Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 12

سورة آل عمران

قُلۡ لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا سَتُغۡلَبُوۡنَ وَ تُحۡشَرُوۡنَ اِلٰی جَہَنَّمَ ؕ وَ بِئۡسَ الۡمِہَادُ ﴿۱۲﴾

Say to those who disbelieve, "You will be overcome and gathered together to Hell, and wretched is the resting place."

کافروں سے کہہ دیجئے! کہ تم عنقریب مغلوب کئے جاؤ گے اور جہنم کی طرف جمع کئے جاؤ گے اور وہ برا ٹھکانا ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Threatening the Jews With Defeat and Encouraging Them to Learn a Lesson From the Battle of Badr Allah commands the Prophet Muhammad to; قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُواْ ... Say to those who disbelieve: Allah commanded the Prophet Muhammad to proclaim to the disbelievers. ... سَتُغْلَبُونَ ... You will be defeated, (in this life), ... وَتُحْشَرُونَ ... And gathered together, (on the Day of Resurrection), ... إِلَى جَهَنَّمَ وَبِيْسَ الْمِهَادُ to Hell, and worst indeed is that place of rest. Muhammad bin Ishaq bin Yasar recorded that Asim bin Umar bin Qatadah said that; when the Messenger of Allah gained victory in the battle of Badr and went back to Al-Madinah, he gathered the Jews in the marketplace of Bani Qaynuqa. Therefore, Allah said,

اولین معرکہ حق و باطل اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کافروں سے کہہ دیجئے کہ تم دنیا میں بھی ذلیل و مغلوب کئے جاؤ گے ، ہارو گے ، ماتحت بنو گے اور قیامت کے دن بھی ہانک کر جہنم میں جمع کئے جاؤ گے جو بدترین بچھونا ہے ۔ سیرت ابن اسحاق میں ہے کہ جب بدر کی جنگ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم مظفر و منصور واپس ہوئے تو بنوقینقاع کے بازار میں یہودیوں کو جمع کیا اور فرمایا! اس سے پہلے کہ قریش کی طرح تمہیں بھی ذلت و پستی دیکھنا پڑے اسلام قبول کرلو ، تو اس سرکش جماعت نے جواب دیا کہ چند قریشیوں کو جو فنونِ جنگ سے ناآشنا تھے ، آپ نے انہیں ہرا لیا اور دماغ میں غرور سما گیا ، اگر ہم سے لڑائی ہوئی تو ہم بتادیں گے کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں ، آپ کو ابھی تک ہم سے پالا ہی نہیں پڑا ۔ اس پر یہ آیت اتری اور فرمایا گیا فتح بدر نے ظاہر کردیا ہے کہ اللہ اپنے سچے اچھے اور پسندیدہ دین کو اور اس دین والوں کو عزت و حرمت عطا فرمانے والا ہے ، وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اور آپ کی اطاعت گزار امت کا خود مددگار ہے ۔ وہ اپنی باتوں کو ظاہر اور غالب کرنے والا ہے ۔ دو جماعتیں لڑائی میں گھتم گتھا ہو گئی تھیں ، ایک صحابہ کرام کی اور دوسری مشرکین قریش کی ، یہ واقعہ جنگ بدر کا ہے ، اس دن مشرکین پر اس قدر رعب غالب آیا اور اللہ نے اپنے بندوں کی اس طرح مدد کی گو مسلمان گنتی میں مشرکین سے کہیں کم تھے لیکن مشرکوں کو اپنے سے دُگنے نظر آتے تھے ، مشرکوں نے لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی جاسوسی کیلئے عمیر بن سعد کو بھیجا تھا جس نے آکر اطلاع دی تھی کہ تین سو ہیں ، کچھ کم یا زائد ہوں اور واقعہ بھی یہی تھا کہ صرف تین سو دَس اور کچھ تھے لیکن لڑائی کے شروع ہوتے ہی اللہ عزوجل نے اپنے خاص اور چیدہ فرشتے ایک ہزار بھیجے ۔ ایک معنی تو یہ ہیں ، دوسرا مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ مسلمان دیکھتے تھے اور جانتے تھے کہ کافر ہم سے دوچند ہیں ، پھر بھی اللہ عزوجل نے انہی کی مدد کی ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ بدری صحابہ تین سو تیرہ تھے اور مشرکین چھ سو سولہ تھے ۔ لیکن تواریخ کی کتابوں میں مشرکین کی تعداد نو سو سے ایک ہزار تک بیان کی گئی ہے ، ہو سکتا ہے حضرت عبداللہ کا قرآن کے الفاظ سے یہ استدلال ہو کہ ابن الحجاج قبلیہ کا جو سیاہ فام غلام پکڑا ہوا آیا تھا اس سے جب حضور نے پوچھا کہ قریش کی تعداد کتنی ہے؟ اس نے کہا بہت ہیں ، آپ نے پھر پوچھا اچھا روز کتنے اونٹ کٹتے ہیں ، اس نے کہا ایک دن نو دوسرے دن دس ، آپ نے فرمایا بس تو ان کی گنتی نو سو اور ایک ہزار کے درمیان ہے ۔ پس مشرکین مسلمانوں سے تین گنے تھے واللہ اعلم ، لیکن یہ یاد رہے کہ عرب کہہ دیا کرتے ہیں کہ میرے پاس ایک ہزار تو ہیں لیکن مجھے ضرورت ایسے ہی دوگنا کی ہے اس سے مراد ان کی تین ہزار ہوتی ہے ۔ اب کوئی مشکل باقی نہ رہی ، لیکن ایک اور سوال ہے وہ یہ کہ قرآن کریم میں اور جگہ ہے آیت ( وَاِذْ يُرِيْكُمُوْهُمْ اِذِ الْتَقَيْتُمْ فِيْٓ اَعْيُنِكُمْ قَلِيْلًا وَّ يُقَلِّلُكُمْ فِيْٓ اَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللّٰهُ اَمْرًا كَانَ مَفْعُوْلًا ) 8 ۔ الانفال:44 ) یعنی جب آمنے سامنے آ گئے تو اللہ نے انہیں تمہاری نگاہوں کے سامنے کم کرکے دکھایا اور تمہیں ان کی نگاہوں میں زیادہ کرکے دکھایا تاکہ جو کام کرنے کا فیصلہ اللہ کرچکا تھا وہ ہو جائے ۔ پس اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل تعداد سے بھی کم نظر آئے اور مندرجہ بالا آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ بلکہ دُگنے نظر آئے ۔ تو دونوں آیتوں میں تطبیق کیا ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا شان نزول اور تھا اور اس کا وقت اور تھا ، حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ بدر والے دن ہمیں مشرکین کچھ زیادہ نہیں لگے ، ہم نے غور سے دیکھا پھر بھی یہی معلوم ہوا کہ ہم سے ان کی گنتی زیادہ نہیں ، دوسری روایت میں ہے کہ مشرکین کی تعداد اس قدر کم معلوم ہوئی کہ میں نے اپنے پاس کے ایک شخص سے کہا کہ یہ لوگ تو کوئی ستر ہوں گے ، اس نے کہا نہیں نہیں سو ہوں گے ، جب ان میں سے ایک شخص پکڑا گیا تو ہم نے اس سے مشرکین کی گنتی پوچھی ، اس نے کہا ایک ہزار ہیں ۔ اب جبکہ دونوں فریق ایک دوسرے کے سامنے صفیں باندھ کر کھڑے ہوگئے تو مسلمانوں کو یہ معلوم ہونے لگا کہ مشرکین ہم سے دوگنے ہیں ۔ یہ اس لئے کہ انہیں اپنی کمزوری کا یقین ہو جائے اور یہ اللہ پر پورا بھروسہ کرلیں اور تمام تر توجہ اللہ کی جانب پھیر لیں اور اپنے رب عزوجل سے اعانت اور امداد کی دعائیں کرنے لگیں ، ٹھیک اسی طرح مشرکین کو مسلمانوں کی تعداد دوگنی معلوم ہونے لگی تاکہ ان کے دِلوں میں رعب اور خوف بیٹھ جائے اور گھبراہٹ اور پریشانی بڑھ جائے ، پھر جب دونوں بھڑ گئے اور لڑائی ہونے لگی تو ہر فریق دوسرے کو اپنی نسبت کم نظر آنے لگا تاکہ ایک دِل کھول کر حوصلہ نکالے اور اللہ تعالیٰ حق و باطل کا صاف فیصلہ کردے ، ایمان و کفر و طغیان پر غالب آ جائے ۔ مومنوں کو عزت اور کافروں کو ذلت مل جائے ، جیسے اور جگہ ہے آیت ( وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّةٌ ) 3 ۔ آل عمران:123 ) یعنی البتہ اللہ تعالیٰ نے بدر والے دن تمہاری مدد کی حالانکہ تم اس وقت کمزور تھے ۔ اسی لئے یہاں بھی فرمایا اللہ جسے چاہے اپنی مدد سے طاقتور بنا دے ، پھر فرماتا ہے اس میں عبرت و نصیحت ہے اس شخص کیلئے جو آنکھوں والا ہو جس کا دماغ صحیح و سالم ہو ، وہ اللہ کے احکام کی بجا آوری میں لگ جائے گا اور سمجھ لے گا کہ اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کو اس جہان میں بھی مدد کرتا ہے اور قیامت کے دن بھی ان کا بچاؤ کرے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

