Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 107

سورة آل عمران

وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ ابۡیَضَّتۡ وُجُوۡہُہُمۡ فَفِیۡ رَحۡمَۃِ اللّٰہِ ؕ ہُمۡ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۱۰۷﴾

But as for those whose faces will turn white, [they will be] within the mercy of Allah . They will abide therein eternally.

اور سفید چہرے والے اللہ تعالٰی کی رحمت میں داخل ہونگے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

And for those whose faces will become white, they will be in Allah's mercy (Paradise), therein they shall dwell forever. in Paradise, where they will reside for eternity and shall never desire to be removed. Abu Isa At-Tirmidhi recorded that Abu Ghalib said, "Abu Umamah saw heads (of the Khawarij sect) hanging on the streets of Damascus. He commented, `The Dogs of the Fire and t... he worst dead people under the cover of the sky. The best dead men are those whom these have killed.' He then recited, يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ (On the Day (i.e. the Day of Resurrection) when some faces will become white and some faces will become black), until the end of the Ayah. I said to Abu Umamah, `Did you hear this from the Messenger of Allah?' He said, `If I only heard it from the Messenger of Allah once, twice, thrice, four times, or seven times, I would not have narrated it to you."' At-Tirmidhi said, "This Hadith is Hasan." Ibn Majah and Ahmad recorded similarly. Allah said,   Show more

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

وَاَمَّا الَّذِيْنَ ابْيَضَّتْ وُجُوْھُھُم : چہروں کی یہ سیاہی اور سفیدی قیامت کے دن ہوگی۔ جو لوگ ایمان پر قائم رہے، پھر بدعات اور گروہ بندی سے بچ کر اصل کتاب و سنت ( مَا أَنَا عَلَیْہِ وَ أَصْحَابِیْ ) پر قائم رہے، ان کے چہرے سفید ہوں گے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

2. The sentence ففی رحمۃ اللہ (they rest in Allah&s mercy) is immediately qualified by هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (they are there forever). This means that the mercy in which the believers shall rest will not be temporary; it would be forever and eternal. This blessing will never be taken away or reduced in their case. In contrast to this are those whose faces shall turn dark; for them, it has no... t be expressly mentioned if they shall be in that state forever. Sinning man earns his own punishment: The verse فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنتُمْ تَكْفُرُ‌ونَ (106) (now taste the punishment because you have been sinning) indicates that the punishment on that Day is not from Allah but that it is as consequence of what man has earned while living his mortal life, for the truth is that the blessings of paradise and the hardships of hell are simply a changed form of our very deeds. So, later on in verse 108, it was said: وَمَا اللَّـهُ يُرِ‌يدُ ظُلْمًا لِّلْعَالَمِينَ (and Allah wants no injustice for { anyone in the worlds} which means that Allah has no intention of being unjust to His creation. Whatever reward or punishment is there, is nothing but justice and very much the perfect expression of the divine wisdom and mercy.  Show more

تیسرا فائدہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے |" ففی رحمۃ اللہ کے بعد ھم فیھا خلدون |" فرماکر بتادیا کہ مومنین اللہ کی جس رحمت میں ہوں گے وہ ان کے لئے عارضی نہیں ہوگی بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہوگی ان سے یہ نعمت کبھی سلب یا کم نہ کی جائے گی، اس کے بالمقابل اہل سواد کے لئے یہ تصریح نہیں فرمائی کہ وہ اس حال میں ہمی... شہ رہیں گے۔ آدمی سزاد اپنے ہی گناہوں کی پاتا ہے : |" فذوقوا العذاب بما کنتم تکفرون |" میں اشارہ فرمادیا کہ آج کا عذاب ہماری طرف سے نہیں بلکہ تمہاری اپنی کمائی سے ہے جو دنیا میں کرتے رہے ہو، کیونکہ در حقیقت جنت و دوزخ کی نعمتیں اور مصائب درحقیقت ہمارے اعمال ہی کی بدلی ہوئی صورتیں ہیں، اسی بات پر متنبہ کرنے کے لئے آخر میں یہ بھی فرمادیا |" وماللہ یرید ظلما للعلمین |" یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے عذاب ثواب جو کچھ ہے عین انصاف و مقتضائے حکمت و رحمت ہے۔   Show more

