The Faith of Lut and His Emigration with Ibrahim
Allah tells:
فَأمَنَ لَهُ لُوطٌ
...
So, Lut believed in him.
Allah tells us that Lut believed in Ibrahim.
It was said that he was the son of Ibrahim's brother, and that his name was Lut bin Haran bin Azar. None of Ibrahim's people believed in Ibrahim besides Lut and Sarah the wife of Ibrahim. But if it is asked how we may reconcile this Ayah with the Hadith narrated in the Sahih which says that when Ibrahim passed by that tyrant and he asked about Sarah and what her relationship was to him, Ibrahim said, "My sister."
Then he went to her and said, "I told him that you are my sister, so do not let him think I am lying, for there are no believers on earth except for you and I, and you are my sister in faith."
It seems -- and Allah knows best -- that the meaning here is, there is no other Muslim couple on earth apart from you and I.
Among his people, only Lut believed in him and migrated with him to Syria, then during Ibrahim's lifetime he was sent as a Messenger to the people of Sadum (Sodom) where he settled. We have already discussed their story and more is to come.
...
وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَى رَبِّي
...
He (Ibrahim) said: "I will emigrate for the sake of my Lord."
It may be that the pronoun in the verb "he said" refers to Lut, because he was the last person mentioned before this phrase; or it may refer to Ibrahim.
Ibn Abbas and Ad-Dahhak said that Ibrahim is the one who is referred in the phrase.
فَأمَنَ لَهُ لُوطٌ
...
So, Lut believed in him.
i.e., out of all his people.
...
وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَى رَبِّي
...
He said: "I will emigrate for the sake of my Lord.
Then Allah tells us that he chose to leave them so that he might be able to follow his religion openly. So he said:
...
إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
Verily, He is the All-Mighty, the All-Wise.
Power belongs to Him and to His Messenger and to those who believe in him, and He is Wise in all that He says and does, and in all His rulings and decrees, both universal and legislative.
Qatadah said,
"They migrated together from Kutha, which is on the outskirts of Kufa, and went to Syria."
Allah gave Ibrahim, Ishaq and Ya`qub, and ordained Prophethood in His Offspring.
حضرت لوط علیہ السلام اور حضرت سارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
کہاجاتا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابرہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے ۔ لوط بن ہارون بن آزر ۔ آپ کی ساری قوم میں سے ایک تو حضرت لوط ایمان لائے تھے اور ایک حضرت سارہ جو آپ کی بیوی تھی ایک روایت میں ہے کہ جب آپ کی بیوی صاحبہ کو اس ظالم بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کے ذریعہ اپنے پاس بلوایا تو حضرت ابراہیم نے کہا تھا کہ دیکھو میں نے اپنا رشتہ تم سے بھائی بہن کا بنایا ہے تم بھی یہی کہنا کیونکہ اس وقت دنیا پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں ہے تو ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ کوئی میاں بیوی ہمارے سوا ایماندار نہیں ۔ حضرت لوط آپ پر ایمان تو لائے مگر اسی وقت ہجرت کرکے شام چلے گئے تھے پھر اہل سدوم کی طرف نبی بناکر بھیج دئے گئے تھے جیسا کہ بیان گذرا اور آئے گا ۔ ہجرت کا ارادہ یا تو حضرت لوط علیہ السلام نے ظاہر فرمایا کیونکہ ضمیر کا مرجع اقرب تو یہی ہے ۔ یا حضرت ابراہیم نے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور ضحاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے ۔ تو گویا حضرت لوط علیہ السلام کے ایمان لانے کے بعد آپ نے اپنی قوم سے دست برداری کر لی اور اپنا ارادہ ظاہر کیا کہ اور کسی جگہ جاؤں شاید وہاں والے اللہ والے بن جائیں ۔ عزت اللہ کی اس کے رسول کی اور مومنوں کی ہے ۔ حکمت والے اقوال ، افعال ، تقدیر ، شریعت اللہ کی ہے ۔ قتادۃ فرماتے ہیں کہ آپ کوفے سے ہجرت کرکے شام کے ملک کی طرف گئے ۔ حدیث میں ہے کہ ہجرت کے بعد کی ہجرت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت گاہ کی طرف ہوگی ۔ اس وقت زمین پر بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے جنہیں زمین تھوک دے گی اور اللہ ان سے نفرت کرے گا انہیں آگ سورؤں اور بندروں کے ساتھ ہنکاتی پھرے گی ۔ راتوں کو دنوں کو انہی کیساتھ رہے گی ۔ اور ان کی جھڑن کھاتی رہے گی ۔ اور روایت میں ہے جو ان میں سے پیچھے رہ جائے گا اسے یہ آگ کھا جائے گی اور مشرق کی طرف سے کچھ لوگ میری امت میں ایسے نکلیں گے جو قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا ان کے خاتمے کے بعد دوسرا گروہ کھڑا ہوگا ۔ یہاں تک کہ آپ نے بیس سے بھی زیادہ بار اسے دہرایا ۔ یہاں تک کہ انہی کے آخری گروہ میں سے دجال نکلے گا ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کا بیان ہے کہ ایک زمانہ تو ہم پر وہ تھا کہ ہم ایک مسلمان بھائی کے لئے درہم ودینار کو کوئی چیز نہیں سمجھتے تھے اپنی دولت اپنے بھائی کی ہی سمجھتے تھے پھر وہ زمانہ آیا کہ دولت ہمیں اپنے مسلم بھائی سے زیادہ عزیز معلوم ہونے لگی ۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اگر تم بیلوں کی دموں کے پیچھے لگ جاؤگے اور تجارت میں مشغول ہوجاؤگے اور اللہ کی راہ کاجہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری گردنوں میں ذلت کے پٹے ڈال دے گا جو اس وقت تک تم سے الگ نہ ہونگے جب تک کہ تم پھر سے وہیں نہ آجاؤ جہاں تھے اور تم توبہ نہ کرلو ۔ پھر وہی حدیث بیان کی جو اوپر گزری اور فرمایا کہ میری امت میں ایسے لوگ ہونگے جو قرآں پڑھیں گے اور بدعملیاں کریں گے قرآن ان کے حلقوم سے نیچے نہیں اترے گا ۔ ان کے علم کو دیکھ کر تم اپنے علموں کو حقیر سمجھنے لگوگے ۔ وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے پس جب یہ لوگ ظاہر ہوں تو انہیں قتل کر دینا پھر نکلیں پھر مار ڈالنا پھر ظاہر ہوں پھر قتل کردینا ۔ وہ بھی خوش نصیب ہے جو ان کے ہاتھوں قتل کیا جائے اور وہ بھی خوش نصیب ہے جو انکو قتل کریں ۔ جب ان کے گروہ نکلیں گے اللہ انہیں برباد کردے گا پھر نکلیں گے پھر برباد ہوجائیں گے اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بیس مرتبہ بلکہ اس سے بھی زیادہ بار یہی فرمایا ۔ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو اسحاق علیہ السلام نامی بیٹا دیا اور اسحاق علیہ السلام کو یعقوب علیہ السلام نامی ۔ جیسے فرمان ہے کہ جب خلیل اللہ نے اپنی قوم کو اور ان کے معبودوں کو چھوڑ دیا تو اللہ نے آپ کو اسحاق اور یعقوب دیا اور ہر ایک کو نبی بنایا ۔ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ پوتا بھی آپ کی موجودگی میں ہوجائے گا اسحاق علیہ السلام بیٹے تھے اور یعقوب علیہ السلام پوتے تھے ۔ اور آیت میں ہے کہ ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی صاحبہ کو اسحق کی اور اسحاق علیہ السلام کے پیچھے یعقوب علیہ السلام کی بشارت دی ۔ اور فرمایا کہ قوم کو چھوڑنے کے بدلے اللہ تمہارے گھر کی بستی یہ دے گا ۔ جس سے تمہاری آنکھیں ٹھنڈی رہیں ۔ پس ثابت ہوا کی حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام کے فرزند تھے ۔ یہی سنت سے بھی ثابت ہے قرآن کی اور آیت میں ہے کہ تم اس وقت موجود تھے جب حضرت یعقوب علیہ السلام موت کا وقت آیا تو وہ اپنے لڑکوں سے کہنے لگے تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟ انہوں نے کہا آپ کی اور آپ کے والد ابراہیم علیہ السلام ، اسماعیل علیہ السلام ، اسحاق علیہ السلام کے والد کی جو یکتا ہے اور واحد لاشریک ہے بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کریم بن کریم بن کریم یوسف بن یعقوب علیہ السلام اسحاق علیہ السلام بن ابرہیم ہیں ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے جو مروی ہے کہ اسحاق ویعقوب حضرت ابراہیم کے فرزند تھے اس سے مراد فرزند کے فرزند کو فرزند کہہ دینا ۔ یہ نہیں کہ صلبی فرزند دونوں تھے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما تو کہا ہے کہ ادنی آدمی بھی ایسی ٹھوکر نہیں کھاسکتا ۔ ہم نے انہی کی اولاد میں کتاب ونبوۃ رکھ دی ۔ خلیل کا خطاب انہیں کو ملا انہیں کہا گیا پھر ان کے بعد انہی کی نسل میں نبوت وحکمت رہی بنی اسرائیل کے تمام انبیاء حضرت یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں ۔ حضرت عیسیٰ تک تو یہ سلسلہ یونوی چلا ۔ بنواسرائیل کے اس آخری پیغمبر نے اپنی امت کو صاف کہہ دیا کہ میں نے تمہیں نبی عربی قریشی ہاشمی خاتم الرسل سید اولاد آدم کی بشارت دیتا ہوں ۔ جنہیں اللہ نے چن لیا ہے آپ حضرت اسماعیل کی نسل میں سے تھے ۔ حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے آپ کے سوائے اور نبی نہیں ہوا ۔ علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم ۔ ہم نے انہیں دنیا کے ثواب بھی دئیے اور آخرت کی نیکیاں بھی عطا فرمائیں ۔ دنیا میں رزق وسیع ، جگہ پاک ، بیوی نیک ، سیرت جمیل اور ذکر حسن دیا ساری دنیا کے دلوں میں آپ کی محبت ڈال دی ۔ باوجودیکہ اپنی اطاعت کی توفیق روز بروز اور زیادہ دی ۔ کامل اطاعت گزاری کی توفیق کے ساتھ دنیاکی بھلائیاں بھی عطا فرمائیں ۔ اور آخرت میں بھی صالحین میں رکھا ۔ جیسے فرمان ہے ابراہیم مکمل فرماں بردار تھے موحد تھے مشرکوں میں سے نہ تھے آخرت میں بھلے لوگوں کا ساتھی ہوا ۔