Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 26

سورة العنكبوت

فَاٰمَنَ لَہٗ لُوۡطٌ ۘ وَ قَالَ اِنِّیۡ مُہَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیۡ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ﴿۲۶﴾

And Lot believed him. [Abraham] said, "Indeed, I will emigrate to [the service of] my Lord. Indeed, He is the Exalted in Might, the Wise."

پس حضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) پر حضرت لوط ( علیہ السلام ) ایمان لائے اور کہنے لگے کہ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں وہ بڑا ہی غالب اور حکیم ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Faith of Lut and His Emigration with Ibrahim Allah tells: فَأمَنَ لَهُ لُوطٌ ... So, Lut believed in him. Allah tells us that Lut believed in Ibrahim. It was said that he was the son of Ibrahim's brother, and that his name was Lut bin Haran bin Azar. None of Ibrahim's people believed in Ibrahim besides Lut and Sarah the wife of Ibrahim. But if it is asked how we may reconcile this Ayah with the Hadith narrated in the Sahih which says that when Ibrahim passed by that tyrant and he asked about Sarah and what her relationship was to him, Ibrahim said, "My sister." Then he went to her and said, "I told him that you are my sister, so do not let him think I am lying, for there are no believers on earth except for you and I, and you are my sister in faith." It seems -- and Allah knows best -- that the meaning here is, there is no other Muslim couple on earth apart from you and I. Among his people, only Lut believed in him and migrated with him to Syria, then during Ibrahim's lifetime he was sent as a Messenger to the people of Sadum (Sodom) where he settled. We have already discussed their story and more is to come. ... وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَى رَبِّي ... He (Ibrahim) said: "I will emigrate for the sake of my Lord." It may be that the pronoun in the verb "he said" refers to Lut, because he was the last person mentioned before this phrase; or it may refer to Ibrahim. Ibn Abbas and Ad-Dahhak said that Ibrahim is the one who is referred in the phrase. فَأمَنَ لَهُ لُوطٌ ... So, Lut believed in him. i.e., out of all his people. ... وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرٌ إِلَى رَبِّي ... He said: "I will emigrate for the sake of my Lord. Then Allah tells us that he chose to leave them so that he might be able to follow his religion openly. So he said: ... إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ Verily, He is the All-Mighty, the All-Wise. Power belongs to Him and to His Messenger and to those who believe in him, and He is Wise in all that He says and does, and in all His rulings and decrees, both universal and legislative. Qatadah said, "They migrated together from Kutha, which is on the outskirts of Kufa, and went to Syria." Allah gave Ibrahim, Ishaq and Ya`qub, and ordained Prophethood in His Offspring.

