Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 45

سورة العنكبوت

اُتۡلُ مَاۤ اُوۡحِیَ اِلَیۡکَ مِنَ الۡکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لَذِکۡرُ اللّٰہِ اَکۡبَرُ ؕ وَ اللّٰہُ یَعۡلَمُ مَا تَصۡنَعُوۡنَ ﴿۴۵﴾

Recite, [O Muhammad], what has been revealed to you of the Book and establish prayer. Indeed, prayer prohibits immorality and wrongdoing, and the remembrance of Allah is greater. And Allah knows that which you do.

جو کتاب آپ کی طرف وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کریں یقیناً نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے بیشک اللہ کا ذکر بہت بڑی چیز ہے تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَابِ ... Recite what has been revealed to you of the Book, Allah commands His Messenger and the believers to recite the Qur'an, which means both reciting it and conveying it to people. ... وَأَقِمِ الصَّلَأةَ إِنَّ الصَّلَأةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ ... and perform the Salah. Verily, the Sal... ah prevents from Al-Fahsha' and Al-Munkar and the remembrance of Allah is greater indeed. Prayer includes two things: the first of which is giving up immoral behavior and evil deeds, i.e., praying regularly enables a person to give up these things. Imam Ahmad recorded that Abu Hurayrah said: "A man came to the Prophet and said, `So-and-so prays at night, but when morning comes, he steals.' The Prophet said: إِنَّهُ سَيَنْهَاهُ مَا تَقُول What you are saying (i.e., the Salah) will stop him from doing that." Prayer also includes the remembering of Allah, which is the higher objective, Allah says: وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ (and the remembrance of Allah is greater indeed), more important than the former. ... وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ And Allah knows what you do. means, He knows all that you do and say. Abu Al-`Aliyah commented on the Ayah: إِنَّ الصَّلَةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ (Verily, the Salah prevents from immoral sins and evil wicked deeds), "Prayer has three attributes, and any prayer that contains none of these attributes is not truly prayer: Being done purely and sincerely for Allah alone (Ikhlas), fear of Allah, and remembrance of Allah. Ikhlas makes a person do good deeds, fear prevents him from doing evil deeds, and the remembrance of Allah is the Qur'an which contains commands and prohibitions." Ibn Awn Al-Ansari said: "When you are praying, you are doing good, it is keeping you away from immoral sins and evil wicked deeds and what you are doing is part of the remembrance of Allah which is greater."   Show more

اخلاص خوف اور اللہ کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ایمان داروں کو حکم دے رہا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہیں اور اسے اوروں کو بھی سنائیں اور نمازوں کی نگہبانی کریں اور پابندی سے پڑھتے رہا کریں ۔ نماز انسان کو ناشائستہ کاموں اور نالائق حرکتوں سے باز رکھتی ہے ۔ ...  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نمازی کی نماز نے اسے گناہوں سے اور سیاہ کاریوں سے باز نہ رکھا وہ اللہ سے بہت دور ہوجاتا ہے ابن ابی حاتم میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا جسے اس کی نماز بےجا اور فحش کاموں سے نہ روکے تو سمجھ لو کہ اس کی نماز اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوئی ۔ اور روایت میں ہے کہ وہ اللہ سے دور ہی ہوتاچلا جائے گا ۔ ایک موقوف روایت میں حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ جو نمازی بھلے کاموں میں مشغول اور برے کاموں سے بچنے والا نہ ہو سمجھ لو کہ اس کی نماز اسے اللہ سے اور دور کرتی جارہی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو نماز کی بات نہ مانے اس کی نماز نہیں ، نماز بےحیائی سے اور بد فعلیوں سے روکتی ہے اس کی اطاعت یہ ہے کہ ان بےہودہ کاموں سے نمازی رک جائے ۔ حضرت شعیب سے جب ان کی قوم نے کہا کہ شعیب کیا تمہیں تمہاری نماز حکم کرتی ہے تو حضرت سفیان نے اس کی تفسیر میں فرمایا کہ ہاں اللہ کی قسم نماز حکم بھی کرتی ہے اور منع بھی کرتی ہے ۔ حضرت عبداللہ سے کسی نے کہا فلاں شخص بڑی لمبی نماز پڑھتا ہے آپ نے فرمایا نماز اسے نفع دیتی ہے جو اس کا کہا مانے ۔ میری تحقیق میں اوپر جو مرفوع روایت بیان ہوئی ہے اس کا بھی موقوف ہونا ہی زیادہ صحیح ہے ۔ واللہ اعلم ۔ بزار میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم فلاں شخص نماز پڑھتا ہے لیکن چوری نہیں چھوڑتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عنقریب اس کی نماز اس کی یہ برائی چھڑادے گی ۔ چونکہ نماز ذکر اللہ کا نام ہے اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا اللہ کی یاد بڑی چیز ہے اللہ تعالیٰ تمہاری تمام باتوں سے اور تمہارے کل کاموں سے باخبر ہے ۔ حضرت ابو العالیہ فرماتے ہیں نماز تین چیزیں ہیں اگر یہ نہ ہوں تو نماز نماز نہیں اخلاص وخلوص خوف اللہ اور ذکر اللہ ۔ اخلاص سے تو انسان نیک ہوجاتا ہے اور خوف اللہ سے انسان گناہوں کو چھوڑ دیتا ہے اور ذکر اللہ یعنی قرآن اسے بھلائی و برائی بتا دیتا ہے وہ حکم بھی کرتا ہے اور منع بھی کرتا ہے ۔ ابن عون انصاری فرماتے ہیں جب تو نماز میں ہو تو نیکی میں ہے اور نماز تجھے فحش اور منکر سے بچائے ہوئے ہے ۔ اور اس میں جو کچھ تو ذکر اللہ کرہا ہے وہ تیرے لئے بڑے ہی فائدے کی چیز ہے ۔ حماد کا قول ہے کہ کم سے کم حالت نماز میں تو برائیوں سے بچا رہے گا ۔ ایک راوی سے ابن عباس کا یہ قول مروی ہے کہ جو بندہ یاد اللہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اسے یاد کرتا ہے ۔ اس نے کہا ہمارے ہاں جو صاحب ہیں وہ تو کہتے ہیں کہ مطلب اس کا یہ ہے کہ جب تم اللہ کا ذکر کروگے تو وہ تمہاری یاد کرے گا اور یہ بہت بڑی چیز ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے آیت ( فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ ١٥٢؁ۧ ) 2- البقرة:152 ) کہ تم میری یاد کرو میں تمہاری یاد کرونگا ۔ اسے سن کر آپ نے فرمایا اس نے سچ کہا یعنی دونوں مطلب درست ہیں ۔ یہ بھی اور وہ بھی اور خود حضرت ابن عباس سے یہ بھی تفسیر مروی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن ربیعہ سے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عباس نے دریافت فرمایا کہ اس جملے کا مطلب جانتے ہو؟ انہوں نے کہا ہاں اس سے مراد نماز میں سبحان للہ ، الحمدللہ ، اللہ اکبر وغیرہ کہنا ہے ۔ آپ نے فرمایا تو نے عجیب بات کہی یہ یوں نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ حکم کے اور منع کے وقت اللہ کا تمہیں یاد کرنا تمہارے ذکر اللہ سے بہت بڑا اور بہت اہم ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود حضرت ابو درداء حضرت سلمان فارسی وغیرہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ اور اسی کو امام ابن جریر پسند فرماتے ہیں ۔   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

451قرآن کریم کی تلاوت متعدد مقاصد کے لئے مطلوب ہے۔ محض اجر وثواب کے لئے، اس کے معنی و مطلب پر تدبر و تفکر کے لئے، تعلیم و تدریس کے لئے، اور وعظ و نصیحت کے لئے، اس حکم تلاوت میں ساری صورتیں شامل ہیں۔ 452کیونکہ نماز سے (بشرطیکہ نماز ہو) انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہوجاتا ہے، جس سے انسان کو...  اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کے عزم و ثبات کا باعث، اور ہدایت کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے اس لیے قرآن کریم میں کہا گیا ہے کہ اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔ نماز اور صبر کوئی مرئی چیز نہیں ہے نہیں کہ انسان انکا سہارا پکڑ کر ان سے مدد حاصل کرلے۔ یہ تو غیر مرئی چیز ہے مطلب یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے انسان کا اپنے رب کے ساتھ جو خصوصی ربط وتعلق پیدا ہوتا ہے وہ قدم قدم پر اس کی دستگیری اور رہنمائی کرتا ہے اسی لیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رات کی تنہائی میں تہجد کی نماز بھی پڑھنے کی تاکید کی گئی کیونکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے جو عظیم کام سونپا گیا تھا، اس میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کی مدد کی بہت زیادہ ضرورت تھی اور یہی وجہ ہے کہ خود آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی جب کوئی اہم مرحلہ درپیش ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کا اہتمام فرماتے۔ 453یعنی بےحیائی اور برائی سے روکنے کا سبب اور ذریعہ بنتی ہے جس طرح دواؤں کی مختلف تاثیرات ہیں اور کہا جاتا ہے کہ فلاں دوا فلاں بیماری کو روکتی ہے اور واقعتا ایسا ہوتا ہے لیکن کب ؟ جب دو باتوں کا التزام کیا جائے ایک دوائی کو پابندی کے ساتھ اس طریقے اور شرائط کے ساتھ استعمال کیا جائے جو حکیم اور ڈاکٹر بتلائے۔ دوسرا پرہیز یعنی ایسی چیزوں سے اجتناب کیا جائے جو اس دوائی کے اثرات کو زائل کرنے والی ہوں۔ اسی طرح نماز کے اندر بھی یقینا اللہ نے ایسی روحانی تاثیر رکھی ہے کہ یہ انسان کو بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے لیکن اسی وقت جب نماز کو سنت نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مطابق ان آداب و شرائط کے ساتھ پڑھا جائے جو اس کی صحت و قبولیت کے ضروری ہیں۔ مثلا اس کے لیے پہلی چیز اخلاص ہے، ثانیا طہارت قلب یعنی نماز میں اللہ کے سوا کسی اور کی طرف التفات نہ ہو۔ ثالثا باجماعت اوقات مقررہ پر اس کا اہتمام۔ رابعا ارکان صلاۃ قرأت رکوع قومہ سجدہ وغیرہ میں اعتدال و اطمینان خامسا خشوع وخضوع اور رقت کی کیفیت۔ سادسا مواظبت یعنی پابندی کے ساتھ اس کا التزام سابعا رزق حلال کا اہتمام۔ ہماری نمازیں ان آداب و شرائط سے عاری ہیں۔ اس لیے ان کے وہ اثرات بھی ہماری زندگی میں ظاہر نہیں ہو رہے ہیں جو قرآن کریم میں بتلائے گئے ہیں۔ بعض نے اس کے معنی امر کے کیے ہیں۔ یعنی نماز پڑھنے والے کو چاہیے کہ بےحیائی کے کاموں سے اور برائی سے رک جائے۔ 454یعنی بےحیائی اور برائی سے روکنے میں اللہ کا ذکر، اقامت صلٰوۃ سے زیادہ مؤثر۔ اس لئے کہ آدمی جب تک نماز میں ہوتا ہے، برائی سے رکا رہتا ہے۔ لیکن بعد میں اس کی تاثیر کمزور ہوجاتی ہے، اس کے برعکس ہر وقت اللہ کا ذکر اس کے لئے ہر وقت برائی میں مانع رہتا ہے۔  Show more

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٧٢] اس آیت میں یہ ظاہر خطاب صرف رسول اللہ کو ہے لیکن مخاطب سارے ہی مومن ہیں۔ جو مکہ میں کافروں کے ہاتھوں تکلیفیں اٹھا رہے تھے۔ ان مصائب کے مداوا کے طور پر انھیں تین باتوں کی تلقین کی گئی ایک قرآن کی تلاوت، دوسرے نماز پر ہمیشگی اور تیسرے ہر وقت اللہ کو یاد رکھنا۔ تلاوت قرآن کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہ... ے کہ اس سے دل میں صبر اور برداشت کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا : (لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِيْلًا 32؀) 25 ۔ الفرقان :32) بشرطیکہ قرآن کریم کو سوچ سمجھ کر پڑھا جائے اور اس کی اقتضات کو اپنی ذات پر نافذ کیا جائے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ قرآن کی تلاوت بذات خود باعث اجر وثواب ہے۔ اور اس کے ایک ایک حرف کے عوض دس نیکیاں ملتی ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ جس نے اللہ کی کتاب سے ایک حرف پڑھا، اس کے لئے ایک نیکی ہے اور ہر نیکی کا ثواب دس گنا ہے۔ اور میں نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے۔ بلکہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔ (ترمذی۔ ابو اب فضائل القرآن۔ باب ماجاء فی من قرء حرفا من القرآن۔۔ ) تیسرا فائدہ یہ ہے کہ تلاوت قرآن سوچ سمجھ کر پڑھنے سے اس کے معارف و حقائق پڑھنے والے پر منکشف ہوتے چلے جاتے ہیں۔ چوتھا فائدہ یہ ہے کہ تلاوت قرآن سے دوسرے لوگ بھی اس کے مواعظہ اور علوم و برکات سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ پانچواں فائدہ یہ ہے کہ دعوت و اصطلاح کے فریضہ کی اصل بنیاد تلاوت قرآن کریم بھی ہے۔ پھر جو لوگ قرآن کی ہدایت کو تسلیم نہ کریں ان پر اللہ کی حجت قائم اور پوری ہوجاتی ہے۔ لیکن ہمارے دور کے مفسر قرآن جناب پرویز صاحب بلا سوچے سمجھے تلاوت قرآن کو ایک بےہودہ فعل قرار دیتے ہیں، فرماتے ہیں کہ : && قرآن ایک کتاب ہے جس میں لکھا ہے کہ اس کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق زندگی بسر کرنا چاہئے۔ کہئے اس کے الفاظ دہرا دینے سے یہ مقصد حاصل ہوجائے گا ؟ نیز قرآن اپنے مضامین پر بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا ہے کیا یہ مقصود بلاسوچے سمجھے پڑھنے سے حاصل ہوسکتا ہے ؟ آپ کسی مصنف سے یہ کہئے کہ میں تمہاری کتاب کے ایک لفظ کو بھی نہیں سمجھتا لیکن اس کے باوجود ہر روز اسے پڑھتا ہوں۔ حتیٰ کہ مجھے وہ زبان بھی نہیں آتی جس میں تم نے یہ کتاب لکھی ہے۔ اس کے باوجود اس کتاب کو دہراتا رہتا ہوں۔ آپ خود ہی سوچئے کہ وہ مصنف آپ کو کیا جواب دے گا ؟ یہ عقیدہ دراصل مسلمانوں کو قرآن سے الگ رکھنے کے لئے تراشا گیا تھا جو عجمی سازش کا نتیجہ ہے اور یہ عقیدہ یکسر غیر قرآنی ہے جو درحقیقت عہد سحر کی یادگار ہے۔ جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ الفاظ (معانی نہیں) اپنے اندر تاثیر رکھتے ہیں۔ یہ قرآنی اعمال، تعویذ، نقوش، وظائف اور اد، سب اسی عقیدہ کی مستعار شکلیں ہیں && (قرآنی فیصلے ص ١٠٣) پھر یہی خیالات مقام حدیث کے ص ٢٢١ پر دہرائے گئے ہیں اور اس کے بعد قرآن سورتوں یا آیات کی تلاوت کی فضیلت کے متعلق چند احادیث درج کرکے ایسی احادیث کے موضوع ہونے کا تاثر دیا گیا ہے نیز یہی افکار اسباب زوال امت کے ص ٥٩ پر بھی دیئے گئے ہیں اور دلیل میں یہ آیت بھی پیش کی گئی ہے : (يَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِھِمْ مَّا لَيْسَ فِيْ قُلُوْبِھِمْ ۭوَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُوْنَ ١٦٧؁ۚ ) 3 ۔ آل عمران :167) وہ زبان سے وہ کچھ کہتے ہیں جو ان کے دل میں نہیں ہوتا (اسباب زوال امت، ص ٥٩) جواب دینے سے پیشتر ہم جناب پرویز کی ہشیاری کی داد ضرور دینا چاہتے ہیں کہ جو آیت منافقوں سے تعلق رکھتی تھی اسے آپ نے اس مقام پر فٹ کر دکھایا ہے۔ یہ آیت ( یٰاَیُّھَا الَّذِیْنَ نَافَقُوْا) سے شروع ہوتی ہے اور اس آیت کے مندرجہ ٹکڑے کا مطلب یہ ہے کہ منافقوں کی سبان پر کوئی اور بات ہوتی ہے جبکہ دل میں کچھ اور ہوتا ہے یعنی جس بات کا وہ زبان سے اقرار کرتے ہیں ان کے دل اس سے منکر ہوتے ہیں لیکن بلاسوچے سمجھے یا منعی نہ سمجھنے کے باوجود قرآن پاک کی تلاوت کا معاملہ اس سے یکسر مختلف ہے۔ اس لئے کہ ایسے شخص کے دل میں کچھ ہوتا ہی نہیں یا اگر کچھ ہوتا ہے تو صرف یہ کہ وہ اپنے پروردگار کے کلام کی تلاوت کر رہا ہے۔ اور یہ ایک اچھا باعث برکت وثواب عمل ہے۔ قرآن میں تلاوت قرآن پر بہت زور دیا گیا ہے۔ رسول اللہ کی سب سے پہلی ذمہ داری تھی کہ آپ امت پر اللہ کی آیات تلاوت کرتے تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی حکم تھا اور مسلمان مردوں اور عورتوں کو یہ بھی حکم تھا کہ وہ ان تلاوت شدہ آیات کو زبانی یاد کرلیا کریں۔ اللہ تعالیٰ ازواج النبی سے فرماتے ہیں : ( وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالْحِكْمَةِ ۭاِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِيْفًا خَبِيْرًا 34؀ ) 33 ۔ الأحزاب :34) && اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیات و حکمت پڑھی جاتی ہیں، ان کو یاد رکھو && اور یہ تو واضح ہے کہ آیات کو یاد رکھنے اور حفظ کرنے کے لئے ان آیات کو بار بار پڑھنا اور دور کرنا پڑتا ہے اور بار بار تلاوت کرنے کا مقصد غور و تدبر ہی نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صحابہ کو قرآنی آیات سکھلاتے بھی تھے، پڑھاتے بھی تھے، یاد بھی کرواتے تھے، پھر ان سے سنتے بھی تھے، انھیں سناتے بھی تھے، تب جاکر صحابہ کو حفظ اور ضبط ہوتا تھا۔ حفظ کرتے وقت جو تکرار، اعادہ یا دور کہا جاتا ہے اس کا مقصد غور و تدبر کرنا نہیں ہوتا بلکہ حفظ ہی ہوتا ہے اب حفظ کرنے کے لئے آیات کی جو بار بار تلاوت کی جاتی ہے، وہ اگرچہ بلاسوچے سمجھے ہوتی ہے تاہم یہ ایک بہت بڑی دینی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ یعنی قرآن سینوں میں محفوظ ہوجاتا ہے۔ لہذا یہ ایک مستحسن فعل ہوا۔ خواہ یہ حفظ کرتے وقت طوطے کی طرح رٹنا ہی پڑے۔ نبوت کے ابتدائی ایام میں ہی سورة مزمل نازل ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ کو مخاطب کرکے فرمایا : ( اَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا ۝ۭ ) 73 ۔ المزمل :4) && اور قرآن کو خوب حسن تناسب سے پڑھا کرو && رتل کا معنی کسی چیز کا حسن تناسب کے ساتھ مرتب اور منظم ہونا ہے۔ (مفردات) پھر اس میں کسی عبارت کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا، حسن ادائیگی الفاظ اور خوش آوازی یا خوش الحانی سب شامل ہوتے ہیں۔ اگر ہم قرآن کو محض ایک قانون اور ضابطہ حیات کی کتاب ہی تصور کریں تو پھر قانون کی کتاب پڑھنے کے لئے ایسی ہدایات کی کیا ضرورت ہے ؟ قانون کی کتاب میں غور و فکر کرنے کے لئے الفاظ کو بلند آواز سے پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی چہ جائیکہ اسے ترتیل سے پڑھا جائے۔ علاوہ ازیں قرآن میں کچھ ایسی متشابہ آیات بھی ہیں جن کی تاویل اللہ ہی جانتا ہے یا پھر کچھ راسخون فی العلم جان سکتے ہیں۔ عام لوگ جن کی ہر دور میں اکثریت ہوتی ہے، اس کے مفہوم و معانی اور صحیح تاویل و تعبیر تک پہنچ ہی نہیں سکتے۔ اور ایسی آیات کے مفہوم و معافی کے پیچھے پڑنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے فتنہ پرور قرار دیا ہے۔ اور صفات الٰہی سے تعلق رکھنے والی تقریباً سب آیات اسی قبیل سے ہیں۔ پھر قرآن میں حروف مقطعات بھی اسی قبیل سے ہیں جن کا انسان کی عملی زندگی سے کچھ بھی تعلق نہیں، نہ ہی ان کا صحیح مفہوم معلوم ہوسکا ہے۔ اب اگر قرآن کو صرف قانون اور ضابطہ حیات کی کتاب ہی سمجھا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میں ایسی آیات کی کیا ضرورت تھی ؟ یا کیا تلاوت قرآن کرتے وقت ایسی آیات کو چھوڑ دینا چاہئے ؟ یہ باتیں اس چیز پر واضح دلیل ہیں کہ قرآن پاک کو سمجھنے اور عمل کرنے کے علاوہ صرف تلاوت بھی انتہائی ضروری ہے۔ اب رہی یہ بات کہ آیا قرآن کے الفاظ میں کوئی تاثیر ہے یا نہیں ؟ جسے پرویز صاحب عہد سحر سے منسلک فرما رہے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم قرآن کے الفاظ کی تاثیر کے بھی قاول ہیں اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں : ١۔ قرآن کسی انسان کا کلام نہیں، بلکہ اس کے الفاظ کی بندش اور فصاحت و بلاغت کا یہ عالم ہے کہ فصحاء اور بلغاء عرب بار بار کے چیلنج کے باوجود اس جیسا کلام لانے سے قاصر رہے لہذا اسے عام انسانی تصانیت کے مثل قرار دینا بہت بڑی جسارت ہے۔ جیسا کہ پرویز صاحب نے کسی مصنف کی کتاب کی بلاسوچے سمجھے پڑھنے کی مثال دی ہے۔ ٢۔ کفار مکہ میں سے اکثر فصحائے عرب تھے۔ ان میں شاعر بھی موجود تھے۔ وہ قرآن کی آیات کو سنتے اور خوب سمجھتے تھے کیونکہ ان کی زبان عربی تھے۔ وہ دل سے قرآن کے مخالف بھی تھے۔ پھر بھی قرآں کے الفاظ کی اعجازی حیثیت ان کو مسحور کردیتی تھی۔ آخر یہ کیا بات تھی کہ وہ اپنی لگائی ہوئی پابندیوں کے علی الرغم رات کو پہروں چوری چھپے قرآن سنتے تھے ؟ کیا یہ الفاظ ہی کی تاثیر نہ تھی ؟ ٣۔ الفاظ کی اس اعجازی حیثیت کا پرویز صاحب خود بھی ایک دوسرے مقام پر زیر عنوان && مشاعرے && بدیں الفاظ اقرار کرتے ہیں : && آپ کسی شاعر سے کہئے کہ جو کچھ آپ نے نظم میں لکھا ہے اسے ذرا نثر میں پڑھ کر سنائیے، پھر دیکھئے اس کے جذبات کا کیا عالم ہوتا ہے۔ غور کیجئے، کتنا بڑا ہے یہ سحر جس کی رو سے محض الفاظ کے ادھر ادھر رکھ دینے سے آپ کے تاثرات بدل جاتے ہیں۔ && (قرآنی فیصلے، ص ٣٠٥) اب اگر کسی عام شاعر کی نظم میں الفاظ کی بندش میں یہ تاثیر ممکن ہے تو کیا قرآن کے الفاظ کی بندش میں اتنی بھی تاثیر نہیں اور ایسی تاثیر شعر ہی میں نہیں نثر میں بھی ممکن ہے۔ قرآن مجید شاعرانہ بیہودگی سے یکسر پاک ہے تاہم اس کی اعجازی حیثیت مسلمہ ہے اور اس کی تاثیر کی بھی۔ ٤۔ رجز (جنگی گیت) اور حدی کا اثر اونٹ وغیرہ پر بھی ہونا مشاہدات سے ثابت ہے۔ حالانکہ اونٹ نہ وہ زبان جانتا ہے نہ اس کا مطلب سمجھتا ہے تاہم متاثر ضرور ہوجاتا ہے تو کیا اونٹ میں بھی کوئی عجمی سازش کام کررہی ہوتی ہے ؟ اسی مضمون سے متعلق ایک لطیفہ یاد آگیا۔ کوئی صاحب قرآن کے الفاظ کی تاثیر کے قائل نہ تھے اور اسی موضوع پر اپنے ایک دوست سے بحث فرما رہے تھے۔ اس دوست نے جواب میں صرف اتنا ہی کہہ دیا کہ تم تو نرے گدھے ہو۔ اس بات پر وہ صاحب سیخ پا ہوگئے اور غصہ کی وجہ سے چہرہ تمتا اٹھا اور اپنے دوست کو بدتمیزی کے القابات سے نوازنے لگے۔ دوست نے بڑے آرام سے کہا کہ اگر الفاظ میں کچھ تاثیر نہیں ہوتی تو آپ اس قدر برہم کیوں ہوگئے ؟ آپ فی الواقع کوئی گدھا بن تو نہیں گئے۔ یہ جواب سن کر وہ صاحب کچھ گھسیانے سے ہوگئے اور غصہ بھی فرو ہوگیا۔ بلا سوچے سمجھے تلاوت کرنا اگرچہ کوئی بامقصد عمل نہیں کہلاسکتا تاہم اس سے بھی تین فائدے حاصل ہوتے ہیں : ١۔ تلاوت کرنے والا جب تک تلاوت میں مشغول رہے گا دوسری خرافات سے محفوظ رہے گا۔ ٢۔ جو شخص اس بلاسوچے سمجھے تلاوت کو اپنا معمول بنا لے گا کسی نہ کسی دن ضرور وہ اس کا مفہوم سمجھنے کی بھی کوشش کرے گا۔ ٣۔ کلام الٰہی اگر ترتیل سے کی جائے تو کائنات کی کئی دوسری اشیاء بھی اس سے اثر قبول کرتی اور ساتھ ہم آہنگ ہوجاتی ہیں۔ داؤد جب زبور کی آیات تلاوت فرماتے تو پہاڑ اور پرندے بھی آپ کی ان تسبیحات سے مسحور ہو کر ان میں شامل ہوجاتے تھے جیسا کہ ارشاد باری ہے : (وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ مِنَّا فَضْلًا ۭيٰجِبَالُ اَوِّبِيْ مَعَهٗ وَالطَّيْرَ ۚ وَاَلَنَّا لَهُ الْحَدِيْدَ 10 ۝ ۙ ) 34 ۔ سبأ :10) && اور ہم نے اپنی طرف سے داؤد کو برتری بخشی تھی کہ اے پہاڑو اور پرندو ! (جب داؤد زبور کی تلاوت کریں تو) تم بھی اس کے ساتھ ہم آہنگ ہوجاؤ && بالکل ایسا ہی مضمون سورة انبیاء کی آیت نمبر ٧٩ اور سوہ کی آیت نمبر ١٩ میں بھی مذکور ہے۔ ان آیات میں جبال یا پہاڑ جمادات سے اور پرندے حیوانات سے تعلق رکھتے ہیں گویا یہ سب چیزیں آیات الٰہی کی تلاوت سے اثر پذیر ہوتی ہیں۔ حالانکہ وہ نہ ان کے معنی سمجھ سکتی ہیں اور غور و فکر کرسکتی ہیں۔ ان تمام تصریحات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگرچہ کریم کی تلاوت کا اصل مقصد اسے سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہے تاہم قرآن کے الفاظ کی بندش میں بلا کی تاثیر ہے۔ جس سے انکار ناممکن ہے۔ لہذا اگر تلاوت کرنے والا اس کے مفہوم کو نہ جانتا ہو تب بھی اسے اس کی تلاوت سے کئی طرح سے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ رہا مسئلہ قرآنی عملیات، نقوش، تعویذات اور اوراد وغیرہ کا تو ان باتوں کا ثبوت کتاب و سنت میں کہیں بھی نہیں ملتا۔ لہذا یہ افعال بدعیہ اور شرکیہ ہیں اور ایسی باتوں کا اگر پرویز صاحب عہد سحر سے تعلق قائم کرنا چاہیں تو بصد شوق ایسا کرسکتے ہیں۔ [٧٣] اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے نماز میں تاثیر ہی یہ رکھ دی ہے کہ اس سے بےحیائی اور برے کاموں کا ارادہ ختم ہوجاتا ہے۔ جیسے پانی میں اللہ نے یہ تاثیر رکھ دی ہے کہ وہ پیاس کو بجھا دیتا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ نماز سے مطلوب یہ ہے کہ نمازی بےحیائی اور برے کاموں سے باز آجائے۔ اور یہ دونوں مطلب درست ہیں بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ دونوں مطالب کا مفہوم بالآخر ایک ہی بن جاتا ہے تو بھی درست ہے۔ اب آپ نماز کے ارکان پر اور جو کچھ نماز میں پڑھا جاتا ہے اس پر غور کریں تو از خود بخود یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جو شخص نماز بھی پڑھتا رہے اور اس سے بےحیائی اور برائیاں بھی دور نہ ہوں تو وہ محض بےسوچے سمجھے اور عادتاً نماز ادا کرتا ہے۔ بھلا جس کی نماز کی ہر رکعت میں دل کی توبہ سے اللہ کے سامنے شرک سے برات کا اور دوسروں سے استمداد سے برات کا اقرار کیا جائے ایسا شخص بھی شرک میں مبتلا رہ سکتا ہے اور جس نماز کی رکعت میں اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی جائے وہ نماز سے برے اور بےحیائی کے کاموں سے بچنے کی کوشش نہ کرے گا اور جو انسان اپنی نماز کی ہر رکعت میں اللہ سے سیدھے راستے پر گامزن رہنے کی دعا کرتا ہے۔ وہ برے کام اور بےحیائی کے کام کیسے کرسکتا ہے ؟ غرض نماز میں اللہ کے سامنے اقرار اور اس کے حضور دعاؤں پر جتنا بھی غور کیا جائے تو یہی نتیجہ سامنے آتا ہے کہ صحیح طریقہ سے نماز کو ادا کرنے والا لازماً برے کاموں سے رک جائے گا اور اگر نہیں رکتا تو اس کا منطقی نتیجہ یہی ہے کہ وہ نماز ٹھیک طرح ادا نہیں کرتا۔ وہ نماز میں اللہ کی یاد سے غافل اور دوسرے دنیوی خیالات میں منہمک رہتا ہے۔ اور ایسی نماز منافق کی نماز ہوتی ہے۔ مومن کی نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے نمازیوں کو بھی برے انجام کی تنبیہ فرمائی ہے۔ جو اپنی نماز میں اللہ کی یاد سے غافل رہتے ہیں۔ (١٠٨: ٤، ٥) [٧٤] اس جملہ کے بھی کئی مطلب ہیں ایک یہ کہ تمام تر عبادتوں کی روح رواں اللہ کی یاد ہی ہے۔ اللہ سے ہی انسان غافل ہو تو انسان عبادت کر کیسے سکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ تمام عبادت اسی صورت میں بطریق احسن سرانجام دی جاسکتی ہیں کہ اس عبادت کے دوران اللہ کی یاد سے غافل نہ ہو۔ تیسرا مطلب یہ ہے، اللہ کو یاد کرنا، زبان سے اللہ اللہ کہنا اور دل میں ہر وقت اللہ کو یاد رکھنا بذات خود بہت بڑا نیکی کا کام ہے۔ اور اس مطلب کا تائید درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے : حضرت علی (رض) فرماتے ہیں کہ حضرت فاطمہ کو چکی سے آٹا پیسنے سے بہت تکلیف ہوگئی۔ انھیں خبر ملی کہ آپ کے پاس کچھ قیدی آئے ہیں۔ (غنیمت سے جس کا پانچواں حصہ آپ کے لئے مختص اور اس کی تقسیم آپ کی صوابدید پر منحصر تھی) وہ آپ کے پاس تشریف لائیں تاکہ آپ سے ایک لونڈی یا غلام کا مطالبہ کریں۔ اتفاق سے آپ گھر پر نہ ملے تو انہوں نے یہ بات حضرت عائشہ (رض) سے کہہ دی۔ جب آپ تشریف لائے تو حضرت عائشہ (رض) نے انھیں بتلایا کہ آپ اسی وقت (رات کو ہی) ہمارے ہاں تشریف لائے جبکہ ہم بستروں پر لیٹ چکے تھے۔ ہم نے اٹھنا چاہا مگر آپ نے فرمایا : لیٹے رہو (آپ میرے اور حضرت فاطمہ کے درمیان بیٹھ گئے) میں نے آپ کے پاؤں کے ٹھنڈک اپنے سینے پر محسوس کی۔ آپ نے فرمایا : && کیا میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو اس سے بہتر ہے جو تم نے مانگی تھی ؟ (اور وہ یہ ہے کہ) جب تم اپنے بستروں پر جاؤ تو اللہ اکبر ٣٤ بار، الحمدللہ ٣٣ بار اور سبحان اللہ ٣٣ بار کہہ لیا کرو۔ یہ تمہارے لئے اس چیز سے بہتر ہے جس کا تم نے سوال کیا تھا && (بخاری۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب الخمس لنوائب رسول اللہ ) اور چوتھا مطلب یہ ہے کہ اگر بندہ اللہ کو یاد کرے تو اللہ بھی بندے کو یاد کرتا ہے (٢: ١٥٢) اور ظاہر ہے کہ اللہ کا بندے کو یاد کرنا بہت بڑی چیز ہے۔ [٧٥] یعنی اللہ اسے بھی جانتا ہے جو اس کے ذکر سے رطب اللسان رہتا ہے اور اسے بھی جو اس کی یاد سے غافل رہتا ہے۔ پھر ہر ایک سے اس کے عمل کے مطابق سلوک کرے گا۔   Show more