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاَمَّا الَّذِيْنَ ابْيَضَّتْ وُجُوْھُھُمْ فَفِيْ رَحْمَۃِ اللہِ۝ ٠ ۭ ھُمْ فِيْھَا خٰلِدُوْنَ۝ ١٠٧ «أمَّا» و «أمَّا» حرف يقتضي معنی أحد الشيئين، ويكرّر نحو : أَمَّا أَحَدُكُما فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْراً وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ [يوسف/ 41] ، ويبتدأ بها الکلام نحو : أمّا بعد فإنه كذا . ( ا ما حرف ... ) اما ۔ یہ کبھی حرف تفصیل ہوتا ہے ) اور احد اشیئین کے معنی دیتا ہے اور کلام میں مکرر استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ { أَمَّا أَحَدُكُمَا فَيَسْقِي رَبَّهُ خَمْرًا وَأَمَّا الْآخَرُ فَيُصْلَبُ } ( سورة يوسف 41) تم میں سے ایک ( جو پہلا خواب بیان کرنے ولا ہے وہ ) تو اپنے آقا کو شراب پلایا کریگا اور جو دوسرا ہے وہ سونی دیا جائے گا ۔ اور کبھی ابتداء کلام کے لئے آتا ہے جیسے امابعد فانہ کذا ۔ رحم والرَّحْمَةُ رقّة تقتضي الإحسان إلى الْمَرْحُومِ ، وقد تستعمل تارة في الرّقّة المجرّدة، وتارة في الإحسان المجرّد عن الرّقّة، وعلی هذا قول النّبيّ صلّى اللہ عليه وسلم ذاکرا عن ربّه «أنّه لمّا خلق الرَّحِمَ قال له : أنا الرّحمن، وأنت الرّحم، شققت اسمک من اسمي، فمن وصلک وصلته، ومن قطعک بتتّه» فذلک إشارة إلى ما تقدّم، وهو أنّ الرَّحْمَةَ منطوية علی معنيين : الرّقّة والإحسان، فركّز تعالیٰ في طبائع الناس الرّقّة، وتفرّد بالإحسان، فصار کما أنّ لفظ الرَّحِمِ من الرّحمة، فمعناه الموجود في الناس من المعنی الموجود لله تعالی، فتناسب معناهما تناسب لفظيهما . والرَّحْمَنُ والرَّحِيمُ ، نحو : ندمان وندیم، ولا يطلق الرَّحْمَنُ إلّا علی اللہ تعالیٰ من حيث إنّ معناه لا يصحّ إلّا له، إذ هو الذي وسع کلّ شيء رَحْمَةً ، والرَّحِيمُ يستعمل في غيره وهو الذي کثرت رحمته، قال تعالی: إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] ، وقال في صفة النبيّ صلّى اللہ عليه وسلم : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] ، وقیل : إنّ اللہ تعالی: هو رحمن الدّنيا، ورحیم الآخرة، وذلک أنّ إحسانه في الدّنيا يعمّ المؤمنین والکافرین، وفي الآخرة يختصّ بالمؤمنین، وعلی هذا قال : وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ، تنبيها أنها في الدّنيا عامّة للمؤمنین والکافرین، وفي الآخرة مختصّة بالمؤمنین . ( ر ح م ) الرحم ۔ الرحمۃ وہ رقت قلب جو مرحوم ( یعنی جس پر رحم کیا جائے ) پر احسان کی مقتضی ہو ۔ پھر کبھی اس کا استعمال صرف رقت قلب کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی صرف احسان کے معنی میں خواہ رقت کی وجہ سے نہ ہو ۔ اسی معنی میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک حدیث قدسی میں فرمایا ہے (152) انہ لما خلق اللہ الرحم قال لہ انا الرحمن وانت الرحم شفقت اسمک میں اسمی فمن وصلک وصلتہ ومن قطعت قطعتۃ ۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے رحم پیدا کیا تو اس سے فرمایا :۔ تین رحمان ہوں اور تو رحم ہے ۔ میں نے تیرے نام کو اپنے نام سے اخذ کیا ہے ۔ پس جو تجھے ملائے گا ۔ ( یعنی صلہ رحمی کرے گا ) میں بھی اسے ملاؤں گا اور جو تجھے قطع کرلیگا میں اسے پارہ پارہ کردوں گا ، ، اس حدیث میں بھی معنی سابق کی طرف اشارہ ہے کہ رحمت میں رقت اور احسان دونوں معنی پائے جاتے ہیں ۔ پس رقت تو اللہ تعالیٰ نے طبائع مخلوق میں ودیعت کردی ہے احسان کو اپنے لئے خاص کرلیا ہے ۔ تو جس طرح لفظ رحم رحمت سے مشتق ہے اسی طرح اسکا وہ معنی جو لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ وہ بھی اس معنی سے ماخوذ ہے ۔ جو اللہ تعالیٰ میں پایا جاتا ہے اور ان دونوں کے معنی میں بھی وہی تناسب پایا جاتا ہے جو ان کے لفظوں میں ہے : یہ دونوں فعلان و فعیل کے وزن پر مبالغہ کے صیغے ہیں جیسے ندمان و ندیم پھر رحمن کا اطلاق ذات پر ہوتا ہے جس نے اپنی رحمت کی وسعت میں ہر چیز کو سما لیا ہو ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر اس لفظ کا اطلاق جائز نہیں ہے اور رحیم بھی اسماء حسنیٰ سے ہے اور اس کے معنی بہت زیادہ رحمت کرنے والے کے ہیں اور اس کا اطلاق دوسروں پر جائز نہیں ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :َ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [ البقرة/ 182] بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ اور آنحضرت کے متعلق فرمایا ُ : لَقَدْ جاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ ما عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَحِيمٌ [ التوبة/ 128] لوگو ! تمہارے پاس تمہیں سے ایک رسول آئے ہیں ۔ تمہاری تکلیف ان پر شاق گزرتی ہے ( اور ) ان کو تمہاری بہبود کا ہو کا ہے اور مسلمانوں پر نہایت درجے شفیق ( اور ) مہربان ہیں ۔ بعض نے رحمن اور رحیم میں یہ فرق بیان کیا ہے کہ رحمن کا لفظ دنیوی رحمت کے اعتبار سے بولا جاتا ہے ۔ جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے اور رحیم اخروی رحمت کے اعتبار سے جو خاص کر مومنین پر ہوگی ۔ جیسا کہ آیت :۔ وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ فَسَأَكْتُبُها لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأعراف/ 156] ہماری جو رحمت ہے وہ ( اہل ونا اہل ) سب چیزوں کو شامل ہے ۔ پھر اس کو خاص کر ان لوگوں کے نام لکھ لیں گے ۔ جو پرہیزگاری اختیار کریں گے ۔ میں اس بات پر متنبہ کیا ہے کہ دنیا میں رحمت الہی عام ہے اور مومن و کافروں دونوں کو شامل ہے لیکن آخرت میں مومنین کے ساتھ مختص ہوگی اور کفار اس سے کلیۃ محروم ہوں گے ) الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ خلد الخُلُود : هو تبرّي الشیء من اعتراض الفساد، وبقاؤه علی الحالة التي هو عليها، والخُلُودُ في الجنّة : بقاء الأشياء علی الحالة التي عليها من غير اعتراض الفساد عليها، قال تعالی: أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] ، ( خ ل د ) الخلودُ ( ن ) کے معنی کسی چیز کے فساد کے عارضہ سے پاک ہونے اور اپنی اصلی حالت پر قائم رہنے کے ہیں ۔ اور جب کسی چیز میں دراز تک تغیر و فساد پیدا نہ ہو۔ قرآن میں ہے : ۔ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُونَ [ الشعراء/ 129] شاید تم ہمیشہ رہو گے ۔ جنت میں خلود کے معنی یہ ہیں کہ اس میں تمام چیزیں اپنی اپنی اصلی حالت پر قائم رہیں گی اور ان میں تغیر پیدا نہیں ہوگا ۔ قرآن میں ہے : ۔ أُولئِكَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيها خالِدُونَ [ البقرة/ 82] یہی صاحب جنت میں ہمشہ اسمیں رہیں گے ۔  Show more