حضرت لوط علیہ السلام اور حضرت سارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہاجاتا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابرہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے ۔ لوط بن ہارون بن آزر ۔ آپ کی ساری قوم میں سے ایک تو حضرت لوط ایمان لائے تھے اور ایک حضرت سارہ جو آپ کی بیوی تھی ایک روایت میں ہے کہ جب آپ کی بیوی صاحبہ کو اس ظالم بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کے ذریعہ اپنے پاس بلوایا تو حضرت ابراہیم نے کہا تھا کہ دیکھو میں نے اپنا رشتہ تم سے بھائی بہن کا بنایا ہے تم بھی یہی کہنا کیونکہ اس وقت دنیا پر میرے اور تمہارے سوا کوئی مومن نہیں ہے تو ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ کوئی میاں بیوی ہمارے سوا ایماندار نہیں ۔ حضرت لوط آپ پر ایمان تو لائے مگر اسی وقت ہجرت کرکے شام چلے گئے تھے پھر اہل سدوم کی طرف نبی بناکر بھیج دئے گئے تھے جیسا کہ بیان گذرا اور آئے گا ۔ ہجرت کا ارادہ یا تو حضرت لوط علیہ السلام نے ظاہر فرمایا کیونکہ ضمیر کا مرجع اقرب تو یہی ہے ۔ یا حضرت ابراہیم نے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما اور ضحاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے ۔ تو گویا حضرت لوط علیہ السلام کے ایمان لانے کے بعد آپ نے اپنی قوم سے دست برداری کر لی اور اپنا ارادہ ظاہر کیا کہ اور کسی جگہ جاؤں شاید وہاں والے اللہ والے بن جائیں ۔ عزت اللہ کی اس کے رسول کی اور مومنوں کی ہے ۔ حکمت والے اقوال ، افعال ، تقدیر ، شریعت اللہ کی ہے ۔ قتادۃ فرماتے ہیں کہ آپ کوفے سے ہجرت کرکے شام کے ملک کی طرف گئے ۔ حدیث میں ہے کہ ہجرت کے بعد کی ہجرت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہجرت گاہ کی طرف ہوگی ۔ اس وقت زمین پر بدترین لوگ باقی رہ جائیں گے جنہیں زمین تھوک دے گی اور اللہ ان سے نفرت کرے گا انہیں آگ سورؤں اور بندروں کے ساتھ ہنکاتی پھرے گی ۔ راتوں کو دنوں کو انہی کیساتھ رہے گی ۔ اور ان کی جھڑن کھاتی رہے گی ۔ اور روایت میں ہے جو ان میں سے پیچھے رہ جائے گا اسے یہ آگ کھا جائے گی اور مشرق کی طرف سے کچھ لوگ میری امت میں ایسے نکلیں گے جو قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا ان کے خاتمے کے بعد دوسرا گروہ کھڑا ہوگا ۔ یہاں تک کہ آپ نے بیس سے بھی زیادہ بار اسے دہرایا ۔ یہاں تک کہ انہی کے آخری گروہ میں سے دجال نکلے گا ۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کا بیان ہے کہ ایک زمانہ تو ہم پر وہ تھا کہ ہم ایک مسلمان بھائی کے لئے درہم ودینار کو کوئی چیز نہیں سمجھتے تھے اپنی دولت اپنے بھائی کی ہی سمجھتے تھے پھر وہ زمانہ آیا کہ دولت ہمیں اپنے مسلم بھائی سے زیادہ عزیز معلوم ہونے لگی ۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اگر تم بیلوں کی دموں کے پیچھے لگ جاؤگے اور تجارت میں مشغول ہوجاؤگے اور اللہ کی راہ کاجہاد چھوڑ دو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری گردنوں میں ذلت کے پٹے ڈال دے گا جو اس وقت تک تم سے الگ نہ ہونگے جب تک کہ تم پھر سے وہیں نہ آجاؤ جہاں تھے اور تم توبہ نہ کرلو ۔ پھر وہی حدیث بیان کی جو اوپر گزری اور فرمایا کہ میری امت میں ایسے لوگ ہونگے جو قرآں پڑھیں گے اور بدعملیاں کریں گے قرآن ان کے حلقوم سے نیچے نہیں اترے گا ۔ ان کے علم کو دیکھ کر تم اپنے علموں کو حقیر سمجھنے لگوگے ۔ وہ اہل اسلام کو قتل کریں گے پس جب یہ لوگ ظاہر ہوں تو انہیں قتل کر دینا پھر نکلیں پھر مار ڈالنا پھر ظاہر ہوں پھر قتل کردینا ۔ وہ بھی خوش نصیب ہے جو ان کے ہاتھوں قتل کیا جائے اور وہ بھی خوش نصیب ہے جو انکو قتل کریں ۔ جب ان کے گروہ نکلیں گے اللہ انہیں برباد کردے گا پھر نکلیں گے پھر برباد ہوجائیں گے اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بیس مرتبہ بلکہ اس سے بھی زیادہ بار یہی فرمایا ۔ ہم نے ابراہیم علیہ السلام کو اسحاق علیہ السلام نامی بیٹا دیا اور اسحاق علیہ السلام کو یعقوب علیہ السلام نامی ۔ جیسے فرمان ہے کہ جب خلیل اللہ نے اپنی قوم کو اور ان کے معبودوں کو چھوڑ دیا تو اللہ نے آپ کو اسحاق اور یعقوب دیا اور ہر ایک کو نبی بنایا ۔ اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ پوتا بھی آپ کی موجودگی میں ہوجائے گا اسحاق علیہ السلام بیٹے تھے اور یعقوب علیہ السلام پوتے تھے ۔ اور آیت میں ہے کہ ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی صاحبہ کو اسحق کی اور اسحاق علیہ السلام کے پیچھے یعقوب علیہ السلام کی بشارت دی ۔ اور فرمایا کہ قوم کو چھوڑنے کے بدلے اللہ تمہارے گھر کی بستی یہ دے گا ۔ جس سے تمہاری آنکھیں ٹھنڈی رہیں ۔ پس ثابت ہوا کی حضرت یعقوب علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام کے فرزند تھے ۔ یہی سنت سے بھی ثابت ہے قرآن کی اور آیت میں ہے کہ تم اس وقت موجود تھے جب حضرت یعقوب علیہ السلام موت کا وقت آیا تو وہ اپنے لڑکوں سے کہنے لگے تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟ انہوں نے کہا آپ کی اور آپ کے والد ابراہیم علیہ السلام ، اسماعیل علیہ السلام ، اسحاق علیہ السلام کے والد کی جو یکتا ہے اور واحد لاشریک ہے بخاری ومسلم کی حدیث میں ہے کریم بن کریم بن کریم یوسف بن یعقوب علیہ السلام اسحاق علیہ السلام بن ابرہیم ہیں ۔ علیہم الصلوۃ والسلام ۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے جو مروی ہے کہ اسحاق ویعقوب حضرت ابراہیم کے فرزند تھے اس سے مراد فرزند کے فرزند کو فرزند کہہ دینا ۔ یہ نہیں کہ صلبی فرزند دونوں تھے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما تو کہا ہے کہ ادنی آدمی بھی ایسی ٹھوکر نہیں کھاسکتا ۔ ہم نے انہی کی اولاد میں کتاب ونبوۃ رکھ دی ۔ خلیل کا خطاب انہیں کو ملا انہیں کہا گیا پھر ان کے بعد انہی کی نسل میں نبوت وحکمت رہی بنی اسرائیل کے تمام انبیاء حضرت یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں ۔ حضرت عیسیٰ تک تو یہ سلسلہ یونوی چلا ۔ بنواسرائیل کے اس آخری پیغمبر نے اپنی امت کو صاف کہہ دیا کہ میں نے تمہیں نبی عربی قریشی ہاشمی خاتم الرسل سید اولاد آدم کی بشارت دیتا ہوں ۔ جنہیں اللہ نے چن لیا ہے آپ حضرت اسماعیل کی نسل میں سے تھے ۔ حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے آپ کے سوائے اور نبی نہیں ہوا ۔ علیہ افضل الصلوۃ والتسلیم ۔ ہم نے انہیں دنیا کے ثواب بھی دئیے اور آخرت کی نیکیاں بھی عطا فرمائیں ۔ دنیا میں رزق وسیع ، جگہ پاک ، بیوی نیک ، سیرت جمیل اور ذکر حسن دیا ساری دنیا کے دلوں میں آپ کی محبت ڈال دی ۔ باوجودیکہ اپنی اطاعت کی توفیق روز بروز اور زیادہ دی ۔ کامل اطاعت گزاری کی توفیق کے ساتھ دنیاکی بھلائیاں بھی عطا فرمائیں ۔ اور آخرت میں بھی صالحین میں رکھا ۔ جیسے فرمان ہے ابراہیم مکمل فرماں بردار تھے موحد تھے مشرکوں میں سے نہ تھے آخرت میں بھلے لوگوں کا ساتھی ہوا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