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اُتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ ۔۔ : مکہ مکرمہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مسلمانوں پر جو ظلم و ستم ہو رہا تھا اور انھیں ایمان پر ثابت قدم رہنے میں جو مشکلات پیش آرہی تھیں سورت کے شروع سے یہاں تک انھیں ان مشکلات کو برداشت کرنے اور ان پر استقامت اختیار کرنے کے لیے اللہ تعا... لیٰ کی آزمائش کی سنت بیان کی گئی۔ اس کے نمونے کے لیے پہلے اولو العزم پیغمبروں کی آزمائش اور ان کی قوموں کے شدید معاندانہ رویے پر ان کے صبر کو بیان کیا گیا، ساتھ ہی نافرمان اقوام کا عبرت ناک انجام ذکر کیا گیا۔ مقصد مسلمانوں کو تسلی دینا اور مشکل سے مشکل حالات میں استقامت کی تلقین ہے۔ اب وہ عملی تدبیر بتائی جس سے مومن میں وہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے جس سے وہ باطل کے مقابلے میں کھڑا رہ سکتا ہے اور اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کے احکام پر کار بند رہ سکتا ہے جب ہر طرف بےحیائی اور برائی کا دور دورہ اور اس کی زبردست اشاعت اور ترغیب موجود ہو۔ اُتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ : اس مقصد کے لیے پہلا حکم کتاب اللہ کی تلاوت ہے۔ یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ دوسرے مقامات پر دوسرے لوگوں کو پڑھ کر سنانے کا حکم ہے، مثلاً سورة مائدہ میں ہے : (وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ ابْنَيْ اٰدَمَ بالْحَقِّ ) [ المائدۃ : ٢٧ ] ” اور ان پر آدم کے دو بیٹوں کی خبر کی تلاوت حق کے ساتھ کر۔ “ سورة اعراف میں ہے : (وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ الَّذِيْٓ اٰتَيْنٰهُ اٰيٰتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا ) [ الأعراف : ١٧٥ ] ” اور انھیں اس شخص کی خبر پڑھ کر سنا جسے ہم نے اپنی آیات عطا کیں تو وہ ان سے صاف نکل گیا۔ “ سورة یونس میں ہے : (وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ نوح) [ یونس : ٧١ ] ” اور ان پر نوح کی خبر پڑھ۔ “ اور سورة شعراء میں ہے : (وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَاَ ابراھیم) [ الشعراء : ٦٩ ] ” اور ان پر ابراہیم کی خبر پڑھ۔ “ مگر اس مقام پر مطلق تلاوت کا حکم ہے، جس میں سب سے پہلے خود تلاوت کا حکم ہے، پھر تمام لوگوں کے لیے تلاوت کا حکم ہے، ایک اور مقام پر بھی اسی طرح مطلق تلاوت کا حکم ہے، فرمایا : (وَاتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنْ كِتَابِ رَبِّكَ ڝ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ ڟ وَلَنْ تَجِدَ مِنْ دُوْنِهٖ مُلْتَحَدًا) [ الکہف : ٢٧ ] ” اور اس کی تلاوت کر جو تیری طرف تیرے رب کی کتاب میں سے وحی کی گئی ہے، اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں اور نہ اس کے سوا تو کبھی کوئی پناہ کی جگہ پائے گا۔ “ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کو سننے اور اس کی تلاوت سے دل کو سکون و ثبات حاصل ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا : (وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً ڔ كَذٰلِكَ ڔ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنٰهُ تَرْتِيْلًا) [ الفرقان : ٣٢ ] ” اور ان لوگوں نے کہا جنھوں نے کفر کیا، یہ قرآن اس پر ایک ہی بار کیوں نہ نازل کردیا گیا ؟ اسی طرح ( ہم نے اتارا) تاکہ ہم اس کے ساتھ تیرے دل کو مضبوط کریں اور ہم نے اسے ٹھہر ٹھہر کر پڑھا، خوب ٹھہر کر پڑھنا۔ “ قرآن کی تلاوت ہی سے دل میں ایمان، کردار کی پختگی اور مصائب و مشکلات برداشت کرنے کی طاقت پیدا ہوتی ہے اور یہ بات تجربے سے ثابت ہے کہ جس شاعر یا مصنف کا کلام بار بار پڑھا جائے آدمی کو اس سے محبت ہوجاتی ہے، اس لیے قرآن کی تلاوت اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے، پھر اس میں مذکور اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کی صفات، اس کے احکام و مواعظ اور پہلی امتوں اور پیغمبروں کے واقعات بار بار پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کا دین ہر وقت آنکھوں کے سامنے رہتا ہے، جس سے اس پر عمل آسان ہوجاتا ہے۔ رات کے قیام میں اس کی تلاوت کی برکات کا تو شمار ہی نہیں۔ (دیکھیے سورة مزمل) اس طرح کثرت تلاوت کے ساتھ قرآن سینے میں محفوظ ہوجاتا اور محفوظ رہتا ہے، جس پر آدمی خود بھی عمل کرسکتا ہے اور دوسروں کو بھی اس کی دعوت و تبلیغ کرسکتا ہے اور اس کی تعلیم دے سکتا ہے، اگر اس کی تلاوت میں سستی کی جائے تو یہ بہت جلد سینے سے نکل جاتا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( تَعَاہَدُوا الْقُرْآنَ فَوَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِہِ لَہُوَ أَشَدُّ تَفَصِّیًا مِنَ الْإِبِلِ فِيْ عُقُلِہَا ) [ بخاري، فضائل القرآن، باب استذکار القرآن و تعاھدہ : ٥٠٣٣ ] ” قرآن کا دھیان رکھو، کیونکہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! وہ اس سے بھی جلدی چھوٹ کر نکل جاتا ہے جتنی جلدی اونٹ اپنی رسیوں میں سے نکل جاتے ہیں۔ “ بڑے ہی بدنصیب ہیں وہ لوگ جو قرآن کو محض ایک خط قرار دے کر اس کی تلاوت کو بےکار مشغلہ قرار دیتے ہیں۔ 3 اگرچہ قرآن کی تلاوت جس طرح بھی ہو فائدے اور ثواب سے خالی نہیں، مگر اس کا حقیقی فائدہ تبھی حاصل ہوسکتا ہے جب اسے سمجھ کر پڑھا جائے، کیونکہ اس کے بغیر اس پر تدبر ممکن نہیں، جو اس کا اصل مقصد ہے، جیسا کہ فرمایا : (اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُهَا) [ محمد : ٢٤ ] ” تو کیا وہ قرآن میں غور نہیں کرتے، یا کچھ دلوں پر ان کے قفل پڑے ہوئے ہیں ؟ “ سمجھ کر پڑھنے ہی سے آدمی اس پر عمل کرسکتا ہے اور اسی سے اس میں باطل سے مقابلے کا جذبہ اور اس کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ اکثر اہل کتاب کی بربادی کا باعث یہی ہوا کہ وہ تعلیم اور عمل کے بغیر تورات کے لفظوں کی تلاوت پر قانع ہوگئے۔ دیکھیے سورة بقرہ کی آیت ( ٧٨) کی تفسیر۔ آج کل مسلمانوں کی اکثریت کا بھی یہی حال ہے۔ کتاب اللہ کی تلاوت میں اس کا لوگوں کو سنانا اور دعوت دینا بھی شامل ہے۔ وَاَقِـمِ الصَّلٰوةَ : دوسرا حکم نماز کی اقامت کا ہے، کیونکہ اس سے آدمی میں اپنے رب کے ساتھ وہ تعلق پیدا ہوجاتا ہے جو اس کے لیے ہر مصیبت اور مشکل میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔ (دیکھیے بقرہ : ٤٥، ٤٦) ” اقامت صلاۃ “ میں صلاۃ سے مراد تمام فرض نمازیں ہیں اور قائم کرنے سے مراد انھیں درست طریقے سے ادا کرنا ہے، جیسا کہ سورة بقرہ کی آیت (٣) کی تفسیر میں گزر چکا ہے۔ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ : ” اِنَّ “ عموماً تعلیل کے لیے ہوتا ہے، یعنی نماز قائم کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ نماز ” الفحشاء “ اور ” والمنکر “ سے روکتی ہے۔ ” الفحشاء “ کوئی بھی قول یا فعل جس میں بہت بڑی قباحت ہو۔ (راغب) مثلاً زنا وغیرہ اور ” المنکر “ وہ قول و عمل جس کا انسانی فطرت اور عقل انکار کرتی ہو۔ نماز کے بےحیائی اور برائی سے روکنے کے دو مطلب ہوسکتے ہیں، ایک یہ کہ نماز میں یہ تاثیر ہے کہ اس سے انسان بےحیائی اور برائی سے باز آجاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ نماز کا نمازی سے تقاضا یہ ہے کہ وہ بےحیائی اور برائی سے باز آجائے۔ یہ دونوں مطلب درست ہیں اور ایک دوسرے کو لازم وملزوم ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ آدمی جو نماز کو اس کے اوقات پر جماعت کے ساتھ ادا کرے، اس کے ارکان و شروط اور خشوع کا خیال رکھتے ہوئے صحیح طریقے سے ادا کرے، اس میں پڑھی جانے والی فاتحہ اور دوسری دعاؤں کے ذریعے سے دل کی حاضری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مناجات کرے اور باربار ” رَبِّ اغْفِرْلِيْ “ اور استغفار کی دوسری دعاؤں کے ساتھ بخشش کی درخواست کرے اور اس پر ہمیشگی اختیار کرے، تو یقیناً نماز اسے بےحیائی اور برائی سے روک دے گی۔ ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہنے لگا : ( إِنَّ فُلاَنًا یُصَلِّيْ باللَّیْلِ ، فَإِذَا أَصْبَحَ سَرَقَ قَالَ إِنَّہُ سَیَنْہَاہُ مَا تَقُوْلُ ) [ مسند أحمد : ٢؍٤٤٧، ح : ٩٧٩٢، قال المحقق صحیح ] ” فلاں شخص رات نماز پڑھتا ہے، جب صبح ہوتی ہے تو چوری کرتا ہے۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” عنقریب اس کا یہ عمل اسے اس کام سے روک دے گا جو تو کہہ رہا ہے۔ “ یہاں ایک سوال ہے کہ کیا وجہ ہے کہ کئی لوگ نماز ادا کرتے ہیں مگر بےحیائی اور برائی سے باز نہیں آتے ؟ اس کے دو جواب ہیں، ایک یہ کہ اگر وہ نماز کو اخلاص اور اس کے ارکان و آداب اور خشوع کا خیال رکھتے ہوئے دل کی حاضری کے ساتھ روزانہ پانچ مرتبہ مسجد میں باجماعت ادا کرتے تو یقیناً ان کی نماز انھیں فحشاء اور منکر سے باز رکھتی۔ اگر اس کا یہ اثر ظاہر نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں خلل ہے، دوا کے اجزا پورے نہیں، تبھی شفا نہیں ہوئی۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ نماز تو کہتی ہے کہ جب تو ہر کام چھوڑ کر مسجد میں آگیا، تیرے باوضو ہونے سے اور تیرے ادا کیے جانے والے الفاظ سے تیرے رب کے سوا کوئی واقف نہیں، پھر بھی تو بےوضو نماز نہیں پڑھتا، نماز میں فضول بات نہیں کرتا، تو جس رب کے ڈر سے نماز میں اس کی نافرمانی سے پرہیز کرتا ہے نماز کے بعد بھی تجھے اس کے خوف سے ہر بےحیائی اور برائی سے اجتناب لازم ہے۔ نماز بہر حال بےحیائی اور برائی سے منع کرتی ہے، کوئی اس کا کہا نہ مانے تو اس کی مرضی، جیسا کہ اللہ تعالیٰ بھی بےحیائی اور برائی سے منع کرتا ہے، فرمایا : (وَيَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ۚيَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ ) [ النحل : ٩٠ ] ” اور اللہ بےحیائی اور برائی اور سرکشی سے منع کرتا ہے، وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے، تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ “ پھر کوئی اس کا حکم مانتا ہے، کوئی نہیں مانتا۔ 3 اس مقام پر کتب تفسیر میں چند احادیث مروی ہیں جو سنداً ثابت نہیں ہیں۔ تفسیر ابن کثیر میں سے وہ روایات اس کے محقق دکتور حکمت بن بشیر کی تحقیق کے ساتھ نقل کی جاتی ہیں : 1 ابن ابی حاتم نے عمران بن حصین (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اللہ تعالیٰ کے فرمان ”ۭاِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ “ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ لَّمْ تَنْھَہُ صَلَاتُہُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ فَلَا صَلَاۃَ لَہُ ) ” جس شخص کی نماز اسے فحشاء اور منکر سے نہ روکے اس کی کوئی نماز نہیں۔ “ اس کی سند میں ایک راوی عمر بن ابی عثمان مجہول ہے۔ 2 ابن ابی حاتم اور طبرانی نے ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( مَنْ لَّمْ تَنْھَہُ صَلَاتُہُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ لَمْ یَزْدَدْ بِھَا مِنَ اللّٰہِ إِلَّا بُعْدًا ) ” جس شخص کی نماز اسے بےحیائی اور برائی سے نہ روکے اس نماز کے ساتھ اس کی اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوری ہی میں اضافہ ہوگا۔ “ یہ روایت لیث بن ابی سلیم راوی کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے۔ 3 ابن جریر طبری نے عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت کی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یُطِعِ الصَّلَاۃَ وَطَاعَۃُ الصَّلَاۃِ تَنْھَاہُ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ ) ” جو شخص نماز کی اطاعت نہ کرے اس کی نماز نہیں اور نماز کی اطاعت اسے فحشاء اور منکر سے روکے گی۔ “ اس کی سند میں دو راوی جویبر اور حسین (بن داؤد) ضعیف ہیں اور ابن مسعود (رض) سے روایت کرنے والے راوی ضحاک کی ان سے ملاقات ثابت نہیں۔ حافظ ابن کثیر (رض) نے ان تمام روایات کے متعلق فرمایا : ” زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ موقوف (صحابہ کے اقوال) ہیں (مگر صحابہ سے بھی اکثر اقوال کی سند کمزور ہے) ۔ “ یہ روایات جن میں برائی سے نہ روکنے والی نماز کو کالعدم اور اللہ تعالیٰ سے دوری کا باعث بیان کیا گیا ہے، ان کی حقیقت میں نے اس لیے بیان کردی ہے کہ ایسا فتویٰ لگانے والا شخص فتویٰ کی سنگینی پر غور کرے اور اس بات پر بھی کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذمے ایسی بات لگا رہا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں۔ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ : اس کے تین مطلب بیان کیے گئے ہیں، ایک یہ کہ نماز بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے اور وہ کیوں نہ روکے گی جب کہ وہ اللہ کا ذکر ہے، جیسے فرمایا : (وَاَقِـمِ الصَّلٰوةَ ) [ طٰہٰ : ١٤ ] ” اور میری یاد کے لیے نماز قائم کر۔ “ اور یقیناً اللہ کا ذکر اور اس کی یاد برائی اور بےحیائی سے روکنے میں سب سے بڑی چیز ہے۔ دوسرا یہ کہ نماز بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے اور یقیناً اللہ کا ذکر اور اس کی یاد نماز میں ہو یا اس کے بعد، فحشاء اور منکر سے روکنے میں سب سے بڑی چیز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یاد، اس کا دھیان اور ہر وقت اسے پیش نظر رکھنا ہی آدمی کو گناہ سے باز رکھتا ہے اور گناہ اسی وقت سر زد ہوتا ہے جب آدمی اس بات سے غافل ہوتا ہے کہ میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے۔ اوپر کے دونوں مطلب اس وقت ہیں جب لفظ ” ذِکْرٌ“ اپنے مفعول کی طرف مضاف مانا جائے اور ترجمہ یہ کیا جائے کہ (بندے کا) اللہ تعالیٰ کو یاد کرنا سب سے بڑی بات ہے۔ تیسرے مطلب کے مطابق لفظ ” ذِکْرٌ“ اپنے فاعل کی طرف مضاف ہے، ترجمہ یہ ہوگا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ کا (اپنے بندے کو) یاد کرنا سب سے بڑی بات ہے۔ یعنی نماز میں بندہ اپنے رب کا ذکر کرتا اور اسے یاد کرتا ہے تو یہ بڑی بات ہے، لیکن اس کے جواب میں ادھر سے اللہ تعالیٰ جو بندے کا ذکر کرتا اور اسے یاد کرتا ہے یہ سب سے بڑی بات ہے۔ یہ تفسیر امام طبری نے معتبر سند کے ساتھ ابن عباس (رض) سے نقل فرمائی ہے۔ اس تفسیر میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرف اشارہ ہے : (فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوْا لِيْ وَلَا تَكْفُرُوْنِ ) [ البقرۃ : ١٥٢ ] ” سو تم مجھے یاد کرو، میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا شکر کرو اور میری نا شکری مت کرو۔ “ 3 بعض مفسرین نے نماز کے برائی اور بےحیائی سے روکنے کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ جتنی دیر آدمی نماز میں رہے گا کم از کم اتنی دیر تو بےحیائی اور برائی سے باز رہے گا۔ شاہ عبد القادر لکھتے ہیں : ” جتنی دیر نماز میں لگے اتنا تو ہر گناہ سے بچے، امید ہے آگے بھی بچتا رہے اور اللہ کی یاد کو اس سے زیادہ اثر ہے، یعنی گناہ سے بچے اور اعلیٰ درجوں پر چڑھے۔ “ (موضح) بعض لوگوں نے اس تفسیر پر اعتراض کیا ہے کہ نماز کے علاوہ بھی کئی کام ہیں جن میں مصروف رہنے تک آدمی گناہ سے بچا رہتا ہے، مگر یہ اعتراض بےسود ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ صرف نماز ہی بےحیائی سے روکتی ہے۔ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ : یعنی نیک یا بد جو بھی عمل تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے اور تمہیں اس کی جزا یا سزا دے گا۔ اس میں بشارت بھی ہے اور نذارت بھی۔ یہ الفاظ اس بات کی دلیل ہیں کہ آیت کے شروع میں ” اُتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَاَقِـمِ الصَّلٰوةَ “ کے مخاطب اگرچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، مگر مراد آپ کے ساتھ پوری امت بھی ہے، اسی لیے آیت کے آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔  Show more

