Surat ul Ankaboot

Surah: 29

Verse: 7

سورة العنكبوت

وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُکَفِّرَنَّ عَنۡہُمۡ سَیِّاٰتِہِمۡ وَ لَنَجۡزِیَنَّہُمۡ اَحۡسَنَ الَّذِیۡ کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ ﴿۷﴾

And those who believe and do righteous deeds - We will surely remove from them their misdeeds and will surely reward them according to the best of what they used to do.

اور جولوگ ایمان لائے اور انہو ں نے مطابق سنت کام کیے ہم ان کے تمام گناہوں کو ان سے دور کر دیں گے اور انہیں ان کے نیک اعمال کے بہترین بدلے دیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Those who believe, and do righteous good deeds, surely, We shall expiate from them their evil deeds and We shall indeed reward them according to the best of that which they used to do.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

71یعنی باوجود اس بات کے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق سے بےنیاز ہے، وہ محض اپنے فضل و کرم سے اہل ایمان کو ان کے عملوں کی بہترین جزا عطا فرمائے گا۔ اور ایک ایک نیکی پر کئی کئی گنا اجر ثواب دے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[ ٨] اس کی تین صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ جو شخص اسلام لائے اس کے سابقہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح نیک اعمال بجا لانے سے چھوٹی موٹی برائیاں معاف کردی جاتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ جو شخص نیک کام بجا لانا شروع کردے۔ اس کو از خود برائیوں سے نفرت ہوجاتی ہے۔ تیسرے یہ کہ جس معاشرہ میں نیکیاں رواج پانے لگیں۔ برائیاں از خود مٹتی چلی جاتی ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ایک چیز آئے گی تو لامحالہ دوسری کو رخصت ہونا پڑے گا۔ بالکل ایسا ہی معاملہ سنت اور بدعت کا ہے۔ جس کے متعلق واضح الفاظ میں رسول اللہ نے فرمادیا کہ :&& جہاں ایک بدعت رواج پاتی ہے تو وہاں سے ایک سنت اٹھا لی جاتی ہے &&۔ گویا بدعت کے رواج پانے کا ہی دوسرا پہلو سنت کا اٹھ جانا ہے۔ [ ٩] اس جملہ کے بھی دو مطلب ہیں ایک تو ترجمہ سے واضح ہے۔ یعنی جتنا اس نیک عمل کا اجر تھا اس سے زیادہ یا بہتر عطا کرے گا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ انسان کا جو بہتر عمل ہوگا اللہ اس کے باقی عملوں کا بھی اس بہتر عمل کے معاوضہ کے حساب سے معاوضہ عطا فرما دے گا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَـيِّاٰتِهِمْ : یعنی جو لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے، آزمائش پر ثابت قدم رہے، مشرکین کی ایذا سے متزلزل نہیں ہوئے، پھر صالح اعمال کرتے رہے، اپنے اور اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں سے جہاد کرتے رہے تو ہم ان کی برائیاں ضرور دور کردیں گے، ایمان لانے کی برکت سے پچھلے تمام گناہ معاف کردیں گے، پھر اعمال میں سے ہجرت سے پہلے کے تمام گناہ معاف کردیں گے اور حج سے پہلے کے تمام گناہ معاف کردیں گے۔ عمرو بن عاص (رض) کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام داخل کیا تو میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور کہا : ” اپنا دایاں ہاتھ پھیلائیں، تاکہ میں آپ کی بیعت کروں۔ “ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ پھیلایا، کہتے ہیں، میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تو آپ نے فرمایا : ” عمرو ! تمہیں کیا ہوا ؟ “ میں نے کہا : ” میں چاہتا ہوں کہ شرط کرلوں۔ “ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” کس چیز کی شرط کرو گے ؟ “ میں نے کہا : ” اس بات کی کہ مجھے بخش دیا جائے۔ “ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الإِْسْلاَمَ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ ؟ وَأَنَّ الْہِجْرَۃَ تَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہَا ؟ وَأَنَّ الْحَجَّ یَہْدِمُ مَا کَانَ قَبْلَہُ ؟ ) [ مسلم، الإیمان، باب کون الإسلام یھدم ما قبلہ ۔۔ : ١٢١ ] ” کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اسلام اپنے سے پہلے جو کچھ ہوا اسے گرا دیتا ہے ؟ اور ہجرت اپنے سے پہلے جو کچھ ہوا اسے گرا دیتی ہے ؟ اور حج اپنے سے پہلے جو کچھ ہوا اسے گرا دیتا ہے ؟ “ پھر توبہ سے گزشتہ گناہ معاف ہی نہیں ہوتے بلکہ نیکیوں میں بدل دیے جاتے ہیں، تفصیل کے لیے دیکھیے سورة فرقان کی آیت (٧٠) کی تفسیر۔ اس کے علاوہ وضو، نماز، روزہ، صدقہ اور جہاد غرض ہر نیکی گناہوں کے مٹانے کا باعث بنتی ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورة ہود کی آیت (١١٤) ۔ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : اس کے دو مطلب ہیں، ایک یہ کہ آدمی کے نیک اعمال میں سے جو اعمال سب سے زیادہ اچھے ہوں گے ان کو ملحوظ رکھ کر اسے اچھی جزا دی جائے گی۔ دوسرا یہ کہ آدمی اپنے عمل کے لحاظ سے جتنی جزا کا مستحق ہوگا اس سے زیادہ اچھی جزا اسے دی جائے گی۔ کفر کی حالت میں جو نیک اعمال کیے تھے مسلمان ہونے کے بعد ان کی جزا بھی ملے گی۔ حکیم بن حزام (رض) بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا : ” یا رسول اللہ ! یہ بتائیں کہ وہ کام جو میں جاہلیت میں ثواب سمجھ کر کرتا تھا، یعنی صلہ رحمی، غلام آزاد کرنا اور صدقہ، تو کیا میرے لیے ان میں اجر ہے ؟ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ( أَسْلَمْتَ عَلٰی مَا سَلَفَ لَکَ مِنْ خَیْرٍِ ) [ بخاري، البیوع، باب شراء المملوک من الحربي و ھبتہ و عتقہ : ٢٢٢٠ ] ” تم اس تمام نیکی سمیت مسلمان ہوئے ہو جو اس سے پہلے تم نے کی۔ “ پھر ایمان لانے کے بعد ہر نیکی کا بدلا دس گنا سے لے کر سات سو گنا یا اس سے بھی زیادہ تک بلکہ بلا حساب دیا جائے گا۔ دیکھیے سورة نساء (٤٠) ، انعام (١٦٠) ، قصص (٨٤) ، بقرہ (٢٦١) ، زمر (١٠) اور مومن (٤٠) ۔ 3 رازی نے بہتر بدلے کے متعلق ایک نفیس نکتہ بیان فرمایا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ آدمی کے اعمال یا تو دل سے تعلق رکھتے ہیں، یا آنکھ سے نظر آتے ہیں، یا کان کے ساتھ سنائی دیتے ہیں، یہ اللہ کا فضل ہے کہ ان اعمال کے بدلے میں جو آنکھوں سے نظر آتے ہیں وہ نعمتیں دے گا ” مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ “ (جو کسی آنکھ نے نہیں دیکھیں) اور کان سے سنائی دینے والے اعمال کے بدلے میں وہ نعمتیں دے گا ” وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ “ (جو کسی کان نے نہیں سنیں) اور دل کے ایمان اور حسن اعتقاد کے بدلے میں وہ نعمتیں دے گا ” وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ “ (جن کا خیال تک کسی بشر کے دل میں نہیں آیا) ۔ ایمان اور عمل صالح کی اس سے بہتر جزا کیا ہوسکتی ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَـيِّاٰتِہِمْ وَلَنَجْزِيَنَّہُمْ اَحْسَنَ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۝ ٧ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے صالح الصَّلَاحُ : ضدّ الفساد، وهما مختصّان في أكثر الاستعمال بالأفعال، وقوبل في القرآن تارة بالفساد، وتارة بالسّيّئة . قال تعالی: خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] ( ص ل ح ) الصالح ۔ ( درست ، باترتیب ) یہ فساد کی ضد ہے عام طور پر یہ دونوں لفظ افعال کے متعلق استعمال ہوتے ہیں قرآن کریم میں لفظ صلاح کبھی تو فساد کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے اور کبھی سیئۃ کے چناچہ فرمایا : خَلَطُوا عَمَلًا صالِحاً وَآخَرَ سَيِّئاً [ التوبة/ 102] انہوں نے اچھے اور برے عملوں کے ملا دیا تھا ۔ كَفَّارَة ( گناهوں کا چهپانا) والْكَفَّارَةُ : ما يغطّي الإثم، ومنه : كَفَّارَةُ الیمین نحو قوله : ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة/ 89] وکذلك كفّارة غيره من الآثام ککفارة القتل والظّهار . قال : فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة/ 89] والتَّكْفِيرُ : ستره وتغطیته حتی يصير بمنزلة ما لم يعمل، ويصحّ أن يكون أصله إزالة الکفر والکفران، نحو : التّمریض في كونه إزالة للمرض، وتقذية العین في إزالة القذی عنه، قال : وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة/ 65] ، نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء/ 31] وإلى هذا المعنی أشار بقوله : إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود/ 114] وقیل : صغار الحسنات لا تكفّر کبار السّيّئات، وقال : لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران/ 195] ، لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر/ 35] ويقال : كَفَرَتِ الشمس النّجومَ : سترتها، ويقال الْكَافِرُ للسّحاب الذي يغطّي الشمس واللیل، قال الشاعر : ألقت ذکاء يمينها في کافر «1» وتَكَفَّرَ في السّلاح . أي : تغطّى فيه، والْكَافُورُ : أکمام الثمرة . أي : التي تكفُرُ الثّمرةَ ، قال الشاعر : كالکرم إذ نادی من الکافوروالْكَافُورُ الذي هو من الطّيب . قال تعالی: كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] . الکفا رۃ جو چیز گناہ دور کردے اور اسے ڈھانپ لے اسے کفارہ کہا جاتا ہے اسی سے کفارۃ الیمین ہے چناچہ اس کا ذکر کرتی ہوئے فرمایا : ۔ ذلِكَ كَفَّارَةُ أَيْمانِكُمْ إِذا حَلَفْتُمْ [ المائدة/ 89] یہ تمہاری قسموں کا کفارۃ ہے جب تم قسمیں کھالو ۔ فَكَفَّارَتُهُ إِطْعامُ عَشَرَةِ مَساكِينَ [ المائدة/ 89] تو اس کا کفارہ دس محتاجوں کو کھانا کھلانا ہے ۔ اسی طرح دوسرے گناہ جیسے قتل اظہار وغیرہ کے تادان پر بھی کفارہ کا لفظ استعمال ہوا ہے : التکفیرۃ اس کے معنی بھی گناہ کو چھپانے اور اسے اس طرح مٹا دینے کے ہیں جسے اس کا ارتکاب ہی نہیں کیا اور ہوسکتا ہے کہ یہ اصل میں ازالۃ کفر یا کفران سے ہو جیسے تم یض اصل میں ازالہ مرض کے آتے ہیں اور تقد یۃ کے معنی ازالہ قذی تنکا دور کرنے کے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنا عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ المائدة/ 65] اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو ہم ان سے ان کے گناہ محو کردیتے ۔ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيِّئاتِكُمْ [ النساء/ 31] تو ہم تمہارے ( چھوٹے چھوٹے ) گناہ معاف کر دینگے چناچہ آیت کریمہ : ۔ إِنَّ الْحَسَناتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئاتِ [هود/ 114] کچھ شک نہیں نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں میں بھی اسی معنی کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے مگر بعض نے کہا ہے کہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں بڑے گناہوں کا کفارہ نہیں بن سکتیں ۔ لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئاتِهِمْ [ آل عمران/ 195] میں ان کے گناہ دور کردوں گا ۔ لِيُكَفِّرَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَسْوَأَ الَّذِي عَمِلُوا [ الزمر/ 35] تاکہ خدا ان سے برایئوں کو جو انہوں نے کیں دور کر دے ۔ محاورہ ہے : ۔ کفرت الشمس النجوم سورج نے ستاروں کو چھپادیا اور اس بادل کو بھی کافر کہا جاتا ہے جو سورج کو چھپا لیتا ہے : ۔ تکفر فی السلاح اس نے ہتھیار پہن لئے ۔ الکافو ر اصل میں پھلوں کے خلاف کو کہتے ہیں جو ان کو اپنے اندر چھپائے رکھتا ہے شاعر نے کہا ہے ( 375 ) کا لکریم اذ نادی من لکافور جیسے انگور شگوفے کے غلاف سے ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن کافور ایک مشہور خوشبو کلمہ بھی نام ہے چناچہ فرمایا : ۔ كانَ مِزاجُها كافُوراً [ الإنسان/ 5] جس میں کافور کی آمیزش ہوگی ۔ سَّيِّئَةُ : الفعلة القبیحة، وهي ضدّ الحسنة، قال : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10]: بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] سَّيِّئَةُ : اور ہر وہ چیز جو قبیح ہو اسے سَّيِّئَةُ :، ، سے تعبیر کرتے ہیں ۔ اسی لئے یہ لفظ ، ، الحسنیٰ ، ، کے مقابلہ میں آتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ثُمَّ كانَ عاقِبَةَ الَّذِينَ أَساؤُا السُّوای[ الروم/ 10] پھر جن لوگوں نے برائی کی ان کا انجام بھی برا ہوا ۔ چناچہ قرآن میں ہے اور سیئۃ کے معنی برائی کے ہیں اور یہ حسنۃ کی ضد ہے قرآن میں ہے : بَلى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً [ البقرة/ 81] جو برے کام کرے جزا الجَزَاء : الغناء والکفاية، وقال تعالی: لا يَجْزِي والِدٌ عَنْ وَلَدِهِ وَلا مَوْلُودٌ هُوَ جازٍ عَنْ والِدِهِ شَيْئاً [ لقمان/ 33] ، والجَزَاء : ما فيه الکفاية من المقابلة، إن خيرا فخیر، وإن شرا فشر . يقال : جَزَيْتُهُ كذا وبکذا . قال اللہ تعالی: وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، ( ج ز ی ) الجزاء ( ض ) کافی ہونا ۔ قرآن میں ہے :۔ { لَا تَجْزِي نَفْسٌ عَنْ نَفْسٍ شَيْئًا } ( سورة البقرة 48 - 123) کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا ۔ کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آسکیگا ۔ الجزاء ( اسم ) کسی چیز کا بدلہ جو کافی ہو جیسے خیر کا بدلہ خیر سے اور شر کا بدلہ شر سے دیا جائے ۔ کہا جاتا ہے ۔ جزیتہ کذا بکذا میں نے فلاں کو اس ک عمل کا ایسا بدلہ دیا قرآن میں ہے :۔ وَذلِكَ جَزاءُ مَنْ تَزَكَّى [ طه/ 76] ، اور یہ آں شخص کا بدلہ ہے چو پاک ہوا ۔ احسان الإحسان فوق العدل، وذاک أنّ العدل هو أن يعطي ما عليه، ويأخذ أقلّ مما له، والإحسان أن يعطي أكثر مما عليه، ويأخذ أقلّ ممّا له «3» . فالإحسان زائد علی العدل، فتحرّي العدل واجب، وتحرّي الإحسان ندب وتطوّع، وعلی هذا قوله تعالی: وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] ( ح س ن ) الحسن الاحسان ( افعال ) احسان عدل سے بڑھ کر چیز ہے کیونکہ دوسرے کا حق پورا دا کرنا اور اپنا حق پورا لے لینے کا نام عدل ہے لیکن احسان یہ ہے کہ دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیا جائے اور اپنے حق سے کم لیا جائے لہذا احسان کا درجہ عدل سے بڑھ کر ہے ۔ اور انسان پر عدل و انصاف سے کام لینا تو واجب اور فرض ہے مگر احسان مندوب ہے ۔ اسی بنا پر فرمایا :۔ وَمَنْ أَحْسَنُ دِيناً مِمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ [ النساء/ 125] اور اس شخص سے کس کا دین اچھا ہوسکتا ہے جس نے حکم خدا قبول کیا اور وہ نیکو کا ر بھی ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل «6» ، لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٧) اور جو لوگ ایمان لائے یعنی حضرت علی (رض) اور ان کے ساتھی تو ہم ان کے چھوٹے گناہوں کو معاف کردیں گے اور ہم ان کو ان کے جہاد سے اچھا بدلہ دیں گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٧ (وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَنُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ ) ” جو لوگ ایمان لانے کے بعد ایمان کے تقاضوں کو پوراکریں گے اور اس رستے میں آنے والی مصیبتوں اور تکلیفوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کریں گے ہم ان کے دامن پر سے گناہوں کے چھوٹے موٹے داغ دھبے دور کردیں گے۔ (وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَحْسَنَ الَّذِیْ کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ ) ” زیر مطالعہ رکوع کے مضمون کی اہمیت کا اندازہ اس پہلو سے بھی لگائیں کہ ان آیات میں لام مفتوح اور نونّ مشدد کی تکرار ہے۔ یعنی جابجا انتہائی تاکید کا انداز اختیار کیا گیا ہے۔ آیت ٣ میں دو مرتبہ یہی تاکید کا صیغہ آیا ہے : (فَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْکٰذِبِیْنَ ) جبکہ زیر مطالعہ آیت میں بھی دونوں باتوں میں تاکید کا وہی انداز پایا جاتا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

10 Iman means to believe in and accept sincerely all those things to which the Messenger of Allah and this Book invite; and "good works" are those which are performed in accordance with the guidance of Allah and His Messenger. The good work of the heart and mind is that man's thinking and his ideas and his intentions should be right and pure. The good work of the tongue is that man should refrain from talking evil things, and whatever he says should be just and right and true; and the good work of the limbs is that man's entire life should be spent in Allah's worship and in obedience to His Commands and Law. Two results of