261حضرت لوط علیہ السلام، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے برادر زاد تھے، یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لائے، بعد میں ان کو بھی ' سدوم ' کے علاقے میں نبی بنا کر بھیجا گیا۔ 262یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اور بعض کے نزدیک حضرت لوط (علیہ السلام) نے، اور بعض کہتے ہیں دونوں نے ہجرت کی۔ یعنی جب ابراہیم (علیہ السلام) اور ان پر ایمان لانے والے لوط (علیہ السلام) کے لئے اپنے علاقے ' کو ٹی ' میں، جو حران کی طرف جاتے ہوئے کوفے کی ایک بستی تھی، اللہ کی عبادت کرنی مشکل ہوگئی تو وہاں سے ہجرت کر کے شام کے علاقے میں چلے گئے، تیسری، ان کے ساتھ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اہلیہ سارہ تھیں۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٤٠] حضرت لوط حضرت ابراہیم کے چچازادہ بھائی تھے۔ دونوں ہی عراق کے شہر بابل کے رہنے والے تھے۔ جب حضرت ابراہیم آگ کے امتحان سے صحیح سلامت باہر نکل آئے۔ اس وقت حضرت لوط نے ان پر ایمان لانے کا اعلان کیا۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حضرت لوط پہلے مشرک تھے۔ کیونکہ نبیوں کی نبوت سے پہلی زندگی بھی اللہ کی مہربانی سے ایسی نجاستوں سے پاک و صاف ہوتی ہے۔ انبیاء کے علاوہ اور بھی کئی ایسے آدمی ہوتے ہیں جو شرک سے بیزار قلب سلیم رکھتے ہیں مگر انھیں صحیح رہنمائی نہیں ملتی۔ دور نبوی میں بھی آپ کی نبوت سے پہلے ایسے چھ آدمی موجود تھے۔ [ ٤١] مفسرین کہتے ہیں کہ یہ ہجرت حضرت ابراہیم اور حضرت لوط دونوں نے مل کر کی تھی۔ اور یہ سفر ہجرت بابل سے فلسطین کی طرف تھا۔ اللہ کی حکمت اسی میں تھی کہ آپ وہاں چلے جائیں، اسی مقام پر حضرت لوط کو بھی نبوت ملی تو حضرت ابراہیم نے حضرت لوط کو سدوم کے علاقے کی طرف بھیج دیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ : ابراہیم (علیہ السلام) جب آگ سے صحیح سلامت باہر آئے اور انھوں نے یہ نصیحت کی تو لوط (علیہ السلام) فوراً ہی ان پر ایمان لے آئے اور ان کے تابع فرمان ہوگئے، ان کے سوا کوئی اور ان پر ایمان نہیں لایا۔ فوراً کا مفہوم ” فاء “ سے نکل رہا ہے۔ 3 یہاں ایک سوال ہے کہ عام طور پر ایمان لانے اور تصدیق کرنے کے لیے ” آمَنَ بِہِ “ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، ” آمَنَ لَہُ “ کا لفظ کسی کی بات کا اعتبار اور یقین کرنے کے معنی میں آتا ہے، جیسا کہ یوسف (علیہ السلام) کے بھائیوں نے کہا تھا : (وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صٰدِقِيْنَ ) [ یوسف : ١٧ ] ” اور تو ہرگز ہمارا اعتبار کرنے والا نہیں، خواہ ہم سچے ہوں۔ “ تو یہاں ” آمَنَ لَہُ “ لانے میں کیا حکمت ہے ؟ اس کا جواب اکثر مفسرین نے تو یہ دیا ہے کہ ایمان لانے اور تصدیق کرنے کے لیے ” امَنَ بِہِ “ اور ” آمَنَ لَہُ “ دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں، جیسا کہ جادوگروں کے ایمان لانے پر فرعون کا قول اللہ تعالیٰ نے بعض جگہ ” امنتم لہ “ نقل فرمایا ہے۔ (دیکھیے طٰہٰ : ٧١) اور بعض جگہ ” امنتم بہ “ (دیکھیے اعراف : ١٢٣) ۔ اس لیے ” آمَنَ بِہِ “ اور ” آمَنَ لَہُ “ کا مفہوم ایک ہی ہے۔ ابن جزی صاحب التسہیل نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہاں ” آمَنَ “ کے ضمن میں ” اِنْقَادَ “ (مطیع ہوگیا) کا مفہوم داخل ہے، اس لیے اس کا صلہ ” لَہُ “ آیا ہے، مطلب یہ ہے کہ ” تو اسی وقت لوط اس کے لیے تابع فرمان ہوگیا۔ “ مفسرین میں سے بعض نے لوط (علیہ السلام) کو ابراہیم کا بھانجا اور اکثر نے بھتیجا بیان کیا ہے، قابل یقین دلیل کسی نے بھی ذکر نہیں فرمائی، البتہ یہ بات ظاہر ہے کہ لوط (علیہ السلام) ان کی قوم اور ان کے شہر کے آدمی تھے۔ ۘ وَقَالَ اِنِّىْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّيْ ۔۔ : ابراہیم (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ اتنا بڑا معجزہ دیکھ کر بھی پوری قوم میں سے صرف ایک شخص ایمان لایا ہے تو ان سے ناامید ہو کر وہاں سے نکل پڑے، ان کے ساتھ ان کی بیوی سارہ اور لوط (علیہ السلام) بھی تھے، کچھ خبر نہ تھی کہاں جانا ہے، اپنا سب کچھ اللہ کے حوالے کرتے ہوئے کہنے لگے، میں تو وطن چھوڑ کر اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں۔ وہی سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے، وہی میری حفاظت کرے گا، مجھے غلبہ عطا کرے گا اور جہاں اس کی حکمت کا تقاضا ہوگا مجھے لے جائے گا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کی قوم سے نجات دلا کر اپنی حفاظت میں خیریت اور سلامتی کے ساتھ سرزمین شام میں پہنچا دیا، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا : (وَنَجَّيْنٰهُ وَلُوْطًا اِلَى الْاَرْضِ الَّتِيْ بٰرَكْنَا فِيْهَا لِلْعٰلَمِيْنَ ) [ الأنبیاء : ٧١] ” اور ہم نے اسے اور لوط کو اس سر زمین کی طرف نجات دی جس میں ہم نے جہانوں کے لیے برکت رکھی ہے۔ “ قرآن مجید میں ارض مبارک سے مراد شام کی زمین ہوتی ہے۔ (دیکھیے سورة بنی اسرائیل : ١) ان کے ہجرت کر جانے کے بعد قوم پر جو گزری اس کے لیے سورة انبیاء کی آیات (٧٤، ٧٥) کے حواشی دیکھیے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ ابراہیم (علیہ السلام) کی ہجرت کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتے کو نمرود اور اس کی قوم کی ہدایت کے لیے بھیجا، اس پر بھی جب یہ لوگ سرکشی سے باز نہ آئے تو ان پر مچھروں کا عذاب نازل ہوا۔ یہ مچھر ان لوگوں کا تو سب خون پی گئے، گوشت اور چربی سب کھا گئے، خالی ہڈیاں زمین پر گرپڑیں، مگر نمرود کے دماغ میں ایک مچھر چڑھ گیا جس کے سبب سے اس کے سر پر ایک مدت تک مار پڑتی رہی، اس ذلت کے بعد پھر وہ بھی ہلاک ہوگیا۔ طبری نے یہ بات تابعی زید بن اسلم کے قول سے نقل کی ہے، جس کا اسرائیلی روایت ہونا ظاہر ہے، اس لیے اس پر کسی صورت یقین نہیں کیا جاسکتا، نہ ہی اسے قرآن کی تفسیر میں بیان کیا جاسکتا ہے، کیونکہ ” لا ریب کتاب “ کی تفسیر بھی ” لا ریب “ ذریعے سے ثابت ہونا ضروری ہے۔ اس حکایت میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ہمارے کئی واعظ کئی سال تک اس مچھر کی وجہ سے نمرود کے سر پر جوتے مرواتے رہتے ہیں، حالانکہ مچھر بےچارے کی کل عمر چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہوتی۔ مسلمان واعظین کی عجائب پسندی نے اس بات کو ایک مسلّمہ حقیقت بنادیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary فَآمَنَ لَهُ لُوطٌ ۘ وَقَالَ إِنِّي مُهَاجِرٌ‌ إِلَىٰ رَ‌بِّي (So Lut believed in him and he (Ibrahim علیہ السلام) said, |"I am going to leave my homeland towards my Lord. - 29:2, 6). Sayyidna Lut (علیہ السلام) was the nephew of Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) . He was the very first one to accept faith after watching the miracle of Ibrahim (علیہ السلام) in the fire of Namrild. When Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) planned to migrate from his hometown, Kutha - a township of Kufah - along with his wife Sayyidah Sarah, who was his cousin and had accepted Islam, and Sayyidna Lut (علیہ السلام) he said إِنِّي مُهَاجِرٌ‌ إِلَىٰ رَ‌بِّي . That is ` I am going to leave my homeland toward my Lord& It meant that he wanted to go to some place where there was no obstacle in worshipping Allah. Ibrahim An-Nakha&i and Qatadah رحمۃ اللہ علیہما are of the opinion that this sentence was said by Sayyidna Ibrahim (علیہ السلام) ،