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary اتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ (And recite (0 Muhammad) what is revealed to you - 29:45). In the previous verses some incidents of a few prophets and their people were related, in which some rebellious infidels were also mentioned, who faced various divine punishments. There were also some words of solace for the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and consolation for the believers, in...  that how the earlier prophets had endured various types of hardships. There was also persuasion for continuing the work of teaching and preaching, and not to lose heart under any circumstances. A brief but comprehensive formula for the reform of people In the above verses the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) is advised a brief but comprehensive formula for inviting people towards Allah. If acted upon, this formula opens the avenues leading to practicing religion with all its precept, and the natural hurdles that come in the way in practicing it are removed easily. This elixir formula is made up of two parts; one is the recitation of the Holy Qur&an, and the other, establishment of prayers. Although the real object here was to make all people adhere to the two basics, but for the sake of persuasion and emphasis, the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was directed first to practice them, because it was much easy for the followers to act upon the teachings of Islam when they saw the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) practicing it. Out of the two components of the formula, recitation of Qur&an is the spirit behind and foundation of everything. The next in order is the establishment of prayers, which has been selected for mentioning here to the exclusion of all other acts and obligations. The wisdom behind placing prayer above all other worships has also been explained that it keeps one away from shameless and obscene acts. The prayer is supreme among all the worships and obligations in its own right, and is a pillar to the religion. Fahsha& are all those shameless and obscene acts and utterances that are regarded bad and vile in all societies, no matter Islamic or non-Islamic, for instance, adultery, murder, abduction, robbery, lying, etc. Munkar (translated above as &evil& ) is that act or utterance on which there is unanimity of opinion of all religious jurists as being impermissible or Haram. Therefore, if there is a difference of opinion by the religious jurists, no one of the two views can be regarded as munkar. The two words, fahasha& and munkar, encompass in them all the crimes, and sins - both open and concealed - which are mischievous by themselves and a great hurdle in the way of righteous deeds. How does prayer stop from all sins? According to innumerous authentic ahadith, this verse means that there is a peculiar effect of the establishment of salah (prayer) that whoever performs it stops committing sins, provided it is not offered just for the sake of offering. One should offer prayers strictly in accordance with the wordings of Qur&an, that is for its iqamah (establishment). The meaning of iqamah of Salah is to perform it both inwardly and outwardly with the manners and mores the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) used to perform. All along his life, he stressed that the body, clothes and the place of offering prayer should be clean. Offering prayer in congregation, and to perform all actions in line with Sunnah are outward mores of the prayer. As for inward mores, one should stand in prayer with fear of Allah and humility in a manner that he is begging from Him. The one who establishes prayer, Allah Ta’ ala graces him with Divine help to tread the righteous path, and to keep away from all types of sins. If someone does not get rid of sins despite offering prayers, then there is some flaw in his prayers. It is mentioned in a hadith reported by Sayyidna ` Imran Ibn Husain (رض) that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) was asked about the sense of the verse by إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ‌ (Surely, Salah restrains from shamelessness and evil - 29:45). The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) replied, مَن لَّم َتنھَہ عَنِ الفَحشآءِ وَالمُنکَرِ فَلَا صَلوٰۃَ لَہُ (رواہ ابن ابی حاتم بسندہ عن عمران بن حُصَین والطبرابی من حدیث ابی معاویۃ) That is ` if anyone&s prayer did not stop him from his sins then his prayer is nothing&. Sayyidna Ibn Masud (رض) has reported that the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) once said لَا صلوٰۃ لِمَن لَّم یُطِعِ الصَّلوٰۃ (Ibn Jarir), that is ` one who does not obey his prayer his prayer is nothing&. The obedience of prayer is that one should keep away from sins (fahsha& and munkar). While interpreting this verse Sayyidna Ibn ` Abbas (رض) has said that if someone&s prayer does not make him do the righteous deeds and prevent from sins, then such a prayer would draw him even farther from Allah Ta’ ala. Ibn Kathir has reproduced all the three narrations in one place and has concluded that these ahadith are not marfu` which means that these words are not the words spoken by the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) but are the expositions put forward in explaining this verse by the three scholars namely, ` Imran Ibn Husain, ` Abdullah Ibn Masud, Ibn ` Abbas and Sayyidna Abu Hurairah (رض) has reported in a narration that someone came to the Holy Prophet صلی اللہ علیہ وسلم and said ` a person offers tahajjud (night prayer) at night, and steals after the day break&. The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) replied, ` The prayer will soon desist him from stealing&. (Ibn Kathir) Some other narrations have also related that after this remark from him he stopped stealing. Answer to a doubt Some persons express their doubt that many a people offer prayers regularly and yet indulge in grave sins, which apparently looks in conflict with this verse. Some have replied to this doubt by explaining that Salah forbids those offering prayers from sins, but it is not necessary that all take up the advice in right earnest, and stop committing sins. After all Qur&an and hadith also desist everyone from committing sins, yet many do not pay any attention to the advice, and do not refrain from sinning. But most commentators have explained that the verse is not in the form of a command, but it is the effect of prayer, which desists those who offer their prayers regularly from committing sins, by Divine help. But if one is not graced with the Divine help to get rid of sins, it means that there is some flaw in his prayers, and he has not been able to fulfill the requirements of iqamah of Salah. Above referred ahadith also endorse this view. وَلَذِكْرُ‌ اللَّـهِ أَكْبَرُ‌ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ (And indeed remembrance of Allah is the greatest (thing). And Allah knows what you do. - 29:45). Here remembrance of Allah could mean the remembrance carried out in the prayer or otherwise is supreme. The other meaning of the word could be that when His servants remember Him, it is His promise that He too remembers them before angels فَاذْكُرُ‌ونِي أَذْكُرْ‌كُمْ (Remember Me, and I will remember you - 2:152). For the servants who worship Allah it is the biggest blessing. Many a companions and the generation that followed them have endorsed this interpretation. Ibn Jarir and Ibn Kathir رحمۃ اللہ علیہما have also preferred this view. There is also an allusion under this view that the real reason of getting rid of sins through prayers is that Allah Ta’ ala also remembers the servant at that time before the angels. Thus its auspiciousness relieves him from his sins.  Show more

خلاصہ تفسیر (اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ آپ رسول ہیں، اس لئے) جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے آپ (تبلیغ کے واسطے) اس کو (لوگوں کے سامنے) پڑھا کیجئے (اور تبلیغ قولی کے ساتھ تبلیغ عملی بھی کیجئے کہ دین کے کام ان کو عمل کر کے بھی بتلائیے، خصوصاً ) نماز کی پابندی رکھئے (کیونکہ تمام اعمال میں ن... ماز اعظم عبادت بھی ہے اور اس کے اثرات بھی دور رس ہیں کہ) بیشک نماز (اپنی وضع کے اعتبار سے) بےحیائی اور ناشائستہ کاموں سے روکتی رہتی ہے (یعنی بزبان حال کہتی ہے کہ تو جس معبود کی انتہائی تعظیم کر رہا ہے اور اس کی اطاعت کا اقرار کر رہا ہے فحشا اور منکر میں مبتلا ہونا اس کی شان میں بےادبی ہے) اور (اسی طرح نماز کے سوا جتنے نیک کام ہیں سب پابندی کے لائق ہیں، کیونکہ وہ سب قولاً یا فعلاً اللہ کی یاد ہی ہیں) اور اللہ کی یاد بہت بڑی چیز ہے اور (اگر تم اللہ کی یاد میں غفلت کرو تو یہ بھی سن لو کہ) اللہ تعالیٰ تمہارے سب کاموں کو جانتا ہے (جیسا کرو گے ویسا بدلہ ملے گا۔ ) معارف و مسائل اُتْلُ مَآ اُوْحِيَ اِلَيْكَ ، سابقہ آیات میں چند انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتوں کا ذکر تھا، جن میں چند بڑے بڑے سرکش کفار اور ان پر طرح طرح کے عذابوں کا بیان تھا جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنین امت کے لئے تسلی بھی ہے کہ انبیاء سابقین نے مخالفین کی کیسی کیسی ایذاؤں پر صبر کیا اور اس کی تلقین بھی کہ تبلیغ و دعوت کے کام میں کسی حال میں ہمت نہیں ہارنا چاہئے۔ اصلاح خلق کا مختصر جامع نسخہ : مذکور الصدر آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دعوت الی اللہ کا ایک مختصر جامع نسخہ بتلایا گیا ہے، جس پر عمل کرنے سے پورے دین پر عمل کرنے کے راستے کھل جاتے ہیں اور اس کی راہ میں جو رکاوٹیں عادة پیش آتی ہیں وہ دور ہوجاتی ہیں، اس نسخہ اکسیر کے دو جزو ہیں، ایک تلاوت قرآن، دوسرے نماز کی اقامت، اور اس جگہ اصل مقصود تو یہی ہے کہ لوگوں کو ان دونوں چیزوں کا پابند کیا جائے لیکن ترغیب و تاکید کے لئے ان دونوں چیزوں کا حکم اولاً خود نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیا گیا ہے تاکہ امت کو اس پر عمل کرنے کی زیادہ رغبت ہو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عملی تعلیم سے ان کو خود عمل کرنا بھی آسان ہوجائے۔ ان میں تلاوت قرآن تو سب کاموں کی روح اور اصل بنیاد ہے، اس کے بعد دوسری چیز اقامت صلوة ہے جس کو تمام دوسرے فرائض اور اعمال سے ممتاز کر کے بیان کرنے کی یہ حکمت بھی بیان فرما دی کہ نماز خود اپنی ذات میں بھی بہت بڑی اہم عبادت اور دین کا عمود ہے اس کے ساتھ اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ جو شخص نماز کی اقامت کرلے تو نماز اس کو فحشاء اور منکر سے روک دیتی ہے۔ فحشاء ہر ایسے برے فعل یا قول کو کہا جاتا ہے جس کی برائی کھلی ہوئی اور ایسی واضح ہو کہ ہر عقل والا مومن ہو یا کافر اس کو برا سمجھے، جیسے زنا، قتل ناحق، چوری ڈاکہ وغیرہ اور منکر وہ قول و فعل ہے جس کے حرام و ناجائز ہونے پر اہل شرع کا اتفاق ہو، اس لئے ائمہ فقہاء کے اجتہادی اختلافات میں کسی جانب کو منکر نہیں کہا جاسکتا۔ فحشاء اور منکر کے دو لفظوں میں تمام جرائم اور ظاہر و باطنی گناہ آگئے، جو خود بھی فساد ہی فساد ہیں اور اعمال صالحہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہیں۔ نماز کا تمام گناہوں سے روکنے کا مطلب : متعدد مستند احادیث کی رو سے یہ مطلب ہے کہ اقامت صلوة میں بالخاصہ تاثیر ہے کہ جو اس کو ادا کرتا ہے اس سے گناہ چھوٹ جاتے ہیں بشرطیکہ صرف نماز پڑھنا نہ ہو، بلکہ الفاظ قرآن کے مطابق اقامت صلوة ہو۔ اقامت کے لفظی معنی سیدھا کھڑا کرنے کے ہیں، جس میں کسی طرف جھکاؤ نہ ہو۔ اس لئے اقامت صلوة کا مفہوم یہ ہوا کہ نماز کے تمام ظاہری اور باطنی آداب اس طرح ادا کرے جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عملی طور پر ادا کر کے بتلایا اور عمر بھر ان کی زبانی تلقین بھی فرماتے رہے کہ بدن اور کپڑے اور جائے نماز کی مکمل طہارت بھی ہو، پھر نماز جماعت کا پورا اہتمام بھی اور نماز کے تمام اعمال کو سنت کے مطابق بنانا بھی، یہ تو ظاہری آداب ہوئے۔ باطنی یہ کہ مکمل خشوع خضوع سے اس طرح اللہ کے سامنے کھڑا ہو کہ گویا وہ حق تعالیٰ سے عرض و معروض کر رہا ہے۔ اس طرح اقامت صلوة کرنے والے کو منجانب اللہ خود بخود توفیق اعمال صالحہ کی بھی ہوتی ہے اور ہر طرح کے گناہوں سے بچنے کی بھی اور جو شخص نماز پڑھنے کے باوجود گناہوں سے نہ بچا تو سمجھ لے کہ اس کی نماز ہی میں قصور ہے۔ جیسا کہ حضرت عمران بن حصین (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ اِنَّ الصَّلٰوةَ تَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ کا کیا مطلب ہے۔ آپ نے فرمایا من لم تنھہ صلوتہ عن الفحشآء والمنکر فلا صلوة لہ (رواہ ابن ابی حاتم بسندہ عن عمران بن حصین والطبرانی من حدیث ابی معاویة) یعنی جس شخص کو اس کی نماز نے فحشاء اور منکر سے نہ روکا اس کی نماز کچھ نہیں۔ اور حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لا صلوة لمن لم یطع الصلوة (رواہ ابن جریر بسندہ) یعنی اس شخص کی نماز ہی نہیں جس نے اپنی نماز کی اطاعت نہ کی اور نماز کی اطاعت یہی ہے کہ فحشاء اور منکر سے باز آجائے۔ اور حضرت ابن عباس نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں فرمایا کہ جس شخص کی نماز نے اس کو اعمال صالحہ پر عمل اور منکرات سے پرہیز پر آمادہ نہیں کیا تو ایسی نماز اس کو اللہ سے اور زیادہ دور کردیتی ہے۔ ابن کثیر نے ان تینوں روایتوں کو نقل کر کے ترجیح اس کو دی ہے کہ یہ احادیث مرفوعہ نہیں، بلکہ عمران بن حصین اور عبداللہ بن مسعود اور ابن عباس (رض) کے اقوال ہیں جو ان حضرات نے اس آیت کی تفسیر میں ارشاد فرمائے ہیں۔ اور حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ ایک شخص آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ فلاں آدمی رات کو تہجد پڑھتا ہے اور جب صبح ہوجاتی ہے تو چوری کرتا ہے، آپ نے فرمایا کہ عنقریب نماز اس کو چوری سے روک دے گی۔ (ابن کثیر) بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کے بعد وہ اپنے گناہ سے تائب ہوگیا۔ ایک شبہ کا جواب : یہاں بعض لوگ یہ شبہ کیا کرتے ہیں کہ ہم بہت سے لوگوں کو دیکھتے ہیں کہ نماز کے پابند ہونے کے باوجود بڑے بڑے گناہوں میں مبتلا رہتے ہیں جو بظاہر اس آیت کے ارشاد کے خلاف ہے۔ اس کے جواب میں بعض حضرات نے تو یہ فرمایا کہ آیت سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ نماز نمازی کو گناہوں سے منع کرتی ہے، لیکن یہ کیا ضروری ہے کہ جس کو کسی کام سے منع کیا جائے وہ اس سے باز بھی آجائے۔ آخر قرآن و حدیث سب لوگوں کو گناہ سے منع کرتے ہیں، مگر بہت سے لوگ اس منع کرنے کی طرف توجہ نہیں دیتے اور گناہ سے باز نہیں آتے۔ خلاصہ تفسیر مذکور میں یہی توجیہ لی گئی ہے۔ مگر اکثر حضرات مفسرین نے فرمایا کہ نماز کے منع کرنے کا مفہوم صرف حکم دینا نہیں بلکہ نماز میں بالخاصہ یہ اثر بھی ہے کہ اس کے پڑھنے والے کو گناہوں سے بچنے کی توفیق ہوجاتی ہے، اور جس کو توفیق نہ ہو تو غور کرنے سے ثابت ہوجائے گا کہ اس کی نماز میں کوئی خلل تھا اور اقامت صلوة کا حق اس نے ادا نہیں کیا، احادیث مذکورہ سے اسی مضمون کی تائید ہوتی ہے۔ وَلَذِكْرُ اللّٰهِ اَكْبَرُ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ ، یعنی اللہ کا ذکر بہت بڑا ہے، اور وہ تمہارے سب اعمال کو خوب جانتا ہے، یہاں ذکر اللہ کا یہ مفہوم بھی ہوسکتا ہے کہ بندے جب اللہ کا ذکر کرتے ہیں تو اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اپنے ذاکر بندوں کا ذکر فرشتوں کے مجمع میں کرتے ہیں (فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ ) اور یہ عبادت گزار بندوں کو اللہ کا یاد کرنا سب سے بڑی نعمت ہے۔ بہت سے صحابہ وتابعین سے اس جگہ ذکر اللہ کا یہی دوسرا مفہوم منقول ہے، ابن جریر اور ابن کثیر نے اسی کو ترجیح دی ہے اور اس مفہوم کے لحاظ سے اس میں اس طرف بھی اشارہ ہوگیا کہ نماز پڑھنے میں گناہوں سے نجات کا اصل سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اس کا ذکر فرشتوں میں کرتے ہیں اور اس کی برکت سے اس کو گناہوں سے نجات مل جاتی ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُتْلُ مَآاُوْحِيَ اِلَيْكَ مِنَ الْكِتٰبِ وَاَقِـمِ الصَّلٰوۃَ۝ ٠ۭ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہٰى عَنِ الْفَحْشَاۗءِ وَالْمُنْكَرِ۝ ٠ۭ وَلَذِكْرُ اللہِ اَكْبَرُ۝ ٠ۭ وَاللہُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ۝ ٤٥ تلو تَلَاهُ : تبعه متابعة ليس بينهم ما ليس منها، وذلک يكون تارة بالجسم وتارة بالاقتداء في الحکم، ومصد... ره : تُلُوٌّ وتُلْوٌ ، وتارة بالقراءة وتدبّر المعنی، ومصدره : تِلَاوَة وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] ( ت ل و ) تلاہ ( ن ) کے معنی کسی کے پیچھے پیچھے اس طرح چلنا کے ہیں کہ ان کے درمیان کوئی اجنبی کو چیز حائل نہ ہو یہ کہیں تو جسمانی طور ہوتا ہے اور کہیں اس کے احکام کا اتباع کرنے سے اس معنی میں اس کا مصدر تلو اور تلو آتا ہے اور کبھی یہ متا بعت کسی کتاب کی قراءت ( پڑھنے ) ۔ اور اس کے معانی سمجھنے کے لئے غور وفکر کرنے کی صورت میں ہوتی ہے اس معنی کے لئے اس کا مصدر تلاوۃ آتا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَالْقَمَرِ إِذا تَلاها [ الشمس/ 2] اور چاند کی قسم جب وہ سورج کا اتباع کرتا ہے ۔ وحی أصل الوحي : الإشارة السّريعة، ولتضمّن السّرعة قيل : أمر وَحْيٌ ، وذلک يكون بالکلام علی سبیل الرّمز والتّعریض، وقد يكون بصوت مجرّد عن التّركيب، وبإشارة ببعض الجوارح، وبالکتابة، وقد حمل علی ذلک قوله تعالیٰ عن زكريّا : فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] وقوله : وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] فوحيه إلى موسیٰ بوساطة جبریل، ووحيه تعالیٰ إلى هرون بوساطة جبریل وموسی، ( و ح ی ) الوحی کے اصل معنی جلدی سے اشارہ کرنا کے ہیں ۔ اور اس کے معنی سرعت کو متضمن ہو نیکی وجہ سے ہر تیز رفتار معاملہ کو امر وحی کہا جاتا ہے اور یہ وحی کبھی رمزوتعریض کے طور پر بذریعہ کلام کے ہوتی ہے اور کبھی صوت مجرد کی صورت میں ہوتی ہے یعنی اس میں ترکیب الفاظ نہیں ہوتی اور کبھی بذیعہ جوارح کے اور کبھی بذریعہ کتابت کے اس بنا پر آیت : ۔ فَخَرَجَ عَلى قَوْمِهِ مِنَ الْمِحْرابِ فَأَوْحى إِلَيْهِمْ أَنْ سَبِّحُوا بُكْرَةً وَعَشِيًّا[ مریم/ 11] پھر وہ عبادت کے حجرے سے نکل کر اپنی قوم کے پاس آئے تو ان سے اشارے سے کہا کہ صبح وشام خدا کو یاد کرتے رہو ۔ اور آیت : ۔ وَأَوْحَيْنا إِلى مُوسی وَأَخِيهِ [يونس/ 87] اور ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی کی طرف وحی بھیجی میں موسیٰ اور ان کے بھائی کی طرف یکساں قسم کی وحی بھیجنا مراد نہیں ہے بلکہ موسیٰ علیہ اسلام کی طر وحی تو حضرت جبریل کی وسا طت سے آتی تھی مگر ہارون (علیہ السلام) کی طرف حضرت موسیٰ اور جبریل (علیہ السلام) دونوں کی وساطت سے وحی کی جاتی ہے كتب والْكِتَابُ في الأصل اسم للصّحيفة مع المکتوب فيه، وفي قوله : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153] فإنّه يعني صحیفة فيها كِتَابَةٌ ، ( ک ت ب ) الکتب ۔ الکتاب اصل میں مصدر ہے اور پھر مکتوب فیہ ( یعنی جس چیز میں لکھا گیا ہو ) کو کتاب کہاجانے لگا ہے دراصل الکتاب اس صحیفہ کو کہتے ہیں جس میں کچھ لکھا ہوا ہو ۔ چناچہ آیت : يَسْئَلُكَ أَهْلُ الْكِتابِ أَنْ تُنَزِّلَ عَلَيْهِمْ كِتاباً مِنَ السَّماءِ [ النساء/ 153]( اے محمد) اہل کتاب تم سے درخواست کرتے ہیں ۔ کہ تم ان پر ایک لکھی ہوئی کتاب آسمان سے اتار لاؤ ۔ میں ، ، کتاب ، ، سے وہ صحیفہ مراد ہے جس میں کچھ لکھا ہوا ہو اقامت والْإِقَامَةُ في المکان : الثبات . وإِقَامَةُ الشیء : توفية حقّه، وقال : قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] أي : توفّون حقوقهما بالعلم والعمل، وکذلک قوله : وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] ولم يأمر تعالیٰ بالصلاة حيثما أمر، ولا مدح بها حيثما مدح إلّا بلفظ الإقامة، تنبيها أنّ المقصود منها توفية شرائطها لا الإتيان بهيئاتها، نحو : أَقِيمُوا الصَّلاةَ [ البقرة/ 43] ، في غير موضع وَالْمُقِيمِينَ الصَّلاةَ [ النساء/ 162] . وقوله : وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء/ 142] فإنّ هذا من القیام لا من الإقامة، وأمّا قوله : رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم/ 40] أي : وفّقني لتوفية شرائطها، وقوله : فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة/ 11] فقد قيل : عني به إقامتها بالإقرار بوجوبها لا بأدائها، والمُقَامُ يقال للمصدر، والمکان، والزّمان، والمفعول، لکن الوارد في القرآن هو المصدر نحو قوله : إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان/ 66] ، والمُقَامةُ : لإقامة، قال : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر/ 35] نحو : دارُ الْخُلْدِ [ فصلت/ 28] ، وجَنَّاتِ عَدْنٍ [ التوبة/ 72] وقوله : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب/ 13] ، من قام، أي : لا مستقرّ لكم، وقد قرئ : لا مقام لَكُمْ «1» من : أَقَامَ. ويعبّر بالإقامة عن الدوام . نحو : عَذابٌ مُقِيمٌ [هود/ 39] ، وقرئ : إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان/ 51] ، أي : في مکان تدوم إقامتهم فيه، وتَقْوِيمُ الشیء : تثقیفه، قال : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین/ 4] الاقامتہ ( افعال ) فی المکان کے معنی کسی جگہ پر ٹھہرنے اور قیام کرنے کے ہیں اوراقامتہ الشیی ( کسی چیز کی اقامت ) کے معنی اس کا پورا پورا حق ادا کرنے کے ہوتے ہیں چناچہ قرآن پاک میں ہے : ۔ قُلْ يا أَهْلَ الْكِتابِ لَسْتُمْ عَلى شَيْءٍ حَتَّى تُقِيمُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 68] کہو کہ اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ اور انجیل ۔۔۔۔۔ کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے یعنی جب تک کہ علم وعمل سے ان کے پورے حقوق ادا نہ کرو ۔ اسی طرح فرمایا : ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقامُوا التَّوْراةَ وَالْإِنْجِيلَ [ المائدة/ 66] اور اگر وہ توراۃ اور انجیل کو ۔۔۔۔۔ قائم کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک میں جہاں کہیں نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یا نماز یوں کی تعریف کی گئی ہے ۔ وہاں اقامتہ کا صیغۃ استعمال کیا گیا ہے ۔ جس میں اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ نماز سے مقصود محض اس کی ظاہری ہیبت کا ادا کرنا ہی نہیں ہے بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے اسی بنا پر کئی ایک مقام پر اقیموالصلوۃ اور المتقین الصلوۃ کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَإِذا قامُوا إِلَى الصَّلاةِ قامُوا كُسالی[ النساء/ 142] اوت جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو سست اور کاہل ہوکر ۔ میں قاموا اقامتہ سے نہیں بلکہ قیام سے مشتق ہے ( جس کے معنی عزم اور ارادہ کے ہیں ) اور آیت : ۔ رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلاةِ [إبراهيم/ 40] اے پروردگار مجھ کو ( ایسی توفیق عنایت ) کر کہ نماز پڑھتا رہوں ۔ میں دعا ہے کہ الہٰی / مجھے نماز کو پورے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرما اور آیت کریمہ : ۔ فَإِنْ تابُوا وَأَقامُوا الصَّلاةَ [ التوبة/ 11] پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے ۔۔۔۔۔۔۔ لگیں ۔ کی تفسیر میں بعض نے کہا ہے کہ یہاں اقامۃ سے نماز کا ادا کرنا مراد نہیں ہے بلکہ اس کے معنی اس کی فرضیت کا اقرار کرنے کے ہیں ۔ المقام : یہ مصدر میمی ، ظرف ، مکان ظرف زمان اور اسم مفعول کے طور پر استعمال ہوتا ہے ۔ لیکن قرآن پاک میں صرف مصدر میمی کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ چناچہ فرمایا : ۔ إِنَّها ساءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقاماً [ الفرقان/ 66] اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے ۔ اور مقامتہ ( بضم الیم ) معنی اقامتہ ہے جیسے فرمایا : الَّذِي أَحَلَّنا دارَ الْمُقامَةِ مِنْ فَضْلِهِ [ فاطر/ 35] جس نے ہم کو اپنے فضل سے ہمیشہ کے رہنے کے گھر میں اتارا یہاں جنت کو دارالمقامتہ کہا ہے جس طرح کہ اسے دارالخلد اور جنات عمدن کہا ہے ۔ اور آیت کریمہ : لا مقام لَكُمْ فَارْجِعُوا[ الأحزاب/ 13] یہاں تمہارے لئے ( ٹھہرنے کا ) مقام نہیں ہے تو لوٹ چلو ۔ میں مقام کا لفظ قیام سے ہے یعنی تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے اور ایک قرات میں مقام ( بضم المیم ) اقام سے ہے اور کبھی اقامتہ سے معنی دوام مراد لیا جاتا ہے ۔ جیسے فرمایا : ۔ عَذابٌ مُقِيمٌ [هود/ 39] ہمیشہ کا عذاب ۔ اور ایک قرات میں آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي مَقامٍ أَمِينٍ «2» [ الدخان/ 51] بیشک پرہیزگار لوگ امن کے مقام میں ہوں گے ۔ مقام بضمہ میم ہے ۔ یعنی ایسی جگہ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ۔ تقویم الشی کے معنی کسی چیز کو سیدھا کرنے کے ہیں ۔ چناچہ فرمایا : لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ [ التین/ 4] کہ ہم نے انسان کو بہت اچھی صورت میں پیدا کیا ۔ اس میں انسان کے عقل وفہم قدوقامت کی راستی اور دیگر صفات کی طرف اشارہ ہے جن کے ذریعہ انسان دوسرے حیوانات سے ممتاز ہوتا ہے اور وہ اس کے تمام عالم پر مستولی اور غالب ہونے کی دلیل بنتی ہیں ۔ صلا أصل الصَّلْيُ الإيقادُ بالنار، ويقال : صَلِيَ بالنار وبکذا، أي : بلي بها، واصْطَلَى بها، وصَلَيْتُ الشاةَ : شویتها، وهي مَصْلِيَّةٌ. قال تعالی: اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] والصَّلاةُ ، قال کثير من أهل اللّغة : هي الدّعاء، والتّبريك والتّمجید يقال : صَلَّيْتُ عليه، أي : دعوت له وزكّيت، وقال عليه السلام : «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] وصَلَاةُ اللهِ للمسلمین هو في التّحقیق : تزكيته إيّاهم . وقال : أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَواتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ [ البقرة/ 157] ، ومن الملائكة هي الدّعاء والاستغفار، كما هي من النّاس «3» . قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] والصَّلَاةُ التي هي العبادة المخصوصة، أصلها : الدّعاء، وسمّيت هذه العبادة بها کتسمية الشیء باسم بعض ما يتضمّنه، والصَّلَاةُ من العبادات التي لم تنفکّ شریعة منها، وإن اختلفت صورها بحسب شرع فشرع . ولذلک قال : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] ( ص ل ی ) الصلیٰ ( س) کے اصل معنی آگ جلانے ہے ہیں صلی بالنار اس نے آگ کی تکلیف برداشت کی یا وہ آگ میں جلا صلی بکذا اسے فلاں چیز سے پالا پڑا ۔ صلیت الشاۃ میں نے بکری کو آگ پر بھون لیا اور بھونی ہوئی بکری کو مصلیۃ کہاجاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : اصْلَوْهَا الْيَوْمَ [يس/ 64] آج اس میں داخل ہوجاؤ ۔ الصلوۃ بہت سے اہل لغت کا خیال ہے کہ صلاۃ کے معنی دعا دینے ۔ تحسین وتبریک اور تعظیم کرنے کے ہیں ۔ چناچہ محاورہ ہے صلیت علیہ میں نے اسے دعادی نشوونمادی اور بڑھایا اور حدیث میں ہے (2) کہ «إذا دعي أحدکم إلى طعام فلیجب، وإن کان صائما فَلْيُصَلِّ» أي : ليدع لأهله، جب کسی کو کھانے پر بلا یا جائے تو اسے چاہیے کہ قبول کرلے اگر روزہ دار ہے تو وہ انکے لئے دعاکرکے واپس چلا آئے اور قرآن میں ہے وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ [ التوبة/ 103] اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو کہ تمہاری دعا ان کے لئے موجب تسکین ہے ۔ اور انسانوں کی طرح فرشتوں کی طرف سے بھی صلاۃ کے معنی دعا اور استغفار ہی آتے ہیں چناچہ فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِ [ الأحزاب/ 56] بیشک خدا اور اس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں ۔ اور الصلوۃ جو کہ ایک عبادت مخصوصہ کا نام ہے اس کی اصل بھی دعاہی ہے اور نماز چونکہ دعا پر مشتمل ہوتی ہے اسلئے اسے صلوۃ کہاجاتا ہے ۔ اور یہ تسمیۃ الشئی باسم الجزء کے قبیل سے ہے یعنی کسی چیز کو اس کے ضمنی مفہوم کے نام سے موسوم کرنا اور صلاۃ ( نماز) ان عبادت سے ہے جن کا وجود شریعت میں ملتا ہے گو اس کی صورتیں مختلف رہی ہیں ۔ چناچہ قرآن میں ہے : إِنَّ الصَّلاةَ كانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتاباً مَوْقُوتاً [ النساء/ 103] بیشک نماز مومنوں مقرر اوقات میں ادا کرنا فرض ہے ۔ نهى النهي : الزّجر عن الشیء . قال تعالی: أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] ( ن ھ ی ) النهي کسی چیز سے منع کردینا ۔ قرآن میں ہے : أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهى عَبْداً إِذا صَلَّى[ العلق/ 9- 10] بھلاتم نے اس شخص کو دیکھا جو منع کرتا ہے ( یعنی ) ایک بندے کو جب وہ نماز پڑھنے لگتا ہے ۔ فحش الفُحْشُ والفَحْشَاءُ والفَاحِشَةُ : ما عظم قبحه من الأفعال والأقوال، وقال : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] ( ف ح ش ) الفحش والفحشاء والفاحشۃ اس قول یا فعل کو کہتے ہیں جو قباحت میں حد سے بڑھا ہوا ہو ۔ قرآن میں ہے : إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ [ الأعراف/ 28] کہ خدا بےحیائی کے کام کرنے کا حکم ہر گز نہیں دیتا ۔ مُنْكَرُ والمُنْكَرُ : كلُّ فِعْلٍ تحكُم العقولُ الصحیحةُ بقُبْحِهِ ، أو تتوقَّفُ في استقباحِهِ واستحسانه العقولُ ، فتحکم بقبحه الشّريعة، وإلى ذلک قصد بقوله : الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة/ 112] ، كانُوا لا يَتَناهَوْنَ عَنْ مُنكَرٍ فَعَلُوهُ [ المائدة/ 79] ، وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] ، وَتَأْتُونَ فِي نادِيكُمُ الْمُنْكَرَ [ العنکبوت/ 29] وتَنْكِيرُ الشَّيْءِ من حيثُ المعنی جعْلُه بحیث لا يُعْرَفُ. قال تعالی: نَكِّرُوا لَها عَرْشَها[ النمل/ 41] وتعریفُه جعْلُه بحیث يُعْرَفُ. اور المنکر ہر اس فعل کو کہتے ہیں جسے عقول سلیمہ قبیح خیال کریں یا عقل کو اس کے حسن وقبیح میں تو قف ہو مگر شریعت نے اس کے قبیح ہونے کا حکم دیا ہو ۔ چناچہ آیات : ۔ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ التوبة/ 112] نیک کاموں کا امر کرنے والے اور بری باتوں سے منع کرنے والے ۔ كانُوا لا يَتَناهَوْنَ عَنْ مُنكَرٍ فَعَلُوهُ [ المائدة/ 79] اور برے کاموں سے جو وہ کرتے تھے ایک دوسرے کو روکتے نہیں تھے ۔ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ [ آل عمران/ 104] اور بری باتوں سے منع کرتے ۔ وَتَأْتُونَ فِي نادِيكُمُ الْمُنْكَرَ [ العنکبوت/ 29] اور اپنی مجلسوں میں ناپسندیدہ کام کرتے ہو ۔ تنکر الشئی کے معنی کسی چیز بےپہچان کردینے کے ہیں قرآن پاک میں ہے : ۔ نَكِّرُوا لَها عَرْشَها[ النمل/ 41] اس کے تخت کی صورت بد ل دو ۔ ذكر الذِّكْرُ : تارة يقال ويراد به هيئة للنّفس بها يمكن للإنسان أن يحفظ ما يقتنيه من المعرفة، وهو کالحفظ إلّا أنّ الحفظ يقال اعتبارا بإحرازه، والذِّكْرُ يقال اعتبارا باستحضاره، وتارة يقال لحضور الشیء القلب أو القول، ولذلک قيل : الذّكر ذکران : ذكر بالقلب . وذکر باللّسان . وكلّ واحد منهما ضربان : ذكر عن نسیان . وذکر لا عن نسیان بل عن إدامة الحفظ . وكلّ قول يقال له ذكر، فمن الذّكر باللّسان قوله تعالی: لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ، ( ذک ر ) الذکر ۔ یہ کبھی تو اس ہیت نفسانیہ پر بولا جاتا ہے جس کے ذریعہ سے انسان اپنے علم کو محفوظ رکھتا ہے ۔ یہ قریبا حفظ کے ہم معنی ہے مگر حفظ کا لفظ احراز کے لحاظ سے بولا جاتا ہے اور ذکر کا لفظ استحضار کے لحاظ سے اور کبھی ، ، ذکر، ، کا لفظ دل یاز بان پر کسی چیز کے حاضر ہونے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس بنا پر بعض نے کہا ہے کہ ، ، ذکر ، ، دو قسم پر ہے ۔ ذکر قلبی اور ذکر لسانی ۔ پھر ان میں کسے ہر ایک دو قسم پر ہے لسیان کے بعد کسی چیز کو یاد کرنا یا بغیر نسیان کے کسی کو ہمیشہ یاد رکھنا اور ہر قول کو ذکر کر کہا جاتا ہے ۔ چناچہ ذکر لسانی کے بارے میں فرمایا۔ لَقَدْ أَنْزَلْنا إِلَيْكُمْ كِتاباً فِيهِ ذِكْرُكُمْ [ الأنبیاء/ 10] ہم نے تمہاری طرف ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمہارا تذکرہ ہے ۔ علم العِلْمُ : إدراک الشیء بحقیقته، ( ع ل م ) العلم کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا صنع الصُّنْعُ : إجادةُ الفعل، فكلّ صُنْعٍ فِعْلٌ ، ولیس کلّ فعل صُنْعاً ، ولا ينسب إلى الحیوانات والجمادات کما ينسب إليها الفعل . قال تعالی: صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل/ 88] ، وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود/ 38] ، ( ص ن ع ) الصنع ( ف) کے معنی کسی کام کو ( کمال مہارت سے ) اچھی طرح کرنے کے ہیں اس لئے ہر صنع کو فعل کہہ سکتے ہیں مگر ہر فعل کو صنع نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی لفظ فعل کی طرح حیوانات اور جمادات کے لئے بولا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ صُنْعَ اللَّهِ الَّذِي أَتْقَنَ كُلَّ شَيْءٍ [ سورة النمل/ 88] یہ خدا کی صنعت کاری ہے جس نے ہر چیز کو نہایت مہارت سے محکم طور پر بنایا ۔ وَيَصْنَعُ الْفُلْكَ [هود/ 38] تو نوح (علیہ السلام) نے کشتی بنائی شروع کردی ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