12۔ 1 یہاں کافروں سے مراد یہودی ہیں۔ اور یہ پیش گوئی جلدی پوری ہوگئی۔ چناچہ بنو قینقاع اور بنو نفیر جلا وطن کئے گئے بنو قریظہ قتل کئے گئے پھر خیبر فتح ہوگیا اور تمام یہودیوں پر جزیہ عائد کردیا گیا (فتح القدیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٣] اس آیت میں اگرچہ روئے خطاب سب قسم کے کافروں سے ہے تاہم یہود مدینہ بالخصوص اس آیت کے مخاطب ہیں۔ ہوا یہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر میں مسلمانوں کو فتح عظیم عطا فرمائی اور اس سے متاثر ہو کر عبداللہ بن ابی (رئیس منافقین) نے اپنے ساتھیوں سمیت اسلام قبول کرلیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مدینہ کے درمیان بسنے والے یہود بنو قینقاع کو مخاطب کرکے فرمایا کہ & اے یہود ! اسلام قبول کرلو تو عافیت میں رہو گے ورنہ تمہارا بھی وہی حشر ہوگا جو مشرکین مکہ کا ہوا ہے لیکن وہ بجائے نصیحت قبول کرنے کے شیخی میں آگئے کہنے لگے کہ مکہ کے کافر تو جاہل اور فنون جنگ سے ناآشنا تھے جو پٹ گئے، ہم سے سابقہ پڑا تو سمجھ آجائے گی۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ پھر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان پیشین گوئی جس طرح حرف بہ حرف پورا ہوا اس پر تاریخ شاہد ہے کہ سب سے پہلے یہی یہود بنو قینقاع جلا وطن کئے گئے۔ تو انہوں نے خیبر جاکر دم لیا۔ پھر یہود بنونضیر جلاوطن ہوئے تو انہوں نے بھی خیبر کی راہ لی، پھر بنوقریظہ کی باری آئی تو قتل کئے گئے اور لونڈی و غلام بنا لیے گئے۔ پھر خیبر میں یہود کی پٹائی ہوئی تو بحیثیت مزارعہ وہاں آباد رہنے کی درخواست کی جسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منظور فرما لیا۔ تاہم یہود چونکہ ایک فتنہ انگیز قوم ہے ان کی شرارتوں کی بنا پر بالآخر حضرت عمر (رض) نے انہیں یہاں سے بھی نکال باہر کیا۔ یاد رہے کہ کافروں کے حق میں یہ پیشین گوئی اس وقت کی گئی جب مسلمانوں پر ہر وقت خوف و ہراس کی فضا طاری رہتی تھی، اگرچہ اس وقت مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی نوزائیدہ ریاست کی بنیاد پڑچکی تھی۔ لیکن وہ ہر لحاظ سے کمزور اوراقلیت میں تھے اور عرب بھر کے مشرکین، یہود اور نصاریٰ اور منافقین اس ریاست کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے تھے اور ان سب گروہوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کی کامیابی کے آثار دور تک نظر نہیں آتے تھے۔ لیکن اللہ کی مدد مسلمانوں کے یوں شامل حال ہوئی اور حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ یہ سب فرقے باری باری مات کھاتے گئے اور چند ہی سال بعد عرب بھر میں اسلام کا بول بالا ہوگیا۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