معارف و مسائل ڎفَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ ۘ وَقَالَ اِنِّىْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّيْ ، حضرت لوط (علیہ السلام) ابراہیم علیہ الصلوة والسلام کے بھانجے تھے، آتش نمرود میں ابراہیم (علیہ السلام) کا معجزہ دیکھ کر سب سے پہلے انہوں نے تصدیق کی۔ یہ اور آپ کی اہلیہ حضرت سارہ جو آپ کی چچا زاد بہن بھی تھیں اور مسلمان ہوچکی تھیں ان دونوں کو ساتھ لے کر ابراہیم (علیہ السلام) نے وطن سے ہجرت کا ارادہ کیا، ان کا وطن مقام کو ثا تھا، جو کوفہ کی ایک بستی ہے اور فرمایا اِنِّىْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّيْ ، یعنی میں وطن کو چھوڑ کر اپنے رب کی طرف جاتا ہوں۔ مراد یہ ہے کہ کسی ایسے مقام کی طرف جاؤں گا جہاں رب کی عبادت میں رکاوٹ نہ ہو۔ حضرت نخعی اور قتادہ نے اِنِّىْ مُهَاجِرٌ کا قائل حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو قرار دیا ہے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌ۝ ٠ ۘ وَقَالَ اِنِّىْ مُہَاجِرٌ اِلٰى رَبِّيْ۝ ٠ ۭ اِنَّہٗ ہُوَالْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ۝ ٢٦ لوط لُوطٌ: اسم علم، واشتقاقه من لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، وفي الحدیث : «الولد أَلْوَطُ- أي : ألصق۔ بالکبدوهذا أمر لا يَلْتَاطُ بصفري . أي : لا يلصق بقلبي، ولُطْتُ الحوض بالطّين لَوْطاً : ملطته به، وقولهم : لَوَّطَ فلان : إذا تعاطی فعل قوم لوط، فمن طریق الاشتقاق، فإنّه اشتقّ من لفظ لوط الناهي عن ذلک لا من لفظ المتعاطین له . ( ل و ط ) لوط ( حضرت لوط (علیہ السلام) ) یہ اسم علم ہے لَاطَ الشیء بقلبي يَلُوطُ لَوْطاً ولَيْطاً ، سے مشتق ہے جس کے معنی کسی چیز کی محبت دل میں جاگزیں اور پیوست ہوجانے کے ہیں ۔ حدیث میں ہے ۔ (115) الولد الوط بالکید ۔ کہ اولاد سے جگری محبت ہوتی ہے ۔ ھذا امر لایلتا ط بصفری ۔ یہ بات میرے دل کو نہیں بھاتی ۔ لطت الحوض بالطین لوطا ۔ میں نے حوض پر کہگل کی ۔ گارے سے پلستر کیا ۔۔۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے نام سے اشتقاق کرکے تولط فلان کا محاورہ ستعمال ہوتا ہے جس کے معنی خلاف فطرت فعل کرنا ہیں حالانکہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو اس فعل سے منع کرتے تھے اور اسے قوم لوط مشتق نہیں کیا گیا جو اس کا ارتکاب کرتے تھے ۔ هجر والمُهاجرَةُ في الأصل : مصارمة الغیر ومتارکته، من قوله عزّ وجلّ : وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] ، وقوله : لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] ، وقوله : وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] ، فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] فالظاهر منه الخروج من دار الکفر إلى دار الإيمان کمن هاجر من مكّة إلى المدینة، وقیل : مقتضی ذلك هجران الشّهوات والأخلاق الذّميمة والخطایا وترکها ورفضها، وقوله : إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] أي : تارک لقومي وذاهب إليه . ( ھ ج ر ) الھجر المھاجر ۃ کے اصل معنی تو ایک دوسرے سے کٹ جانے اور چھوڑ دینے کے ہیں جیسے فرمایا : ۔ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَهاجَرُوا وَجاهَدُوا[ الأنفال/ 74] خدا کے لئے وطن چھوڑ گئے اور ۃ کفار سے ) جنگ کرتے رہے ۔ اور آیات قرآنیہ : ۔ لِلْفُقَراءِ الْمُهاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيارِهِمْ وَأَمْوالِهِمْ [ الحشر/ 8] فے کے مال میں محتاج مہاجرین کا ( بھی ) حق ہے ۔ جو کافروں کے ظلم سے اپنے گھر اور مال سے بید خل کردیئے گئے ۔ وَمَنْ يَخْرُجْ مِنْ بَيْتِهِ مُهاجِراً إِلَى اللَّهِ [ النساء/ 100] اور جو شخص خدا اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر کے گھر سے نکل جائے ۔ فَلا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِياءَ حَتَّى يُهاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ [ النساء/ 89] تو جب تک یہ لوگ خدا کی راہ میں ( یعنی خدا کے لئے ) ہجرت نہ کر آئیں ان میں سے کسی کو بھی اپنا دوست نہ بنانا ۔ میں مہاجرت کے ظاہر معنی تو دار الکفر سے نکل کر وادلاسلام کی طرف چلے آنے کے ہیں جیسا کہ صحابہ کرام نے مکہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی تھی لیکن بعض نے کہا ہے کہ ہجرت کا حقیقی اقتضاء یہ ہے کہ انسان شہوات نفسانی اخلاق ذمیمہ اور دیگر گناہوں کو کلیۃ تر ک کردے اور آیت : ۔ إِنِّي مُهاجِرٌ إِلى رَبِّي [ العنکبوت/ 26] اور ابراہیم نے کہا کہ میں تو دیس چھوڑ کر اپنے پروردگاع کی طرف ( جہاں کہیں اس کو منظور ہوگا نکل جاؤ نگا ۔ کے معنی یہ ہیں کہ میں اپنی قوم کو خیر باد کہ کر اللہ تعالیٰ کی طرف چلا جاؤں گا ۔ رب الرَّبُّ في الأصل : التربية، وهو إنشاء الشیء حالا فحالا إلى حدّ التمام، يقال رَبَّهُ ، وربّاه ورَبَّبَهُ. وقیل : ( لأن يربّني رجل من قریش أحبّ إليّ من أن يربّني رجل من هوازن) فالرّبّ مصدر مستعار للفاعل، ولا يقال الرّبّ مطلقا إلا لله تعالیٰ المتکفّل بمصلحة الموجودات، نحو قوله : بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] ( ر ب ب ) الرب ( ن ) کے اصل معنی تربیت کرنا یعنی کس چیز کو تدریجا نشونما دے کر حد کمال تک پہنچانا کے ہیں اور ربہ ورباہ وربیہ تنیوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ کسی نے کہا ہے ۔ لان یربنی رجل من قریش احب الی من ان یربنی رجل من ھوازن ۔ کہ کسی قریشی کا سردار ہونا مجھے اس سے زیادہ عزیز ہے کہ بنی ہوازن کا کوئی آدمی مجھ پر حکمرانی کرے ۔ رب کا لفظ اصل میں مصدر ہے اور استعارۃ بمعنی فاعل استعمال ہوتا ہے اور مطلق ( یعنی اصافت اور لام تعریف سے خالی ) ہونے کی صورت میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ، جو جملہ موجودات کے مصالح کا کفیل ہے ، اور کسی پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا چناچہ ارشاد ہے :۔ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ [ سبأ/ 15] عمدہ شہر اور ( آخرت میں ) گنا ه بخشنے والا پروردگار ،۔ عزیز وَالعَزيزُ : الذي يقهر ولا يقهر . قال تعالی: إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] ( ع ز ز ) العزۃ العزیز وہ ہے جو غالب ہو اور مغلوب نہ ہو قرآن ، میں ہے : ۔ إِنَّهُ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ [ العنکبوت/ 26] بیشک وہ غالب حکمت والا ہے ۔ يا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنا [يوسف/ 88] اے عزیز میں اور ہمارے اہل و عیال کو بڑی تکلیف ہورہی ہے ۔ اعزہ ( افعال ) کے معنی کسی کو عزت بخشے کے ہیں ۔ ) حكيم والحِكْمَةُ : إصابة الحق بالعلم والعقل، فالحکمة من اللہ تعالی: معرفة الأشياء وإيجادها علی غاية الإحكام، ومن الإنسان : معرفة الموجودات وفعل الخیرات . وهذا هو الذي وصف به لقمان في قوله عزّ وجلّ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] ، ونبّه علی جملتها بما وصفه بها، فإذا قيل في اللہ تعالی: هو حَكِيم فمعناه بخلاف معناه إذا وصف به غيره، ومن هذا الوجه قال اللہ تعالی: أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] ، وإذا وصف به القرآن فلتضمنه الحکمة، نحو : الر تِلْكَ آياتُ الْكِتابِ الْحَكِيمِ [يونس/ 1] ( ح ک م ) الحکمتہ کے معنی علم وعقل کے ذریعہ حق بات دریافت کرلینے کے ہیں ۔ لہذا حکمت الہی کے معنی اشیاء کی معرفت اور پھر نہایت احکام کے ساتھ انکو موجود کرتا ہیں اور انسانی حکمت موجودات کی معرفت اور اچھے کو موں کو سرانجام دینے کا نام ہے چناچہ آیت کریمہ : وَلَقَدْ آتَيْنا لُقْمانَ الْحِكْمَةَ [ لقمان/ 12] اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی ۔ میں حکمت کے یہی معنی مراد ہیں جو کہ حضرت لقمان کو عطا کی گئی تھی ۔ لہزا جب اللہ تعالے کے متعلق حکیم کا لفظ بولاجاتا ہے تو اس سے وہ معنی مراد نہیں ہوتے جو کسی انسان کے حکیم ہونے کے ہوتے ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے متعلق فرمایا ہے ۔ أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحاكِمِينَ [ التین/ 8] کیا سب سے بڑا حاکم نہیں ہے ؟