نماز بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے قول باری ہے : (ان الصلوٰۃ تنھی عن الفحشاء والمنکر۔ یقینا نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ ) حضرت ابن مسعود (رض) اور حضرت ابن عباس (رض) نے روایت کی ہے کہ نماز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتی ہے۔ حضرت ابن مسعود (رض) کا قول ہے۔ ” نماز صرف اس شخص کو فائدہ دیتی ... ہے جو اس کی اطاعت کرتا ہے۔ “ ابوبکر حبصاص کہتے ہیں کہ اس سے نماز کے موجبات کو قائم رکھنا مراد ہے یعنی نماز کی طرف دل اور اعضاء وجوارح سے توجہ کرنا۔ نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ یہ اس لئے کہا گیا کہ نماز ایسے مخصوص افعال واذکار پر مشتمل ہوتی ہے جن کے درمیان دنیاوی امور خلل انداز نہیں ہوتے۔ کوئی دوسرا فریضہ اس مرتبے کا نہیں ہے۔ اس لئے یہ منکرات سے روکتی اور معروف کی طرف بایں معنی بلاتی ہے کہ ہر اس شخص کے لئے یہ اس کا مقتضیٰ اور موجب سے جو نماز کا حق ادا کرتا ہے ۔ حسن سے مروی ہے کہ ” جس شخص کی نماز اسے فحش اور برے کاموں سے نہیں روکتی وہ اللہ سے اور زیادہ دور ہوجاتا ہے۔ ایک قول کے مطابق حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا کہ فلاں شخص رات کے وقت نمازیں پڑھتا اور دن کے وقت چوریاں کرتا ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” شاید اس کی نماز اسے اس کام سے روک دے۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : (حبب الی من دتیا کم الثلاث النساء والطیب وجعلت قرۃ عینی فی الصلوتہ۔ تمہاری دنیا کی تین چیزوں سے مجھے محبت ہے عورتوں سے، خوشبو سے اور نماز سے جو کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے) بعض سلف سے منقول ہے کہ نماز آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک نہیں تھی البتہ جب آپ نماز میں داخل ہوجاتے تو آپ کو ایسی باتیں نظر آتیں جو آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جاتیں۔ قول باری ہے : (ولذکر اللہ اکبر۔ اور اللہ کا ذکر اس سے بھی بڑی چیز ہے) حضرت ابن عباس (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت سلیمان (رض) اور مجاہد کا قول ہے کہ ” اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت کے ساتھ یاد کرتا ہے یہ اس سے بڑھ کر ہے جو تم اسے اس کی فرماں برداری کے ذریعے یاد کرتے ہو۔ “ حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے یہ بھی مروی ہے نیز حضرت ام الدرداء (رض) اور مجاہد سے بھی کہ بندے کا اپنے رب کو یاد کرنا اس کے تمام اعمال سے افضل ہے۔ سدی کا قول ہے کہ نماز کے اندر اللہ کی یاد نماز سے بھی بڑی چیز ہوتی ہے۔  Show more

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان لوگوں کو قرآن کریم پڑھ کر سنایا کریں اور پانچوں نمازوں کی پابندی رکھیے کیونکہ نماز گناہ اور برے کاموں سے روک ٹوک کرتی رہتی ہے یعنی کم از کم جب تک آدمی نماز پڑھتا ہے تو نماز ایسی چیزوں سے روکے رکھتی ہے جن کا شریعت اور سنت میں کہیں تذکرہ نہیں اور تم جو نماز کے ذ... ریعے سے اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہو اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کا مغفرت فرمانا اور ثواب عطا کرنا بہت بڑی چیز ہے اور جو کچھ تم نیکیاں اور برائیاں کرتے ہو اللہ تعالیٰ سب سے واقف ہے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

اب یہاں سے اس سورت کا آخری حصہ شروع ہو رہا ہے جو تین رکوعات پر مشتمل ہے۔ جیسا کہ آغاز میں بتایا گیا ہے ‘ سورت کے اس حصے میں دو مضامین ( مشرکین مکہ اور اہل ایمان سے خطاب) اس انداز میں متوازی چل رہے ہیں جیسے ایک رسی کی دو لڑیاں آپس میں گندھی ہوئی ہوں۔ قرآن کے اس اسلوب کے بارے میں پہلے بھی کئی بار ذکر...  ہوچکا ہے کہ مدنی سورتوں میں اہل ایمان سے خطاب کے لیے عام طور پر یٰاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوْا کا صیغہ آیا ہے ‘ جبکہ مکی سورتوں میں اہل ایمان کو براہ راست مخاطب کرنے کے بجائے عموماً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وساطت سے مخاطب کیا گیا ہے۔ البتہ اس سورت کی آیت ٥٦ میں یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کے الفاظ میں مسلمانوں سے براہ راست خطاب بھی ہے۔ بہر حال آئندہ آیات میں اہل ایمان سے خطاب کے دوران ان لوگوں کو بہت اہم ہدایات دی گئی ہیں جو غلبۂ دین کی جدوجہد میں مصروف ہوں اور اس راستے میں مصائب و مشکلات کا سامنا کر رہے ہوں۔ ان ہدایات کی تعداد دس کے قریب ہے جن میں سے پہلی اور سو ہدایات کے برابر ایک ہدایت یہ ہے : آیت ٤٥ (اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ ) ” سورۃ الکہف کی آیت ٢٧ میں بھی یہی ہدایت دی گئی ہے : (وَاتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنْ کِتَابِ رَبِّکَ ط) ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ تلاوت کیجیے جو آپ کی طرف وحی کی گئی ہے آپ کے رب کی کتاب میں سے “۔ تقرب الی اللہ کا سب سے بڑا ذریعہ قرآن حکیم ہے۔ چناچہ سورة آل عمران کی آیت ١٠٣ میں اہل ایمان کو قرآن سے چمٹ جانے کا حکم بایں الفاظ دیا گیا ہے : (وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْاص) ” اور مضبوطی سے تھام لو اللہ کی رسی کو سب مل کر اور آپس میں تفرقہ مت ڈالو ! “ حضرت ابوسعید خدری (رض) کی روایت کردہ یہ حدیث اس مضمون کو مزید واضح کرتی ہے : (کِتَاب اللّٰہِ ھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَمْدُوْدُ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الْاَرْضِ ) (١) ” کتاب اللہ ہی اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے ۔ “ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس فرمان کے مطابق قرآن ہی ” حبل اللہ “ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سورة آل عمران کی مذکورہ آیت میں مضبوطی سے پکڑنے کا حکم دیا ہے۔ چناچہ قرآن کی تلاوت کرنے اور اس کی تعلیم و تفہیم میں مشغول رہنے سے بندۂ مؤمن کا اللہ تعالیٰ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے اور اللہ پر اس کے یقین اور توکل کی کیفیت میں پختگی آتی ہے۔ اسی سے ایک بندۂ مؤمن کو صبر و استقامت کی وہ دولت نصیب ہوتی ہے جو باطل کے مقابلے میں اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے : (وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ الاَّ باللّٰہِ ) (النحل : ١٢٧) ” اور (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) آپ صبر کیجیے اور آپ کا صبر تو اللہ ہی کے سہارے پر ہے “۔ چناچہ راہ حق کے مسافروں کو یہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلی ہدایت یہی دی گئی ہے کہ قرآن کی تلاوت کو اپنے شبانہ روز کے معمول میں شامل رکھو ! اس سے تمہارا تعلق مع اللہ مضبوط ہوگا اور پھر اسی تعلق کے سہارے حق و باطل کی کشا کش میں تمہیں استقامت نصیب ہوگی۔ (وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ ط) ” اللہ تعالیٰ کے ہاں نماز کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر پہلی وحی میں ہی اس کی تاکید کردی گئی تھی : (وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ ) ( طٰہٰ ) ” اور نماز قائم کرو میرے ذکر کے لیے ۔ “ (وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ ط) ” یہ گویا اوپر دی گئی پہلی ہدایت کے بارے میں مزید وضاحت ہے۔ تلاوت قرآن اور نماز دونوں اللہ کے ذکر ہی کے ذرائع ہیں ‘ بلکہ قرآن کو تو خود اللہ تعالیٰ نے سورة الحجر میں ” الذکر “ کا نام دیا ہے : (اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ) ” یقیناً ہم نے ہی یہ ذکر نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں “۔ جب کہ سورة طٰہٰ کی مذکورہ بالا آیت (آیت ١٤) میں قیام نماز کا مقصد بھی یہی بتایا گیا ہے کہ نماز اللہ کے ذکر کے لیے قائم کرو۔ اس کے علاوہ ادعیہ ماثورہ بھی اللہ کے ذکر کا ذریعہ ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں ہر عمل اور ہر موقع کی دعا سکھائی ہے۔ مثلاً گھر سے نکلنے کی دعا ‘ گھر میں داخل ہونے کی دعا ‘ بیت الخلاء میں جانے کی دعا ‘ باہر آنے کی دعا ‘ شیشہ دیکھنے کی دعا ‘ کپڑے بدلنے کی دعا۔ یعنی ان دعاؤں کو زندگی کا معمول بنا لینے سے ہر لحظہ ‘ ہر قدم اور ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ آپ کے ذہن اور دل کا رشتہ قائم رہتا ہے۔ فرض نمازوں کے بعد تسبیح فاطمہ (٣٣ بار سبحان اللہ ‘ ٣٣ بار الحمدللہ اور ٣٤ بار اللہ اکبر) اور دوسرے اذکار کا بھی احادیث میں ذکر ملتا ہے۔ گویا یہ سب اللہ کے ذکر کی مختلف شکلیں ہیں ‘ لیکن سب سے بڑا اور سب سے اعلیٰ ذکر قرآن مجید کی تلاوت ہے۔ (وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ ) ” اے مسلمانو ! یہ یقین اپنے دلوں میں پختہ کرلو کہ اللہ تمہاری ہر حرکت ‘ ہر عمل بلکہ تمہارے خیالات اور تمہاری نیتوں تک سے باخبر ہے ۔۔ اس کے بعد دوسری ہدایت :  Show more