قُلْ لِّـلَّذِيْنَ كَفَرُوْا ۔۔ : یہاں کافروں سے مراد یہودی ہیں، اس آیت کے نزول کے بعد بنو قریظہ کے قتل، بنو نضیر کے جلاوطن اور خیبر کے فتح ہوجانے سے قرآن کی یہ پیشین گوئی بحمد اللہ حرف بحرف سچ ثابت ہوئی۔ (شوکانی)

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary Some readers of verse 12: قُل لِّلَّذِينَ كَفَرُ‌وا سَتُغْلَبُونَ just cited, above may have some doubt about disbelievers being overcome because this is not the case with all disbelievers of the world. But, this doubt is un¬founded as the disbelievers referred to here are the disbelievers and Jews of that particular time - from among whom, the pagans were overcome when killed or taken prisoners, and the Jews were overcome through killing or imprisonment as well as through Jizya and extradi¬tion. Therefore, this &overcoming& of disbelievers mentioned in the verse simply does not refer to disbelievers universally.

معارف و مسائل قل للذین کفروا ستغلبون ممکن ہے کوئی اس آیت سے یہ شبہ کرے کہ آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار مغلوب ہوں گے، حالانکہ سب کفار دنیا کے مغلوب نہیں ہیں لیکن یہ شبہ اس لئے نہیں ہوسکتا کہ یہاں کفار سے مراد تمام دنیا بھر کے کفار نہیں ہیں، بلکہ اس وقت کے مشرکین اور یہود مراد ہیں، چناچہ مشرکین کو قتل و قید اور یہود کو قتل و قید کے ساتھ ساتھ جزیہ اور جلا وطنی کے ذریعہ مغلوب کیا گیا تھا۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