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٦) چناچہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی صرف حضرت لوط (علیہ السلام) نے تصدیق کی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں تو اپنے پروردگار کی اطاعت کے لیے علیحدہ چلا جاؤں گا چناچہ وہ حران سے فلسطین کی طرف ہجرت کر گئے بیشک وہ ان کو سزا دینے میں زبردست ہے اور حکمت والا ہے کہ اس نے ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف دین کی حفاظت کی خاطر ہجرت کرنے کے کا حکم دیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٦ (فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌ ٧) ” حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔ (وَقَالَ اِنِّیْ مُہَاجِرٌ اِلٰی رَبِّیْط اِنَّہٗ ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ ) ” اس کے بعد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) عراق کو چھوڑ کر شام کی طرف ہجرت کر گئے۔ آپ ( علیہ السلام) کے پیچھے آپ ( علیہ السلام) کی قوم کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ؟ اس بارے میں قرآن سے ہمیں کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ واللہ اعلم !

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

44 The context shows that when the Prophet Abraham came out of the fire and spoke the preceding sentences, only Prophet Lot from the entire crowd came forward to proclaim his belief and adopt his obedience. It is just possible that many other people also on this occasion might have been convinced of the Prophet Abraham's being a true Prophet, but in view of the violent reaction that had been shown openly by the entire community and the government against Abraham's Faith, no one else could muster up courage to affirm faith in such a dangerous truth and follow it. This good fortune fell to the lot of only one man, the Prophet Lot, the nephew of the Prophet Abraham, who at last accompanied his uncle and aunt (Hadrat Sarah) in their migration also. Here, the question may arise: Was the Prophet Lot a disbeliever and a mushrik before this, and did he believe only after witnessing the miracle of the Prophet Abraham's emerging safe and sound from the fire? If it is so, can a person who has been a mushrikr be appointed to Prophethood? The answer is this: Here the Qur'an has used the words fa-amana la-hu Lut, which do not necessarily imply that the Prophet Lot disbelieved in God before this, or associated other deities with Him. They only show that after this he confirmed the Prophethood of the Prophet Abraham, and adopted his obedience. Possibly the Prophet Lot was a young boy then and this might be the first very occasion when he became acquainted with the teachings of his uncle and his Prophethood. 45 That is, "I shall leave my country for the sake of my Lord and go wherever my Lord may take me." 46 That is, "He possesses the power to help and protect me, and whatever He decides for me will be based on wisdom."

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 44 ترتیب کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم آگ سے نکل آئے اور انہوں نے اوپر کے فقرے ارشاد فرمائے اس وقت سارے مجمع میں صرف ایک حضرت لوط تھے جنہوں نے آگے بڑھ کر ان کو ماننے اور ان کی پیروی اختیار کرنے کا اعلان کیا ۔ ہوسکتا ہے کہ اس موقع پر دوسرے بہت سے لوگ بھی اپنے دل میں حضرت ابراہیم کی صداقت کے قائل ہوگئے ہوں ۔ لیکن پوری قوم اور سلطنت کی طرف سے دین ابراہیم کے خلاف جس غضب ناک جذبے کا اظہار اس وقت سب کی آنکھوں کے سامنے ہوا تھا اسے دیکھتے ہوئے کوئی دوسرا شخص ایسے خطرناک حق کو ماننے اور اس کا ساتھ دینے کی جرات نہ کرسکا ۔ یہ سعادت صرف ایک آدمی کے حصے میں آئی اور وہ حضرت ابراہیم کے بھتیجے حضرت لوط تھے جنہوں نے آخر کار ہجرت میں بھی اپنے چچا اور چچی ( حضرت سارہ ) کا ساتھ دیا ۔ یہاں ایک شبہ پیدا ہوتا ہے جسے رفع کردینا ضروری ہے ۔ ایک شخس سوال کرسکتا ہے کہ کیا اس واقعہ سے پہلے حضرت لوط کافر و مشرک تھے اور آگ سے حضرت ابراہیم کے بسلامت نکل آنے کا معجزہ دیکھنے کے بعد انہیں نعمت ایمان میسر آئی؟ اگر یہ بات ہے تو کیا نبوت کے منصب پر کوئی ایسا شخص بھی سرفراز ہوسکتا ہے جو پہلے مشرک رہ چکا ہو؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن نے یہاں فَاٰمَنَ لَهٗ لُوْطٌ کے الفاظ استعمال کیے ہیں جن سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس سے پہلے حضرت لوط خداوند عالم کو نہ مانتے ہوں ، یا اس کے ساتھ دوسرے معبودوں کو شریک کرتے ہوں ، بلکہ ان سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد انہوں نے حضرت ابراہیم کی رسالت کی تصدیق کی اور ان کی پیروی اختیار کرلی ۔ ایمان کے ساتھ جب لام کا صلہ آتا ہے تو اس کے معنی کسی شخص کی بات ماننے اور اس کی اطاعت کرنے کے ہوتے ہیں ، ممکن ہے کہ حضرت لوط اس وقت ایک نو عمر لڑکے ہی ہوں اور اپنے ہوش میں ان کو پہلی مرتبہ اس موقع پر ہی اپنے چچا کی تعلیم سے واقف ہونے اور ان کی شان رسالت سے آگاہ ہونے کا موقع ملا ہو ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 45 یعنی اپنے رب کی خاطر ملک چھوڑ کر نکلتا ہوں ، اب جہاں میرا رب لے جائے گا وہاں چلا جاؤں گا ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 46 یعنی وہ میری حمایت و حفاظت پر قادر ہے اور میرے حق میں اس کا جو فیصلہ بھی ہوگا حکمت پر مبنی ہوگا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