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

77 The address apparently is directed to the Holy Prophet but, in fact, it is meant for all the believers. Until now they were being counselled patience and reliance on Allah to brave the extreme trying conditions in which they found themselves and the persecutions they were being subjected to on account of their faith. Now they are being told to recite the Qur'an and establish the Salat as a prac... tical device, for these are the two things which endow a believer with a strong character and a wonderful capacity by which he can not only brave successfully the most violent storms of evil and falsehood but can even subdue them. But man can acquire this power from the recitation of the Qur'an and the Prayer only when he does not retrain content with the mere recital of the words but also understands well the Qur'anic teachings and absorbs them in his soul, and his Prayer does not remain confined to physical movements but becomes the very function of his heart and the motive force for his morals and character. The desired quality of the Prayer is being mentioned by the Qur'an itself in the next sentence. As for its recitation, one should know that the recitation which does not reach the heart beyond the throat, cannot even give tnan enough power to remain steadfast to his faith, not to speak of enabling him to withstand the furies of unbelief. About such people, a Hadith says: "They will recite the Qur'an, but the Qur'an will not go beyond their throats; they will leave the Faith just as the arrow leaves the bow." (Bukhari, Muslim, Mu'atta`). As a matter of fact, the recitation which dces not effect any change in a man's way of thinking, and his morals and character, and he goes on doing what the Qur'an forbids, is not the recitation of a believer at all. About such a one the Holy Prophet has said: ;'He who makes lawful what the Qur'an has declared unlawful, has not believed in the Qur'an at all." (Tirmidhi, on the authority of Suhaib Rumi). Such a recitation dces not reform and strengthen a maws self and spirit, but makes him even more stubborn against Allah and impudent before his own conscience, and destroys his character altogether. For the case of the person who believes in the Qur'an as a Divine Book, reads it and comes to know what his God has enjoined, and then goes on violating His injunctions, is of the culprit, who commits a crime not due to ignorance but after full knowledge of the law. The Holy Prophet has elucidated this point in a brief sentence, thus: "The Qur'an is a testimony in your favour as well as against you." (Muslim). That is, "If you follow the Qur'an rightly it is a testimony in your favour. Whenever you are called to account for your deeds, here or in the hereafter, you can produce the Qur'an as a testimony in your defence, saying that whatever you did was in accordance with this Book. If what you did was precisely according to it, no jurist in the world will be able to punish you, nor will God in the Hereafter hold you accountable for it. But if this Book has reached you, andyou have read it and found out what your Lord demands from you, what He enjoins and what He forbids, and then you adopt an attitude opposed to it, then this Book will be a testimony against you. It will further strengthen the criminal case against you in the Court of God. Then it will in no way be possible for you to escape the punishment, or receive a light punishment, by making the excuse of ignorance. " 78 This is an important characteristic out of the many characteristics of the Prayer, which has been presented here prominently in view of its relevance to the context. To counter the severe storm of opposition and resistance that the Muslims were experiencing in Makkah, they stood in need of a moral force rather than any material power. To bring about the moral force and develop it suitably two practical devices were pointed out in the first instance, the recitation of the Qur'an and the establishment of the Salat. Now they are being told that the establishment of the Salat is the means through which they can get rid of those evils in which they themselves had been involved before they embraced Islam and in which the non-Muslim Arabs and the non-Arab world around them were involved at that tithe. With a little thinking one can easily understand why this special advantage of the Prayer has been particularly mentioned here. Evidently, getting rid of the moral evils is not only useful insofar as it is beneficial for those who attain the moral purity, both here and in the Hereafter, but its inevitable advantage is that it gives them unique superiority over those who might be involved in diverse moral evils, and who might be exerting their utmost to sustain the impure system of ignorance, which nourishes those evils, against the efforts of the morally pure people. Indecent and evil acts are those which man by nature abhors, and which have always been held as evil in principle by the people of every community and society, however depraved and perverted practically. The Arab society in the days of the revelation of the Qur'an was no exception to this. Those people also were aware of •.he moral virtues and the evils: they valued the good above the evil and there might be none among them, who regarded the evil as identical with the good, or depreciated good. Under such conditions, in a perverted society like that, the emergence of a movement which revolutionised morally members of the same society itself as soon as they came into contact with it, and raised them in character high above their contemporaries, inevitably had widespread effects. The common Arabs could not possibly fail to feel the moral impact of the movement, which eradicated evils and promoted goodness, and instead go on following those who were themselves morally corrupt and were fighting to sustain the system of ignorance, which had been nourishing those evils since centuries. That is why the Qur'an at that time exhorted the Muslims to establish Sa/at instead of urging them to collect material resources and force and strength that could win over the people's hearts and defeat the enemy without any material force. The virtue of the Prayer that has been mentioned here has two aspects: its essential and inseparable quality that it restrains from evil and indecent acts, and its desired quality that the one who performs it should in actual fact refrain from evil and indecent acts. As for the first quality the Prayer does restrain people from the evils. Anyone who ponders a little over the nature of the Prayer, will admit that of aII the checks and brakes that can be put on man to restrain him from the evils, the Prayer can be the most effective. After all, what check could be more effective than this that man should be called upon five times a day for the remembrance of Allah and made to remind himself again and again that he is not wholly free and independent in this world but is the servant of One God, and his God is He Who is aware of his open as well as hidden acts, even of the most secret aims and intentions of his heart, and a time will surely come when he will have to account for all his deeds before his God. Then he is not only reminded of this but is given practical training at every Prayer time that he should not disobey any of his God's Commands even secretly. From the time that he stands up for the Prayer till its completion man has to perform continuously certain acts in which there is no third person, besides him and his God, who can know whether he has obeyed God's law or , disobeyed it. For instance, if the man's wudu (state of ablutions ) has become void and he stands up for the Prayer, there ca.. be no one, besides him and God, who will know that he is no longer in the state of wudu. If the man has expressed no intention of the Prayer but just goes on performing all the required movements and recites poetry, for instance, instead of the prescribed texts quietly, there is none, besides him and his God who can be aware of the secret that he has not, in fact, performed his Prayer at all. Notwith standing this, if a person offers the Prayer five times a day, fulfilling faithfully aII the conditions of the Divine law in respect of the cleanliness of the body and dress, and the essentials of the Prayer and its recitation, etc. it means that through this Prayer his conscience is being awakened to life several times a day, he is being helped to-become a responsible and dutiful person, and he is being practically trained that he should, under his own urge of obedience, abide by the law which he has believed in openly as well as secretly, regardless whether there is any external force to make him abide by it or not, and whether the people of the world have any knowledge of his intentions and deeds or not. Thus considered, one cannot help admitting that the Prayer not only restrains man from the evils and indecencies, but, in fact, there is no other method of training in the world, which may be so effective as the Prayer is in restraining man from the evils. As for the question whether or not man in actual fact refrains from the evils even after attendance at the Prayer, this depends upon the man himself, who is undergoing training for self-reform. If he has the intention to benefit from it, and endeavours for it, the reformatory effects of the Prayer will certainly have their impact on him. Otherwise, evidently, no reformatory device in the world can be effective with a person, who is not prepared to receive any impact of it, or tries to avoid its impact intentionally. This can be explained by an example. The essential quality of food is to nourish the body and develop it. But this advantage can be had only when food is allowed to be assimilated. If a person vomits what he eats after every meal, his food cannot profit him in any way. Just as, keeping such a person in view, one cannot say that food is not nutritious for the body, because so-and-so is becoming a skeleton in spite of eating food, so can no one present the example of an unrighteous offerer of the Prayer and say that the Prayer dces not restrain from the evils, because so-and-so is unrighteous in spite of his Prayer. Just as about such a person it will be apt to say that he dces not offer the Prayer at all, so about the person who vomits everything he eats, it will be apt to say that he does not eat his food at all. Precisely the same thing has been reported from the Holy Prophet and some great Companions and their followers. `Imran bin Husain reports that the Holy Prophet said: "He Whose Prayer did not restrain him from the evil and indecent acts, offered no Prayer at all." (Ibn Abi Hatim). -Ibn `Abbas has reported the Holy Prophet as saying: "The Prayer which did not restrain a person from the evil and indecent acts, led him further away from Allah." (Ibn Abi Hatim, Tabarani). A Hadith containing the same theme has been reported by Hasan Basri directly from the Holy Prophet (Ibn Jarir, Baihaqi). Another Hadith reported on the authority of Ibn Mas`ud is to the effect: "He who did not obey the Prayer, offered no Prayer at all, and obedience to the Prayer is that one should refrain from the evil and indecent acts." (Ibn Jarir, Ibn Abi Hatim). Several sayings to the same effect have been reported on the authority of 'Abdullah bin Mas`ud, `Abdullah bin `Abbas, Hasan Basri, Qatadah and A`amash, etc. Imam Ja`far Sadiq has said: "He who wants to know whether his Prayer has been accepted or not, should see how far his Prayer has restrained him from the evil and indecent acts. If he has been restrained from the evils, his Prayer has been accepted." (Ruh al Ma `ani). 79 This can have several meanings: (1) "That the remembrance of Allah (i.e. Prayer) is a thing of much higher value: it not only restrains from the evils, but, over and above that, it induces people to act righteously and urges them to excel one another in good acts," (2) "that Allah's remembrance in itself is a great thing: it is the best of acts: no act of man is greater in value than this. `(3) "that Allah's remembrance of you is a greater thing than your remembrance of Him. Allah has said in the Qur'an: "So remember Me: I will remember you'." (Al-Baqarah: 156). Thus, when the servant remembers Allah in the Prayer, inevitably AIIah also will remember him, and the merit of Allah's remembering the servant is certainly greater than the servant's remembering Allah. Besides these three meanings, there is another subtle meaning also, which the wife of Hadrat Abud Darda has explained. She says, "Allah's remembrance is not restricted to the Prayer, but, its sphere is much vaster. When a man observes a fast, or pays the Zakat or performs a righteous act, he inevitably remembers Allah. That is why the righteous act emanates from him. Likewise, when a man refrains from an evil act when an opportunity exists for it, even this also is the result of Allah's remembrance. Thus, the remembrance of Allah pervades the entire life of a believer."  Show more

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر :77 خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے ، مگر دراصل مخاطب تمام اہل ایمان ہیں ۔ ان پر جو ظلم و ستم اس وقت توڑے جارہے تھے اور ایمان پر قائم رہنے میں جن شدید حوصلہ شکن مشکلات سے ان کو سابقہ پیش آرہا تھا ، ان کا مقابلہ کرنے کے لیے پچھلے چار رکوعوں میں صبر وثبات اور توکل...  علی اللہ کی مسلسل تلقین کرنے کے بعد اب انہیں عملی تدبیر یہ بتائی جارہی ہے کہ قرآن کی تلاوت کریں اور نماز قائم کریں ، کیونکہ یہی دو چیزیں ایسی ہیں جو ایک مومن میں وہ مضبوط سیرت اور وہ زبردست صلاحیت پیدا کرتی ہیں جن سے وہ باطل کی بڑی سے بڑی طغیانیوں اور بدی کے سخت سے سخت طوفانوں کے مقابلہ میں نہ صرف کھڑا رہ سکتا ہے بلکہ ان کا منہ پھیر سکتا ہے ۔ لیکن تلاوت قرآن اور نماز سے یہ طاقت انسان کو اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے جبکہ وہ قرآن کے محض الفاظ پر اکتفا نہ کرے بلکہ اس کی تعلیم کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر اپنی روح میں جذب کرتا چلا جائے ، اور اس کی نماز صرف حرکات بدن تک محدود نہ رہے بلکہ اس کے قلب کا وظیفہ اور اس کے اخلاق و کردار کی قوت محرکہ بن جائے ، نماز کے وصف مطلوب کو تو آگے کے فقرے میں قرآن خود بیان کررہا ہے ۔ رہی تلاوت تو اس کے متعلق یہ جان لینا چاہیے کہ جو تلاوت آدمی کے حلق سے تجاوز کر کے اس کے دل تک نہیں پہنچتی وہ اسے کفر کی طغیانیوں کے مقابلے کی طاقت تو درکنار خود ایمان پر قائم رہنے کی طاقت بھی نہیں بخش سکتی ، جیسا کہ حدیث میں ایک گروہ کے متعلق آیا ہے کہ یقران القران ولا یجاوز حناجرھم یمرقون من الدین مروق السھم من الرمیۃ ۔ وہ قرآن پڑھیں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے ۔ ( بخاری ، مسلم ، مؤطا ) درحقیقت جس تلاوت کے بعد آدمی کے ذہن و فکر اور اخلاق و کردار میں کوئی تبدیلی نہ ہو بلکہ قرآن پڑھ کر بھی آدمی وہ سب کچھ کرتا رہے جس سے قرآن منع کرتا ہے وہ ایک مومن کی تلاوت ہے ہی نہیں ۔ اس کے متعلق تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم صاف فرماتے ہیں کہ ما امن بالقران من استحل محارمہ ۔ قرآن پر ایمان نہیں لایا وہ شخص جس نے اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال کرلیا ( ترمذی بروایت صہیب رومی رضی اللہ عنہ ) ایسی تلاوت آدمی کے نفس کی اصلاح کرنے اور اس کی روح کو تقویت دینے کے بجائے اس کو اپنے خدا کے مقابلہ میں اور زیادہ ڈھیٹ اور اپنے ضمیر کے آگے اور زیادہ بے حیا بنا دیتی ہے اور اس کے اندر کیر کٹر نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہنے دیتی ۔ کیونکہ جو شخص قرآن کو خدا کی کتاب مانے اور اسے پڑھ کر یہ معلوم بھی کرتا رہے کہ اس کے خدا نے اسے کیا ہدایت دی ہیں اور پھر اس کی ہدایات کی خلاف ورزی کرتا چلا جائے اس کا معاملہ تو اس مجرم کا سا ہے جو قانون سے ناواقفیت کی بنا پر نہیں بلکہ قانون سے خوب واقف ہونے کے بعد جرم کا ارتکاب کرتا ہے ۔ اس پوزیشن کو سرکار رسال مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مختصر سے فقرے میں بہترین طریقے پر یوں واضح فرمایا ہے کہ القران حجۃ لک او علیک ، قرآن حجت ہے تیرے حق میں یا تیرے خلاف ( مسلم ) یعنی اگر تو قرآن کی ٹھیک ٹھیک پیروی کرتا ہے تو وہ تیرے حق میں حجت ہے ۔ دنیا سے آخرت تک جہاں بھی تجھ سے باز پرس ہو تو اپنی صفائی میں قرآن کو پیش کرسکتا ہے کہ میں نے جو کچھ کیا ہے اس کتاب کے مطابق کیا ہے ، اگر تیرا عمل واقعی اس کے مطابق ہوا تو نہ دنیا میں کوئی قاضی اسلام تجھے سزا دے سکے گا اور نہ آخرت میں داور محشر ہی کے ہاں اس پر تیری پکڑ ہوگی ۔ لیکن اگر یہ کتاب تجھے پہنچ چکی ہو ، اور تو نے اسے پڑھ کر یہ معلوم کرلیا ہو کہ تیرا رب تجھ سے کیا چاہتا ہے کس چیز کا تجھے حکم دیتا ہے اور کس چیز سے تجھے منع کرتا ہے ، اور پھر تو اس کے خلاف رویہ اختیار کرے تو یہ کتاب تیرے خلاف حجت ہے ، یہ تیرے خدا کی عدالت میں تیرے خلاف فوجداری کا مقدمہ اور زیادہ مضبوط کردے گی ، اس کے بعد ناواقفیت کا عذر پیش کر کے بچ جانا یا ہلکی سزا پانا تیرے لیے ممکن نہ رہے گی ۔ سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 78 یہ نماز کے بہت سے اوصاف میں سے ایک اہم وصف ہے جسے موقع و محل کی مناسبت سے یہاں نمایاں کر کے پیش کیا گیا ہے ۔ مکہ کے اس ماحول میں جن شدید مزاحمتوں سے مسلمانوں کو سابقہ درپیش تھا ان کا مقابلہ کرنے کے لیے انہیں مادی طاقت سے بڑھ کر اخلاقی طاقت درکار تھی ۔ اس اخلاقی طاقت کی پیدائش اور اس کے نشو و نما کے لیے پہلے دو تدبیروں کی نشان دہی کی گئی ۔ ایک تلاوت قرآن ، دوسرے اقامت صلوۃ ، اس کے بعد اب یہ بتایا جارہا ہے کہ اقامت صلوۃ وہ ذریعہ ہے جس سے تم لوگ ان برائیوں سے پاک ہوسکتے ہو جن میں اسلام قبول کرنے سے پہلے تم خود مبتلا تھے اور جن میں تمہارے گردوپیش اہل عرب کی اور عرب سے باہر کی جاہلی سوسائٹی اس وقت مبتلا ہے ۔ غور کیا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اس موقع پر نماز کے اس خاص فائدے کا ذکر کیوں کیا گیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اخلاقی برائیوں سے پاک ہونا اپنے اندر صرف اتنا ہی فائدہ نہیں رکھتا کہ یہ بجائے خود ان لوگوں کے لیے دنیا و آخرت میں نافع ہے جنہیں یہ پاکیزگی حاصل ہو ، بلکہ اس کا لازمی فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے ان کو ان سب لوگوں پر زبردست برتری حاصل ہوجاتی ہے جو طرح طرح کی اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوں اور جاہلیت کے اس ناپاک نظام کو جو ان برائیوں کی پرورش کرتا ہے ، برقرار رکھنے کے لیے ان پاکیزہ انسانوں کے مقابلہ میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہوں ۔ فحشاء اور منکر کا اطلاق جن برائیوں پر ہوتا ہے انہیں انسان کی فطرت برا جانتی ہے اور ہمیشہ سے ہر قوم اور ہر معاشرے کے لوگ ، خواہ وہ عملا کیسے ہی بگڑے ہوئے ہوں ، اصولا ان کو برا ہی سمجھتے رہے ہیں ۔ نزول قرآن کے وقت عرب کا معاشرہ بھی اس عام کلیے سے مستثنی نہ تھا ۔ اس معاشرے کے لوگ بھی اخلاق کی معروف خوبیوں اور برائیوں سے واقف تھے ، بدی کے مقابلے میں نیکی کی قدر پہچانتے تھے ، اور شاید ہی ان کے اندر کوئی ایسا شخس ہو جو برائی کو بھلائی سمجھتا ہو یا بھلائی کو بری نگاہ سے دیکھتا ہو ۔ اس حالت میں اس بگڑے ہوئے معاشرے کے اندر کسی ایسی تحریک کا اٹھنا جس سے وابستہ ہوتے ہی خود اسی معاشرے کے افراد اخلاقی طور پر بدل جائیں اور اپنی سیرت و کردار میں اپنے ہم عصروں سے نمایاں طور پر بلند ہوجائیں ، لامحالہ اپنا اثر کیے بغیر نہ رہ سکتا تھا ۔ ممکن نہ تھا کہ عرب کے عام لوگ برائیوں کو مٹانے والی اور نیک اور پاکیزہ انسان بنانے والی اس تحریک کا اخلاقی وزن محسوس نہ کرتے اور اس کے مقابلے میں محض جاہلی تعصبات کے کھوکھلے نعروں کی بنا پر ان لوگوں کا ساتھ دیے چلے جاتے جو خود اخلاقی برائیوں میں مبتلا تھے اور جاہلیت کے اس نظام کو قائم رکھنے کے لیے لڑ رہے تھے جو ان برائیوں کو صدیوں سے پرورش کررہا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اس موقع پر مسلمانوں کو مادی وسائل اور طاقتیں فراہم کرنے کے بجائے نماز قائم کرنے کی تلقین کی تاکہ یہ مٹھی بھر انسان اخلاق کی وہ طاقت اپنے اندر پیدا کرلیں جو لوگوں کے دل جیت لے اور تیر تفنگ کے بغیر دشمنوں کو شکست دیدے ۔ نماز کی یہ خوبی جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے اس کے دو پہلو ہیں ۔ ایک اس کا وصف لازم ہے یعنی یہ کہ وہ فحشاء اور منکر سے روکتی ہے ۔ اور دوسرا اس کا وصف مطلوب ہے ، یعنی یہ کہ اس کا پڑھنے والا واقعی فحشاء اور منکر سے رک جائے ۔ جہاں تک روکنے کا تعلق ہے ، نماز لازما یہ کام کرتی ہے ، جو شخص بھی نماز کی نوعیت پر ذرا سا غور کرے گا وہ تسلیم کرے گا کہ انسان کو برائیوں سے روکنے کے لیے جتنے بریک بھی لگانے ممکن ہیں ان میں سب سے زیادہ کارگر بریک نماز ہی ہوسکتی ہے ۔ آخر اس سے بڑھ کر موثر مانع اور کیا ہوسکتا ہے کہ آدمی کو ہر روز دن میں پانچ وقت خدا کی اد کے لیے بلایا جائے اور اس کے ذہن میں یہ بات رازہ کی جائے کہ تو اس دنیا میں آزاد و خود مختار نہیں ہے بلکہ ایک خدا کا بندہ ہے ، اور تیرا خدا وہ ہے جو تیرے کھلے اور چھپے تمام اعمال سے حتی کہ تیرے دل کے ارادوں اور نیتوں تک سے واقف ہے ، اور ایک وقت ضرور ایسا آنا ہے جب تجھے اس خدا کے سامنے پیش ہوکر اپنےا عمال کی جواب دہی کرنی ہوگی ۔ پھر اس یاد دہانی پر بھی اکتفا نہ کی جائے بلکہ آدمی کو عملا ہر نماز کے وقت اس بات کی مشق کرائی جاتی ہے کہ وہ چھپ کر بھی اپنے خدا کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہ کرے ۔ نماز کے لیے اٹھنے کے وقت سے لیکر نماز ختم کرنے تک مسلسل آدمی کو وہ کام کرنے پڑتے ہیں جن میں اس کے اور خدا کے سوا کوئی تیسری ہستی یہ جاننے والی نہیں ہوتی کہ اس شخص نے خدا کے قانون کی پابندی کی ہے یا اسے توڑ دیا ہے ۔ مثلا اگر آدمی کا وضو ساقط ہوچکا ہو اور وہ نماز پڑھنے کھڑا ہوجائے تو اس کے اور خدا کے سوا آخر کسے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ وضو سے نہیں ہے ۔ اگر آدمی نماز کی نیت ہی نہ کرے اور بظاہر رکوع و سجود اور قیام و قعود کرتے ہوئے اذکار نماز پڑھنے کے بجائے خاموشی کے ساتھ غزلیں پڑھتا رہے تو اس کے اور خدا کے سوا کس پر یہ راز فاش ہوسکتا ہے کہ اس نے دراصل نماز نہیں پڑھی ہے ۔ اس کے باوجود جب آدمی جسم اور لباس کی طہارت سے لے کر نماز کے ارکان اور اذکار تک قانون خداوندی کی تمام شرائط کے مطابق ہر روز پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس نماز کے ذریعہ سے روزانہ کئی کئی بار اس کے ضمیر میں زندگی پیدا کی جارہی ہے ، اس میں ذمہ داری کا احساس بیدار کیا جارہا ہے ، اسے فرض شناس انسان بنایا جارہا ہے ، اور اس کو عملا اس بات کی مشق کرائی جارہی ہے کہ وہ خود اپنے جذبہ اطاعت کے زیر اثر خفیہ اور علانیہ ہر حال میں اس قانون کی پابندی کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے ، خواہ خارج میں اس سے پابندی کرانے والی کوئی طاقت موجود ہو یا نہ ہو اور خواہ دنیا کے لوگوں کو اس کے عمل کا حال معلوم ہو یا نہ ہو ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ماننے کے سوا چارہ نہیں ہے کہ نماز صرف یہی نہیں کہ آدمی کو فحشاء و منکر سے روکتی ہے بلکہ درحقیقت دنیا میں کوئی دوسرا طریق تربیت ایسا نہیں ہے جو انسان کو برائیوں سے روکھنے کے معاملہ میں اس درجہ موثر ہو ۔ اب رہا یہ سوال کہ آدمی نماز کی پابندی اختیار کرنے کے بعد عملا بھی برائیوں سے رکتا ہے یا نہیں ، تو اس کا انحصار خود اس آدمی پر ہے جو اصلاح نفس کی یہ تربیت لے رہا ہو ۔ وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی نیت رکھتا ہو اور اس کی کوشش کرے تو نماز کے اصلاحی اثرات اس پر مترتب ہوں گے ، ورنہ ظاہر ہے کہ دنیا کی کوئی تدبیر اصلاح بھی اس شخس پر کارگر نہیں ہوسکتی جو اس کا اثر قبول کرنے کے لیے تیار ہی نہ ہو ، یا جان بوجھ کر اس کی تاثیر کو دفع کرتا رہے ، اس کی مثال ایسی ہے جیسے غذا کی لازمی خاصیت بدن کا تغذیہ اور نشو و نما ہے ، لیکن یہ فائدہ اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جبکہ آدمی اسے جزو بدن بننے دے ، اگر کوئی شخص ہر کھانے کے بعد فورا ہی قے کر کے ساری غزا باہر نکالتا چلا جائے تو اس طرح کا کھانا اس کے لیے کچھ بھی نافع نہیں ہوسکتا ۔ جس طرح ایسے شخس کی نظیر سامنے لاکر آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ غذا موجب تغذیہ بدن نہیں ہے کیونکہ فلاں شخص کھانا کھانے کے باوجود سوکھتا چلا جارہا ہے ، اسی طرح بدعمل نمازی کی مثال پیش کر کے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ نماز برائیوں سے روکنے والی نہیں ہے کیونکہ فلاں شخص نماز پڑھنے کے باوجود بدعمل ہے ، ایسے نمازی کے متعلق تو یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ درحقیقت نماز نہیں پڑھتا جیسے کھانا کھا کر قے کردینے والے کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہے کہ وہ درحقیقت کھانا نہیں کھاتا ۔ ٹھیک یہی بات بات ہے جو متعدد احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور بعض اکابر صحابہ و تابعین سے مروی ہوئی ہے ۔ عمران بن حصین کی روایت ہے کہ حضور نے فرمایا من لم تنھہ صلاتہ عن الفحشاء والمنکر فلا صلاۃ لہ ۔ جسے اس کی نماز نے فحش اور برے کاموں سے نہ روکا اس کی نماز نہیں ہے ۔ ( ابن ابی حاتم ) ابن عباس حضور کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: من لم تنھہ صلوتہ عن الفحشاء والمنکر لم یزدد بھا من اللہ الا بعدا ۔ جس کی نماز نے اسے فحش اور برے کاموں سے نہ روکا اس کو اس کی نماز نے اللہ سے اور زیادہ دور کردیا ۔ ( ابن ابی حاتم ، طبرانی ) یہی مضمون جناب حسن بصری نے بھی حضور سے مرسلا روایت کیا ہے ۔ ( ابن جریر ، بیہقی ) ابن مسعود سے حضور کا یہ ارشاد مروی ہے لا صلوۃ لمن لم یطع الصلوۃ و طاعۃ الصلوۃ ان تنہی عن الفحشاء والمنکر ۔ اس شخص کی کوئی نماز نہیں ہے جس نے نماز کی اطاعت نہ کی ، اور نماز کی اطاعت یہ ہے کہ آدمی فحشاء و منکر سے رک جائے ۔ ( ابن جریر ، ابن ابی حاتم ) اسی مضمون کے متعدد اقوال حضرات عبداللہ بن مسعود ، عبداللہ بن عباس ، حسن بصری ، قتادہ اور اعمش وغیرہم ( رضی اللہ عنہم ) سے منقول ہیں ۔ امام جعفر صادق فرماتے ہیں ، جو شخس یہ معلوم کرنا چاہے کہ اس کی نماز قبول ہوئی ہے یا نہیں ، اسے دیکھنا چاہیے کہ اس کی نماز نے اسے فحشاء اور منکر سے کہاں تک باز رکھا ۔ اگر نماز کے روکنے سے وہ برائیاں کرنے سے رک گیا ہے تو اس کی نماز قبول ہوئی ہے ۔ ( روح المعانی ) سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 79 اس کے کئی معنی ہوسکتے ہیں: ایک یہ کہ اللہ کا ذکر ( یعنی نماز ) اس سے بزرگ تر ہے ، اس کی تاثیر سرف سلبی ہی نہیں ہے کہ برائیوں سے روکے ، بلکہ اس سے بڑھ کر وہ نیکیوں پر ابھارنے والی اور سبقت الی الخیرات پر آمادہ کرنے والی چیز بھی ہے ۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی یاد بجائے خود بہت بڑی چیز ہے ۔ خیر الاعمال ہے ، انسان کا کوئی عمل اس سے افضل نہیں ہے ۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ کا تمہیں یاد کرنا تمہارے اس کو یاد کرنے سے زیادہ بڑی چیز ہے ۔ قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ : فَاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ ( البقرہ ، آیت 152 ) تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا ۔ پس جب بندہ نماز میں اللہ کو یاد کرے گا تو لا محالہ اللہ بھی اس کو یاد کرے گا ۔ اور یہ فضیلت کہ اللہ کسی بندے کو یاد کرے ، اس سے بزرگ تر ہے کہ بندہ اللہ کو یاد کرے ۔ ان تین مطالب کے علاوہ ایک اور لطیف مطلب یہ بھی ہے جسے حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کی اہلیہ محترمہ نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالی کی یاد نماز تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ اس سے بہت زیادہ وسیع ہے ۔ جب آدمی روزہ رکھتا ہے یا زکوۃ دیتا ہے یا کوئی نیک کام کرتا ہے تو لا محالہ اللہ کو یاد ہی کرتا ہے ، تبھی تو اس سے وہ عمل نیک صادر ہوتا ہے ، اسی طرح جب آدمی کسی برائی کے مواقع سامنے آنے پر اس سے پرہیز کرتا ہے تو یہ بھی اللہ کی یاد ہی کا نتیجہ ہوتا ہے ، اس لیے یاد الہی ایک مومن کی پوری زندگی پر حاوی ہوتی ہے ۔   Show more