قُلْ لِّـلَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَـتُغْلَبُوْنَ وَتُحْشَرُوْنَ اِلٰى جَہَنَّمَ۝ ٠ ۭ وَبِئْسَ الْمِہَادُ۝ ١٢ كفر الكُفْرُ في اللّغة : ستر الشیء، ووصف اللیل بِالْكَافِرِ لستره الأشخاص، والزّرّاع لستره البذر في الأرض، وأعظم الكُفْرِ : جحود الوحدانيّة أو الشریعة أو النّبوّة، والکُفْرَانُ في جحود النّعمة أكثر استعمالا، والکُفْرُ في الدّين أكثر، والکُفُورُ فيهما جمیعا قال : فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] ( ک ف ر ) الکفر اصل میں کفر کے معنی کیس چیز کو چھپانے کے ہیں ۔ اور رات کو کافر کہا جاتا ہے کیونکہ وہ تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے ۔ اسی طرح کا شتکار چونکہ زمین کے اندر بیچ کو چھپاتا ہے ۔ اس لئے اسے بھی کافر کہا جاتا ہے ۔ اور سب سے بڑا کفر اللہ تعالیٰ کی وحدانیت یا شریعت حقہ یا نبوات کا انکار ہے ۔ پھر کفران کا لفظ زیادہ نعمت کا انکار کرنے کے معنی ہیں استعمال ہوتا ہے ۔ اور کفر کا لفظ انکار یہ دین کے معنی میں اور کفور کا لفظ دونوں قسم کے انکار پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ فَأَبَى الظَّالِمُونَ إِلَّا كُفُوراً [ الإسراء/ 99] تو ظالموں نے انکار کرنے کے سوا اسے قبول نہ کیا ۔ غلب الغَلَبَةُ القهر يقال : غَلَبْتُهُ غَلْباً وغَلَبَةً وغَلَباً «4» ، فأنا غَالِبٌ. قال تعالی: الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] ( غ ل ب ) الغلبتہ کے معنی قہرا اور بالادستی کے ہیں غلبتہ ( ض ) غلبا وغلبتہ میں اس پر مستول اور غالب ہوگیا اسی سے صیغہ صفت فاعلی غالب ہے ۔ قرآن میں ہے ۔ الم غُلِبَتِ الرُّومُ فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ [ الروم/ 1- 2- 3] الم ( اہل ) روم مغلوب ہوگئے نزدیک کے ملک میں اور وہ مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہوجائیں گے حشر الحَشْرُ : إخراج الجماعة عن مقرّهم وإزعاجهم عنه إلى الحرب ونحوها، وروي : «النّساء لا يُحْشَرن» أي : لا يخرجن إلى الغزو، ويقال ذلک في الإنسان وفي غيره، يقال : حَشَرَتِ السنة مال بني فلان، أي : أزالته عنهم، ولا يقال الحشر إلا في الجماعة، قال اللہ تعالی: وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 36] وَحَشَرْناهُمْ فَلَمْ نُغادِرْ مِنْهُمْ أَحَداً [ الكهف/ 47] ، وسمي يوم القیامة يوم الحشر کما سمّي يوم البعث والنشر، ورجل حَشْرُ الأذنین، أي : في أذنيه انتشار وحدّة . ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) ( ح ش ر ) الحشر ( ن ) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانہ سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں ۔ ایک روایت میں ہے (83) النساء لایحضرون کہ عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکلا جائے اور انسان اور غیر انسان سب کے لئے استعمال ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے ۔ حشرت النسۃ مال بنی فلان یعنی قحط سالی نے مال کو ان سے زائل کردیا اور حشر کا لفظ صرف جماعت کے متعلق بولا جاتا ہے قرآن میں ہے : وَابْعَثْ فِي الْمَدائِنِ حاشِرِينَ [ الشعراء/ 36] اور شہروں میں ہر کار سے بھیج دیجئے ۔ اور قیامت کے دن کو یوم الحشر بھی کہا جاتا ہے جیسا ک اسے یوم البعث اور یوم النشور کے ناموں سے موسوم کیا گیا ہے لطیف اور باریک کانوں والا ۔ جهنم جَهَنَّم اسم لنار اللہ الموقدة، قيل : وأصلها فارسيّ معرّب جهنام وقال أبو مسلم : كهنّام ( ج ھ ن م ) جھنم ۔ دوزخ کا نام ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ اصل فارسی لفظ جنام سے معرب ہی واللہ علم ۔ بِئْسَ و «بِئْسَ» كلمة تستعمل في جمیع المذام، كما أنّ نعم تستعمل في جمیع الممادح، ويرفعان ما فيه الألف واللام، أو مضافا إلى ما فيه الألف واللام، نحو : بئس الرجل زيد، وبئس غلام الرجل زيد . وينصبان النکرة نحو : بئس رجلا، ولَبِئْسَ ما کانوا يَفْعَلُونَ [ المائدة/ 79] ، أي : شيئا يفعلونه، ( ب ء س) البؤس والباس بئس ۔ فعل ذم ہے اور ہر قسم کی مذمت کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسا کہ نعم ہر قسم کی مدح کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا اسم اگر معرف بالللام ہو یا معرف باللام کی طرف مضاف ہو تو اسے رفع دیتے ہیں جیسے بئس الرجل زید وبئس غلام الرجل زید ۔ اور اسم نکرہ کو نصب دیتے ہیں جیسے قرآن میں ہے ؛ ۔ { بِئْسَ مَا كَانُوا يَفْعَلُونَ } ( سورة المائدة 79) یعنی بلا شبہ وہ برا کرتے تھے مهد المَهْدُ : ما يُهَيَّأُ للصَّبيِّ. قال تعالی: كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] والمَهْد والمِهَاد : المکان المُمَهَّد الموطَّأ . قال تعالی: الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] ، ومِهاداً [ النبأ/ 6] م ھ د ) المھد ۔ گہوارہ جو بچے کے لئے تیار کیا جائے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا [ مریم/ 29] کہ ہم اس سے کہ گود کا بچہ ہے ۔ کیونکہ بات کریں ۔ اور ۔ اور المھد والمھاد ہموار اور درست کی ہوئی زمین کو بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] وہ ( وہی تو ہے ) جس نے تم لوگوں کے لئے زمین کو فرش بنایا ۔ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ مَهْداً [ طه/ 53] کہ ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا :

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

کفار کے مغلوب ہونے کی پیش گوئی۔ قول باری ہے۔ (قل للذین کفرواستغلبون وتحشرون الی جھنم، آپ کافروں سے کہہ دیجئے کہ تم عنقریب مغلوب کرلیئے جاؤ گے اور جہنم کی طرف ہانکے جاؤگے) حضرت ابن عباس قتادہ اور ابن اسحاق سے مروی ہے کہ جب بدر کے معرکے میں قریش پر تباہی آئی تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سوق قینقاع میں یہود کو جمع کرکے انہیں اسلام کی دعوت دی اور انکار کی صورت میں انہیں اس انتقام خداوندی سے ڈرایاجس کا ظہور قریش پر ہوچکا تھا۔ یہودنے اسلام لانے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ قریش کی طرح نہیں ہیں۔ وہ توناتجربہ کار اوربدھوقسم کے لوگ تھے انہیں جنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا اگر ہم سے پنچہ آزمائی کرو گے تو تمہیں معلوم ہوجائے گا کہ ہم مرد میدان ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ اس آیت میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر دلالت ہورہی ہے۔ کیونکہ اس میں کافروں پر مسلمانوں کے غلبہ کی خبردی گئی تھی اور بعد عین اس کے مطابق واقعات پیش آئے۔ ان کے متعلق یہ کہا نہیں جاسکتا کہ یہ اتفاقیہ طورپرپیش آگئے اس لیئے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مستقبل میں پیش آنے والے بےشمار واقعات کے متعلق پیش گوئیاں کی تھیں جو تمام کی تمام سچی ثابت ہوئیں۔ کسی واقعہ میں کوئی تخلف نہیں ہوا۔ اس سلسلے میں اس کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ سب اللہ کی طرف سے تھیں جو عالم الغیوب ہے، اس لیئے کہ مخلوق میں سے کسی کی یہ طاقت نہیں کہ مستقبل میں پیش آنے والے بیشمار واقعات کی خبردے اور پھر یہ واقعات اتفاقیہ طورپراسی طرح پیش آجائیں جس طرح اس نے ان کی خبردی تھی اور اس میں کوئی تخلف نہ ہو۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٢) اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ان کفار مکہ سے یہ بھی فرما دیجیے کہ تم دنیا میں بھی بدر کے دن مارے جاؤ گے اور پھر قیامت کے روز جہنم میں جمع کیے جاؤ گے، وہ بہت بدترین ٹھکانہ ہے۔ شان نزول : (آیت) ” قل للذین کفروا (الخ) امام ابوداؤد (رح) نے اپنی سنن میں اور بیہقی (رح) نے دلائل میں بواسطہ ابن اسحاق محمد بن ابی سعید (رح) یا عکرمہ (رح) حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اہل بدر سے جو واقعہ پیش آیا، اس کے بعد جب آپ مدینہ منور لوٹ کر تشریف لائے تو آپ بازار بنی قینقاع میں تشریف لے گئے جو یہودیوں کا اجتماع کا مرکز تھا اور ان سے فرمایا اے گروہ یہود ایمان لے آؤ، قبل اس کے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ بھی وہ معاملہ کرے تو جو قریش کے ساتھ بدر میں کیا گیا تو انہوں نے کہا اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) الیعاذ باللہ خود پسندی اور بڑائی میں مبتلا نہ ہو اگر تم نے کفار کی ایک جماعت کو قتل کردیا تو وہ بیوقوف تھے، لڑنا نہیں جانتے تھے، واللہ اگر آپ ہمارے ساتھ لڑیں گے تو اپ کو پتاچل جائے گا کہ ہم مرد ہیں ہم جیسے لوگوں سے آپ کا سامنا نہ ہوا تھا، اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ اولی الابصار تک نازل فرمائی۔ اور ابن منذر نے عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ فخاص یہودی نے بدر کے دن کہا تھا کہ اگر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قریش کو قتل کردیا اور ان پر غلبہ حاصل کرلیا تو یہ چیز ان کو دھوکا میں نہ ڈالے کیوں کہ قریش تو لڑنا نہیں جانتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (لباب النقول فی اسباب النزول از علامہ سیوطی (رح )

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

8. For explanation see Surah 2, n. 161 above.

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: اس سے دنیا میں کافروں کے مغلوب ہونے کی پیش گوئی بھی مراد ہوسکتی ہے، اور آخرت میں مغلوب ہونے کی بھی۔

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(12 ۔ 13) ۔ ابو داؤد اور بیہقی اور تفسیر ابن منذر بن بسند میں معتبر عبد اللہ بن عباس (رض) سے روایت ہے کہ جب قریش کو مسلمانوں کے ہاتھ سے جنگ بدر میں صدمہ پہنچا جس کا قصہ سورة انفال میں آئے گا تو اس پر یہود نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ذکر کیا کہ قریش اناڑی اور لڑائی سے ناواقف تھے جس دن آپ سے اور ہم لوگوں سے لڑائی ہوگی اس دن قدر کھل جائے گی کہ لڑائی ایسی ہوتی ہے اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ١۔ اللہ سچا ہے اور اللہ کا کلام سچا ہے۔ آخر کو وہ یہ ہوا جو اس آیت میں تھا کہ ان یہودیوں میں سے بنی قریظہ قتل ہوئے اور بنی نضیر نکالے گئے باقی یہود پر وہ سالانہ خراج قائم ہوگیا جس کو جزیہ کہتے ہیں اور پھر یہ تو ان لوگوں کی دنیا کی آفتیں ہوئیں اور وہ عذاب آخرت کا جس کا ذکر آیت میں ہے اس کی سختی کا تو کچھ ٹھکانا نہیں بدر کی لڑائی کے بعد جو یہود نے عرب کی ناواقفی فن جنگ پر اپنی نخوت ظاہر کی تھی اور اپنی واقف کاری فن جنگ کا دعویٰ کیا تھا آیت کے آخر پر اللہ تعالیٰ نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ اسلام اللہ کے نزدیک ایک دین حق ہے اور اللہ ہمیشہ سے حق کا مددگار ہے اس لئے اللہ کی مدد سے اہل اسلام کو باوجود قلت لشکر اور قلت سامان جنگ کے جو فتح حاصل ہوئی ہے وہ کچھ اسی بدر کی لڑائی پر منحصر نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اس دین حق کی ہمیشہ ایسی مدد کرے گا اس لڑائی میں مسلمانوں کے تین سو تیرہ آدمی تھے اور دوگھوڑے اور چھ زرعیں اور آٹھ تلواریں تھیں اور مشرکین مکہ ہزار کے قریب تھے اور لڑائی کا سامان بھی ان کے ساتھ بہت کچھ تھا اس صورت میں دشمنوں کی فوج اگرچہ مسلمانوں کے تین گنی تعداد سے بھی زیادہ تھی لیکن اللہ تعالیٰ کی یہ ایک حکمت تھی کہ دشمن کی فوج عین لڑائی کے وقت مسلمانوں کو اپنی فوج سے دو چند نظر آئے اور ان کی ہمت لڑنے کے لئے بندھی رہی اور لڑائی سے پہلے ہر ایک لشکر کے آدمی دوسرے لشکر کے آنکھوں میں بالکل تھوڑے سے جچے جس کے سبب سے ہر ایک گروہ لڑنے پر آمادہ ہوگیا اور لڑائی شروع ہوگئی اور سورة انفال کی آیت { وَاِذْ یُرِیْکُمُوْھُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْ اَعْیُنِکُمْ قَلِیْلاً وَّ یُقَلِلُکُمْ فِیْ اَعْیُتِہِمْ } (٨۔ ٤٤) کو ملا کر پر ہنے سے یہ مطلب خوب سمجھ میں آتا ہے فتح غیر متوقہ کے اور اسی حکمت کے جتلانے کے لئے آخر کو فرمایا ہے کہ اس بدر کی لڑائی سے سمجھ دار لوگوں کو عبرت پکڑنی چاہیے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:12) تحشرون ۔ مضارع مجہول جمع مذکر حاضر الحشر (باب نصر) کے معنی لوگوں کو ان کے ٹھکانے سے مجبور کرکے نکال کر لڑائی وغیرہ کی طرف لے جانے کے ہیں۔ چناچہ ایک روایت میں ہے کہ النساء لا یحشرون عورتوں کو جنگ کے لئے نہ نکالا جائے۔ تم جمع کئے جاؤ گے۔ المھاد۔ اسم۔ بچھونا۔ مراد ٹھکانہ۔ قرارگاہ۔ مھد گہوارہ۔ زمین۔ مھود۔ جمع

