہے تو پھر اس کو ساری دنیا مل کر بھی بچا نہیں سکتی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس کائنات میں صرف ایک اللہ کی طاقت و قوت ہے اس کے سوا کسی کے پاس نہ طاقت و قوت ہے اور نہ ہیبت و جلال۔ (2) وہ اتحاد و اتفاق جس کا مقصد محض دنیاوی مفادات ‘ تعلقات اور دوستیوں کو قائم کرنا ہے اور اتحاد صرف اسی دنیا تک محدودرہتا ہے۔ آخرت میں یہ اتحاد نہ آئے گا بلکہ ہر شخص ایک دوسرے کو لعنت ملامت کرے گا کہ جب وہ گمراہی کے راستے پر چل رہا تھا تو اس کو اس حرکت سے کو یں نہ روکا گیا۔ لیکن ایسے لوگ آخر کار جہنم کا ایندھن بن جائیں گے۔ اس کے بر خلاف جس اتحاد و اتفاق کی بنیاد اللہ کی رضا و خوشنودی اور اسکے احکامات کی اطاعت ہوگی وہ اتحاد صرف اس دنیا ہی میں نہیں بلکہ آخرت میں بھی کام آئے گا۔ (3) جو لوگ اللہ کے دین کی سربلندی کی جدوجہد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو دنیا میں بھی عزت و سربلندی عطا فرماتا ہے اور آخرت کی تمام بھلائیاں بھی ان ہی لوگوں کے لئے مخصوص ہوتی ہیں۔ (4) اللہ کے راستے میں ہجرت کرنا سنت ابراہیمی ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے صحابہ کرام (رض) نے اسی سنت کو زندہ کرتے ہوئے اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے اپنے گھر بار کو چھوڑ کر دین اسلام کی سربلندی کی کوششیں فرمائیں۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یعنی یہ واقعہ کئی مدلول کی دلیل ہے اللہ کا قادر ہونا، ابراہیم (علیہ السلام) کا نبی ہونا، کفر و شکر کا باطل ہونا، پس دلیل و احد باعتبار تعدد مدلول کے بجائے متعدد دلائل کے ہوگئی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے جو خطاب کیا اس کا تذکرہ آیت سولہ اور سترہ میں ہوچکا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق ہونے کے دلائل دیے گئے جو لوگ عقیدہ توحید کا انکار کرتے ہیں ان کی سزا بیان کی گئی۔ یہ وضاحت بھی کردی گئی کہ کفار اپنے عقیدہ کی وجہ سے اپنے رب کی رحمت سے مایوس ہوچکے ہیں۔ اب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کا رد عمل بیان کیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت کے جواب میں قوم کا رد عمل تھا کہ ابراہیم (علیہ السلام) کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے جائیں یا پھر اسے آگ میں جلا دیا جائے۔ (قَالُوا حَرِّقُوْہُ وَانْصُرُوْا اٰلِہَتَکُمْ إِنْ کُنْتُمْ فَاعِلِیْنَ ) [ الانبیاء : ٦٨] ” اگر اپنے خداؤں کو بچانا چاہتے ہو تو اس کو زندہ جلا دو ۔ “ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی امن عامہ کے تحت گرفتاری : حکمرانوں نے نے فیصلہ کیا کہ امن عامہ کے تحت ابراہیم (علیہ السلام) گرفتار کرلیا جائے۔ چناچہ آپ کو دس دن تک جیل میں رکھا گیا اور پھر بادشاہ کی کونسل نے انہیں زندہ جلاد ینے کا فیصلہ کیا اس طرح عوام اور حکمران سب کے سب اس بات پر متفق ہوچکے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کو زندہ نہ چھوڑا جائے بلکہ عبرتناک سزا دی جائے۔ عوامی مطالبہ : (قَالُوا ابْنُوْا لَہُ بُنْیَانًا فَأَلْقُوْہُ فِی الْجَحِیْمِ )[ الصّٰفٰت : ٩٧] ” اس کے لیے ایک بڑا گہرا گڑھا بناؤ اور اس کو آگ سے بھر کر ابراہیم کو دہکتے ہوئے انگاروں میں پھینک دو ۔ “ شا ہی آرڈنینس کے تحت پوری مشینری آگ کو بھڑ کا نے میں لگی ہوئی ہے۔ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ لوگوں کے جذبات کا عالم یہ تھا کہ عورتیں نذریں ما نتی تھی۔ اگر فلاں مشکل یا بیماری رفع ہوجائے تو میں اتنی لکڑیاں آگ میں ڈالوں گی مؤ رخین نے تحریر کیا ہے کہ آج تک آگ کا اتنا بڑا الاؤ دیکھنے میں نہیں آیا۔ آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ آگ میں پھینکنے کا وقت آیا تو مسئلہ پیدا ہوا کہ اس قدر پھیلی ہوئی آگ میں ابراہیم کو کس طرح پھینکا جائے۔ شا ہی کو نسل کا ہنگامی اجلس طلب کیا جاتا ہے۔ زیر غور مسئلہ یہ ہے کہ ابر اہیمکو آگ میں کس طرح پھینکا جائے ؟ فیصلہ ہوتا ہے کہ ایسی مشین تیار کئی جائے جس میں جھو لادے کر آگ کے درمیان میں پھینکا جائے لہٰذا اس طرح کیا گیا تجویز دینے والے کو اللہ تعالیٰ نے اسی وقت زمین میں دھنسا دیا اور قیامت تک وہ زمین میں دھنستا جائے گا۔ (ابن کثیر ) مسائل ١۔ قوم نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینک دیا۔ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ سے بچالیا۔ تفسیر بالقرآن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت اور اس کا رد عمل : ١۔ حضرت ابراہیم نے اپنی قوم کو فرمایا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اور اسی سے ڈرو۔ (العنکبوت : ١٦) ٢۔ حضرت ابراہیم نے کہا اے میری قوم ! میں تمہارے شرک سے برأت کا اظہار کرتا ہوں۔ (الانعام : ٧٨ ) ٣۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے باپ کو تبلیغ کرتے ہوئے کہا اے ابا جان آپ ان کی عبادت کیوں کرتے ہیں جو نفع و نقصان کے مالک نہیں۔ (مریم : ٤٢) ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا مشرکوں کو چیلنج۔ (الممتحنۃ : ٤) ٥۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے خلاف انہوں نے سازش کی۔ اللہ نے انہیں خائب و خاسر کردیا۔ (الانبیاء : ٧٠) ٦۔ مشرکین نے ابراہیم (علیہ السلام) کے لیے آگ کا الاؤ جلایا اور انہیں آگ میں ڈال دیا۔ ( الصّٰفّٰت : ٩٧) ٧۔ ابراہیم (علیہ السلام) کے باپ نے کہا اگر تو باز نہ آیا تو تجھے سنگسار کر دوں گا تجھے گھر سے نکال دوں گا۔ ( مریم : ٤٦)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فما کان جواب ۔۔۔۔۔ لقوم یؤمنون (24) ” اسے قتل کر دو یا جلا ڈالو “ یہ اس سادہ اور قابل فہم دعوت کا جواب ہے جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پیش فرمائی۔ جو انہوں نے ان کی عقلوں کے سامنے نہایت ہی قابل فہم انداز میں پیش کی ہے جس طرح کوئی پیش کرتا ہے۔ جب کفر اور سرکشی کھل کر سامنے آگئی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پوزیشن یہ تھی کہ آپ اس ظلم اور سرکشی کا دفعیہ نہ کرسکتے تھے ، وہ ایک فرد تھے اور ان کا کوئی والی اور مددگار نہ تھا۔ ایک طرف عظیم قوت ہے ، دوسری جانب وہ اکیلے کھڑے ہیں۔ اس لیے ایسے حالات میں دست قدرت بھی کھل کر ان کا ساتھ دیتا ہے۔ ایک خارق عادت معجزہ نمودار ہوتا ہے۔ ایک ایسا معجزہ جو انسانوں نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ فانجہ اللہ من النار (29: 24) ” آخر کار اللہ نے اسے آگ سے بچا لیا “۔ جس انداز میں خارق عادت کے طور پر اللہ نے ان کو بچایا تھا۔ یہ ان لوگوں کے لیے ایک معجزہ تھا جو ایمان لانے والے تھے مگر اس کے باوجود اس قوم نے ایمان قبول نہ کیا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ طے کردیں کہ انہوں نے مان کر نہیں دینا ہے تو معجزات بھی ان کے لیے مفید نہیں رہتے۔ ہدایت اسے نصیب ہوتی ہے جو ایمان لانے کے لئے تیار ہو ، اسی لیے کہا جاتا ہے : ان فی ذلک لایت لقوم یومنون (29: 24) ” یقیناً اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو ایمان لانے والے ہیں “۔ پہلی نشانی تو یہ ہے کہ حضرت ابراہیم آگ سے نجات پاگئے۔ دوسری نشانی یہ ہے کہ کفر اور سرکشی اور حکومتی قوت ایک فرد واحد کو اذیت نہ دے سکی۔ تیسرا معجزہ یہ ہے کہ اگر اللہ کسی کو ہدایت نہ دینا چاہے تو معجزات بھی مفید نہیں رہتے۔ اور یہ نشانیاں ان لوگوں کے لیے ہیں جو دعوت اسلامی کی تاریخ پر غور و فکر کرتے ہیں اور یہ معلوم کرتے ہیں کہ دلوں کو پھیرنے والا کون ہے اور ہدایت و ضلالت کے اسباب کیا ہوتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کا جواب کہ ان کو قتل کر دو یا آگ میں جلا دو اوپر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت اور تبلیغ کا ذکر تھا درمیان میں کچھ تنبیہات آگئیں جو قرآن کریم کے مخاطبین سے متعلق ہیں، یہاں سے پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور ان کے مخالفین کا ذکر شروع ہوتا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی اور بت پرستی چھوڑنے کی تلقین کی تو ان کی قوم نے یہی کہا کہ ان کو مار ڈالو یا آگ میں جلا دو ، چناچہ قوم نے انہیں آگ میں ڈال دیا اور اللہ تعالیٰ نے آگ کو ٹھنڈی ہوجانے کا حکم دے دیا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ سے نجات دے دی، وہ آگ سے صحیح سالم نکل آئے، (اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ ) (بلاشبہ اس میں ایمان والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قوم کو سمجھانا کہ تم دنیاوی دوستی کی وجہ سے بت پرستی میں لگے ہو اور قیامت کے دن ایک دوسرے پر لعنت کرو گے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو اپنی قوم سے دعوت توحید کے سلسلہ میں باتیں کیں ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ تم لوگوں نے جو بتوں کو معبود بنا رکھا ہے اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تم لوگوں کی دیکھا دیکھی اس کام میں لگ گئے ہو، تم نے غورو فکر تو کیا ہی نہیں جس سے تم پر حق واضح ہوجاتا کہ بتوں کا پوجنا بہت بڑی حماقت ہے، تم نے تو یہ دیکھ لیا کہ ساری قوم ان کی پرستش کرتی ہے، اور باپ دادے ان کی پوجا کرتے چلے آتے ہیں، تمہاری دنیا والی دوستیاں ایک دوسرے کو جو کفر و شرک پر لگائے ہوئے ہیں، تم یہ سمجھتے ہو کہ توحید کو مانیں اور بتوں کو چھوڑیں تو قوم سے علیحدہ ہوجائیں گے، قوم ہم سے ناراض ہوجائے گی۔ صاحب روح المعانی (جلد ٢٠: ص ١٥٠) (مَّوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ ) کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں : المعنی ان مودۃ بعضکم بعضاھی التی دعتکم الی اتخاذھا بان رأیتم بعض من تو دونہ اتخذھا فاتخذتموھا موافقۃ لہ لمودتکم ایاہ، وھذا کما یری الانسان من یودہ یفعل شیئاً فیفعلہ مودۃ لہ۔ (اس آیت کا معنی یہ ہے کہ تمہاری ایک دوسرے سے محبت ہی ہے جس نے تمہیں بچھڑے کو معبود بنانے کی دعوت دی۔ اس طرح کہ تم نے اپنی محبت والے بعض لوگوں کو دیکھا کہ وہ بچھڑے کو پوج رہے ہیں تو تم نے بھی محبت کی وجہ سے ان کی موافقت میں بچھڑے کو معبود بنالیا۔ اور یہ ایسے ہے جیسے انسان اپنے کسی گہرے تعلق والے کو کوئی کام کرتے دیکھتا ہے تو وہ بھی اس کی محبت کی وجہ سے اسی کام کو کرنے لگتا ہے) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مزید فرمایا کہ دنیا میں تو تم دوست بنے ہوئے ہو، اور تمہاری یہ دوستی آپس میں ایک دوسرے سے بت پرستی کرانے کا سبب بنی ہوئی ہے لیکن قیامت کے دن تمہاری یہ دوستی دشمنی سے بدل جائے گی وہاں ایک دوسرے کے مخالف ہوجاؤ گے اور تم میں سے بعض پر لعنت کریں گے کیونکہ تم نے ایک دوسرے کو راہ حق سے روکا تھا، یہ لعن طعن آپس میں ہوگا اور سب ہی کو دوزخ میں جانا ہوگا اور وہاں تم میں سے کوئی کسی کا مددگار نہ ہوگا، یہاں شرک کرانے میں ایک دوسرے کے مددگار بنے ہوئے ہو لیکن وہاں کوئی کسی کی مدد نہ کرے گا۔ سورة اعراف میں فرمایا (کُلَّمَا دَخَلَتْ اُمَّۃٌ لَّعَنَتْ اُخْتَھَا) (جب کوئی جماعت دوزخ میں داخل ہوگی تو اپنی ساتھ والی جماعت پر لعنت کرے گی جو ان سے پہلے دوزخ میں داخل ہوچکی ہوگی) سورة ص میں فرمایا (قَالُوْا بَلْ اَنْتُمْ لاَ مَرْحَبًا بِکُمْ اَنْتُمْ قَدَّمْتُمُوْہُ لَنَا فَبِءْسَ الْقَرَارُ ) (یعنی دنیا میں جو لوگ اتباع تھے وہ اپنے متبوعین یعنی لیڈروں اور سرداروں سے کہیں گے تمہارے لیے کوئی مبارکباد نہیں تم نے کفر کو ہماری طرف بڑھایا اب یہ برا ٹھکانہ ہے جس میں ہمیں بھی ٹھہرنا ہے اور تمہیں بھی) جو حال اہل کفر کا ہے وہی اہل معاصی کا ہے، ایک دوسرے کو دنیا میں گناہوں پر ابھارتے ہیں، اپنے ساتھ لگاتے ہیں، اپنے پاس سے پیسے دے کر گناہ کراتے ہیں اور آخرت میں کوئی کسی کا یار و مددگار نہ ہوگا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

19:۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ناصحانہ تبلیغ کا جواب قوم نے یہ دیا کہ اسے قتل کر ڈالو یا اس سے بھی زیادہ عبرتناک ایذاء دو اور اسے آگ میں ڈال کر جلا دو ۔ فانجہ اللہ الخ مشرکین نے آخر انہیں آگ میں ڈال دیا لیکن اللہ نے ان کو آگ سے بچا کر صحیح سلامت باہر نکال لیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

24۔ پس ابراہیم (علیہ السلام) کی قوم کے پاس اس بہترین تقریر کے بعد اس کے سوا کوئی جواب نہ تھا کہ آپس میں کہنے لگے یا تو اس کو قتل کر ڈالو یا اسے جلا ڈالو ۔ حضرت حق تعالیٰ فرماتا ہے سو اللہ تعالیٰ نے اس ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ سے نجات دے دی اور آگ سے بچا لیا بلا شبہ اس واقعہ ابراہیمی میں ان لوگوں کے لئے بڑی بڑی نشانیاں ہیں جو ایمان رکھتے اور یقین لاتے ہیں ۔ اس آگ کی تفصیل سورة انبیاء میں گزرچکی ہے۔ آگ روشن کی گئی اللہ کے اولو العزم پیغمبر کو ڈال دیا مگر آگ اثر نہ کرسکی اور وہ زندہ سلامت آگ میں سے نکلے اور نمرود کی حکومت سے ہجرت فرمائی۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں اوپر سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا کلام چلا تھا اسی کے موافق اللہ تعالیٰ نے بیچ میں کئی باتیں فرمائیں پھر اس قوم کا جو ابذکر کیا نہ چلنے میں پتے یہ کہ معلوم ہوا ہر چیز کی تاثیر اس کے حکم سے ہے جب حکم نہ ہو تو آگ سی چیز نہ جلا سکے۔ 12 خلاصہ۔ یہ کہ بیچ میں توحید و قیامت کے اور دلائل بیان کئے گئے۔