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

26: یعنی اگر اِنسان نماز کو نماز کی طرح پڑھے، اور اس کے مقصد پر دھیان دے تو وہ اُسے بے حیائی اور ہر بُرے کام سے روکے گی، اس لئے کہ اِنسان نماز میں سب سے پہلے تکبیر کہہ کر اﷲ تعالیٰ کی بڑائی کا اعلان اور اقرار کرتا ہے، جس کا لازمی مطلب یہ ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کے آگے کسی بات کو وقعت نہیں دیتا۔ پ... ھر ہر رکعت میں وہ اﷲ تعالیٰ کے سامنے اِس بات کا اقرار او رعہد کرتا ہے کہ یا اللہ ! میں آپ ہی کی بندگی کرتا ہوں، اور آپ ہی سے مدد مانگتا ہوں۔ لہٰذا جب اِس کے بعد کسی گناہ کا خیال اُس کے دل میں آئے تو اگر اُس نے نماز دھیان سے پڑھی ہے تو اسے اپنا عہد یاد آنا چاہئے، جو یقینا اسے گناہ سے روکے گا، نیز وہ رکوع سجدے اور نماز کی ہر حرکت وسکون میں اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے زبانِ حال سے اپنے آپ کو اﷲ تعالیٰ کا فرماں بردار بناکر پیش کرتا ہے، اس لئے جو شخص نماز کو سوچ سمجھ کر اس طرح پڑھے جیسے پڑھنا چاہئے تو یقینا نماز اسے برائیوں سے روکے گی۔  Show more

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:45) اتل۔ تو پڑھ۔ تو تلاوت کر۔ تلاوۃ مصدر فعل امر صیغہ واحد مذکر حاضر یہاں بمعنی زم علی تلاوۃ ہے۔ یعنی متواتر پڑھا کیجئے ما اوحی الیک من الکتاب : ما موصولہ اوحی ماضی مجہول واحد مذکر غائب ۔ ایحاء (افعال) مصدر۔ وحی کی گئی۔ من الکتب میں من بیانہ ہے الکتب سے مراد القرآن ہے۔ یعنی جو کتاب آپ پر وحی ک... ی گئی ہے اسے دائما پڑھا کیجئے۔ اقم الصلوۃ : اقم امر کا صیغہ واحد مذکر حاضر۔ (اگرچہ خطاب حضرت رسول کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن اس سے جمیع الناس مراد ہیں) اقامۃ مصدر۔ باب افعال۔ تو قائم رکھ۔ تو سیدھا رکھ۔ تو راست کر۔ (اس میں بھی مداومت کے معنی ہیں) ۔ الصلوۃ میں الف لام عہد کا ہے۔ یعنی وہ نماز ظاہری اور باطنی شرائط معینہ کے ساتھ ادا کی گئی ہو۔ منصوب بوجہ مفعول کے ہے۔ تنہی۔ مضارع واحد مؤنث غائب ۔ نہی مصدر۔ نھی ینھی باب فتح) سے مصدر۔ نھو (باب نصر) سے بھی اسی معنی میں آتا ہے۔ وہ روکتی ہے۔ وہ منع کرتی ہے ۔ الفحشاء برا کام۔ بیضیائی کا کام۔ زنا۔ (نیز ملاحظہ ہو 29:28) المنکر۔ اسم مفعول واحد مذکر انکار (افعال) مصدر وہ قول و فعل جس کو عقل سلیم برا جانتی ہو یا جس کو شریعت نے ممنوع قرار دیا ہو۔ یا وتاتون فی نادیکم المنکر (29:29) اور تم بھری مجلس میں ممنوعات کا ارتکاب کرتے ہو۔ ولذکر اللہ اکبر۔ لام تاکید کا ہے۔ اکبر افعل التفضیل کا صیغہ ہے۔ اور اللہ کا ذکر زیادہ بڑا ہے۔ ذکر سے یہاں مراد کیا ہے اس کے متعلق کئی اقوال ہیں۔ مثلاً (1) حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے لذکر اللہ تعالیٰ العبد اکبر من ذکر العبد اللہ تعالیٰ ۔ جو ذکر اللہ تعالیٰ اپنے بندے کا کرتا ہے وہ اس ذکر سے بہت بڑا ہے جو بندہ اللہ تعالیٰ کا کرتا ہے اور اس پر دلیل لاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے فاذکرونی اذکرکم (2:152) سو تم مجھے یاد کیا کرو میں تمہیں یاد کیا کروں گا ! (2) اللہ تعالیٰ کا ذکر ہر شے سے بہتر ہے۔ (3) بندے کا نماز میں اللہ کا ذکر کرنا۔ دیگر ارکان نماز سے بہتر ہے۔ (4) بندے کا نماز میں اللہ کا ذکر کرنا خارج از نماز ذکر کرنے سے بہتر ہے۔ (5) اللہ کا ذکر کرنا بندے کے دیگر تمام اعمال سے بہتر ہے۔ (6) یہاں ذکر اللہ سے مراد الصلوۃ ہے جیسا کہ اور جگہ ارشاد باری ہے۔ یایھا الذین امنوا اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اللہ (62:9) اے ایمان والو ! جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذان کہی جائے تو خدا کی یاد (یعنی نماز) کے لئے جلدی کرو۔ وغیرہ۔ ما تصنعون۔ میں ما موصولہ ہے۔ تصنعون مضارع کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ جو تم کرتے ہو۔  Show more

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

1 ۔ ” اور لوگوں تک اس کے احکام و فرامین پہنچاتا رہ “ تاکہ میں ایمان، سیرت کی پختگی اور مصائب و شدائد برداشت کرنے کی اطاعت پیدا ہو۔ 2 ۔ نماز سے مراد تمام فرض نمازیں ہیں اور اسے درستی سے ادا کرنے کا مطلب پورے ارکان و شرائط و سنن، طمانیت اور خشوع و خضوع سے ادا کرنا ہے۔ (قرطبی) مزید وضاحت کے لئے دیکھئے۔...  ( سورة بقرہ حاشیہ آیت) 3 ۔ یعنی آخر کار اس کے بےحیائی اور برے کاموں سے رک جانے کا سبب بنتی ہے۔ اور یہ ناممکن ہے کہ ایک شخص صحیح طور پر نماز گزار ہو اور پھر بےحیائی اور برے کاموں سے بھی چمٹا رہے۔ بعض روایات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اس کی تصریح کی ہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انہ سینواہ ماتقول کہ اس کی یہ عادت سے اسے چوری سے روک دے گی اور اگر نماز کا یہ اثر انسان کی عملی زندگی میں ظاہر نہ ہو تو سمجھنا چاہیے کہ وہ نماز، نماز ہی نہیں ہے جیسا کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : من لم تنھہ صلاتہ عن الفحشاۃ و المنکر فلاصلاۃ لہ کہ جس شخص کو اس کی نماز بےحیائی اور برے کام سے نہ روکے، اس کی نماز، نماز ہی نہیں ہے اور دوسری روایت میں مزید فرمایا : لم یزد بھا من اللہ الا بعدا کہ اس کی نماز اللہ تعالیٰ سے قرب کی بجائے دوری ہی پیدا کرے گی۔ (ابن کثیر وغیرہ) اور ” تنھی “ کے یہ معنی بھی ہوسکتے ہیں کہ نماز سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ ” الصلوات الخمس یمحوا اللہ بھن الخطایا “ اور ہوسکتا ہے کہ خبر بمعنی امر ہو۔ یعنی جو شخص نماز پڑھتا ہے اسے چاہیے کہ معاصی کو ترک کر دے۔ (قرطبی) 4 ۔ اور نماز اللہ کو یاد کرنے کی بہترین صورت ہے بلکہ اس کا مقصد اللہ تعالیٰ ہی کی یاد کو تازہ کرتے رہنا ہے۔ جیسے فرمایا : اقم الصلوٰۃ لذکری کہ میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔ (طہ :14) یا مطلب یہ ہے کہ بندہ تو اللہ کو یاد کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے کو یاد کرنا اس سے بڑھ کر ہے اور وہ ہے بندے پر ہدایت اور نور علم کا فیضان۔ (قرطبی) شاہ صاحب اپنی توضیح میں لکھتے ہیں۔ ” جتنی دیر نماز میں لگے اتنے تو ہر گناہ سے بچے۔ امید ہے کہ آگے بھی بچتا رہے اور اللہ کی یاد کو اس سے زیادہ اثر ہے۔ یعنی گناہ سے بچے اور اعلیٰ درجوں پر چڑھے۔ “ (موضح)  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 45 تا 51 اسرارومعارف آپ قرآن پڑھا کیجیے اور نماز قائم کیجیے۔ یعنی کہ آپ قرآن کریم کو پڑھ کر سنایا کیجیے اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ کوئی ایمان لاتا ہے کہ نہیں۔ اور عبادات کو قائم کیجیے لہذا یہ ضروری ہے کہ قرآن کو مسلسل لوگوں پہ بیان کیا جائے یعنی تبلیغ کی جائے اور مبلغ خود عبادات پہ پورے اہتما... م سے کاربند رہے کہ عبادات کا خاصہ یہ ہے کہ بندے کو برائی اور منکرات سے بچنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ قرآن کے بیان اور نماز کا اثر : یہ کمال قرآنی بیانات میں بھی ہے کہ جس بات پر قرآن سے وعظ کیا جائے کوئی قبول کرے یا نہ خود کرنے والے کو اس پہ عمل کی توفیق ارزاں ہوتی ہے اور نماز جو بارگاہ صمدیت کی حضوری ہے اگر رسمی نہ ہو تو عقلا بھی گناہ سے روکتی ہے کہ ابھی اللہ کی بارگاہ میں حاضری دے کر فارغ ہوا اور چند گھنٹوں بعد پھر حاضر ہونا ہے تو نافرمانی کیوں کرے گا ساتھ ساتھ دل میں ایک کیفیت پیدا ہوجاتی ہے جو گناہ سے مانع ہوتی ہے۔ ذکر اللہ : اور اللہ کا ذکر سب سے بڑا اور بہت ہی بڑی بات ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہاں محض ایک آدھ جملہ لکھ کر بات ختم کردی جاتی ہے یا پھر ذکر اللہ کر فضائل نقل کئے گئے ہیں مگر اصل سوال یہ ہے کہ ذکر اللہ کیا شے ہے اور کیسے کیا جاتا ہے کہ یہاں یہ کہنا کہ نیک اعمال مراد ہیں تو تلاوت قرآن خود ذکر ہے صلوۃ بھی ذکر ہے تو گویا دو طرح کا ذکر تو پہلے سے ہوگیا لسانی قرآن پڑھ کر اور لسانی بدنی یا عملی بھی نماز ادا کرکے پھر یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ کا ذکر ہی بہت اعلی ہے تو گویا اس سب کے علاوہ کچھ مراد ہے اور وہ ذکر قلبی ہے۔ جو نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توجہ اور ملاقات سے صحابہ کو نصیب ہوا کہ ان کے قلوب ہمیشہ کے لیے ذاکر ہوگئے جس کے اثرات سے سارا بدن گوشت پوست خون اور ہڈیاں تک ذاکر ہوگئیں صحابہ کی صحبت سے تابعین اور پھر تبع تابعین اور یوں اللہ کے برگزیدہ بندوں نے عمریں صرف کرکے یہ کیفیت اپنے بزرگوں سے حاصل کی اور بعد میں آنے والوں کو توجہ اور اور القا کر کے پہنچائی اس طرح اس نعمت کو آگے پہنچانے والے شیخ یا پیر کہلائے اور تصوف کے نام سے ایک پورا شعبہ تفسیر وحدیث اور فقہ کی طرح وجود میں آیا صرف یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ جسے نصیب ہو اس کی پوری عملی زندگی سے لے کر باطنی آرزوؤں تک کو خوبصورت تبدیلی عطا کرتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کریم سب سے واقف ہے ذاکرین اور باعمل لوگوں کے کردار سے بھی اور سرکش اور گستاخ کے عمل سے بھی۔ تبلیغ کے لیے جھگڑا کرنا مناسب نہیں : اور اہل کتاب سے بات ضرور کرو مگر جھگڑ کر نہیں بلکہ بہت خوبصورت انداز میں ہاں اگر ان میں سے کوئی تم پر ظلم کرے یعنی جھگڑا مسلط کرے تو اپنا دفاع کرن ا الگ بات ہے مگر تمہاری طرف سے جھگڑا نہ ہو بلکہ ان سے کہو کہ ہمارے اور تمہارے درمیان بہت سی باتیں مشترک ہیں مثلا ہم قرآن پر بھی ایمان رکھتے ہیں اور تم پر جو کتابیں نازل ہوئیں انہیں بھی حق مانتے ہیں ایسے ہی تمہاری کتابوں میں قرآن کے نازل ہونے کی خبر ہے پھر تمہاری کتاب بھی تو اللہ واحد پر ایمان لانے کا حکم دیتی ہے اور ہم بھی اسی پر ایمان رکھتے ہیں۔ تورات و انجیل پر ایمان : یہاں ایمان سے مراد یہ ہے کہ پہلی کتب جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئیں وہ بھی حق تھیں یہ ضروری نہیں کہ تحریف شدہ کو حق مانا جائے یا ان کتابوں سے حلال و حرام کا کوئی مسئلہ لیا جائے بلکہ یہاں اہل کتاب کو دعوت ہے کہ اپنی کتاب کو تسلیم کرو تو بھی تمہیں قرآن پر ایمان لانا پڑے گا جیسا کہ آگے ارشاد ہے کہ جن لوگوں کو پہلی کتابوں پہ ایمان نصیب تھا وہ تو آپ پر بھی ایمان لے آئے اور یہ لوگ اللہ کی آیات میں جھگڑا کرتے ہیں یہ کافر ہیں یعنی پہلی کتابوں پر بھی ایمان نہیں رکھتے ان میں بھی تحریف کرکے کفر کیا اور اب قرآن کا بھی انکار کرتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ عظیم : بھلا اس سے بڑا کیا معجزہ ہوگا کہ ایک عمر انہی لوگوں میں بسر ہوئی لہذا سب واقف ہیں کہ آپ نہ ت ولکھنا جانتے تھے نہ کچھ پڑھنا ہی آپ نے سیکھا تھا اور پھر جب آپ نے بات کی تو تو سارے جہان کے ہر معاملہ ومسئلہ کو سلجھا دیا بھلا اس سے بڑھ کر صداقت کی دلیل کیا ہوگی کہ غلط کار آپ کی ذات کے بارے ہیں شکوک میں گرفتار ہیں بلکہ یہ تو بہت کھری اور روز روشن ی طرح واضح آیات ہیں مگر ان لوگوں کے دلون میں ان کی جی ہے جو اہل علم کہلانے کے مستحق ہیں اور بےانصاف اور ظالم تو ان کے بارے جھگڑا ہی کریں گے یہ اس عظیم معجزہ کے باوجود اعتراض کرتے ہیں کہ ان پر کوئی معجزہ نازل کیوں نہیں ہوتا کہ دیجیے کہ معجزات کا اظہار الہ کا کام ہے اور میرا کام تمہیں آخرت کے احوال سے متنبہ کرنا ہے اور یہ محض ان کا اعتراض ہے ورنہ کتاب اللہ بجائے خود بہت بڑا معجزہ ہے جو ان کے سامنے پڑھی جاتی ہے جس نے بیک وقت پوری انسانیت کے سب مسائل کا حل بتا دیا اور اللہ کی رحمت کا سبب ہے کہ دنیا کے ساتھ آخرت کے سب مسائل بھی حل کردیے اور اتنی عظیم کتاب ہے کہ نصیحت بھی ہے اور اللہ کی یاد کو ایمان والوں کے اندر بسا دیتی ہے۔  Show more

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (45 تا 47 ) ۔ اتل (پڑھ۔ تلاوت کر) ۔ اوحی (وحی کی گئی) ۔ اقم (قائم کر) ۔ تنھی (روکتا ہے) ۔ لا تجادلوا (تم نہ جھگڑو ) ۔ ما یجحد (وہ انکار نہیں کرتا) ۔ تشریح : آیت نمبر (45 تا 47 ) ۔ ” نبی کریم حضرت محمد مصطفیٰ کو خطاب کرتے ہوئے درحققیت آپ کی پوری امت کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ دین ا... سلام کی تبلیغ و اشاعت میں ہمت و جرات سے آگے بڑھتے رہنا اور حالات کے ناموافق ہونے کے باوجود مایوس نہ ہونا سنت انبیاء ہے۔ کیونکہ آپ سے پہلے جتنے بھی انبیاء کرام گذرے ہیں ان کی امتوں نے اللہ کی نافرمانیوں کی انتہا کردی تھی وہ ان کا مذاق اڑاتے، پھبتیاں کستے اور طرح طرح سے ستاتے تھے مگر انبیاء کرام اور ان پر ایمان لانے والوں نے مخالفین کی ایذاؤں پر صبر و تحمل سے کام لیا۔ جب انکار کرنے والے حد سے گذر گئے تو اللہ نے ان پر ایسے ایسے عذاب بھیجے جس سے وہ صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے۔ ان آیات میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطے سے پوری امت سے فرمایا گیا ہے کہ وہ تلاوت کلام اللہ، نماز اور اللہ کے ذکر سے اپنے دلوں کو روشن ومنور کرتے جائیں اور اگر راہ حق میں اہل کتاب کی طرف سے خاص طور پر کچھ ایسی باتیں سامنے آئیں جو تمہیں باگوار گذریں تو ان سے الجھنے کے بجائے احسن طریقے سے جواب دے دیا جائے یعنی اگر کوئی سخت بات کہی گئی ہو تو اس کا جواب نرم لہجے اور تہذیب و شائستگی سے دیا جائے غصہ اور انتقامی جذبات کا جواب صبر و تحمل سے اور جاہلانہ باتوں کا جواب وقار اور سنجیدگی سے دیا جائے تاکہ راہ سے بھٹکے ہوئے لوگ بات اور گفتگو میں اجنبیت کے بجائے اپنائیت محسوس کریں۔ البتہ نرمی اور شرافت میں اعتدال کی روش اختیار کی جائے تاکہ وہ لوگ جن کا کام زیادتی ہی کرنا ہے وہ نرمی اور شرافت کو اہل ایمان کی کمزوری نہ سمجھ لیں۔ ہر ایک کو سمجھا دیا جائے کہ آئو ہم سب مل کر ان سب کتابوں پر ایمان لے آئیں جو پہلے سے نازل کی جا چکی ہیں اور جو کچھ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے اس پر بھی ایمان لائیں۔ کیونکہ تمہارا اور ہمارا پروردگار ایک ہی ہے ہمیں صرف اسی کا فرماں بردار ہونا چاہیے۔ فرمایا کہ جن لوگوں کو پہلے سے تاب دی گئی ہے وہ ضرور ایمان لے آئیں گے لیکن جن لوگوں کو انکار کرنا ہے وہ کسی بات کو تسلیم نہ کریں گے۔ ان تمام باتوں کو ان آیات میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ ارشاد ہے اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ کی طرف کتاب میں سے جو کچھ وحی کی جائے اس کی تلاوت کیجیے۔ تلاوت قرآن کریم سے مراد ان آیات کو پڑھ کر سنانا اور سمجھانا ہے اور وحی کی تبلیغ بھی ہے یعنی قرآن کریم کا پڑھنا، پڑھانا، سمجھنا اور سمجھانا اس کے احکامات پر پوری طرح عمل کرنا ضروری ہے تاکہ یہ آیات ہر مومن کے دل کا نور بن جائیں۔ دوسری بات یہ ارشاد فرمائی کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! نماز کو قائم کیجیے۔ نماز کیا ہے ؟ نماز سب سے اہم عبادت ہے، پانچوں نمازوں کو ان کے وقت کے ادر ادا کیا جائے کیونکہ مسجدوں میں پانچ وقت کی نمازوں سے یہ تصور ہمیشہ زندہ رہتا ہے کہ نماز پڑھنے والا اللہ کا بندہ ہے۔ اس کے بتائے ہوئے احکامات کا پابند ہے۔ وہ جو بھی عمل کر رہا ہے اس کو پوری برح علم صرف اللہ کو ہے۔ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان کوئی دوسرا نہیں ہے۔ وہ اس اللہ کی عبادت و بندگی کر رہا ہے جو دلوں اور نیتوں کے تمام احوال سے اچھی طرح واقف ہے۔ جس بات کو ساری دنیا سے چھپایا جاسکتا ہے اس کو اپنے اللہ سے نہیں چھپایا جاسکتا۔ نمازوں سے اس کا یہ خیال بھی پختہ ہوتا جاتا ہے کہ اس کو ایک دن اسی طرح اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر زندگی کے ہر لمحے کا حساب دینا ہے۔ نماز ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو انسان کو اس کی ذمہ داریوں کا احساس دلا کر اس میں تواضع اور انکساری پیدا کرتی ہے۔ نماز سے انسان ہر برح کے فحش اور منکرات سے محفوظ ہوتا چلا جاتا ہے۔ (فحشا) ہر وہ کام یا بات جس کی برائی انکار نہیں کرتا اس میں یہ شرط نہیں کہ وہ آدمی مومن ہے یا کافر ایک انسان کی حیثیت سے وہ ان باتوں کو برا سمجھتا ہے جیسے زنا، بدکاری، قتل ناحق، چوری، ڈکیتی، جھوٹ، فریب، غیبت اور چغل خوری وغیرہ۔ (منکر) ہر وہ کام اور بات جس کے ناجائز اور برا ہونے کا فیصلہ شریعت کے مطابق کیا گیا ہو۔ نماز فحشا اور منکر سے انسان کو محفوظ رکھتی ہے۔ در حقیقت ان دو لفظوں میں تمام ظاہری اور باطنی گمروہیوں اور بیماریوں کی تفصیل آجاتی ہے۔ یعنی یہ دو باتیں ساری دنیا میں فساد کر جڑ ہیں اور ہر نیک کام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اگر فحشا اور منکر ختم ہوجائیں تو دنیا بھر کے لوگوں کو امن و سکون نصیب ہوجائے۔ فرمایا کہ یہ سکون تلاوت قرآن اور اقامت صلوۃ سے نصیب ہوتا ہے۔ البتہ اگر ایک شخص تلاوت کلام اللہ اور اقامت صلوۃ کے فریضے کو بھی ادا کرتا ہے اور دنیا بھر کی خرافات میں بھی مبتلا رہتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ بری عادتیں اقامت صلوۃ کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جو نمازوں کا پابند ہے اور زمین فساد بھی مچاتا ہے تو یہ کہا جائے گا کہ اس نے نمازی کو صورت تو بنالی ہے مگر وہ اپنے اندر اس روح کو پیدا نہ کرسکا جو نمازوں کے قائم کرنے کا مقصد تھا۔ چناچہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے نمازیوں کے متعلق ناپسند یدگی کا اظہار فرمایا ہے۔ حضرت عمر ان ابن حصین (رض) سے روایت ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کیا گیا کہ ” ان الصلوۃ تنھی عن الفحشاء و المنکر “ کا کیا مطلب ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جس شخص کو اس کی نماز نے فحشا اور منکر سے نہ روکا اس کی نماز کچھ نہیں (ابن ابی حاتم) ۔ اس حدیث رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے معلوم ہوا کہ نماز کے منع کرنے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ہر طرح کے گناہوں سے بچتا رہے کیونکہ نماز کی یہ خصوصیت ہے کہ اس کے پڑھنے والوں کو گناہوں سے بچنے کی توفیق مل ہی جاتی ہے۔ اور جس کو یہ توفیق نصیب نہ ہو وہ اس بات کو سمجھ لے کہ اس کی نماز میں کوئی خاص کمی ہے اور اس نے اقامت صلوۃ کا صحیح حق ادا نہیں کیا۔ ان آیات میں تیسری بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ اللہ کا ذکر سب سے بڑھ کر ایک سچائی ہے۔ ذکر اللہ اور اللہ کی یاد یہ ہے کہ ایک مومن کو اللہ کی طرف سے جو حکم دیا گیا ہے اس کی تعمیل کی جائے اور جس چیز سے منع کیا گیا ہے اس سے رک جائے اللہ کو یاد بھی رکھاجائے اور اللہ کو یاد بھی کیا جائے کیونکہ ذکر اللہ بلا شبہ ایک اعلی ترین عبادت ہے اللہ کی یاد سے انسان کو اس کی معرفت نصیب ہوتی ہے۔ چوتھی بات یہ فرمائی گئی ہے کہ اب ان کو اہل کتاب سے واسطہ پڑے گا۔ ہو سکتا ہے وہ کچھ ایسی باتیں کر گذریں جن سے اہل ایمان کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہو تو فرمایا کہ اگر وہ کوئی سخت انداز اختیار کریں تب بھی خیر خواہی کا تقاضا یہ ہے کہ جواب میں الفاظ اور لہجہ دونوں نرم ہوں۔ غصہ اور انتقام کی باتوں کا جواب تحمل اور برداشت سے دیا جائے۔ جاہلانہ باتوں کا جواب وقار اور سنجیدگی سے دیا جائے۔ اگر الفاظ اور گفتگو میں شائستگی اور نرمی اختیار کی جائے تو راہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کی اصلاح آسان ہوجاتی ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ دین اسلام اپنے ماننے والوں سے تہذیب و شائستگی، شرافت و معقولیت، حلم و تحمل اور وقار و سنجیدگی کی توقع رکھتا ہے البتہ جو لوگ ظلم و زیادتی کرتے ہیں ان کے ساتھ ظلم کو نوعیت کے لحاظ سے مختلف رویہ اختیار کیا جاسکتا ہے تاکہ دشمنان اسلام اہل ایمان کی نرم مزاجی کو ان کی کمزوری نہ سمجھ بیٹھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب اور کفار سے بحث و مباحثہ کے وقت بہترین رویہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ وہ لوگ جو مسلمانوں کے دشمن بنے ہوئے ہیں ان کے اخلاق کریمانہ سے وہ دین اسلام کے قریب آجائیں۔ ارشاد ہے۔ اپنے رب کے راستے کی طرف بہترین نصیحت کے ساتھ دعوت دو اور لوگوں سے مجادلہ (بحث و مباحثہ) کرو تو اس میں احسن طریقہ اختیار کرو۔ (النحل آیت نمبر 125) ۔ فرمایا۔ بھلائی اور برائی یکساں نہیں ہیں (دین اسلام کا دفاع اس طرح کرو) جو بہترین طریقہ ہو تم دیکھو گے کہ وہی شخص جو دشمن تھا وہ ایک گہرا اور گرم جوش دوست بن جائے گا (حم السجدہ۔ آیت نمبر 34) ۔ فرمایا گیا کہ (لوگو ! ) تم معافی اور درگذر کی روش اختیار کرو۔ بھلائی کی تلقین کرو۔ اور جاہلوں کے منہ نہ لگو ۔ اگر شیطان تمہیں (غلط) جواب دینے پر اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگتے رہو۔ (الاعراف۔ آیت نمبر 199) ۔ آخر میں فرمایا کہ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ہم نے یہ کتاب (قرآن مجید) آپ پر نازل کی ہے۔ جن لوگوں میں (اہل کتاب میں سے خاص طور پر) ایمان لانے کی صلاحیت ہے وہ ضرور ایمان لائیں گے۔ (اور یہ مکہ والے بھی) اس پر یقین رکھتے ہیں (لیکن زبان سے اقرار نہیں کرتے) بہرحال وہ لوگ جو کافر ہیں وہی اس سچائی کا انکار کرسکتے ہیں۔ جن لوگوں کے دلوں میں ذرہ برابر بھی ایمان کا جذبہ ہے وہ قرآن کریم جیسی سچائی کا انکار نہیں کرسکتے۔  Show more