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 1 عاصم بن عمر (رض) سے روایت ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عزوہ بدر سے واپس تشریف لائے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہود کو سوق بنی قینقاع میں جمع کر کے فرمایا۔ اے گروہ یہود تم مسلمان ہوجاؤ اس سے قبل کہ تمہا را بھی وہی حشر ہو جو قریش بدر میں ہوا ہے۔ وہ بولے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تم اس گھمنڈ میں نہ رہو کہ تم نے قریش کے ایک ناتجربہ کار گروہ کو جو لڑنا نہیں جانتا تھا۔ مار ڈالا ہے۔ جب تمہارا ہم سے مقابلہ ہوگا تو معلوم ہوجائے گا اصل آدمی یعنی ماہرین جنگ تو ہم ہیں جن کا کوئی مقابلہ نہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ اور اس سے اگلی آیت نازل فرمائی۔ (ابن کثیر) اس کے نزول کے بعد بنو قریظہ کے قتل۔ بنی نضیر کے جلا وطن اور خیبر کے فتح ہوجانے سے قرآن کی یہ پیش گوئی بحمداللہ حروف بحروف سچی ثابت ہوئی۔ (شوکانی)

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

3۔ اوپر کفار کے مغلوب ہونے کی خبر دی گئی ہے آگے اس کی ایک کافی نظیر بطور دلیل کے ارشاد فرماتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