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 ابن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ سفیدی اور سیاہی قیامت کے دن ہوگی۔ اھل السنتہ والجماعتہ کے چہرے سفید ہوں گے اور بدعتی فرقوں کے چہرے سیا ہوں گے ابو مامتہ (رض) نے مسجد دمشق کی سیڑھی پر کچھ لوگوں خارجیوں کے سر رکھے ہوئے دیکھ کر فرمایا۔ یہ جہنم کے یئے ہیں آسمان کے نیچے سب سے برے مقتول ہیں۔ جن لوگوں کو ان... ہوں نے قتل کیا وہ بہترین مقتول ہیں۔ (ابن کثیر )  Show more

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

157 یہ مومنوں کے لیے خوشخبری ہے اور رَحْمَةُ اللہِ سے مراد جنت ہے۔ جنت کو لفظ رحمت سے تعبیر فرمانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ مومن اگرچہ تمام عمر عبادت الٰہی میں بسر کر ڈالے اور ایک لمحہ کے لیے بھی اللہ کی نافرمانی نہ کرے تو آخرت میں جو انعام اسے ملے گا۔ وہ محض اس کی رحمت اور اس کے فضل سے ملے گا۔ وانما ... عبر عن ذالک بالرحمۃ اشعار ابان المؤمن وان استغرق عمرہ فی طاعۃ اللہ تعالیٰ فانہ لا ینال ما ینال الا برحمتہ تعالیٰ (روح ص 26 ج 4) ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ۔ اور وہ جنت میں ہمیشہ رہیں گے نہ انہیں موت آئے گی اور نہ جنت اور اس کی نعمتوں پر فنا آئے گا۔ فی جنتہ وکرامتہ خالدون باقون (قرطبی ص 169 ج 1) ۔  Show more