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ یعنی نماز بلسان حال کہتی ہے کہ جس معبود کی تو اتنی تعظیم کرتا ہے فحشاء و منکر کے ارتکاب سے اس کی بےتعظیمی نہایت نازیبا ہے۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : عقیدہ توحید سمجھانے کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے عقلی اور تاریخی دلائل۔ نبی معظم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مشرکین کا سب سے بڑا اختلاف عقیدہ توحید پر تھا۔ ان کا آخری مطالبہ یہ تھا کہ قرآن مجید کی ان آیات کو خارج از قرآن کیا جائے جن میں ہمارے معبودوں ک... ی نفی کی گئی ہے۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم ہوا آپ لوگوں کے سامنے قرآن مجید کی تبلیغ کرتے رہیں اور یاد رکھیں اللہ تعالیٰ کے فرمان کبھی تبدیل نہیں ہوا کرتے۔ “ ” اُتُلُ مَا اُوْحِیَ “ کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ پر قرآن کی صورت میں جو بھی وحی کی جا رہی ہے اس کی تلاوت کیا کریں۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے سے ایمان میں اضافہ اور مضبوطی پیدا ہوتی ہے۔ ایمان میں مضبوط شخص ہی مشکلات کا مقابلہ کرسکتا ہے۔ اور نماز قائم کریں بیشک نماز انسان کو بےحیائی اور برائی سے روکتی ہے اور یہ اللہ کا بہت بڑا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ یہاں ” اللہ “ کے ذکر کو سب سے بڑا عمل قرار دیا گیا ہے جس کے اہل علم نے تین مفہوم لیے ہیں۔ 1 نماز سب سے بڑا ذکر ہے۔ 2 نماز سب سے بڑی عبادت اور یاد الٰہی ہے۔ 3 اللہ تعالیٰ کا کسی کو یاد کرنا سب سے بڑی بات ہے۔ اب تینوں باتوں کو قدر تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔ جہاں تک نماز کا تعلق ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے قرب اور یاد کا سب سے مؤثر اور قریب ترین ذریعہ ہے۔ اس لیے موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ اے موسیٰ ! میری یاد کے لیے نماز قائم رکھنا۔ ( طٰہٰ : ١٤) نماز کے بیشمار فوائد میں سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر نماز کے تقاضے پورے کیے جائیں تو یقیناً یہ انسان کو بےحیائی سے بچاتی ہے اس حقیقت کو جاننے کے لیے چند اشارے کافی ہیں۔ نماز میں انسان اپنے رب کی بارگاہ میں ہاتھ جوڑ کر قیام کرتا ہے اس کے بعد رکوع اور پھر سجدہ بجا لاتا ہے۔ اگر انسان پوری توجہ کے ساتھ یہ ارکان ادا کرے تو نمازی میں غرور اور تکبر پیدا نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ پانچ وقت عاجزی کا اظہار کرتا ہے اور بار، بار اللہ اکبر کہہ کر اپنے رب کی کبریائی کا اعتراف کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو اخلاص کے ساتھ اپنا کبریا ماننے والا شخص متکبر نہیں ہوسکتا۔ نماز میں آدمی کو نگاہیں نیچی اور سجدہ کی جگہ پر مرکوز رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ مسجد سے باہر اسے حکم ہے کہ وہ اپنی نگاہوں کو نیچی اور کنٹرول میں رکھے جس سے نہ صرف آدمی کی نگاہیں پاک اور اس کا دل بےحیائی سے محفوظ رہتا ہے۔ بلکہ معاشرے میں بےحیائی ختم کرنے کا یہ مؤثر ترین طریقہ ہے۔ نماز میں انسان تمام مسلمانوں کے لیے خیر اور سلامتی کی دعائیں کرتا ہے اگر ان جذبات کا نماز کے بعد بھی خیال رکھا جائے تو مسلمان ایک دوسرے کی شر سے محفوظ رہ سکتے ہیں اور معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ نماز کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ نماز سے انسان کو روحانی سکون ملتا ہے۔ اس لیے اس موقع پر یہ حکم نازل ہوا کہ قرآن مجید کی تلاوت کے ساتھ نماز قائم کریں۔ تاکہ مخالفوں کی مخالفت سے پریشان ہونے کی بجائے آپ پُر سکون رہیں اور یقین رکھیں کہ جو تم عمل کرتے ہو اللہ تعالیٰ اسے جانتا ہے۔ نماز دل کا سکون ہے : (یَابِلَالُ ! اَرِحْنَا بالصَّلَاۃِ ) [ مسند أحمد : کتاب باقی مسند الانصار ] نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے کہ ” اے بلال ! نماز کے ذریعے ہمیں سکون پہنچاؤ۔ “ نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا : (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ صَلَاۃُ الْجَمَاعَۃِ تَفْضُلُ صَلَاۃَ الْفَذِّ بِسَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ دَرَجَۃً ) [ رواہ البخاری : کتاب الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ ] ” حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اکیلے نماز پڑھنے سے ستائیس گنا افضل ہے۔ “ (عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ (رض) قَالَ سَاَلْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اَیُّ الْاَعْمَالِ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی قَال الصَّلٰوۃُ لِوَقْتِہَا قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ؟ قَالَ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ قُلْتُ ثُمَّ اَیٌّ قَالَ الْجِہَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ قَالَ حَدَّثَنِیْ بِہِنَّ وَلَوِ اسْتَزَدْتُّہٗ لَزَادَنِیْ ) [ رواہ البخاری : کتاب مواقیت الصلاۃ، باب فَضْلِ الصَّلاَۃِ لِوَقْتِہَا ] ” حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی محترم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کو اعمال میں کون ساعمل زیادہ پسند ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ فرض نماز اس کے وقت پر ادا کرنا۔ میں نے عرض کی اس کے بعد کون سا عمل بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا والدین کے ساتھ بہترسلوک کرنا۔ میں نے پھر عرض کی اس کے بعد کون ساعمل بہتر ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔ ابن مسعود (رض) کہتے ہیں اگر میں اس موقعہ پر مزید سوال کرتا تو آپ اس کا بھی جواب عنایت فرماتے۔ “ تلاوت قرآن کی برکت : (یَقُوْلُ الرَّبُّ عَزَّوَجَلَّ مَنْ شَغَلَہُ الْقُرْاٰنُ وَذِکْرِیْ عَنْ مَسْأَلَتِيْ اَعْطَیْتُہٗ اَفْضَلَ مَآ اُعْطِیَ السَّآءِلِیْنَ ) [ رواہ الترمذی : کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء کیف کانت قراء ۃ النبی ] ” اللہ رب العزت فرماتے ہیں جسے قرآن پاک کی تلاوت اور میرے ذکر نے مجھ سے مانگنے سے روکے رکھا میں اسے مانگنے والوں سے زیادہ عطا کروں گا۔ “ (عَنْ عُمَرَبْنِ الخَطَّابِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ بِھٰذَالْکِتَابِ اَقْوَامًاوَیَضَعُ بِہٖ اٰخَرِیْنَ )[ رواہ مسلم : کتاب الصلوٰۃ، باب فضل من یقوم بالقراٰن ] ” حضرت عمربن خطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کتاب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بہت سی قوموں کو جو اس پر عمل کریں گی بام عروج پر پہنچائے گا اور بہت سی قوموں کو جو اس کو چھوڑ دیں گی انہیں ذلیل کر دے گا۔ “ ذکر کی فضیلت : (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَال اللّٰہُ تَعَالٰی أَنَا مَعَ عَبْدِيْ حَیْثُمَا ذَکَرَنِيْ وَتَحَرَّکَتْ بِيْ شَفَتَاہُ ) [ رواہ البخاری : کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ لاتحرک بہ لسانک الخ ] ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں اپنے بندے کے ساتھ ہوتا ہوں، وہ جہاں کہیں بھی میرا ذکر کرے اور جب اس کے ہونٹ میرے ذکر میں حرکت کریں۔ “ (عَنْ أَبِيْ ھُرَیْرَۃَ عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا أَخْطَأَ خَطِیْءَۃً نُکِتَتْ فِيْ قَلْبِہٖ نُکْتَۃٌ سَوْدَآءُ فَإِذَا ھُوَ نَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ وَتَابَ صُقِلَ قَلْبُہٗ وَإِنْ عَادَ زِیْدَ فِیْھَا حَتّٰی تَعْلُوَ قَلْبَہٗ وَھُوَ الرَّانُ الَّذِيْ ذَکَرَ اللّٰہُ (کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ) [ رواہ الترمذی : کتاب تفسیر القرآن، باب ومن سورة (ویل للمطففین)] ” حضرت ابوہریرہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ نے فرمایا : آدمی جب بھی کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک کالا نکتہ لگادیا جاتا ہے جب وہ بےچین ہو کر توبہ و استغفار کرتا ہے تو اس کے دل کو پالش کردیا جاتا ہے اور اگر پھر وہ گناہ کرتا ہے تو وہ نکتہ بڑھادیا جاتا ہے حتٰی کہ وہ پورے دل پر غالب آجاتا ہے اور یہی وہ زنگ ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے کہ (ہرگز نہیں بلکہ جو وہ کرتے ہیں اس کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہے) ۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) عَنِ النَّبِيِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) أَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ إِنَّ لِکُلِّ شَیْءٍ صِقَالَۃً وَإِنَّ صِقَالَۃَ الْقُلُوْبِ ذِکْرُ اللّٰہِ وَمَا مِنْ شَيْءٍ أَنْجٰی مِنْ عَذَاب اللّٰہِ مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ۔۔ ) [ صحیح الترغیب للألبانی : ١٤٩٥] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتے ہیں آپ فرمایا کرتے تھے ہر چیز کی پالش ہوتی ہے دلوں کی پالش اللہ کا ذکر ہے اور اللہ کے ذکر سے زیادہ کوئی چیز اللہ کے عذاب سے نجات دینے والی نہیں ہے۔ “ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا : (أَللّٰھُمَّ أَعِنِّيْ عَلٰی ذِکْرِکَ وَشُکْرِکَ وَحُسْنِ عِبَادَتِکَ ) [ رواہ أبوداوٗد : کتاب الصلاۃ، باب فی الإستغفار ] ” الٰہی ! اپنے ذکر، شکر اور بہترین طریقے سے عبادت کرنے پر میری مدد فرما۔ “ مسائل ١۔ مسلمان کو قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ ٢۔ نماز کو اس کے آداب اور تقاضوں کے ساتھ قائم کرنا چاہیے۔ ٣۔ نماز انسان کو برائی اور بےحیائی سے بچاتی ہے۔ ٤۔ نماز اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا ذکر ہے۔ ٥۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو لوگ عمل کرتے ہیں۔ ٦۔ ” اللہ “ کا ذکر بڑی نیکی ہے۔ تفسیر بالقرآن نماز کے فوائد : ١۔ وہ لوگ جو کتاب اللہ پر کار بند رہتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ہم ان کے اجرکو ضائع نہیں کریں گے۔ (الاعراف : ١٧٠) ٢۔ اگر لوگ توبہ کریں اور نماز قائم کریں تو ان کی راہ چھوڑ دو ۔ (التوبہ : ٥) ٣۔ بیشک نماز بےحیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ (العنکبوت : ٤٥) ٤۔ بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے اور نماز قائم کی ان پر کسی قسم کا خوف نہیں ہوگا۔ (البقرۃ : ٢٧٧) ٥۔ اے ایمان والو ! نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کرو یقیناً اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرۃ : ١٥٣) ٦۔ اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے جنت کے وارث ہوں گے۔ (المومنون : ٩۔ ١٠) ٧۔ جو لوگ اللہ کی خوشنودی کیلئے صبر کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں ہم ان کے اجر کو ضائع نہیں کرتے۔ (الرعد : ٢٢)  Show more

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اتل ما اوحی ۔۔۔۔۔ یعلم ما تصنعون (29: 45) ” جو کتاب آپ پر وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کیجئے بیشک نماز فحاشی اور منکرات سے روکتی ہے۔ بیشک اللہ کا ذکر بڑی چیز ہے اور اللہ جانتا ہے جو کام تم کرتے ہو “۔ ان کے سامنے کتاب پڑھیں کہ یہی ذریعہ دعوت اسلامی ہے ، اور ایک ربانی معجزہ ہے اور اس کتاب کے...  اندر بیان کردہ سچائی وہی ہے جو اس کائنات کے اندر پوشیدہ سچائی ہے۔ اور نماز قائم کرو ، جب نماز قائم کی جاتی ہے تو یہ فحاشی اور منکرات سے روکتی ہے ، یہ اللہ کے ساتھ ایسا رابطہ ہے کہ جب کوئی یہ رابط قائم کرتا ہے تو پھر وہ فحاشی اور منکرات کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہ ظاہری اور روحانی تطہیر کا ذریعہ ہے۔ لہٰذا اس کے ساتھ کوئی گندگی ، ناپاکی اور میل کچیل لگا ہی نہیں کھاتی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ” جو شخص ایسی نماز پڑھے جو اسے فحاشی اور منکرات سے نہ روکے تو وہ ایسی نماز سے ماسوائے اس کے کہ اللہ سے دور ہوجائے۔ اور کوئی مفاد نہ پائے گا “۔ (ابن جریر) ۔ اگر کوئی ایسی نماز پڑھتا ہے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نے نماز ادا کردی لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس نے نماز قائم کردی۔ اور نماز ادا کرنے میں اور قائم کرنے میں بہت بڑا فرق ہے۔ اگر نماز قائم کی جائے تو یہ ذکر اللہ ہوتی ہے اور ولذکر اللہ اکبر (29: 45) ” اللہ کا ذکر بہت بڑا ہوتا ہے “۔ مطلقاً وہ بڑی چیز ہوتی ہے۔ ہر تصور اور ہر جذبہ سے بڑا ہوتا ہے۔ ہر عبادت اور ہر عاجزی سے ذکر اللہ بڑا ہوتا ہے۔ واللہ یعلم ما تصنعون (29: 45) ” اور اللہ جانتا ہے جو تم بناتے ہو “۔ اس پر کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ اس پر کسی امر میں التباس نہیں ہوتا۔ تم نے آخر کار اس کی طرف لوٹنا ہے۔ اور وہ تمہاری تمام مصنوعات کا بدلہ تمہیں دینے والا ہے۔ درس نمبر 182 ایک نظر میں یہ سورة عنکبوت کا آخری سبق ہے۔ پہلے دو سبق پارہ 20 میں گزر چکے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا اس سورة کا محور آزمائش و ابتلاء ہے۔ جو لوگ بھی کلمہ حق بلند کرتے ہیں ان کی راہ میں رکاوٹیں آتی ہیں۔ فتنوں اور آزمائشوں کی بھٹی میں سے گزار کر اللہ تعالیٰ سچے اور جھوٹے لوگوں کے درمیان فرق واضح فرما دیتے ہیں۔ جو جس قدر گرم و سرد چشیدہ ہوگا اسی قدر وہ درجات بلند کا مالک ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں یہ بھی ذہن نشین کرایا گیا ہے کہ زمین پر موجود شیطانی قوتیں اہل ایمان کا راستہ روکنے کے لیے چاہے جس قدر زور لگائیں ، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اہل ایمان اگر ذرا صبر کریں اور مصابرت سے کام لیں تو اللہ آخر کار بدکاروں کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور اہل ایمان کو کامیاب کرتا ہے۔ یہ اللہ کی سنت ہے اور اسلامی دعوت کے ساتھ اللہ کی سنت کا ہمیشہ یہی معاملہ رہا ہے۔ نوح (علیہ السلام) سے لے کر آج تک یہ سنت اٹل رہی ہے۔ اس میں کوئی تغیر اور تبدیلی نہیں ہوتی اور یہ سنت اس بڑی سچائی کے ساتھ بھی مربوط ہے جو اس کائنات میں کام کر رہی ہے جس طرح اللہ کی دعوت ایک ہے اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں اسی طرح اللہ کی سنت بھی ناقابل تغیر ہے۔ درس سابق کا خاتمہ اس بات پر ہوا تھا کہ اے رسول اور اے اہل ایمان تمہاری طرف جو آیات الٰہی نازل ہو رہی ہیں بس تم ان کی تلاوت کرتے جاؤ، ان کو سمجھو اور مطالعہ کرو اور نماز قائم کرکے ان پر عمل کرو ، اور اس بات کو ذہن میں حاضر رکھو کہ اللہ دیکھ رہا ہے جو کچھ بھی تم کرتے ہو۔ اس سبق میں بھی کتاب اللہ کے بارے میں بات چلتی ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اس کتاب اور کتب سابقہ کے درمیان کیا تعلق اور نسبت ہے۔ مسلمانوں کو نصیحت کی جاتی ہے کہ ظالموں کو چھوڑ کر دوسرے عام اہل کتاب کے ساتھ رویہ اچھا رکھو ، ان کے ساتھ اچھے انداز سے مکالمہ کرو۔ ظالم لوگ وہ ہیں جنہوں نے کتاب اللہ میں تحریف کردی اور جنہوں نے عقیدہ توحید کو بدل کر شرک کا عقیدہ اپنا لیا اور شرک ہی بہت بڑا ظلم ہے۔ اہل ایمان کی راہ اور عقیدہ یہ ہے کہ اللہ ایک ہے۔ اس کی تمام رسالتیں ایک ہیں ، کتب ایک ہیں ، یہ کہ تمام کتابیں اللہ کے نزدیک عظیم سچائی پر مشتمل ہیں اور اہل ایمان ان کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس کے بعد بعض ایسے اہل کتاب کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو اس آخری کتاب پر ایمان لے آئے ہیں۔ حالانکہ مکہ کے مشرکین جن کے اندر سے نبی آخر الزمان کا انتخاب ہوا ، اس پر ایمان نہیں لاتے۔ وہ اس عظیم اعزاز اور عظیم رحمت کی قدر نہیں کرتے جو اللہ نے ان کو بخشی۔ وہ اس کتاب کے اعجاز اور اس کی تعلیمات کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھیجے ہوئے رسول کو اپنے لیے غنیمت نہیں سمجھتے کہ وہ ان سے ہمکلام بھی ہے اور اللہ کا کلام بھی ان کو سنا رہا ہے جبکہ اس سے قبل مشرکین کے سامنے نہ انہوں نے کوئی کتاب پڑھی اور نہ وہ کوئی قلم کار تھے۔ اگر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مطالعہ کتب کرتے رہتے اور کتابیں لکھتے رہتے تو یہ شبہ ہوسکتا تھا کہ انہوں نے یہ کتاب خود تصنیف کر ڈالی ہو۔ مشرکین مکہ بات بات پر یہ مطالبہ کردیتے تھے کہ اگر تم سچے ہو تو لاؤ عذاب الٰہی جس سے تم ہمیں ڈراتے ہو۔ کہا جاتا ہے کہ یہ عذاب بہت ہی قریب ہے ، اور یہ جہنم کی شکل میں تمہیں گھیرے گا۔ یہ قیامت کے دن اوپر سے بھی ہوگا اور پاؤں کے نیچے سے بھی ہوگا۔ ہر طرف سے گھیر لے گا۔ اس کے بعد روئے سخن ان اہل ایمان کی طرف پھرجاتا ہے جو مکہ میں اہل کنز کے تشدد کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ ان کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ اگر مکہ میں ان پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا ہے تو وہ ہجرت کر جائیں تاکہ وہ رب واحد کی بندگی کرسکیں۔ یہ ہدایت ان کو ایک عجیب انداز میں دی جاتی ہے۔ ہجرت کے مشورہ سے ان کے دلوں میں جو پریشانیاں اور خدشات پیدا ہوتے ہیں انہیں دور کردیا جاتا ہے۔ ان تمام رکاوٹوں کو دور کردیا جاتا ہے جو ان کی راہ میں حائل ہو سکتی ہیں۔ چند چنکیوں کے ساتھ ان کی قلبی حالت بدل دی جاتی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس قرآن کو نازل کرنے والا وہی خالق ہے جو اس کائنات کو پیدا کرنے والا ہے کیوں کہ انسانی دلوں کی گہرائیوں تک اثر اور ان کے اندر اس قسم کے احساسات وہی ذات پیدا کرسکتی ہے ، جس نے ان دلوں کو پیدا کیا ہے کیونکہ وہی لطیف وخبیر ہے۔ اس کے بعد روئے سخن ان مشرکین کی طرف مڑ جاتا ہے جو نظریاتی انتشار میں مبتلا ہیں۔ وہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ اللہ وحدہ ہی خالق کائنات ، خالق ارض و سما ، مسخر شمس و قمر ہے اور وہی ہے جو آسمانوں سے پانی اتارتا ہے جس سے یہ زمین مردہ ہونے کے بعد زندہ ہوجاتی ہے۔ جب وہ بحری سفر میں ہوتے ہیں تو وہ صرف اللہ وحدہ کو پکارتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد وہ پھر شرک کرنے لگتے ہیں۔ اللہ کی کتاب کی حقانیت کا انکار کرتے ہیں ، رسول اللہ کو ناجائز اذیتیں دیتے ہیں۔ اہل ایمان کو فتنوں اور مصیبتوں میں ڈالتے ہیں۔ اہل شرک کو یہ بھی یاد دلایا جاتا ہے کہ دیکھو تمہارے لیے اس حرم کو جائے امن بنایا گیا ہے جس میں تم چین سے رہتے ہو۔ تمہارے اردگرد تمام قبائل ہر وقت خوف و ہراس میں رہتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ مشرکین اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور اللہ کے ساتھ خود ساختہ الہوں کو شریک کرتے ہیں۔ اس لیے ان کو دھمکی دی جاتی ہے کہ تم جہنم رسید ہوگے اور وہاں تمہیں ہمیشہ رہنا ہوگا۔ سورة کا خاتمہ اس پر ہوتا ہے کہ اہل ایمان کو کامیابی کی راہیں دکھائے گا لیکن ان اہل ایمان کو جو مومنین خالص ہوں ، جنہوں نے رکاوٹوں کو پار کرلیا ہو ، آزمائشوں سے گزر گئے ہوں اور مشکلات راہ پر قابو پالیا ہو۔ اگرچہ اس راہ کی رکاوٹیں بہت ہیں لیکن انہوں نے یہ مشکل کام کرلیا ہو۔ درس نمبر 182 تشریح آیات 45 ۔۔۔ تا ۔۔۔ 69 اتل ما اوحی الیک ۔۔۔۔۔۔ ونحن لہ مسلمون (45 – 46) (اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تلاوت کرو اس کتاب کی جو تمہاری طرف وحی کے ذریعہ سے بھیجی گئی ہے اور نماز قائم کرو ، یقیناً نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر اس سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے۔ اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔ اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر عمدہ طریقہ سے سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہوں اور ان سے کہو کہ ” ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس چیز پر بھی جو تمہاری طرف بھیجی گئی تھی ، ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اسی کو مسلم (فرمانبردار ) ہیں “۔ وہ دعوت جس کا آغاز حضرت نوح (علیہ السلام) سے ہوا اور جس کا خاتمہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہوا۔ یہ ایک ہی دعوت ہے ، ایک ہی الٰہ کی طرف سے ہے اور اس دعوت کا مقصد اور مطلوب بھی ایک ہی ہے۔ یہ کہ گمراہ انسانیت کو واپس لاکر رب العالمین کی راہ پر ڈال دیا جائے ، اللہ کی ہدایت اور منہاج کے مطابق وہ زندگی بسر کرے۔ جو لوگ سابقہ رسولوں کی دعوت پر ایمان لاتے رہے ہیں وہ اہل ایمان کے بھائی ہیں۔ سب ایک ہی امت ہیں ، ایک ہی الٰہ کی بندگی کرتے ہیں۔ انسانیت اپنے ہر دور اور ہر زمان و مکان میں دو گروہوں میں بٹی رہی ہے۔ ایک گروہ مومنین کا ہے جسے حزب اللہ کہا جاتا ہے اور دوسرا گروہ اللہ کے دشمنوں کا ہے اور یہ حزب الشیاطین کے نام سے موسوم ہیں۔ اس سلسلے میں کسی زمان و مکان میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ لہٰذا زمانہ قدیم سے لے کر آج تک مومنین ایک پارٹی ہیں اور اہل کفر ایک پارٹی ہیں۔ یہ ایک عظیم اور بلند حقیقت ہے جس کے اوپر اسلام قائم ہے اور جسے اس آیت میں منضبط کیا گیا ہے۔ یہ حقیقت ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان میں پائے جانے والے تعلقات اور روابط کو محض خون ، نسب ، قومیت ، وطن ، تجارت اور مفادات سے بلند کرکے انہیں الٰہ واحد کی اساس پر قائم کرتی ہے۔ تمام انسانوں کا ایمان ایک ایسے نظریہ حیات پر ہو جس میں تمام رنگوں اور تمام نسلوں کے لوگ پگھل جائیں۔ تمام قومتیں ختم ہوں خواہ نسلی ہوں یا وطنی ہوں اور جس میں زمان و مکان کی دوریاں غائب ہوں اور تمام انسانوں نے ایک ہی مضبوط رسی کو پکڑ رکھا ہو۔ خالق کائنات اور شارع کائنات کی رسی کو۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں مسلمانوں کو اہل کتاب کے ساتھ مکالمے اور مجادلے سے منع کیا جاتا ہے ماسوائے اس کے کہ یہ مجادلہ نہایت ہی مستحسن طریقے سے ہو۔ مسلمانوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ان کے اور سابقہ رسل کی تعلیم اور رسالت کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے اور یہ کہ مسلمانوں کو اس تاریخی اسلامی دعوت کی آخری شکل یعنی دین اسلام پر اکتفاء کرنا چاہئے ، جو تمام سابقہ دعوتوں کے مطابق ہے۔ جو تمام سابقہ دعوتوں اور رسالتوں کی تکمیل ہے۔ یہ آخری صورت اس کو اللہ کے علم و حکمت نے دی ہے جو انسانوں کی مصلحت خود انسانوں سے زیادہ جاننے والے ہیں۔ الا الذین ظلموا منھم (29: 46) ” سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہوں “۔ جنہوں نے توحید سے انحراف کیا ، جو اسلامی نظریہ حیات کا سنگ اساس ہے ، جنہوں نے اللہ کے ساتھ شرک کی اور جنہوں نے اسلام کو بحیثیت منہاج حیات چھوڑ دیا ، کیونکہ ایسے لوگوں کے ساتھ نہ نرمی ہے اور نہ ایسے لوگوں کے ساتھ مکالمے کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی ظالم لوگوں کے ساتھ اسلام نے اس وقت جنگ کی ، جب مدینہ میں اسلامی مملکت قائم ہوگئی۔ بعض لوگوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ الزام لگایا کہ مکہ میں جب اہل شرک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سخت برتاؤ کر رہے تھے تو آپ نے یہ باتیں کہیں کہ اہل کتاب کے ساتھ نرمی اور احسان کا طریقہ اختیار کیا جائے مگر جب مدینہ میں آپ کی حکومت قائم ہوگئی تو آپ نے اہل کتاب کے ساتھ مجادلہ شروع کردیا اور جنگیں لڑیں اور مکی اقوال کے خلاف طرز عمل اختیار کیا۔ یہ بہت بڑا بہتان ہے اور خود یہ مکی آیت اس کا انکار کر رہی ہے ۔ اسلام صرف ان اہل کتاب کے ساتھ نرم برتاؤ کرنے کی اجازت دیتا ہے ، جو ظالم اور مشرک نہ ہوں ، اپنے اصل دین پر ہوں اور سابقہ رسولوں کی ہدایات کے مطابق صحیح توحید پہ قائم ہوں۔ وقولوا امنا بالذی ۔۔۔۔۔۔ لہ مسلمون (29: 46) ” اور ان سے کہو کہ ہم ایمان لائے ہیں اس چیز پر بھی جو ہماری طرف بھیجی گئی ہے اور اس چیز پر بھی جو تمہاری طرف بھیجی گئی تھی اور ہمارا اور تمہارا خدا ایک ہی ہے اور ہم اسی کے مسلم ہیں “۔ لہٰذا بحث و اختلاف کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے اور جدل وجدال بےمحل ہے۔ ہم سب اللہ واحد کو خدا مانتے ہیں۔ اہل ایمان تو قرآن پر بھی ایمان لاتے ہیں اور انبیائے سابقہ کی کتاب پر بھی ایمان لاتے ہیں کیونکہ اسلام کی ایک ہی زنجیر ہے اور تمام نبوتیں اس کی کڑیاں ہیں۔  Show more