the belief and righteous deeds have been mentioned: (1) That man's evils will be wiped off; and (2) that he will be rewarded for the best of his deeds better than what he will actually deserve. Wiping off of evils means several things: (1) All kinds of sins that man might have committed before his affirmation of the Faith will be pardoned as soon as he believes; (2) the errors that man might have committed after the affirmation of the faith due to human weakness, but not because of a rebellious attitude, will be overlooked in view of his good deeds; (3) man's self reform will automatically take place when he adopts a life of belief and righteousness. and most of his weaknesses will be removed from him. The sentence, "We shall reward them for the best of their deeds", has two meanings: (1) Man will be given his rewards on the basis of the best of his deeds; and (2) he will be rewarded better and more handsomely than what he will actually deserve for his deeds. This thing has been stated at other places also in the Qur'an. For instance, in Surah Al-An`am. :160, it has been said: "He who will bring a good deed before Allah, will receive a tenfold reward for it", and in Surah AlQasas :4: "Whoever brings a good deed, shall have a better reward than that", and in Surah An-Nisa :40: "Indeed Allah dces not wrong anyone even by a jot: if one does a good deed, He increases it manifold. "

سورة العنکبوت حاشیہ نمبر : 10 ایمان سے مراد ان تمام چیزوں کو سچے دل سے ماننا ہے جنہیں تسلیم کرنے کی دعوت اللہ کے رسول اور اس کی کتاب نے دی ہے ۔ اور عمل صالح سے مراد اللہ اور اس کے رسول کی ہدایت کے مطابق عمل کرنا ہے ۔ دل و دماغ کا عمل صالح یہ ہے کہ آدمی کی فکر اور اس کے خیالات اور ارادے درست اور پاکیزہ ہوں ۔ زبان کا عمل صالح یہ ہے کہ آدمی برائی پر زبان کھولنے سے بچے اور جو بات بھی کرے حق و انصاف اور راستی کے مطابق کرے ۔ اور اعضا و جوارح کا عمل صالح یہ ہے کہ آدمی کی پوری زندگی اللہ کی اطاعت و بندگی میں اور اس کے احکام و قوانین کی پابندی میں بسر ہوں ، اس ایمان و عمل صالح کے دو نتیجے بیان کیے گئے ہیں: ایک یہ کہ آدمی کی برائیاں ا سے دور کردی جائیں گی ۔ دوسرا یہ کہ اسے اس کے بہترین اعمال کی ، اور اس کے اعمال سے بہتر جزا دی جائے گی ۔ برائیاں دور کرنے سے مراد کئی چیزیں ہیں ۔ ایک یہ کہ ایمان لانے سے پہلے آدمی نے خواہ کیسے ہی گناہ کیے ہوں ، ایمان لاتے ہی وہ سب معاف ہوجائیں گے ، دوسرے یہ کہ ایمان لانے کے بعد آدمی نے بغاوت کے جذبے سے نہیں بلکہ بشری کمزوری سے جو قصور کیے ہوں ، اس کے نیک اعمال کا لحاظ کر کے ان سے درگزر کیا جائے گا ۔ تیسرے یہ کہ ایمان و عمل صالح کی زندگی اختیار کرنے سے آدمی کے نفس کی اصلاح آپ سے آپ ہوگی اور اس کی بہت سی کمزوریاں دور ہوجائیں گی ۔ ایمان و عمل صالح کی جزا کے متعلق جو فقرہ ارشاد فرمایا گیا ہے وہ ہے وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِيْ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ۔ اس کے دو مطلب ہیں ۔ ایک یہ کہ آدمی کے نیک اعمال میں سے جو اعمال سب سے زیادہ اچھے ہوں گے ان کو ملحوظ رکھ کر اس کے لیے جزا تجویز کی جائے گی ۔ دوسرے یہ کہ آدمی اپنے عمل کے لحاظ سے جتنی جزا کا مستحق ہوگا اس سے زیادہ اچھی جزا اسے دی جائے گی ۔ یہ بات دوسرے مقامات پر بھی قرآن میں فرمائی گئی ہے ۔ مثلا سورہ انعام میں فرمایا مَنْ جَاۗءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَا ۔ ( آیت 160 ) جو نیکی لے کر آئے گا اس کو اس سے دس گنا اجر دیا جائے گا ۔ اور سورہ قصص میں فرمایا مَنْ جَاۗءَ بِالْحَـسَـنَةِ فَلَهٗ خَيْرٌ مِّنْهَا ۔ ( آیت 84 ) جو شخص نیکی لے کر آئے گا اس کو اس سے بہتر اجر دیا جائے گا ۔ اور سورہ نساء میں فرمایا اِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۚ وَاِنْ تَكُ حَسَنَةً يُّضٰعِفْھَا ۔ ( آیت 40 ) اللہ طلم تو ذرہ برابر نہیں کرتا ، اور نیکی ہو تو اس کو کئی گنا بڑھاتا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(29:7) لنکفرن میں لام تاکید کا ہے نکفرن مضارع بانون ثقیلہ ۔ جمع متکلم ۔ کفر یکفر تکفیر (تفعل) گناہ کو چھپانا اور اس طرح مٹانا جیسا کہ اس کا ارتکاب ہی نہیں ہوا۔ باب تفعیل کے خواص میں سے سلب مادہ (کسی چیز سے ماخذ کو دور کرنا) بھی ہے یہاں اس ہی معنی میں آیا ہے کفرلہ وعنہ ذنبہ (خدا کا) کسی کا گناہ معاف کردینا یا اس سے گناہ کو محو کردینا گویا کہ اس کا ارتکاب ہوا ہی نہ تھا۔ پس ترجمہ ہوگا :۔ لنکفرن عنھم سیئاتھم۔ تو ہم ان سے ان کے گناہ محو کردیں گے ۔ انہی معنی میں اور جگہ ارشاد ہے لکفرنا عنہم سیئاتھم (5: 65) تو ہم ان سے ان کے گناہ محو کردیتے اور نکفر عنکم سیئاتکم (4:31) تو ہم تمہارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کردیں گے۔ لنجزینھم لام تاکید کا ہے نجزین مضارع تاکید بانون ثقیلہ صیغہ جمع متکلم۔ ہم بدلہ دیں گے ۔ احسن الذی کانوا یعملون ۔ اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوسکتی ہیں :۔ (1) اگر احسن (جو افعل التفضیل کا صیغہ ہے) جزاء کی تعریف میں ہے ای یا حسن جزاء اعمالہم تو ترجمہ ہوگا ۔ ہم انہیں ان کے اعمال کا بہترین بدلہ دیں گے۔ (92 اگر یہ افعال کی تعریف ہے ای بجزاء احسن اعمالہم۔ تو ترجمہ ہوگا :۔ ہم ان کے بہترین اعمال کے مطابق بدلہ دیں گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

2 ۔ حتیٰ کہ بعض کے نزدیک کفر کی حالت میں جو نیک عمل کئے تھے ان کی جزا بھی مل جائے گی اور پھر ایمان لانے کے بعد ایک نیکی کا دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ بدلہ ملے گا (قرطبی) حضرت شاہ صاحب لکھتے ہیں : یعنی ایمان کی برکت سے نیکیاں ملیں گی اور برائیاں معاف ہوجائیں گی۔ (موضح)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ کفار طرح طرح سے مسلمانوں کو اسلام سے ہٹانے کی فکریں کرتے تھے، بعضے جسمانی ایذائیں پہنچایا کرتے تھے، اور بعضے دوسرے طریقوں سے مجبور کرتے۔ چناچہ سعد بن ابی وقاص کی والدہ نے ان سے کہا کہ اللہ کا حکم ہے والدین کی اطاعت کا، سو میں قسم کھاتی ہوں کہ کھانا پینا نہ چکھوں گی جب تک کہ تو اسلام کو نہ چھوڑے گا، اگرچہ میری جان نکل جاوے، اس پر اگلی آیت نازل ہوئی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