یہودیوں کو نصیحت کہ واقعہ بدر سے عبرت لیں روح المعانی میں صفحہ ٩٤: ج ٣ بحوالہ بیہقی وغیرہ حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بدر میں فتحیابی ہوئی تو آپ نے بدر سے واپس ہو کر یہودیوں کو بنی قینقاع کے بازار میں جمع فرمایا اور فرمایا اے یہودیو ! اسلام قبول کرو اس سے پہلے کہ تم کو بھی وہی مصیبت پہنچ جائے جو قریش کو پہنچی، یہ سن کر یہودیوں نے کہا کہ اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! تم اس دھوکے میں نہ رہو کہ تم نے قریش کے چند ایسے افراد کو قتل کردیا جو اناڑی ناتجربہ کار تھے جنگ کرنا نہیں جانتے تھے، تم یہ خیال نہ کرو کہ ہمارے مقابلہ میں بھی کامیاب ہوجاؤ گے۔ خدا کی قسم ! اگر تم نے ہم سے جنگ کی تو تمہیں پتہ چل جائے گا کہ ہم ہم ہیں، ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیات نازل فرمائی اور ان کو بتادیا کہ تم نے بھی کفر اختیار کر رکھا ہے تم بھی عنقریب مغلوب ہوگئے۔ (یہ گیڈر بھبکیاں کچھ کام نہ آئیں گی) دنیا میں مغلوب و مقتول ہو گے اور آخرت میں دوزخ میں جمع کردیے جاؤ گے دوزخ بہت برا بچھونا ہے وہاں کی جو آگ ہے اسی پر پڑے رہو گے اور جلتے رہو گے۔ یہودیوں کی ڈھٹائی : یہودیوں نے بہت بڑی بھبکی دی لیکن بالآخر مغلوب ہوئے بنی قریظہ مقتول ہوئے اور بنی نضیر کو خیبر کی طرف جلا وطن کردیا گیا۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد وہاں بھی ان پر مسلمان حملہ آور ہوئے اور ان کے قلعے فتح ہوئے اور ان سے یہ معاہدہ ہوا کہ کھیتی باڑی کرتے رہیں اور کھجور کے باغوں میں کام کریں اور جو پیداوار ہو اس کا مخصوص حصہ مسلمانوں کو دیا کریں۔ پھر حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں ان کو خیبر سے بھی نکال دیا گیا۔ یہ دنیا میں ان کی مغلوبیت ہوئی اور آخرت میں تو ہر کافر کے لیے جہنم ہے ہی۔ غزوہ بدر کا منظر : یہودیوں کو اللہ رب العزت نے توجہ دلائی اور فرمایا کہ تمہارے لیے عبرت ہے اور اس بات کی نشانی ہے کہ مسلمان کافروں پر غالب ہوں گے اور یہ عبرت بدر کے معرکہ سے تم کو لے لینی چاہیے۔ بدر میں دو جماعتیں مقابل ہوئیں ایک جماعت مسلمانوں کی تھی جو اللہ کی راہ میں جنگ کر رہے تھے اور دوسری جماعت کافروں کی تھی یہ قریش مکہ تھے مسلمان تعداد میں تھوڑے سے تھے ان کی تعداد ٣١٣ تھی جن میں ٧٧ مہاجرین اور ٢٣٦ انصاری تھی ان کے پاس ستر اونٹ تھے ہر تین آدمیوں کو ایک اونٹ دیا گیا تھا جو اترتے چڑھتے نمبر وار سفر کرتے تھے دو گھوڑے تھے اور چھ زرہیں تھیں اور آٹھ تلواریں تھیں۔ مدینہ منورہ سے بدر کا سفر تھا جو سو میل سے پہاڑی راستہ تھا اس کو گزار کر بدر میں پہنچے۔ مشرکین مکہ کی تعداد مسلمانوں سے تین گنا تھی ان میں ٩٠٠ لڑنے والے تھے اور عورتیں ان کے علاوہ تھیں۔ یہ لوگ بڑے طمطراق سے گاتے بجاتے ہوئے کھانے پینے کا بہت زیادہ سامان لے کر بدر پہنچے۔ ان کے ساتھ سات سو اونٹ اور ایک سو گھوڑے تھے۔ جب جہاد ہوا تو مشرکین مکہ میں سے ستر آدمی مقتول ہوئے اور ستر افراد کو قید کر کے مدینہ منورہ لایا گیا اور مسلمانوں میں سے چھ مہاجرین اور آٹھ انصاری شہید ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی کئی طرح مدد فرمائی۔ ایک صورت مسلمانوں کی مدد اور تائید کی یہ ہوئی کہ مشرکین مکہ مسلمانوں کو اپنے سے دو گنا دیکھ رہے تھے (یہ اس صورت میں ہے جب مِثْلَیْھِمْ کی ضمیر مشرکین کی طرف راجع ہو) سورة انفال میں فرمایا ہے : (وَ اِذْ یُرِیْکُمُوْھُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْٓ اَعْیُنِکُمْ قَلِیْلًا وَّ یُقَلِّلُکُمْ فِیْٓ اَعْیُنِھِمْ لِیَقْضِیَ اللّٰہُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلًا) (اور وہ وقت یاد کرو جب اللہ تمہاری مڈ بھیڑ ہونے کے وقت تمہاری آنکھوں میں ان کو کم دکھا رہا تھا اور تم کو ان کی آنکھوں میں کم دکھا رہا تھا تاکہ جو بات ہونے والی تھی اسے کر دکھائے) ۔ دونوں آیات کا مضمون ملانے سے معلوم ہوا کہ جنگ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی آنکھوں میں مسلمانوں کو ان کی اپنی تعداد سے کم دکھایا تاکہ مشرکین میں جنگ کرنے کی جرأت بڑھ جائے اور زیادہ تعداد دیکھ کر واپس نہ ہوجائیں پھر جب جنگ شروع ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے مشرکین کو مسلمانوں کی اصل تعداد سے زیادہ دکھایا (وہ دیکھ رہے تھے کہ مسلمان ہم سے دو گنے ہیں) اور مسلمانوں کی آنکھوں میں مشرکین کی تعداد کم دکھائی تاکہ مسلمان خوب زیادہ جرأت سے لڑیں اور مشرکین بزدل ہوجائیں۔ آیت کی تفسیر میں علماء کا یہ ایک قول ہے جسے صاحب معالم التنزیل نے صفحہ ٢٨٣: ج ١ میں نقل کیا ہے۔ صاحب روح المعانی نے بھی صفحہ ٩٦: ج ٢ میں یہ قول ذکر کیا ہے۔ وقال و کان ذلک عند ترانی الفئتین بعد ان قللھم اللّٰہ تعالیٰ فی اعینھم عند الترائی لیجترءُوا علیھم ولا یرھبوا فیھربوا حیث ینفع الھرب۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

