Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 14

سورة آل عمران

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الۡبَنِیۡنَ وَ الۡقَنَاطِیۡرِ الۡمُقَنۡطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَ الۡفِضَّۃِ وَ الۡخَیۡلِ الۡمُسَوَّمَۃِ وَ الۡاَنۡعَامِ وَ الۡحَرۡثِ ؕ ذٰلِکَ مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الۡمَاٰبِ ﴿۱۴﴾

Beautified for people is the love of that which they desire - of women and sons, heaped-up sums of gold and silver, fine branded horses, and cattle and tilled land. That is the enjoyment of worldly life, but Allah has with Him the best return.

مرغوب چیزوں کی محبت لوگوں کے لئے مزیّن کر دی گئی ہے ، جیسے عورتیں اور بیٹے اور سونے چاندی کے جمع کئے ہوئے خزانے اور نشاندار گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی یہ دنیا کی زندگی کا سامان ہے اور لوٹنے کا اچھا ٹھکانا تو اللہ تعالٰی ہی کے پاس ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The True Value of This Earthly Life Allah says; زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاء وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ... Beautified for men is the love of things they covet; women, children, Qanatir Al-Muqantarah of gold and silver, branded beautiful horses (Musawwamah), cattle and fertile land. Allah mentions the delights that He put in this life for people, such as women and children, and He started with women, because the test with them is more tempting. For instance, the Sahih recorded that the Messenger said, مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاء I did not leave behind me a test more tempting to men than women. When one enjoys women for the purpose of having children and preserving his chastity, then he is encouraged to do so. There are many Hadiths that encourage getting married, such as, وَإِنَّ خَيْرَ هذِهِ الاْإُمَّةِ مَنْ كَانَ أَكْثَرَهَا نِسَاء Verily, the best members of this Ummah are those who have the most wives. He also said, الدُّنْيَا مَتَاعٌ وَخَيْرُ مَتَاعِهَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَة This life is a delight, and the best of its delight is a righteous wife. The Prophet said in another Hadith, حُبِّبَ إِلَيَّ النِّسَاءُ وَالطِّيبُ وَجُعِلَتْ قُرَّةُ عَيْنِي فِي الصَّلَة I was made to like women and perfume, and the comfort of my eye is the prayer. Aishah, may Allah be pleased with her, said, "Nothing was more beloved to the Messenger of Allah than women, except horses," and in another narration, "...than horses except women." The desire to have children is sometimes for the purpose of pride and boasting, and as such, is a temptation. When the purpose for having children is to reproduce and increase the Ummah of Muhammad with those who worship Allah alone without partners, then it is encouraged and praised. A Hadith states, تَزَوَّجُوا الْوَدُودَ الْوَلُودَ فَإِنِّي مُكَاثِرٌ بِكُمُ الاُْمَمَ يَوْمَ الْقِيَامَة Marry the Wadud (kind) and Walud (fertile) woman, for I will compare your numbers to the rest of the nations on the Day of Resurrection. The desire of wealth sometimes results out of arrogance, and the desire to dominate the weak and control the poor, and this conduct is prohibited. Sometimes, the want for more money is for the purpose of spending it on acts of worship, being kind to the family, the relatives, and spending on various acts of righteousness and obedience; this behavior is praised and encouraged in the religion. Scholars of Tafsir have conflicting opinions about the amount of the Qintar, all of which indicate that; the Qintar is a large amount of money, as Ad-Dahhak and other scholars said. Abu Hurayrah said "The Qintar is twelve thousand Uwqiyah, each Uwqiyah is better than what is between the heavens and earth." This was recorded by Ibn Jarir. The desire to have horses can be one of three types. Sometimes, owners of horses collect them to be used in the cause of Allah, and when warranted, they use their horses in battle. This type of owner shall be rewarded for this good action. Another type collects horses to boast, and out of enmity to the people of Islam, and this type earns a burden for his behavior. Another type collects horses to fulfill their needs and to collect their offspring, and they do not forget Allah's right due on their horses. This is why in this case, these horses provide a shield of sufficiency for their owner, as evident by a Hadith that we will mention, Allah willing, when we explain Allah's statement, وَأَعِدُّواْ لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُم مّن قُوَّةٍ وَمِن رّبَاطِ الْخَيْلِ And make ready against them all you can of power, including steeds of war. (8:60) As for the Musawwamah horses, Ibn Abbas said that; they are the branded, beautiful horses. This is the same explanation of Mujahid, Ikrimah, Sa`id bin Jubayr, Abdur-Rahman bin Abdullah bin Abza, As-Suddi, Ar-Rabi bin Anas and Abu Sinan and others. Makhul said, the Musawwamah refers to the horse with a white spotted faced, and the horse with white feet. Imam Ahmad recorded that Abu Dharr said that the Messenger of Allah said, لَيْسَ مِنْ فَرَسٍ عَرَبِيَ إِلاَّ يُوْذَنُ لَهُ مَعَ كُلِّ فَجْرٍ يَدْعُو بِدَعْوَتَيْنِ يَقُولُ اللَّهُمَّ إِنَّكَ خَوَّلْتَنِي مِنْ بَنِي ادَمَ فَاجْعَلْنِي مِنْ أَحَبِّ مَالِهِ وَأَهْلِهِ إِلَيْهِ أَوْ أَحَبَّ أَهْلِهِ وَمَالِهِ إِلَيْه Every Arabian horse is allowed to have two supplications every dawn, and the horse supplicates, `O Allah! You made me subservient to the son of Adam. Therefore, make me among the dearest of his wealth and household to him, or, ...make me the dearest of his household and wealth to him. Allah's statement, ... وَالاَنْعَامِ ... Cattle, means, camels, cows and sheep. .... وَالْحَرْثِ ... And fertile land, meaning, the land that is used to farm and grow plants. Allah then said, ... ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ... This is the pleasure of the present world's life, meaning, these are the delights of this life and its short lived joys. ... وَاللّهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَأبِ But Allah has the excellent return with Him. meaning, the best destination and reward. The Reward of the Those Who Have Taqwa is Better Than All Joys of This World This is why Allah said,

دنیا کے حسن اور آخرت کے جمال کا تقابل اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ دنیا کی زندگی کو طرح طرح کی لذتوں سے سجایا گیا ہے ان سب چیزوں میں سب سے پہلے عورتوں کو بیان فرمایا ، اس لئے کہ ان کا فتنہ بڑا زبردست ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے اپنے بعد مردوں کیلئے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ اور کوئی فتنہ نہیں چھوڑا ، ہاں جب کسی شخص کی نیت نکاح کرکے زنا سے بچنے کی اور اولاد کی کثرت سے ہو تو بیشک یہ نیک کام ہے اس کی رغبت شریعت نے دلائی ہے اور اس کا حکم دیا ہے اور بہت سی حدیثیں نکاح کرنے بلکہ کثرت نکاح کرنے کی فضیلت میں آئی ہیں اور اس امت میں سب سے بہتر وہ ہے جو سب سے زیادہ بیویوں والا ہو ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا کا ایک فائدہ ہے اور اس کا بہترین فائدہ نیک بیوی ہے کہ خاوند اگر اس کی طرف دیکھے تو یہ اسے خوش کردے اور اگر حکم دے تو بجا لائے اور اگر کہیں چلا جائے تو اپنے نفس کی اور خاوند کے مال کی حفاظت کرے ۔ دوسری حدیث میں ہے مجھے عورتیں اور خوشبو بہت پسند ہے اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے ۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب عورتیں تھیں ، ہاں گھوڑے ان سے بھی زیادہ پسند تھے ، ایک اور روایت میں ہے گھوڑوں سے زیادہ آپ کی چاہت کی چیز کوئی اور نہ تھی ہاں صرف عورتیں ۔ ثابت ہوا عورتوں کی محبت بھلی بھی ہے اور بری بھی ۔ اسی طرح اولاد کی اگر ان کی کثرت اس لئے چاہتا ہے کہ وہ فخر و غرور کرے تو بری چیز ہے اور اگر اس لئے ان کی زیادتی چاہتا ہے کہ نسل بڑھے اور موحد مسلمانوں کی گنتی امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں زیادہ ہو تو بیشک یہ بھلائی کی چیز ہے ۔ حدیث شریف میں ہے محبت کرنے والیوں اور زیادہ اولاد پیدا کرنے والی عورتوں سے نکاح کرو ، قیامت کے دن میں تمہاری زیادتی سے اور امتوں پر فخر کرنے والا ہوں ۔ ٹھیک اسی طرح مال بھی ہے کہ اگر ان کی محبت گرے پڑے لوگوں کو حقیر سمجھنے اور مسکینوں غریبوں پر فخر کرنے کیلئے ہے تو بیحد بری چیز ہے ، اور اگر مال کی چاہت اپنوں اور غیروں سے سلوک کرنے ، نیکیاں کرنے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کیلئے ہے تو ہر طرح وہ شرعاً اچھی اور بہت اچھی چیز ہے ۔ قنطار کی مقدار میں مفسرین کا اختلاف ہے ، ماحصل یہ ہے کہ بہت زیادہ مال کو قنطار کہتے ہیں ، جیسے حضرت ضحاک کا قول ہے ، اور اقوال بھی ملاحظہ ہوں ، ایک ہزار دینار ، بارہ ہزار چالیس ہزار ساٹھ ہزار ، ستر ہزار ، اسی ہزار وغیرہ وغیرہ ۔ مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث میں ہے ، ایک قنطار بارہ ہزار اوقیہ کا ہے اور ہر اوقیہ بہتر ہے زمین و آسمان سے ، غالباً یہاں مقدار ثواب کی بیان ہوئی ہے جو ایک قنطار ملے گا ( واللہ اعلم ) حضرت ابو ہریرہ سے بھی ایسی ہی ایک موقوف روایت بھی مروی ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے ۔ اسی طرح ابن جریر میں حضرت معاذ بن جبل اور حضرت ابن عمر سے بھی مروی ہے ، اور ابن ابی حاتم میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو الدرداء سے مروی ہے کہ قنطار بارہ سو اوقیہ ہیں ، ابن جریر کی ایک مرفوع حدیث میں سو اوقیہ آئے ہیں لیکن وہ حدیث بھی منکر ہے ، ممکن ہے کہ وہ حضرت ابی بن کعب کا قول ہو جیسے اور صحابہ کا بھی یہی فرمان ہے ۔ ابن مردویہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص سو آیتیں پڑھ لے غافلوں میں نہیں لکھا جائے گا اور جس نے سو سے ہزار تک پڑھ لیں اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک قنطار اجر ملے گا ، اور قنطار بڑے پہاڑ کے برابر ہے ، مستدرک حاکم میں ہی اس آیت کے اس لفظ کا مطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو ہزار اوقیہ ، امام حاکم اسے صحیح اور شرط شیخین پر بتلاتے ہیں ۔ بخاری مسلم نے اسے نقل نہیں کیا ، طبرانی وغیرہ میں ہے ایک ہزار دینار ، حضرت حسن بصری سے موقوفاً یا مرسلاً مروی ہے کہ بارہ سو دینار ، حضرت ابن عباس سے بھی مروی ہے ، ضحاک فرماتے ہیں بعض عرب قنطار کو بارہ سو کا بتاتے ہیں ، بعض بارہ ہزار کا ، حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں بیل کی کھال کے بھر جانے کے برابر سونے کو قنطار کہتے ہیں ۔ یہ مرفوعاً بھی مروی ہے لیکن زیادہ صحیح موقوفاً ہے ، گھوڑوں کی محبت تین قسم کی ہے ، ایک تو وہ لوگ جو گھوڑوں کو پالتے ہیں اور اللہ کی راہ میں ان پر سوار ہو کر جہاد کرنے کیلئے نکلتے ہیں ، ان کیلئے تو یہ بہت ہی اجر و ثواب کا سبب ہیں ۔ دوسرے وہ جو فخر و غرور کے طور پر پالتے ہیں ، ان کیلئے وبال ہے ، تیسرے وہ جو سوال سے بچنے اور ان کی نسل کی حفاظت کیلئے پالتے ہیں اور اللہ کا حق نہیں بھولتے ، یہ نہ اجر نہ عذاب کے مستحق ہیں ۔ اسی مضمون کی حدیث آیت واعدولھم الخ ، کی تفسیر میں آئے گی انشاء اللہ ۔ مسومہ کے معنی چرنے والا اور پنج کلیان ( یعنی پیشانی اور چار قدموں پر نشان ) وغیرہ کے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ہر عربی گھوڑا فجر کے وقت اللہ کی اجازت سے دو دعائیں کرتا ہے ، کہتا ہے اے اللہ جس کے قبضہ میں تو نے مجھے دیا ہے تو اس کے دِل میں اس کے اہل و مال سے زیادہ میری محبت دے ، انعام سے مراد اونٹ گائیں بکریاں ہیں ۔ حرث سے مراد وہ زمین ہے جو کھیتی بونے یا باغ لگانے کیلئے تیار کی جائے ، مسند احمد کی حدیث میں ہی انسان کا بہترین مال زیادہ نسل والا گھوڑا ہے اور زیادہ پھلدار درخت کھجور ہے ۔ پھر فرمایا کہ یہ سب دنیاوی فائدہ کی چیزیں ہیں ، یہاں کی زینت اور یہاں ہی کی دلکشی کے سامان ہیں جو فانی اور زوال پالنے والے ہیں ، اچھی لوٹنے کی جگہ اور بہترین ثواب کا مرکز اللہ کے پاس ہے ، مسند احمد میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر بن خطاب نے فرمایا اے اللہ جبکہ تو نے اسے زینت دے دی تو اس کے بعد کیا ؟ اس پر اس کے بعد والی آیت اتری کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تمہیں اس سے بہترین چیزیں بتاتا ہوں ، یہ تو ایک نہ ایک روز زائل ہونے والی ہیں اور میں جن کی طرف تمہیں بلا رہا ہوں وہ صرف دیرپا ہی نہیں بلکہ ہمیشہ رہنے والی ہیں ، سنو اللہ سے ڈرنے والوں کیلئے جنت ہے جس کے کنارے کنارے اور جس کے درختوں کے درمیان قسم قسم کی نہریں بہہ رہی ہیں ، کہیں شہد کی ، کہیں دودھ کی ، کہیں پاک شراب کی ، کہیں نفیس پانی کی ، اور وہ نعمتیں ہیں جو نہ کسی کان نے سنی ہوں نہ کسی آنکھ نے دیکھی ہوں نہ کسی دِل میں خیال بھی گزرا ہو ، ان جنتوں میں یہ متقی لوگ ابدالآباد رہیں گے نہ یہ نکالے جائیں نہ انہیں دی ہوئی نعمتیں گم ہوں گی نہ فنا ہوں گی ، پھر وہاں بیویاں ملیں گی جو میل کچیل سے خباثت اور برائی سے حیض اور نفاس سے گندگی اور پلیدی سے پاک ہیں ، ہر طرح ستھری اور پاکیزہ ، ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ کی رضامندی انہیں حاصل ہو جائے گی اور ایسی کہ اس کے بعد ناراضگی کا کھٹکا ہی نہیں ، اسی لئے سورۃ برات کی آیت میں فرمایا ورضوان من اللہ اکبر اللہ کی تھوڑی سی رضامندی کا حاصل ہو جانا بھی سب سے بڑی چیز ہے ، یعنی تمام نعمتوں سے اعلیٰ نعمت رضائے رب اور مرضی مولا ہے ۔ تمام بندے اللہ کی نگاہ میں ہیں وہ بخوبی جانتا ہے کہ کون مہربانی کا مستحق ہے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

14۔ 1 شَھَوَات سے مراد یہاں مشتبھات ہیں یعنی وہ چیزیں جو طبعی طور پر انسان کو مرغوب اور پسندیدہ ہیں اس لئے ان میں رغبت اور ان کی محبت ناپسندیدہ نہیں ہے بشرطیکہ اعتدال کے اندر اور شریعت کے دائرے میں رہے۔ ان کی تزیین بھی اللہ کی طرف سے آزمائش ہے سب سے پہلے عورت کا ذکر کیا ہے کیونکہ یہ ہر بالغ انسان کی سب سے بڑی ضرورت بھی ہے اور سب سے زیادہ مرغوب بھی۔ خود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان ہے عورت اور خوشبو مجھے محبوب ہے اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نیک عورت کو دنیا کی سب سے بہتر متاع قرار دیا ہے اس لئے اس کی محبت شریعت کے دائرے سے تجاوز نہ کرے تو یہ بہترین رفیق زندگی بھی ہے اور زاد آخرت بھی ورنہ یہی عورت مرد کے لئے سب سے بڑا فتنہ ہے فرمان رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے میرے بعد جو فتنے رونما ہونگے ان میں مردوں کے لئے سب سے بڑا فتنہ عورتوں کا ہے۔ اسی طرح بیٹوں کی محبت ہے اگر اس مقصد کے لئے مسلمانوں کی قوت میں اضافہ اور بقا و تکثیر نسل ہے تو محمود ہے ورنہ مزموم۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فرمان (بہت محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورت سے شادی کرو اس لئے کہ میں قیامت والے دن دوسری امتوں کے مقابلے میں اپنی امت کی کثرت پر فخر کروں گا) اس آیت سے رھبانیت کی تردید اور تحریک خاندانی منصوبہ بندی کی تردید بھی ثابت ہوتی ہے مال ودولت سے بھی مقصود قیام معیشت صلہ رحمی صدقہ و خیرات اور امور پر خرچ کرنا اور سوال سے بچنا ہے تاکہ اللہ کی رضا حاصل ہو تو اس کی محبت بھی عین مطلوب ہے ورنہ مذموم۔ گھوڑوں سے مقصد جہاد کی تیاری دیگر جانوروں سے کھیتی باڑی اور بار برداری کا کام لینا اور زمین سے اس کی پیداوار حاصل کرنا ہو تو یہ سب پسندیدہ ہیں اور اگر مقصود محض دنیا کمانا اور پھر اس پر فخر اور غرور کا اظہار کرنا اور یاد الٰہی سے غافل ہو کر عیش و عشرت سے زندگی گزارنا ہے تو سب مفید چیزیں اس کے لئے وبال جان ثابت ہونگی۔ خزانے یعنی سونے چاندی اور مال و دولت کی فروانی اور کثرت اور وہ گھوڑے جو چراگاہ میں چرنے کے لئے چھوڑے گئے ہوں یا جہاد کے لئے تیار کئے گئے ہوں یا نشان زدہ، جن پر امتیاز کے لئے نشان یا نمبر لگا دیا جائے (فتح القدیر و ابن کثیر)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٥] اس آیت میں جن جن اشیاء کا نام لیا گیا ہے۔ ان کی محبت انسان کے دل میں فطری طور پر جاگزیں ہے اور انہی چیزوں سے انسان کی اس دنیا میں آزمائش ہوتی ہے اور انسانوں کی اکثریت اس امتحان میں فیل ہی ہوتی رہی ہے۔ ان چیزوں میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو بذات خود بری ہو۔ اور ان سے محبت کرنا بھی ایک فطری امر ہے اور فطری امر بھی بذات خود برا نہیں ہوتا۔ اگر ان چیزوں کی محبت انسان کے دل میں نہ ڈالی جاتی تو اس دنیا کی رنگینیاں، یہ لہلہاتے کھیت اور باغات اور تہذیب و تمدن کے نظارے کچھ بھی نظر نہ آتا۔ جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو یہ چیزیں بذات خود بری ہیں اور نہ ہی ان سے محبت اور ان کا حصول بری چیز ہے۔ بری چیز یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کی محبت اور حصول میں اس قدر غرق ہوجائے کہ اسے آخرت یاد ہی نہ رہے۔ البتہ جن لوگوں کے دلوں میں اللہ کا خوف اور فکر آخرت موجود ہوتی ہے۔ وہ انہیں چیزوں کو اسی طرح حاصل کرتے اور انہیں استعمال کرتے ہیں کہ انہیں انہی چیزوں سے دنیا کی راحت و سکون بھی نصیب ہوتا ہے اور آخرت میں بھی یہی چیزوں اس کی نجات کا ذریعہ بن جاتی ہیں اور اس طرح ہی انسان کو بہتر ٹھکانا میسر آسکتا ہے جو اللہ کے پاس ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

الشَّهَوٰتِ ” یہ ” شَھْوَۃٌ“ کی جمع ہے جس کا معنی ہے ” کسی مرغوب چیز کی طرف نفس کا کھچ جانا “ یہاں ” الشَّهَوٰتِ “ سے مراد وہ چیزیں ہیں جو طبیعت کو مرغوب ہیں، یعنی مصدر بمعنی اسم مفعول ” مُشْتَھَیَاتٌ“ ہے اور ” مِنَ النِّسَاۗءِ “ میں ” مِنْ “ بیانیہ ہے، یعنی وہ چیزیں یہ ہیں۔ ” َالْقَنَاطِيْرِ “ کا واحد ” قِنْطَارٌ“ ہے، اس کی مقدار میں مختلف اقوال ہیں، مگر سب کا حاصل یہ ہے کہ مال کثیر کو ” قِنْطَارٌ“ کہا جاتا ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی) ہماری زبان میں اس کا ترجمہ ” خزانے “ ہوسکتا ہے۔” مَتَاعُ “ اس سامان کو کہا جاتا ہے جس سے فائدہ حاصل کیا جائے۔ حاصل یہ کہ انسان ان چیزوں کی محبت میں پھنس کر اللہ اور اس کے دین سے غافل ہوجائے اور انھیں تفاخر و زینت کا ذریعہ سمجھے اور غرور و تکبر پر اتر آئے تو یہ تمام چیزیں مذموم ہیں، ورنہ اگر ان تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت خیال کرتے ہوئے ذریعۂ آخرت بنایا جائے اور شریعت کی حدود میں رہ کر ان سے فائدہ اٹھایا جائے تو یہ مذموم و مبغوض نہیں بلکہ نہایت مرغوب و محمود ہیں۔ اصل چیز نیت اور عمل ہے، اس لیے حدیث میں ایک طرف تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد یہ ہے : ” میرے بعد مردوں کے لیے کوئی فتنہ عورتوں سے بڑھ کر نقصان دہ نہیں۔ “ [ بخاری، النکاح، باب ما یتقی من شؤم المرأۃ ۔۔ : ٥٠٩٦، عن أسامۃ (رض) ] اور دوسری طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا : ” دنیا متاع (فائدہ اٹھانے کا سامان) ہے اور اس کی بہترین متاع نیک عورت ہے۔ “ [ مسلم، النکاح، باب خیر متاع الدنیا ۔۔ ١٤٦٩، عن ابن عمرو ] اور یہ بھی فرمایا : ” دنیا میں سے عورت اور خوشبو میرے لیے پسندیدہ بنادی گئی ہیں۔ “ [ نسائی، عشرۃ النساء، باب حب النساء : ٣٣٩١، عن أنس قال الألبانی حسن صحیح ] آیت کے آخر میں ان کو دنیاوی زندگی کا سامان قرار دے کر دنیاوی زندگی سے بےرغبتی اور آخرت میں رغبت پر زور دیا ہے۔ (ابن کثیر، شوکانی) ” وَالْخَيْلِ “ یہ اسم جمع ہے، ” خُیَلاَءٌ“ سے مشتق ہے، جس کا معنی تکبر ہے۔ گھوڑے کی چال میں ایک طرح کا تکبر پایا جاتا ہے۔ ” الْمُسَوَّمَةِ “ یہ ” سِیْمَا “ یا ” سِیْمِیَاءُ “ سے مشتق ہو تو نشان لگائے ہوئے اور ” سَوْمٌ“ سے مشتق ہو تو چرنے کے لیے چھوڑے ہوئے گھوڑے ۔” َالْاَنْعَامِ “ یہ ” نَعَمٌ“ کی جمع ہے، اونٹ، گائے، بکریاں وغیرہ اور اکثر اونٹوں پر بولا جاتا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Sequence That the hostility of disbelievers should be countered with Jihad against them was the theme in several previous verses. Now, in these verses the text explains the reason why the disbelievers indulge in hostility against Islam and Muslims. The reason for this and for all evil deeds is, in fact, the love of the worldly life. There are all sorts of people who line up against the truth - some driven by greed for wealth or power, some goaded by lust and some in defence of false ancestral customs: All this is just to grab a share in the temporal enjoyments of the present life which has been described in these verses. Commentary The limits of one&s love for worldly enjoyments The Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) has said: حُبُّ الدئنیا راس کُلِّ خَطِیٔۃ It means that the love of دنیا dunya (worldly life or worldly enjoyments) is the main source of all errors. The first verse here names some of the most de-sired things and says that they have been made to look attractive and therefore, people go after them enticed by their glamour brushing aside any concerns for the life to come, if there be any. It will be noted that things named here are the center of attraction for human beings, out of which, women come first and then the chil¬dren. For whatever man goes about procuring is because of the needs of his family - wife and children - to share it with him. Then come oth¬er forms of wealth and possessions - gold, silver, cattle and tillage - which attract people secondarily. Why has man been made in a way that he is temperamentally at¬tracted to these things? The answer is that Allah has done so in His ultimate wisdom. Let us consider: 1. If man was not naturally inclined to and even enamoured with these things, all worldly business would have gone topsy-turvy. Why would someone sweat on farms and fields? Why would a wage-earner or an entrepreneur burn themselves out in an industry, or a business-man would put his capital and labour in buying and selling things? The secret was that the people of the world were made to grow and survive through this instinctive love for such things whereby they would go about collecting and preserving these. The worker goes out to earn some money. The well-to-do goes out to hire a worker for his job. The trader brings forth his best merchandise for display waiting for a customer to earn something from. A customer goes to the shopping mall to buy things he needs to live or be happy with. If we think about it, we shall realize that it was the love for what is desirable in this mortal world which brought them out of their homes, and in this silent process, gave the world a strong and ongoing social system. There is yet another element of wisdom behind it. If man had no liking for the blessings he finds in the mortal world, he would obvious¬ly have no taste or desire for blessings promised in the world to come. That being the case, why would he ever take the trouble of doing what is good and thus become deserving of Paradise, and not doing what is evil and thus become safe from Hell? There is still another element of wisdom which is more significant for consideration here. Is it not that man, with love for these things in his heart, has been put to a test as to who becomes engrossed in the enjoyments of the present life and forgets the life to come, and who comes to realize the real and temporal nature of these things, shows concern for them only in proportion to his needs, and then channels all his efforts into deeds that would make his next life good and safe? The wisdom behind the adornment of such things has been pointed out elsewhere in the Holy Qur&an: إِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْأَرْ‌ضِ زِينَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا We made whatever there is on the earth its adornment so that We can test as to who among them acts best. (18:7) The verse cited above clearly shows that the glamourizing of sue} desirable things is an act of God based on many wise considerations. However, as for verses where such glamorization of things has been attributed to شیطان Satan - for example, زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ (the شیطان Satan has made their deeds look attractive to them - 8:48; 16:63; 27:24; 29:38.) - there the reference is to things that are evil, religiously and rationally; or, the reference is to a false sense of adornment which is evil because it transgresses the limits set by Allah: Otherwise, it is not absolutely bad to adorn the lawful things. In fact, there may be a few benefits in do¬ing so. Therefore, this act of placing attraction in things in some verses has been attributed to Allah, as stated above. Let us summarize our discussion so far and see how it works for us in our practical life. We now know that Allah created, in His grace and wisdom, all good things of life in this world, made them look attractive and - worthy of man&s effort to acquire them so that man can be tested. This is one of Allah&s many acts of wisdom to see whether the man gets swayed by the glamour of the fleeting enjoyment of things, or remem¬bers the Creator of these things, or the man forgets the very Creator of his own being as well. Aided by this realization, does man make these things a medium through which to know and love Allah; or, is it that he would elect to get totally lost in the love for these known transitory things, and forget all about the real Master and Creator before Whom he must appear on the Last Day and account for whatever he did. On the one hand is a person who has the best of both worlds. He enjoys the blessings of the present life and uses its means for success in the life to come. For him, the enjoyments of the mortal world did not become a road-block; rather, they proved to be the milestones which led him safely into a prosperous Hereafter. But, for the other person these very things became the causes that led him to squander his chance of having a good life in the Hereafter, and also became the very cause of perennial punishment. Frankly, if we were to look a little deeper, we would realize that these things become a sort of punish¬ment for him right here in this world as well. For such people, the Holy Qur&an says: فَلَا تُعْجِبْكَ أَمْوَالُهُمْ وَلَا أَوْلَادُهُمْ ۚ إِنَّمَا يُرِ‌يدُ اللَّـهُ لِيُعَذِّبَهُم بِهَا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا So, their wealth and children should not attract you. Allah wants to punish them with these in this lowly life - 9:55. Thus, the lesson is that we can seek good things of life with moderation and even store them in accordance with our genuine needs. In this lies the ultimate good of this life and the life to come. Using them in prohibited ways, or indulging in them so excessively that one forgets the post-death reality of آخرۃ Akhirah is nothing but self-destruction. The poet-sage, Maulana Rumi has illustrated this very eloquently when he said; آب اندر زیر کشتی پشتی است آب در کشتی ھلاک کشتی است He says that things of this world with which we surround ourselves are like water, and the heart of man is like a boat in it. As long as the water remains beneath and around the boat, it is good and helpful, and certainly guarantees the very purpose of its being there. But, if water gets into the boat, it makes the boat capsize and destroys all that was in it. Similarly, man&s wealth and possessions are means of convenience for his role in this world and in the life to come - provided that they do not enter into his heart, sit there, and kill it in the pro¬cess. Therefore, the verse under discussion, immediately after men¬tioning some especially desirable things of the world, presents the es¬sential guideline for human beings by saying: ذَٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَاللَّـهُ عِندَهُ حُسْنُ الْمَآبِ That is an enjoyment of the worldly life. And with Allah lies the beauty of the final resort. (3:14) In other words, it means that all these things are there simply to serve a purpose in man&s mortal life in the present world and certainly not to have him fall in love with things for their own sake, for the real beauty of the experience lies in one&s ultimate resort with Allah in blissful eternity enjoying what would never perish, diminish or weaken.