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1 اور تم اے مسلمانو ! ان لوگوں کی طرح نہ ہوجانا جنہوں نے باوجود اس کے ان کے پاس واضح دلائل آ چکے تھے اور انہوں نے واضح دلائل اور واضح احکام پہنچ جانے کے بعد پھر دین میں باہم تفریق کرلی اور جدا جدا ٹولیاں بنالیں اور راہ راست سے جدا ہوگئے اور محض اپنی نفسانی خواہشات اور آپس کی ضد سے باہم اختلاف کرنے...  لگے اور ایسے ہی لوگوں کے لئے اس دن بہت بڑا عذاب ہے اور وہ بڑے ہولناک عذاب میں مبتلا ہوں گے جس دن بہت سے چہرے سفید یعنی روشن اور چمکتے ہوئے ہوں گے اور بہت سے چہرے اس دن سیاہ ہوں گے۔ لہٰذا جن لوگوں کے چہرے کالے اور سیاہ ہوں گے ان سے کہا جائے گا کیا تم ہی لوگوں نے اپنے ایمان لائے پیچھے کافرانہ روش اختیار کی تھی اور تم ہی ایمان کے بعد کافر ہوئے تھے اچھا تو اب تم اپنے اس کافرانہ طریق کی سزا کا مزہ چکھو جو تم نے اختیار کی تھی اور جو کفر تم کیا کرتے تھے اس کی وجہ سے عذاب کا مزہ چکھو اور رہے وہ لوگ جن کے منہ روشن اور چمکدار ہوں گے سو وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دامن میں ہوں گے اور رحمت خداوندی کے سایہ میں ان کو جگہ ملے گی اور وہ اس رحمت میں ہمیشہ رہیں گے۔ (تیسیر) مطلب یہ ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح آپس میں پھوٹ نہ ڈال لینا جو عام طور پر اہل کتاب اور کافروں کا شیوہ رہا ہے یا اہل بدعت اور اہل فسق کا طریقہ رہا ہے کہ واضح دلائل اور صاف وصریح احکام آجانے کے بعد بھی اصول دین میں تفرقہ اندازی کرتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کے پیش نظر فروعی مسائل میں بھی اختلاف کرتے ہیں۔ ایسے فرقہ پرست اور تفرقہ انداز لوگوں کو اس دن بڑا عذاب ہوگا جس دن بہت سے ایمان داروں کے چہرے روشن اور چمکتے ہوئے ہوں گے اور بکثرت کافروں فاسقوں اور اہل بدعات اور اہل اہواء کے چہرے سیاہ ہونگے ان موخر الذکر لوگوں سے جن کے چہرے سیاہ ہوں گے کہا جائے گا کیا تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے تھے یا تم نے ایمان کا اقرار کرنے کے بعد کافرانہ روش اختیار کی تھی اور عملی کفر کیا تھا۔ لہٰذا اب تم اپنے اس اعتقادی اور عملی کفر کی پاداش میں عذاب کا مزہ چکھو اور وہ ایمان دار اور مخلص اور کتاب و سنت کے پابند لوگ جن کے چہرے روشن ہوں گے رحمت سے مراد جنت ہے چونکہ جنت میں داخل ہونا حضرت حق تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل پر موقوف ہے اس لئے جنت کو رحمت فرمایا۔ اس آیت میں مفسرین کے کئی قول ہیں لیکن صحیح بات یہ ہے کہ الذین تفرقوا میں سب ہی لوگ داخل ہیں خواہ وہ مرتد ہوں کافروں میں سے اہل کتاب ہوں یا عام کفار ہوں منافق ہوں یا فساق فجار ہوں یا اہل بدعت اور فرق باطلہ ہوں سب کو یہ آیت شامل ہے۔ کیونکہ ہر شخص کے اختلاف کا مبنی اپنی اپنی اغراض اور نفسانی خواہشات ہیں جن کے باعث کوئی مرتد ہوگیا۔ کوئی منافق بن گیا۔ زبان سے اسلام کا اقرار کیا دل سے کافر رہا کوئی کفر ہی پر قائم رہا کوئی باوجود مسلمان ہونے کے بدعت کی طرف مائل ہوگیا کسی نے فسق کی راہ اختیار کی اور کوئی دین میں جدا گانہ راہ قائم کر بیٹھا جیسے اسلام میں فرق باطلہ۔ جنہوں نے اہل سنت والجماعت سے اختلاف کیا اور نئے نئے فرقے بنا لئے۔ حضرت ابو امامہ کا قول ہے کہ یہ لوگ خوارج ہیں جب آیت کو عام رکھا جائے تو اسی کی مناسبت سے اکفرتم کا ترجمہ کیا جائے۔ جیسا کہ ہم نے تیسیر میں اس کی تشریح کردی ہے کیونکہ کفر بھی دو قسم کا ہے ایک اعتقادی ایک عملی۔ اہل کتاب نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تشریف آوری سے قبل آپ کو تسلیم کیا اور آپ کی نبوت کو مانا لیکن آپ کی بعثت کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا انکار کیا اور کفر کے مرتکب ہوئے۔ منافق بھی حقیقی کفر کے مرتکب ہوتے رہے کافر تو وہ بھی یوم میثاق میں حق تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کرچکے تھے مگر دنیا میں آ کر اس اقرار سے پھرگئے یہی حال مرتدین کا ہے کہ دنیا میں آ کر ایمان لائے پھر کافر ہوگئے۔ یہ سب لوگ اعتقادی کافر ہیں رہے فساق و فجار اور اہل بدعت و اہواء تو وہ لوگ عملی کافر ہیں ان سے کہا جائے گا کہ تم نے مسلمان ہونے کے بعد کفر کے لئے کام کئے۔ اب خلاصہ یہ ہوا کہ اے مسلمانو ! تم ان کفار اور مرتدین اور اہل بدعت اور اہل اہواء کی طرح نہ ہونا جنہوں نے دین کے اصول میں یا دین کے فروع میں محض اپنی نفسانی خواہشات کی بنا پر باہم تفرقہ ڈالا اور اختلاف پیدا کیا اور عذاب عظیم کے مستحق ہوئے۔ خواہ یہ عذاب دائمی ہو جیسے اعتقادی کافروں کے حق میں یا عرصہ دراز تک کے لئے ہو جیسے فساق اور اہل بدعت و اہواء کے حق میں اعاذنا اللہ منہ اس تقریر کے بعد حضرات صحابہ (رض) اور ائمہ مجتہدین کے باہمی اختلاف پر کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ ان تمام اختلافات کا یعنی محض دلائل ظینہ اور اجتہاد ہے اور بغیر کسی تعصب اور بغیر کسی مکابر سے اور بغیر کسی نفسانیت کے ہے بلکہ یہ اختلاف تو رحمت اور بندوں کی گنجائش اور وسعت کا سبب ہے۔ جیسا کہ عبد بن حمید نے اپنی مسند میں اور دارمی اور ابن ماجہ نے اور ابن عساکر اور حاکم نے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں میں نے اپنے رب سے اپنے صحابہ کے اس اختلاف کا سوال کیا جو میرے بعد ان میں رونما ہونے والا ہے۔ ارشاد ہوا تیرے اصحاب اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے نزدیک ایسے ہیں جیسے آسمان کے تارے کہ کوئی نور میں زیادہ اور قوی ہے کہ کوئی نور میں کم اور ضعیف ہے لیکن ہر ایک میں نور موجود ہے لہٰذا ان میں سے جس کسی کو کوئی شخص اختیار کرلے گا اور باوجود ان کے باہمی اختلافات کے کسی ایک کو اختیار کرلے گا وہ میرے نزدیک ہدایت پر ہوگا۔ اسی طرح بیہقی نے مدخل میں عمر بن عبد العزیز سے اور طبقات ابن سعد نے قاسم بن محمد سے نقل کیا ہے کہ میرے اصحاب کا اختلاف تمہارے لئے رحمت ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کا اختلاف اللہ کے بندوں کے لئے رحمت ہے۔ حضرت شاہ صاحب (رح) فرماتے ہیں معلوم ہوا کہ سیاہ منہ ان کے ہیں جو مسلمانی میں کفر کرتے ہیں یعنی منہ نے کلمۂ اسلام کہتے ہیں اور عقیدہ خلاف اسلام کے رکھتے ہیں سب فرقے گمراہ یہی حکم رکھتے ہیں۔ (موضح القرآن) حضرت شاہ صاحب (رح) نے ایک پہلو اختیار کرلیا ہے لیکن آیت میں گنجائش ہے کہ عام معنی اختیار کئے جاسکتے ہیں جیسا کہ ہم نے تسہیل میں مفصلاً عرض کردیا ہے آگے کی آیت میں اس سزا و جزا کی واقعیت کی اطلاع اور ان سزائوں کے مناسب ہونے کا اظہار ہے۔ (تسہیل)  Show more