17 یہ تخویف دنیوی کا ایک نمونہ ہے۔ اس میں کفار کی مغضوبیت اور ان کا مستحق عذاب ہونا بیان کیا گیا ہے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 3۔ بلا شبہ جن لوگوں نے کفر و انکار کی روش اختیار کر رکھی ہے ان کو اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں نہ ان کے مال کچھ کام آئیں گے اور نہ ان کی اولاد اور ایسے ہی لوگ جہنم کا ایندھن ہوں گے ان لوگوں کا حال اور ان کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ۔ جیسا فرعون والوں کا اور ان کا جو آل فرعون سے پہلے ہو گزرے ہیں کہ انہوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی اور ہماری آیتوں کو جھٹلایا ، چناچہ اس تکذیب کا نتیجہ یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے گناہوں کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا اور اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔ اے پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! جن لوگوں نے دین حق کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا ہے آپ ان سے کہہ دیجئے کہ تم لوگ بہت جلد مغلوب کئے جائو گے یعنی دنیا میں مسلمانوں کے ہاتھ سے اور آخرت میں تم لوگ جہنم کی طرف جمع کر کے ہانکے جائو گے اور وہ جہنم بہت ہی بری آرام گاہ اور رہنے کا برا ٹھکانہ ہے۔ ( تیسیر) داب کے معنی ہیں کسی کام میں محنت کرنا ، یہاں شان حال اور عادت و طریقہ مراد ہے۔ مھد کے معنی فرش قرار گاہ آیت کا تعلق کفار قریش سے یا اہل کتاب سے ہے یا دونوں سے بھی ہوسکتا ہے اگرچہ جنگ بدر کا تعلق صرف کفار قریش سے تھا اور ان ہی کی ہزیمت اور مغلوبیت کے متعلق آیت میں پیشین گوئی ہے لیکن مدینہ کے یہود بھی انجام کے منتظر تھے اور بظاہر جنگ کو ایک تماشائی کی حیثیت سے دیکھ رہے تھے۔ مال اور اولاد کا اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں بیکار ہونے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقابل ہو کر اللہ تعالیٰ کی بات نہ چلنے دیں دوسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور عنایت کے بغیر مال اور اولاد ان کافروں کی نجات کے لئے کافی ہوجائے۔ حضرت حق نے دونوں صورتوں کی آیت میں نفی فرما دی ، ایندھن کا مطلب سورة بقرہ کے تیسرے رکوع میں بیان ہوچکا ہے۔ وقود اس کو کہتے ہیں جس سے آگ روشن کی جائے اور آگ جلائی جائے اور یہ جو فرمایا کداب آل فرعون اس کے کئی طرح معنی کئے گئے ہیں مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں کے کرتوت بھی ویسے ہی ہیں جیسے فرعون والوں کے اور ان سے پہلے لوگوں کے کرتوت تھے فرعون سے پہلے لوگ جیسے عاد ثمود قوم لوط وغیرہ اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ ان کفار کا طریقہ اور ان کی عادت اور ان کا حال بھی رسولوں کی تکذیب کرنے میں اور ان پر عذاب کے نازل ہونے میں ویسا ہی ہے جیسے آل فرعون اور ان سے پہلے لوگوں کا تھا اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ کافر بھی اسی طرح دوزخ کا ایندھن ہوں گے اور مال و اولاد ان کے بھی اسی طرح بیکار ہوں گے جیسے آل فرعون اور ان کے پیش رو لوگوں کا ہوچکا ہے۔ ہم نے اوپر کہا ہے کہ آیت میں یہود بھی مراد ہوسکتے ہیں چناچہ ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ جب مسلمان اہل بدر کو شکت دے کر واپس ہوئے تو آپ نے بنی قینقاع میں ہود کو جمع کر کے فرمایا کہ تم لوگ اسلام قبول کرلو مبادا تمہارا حشر بھی ویسا ہی ہو اہل بدر کا ہوا اس پر یہودی نے جواب دیا آپ کفار قریش پر ہم کو قیاس نہ کیجئے۔ یہ لوگ ان پڑھ اور نا تجربہ کار ہیں اگر پڑھے لکھے لوگوں سے ہاتھ ملائے تو آپ کو حقیقت معلوم ہوجائے گی اور آپ کو یہ معلوم ہوجائے گا کہ ہم جیسے لوگوں سے جنگ کرنا آسان نہیں ہے ، چناچہ اللہ تعالیٰ نے دونوں ہی پر عذاب نازل کیا ، کفار قریش پر قتل اور قید کی مصیبت آئی اور یہود پر قتل ، قید ، جلا وطنی اور جزیہ مقرر کیا گیا ۔ مقاتل کا قول ہے کہ آیت کا تعلق کفار مکہ سے ہے ۔ ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ جب بدر کی ہزیمت مدینہ کے یہود کو معلوم ہوئی تو انہوں نے آپس میں کہا کہ یہ دینی نبی ہے جس کی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ہم کو بشارت دی تھی کہ اس کا جھنڈا ناکام ہوکر نہیں لوٹے گا ۔ اس پر بعض یہود نے کہا جلدی نہ کرو ابھی ایک دو واقعات اور ہونے دو پھر آخری رائے قائم کرنا ۔ چنانچہ احد کی جنگ جب مسلمانوں کے حق میں نا ساز گارہوئی تو یہ لوگ شک میں پڑگئے ۔ اور ان لوگوں نے نقص عہد کیا اور کفار عرب کو کعب بن اشرف بھڑکاتا پھر اور آخر یہود کا بھی وہ انجام ہوا جو ہم اوپر عرض کرچکے ہیں ۔ بہر حال آیت کا تعلق خواہ کفار قریش سے ہو خواہ مدینہ کے یہود سے ہو خواہ دونوں سے ہو لیکن عام نہیں ہے بلکہ خاص کافروں کے متعلق ہے اس لئے یہ شبہ نہ کیا جائے کہ ہر جگہ کے کافر تو مغلوب نہیں ، البتہ قیامت کے عذاب میں سب شریک ہیں اور آخرت کا عذاب سب کو شامل ہے۔ بئس المھاد کا مطلب یہ ہے کہ وہ قرار گاہ بہت بری ہے جو یہ اپنے لئے تیار کر رہے ہیں یا وہ آرام گاہ بہت بری ہے جو ان کے لئے مقرر کی گئی ہے ۔ دونوں تقدیروں پر مراد اس سے جہنم ہے اب آگے بدر میں جو کچھ ہوا اس کا مختصر سا ذکر فرماتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت اور بعض خرق عادت حالات کو شامل ہے۔ ( تسہیل)