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

قرآن مجید کی تلاوت کرنے اور نماز قائم کرنے کا حکم اس آیت کریمہ میں دو حکم ہیں، پہلا حکم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کتاب آپ کو دی ہے آپ اس کی تلاوت کرتے رہیں۔ تنہائی میں تلاوت کرنا، نمازوں میں قرآن مجید پڑھنا، لوگوں کے سامنے پڑھنا اور اس کی تعلیم دینا الفاظ کا عموم ان سب کو شامل ہے دوسرا حکم یہ ہے ک... ہ آپ نماز قائم کریں۔ دیگر آیات میں بھی نماز قائم کرنے کا حکم وارد ہوا ہے، سورة بنی اسرائیل میں ارشاد ہے (اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ ) اور سورة ہود میں فرمایا ہے (وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ ) ان آیات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے، اور یہ حکم جہاں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہے وہاں آپ کی امت کو بھی ہے اور امت کو علیحدہ خطاب بھی ہے۔ سورة بقرہ میں فرمایا (وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ ) علماء نے فرمایا ہے کہ لفظ اقامۃ الصلوٰۃ اپنے مفہوم کے اعتبار سے بہت زیادہ عام ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ نماز کو پڑھنے کی طرح پڑھو اس میں سنتوں اور مستحبات کا اہتمام اور نماز باجماعت کی ادائیگی اور خشوع و خضوع سے پڑھنا سب آجاتا ہے۔ نماز بےحیائی سے روکتی ہے پھر نماز کا خاصہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ (اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْکَرِ ) (بلاشبہ نماز بےحیائی سے اور برے کاموں سے روکتی ہے۔ ) درحقیقت نماز کو نماز کی طرح پڑھا جائے تو وہ گناہوں کے چھڑانے کا سبب بن جاتی ہے، نماز میں قرأت قرآن بھی ہے اور تسبیح بھی تکبیر بھی ہے تحمید بھی، رکوع بھی ہے سجود بھی، خشوع بھی ہے خضوع بھی، اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا اظہار بھی ہے اور اپنی عاجزی اور فروتنی کا تصور بھی، ان سب امور کا دھیان کرکے نماز پڑھی جائے تو بلاشبہ نمازی آدمی بےحیائی کے کاموں اور گناہوں سے رک جائے گا، جس شخص کی نماز جس قدر اچھی ہوگی اسی قدر گناہوں سے دور ہوگا اور جس قدر نماز میں کمی ہوگی اسی قدر گناہوں کے چھوٹنے میں دیر لگے گی، آدمی اگرچہ گنہگار ہی کیوں نہ ہو بہرحال نماز پڑھتا رہے کبھی نہ کبھی اس کی نماز انشاء اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو چھڑا ہی دے گی۔ حضرت ابوہریرہ (رض) روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کیا کہ فلاں شخص رات کو نماز پڑھتا ہے اور صبح ہوتی ہے تو چوری کرلیتا ہے، آپ نے فرمایا کہ اس کا نماز پڑھنے والا عمل اسے اس عمل سے روک دے گا جسے تو بیان کر رہا ہے۔ (ذکرہ صاحب الروح وعزاہ الیٰ احمد وابن ابی حاتم والبیھقی ٢١) دیکھا جاتا ہے کہ بعض لوگ گناہوں میں بھی مشغول رہتے ہیں اور نماز بھی پڑھتے ہیں اس پر جو اشکال ہوتا ہے اس کا جواب ہمارے بیان میں گزر چکا ہے اور بعض حضرات نے یوں فرمایا ہے کہ نماز تو بلاشبہ برائیوں سے روکتی ہے لیکن روکنے کی وجہ سے رک جانا ضروری نہیں، آخر واعظ بھی تو وعظ کرتے ہیں، برائیوں کی وعیدیں سناتے ہیں، پھر جو رکنا چاہتا ہے وہی رک جاتا ہے اور جو رکنا نہیں چاہتا وہ گناہ کرتا رہتا ہے۔ اور بعض علماء نے جواب دیا ہے کہ نماز کم از کم اتنے وقت تک تو گناہوں سے روکتی ہی ہے جتنی دیر نماز میں مشغول رہتا ہے۔ بعض گناہ ایسے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے انسان نماز نہیں پڑھ سکتا نمازی آدمی اس سے ضرور بچے گا۔ مثلاً پیشاب کرکے یوں ہی اٹھ جائے اور استنجا نہ کرے، نمازی سے یہ نہیں ہوسکتا، اور کوئی نمازی ستر کھول کر رانیں دکھاتا ہوا نہیں پھر سکتا، اور نماز کو جاتے ہوئے راستہ میں گناہ نہیں کرسکتا۔ اور اسی طرح کی بہت سی باتیں ہیں جو غور کرنے سے سمجھ میں آسکتی ہیں۔ ذکر اللہ کے فضائل : نماز کی اہمیت بیان فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا (وَ لَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ ) (اور اللہ کا ذکر البتہ بہت بڑی چیز ہے) درحقیقت اللہ کا ذکر ہی پورے عالم کی جان ہے، جب تک دنیا میں اللہ کا ذکر ہوتا ہے آسمان و زمین قائم ہیں اور دوسری مخلوق بھی موجود ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت تک قیامت قائم نہ ہوگی جب تک زمین میں ایک مرتبہ بھی اللہ اللہ کہا جاتا رہے گا۔ (رواہ مسلم ص ٨٤: ج ١) نماز بھی اللہ کا ذکر کرنے کے لیے ہے جو سراپا ذکر ہے، سورة طٰہٰ میں فرمایا : (وَ اَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ ) کہ میری یاد کے لیے نماز قائم کیجیے، نماز میں اول سے آخر تک ذکر ہی ذکر ہے نمازی آدمی تکبیر تحریمہ سے لے کر سلام پھیرنے تک برابر اللہ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے، اس کی زبان بھی ذکر اللہ میں مشغول رہتی ہے اور دل بھی۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے بیان فرمایا (کَانَ یَذْکُرُ اللّٰہَ فِیْ کُلِّ اَحْیَانِہٖ ) (کہ آپ ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ ) (رواہ مسلم باب ذکر اللہ تعالیٰ حال الجنابۃ وغیرھا) یوں تو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کا ہر عمل اللہ کے ذکر میں شامل ہے لیکن دیگر اعمال ایسے ہیں کہ ہر وقت ان کی ادائیگی کے مواقع نہیں ہوتے اور ذکر اللہ ایسی چیز ہے جو وضو بےوضو ہر وقت حتیٰ کہ ناپاکی کی حالت میں بھی ہوسکتا ہے، البتہ غسل فرض ہو تو تلاوت کرنا ممنوع ہے۔ تلاوت قرآن مجید، تسبیح وتحمید، تکبیر، تہلیل، دعا یہ سب اللہ کا ذکر ہے، درود شریف بھی اللہ کے ذکر میں شامل ہے، اس میں حضور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لیے اللہ سے رحمت کی دعا مانگی جاتی ہے، وہ لوگ مبارک ہیں جو دل سے بھی اللہ کو یاد کرتے ہیں، اس کی نعمتوں کے شکر گزار ہوتے ہیں، اس کی کتاب کی تلاوت میں مشغول رہتے ہیں اور اس کی حمد وثناء بیان کرتے رہتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن مجید کی تلاوت کی فضیلت بتاتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اللہ کی کتاب میں سے ایک حرف پڑھے اس کی وجہ سے اسے ایک نیکی ملے گی اور ہر نیکی دس گنا ہو کر ملے گی۔ (رواہ الترمذی وقال حسن صحیح) اور تسبیح وتحمید وغیرہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ اگر میں ایک بار (سُبْحَان اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ ) کہہ لوں تو یہ مجھے ساری دنیا سے زیادہ محبوب ہے جس پر سورج نکلتا ہے۔ (رواہ مسلم کما فی المشکوٰۃ ص ٢٠٠) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بھی فرمایا کہ دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں ترازو میں بھاری ہوں گے، رحمن کو محبوب ہیں اور وہ یہ ہیں (سُبْحَانَ الِلّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَان اللّٰہِ الْعَظِیْمِ ) (رواہ البخاری وھو آخر الحدیث من کتابہ) حضرت جابر (رض) سے رایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے (سُبْحَانَ الِلّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِحَمْدِہٖ ) کہا اس کے لیے جنت میں کھجور کا ایک درخت لگا دیا جائے گا۔ (رواہ الترمذی) حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جس رات مجھے معراج کرائی گئی میں نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ملاقات کی، انہوں نے فرمایا کہ اے محمد اپنی امت کو میرا سلام کہہ دینا اور بتادینا کہ جنت کی اچھی مٹی ہے اور میٹھا پانی ہے اور وہ چٹیل میدان ہے اور اس کے پودے یہ ہیں (سُبْحَانَ لِلّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ ) (رواہ الترمذی وقال حسن غریب اسناداً ) مطلب یہ ہے کہ جنت میں ہے تو سب کچھ مگر اسی کے لیے ہے جو یہاں سے کچھ کرکے لے جائے، جو عمل سے خالی ہاتھ گیا اس کے لیے تو چٹیل میدان ہی ہے۔ حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک ایسے درخت پر گزر ہوا جس کے پتے سوکھے ہوئے تھے، آپ نے اس میں اپنی عصا کو مارا تو پتے جھڑنے لگے آپ نے فرمایا کہ (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور سُبْحَان اللّٰہِ اور لاآالٰہَ الاَّ اللّٰہُ اور اللّٰہُ اَکْبَرُ ) بندہ کے گناہوں کو اس طرح گرا دیتے ہیں جیسے اس درخت کے پتے گر رہے ہیں۔ (رواہ الترمذی) حضرت جابر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ (اَفْضَلُ الذِّکْرِ لاآاِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ وَاَفْضَلُ الدُّعَآءِ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ) یعنی سب سے بڑی فضیلت والا ذکر (لاآاِلٰہَ الاَّ اللّٰہُ ) ہے اور سب سے بڑی فضیلت دعا (اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ) ہے۔ (رواہ الترمذی) حضرت ابو موسیٰ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ نہ بتادوں ؟ میں نے عرض کیا ارشاد فرمائیے ! فرمایا (لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ الاَّ باللّٰہِ ) ہے۔ (رواہ البخاری) جب ذکر اللہ کی اس قدر فضیلت ہے تو اسی میں لگا رہنا چاہیے، ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہونے دیں، بہت سے لوگوں کو دیکھا جاتا ہے کہ کوئی کام کاج نہیں، ریٹائرمنٹ کے بعد بس بیس سال گزار دیتے ہیں، دکانوں میں لڑکے اور ملازم کام کرتے ہیں اور اتنی بڑی قیمتی زندگی فضول گفتگو میں، اخبار پڑھنے میں، دنیا کے ملکوں کا تذکرہ کرنے میں بلکہ غیبتوں میں گزار دیتے ہیں، یہ بڑے نقصان کا سودا ہے۔ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھے جس میں انہوں نے اللہ کا ذکر کیا تو یہ مجلس ان کے لیے نقصان کا باعث ہوگی، پھر اگر اللہ چاہے تو انہیں عذاب دے اور چاہے تو مغفرت فرما دے۔ (رواہ الترمذی) ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ اسلام کی چیزیں تو بہت ہیں آپ مجھے ایک ایسی چیز بتلا دیجیے کہ میں اسی میں لگا رہوں، آپ نے فرمایا (لاَ یَزَالُ لِسَانُکَ رَطَبًا مِّنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ) (مشکوٰۃ المصابیح ص ١٩٨، الترمذی وغیرہ) (کہ تیری زبان ہر وقت اللہ کی یاد میں تر رہے) ایک اور شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ فضیلت کے اعتبار سے سب سے بڑا عمل کون سا ہے ؟ فرمایا وہ عمل یہ ہے کہ تو دنیا سے اس حال میں جدا ہو کہ تیری زبان اللہ تعالیٰ کی یاد میں تر ہو۔ (مشکوٰۃ المصابیح ص ١٩٨ عن الترمذی وغیرہ) حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ذکر اللہ کے علاوہ زیادہ باتیں نہ کیا کرو کیونکہ اللہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ بولنے سے دل میں قساوت یعنی سختی آجاتی ہے اور اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ دور وہی شخص ہے جس کا دل سخت ہو۔ (رواہ الترمذی) نیز حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ ہر چیز کے لیے صاف کرنے کی ایک چیز ہوتی ہے اور دلوں کو صاف کرنے والی چیز اللہ کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات دینے والی کوئی چیز نہیں، صحابہ (رض) نے عرض کیا کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں ؟ آپ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اس قدر جہاد کرے کہ مارتے مارتے اس کی تلوار ٹوٹ جائے تو یہ عمل بھی عذاب سے بچانے میں ذکر اللہ سے بڑھ کر نہیں ہے۔ (رواہ البیہقی فی الدعوات الکبیر کما فی المشکوٰۃ ص ١٩٩) آخر میں فرمایا (وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ ) (اور اللہ جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو) ہر شخص کے اعمال خیر اور اعمال شر کا اس کو علم ہے، وہ اپنی حکمت کے مطابق اصحاب اعمال کا بدلہ دے گا، عمل کرنے والے اس چیز کا مراقبہ کرتے رہیں کہ ہمارے اعمال پیش ہوں گے اور ان کا بدلہ دیا جائے گا۔  Show more

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

36:۔ یہ دعوی توحید پر دلیل وحی ہے۔ یہ مسئلہ توحید وحی کے ذریعہ سے آپ پر نازل کیا گیا ہے۔ اس لیے جو کتاب آپ پر نازل کی گئی ہے آپ اس مسئلہ توحید کو بیان کرتے رہیں اور کتاب اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتے رہیں۔ واقم الصلوۃ الخ، یہ امر مصلح ہے یعنی مسئلہ توحید بیان کرنے کی وجہ سے کفار کی طرف سے آپ کو جو تکلی... ف وا یذاء پہنچے اس کا اثر کم کرنے کے لے آپ نماز قائم کریں۔ نماز سے اللہ کے ساتھ خصوصی تعلق قائم رہے گا، صبر و ہمت کا جذبہ پیدا ہوگا اور مصائب و مشکلات کی اہمیت دل سے کم ہوجائے گی۔ الفحشاء سے کافروں کی خباثتیں اور ان کی ایذائیں مراد ہیں۔ یعنی نماز کافروں کی خباثتوں اور ایذاؤں کا اثر دل سے زائل کردے گی۔ المنکر خلاف شریعت امور۔ نماز سے آدمی کے دل میں خوف خدا، خشوع و خضوع اور عجز و انکسار وغیرہ صفات حمیدہ پیدا ہوتی ہیں اس لیے نمازی آدمی طبعاً خلاف شریعت امور سے متنفر و مجتنب ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ خوبی صرف اسی صورت میں پیدا ہوسکتی ہے جب آدمی اس شعور کے ساتھ نماز پڑھے کہ وہ احکم الحاکمین کے حضور کھڑا ہو کر فریضہ نماز ادا کر رہا ہے۔ ساری نماز میں اس کی توجہ نماز ہی میں رہے۔ توجہ اور شعور کے بغیر صرف ظاہری ارکان نماز ادا کرلینے سے یہ آثار ظاہر نہیں ہوسکتے۔ ولذکر اللہ اکبر۔ ذکر سے نماز یا عام ذکر اللہ مراد ہے۔ یعنی نماز یا ہر وقت ہر معاملے میں اللہ کو یاد رکھنا اور اس کی نافرمانی سے بچنا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ اہم کام ہے اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے اور وہ ہر عمل کے مطابق اس کی جزا و سزا دے گا۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

45۔ اے پیغمبر جو کتاب آپ کی جانب وحی کی گئی ہے اس کی تلاوت کیا کیجئے اور نماز کی پابندی کیجئے اور نماز کو قائم رکھئے بیشک نماز بےحیائی اور نا معقول و ناشائستہ کاموں سے باز رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کا ذکر بہت بڑی چیز ہے اور اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے جو تم کرتے ہو ۔ اوپر کی آیات میں انبیاء...  علیہم الصلوٰۃ والسلام اور ان کے ماننے والوں کے ساتھ منکرین کی بد سلوکی اور برے برتائو کا ذکر تھا تا کہ مسلمان ان فتنوں سے نہ گھبرائیں جو دین حق کے منکروں کی طرف سے آئے دن پیش آتے رہتے ہیں۔ اب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب فرماتے ہوئے بعض احکام بیان فرماتے ہیں اور اس کے ضمن میں آپ کی نبوت کے بعض دلائل کا بھی ذکر فرمایا اور قرآن شریف کی صداقت پر بھی بعض دلائل بیان فرمائے چناچہ ارشاد ہوا کہ جو کتاب آپ کی جانب نازل کی گئی ہے اور وحی کی گئی ہے اس کی تلاوت کیا کیجئے اور اس کو پڑھ کر سنایا کیجئے تا کہ لوگوں میں اس کی تبلیغ ہو اور ان کی ہدایت کا ذریعہ ہو اور نماز قائم رکھئے یعنی نماز پڑھ کر ان کو دکھا یئے تا کہ ان کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا طریقہ کیا ہے اور آپ قولی اور فعلی دونوں قسم کی تبلیغ کے فریضے سے ادا ہوں۔ پھر فرمایا نماز بےحیائی اور نا معقول کاموں سے باز رکھتی ہے اور نائستہ امور میں مبتلا ہونے سے ایک نمازی مسلمان جھجھک اور شرمندگی محسوس کرتا ہے اور یہ قاعدے کی بات ہے کہ جو دربار میں حاضر ہونے والے ہیں وہ بادشاہ کی نافرمانی بہت کم کرتے ہیں اور کم از کم یہ تو ظاہر ہی ہے کہ جب تک نماز میں رہتا ہے بےحیائی اور نا شائستہ باتوں سے محفوظ رہتا ہے اور ہم پہلے پارہ میں تفصیل کے ساتھ عرض کرچکے کہ ہر نیکی اور بدی کا ایک اثر ہوتا ہے ، ہر بدی سے بدی اور ہر نیکی سے نیکی پھوٹتی ہے آپ ایک غلطی کیجئے یقینا آپ کسی دوسری غلطی میں مبتلا ہوجائیں گے ایک نیکی کیجئے یقینا کسی دوسری بھلائی اور نیکی کی توفیق آپ کو میسر ہوجائے گی ۔ یہ ایک تجربے کی بات ہے بلکہ ہمارا تجربہ تو یہ ہے کہ کوئی چھوٹا سا نیک عمل دوامی طور پر اختیار کرلیجئے وہی عمل آپ کی رہنمائی اور روحانی ترقی کا موجب ہوجائے گا اور چونکہ نماز کو اللہ تعالیٰ کی حضوری اور اس کی یاد میں بڑا دخل ہے اس لئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اس کی یاد بہت بڑی چیز ہے۔ یہ اشاہ ہے دوسرے اعمال خیر کی طرف بھی ، ہر عمل خیر خدا تعالیٰ کی یاد ہے اور اس کی یاد بہت بڑی بات ہے آگے تربیت کے طور پر فرمایا کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ تعالیٰ ان سب کاموں کو خوب جانتا ہے اور جب سب کاموں کا اس کو علم ہے تو ان کاموں کو اختیار کرو جو اس کو پسندیدہ ہوں اور ان سے بچو جو اس کی ناراضگی کا موجب ہوں ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں جتنی دیر نماز میں لگے اتنی دیر تو ہر گناہ سے بچے امید ہے کہ آگے بھی بچتا رہے اور اللہ کی یاد کو اس سے زیادہ اثر ہے یعنی گناہ سے بچے اور اعلیٰ درجوں پر چڑھے۔ 12  Show more