11: حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وطن یعنی عراق میں اُن پر حضرت لوط علیہ السلام کے سوا کوئی اِیمان نہیں لایا تھا۔ چنانچہ اُنہوں نے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہجرت کی، لیکن بعد میں اﷲ تعالیٰ نے اُن کو بھی پیغمبر بناکر سدوم اور عمورہ کی بستیوں کی طرف بھیجا تھا۔ 12: مطلب یہ ہے کہ وطن چھوڑ کر اپنے پروردگار کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے جارہا ہوں۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:26) فامن لہ لوط۔ پس لوط ان پر ایمان لائے۔ یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر، حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھتیجے تھے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ یعنی حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کا یہ وعظ سن کر ان کا بھتیجا …الخ 2 ۔ یعنی وہ میری حمایت و حفاظت پر قادر ہے اور اس کے ہر کام میں حکمت ہے۔ قتادہ (رح) کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے ” کو تی “ سے جو کہ کوفہ کی بستیوں میں سے ایک بستی تھی احان کو ہجرت کی اور وہاں سے شام چلے گئے۔ اس سفر میں ان کے ساتھ ان کی بیوی سارہ اور ان کے بھتیجے حضرت لوط ( علیہ السلام) تھے۔ جب حضرت عثمان (رض) نے اپنی بیوی (حضرت رقیہ بنت رسول اللہ ﷺ) سمیت حبشہ کی طرف ہجرت کی تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :” وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) اور حضرت لوط ( علیہ السلام) کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ ہجرت کی۔ (فتح القدیر بحوالہ ابن عساکر وغیرہ)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ وہ میری حفاظت کرے گا، اور مجھ کو اس کا ثمرہ دے گا۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پرخلوص اور طویل جدوجہد کے باوجود حضرت لوط (علیہ السلام) ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان لائے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو حکومت وقت اور ان کی قوم نے آگ میں پھینکا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو بسلامت آگ سے نکال لیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی عظمت اور بزرگی دیکھ کر قوم بالاتفاق ان پر ایمان لے آتی لیکن حکومت کے رعب اور ذاتی مفادات کی خاطر کوئی شخص حضرت پر ایمان نہ لایا۔ صرف آپ کے بھتیجے حضرت لوط (علیہ السلام) ایمان لائے۔ جن کے بارے میں مفسرین نے وضاحت فرمائی ہے کہ لوط (علیہ السلام) کے ایمان لانے کا یہ معنی نہیں کہ وہ پہلے مشرک یا مشرکوں کے حمایتی تھے۔ ایسا ہرگز نہیں تھا کیونکہ جس شخصیت کو اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول بنانا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے ابتداہی سے شرک و رسومات سے محفوظ رکھتا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) کے ایمان لانے سے مراد ان کا اپنے ایمان کا اعلان کرنا ہے۔ عین ممکن ہے کہ لوط (علیہ السلام) ایمان پہلے لا چکے ہوں لیکن اس موقعہ پر انھوں نے اپنے ایمان کا برملا اعلان کیا ہو۔ یہی جوان ہے جس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی حمایت اور ایمان کی خاطر اپنا گھر اور عزیز و اقرباء کو چھوڑا تھا اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) حضرت سارہ کے ساتھ ہجرت کی تھی۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عراق کی سرزمین چھوڑتے ہوئے فرمایا کہ میں اپنے رب کے لیے سب کچھ چھوڑ رہا ہوں۔ میرا رب بڑا غالب اور حکمت والا ہے۔ یعنی اگر میری دعوت یہاں نہیں پھیلی تو اس میں بھی میرے رب کی حکمت پنہاں ہے تاہم مجھے یقین ہے کہ دنیا میں میری دعوت پھیل کر رہے گی کیوں کہ میرا رب غالب اور حکمت والا ہے۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ارشاد سے یہ بھی ثابت ہوا کہ انسان کو ہجرت بھی اپنے رب کی رضا کے لیے کرنی ہے۔ اسی لیے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (عَنْ عُمَرَ ابْنِ الْخَطَّابِ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّمَا الْاَعْمَال بالنِّیَّاتِ وَاِنَّمَا لِاِمْرِئٍ مَّا نَوٰی فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہُ الی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ فَہِجْرَتُہُ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُہُ اِلَی دُنْےَا ےُصِےْبُھَا اَوِامْرَاَۃٍ ےَتَزَوَّجُھَا فَہِجْرَتُہٗ اِلٰی مَا ھَاجَرَ اِلَےْہِ ) [ رواہ البخاری : باب بدء الوحی ] ” حضرت عمر بن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمام اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے۔ آدمی اپنی نیت کے مطابق ہی صلہ پائے گا۔ جس نے اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہے جس نے دنیا کے فائدے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لیے ہجرت کی اس کی ہجرت اسی کے لیے ہوگی۔ “