والذین امنوا اعملوا ۔۔۔۔۔ کانوا یعملون (7) لہٰذا اللہ کی راہ میں کام کرنے والے مزدور اس بات پر مطمئن ہوجائیں کہ انہیں بہت کچھ ملنے والا ہے ، ان کی تقصیرات بھی معاف ہوں گی ، ان کو اچھی جزاء ملے گی ، لہٰذا ان کو جہاد کی تکلیفوں پر صبر کرنا چاہئے۔ مشکلات اور مصائب کو برداشت کرنا چاہئے کیونکہ ان کی امید روشن ہے اور جزاء پاکیزہ ہے۔ اللہ کے ہاں ان کا انتظار ہو رہا ہے۔ یہ اس قدر عظیم اجر ہے کہ اگر انہیں اس دنیا کی پوری زندگی میں انصاف نہ ملے تو بھی وہ کافی ہے۔ سورت کے آغاز میں ہم نے جن آزمائشوں کا ذکر کیا اس کا ایک رنگ اور پہلو اہل و عیال ، محبوبوں اور دوستوں کا فتنہ ہے۔ ان آزمائشوں میں اللہ ایک مومن کو نہایت ہی معتدل موقف اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

اس کے بعد ایک عمومی قانون بتایا : (وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ) (الآیۃ) اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کیے ہم ان کی برائیوں کا کفارہ کردیں گے یعنی ان کی برائیوں کو اپنی مغفرت سے ڈھانپ دیں گے، توبہ کے ذریعہ اور نیکیوں کے ذریعہ اور اپنے فضل و کرم سے انہیں معاف کردیں گے، کفر اور شرک کا ایمان سے کفارہ ہوجاتا ہے اور اسلام قبول کرنے کے بعد جو گناہ کیے ہوں ان کا کفارہ ہوتا رہتا ہے اسلام پر باقی رہتے ہوئے اخلاص کے ساتھ جو اعمال صالحہ اختیار کیے جائیں ان کا اچھے سے اچھا بدلہ ملے گا جو ان کے اعمال سے بہت زیادہ اچھا اور عمدہ ہوگا، تھوڑے سے کام پر بہت زیادہ نعمتیں ملیں گی اور ہر نیکی کم از کم دس گنا کردی جائے گی اور اسی اعتبار سے ثواب ملے گا۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

5:۔ یہ ان مومنوں کے لیے بشارت اخروی ہے جنہوں نے توحید کی خاطر مصائب و آلام پر صبر کیا۔ اٰمنوا، اللہ کی توحید پر ایمان لائے۔ وعملوا الصلحت، اور توحید کی راہ میں مصائب برداشت کیے۔ ولنجزینہم احسن الخ، ان کے اعمال کی ہم ان کو احسن (سب سے بہتر) جزاء دیں گے یعنی ایک نیکی کے بدلے دس گنا یا اس سے زیادہ ثواب جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہے۔ من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالہا ای احسن جزاء اعمالھم والجزاء الحسن ان یجازی بحسنۃ حسنۃ واحسن الجزاء ان تجازی الحسنۃ الواحدۃ بالعشر وزیادۃ (روح ج 20 ص 138) ۔ حضرت شیخ (رح) نے فرمایا، یا مطلب یہ ہے کہ ہم ان کو احسن اعمال یعنی ہجرت کی جزاء دیں گے کیونکہ ہجرت کا ذکر اشارۃً پہلے گذر چکا ہے۔ یعنی ہم ان کو ان کے اس بتہرین عمل کی پوری پوری جزاء دیں گے اور مفہوم مخالف مراد نہیں ہوگا۔ یعنی یہ مفہوم مراد نہ ہوگا کہ جو عمل احسن نہ ہو بلکہ حسن ہو اس کی جزاء نہیں ملے گی۔ اس کی جزاء یا عدم جزاء سے یہاں تعرض نہیں کیا گیا۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

7۔ اور جو لوگ ایمان لائے اور اعمال صالحہ کے پابند رہے تو ہم ان کے گناہ یقینا ان سے دور کردیں گے اور ان سے زائل کردیں گے اور ہم ان کے ان کاموں کو جو وہ کیا کرتے تھے بہترین بدلا عنایت کریں گے۔ یعنی ایمان اور اعمال صالحہ کے پابند رہے تو ان کے گناہ ان سے دور کردیئے جائیں گے اور ان کے ایمانو اعمال صالحہ کا اجر ان کو ان کے حق سے بھی بہتر اور زیادہ دیا جائیگا ۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے یعنی ایمان کی برکت سے نیکیاں ملیں گی اور برائیاں معاف ہوں گی ۔ 12