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

فامن لہ لوط ۔۔۔۔۔۔ علی القوم المفسدین (26 – 30) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا یہ قول قابل غور ہے ، وہ کہتے ہیں۔ انی مھاجر الی ربی (29: 26) ” میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں “۔ انہوں نے کیوں ہجرت کی۔ انہوں نے نجات کے لیے ہجرت نہیں کی۔ نہ زمین کے حصول کے لیے ، نہ کسی تجارت اور کمائی کے لئے ہجرت کی تھی۔ انہوں نے رب کی طرف ہجرت کی ، اللہ کے قریب ہونے اور اس کی پناہ میں آنے کے لئے ہجرت کی۔ اپنا دل اور اپنا نظریہ لے کر ہجرت کی۔ ان کے جسم اور خون سے پہلے ان کے دل و دماغ نے ہجرت کی۔ انہوں نے اللہ کی طرف ہجرت کی تاکہ خالص اللہ کی عبادت اور بندگی کریں ، اپنا جسم اور اپنی سوچ اس کے لیے خاص کردیں اور کفر اور ضلالت کے علاقے کو چھوڑ دیں اس لیے کہ اس علاقے کے لوگوں کی ہدایت کا اب کوئی امکان نہ رہا تھا۔ یہ علاقے چھوڑنے کا اللہ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اس دنیا میں بھی انعام دیا۔ اللہ نے ان کو ایسی صالح اولاد دی کہ رہتی دنیا تک ان کی وراثت اور نظریات کی وارث بنی۔ اس کے بعد نبوت ان کی اولاد ہی میں رہی۔ دنیا اور آخرت میں اس سے بڑا انعام نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

حضرت لوط (علیہ السلام) کا دعوت ابراہیمی کو قبول کرنا اور دونوں حضرات کا فلسطین کے لیے ہجرت کرنا : اس کے بعد فرمایا (فَاٰمَنَ لَہٗ لُوْطٌ) لوط (علیہ السلام) ابراہیم کی نبوت پر ایمان لے آئے (جو حضرت ابراہیم کے بھائی ہارون کے بیٹے تھے) جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم پر ہر طرح سے حجت پوری کردی تو فرمایا اب میں اس وطن کو چھوڑتا ہوں اور اپنے رب کی طرف ہجرت کرتا ہوں یعنی میرے رب نے جو ہجرت کی جگہ بتائی ہے وہاں جاتا ہوں بلاشبہ میرا رب عزیز ہے حکیم ہے۔ بعض مفسرین نے یہ احتمال ظاہر کیا ہے کہ (وَ قَالَ اِنِّیْ مُھَاجِرٌ) کا فاعل حضرت لوط (علیہ السلام) ہیں لیکن پہلی بات راجح ہے کہ یہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا قول ہے جیسا کہ سورة صافات میں مذکور ہے (وَقَالَ اِِنِّی ذَاھِبٌ اِِلٰی رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِیْ ) (اور انہوں نے کہا کہ میں اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں وہ عنقریب مجھے راہ بتادے گا) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے وطن سے (جو عراق اور فارس کے درمیان تھا) ہجرت فرمائی اور حضرت لوط (علیہ السلام) اور حضرت سارہ سلام اللہ علیہا کو ساتھ لے کر (جو آپ کے چچا کی بیٹی تھیں اور آپ کی بیوی تھیں) ہجرت فرما کر فلسطین میں آکر مقیم ہوگئے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

22:۔ لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بھائی ہاران بن تارح کے بیٹے تھے وہ ابراہیم (علیہ السلام) کی نبوت پر بلا تامل ایمان لے آئے اور ان کی تمام باتوں کی تصدیق کی۔ وقال انی مہاجر الخ الی ربی ای الی الجہۃ التی امرنی ربی بالہجرۃ الیھا (روح ج 20 ص 152) ۔ یعنی میں اللہ کے حکم کے مطابق ہجرت کر رہا ہوں۔ جہاں جانے کا حکم ہوگا وہاں جا رہا ہوں۔ اس ہجرت میں لوط (علیہ السلام) اور آپ کی بیوی سارہ آپ کے ساتھ تھیں آپ نے کو ثی سے حران اور پھر حران سے ملک شام کی طرف ہجرت کی اور فلسطین کے ایک شہر میں قیام پذیر ہوئے (روح وغیرہ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے مسئلہ توحید کی خاطر مشرکین کی ایذاؤں کی وجہ سے اپنا وطن چھوڑ دیا اور ہجرت کر کے ارض شام میں چلے گئے۔ اے ایمان والو ! تم بھی تیار رہو تمہیں بھی اپنے دین و ایمان اور توحید کی خاطر ہجرت کرنا پڑے گی۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

26۔ بہر حال ! حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جو تقریر فرمائی تمام قوم میں سے حضرت لوط (علیہ السلام) نے ابراہیم (علیہ السلام) کی تصدیق کی اور ابراہیم نے کہا میں یہاں سے اپنے پروردگار کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں بیشک وہی کمال قوت اور کمال علم کا مالک ہے۔ یعنی قوم میں سے صرف آپ کے بھتیجے لوط (علیہ السلام) نے آپ کی تصدیق کی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے ہجرت کا ارادہ کیا اور چونکہ حضرت حق تعالیٰ نے ان کو جگہ بتائی ملک شام کی ۔ اس لئے ابراہیم نے فرمایا اپنے پروردگار کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے۔ وقال انی مھاجر الی ربی حضرت لوط (علیہ السلام) کا قول ہو ۔ بہر حال ! حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے خاندان کو لیکر پچھترسال کی عمر میں بابل سے ملک شام چلے گئے۔