خلاصہ تفسیر ربط آیات پہلی آیتوں میں کفار و مشرکین کی مخالفت اور ان کے مقابلہ میں جہاد کا ذکر تھا، اور ان آیات میں اسلام و ایمان کی مخالفت اور تمام بد اعمالیوں کی اصل منشاء کو بیان فرمایا گیا ہے کہ وہ حب دنیا ہے، کوئی جاہ و مال کے لالچ میں حق کی مخالفت اختیار کرتا ہے کوئی نفسانی خواہشات کی وجہ سے اور کوئی اپنی آبائی رسوم کی محبت کے سبب حق کے مقابلہ پر کھڑا ہوجاتا ہے، اور ان ساری چیزوں کا خلاصہ ہے حب دنیا، مختصر تفسیر ان آیات کی یہ ہے۔ خوشنما معلوم ہوتی ہے ( اکثر) لوگوں کو محبت مرغوب چیزیں (مثلا) عورتیں ہوئیں بیٹے ہوئے، لگے ہوئے ڈھیر ہوئے سونے اور چاندی کے، نشان لگے ہوئے گھوڑے ہوئے ( یا دوسرے) مویشی اور زراعت ہوئی ( لیکن) یہ سب استعمالی چیزیں ہیں دنیوی زندگانی کی اور انجام کار کی خوبی (کی چیز) تو اللہ ہی کے پاس ہے ( جو بعد موت کے کام آوے گی جس کی تفصیل اگلی آیت میں آتی ہے) آپ (ان لوگوں سے یہ) فرما دیجئے کیا میں تم کو ایسی چیز بتلادوں جو (بدرجہا) بہتر ہو ان ( مذکورہ) چیزوں سے ( سو سنو) ایسے لوگوں کے لئے جو ( اللہ تعالیٰ سے) ڈرتے ہیں ان کے مالک ( حقیقی) کے پاس ایسے باغ ہیں ( یعنی بہشت) جن کی پائین میں نہریں جاری ہیں ان ( بہشتوں) میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے (اور ان کے لئے) ایسی بیبیاں ہیں جو ( ہر طرح) صاف ستہری کی ہوئی ہیں (اور ان کے لئے) خوشنودی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اللہ تعالیٰ خوب دیکھتے ( بھالتے) ہیں، بندوں ( کے حال) کو ( اس لئے ڈرنے والوں کو یہ نعمتیں دیں گے، آگے ان ڈرنے والوں کی بعض تفصیلی صفات ذکر کی جاتی ہیں (یہ) ایسے لوگ ( ہیں) جو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہم ایمان لے آئے سو آپ ہمارے گناہوں کو معاف کردیجئے، اور ہم کو عذاب دوزخ سے بچا لیجئے (اور وہ لوگ) صبر کرنے والے ہیں اور راست باز ہیں اور ( اللہ تعالیٰ کے سامنے) فروتنی کرنے والے ہیں اور ( نیک کاموں میں مال کے) خرچ کرنے والے ہیں اور اخیر شب میں (اٹھ اٹھ کر) گناہوں کی معافی چاہنے والے ہیں۔ معارف و مسائل دنیا کی محبت فطری ہے مگر اس میں غلو مہلک ہے : حدیث میں ارشاد ہے (حب الدنیا راس کل خطیئة) یعنی دنیا کی محبت ہر برائی کا سرچشمہ ہے۔ پہلی آیت میں دنیا کی چند اہم مرغوب چیزوں کا نام لے کر بتلایا گیا ہے کہ لوگوں کی نظروں میں ان کی محبت خوشنما بنادی گئی ہے، اس لئے بہت سے لوگ اس کی ظاہری رونق پر فریفتہ ہو کر آخرت کو بھلا بیٹھتے ہیں، جن چیزوں کا نام اس جگہ لیا گیا ہے وہ عام طور پر انسانی رغبت و محبت کا مرکز ہیں، جن میں سب سے پہلے عورت کو اور اس کے بعد اولاد کو بیان کیا گیا ہے، کیونکہ دنیا میں انسان جتنی چیزوں کے حاصل کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے ان سب کا اصلی سبب عورت یا اولاد کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بعد سونے چاندی اور مویشی اور کھیتی کا ذکر ہے، کہ یہ دوسرے نمبر میں انسان کی رغبت و محبت کا مرکز ہوتے ہیں۔ خلاصہ و مطلب آیت کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان چیزوں کی محبت طبعی طور پر انسان کے دلوں میں ڈل دی ہے، جس میں ہزاروں حکمتیں ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اگر انسان طبعی طور پر ان چیزوں کی طرف مائل اور ان سے محبت کرنے والا نہ ہوتا تو دنیا کا سارا نظام درہم برہم ہوجاتا، کسی کو کیا غرض تھی کہ کھیتی کرنے کی مشقت اٹھاتا، یا مزدوری و صنعت کی محنت برداشت کرتا، یا تجارت میں اپنا روپیہ اور محنت صرف کرتا، دنیا کی آبادی اور بقا اس میں مضمر تھی کہ لوگوں کی طبائع میں ان چیزوں کی محبت پیدا کردی جائے جس سے وہ خود بخود ان چیزوں کے مہیا کرنے اور باقی رکھنے کی فکر میں پڑجائیں، صبح اٹھ کر مزدور اس فکر میں گھر سے نکلتا ہے کہ کچھ پیسے کمائے، مالدار اس فکر میں گھر سے نکلتا ہے کہ پیسے خرچ کر کے کوئی مزدور لائے جس سے اپنا کام نکالے، تاجر بہتر سے بہتر سامان مہیا کر کے گاہک کے انتظار میں بیٹھتا ہے کہ پیسے حاصل کر ے، گاہک سو کوششیں کر کے پیسے لے کر بازار پہنچتا ہے کہ اپنی ضروریات کا سامان خریدے غور کیا جائے تو سب کو دنیا کی انہیں مرغوبات کی محبت نے اپنے اپنے گھر سے نکالا، اور دنیا کے تمدنی نظام کو نہایت مضبوط و مستحکم اصول پر قائم کردیا ہے۔ دوسری حکمت یہ بھی ہے کہ اگر دنیوی نعمتوں سے رغبت و محبت انسان کے دل میں نہ ہو تو اس کو اخروی نعمتوں کا نہ ذائقہ معلوم ہوگا نہ ان میں رغبت ہوگی، تو پھر اس کو کیا ضرورت کہ وہ نیک اعمال کی کوشش کر کے جنت حاصل کرے، اور برے اعمال سے پرہیز کر کے دوزخ سے بچے۔ تیسری حکمت اور وہی اس جگہ زیادہ قابل نظر ہے یہ ہے کہ ان چیزوں کی محبت طبعی طور پر انسان کے دل میں پیدا کر کے انسان کا امتحان لیا جائے کہ کون ان چیزوں کی محبت میں مبتلا ہو کر آخرت کو بھلا بیٹھتا ہے اور کون ہے جو ان چیزوں کی اصل حقیقت اور ان کے آنی فانی ہونے پر مطلع ہو کر ان کی فکر بقدر ضرورت کرے اور ان کو آخرت کی درستی کے کام میں لگائے، قرآن مجید کے ایک دوسرے مقام میں خود اس تزیین کی یہی حکمت بتلائی گئی ہے۔ ارشاد ہے : ( انا جعلنا ما علی الارض زینة لھا لنبلوھم ایھم احسن عملا : یعنی ہم نے بنایا جو زمین پر ہیں زمین کی زینت، تاکہ ہم لوگوں کی آزمائش کریں کہ ان میں سے کون اچھا عمل کرتا ہے) اس آیت سے معلوم ہوگیا کہ دنیا کی ان مرغوب چیزوں کو انسان کے لئے مزین کردینا بھی ایک فعل خداوندی ہے، جو بہت سی حکمتوں پر مبنی ہے، اور بعض آیات جن میں اس قسم کی تزیین کو شیطان کی طرف منسوب کیا گیا ہے، جیسے (زین لھم الشیطان اعمالھم ٨: ٨٤) ان میں ایسی چیزوں کی تزیین مراد ہے جو شرعا اور عقلا بری ہیں، یا تزیین کا وہ درجہ مراد ہے جو حد سے بڑھ جانے کی وجہ سے برا ہے، ورنہ مباحات کو مزین کردینا مطلقا برا نہیں، بلکہ اس میں بہت سے فوائد بھی ہیں، اس لئے بعض آیات میں اس تزیین کو صراحة حق تعالیٰ کی طرف منسوب کیا گیا ہے، جیسے ابھی بیان کیا گیا ہے۔ خلاصہ کلام : یہ ہے کہ دنیا کی لذیذ اور مرغوب چیزوں کو حق تعالیٰ نے اپنے فضل و حکمت سے انسان کے لئے مزین فرما کر ان کی محبت اس کے دل میں ڈال دی، جس میں بہت سی حکمتوں میں ایک یہ بھی ہے کہ انسان کا امتحان لیا جائے کہ ان سرسری اور ظاہری مرغوبات اور اس کی چند روزہ لذت میں مبتلا ہونے کے بعد وہ اپنے اور ان سب چیزوں کے رب اور خالق ومالک کو یاد رکھتا ہے اور ان چیزوں کو اس کی معرفت اور محبت کا ذریعہ بناتا ہے یا انہی کی محبت میں الجھ کر اصلی مالک و خالق کو اور آخرت میں اس کے سامنے پیشی اور حساب و کتاب کو بھلا بیٹھتا ہے، پہلا آدمی وہ ہے جس نے دنیا سے فائدہ اٹھایا اور آخرت میں بھی کامیاب رہا، دنیا کی مرغوبات اس کے لئے سنگ راہ بننے کے بجائے سنگ میل بن کر فلاح آخرت کا ذریعہ بن گئیں، اور دوسرا شخص وہ ہے جس کے لئے یہی چیزیں حیات آخرت کی بربادی اور دائمی عذاب کا سبب بن گئیں، اور اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو یہ چیزیں دنیا میں بھی اس کے لئے عذاب ہی بن جاتی ہیں، قرآن کریم میں ایسے ہی لوگوں کو متعلق ارشاد ہے : (فلا تعجبک اموالھم ولا اولادھم انما یرید اللہ لیعذبھم بھا فی الحیوۃ الدینا : ٩: ٥٥) |" یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کافروں کے مال اور اولاد سے متعجب نہ ہوں کیونکہ ان نافرمانوں کو مال، اولاد دینے سے کچھ ان کا بھلا نہیں ہوا بلکہ یہ اموال و اولاد آخرت میں تو ان کے لئے عذاب بنیں گے |" یہی دنیا میں بھی رات دن کی فکروں اور مشاغل کے باعث عذاب ہی بن جاتے ہیں۔ الغرض دنیا کی جن چیزوں کو حق تعالیٰ نے انسان کے لئے مزین اور مرغوب بنادیا ہے، شریعت کے مطابق اعتدال کے ساتھ ان کی طلب اور ضرورت کے موافق ان کو جمع کرنا دنیا و آخرت کی فلاح ہے، اور ناجائز طریقوں پر ان کا استعمال یا جائز طریقوں میں اتنا غلو اور انہماک جس کے سبب آخرت سے غفلت ہوجائے باعث ہلاکت ہے مولانا رومی (رح) نے اس کی کیا اچھی مثال بیان فرمائی ہے آب اندر زیر کشتی پشتی است آب در کشتی ہلاک کشتی است یعنی دنیا کا سازوسامان پانی کے مانند ہے، اور اس میں انسان کا قلب ایک کشتی کی طرح ہے، پانی جب تک کشتی کے نیچے اور اردگرد رہے تو کشتی کے لئے مفید اور معین اور اس کے مقصد وجود کو پورا کرنے والا ہے، اور اگر پانی کشتی کے اندر داخل ہوجائے تو یہی کشتی کی غرقابی اور ہلاکت کا سامان ہوجاتا ہے، اس طرح دنیا کے مال و متاع جب تک انسان کے دل میں غلبہ نہ پالیں، اس کے لئے دین میں معین و مددگار ہیں، اور جس وقت اس کے دل پر چھا جائیں تو دل کی ہلاکت ہیں، اسی لئے آیت متذکرہ میں چند خاص مرغوبات دنیا کا ذکر کرنے کے بعد ارشاد ہوتا ہے : (ذلک متاع الحیوۃ الدنیا واللہ عندہ حسن الماب) |" یعنی یہ سب چیزیں دنیوی زندگی میں صرف کام چلانے کے لئے ہیں، دل لگانے کے لئے نہیں، اور اللہ کے پاس ہے اچھا ٹھکانا،|" یعنی وہ ٹھکانا جہاں ہمیشہ رہنا ہے، اور جس کی نعمتیں اور لذتیں نہ فنا ہونے والی ہیں نہ کم یا ضعیف ہونے والی۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَاۗءِ وَالْبَنِيْنَ وَالْقَنَاطِيْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَۃِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ۝ ٠ ۭ ذٰلِكَ مَتَاعُ الْحَيٰوۃِ الدُّنْيَا۝ ٠ ۚ وَاللہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ۝ ١٤ زين الزِّينَةُ الحقیقيّة : ما لا يشين الإنسان في شيء من أحواله لا في الدنیا، ولا في الآخرة، فأمّا ما يزينه في حالة دون حالة فهو من وجه شين، ( زی ن ) الزینہ زینت حقیقی ہوتی ہے جو انسان کے لئے کسی حالت میں بھی معیوب نہ ہو یعنی نہ دنیا میں اور نہ ہی عقبی ٰ میں اور وہ چیز جو ایک حیثیت سی موجب زینت ہو لیکن دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ زینت حقیقی نہیں ہوتی بلکہ اسے صرف ایک پہلو کے اعتبار سے زینت کہہ سکتے ہیں حب والمحبَّة : إرادة ما تراه أو تظنّه خيرا، وهي علی ثلاثة أوجه : - محبّة للّذة، کمحبّة الرجل المرأة، ومنه : وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] . - ومحبّة للنفع، کمحبة شيء ينتفع به، ومنه : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] . - ومحبّة للفضل، کمحبّة أهل العلم بعضهم لبعض لأجل العلم . ( ح ب ب ) الحب والحبۃ المحبۃ کے معنی کسی چیز کو اچھا سمجھ کر اس کا ارادہ کرنے اور چاہنے کے ہیں اور محبت تین قسم پر ہے : ۔ ( 1) محض لذت اندوزی کے لئے جیسے مرد کسی عورت سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ آیت : ۔ وَيُطْعِمُونَ الطَّعامَ عَلى حُبِّهِ مِسْكِيناً [ الإنسان/ 8] میں اسی نوع کی محبت کی طرف اشارہ ہے ۔ ( 2 ) محبت نفع اندوزی کی خاطر جیسا کہ انسان کسی نفع بخش اور مفید شے سے محبت کرتا ہے ۔ چناچہ اسی معنی میں فرمایا : وَأُخْرى تُحِبُّونَها نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13 اور ایک چیز کو تم بہت چاہتے ہو یعنی تمہیں خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح حاصل ہوگی ۔ ( 3 ) کبھی یہ محبت یہ محض فضل وشرف کی وجہ سے ہوتی ہے جیسا کہ اہل علم وفضل آپس میں ایک دوسرے سے محض علم کی خاطر محبت کرتے ہیں ۔ شها أصل الشَّهْوَةِ : نزوع النّفس إلى ما تریده، وذلک في الدّنيا ضربان : صادقة، وکاذبة، فالصّادقة : ما يختلّ البدن من دونه كشهوة الطّعام عند الجوع، والکاذبة : ما لا يختلّ من دونه، وقد يسمّى الْمُشْتَهَى شهوة، وقد يقال للقوّة التي تَشْتَهِي الشیء : شهوة، وقوله تعالی: زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران/ 14] ، يحتمل الشّهوتین، وقوله : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم/ 59] ، فهذا من الشّهوات الکاذبة، ومن الْمُشْتَهِيَاتِ المستغنی عنها، وقوله في صفة الجنّة : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت/ 31] ، وقوله : فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ [ الأنبیاء/ 102] ، وقیل : رجل شَهْوَانٌ ، وشَهَوَانِيٌّ ، وشیء شَهِيٌّ. ( ش ھ و ) الشھوہ کے معنی ہیں نفس کا اس چیز کی طرف کھینچ جاتا جسے وہ چاہتا ہے و خواہشات دنیوی دوقسم پر ہیں صادقہ اور کاذبہ سچی خواہش وہ ہے جس کے حصول کے بغیر بدن کا نظام مختل ہوجاتا ہے جیسے بھوک کے وقت کھانے کی اشتہا اور جھوٹی خواہش وہ ہے جس کے عدم حصول سے بدن میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی ۔ پھر شھوۃ کا لفظ کبھی اس چیز پر بولاجاتا ہے ۔ جس کی طرف طبیعت کا میلان ہو اور کبھی خود اس قوت شہویہ پر اور آیت کریمہ ؛زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَواتِ [ آل عمران/ 14] لوگوں کو ان کی خواہشوں کی چیزیں ( بڑی ) زینت دار معلوم وہوتی ہیں۔ میں شہو ات سے دونوں قسم کی خواہشات مراد ہیں ۔ اور آیت کریمہ : اتَّبَعُوا الشَّهَواتِ [ مریم/ 59] اور خواہشات نفسانی کے پیچھے لگ گئے ۔ میں جھوٹی خواہشات مراد ہیں یعنی ان چیزوں کی خواہش جن سے استغناء ہوسکتا ہو ۔ اور جنت کے متعلق فرمایا : وَلَكُمْ فِيها ما تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ [ فصلت/ 31] اور وہاں جس ( نعمت کو تمہارا جی چاہے گا تم کو ملے گا ۔ فِي مَا اشْتَهَتْ أَنْفُسُهُمْ [ الأنبیاء/ 102] اور جو کچھ ان جی چاہے گا اس میں ۔۔۔ رجل شھوان وشھوانی خواہش کا بندہ شمئ لذیز چیز ۔ مرغوب شے ۔ نِّسَاءُ والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] النساء والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔ ( ابْنُ ) أصله : بنو، لقولهم في الجمع : أَبْنَاء، وفي التصغیر : بُنَيّ ، قال تعالی: يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] ، يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] ، يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] ، يا بنيّ لا تعبد الشیطان، وسماه بذلک لکونه بناء للأب، فإنّ الأب هو الذي بناه وجعله اللہ بناء في إيجاده، ويقال لكلّ ما يحصل من جهة شيء أو من تربیته، أو بتفقده أو كثرة خدمته له أو قيامه بأمره : هو ابنه، نحو : فلان ابن الحرب، وابن السبیل للمسافر، وابن اللیل، وابن العلم، قال الشاعر أولاک بنو خير وشرّ كليهما وفلان ابن بطنه وابن فرجه : إذا کان همّه مصروفا إليهما، وابن يومه : إذا لم يتفكّر في غده . قال تعالی: وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] وقال تعالی: إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] ، إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] ، وجمع ابْن : أَبْنَاء وبَنُون، قال عزّ وجل : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] ، وقال عزّ وجلّ : يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] ، يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ، يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] ، ويقال في مؤنث ابن : ابْنَة وبِنْت، وقوله تعالی: هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ، وقوله : لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] ، فقد قيل : خاطب بذلک أکابر القوم وعرض عليهم بناته «1» لا أهل قریته كلهم، فإنه محال أن يعرض بنات له قلیلة علی الجمّ الغفیر، وقیل : بل أشار بالبنات إلى نساء أمته، وسماهنّ بنات له لکون کلّ نبيّ بمنزلة الأب لأمته، بل لکونه أكبر وأجل الأبوین لهم كما تقدّم في ذکر الأب، وقوله تعالی: وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] ، هو قولهم عن اللہ : إنّ الملائكة بنات اللہ . الابن ۔ یہ اصل میں بنو ہے کیونکہ اس کی جمع ابناء اور تصغیر بنی آتی ہے ۔ قرآن میں ہے : يا بُنَيَّ لا تَقْصُصْ رُؤْياكَ عَلى إِخْوَتِكَ [يوسف/ 5] کہ بیٹا اپنے خواب کا ذکر اپنے بھائیوں سے نہ کرنا ۔ يا بُنَيَّ إِنِّي أَرى فِي الْمَنامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ [ الصافات/ 102] کہ بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ ( گویا ) تم کو ذبح کررہاہوں ۔ يا بُنَيَّ لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ [ لقمان/ 13] کہ بیٹا خدا کے ساتھ شریک نہ کرنا ۔ يا بنيّ لا تعبد الشیطانبیٹا شیطان کی عبادت نہ کرنا ۔ اور بیٹا بھی چونکہ اپنے باپ کی عمارت ہوتا ہے اس لئے اسے ابن کہا جاتا ہے ۔ کیونکہ باپ کو اللہ تعالٰٰ نے اس کا بانی بنایا ہے اور بیٹے کی تکلیف میں باپ بمنزلہ معمار کے ہوتا ہے اور ہر وہ چیز جو دوسرے کے سبب اس کی تربیت دیکھ بھال اور نگرانی سے حاصل ہو اسے اس کا ابن کہا جاتا ہے ۔ نیز جسے کسی چیز سے لگاؤ ہوا است بھی اس کا بن کہا جاتا جسے : فلان ابن حرب ۔ فلان جنگ جو ہے ۔ ابن السبیل مسافر ابن اللیل چور ۔ ابن العلم پروردگار وہ علم ۔ شاعر نے کہا ہے ع ( طویل ) یہ لوگ خیر وزر یعنی ہر حالت میں اچھے ہیں ۔ فلان ابن بطنہ پیٹ پرست فلان ابن فرجہ شہوت پرست ۔ ابن یومہ جو کل کی فکر نہ کرے ۔ قرآن میں ہے : وَقالَتِ الْيَهُودُ : عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّهِ ، وَقالَتِ النَّصاری: الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّهِ [ التوبة/ 30] اور یہود کہتے ہیں کہ عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے میں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں ۔ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي [هود/ 45] میرا بیٹا بھی میرے گھر والوں میں ہے ۔ إِنَّ ابْنَكَ سَرَقَ [يوسف/ 81] کہ اب آپکے صاحبزادے نے ( وہاں جاکر ) چوری کی ۔ ابن کی جمع ابناء اور بنون آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْواجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً [ النحل/ 72] اور عورتوں سے تمہارے بیٹے اور پوتے پیدا کئے يا بَنِيَّ لا تَدْخُلُوا مِنْ بابٍ واحِدٍ [يوسف/ 67] کہ بیٹا ایک ہی دروازے سے داخل نہ ہونا ۔ يا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ [ الأعراف/ 31] ( 3 ) اے نبی آدم ہر نماز کے وقت اپنے تیئں مزین کیا کرو ۔ يا بَنِي آدَمَ لا يَفْتِنَنَّكُمُ الشَّيْطانُ [ الأعراف/ 27] اے نبی آدم ( دیکھنا کہیں ) شیطان تمہیں بہکانہ دے ۔ اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع اور ابن کی موئث ابنۃ وبنت اور ان کی جمع بنات آتی ہے قرآن میں ہے : ۔ هؤُلاءِ بَناتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ [هود/ 78] ( جو ) میری ) قوم کی ) لڑکیاں ہیں تمہارے لئے جائز اور ) پاک ہیں ۔ لَقَدْ عَلِمْتَ ما لَنا فِي بَناتِكَ مِنْ حَقٍّ [هود/ 79] تمہاری ۃ قوم کی ) بیٹیوں کی ہمیں کچھ حاجت نہیں ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت لوط (علیہ السلام) نے اکابر قوم خطاب کیا تھا اور ان کے سامنے اپنی بیٹیاں پیش کی تھیں ۔ مگر یہ ناممکن سی بات ہے کیونکہ نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ اپنی چند لڑکیاں مجمع کثیر کے سامنے پیش کرے اور بعض نے کہا ہے کہ بنات سے ان کی قوم کی عورتیں مراد ہیں اور ان کو بناتی اس لئے کہا ہے کہ ہر نبی اپنی قوم کے لئے بمنزلہ باپ کے ہوتا ہے بلکہ والدین سے بھی اس کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے جیسا کہ اب کی تشریح میں گزر چکا ہے اور آیت کریمہ : وَيَجْعَلُونَ لِلَّهِ الْبَناتِ [ النحل/ 57] اور یہ لوگ خدا کے لئے تو بیٹیاں تجویز کرتے ہیں ۔ کے مونی یہ ہیں کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتی ہیں ۔ قطر القُطْرُ : الجانب، وجمعه : أَقْطَارٌ. قال تعالی: إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطارِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الرحمن/ 33] ، وقال : وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِنْ أَقْطارِها [ الأحزاب/ 14] وقَطَرْتُهُ : ألقیته علی قُطْرِهِ ، وتَقَطَّرَ : وقع علی قُطْره، ومنه : قَطَرَ المطر، أي : سقط، وسمّي لذلک قَطْراً ، وتَقَاطَرَ القوم : جاؤوا أرسالا کالقطْر، ومنه قِطَارُ الإبل، وقیل : الإنفاض يُقَطِّرُ الجلب .. أي : إذا أنفض القوم فقلّ زادهم قطروا الإبل وجلبوها للبیع، والقَطِرَانُ : ما يَتَقَطَّرُ من الهناء . قال تعالی: سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم/ 50] ، وقرئ : ( من قِطْرٍ آنٍ ) أي : من نحاس مذاب قد أني حرّها، وقال : آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً [ الكهف/ 96] أي : نحاسا مذابا، وقال : وَمِنْ أَهْلِ الْكِتابِ مَنْ إِنْ تَأْمَنْهُ بِقِنْطارٍ يُؤَدِّهِ إِلَيْكَ [ آل عمران/ 75] وقوله : وَآتَيْتُمْ إِحْداهُنَّ قِنْطاراً [ النساء/ 20] والْقَنَاطِيرُ جمع القَنْطَرَةِ ، والقَنْطَرَةُ من المال : ما فيه عبور الحیاة تشبيها بالقنطرة، وذلک غير محدود القدر في نفسه، وإنما هو بحسب الإضافة کا لغنی، فربّ إنسان يستغني بالقلیل، وآخر لا يستغني بالکثير، ولما قلنا اختلفوا في حدّه فقیل : أربعون أوقيّة . وقال الحسن : ألف ومائتا دينار، وقیل : ملء مسک ثور ذهبا إلى غير ذلك، وذلک کا ختلافهم في حدّ الغنی، وقوله : وَالْقَناطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ [ آل عمران/ 14] أي : المجموعة قنطارا قنطارا، کقولک : دراهم مدرهمة، ودنانیر مدنّرة . ( ق ط ر ) القطر کے معنی جانب اور طرف کے ہیں اس کی جمع اقطار ہے قرآن پاک میں ہے : ۔ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَنْ تَنْفُذُوا مِنْ أَقْطارِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الرحمن/ 33] اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ وَلَوْ دُخِلَتْ عَلَيْهِمْ مِنْ أَقْطارِها [ الأحزاب/ 14] اور اگر فوجیں اطراف مدینہ سے ان پر آ دخل ہوں ۔ قطرتہ کسی کو پہلو پر گر ادینا ۔ اسی سے قطر المطر کا محاورہ ہے جس کے معنی بارش برسنے کے ہیں اور اسی وجہ سے بارش کو قطر کہا جاتا ہے ۔ تقا طر القوم لوگ بارش کے قطروں کی طرح پیہم آئے اسی سے اونٹوں کی قطار کہا جاتا ہے مثل مشہور ہے ۔ النقاض یقطر الجلب یعنی توشہ ختم ہوجائے تو عمدہ اونٹ بھی فروخت کے لئے منڈی میں لے جاتے ہیں ۔ القطران کے معنی پگهلی ہوئی رال یا گیند ھک کے ہیں قرآن پاک میں ہے سَرابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرانٍ [إبراهيم/ 50] ان کے کرتے گند ھک کے ہوں گے ۔ ایک قراءت میں قطرآ ن ہے جس کے معنی پگھلے ہوئے گرم تانبے کے ہیں ۔ قرآن پاک میں ہے : ۔ آتُونِي أُفْرِغْ عَلَيْهِ قِطْراً [ الكهف/ 96]( اب ) میرے پاس تانبا لاؤ کہ اس پر پگھلا کر ڈال دوں یہاں قطرا کے معنی پگھلا ہوا تا نبا کے ہیں ۔ ذهب ( سونا) الذَّهَبُ معروف، وربما قيل ذَهَبَةٌ ، ورجل ذَهِبٌ: رأى معدن الذّهب فدهش، وشیء مُذَهَّبٌ: جعل عليه الذّهب، وكميت مُذْهَبٌ: علت حمرته صفرة، كأنّ عليها ذهبا، ( ذ ھ ب ) الذھب ۔ سونا ۔ اسے ذھبتہ بھی کہا جاتا ہے ۔ رجل ذھب ، جو کان کے اندر زیادہ سانا دیکھ کر ششدرہ جائے ۔ شیئ مذھب ( او مذھب ) زرا ندددہ طلاء کی ہوئی چیز ۔ کمیت مذھب ( اومذھب ) کمیت گھوڑا جس کی سرخی پر زردی غالب ہو ۔ گویا وہ سنہری رنگ کا ہے ۔ فِضَّةُ اختصّت بأدون المتعامل بها من الجواهر، ودرع فَضْفَاضَةٌ ، وفَضْفَاضٌ: واسعة . والفِضَّةُچاندی یعنی وہ ادنی جو ہر جس کے ذریعہ لین دین کیا جاتا ہے ۔ درع فضفا ضۃ وفضفا ض فراخ زرہ ۔ خيل الخَيَال : أصله الصّورة المجرّدة کالصّورة المتصوّرة في المنام، وفي المرآة وفي القلب بعید غيبوبة المرئيّ ، ثم تستعمل في صورة كلّ أمر متصوّر، وفي كلّ شخص دقیق يجري مجری الخیال، والتّخييل : تصویر خيال الشیء في النّفس، والتّخيّل : تصوّر ذلك، وخلت بمعنی ظننت، يقال اعتبارا بتصوّر خيال المظنون . ويقال خَيَّلَتِ السّماءُ : أبدت خيالا للمطر، وفلان مَخِيل بکذا، أي : خلیق . وحقیقته : أنه مظهر خيال ذلك . والخُيَلَاء : التّكبّر عن تخيّل فضیلة تراءت للإنسان من نفسه، ومنها يتأوّل لفظ الخیل لما قيل : إنه لا يركب أحد فرسا إلّا وجد في نفسه نخوة، والْخَيْلُ في الأصل اسم للأفراس والفرسان جمیعا، وعلی ذلک قوله تعالی: وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال/ 60] ، ويستعمل في كلّ واحد منهما منفردا نحو ما روي : (يا خيل اللہ اركبي) فهذا للفرسان، وقوله عليه السلام : «عفوت لکم عن صدقة الخیل» يعني الأفراس . والأخيل : الشّقراق لکونه متلوّنا فيختال في كلّ وقت أنّ له لونا غير اللون الأوّل، ولذلک قيل : كأبي براقش کلّ لو ... ن لونه يتخيّل ( خ ی ل ) الخیال ۔ اس کے اصل معنی صورت مجردہ کے ہیں ۔ جیسے وہ صورت جو خواب یا آیئنے میں نظر آتی ہے یا کسی کی عدم موجودگی میں دل کے اندر اس کا تصور آتا ہے ۔ پھر ( مجازا ) ہر اس امر پر اس کا اطلاق ہوتا ہے جس کا تصور کیا جائے اور ہر اس پتلے دبلے شخص کو خیال کہاجاتا ہے جو بمنزلہ خیال اور تصور کے ہو ۔ التخییل ( تفعیل ) کے معنی کسی کے نفس میں کسی چیز کا خیال یعنی تصور قائم کرنے کے ہیں اور التخیل کے معنی ازخود اس قسم کا تصور قائم کرلینے کے ہیں ۔ اور خلت بمعنی ظننت آتا ہے ۔ اس اعتبار سے کہ مظنون چیز بھی بمنزلہ خیال کے ہوتی ہے ۔ خیلت السماء آسمان میں بارش کا سماں نظر آنے لگا ۔ فلاں مخیل بکذا ۔ فلاں اس کا سزا اور ہے اصل میں اس کے معنی یہ ہیں کہ فلاں اس خیال کو ظاہر کرنے والا ہے ۔ الخیلاء ۔ تکبر جو کسی ایسی فضیلت کے تخیل پر مبنی ہو جو انسان اپنے اندر خیال کرتا ہو ۔ اسی سے لفظ خیل لیا گیا ہے کیونکہ جو شخص گھوڑے پر سوار ہو وہ اپنے اندر بخت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل اندر نحوت و غرور پاتا ہے ۔ دراصل خیل کا لفظ گھوڑے اور سواروں دونوں کے مجموعہ پر بولا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے :۔ وَمِنْ رِباطِ الْخَيْلِ [ الأنفال/ 60] اور گھوڑو ن کے تیار رکھنے سے اور کبھی ہر ایک پر انفراد بھی بولا جاتا ہے جیسا کہ ایک روایت میں ہے (122) یاخیل اللہ ارکبی ۔ ( اے اللہ کے سوا گھوڑے پر سوار ہوجا۔ تو یہاں خیل بمعنی فا رس کے ہے اور ایک حدیث میں ہے (123) عفوت لکم عن صدقۃ الخیل کہ میں نے تمہیں گھوڑوں کا صدقہ معاف کیا الاخیل ۔ شقرا ( ایک پرندہ ) کو کہاجاتا ہے کیونکہ وہ رنگ بدلتا رہتا ہے ۔ اور ہر لحظہ یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ دوسرے رنگ کا ہے ۔ اس ی بناپر شاعر نے کہا ہے ( مجرد الکامل) (149) کا بی براقش کل لومن نہ یتخیل ابوبراقش کی طرح جو ہر آن نیا رنگ بدلتا ہے ۔ سام السَّوْمُ أصله : الذّهاب في ابتغاء الشیء، فهو لفظ لمعنی مركّب من الذّهاب والابتغاء، وأجري مجری الذّهاب في قولهم : سَامَتِ الإبل، فهي سَائِمَةٌ ، ومجری الابتغاء في قولهم : سُمْتُ كذا، قال : يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذابِ [إبراهيم/ 6] ، ومنه قيل : سِيمَ فلان الخسف، فهو يُسَامُ الخسف، ومنه : السَّوْمُ في البیع، فقیل : ( صاحب السّلعة أحقّ بالسّوم) ويقال : سُمْتُ الإبل في المرعی، وأَسَمْتُهَا، وسَوَّمْتُهَا، قال : وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ [ النحل/ 10] ، والسِّيمَاءُ والسِّيمِيَاءُ : العلامة، قال الشاعر : له سيمياء لا تشق علی البصر وقال تعالی: سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ [ الفتح/ 29] ، وقد سَوَّمْتُهُ أي : أعلمته، وقوله عزّ وجلّ في الملائكة : مُسَوِّمِينَ أي : معلّمين ومُسَوِّمِينَ معلّمين لأنفسهم أو لخیولهم، أو مرسلین لها، وروي عنه عليه السلام أنه قال : «تَسَوَّمُوا فإن الملائكة قد تَسَوَّمَتْ» ( س و م ) السوم کے معنی کسی چیز کی طلب میں جانیکے ہیں پس اسکا مفہوم دو اجزاء سے مرکب ہے یعنی طلب اور جانا پھر کبھی صرف ذہاب یعنی چلے جانا کے معنی ہوتے ہیں ۔ السیماء والسیماء کے معنی علامت کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ سِيماهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ [ الفتح/ 29] کثرت سجود کے اثر سے ان کی پیشانیوں پر نشان پڑے ہوئے ہیں ۔ اور سومتہ کے معنی نشان زدہ کرنے کے ہیں ۔ مُسَوِّمِينَ اور مسومین کے معنی معلمین کے ہیں یعنی نشان زدہ اور مسومین ( بصیغہ فاعل ) کے معنی والے یا ان کو چھوڑ نے والے ۔ آنحضرت سے ایک روایت میں ہے «تَسَوَّمُوا فإن الملائكة قد تَسَوَّمَتْ» کہ تم بھی نشان بنالو کیونکہ فرشتوں نے اپنے لئے نشان بنائے ہوئے ہیں ۔ وہ لوگ تم کو بڑا دکھ دیتے تھے اور رسیم فلان الخسف ( فلاں کو خسف کا عذاب دیا گیا ) یا ھو یسام الخسف ۔ کا محاورہ بھی اسی سے ماخوذ ہے اور اسی سے بیع مین السوم ہے جس کے معنی نرخ کرنا کے ہیں چناچہ کہا گیا ہے صاحب السلعۃ احق بالسوم سامان کا مالک نرخ کرنے کا زیادہ حقدار ہے ۔ اور سمت الابل فی المرعی کے معنی چراگاہ میں چرنے کے لئے اونٹ بھیجنے کے ہیں ۔ اور اسی معنی میں اسمت الابل ( افعال) وسوم تھا ( تفعیل آتا ہے چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَمِنْهُ شَجَرٌ فِيهِ تُسِيمُونَ [ النحل/ 10] اور اس سے درخت بھی ( شاداب ) ہوتے ہیں جن میں تم اپنے چار پویاں کو چراتے ہو ۔ السیماء والسیماء کے معنی علامت کے ہیں نعم ( جانور) [ والنَّعَمُ مختصٌّ بالإبل ] ، وجمْعُه : أَنْعَامٌ ، [ وتسمیتُهُ بذلک لکون الإبل عندهم أَعْظَمَ نِعْمةٍ ، لكِنِ الأَنْعَامُ تقال للإبل والبقر والغنم، ولا يقال لها أَنْعَامٌ حتی يكون في جملتها الإبل ] «1» . قال : وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] ، وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] ، وقوله : فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] فَالْأَنْعَامُ هاهنا عامٌّ في الإبل وغیرها . ( ن ع م ) نعام النعم کا لفظ خاص کر اونٹوں پر بولا جاتا ہے اور اونٹوں کو نعم اس لئے کہا گیا ہے کہ وہ عرب کے لئے سب سے بڑی نعمت تھے اس کی جمع انعام آتی ہے لیکن انعام کا لفظ بھیڑ بکری اونٹ اور گائے سب پر بولا جاتا ہے مگر ان جانوروں پر انعام کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے ۔ جب اونٹ بھی ان میں شامل ہو ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَجَعَلَ لَكُمْ مِنَ الْفُلْكِ وَالْأَنْعامِ ما تَرْكَبُونَ [ الزخرف/ 12] اور تمہارے لئے کشتیاں اور چار پائے بنائے ۔ وَمِنَ الْأَنْعامِ حَمُولَةً وَفَرْشاً [ الأنعام/ 142] اور چار پایوں میں بوجھ اٹھا نے والے ( یعنی بڑے بڑے بھی ) پیدا کئے اور زمین سے لگے ہوئے ( یعنی چھوٹے چھوٹے بھی ۔ اور آیت کریمہ : ۔ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَباتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعامُ [يونس/ 24] پھر اس کے ساتھ سبزہ جسے آدمی اور جانور کھاتے ہیں ۔ مل کر نکلا ۔ میں انعام کا لفظ عام ہے جو تمام جانوروں کو شامل ہے ۔ حرث الحَرْث : إلقاء البذر في الأرض وتهيّؤها للزرع، ويسمّى المحروث حرثا، قال اللہ تعالی: أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم/ 22] ، وذلک علی سبیل التشبيه، فبالنساء زرع ما فيه بقاء نوع الإنسان، كما أنّ بالأرض زرع ما به بقاء أشخاصهم، وقوله عزّ وجل : وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] ، يتناول الحرثین . ( ح ر ث ) الحرث ( ن ) کے معنی زمین میں بیج ڈالنے اور اسے زراعت کے لئے تیار کرنے کے پاس اور کھیتی کو بھی حرث کہاجاتا ہے ۔ قرآں میں ہے ؛۔ أَنِ اغْدُوا عَلى حَرْثِكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صارِمِينَ [ القلم/ 22] کہ اگر تم کو کاٹنا ہے تو اپنی کھیتی پر سویری ہی جا پہنچو۔ اور کھیتی سے زمین کی آبادی ہوئی ہے اس لئے حرث بمعنی آبادی آجاتا ہے ۔ اور آیت کریمہ :۔ وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ [ البقرة/ 205] اور کھیتی کو ( برباد ) اور انسانوں اور حیوانوں کی ) نسل کو قابو کردے ۔ دونوں قسم کی کھیتی کو شامل ہے۔ متع ( سامان) وكلّ ما ينتفع به علی وجه ما فهو مَتَاعٌ ومُتْعَةٌ ، وعلی هذا قوله : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] أي : طعامهم، فسمّاه مَتَاعاً ، وقیل : وعاء هم، وکلاهما متاع، وهما متلازمان، فإنّ الطّعام کان في الوعاء . ( م ت ع ) المتوع ہر وہ چیز جس سے کسی قسم کا نفع حاصل کیا جائے اسے متاع ومتعۃ کہا جاتا ہے اس معنی کے لحاظ آیت کریمہ : وَلَمَّا فَتَحُوا مَتاعَهُمْ [يوسف/ 65] جب انہوں نے اپنا اسباب کھولا ۔ میں غلہ کو متاع کہا ہے اور بعض نے غلہ کے تھیلے بابور یاں مراد لئے ہیں اور یہ دونوں متاع میں داخل اور باہم متلا زم ہیں کیونکہ غلہ ہمیشہ تھیلوں ہی میں ڈالا جاتا ہے حيى الحیاة تستعمل علی أوجه : الأوّل : للقوّة النّامية الموجودة في النّبات والحیوان، ومنه قيل : نبات حَيٌّ ، قال عزّ وجلّ : اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] ، الثانية : للقوّة الحسّاسة، وبه سمّي الحیوان حيوانا، قال عزّ وجلّ : وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] ، الثالثة : للقوّة العاملة العاقلة، کقوله تعالی: أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] والرابعة : عبارة عن ارتفاع الغمّ ، وعلی هذا قوله عزّ وجلّ : وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، أي : هم متلذّذون، لما روي في الأخبار الکثيرة في أرواح الشّهداء والخامسة : الحیاة الأخرويّة الأبديّة، وذلک يتوصّل إليه بالحیاة التي هي العقل والعلم، قال اللہ تعالی: اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] والسادسة : الحیاة التي يوصف بها الباري، فإنه إذا قيل فيه تعالی: هو حيّ ، فمعناه : لا يصحّ عليه الموت، ولیس ذلک إلّا لله عزّ وجلّ. ( ح ی ی ) الحیاۃ ) زندگی ، جینا یہ اصل میں حیی ( س ) یحییٰ کا مصدر ہے ) کا استعمال مختلف وجوہ پر ہوتا ہے ۔ ( 1) قوت نامیہ جو حیوانات اور نباتات دونوں میں پائی جاتی ہے ۔ اسی معنی کے لحاظ سے نوبت کو حیہ یعنی زندہ کہا جاتا ہے ۔ قرآن میں ہے : ۔ اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِها[ الحدید/ 17] جان رکھو کہ خدا ہی زمین کو اس کے مرنے کے بعد زندہ کرتا ہے ۔ ۔ ( 2 ) دوم حیاۃ کے معنی قوت احساس کے آتے ہیں اور اسی قوت کی بناء پر حیوان کو حیوان کہا جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : ۔ وَما يَسْتَوِي الْأَحْياءُ وَلَا الْأَمْواتُ [ فاطر/ 22] اور زندے اور مردے برابر ہوسکتے ہیں ۔ ( 3 ) قوت عاملہ کا عطا کرنا مراد ہوتا ہے چنانچہ فرمایا : ۔ أَوَمَنْ كانَ مَيْتاً فَأَحْيَيْناهُ [ الأنعام/ 122] بھلا جو پہلے مردہ تھا پھر ہم نے اس کو زندہ کیا ۔ ( 4 ) غم کا دور ہونا مراد ہوتا ہے ۔ اس معنی میں شاعر نے کہا ہے ( خفیف ) جو شخص مرکر راحت کی نیند سوگیا وہ درحقیقت مردہ نہیں ہے حقیقتا مردے بنے ہوئے ہیں اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتاً بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں ۔ میں شہداء کو اسی معنی میں احیاء یعنی زندے کہا ہے کیونکہ وہ لذت و راحت میں ہیں جیسا کہ ارواح شہداء کے متعلق بہت سی احادیث مروی ہیں ۔ ( 5 ) حیات سے آخرت کی دائمی زندگی مراد ہوتی ہے ۔ جو کہ علم کی زندگی کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے : قرآن میں ہے : ۔ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذا دَعاكُمْ لِما يُحْيِيكُمْ [ الأنفال/ 24] خدا اور اس کے رسول کا حکم قبول کرو جب کہ رسول خدا تمہیں ایسے کام کے لئے بلاتے ہیں جو تم کو زندگی ( جادواں ) بخشتا ہے۔ ( 6 ) وہ حیات جس سے صرف ذات باری تعالیٰ متصف ہوتی ہے ۔ چناچہ جب اللہ تعالیٰ کی صفت میں حی کہا جاتا ہے تو اس سے مراد وہ ذات اقدس ہوئی ہے جس کے متعلق موت کا تصور بھی نہیں ہوسکتا ۔ پھر دنیا اور آخرت کے لحاظ بھی زندگی دو قسم پر ہے یعنی حیات دنیا اور حیات آخرت چناچہ فرمایا : ۔ فَأَمَّا مَنْ طَغى وَآثَرَ الْحَياةَ الدُّنْيا [ النازعات/ 38] تو جس نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھنا ۔ دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] دنا ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی عند عند : لفظ موضوع للقرب، فتارة يستعمل في المکان، وتارة في الاعتقاد، نحو أن يقال : عِنْدِي كذا، وتارة في الزّلفی والمنزلة، وعلی ذلک قوله : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] ، ( عند ) ظرف عند یہ کسی چیز کا قرب ظاہر کرنے کے لئے وضع کیا گیا ہے کبھی تو مکان کا قرب ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے اور کبھی اعتقاد کے معنی ظاہر کرتا ہے جیسے عندی کذا اور کبھی کسی شخص کی قرب ومنزلت کے متعلق استعمال ہوتا ہے جیسے فرمایا : بَلْ أَحْياءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ [ آل عمران/ 169] بلکہ خدا کے نزدیک زندہ ہے ۔ حسن الحُسْنُ : عبارة عن کلّ مبهج مرغوب فيه، وذلک ثلاثة أضرب : مستحسن من جهة العقل . ومستحسن من جهة الهوى. ومستحسن من جهة الحسّ. والحسنةُ يعبّر عنها عن کلّ ما يسرّ من نعمة تنال الإنسان في نفسه وبدنه وأحواله، فقوله تعالی: وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] ( ح س ن ) الحسن ہر خوش کن اور پسندیدہ چیز کو حسن کہا جاتا ہے اس کی تین قسمیں ہیں ۔ ( 1) وہ چیز جو عقل کے اعتبار سے مستحسن ہو ۔ ( 2) وہ جو خواہش نفسانی کی رو سے پسندیدہ ہو ۔ ( 3) صرف نگاہ میں بھی معلوم ہو ۔ الحسنتہ ہر وہ نعمت جو انسان کو اس کے نفس یا بدن یا اس کی کسی حالت میں حاصل ہو کر اس کے لئے مسرت کا سبب بنے حسنتہ کہلاتی ہے اس کی ضد سیئتہ ہے اور یہ دونوں الفاظ مشترکہ کے قبیل سے ہیں اور لفظ حیوان کی طرح مختلف الواع کو شامل ہیں چناچہ آیت کریمہ ۔ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا : هذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ [ النساء/ 78] اور ان لوگوں کو اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور اگر کوئی گزند پہنچتا ہے ۔ أوى المَأْوَى مصدر أَوَى يَأْوِي أَوِيّاً ومَأْوًى، تقول : أوى إلى كذا : انضمّ إليه يأوي أويّا ومأوى، وآوَاهُ غيره يُؤْوِيهِ إِيوَاءً. قال عزّ وجلّ : إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ [ الكهف/ 10] ، وقال : سَآوِي إِلى جَبَلٍ [هود/ 43] ( ا و ی ) الماویٰ ۔ ( یہ اوی ٰ ( ض) اویا و ماوی کا مصدر ہے ( جس کے معنی کسی جگہ پر نزول کرنے یا پناہ حاصل کرنا کے ہیں اور اویٰ الیٰ کذا ۔ کے معنی ہیں کسی کے ساتھ مل جانا اور منضم ہوجانا اور آواہ ( افعال ) ایواء کے معنی ہیں کسی کو جگہ دینا قرآن میں ہے { إِذْ أَوَى الْفِتْيَةُ إِلَى الْكَهْفِ } ( سورة الكهف 10) جب وہ اس غار میں جار ہے { قَالَ سَآوِي إِلَى جَبَلٍ } ( سورة هود 43) اس نے کہا کہ میں ( ابھی ) پہاڑ سے جا لگوں گا ۔

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

مرغوبات نفس کیسے خوش آیئند ہیں قول باری ہے (زین للناس حب الشھوات، لوگوں کے لیئے مرغوبات نفس بڑی خوش آیئندبنادی گئی ہیں) حسن بصری کا قول ہے کہ شیطان نے انہیں خوش آیئندبنایا ہے۔ اس لیئے کہ ان مرغوبات کی ان کے خالق نے جتنی مذمت کی ہے کسی اور نے اتنی مذمت نہیں کی۔ بعض دوسرے مفسرین کا قول ہے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے اس طرح خوش ائیند بنادیا کہ انسانوں کی طبیعتوں میں ان کے حصول کے لیئے ایک دوسرے سے الجھنے کا جذبہ رکھ دیا۔ جس طرح کہ قول باری ہے (اناجعلنا ماعلی الارض زینۃ لھا، ہم نے زمین پر پائی جانے والی تمام اشیاء کو زمین کوزینت بنادی ہے) بعض دوسرے حضرات کا قول ہے کہ مرغوبات میں سے جو اچھی ہیں۔ انہیں اللہ تعالیٰ نے اور جو بری ہیں انہیں شیطان نے خوش آئیند بنایا ہے۔ انبیاء اور داعیان حق کا قاتل سب سے بڑامجرم ہوگا

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(١٤) اس کے بعد اللہ تعالیٰ ان دنیاوی نعمتوں کو بیان فرماتے ہیں جو کفار کو بھلی معلوم ہوتی ہیں، ان لوگوں کی محبت مرغوب چیزوں کے ساتھ تھی، مثلا باندیاں اور عورتیں غلام اور لڑکے اور مالوں کے انبار سونے اور چاندی کے سکے۔ اور قناطیر تین اور مقنطرہ نوکو بولتے ہیں اور نشان لگائے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور اونٹ گائے بکریاں اور کھیتیاں یہ سب چیزیں ان کو خوشنمامعلوم ہوتی ہیں۔ مگر یہ تمام چیزیں محض دنیاوی زندگی میں فائدہ مند ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیاوی نعمتیں بیان کی ہیں۔ پھر بالآخر ان کا خاتمہ ہوجائے گا اور یہ بھی معنی بیان کیے گئے ہیں کہ ان مذکورہ چیزوں کی بقا اور زندگی کی مثال گھر کے سامان رکابی اور پیالہ وغیرہ کی طرح ہے اور جو ان تمام چیزوں میں دل لگانا چھور دے اس کے لیے حقیقی خوبی آخرت یعنی جنت ہے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١٤ ( زُیِّنَ للنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ ) مرغوبات دنیا میں سے پہلی محبت عورتوں کی گنوائی گئی ہے۔ فرائیڈ کے نزدیک بھی انسانی محرکات میں سب سے قوی اور زبردست محرک (potent motive) جنسی جذبہ ہے اور یہاں اللہ تعالیٰ نے بھی سب سے پہلے اسی کا ذکر کیا ہے۔ اگرچہ بعض لوگوں کے لیے پیٹ کا مسئلہ فوقیت اختیار کرجاتا ہے اور معاشی ضرورت جنسی جذبے سے بھی شدید تر ہوجاتی ہے ‘ لیکن واقعہ یہ ہے کہ مرد و عورت کے مابین کشش انسانی فطرت کا لازمہ ہے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی فرمایا ہے : (مَا تَرَکْتُ بَعْدِیْ فِتْنَۃً اَضَرَّ عَلَی الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ ) (١) میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں کے فتنے سے زیادہ ضرر رساں فتنہ اور کوئی نہیں چھوڑا۔ ان کی محبت انسان کو کہاں سے کہاں لے جاتی ہے۔ بلعام بن باعورہ یہود میں سے ایک بہت بڑا عالم اور فاضل شخص تھا ‘ مگر ایک عورت کے چکر میں آکر وہ شیطان کا پیرو بن گیا۔ اس کا قصہّ سورة الاعراف میں بیان ہوا ہے۔ بہرحال عورتوں کی محبت انسانی فطرت کے اندر رکھ دی گئی ہے۔ پھر انسان کو بیٹے بہت پسند ہیں کہ اس کی نسل اور اس کا نام چلتا رہے ‘ وہ بڑھاپے کا سہارا بنیں۔ (وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّۃِ ) (وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃِ ) عمدہ نسل کے گھوڑے جنہیں چن کر ان پر نشان لگائے جاتے ہیں۔ (وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ط) پنجاب اور سرائیکی علاقہ میں چوپاؤں کو مال کہا جاتا ہے۔ یہ جانور ان کے مالکوں کے لیے مال کی حیثیت رکھتے ہیں۔ (ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج ) بس نقطۂ اعتدال یہ ہے کہ جان لو یہ ساری چیزیں اس دنیا کی چند روزہ زندگی کا سازوسامان ہیں۔ اس زندگی کے لیے ضروریات کی حد تک ان سے فائدہ اٹھانا کوئیُ بری بات نہیں ہے۔ (وَاللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ ) ۔ وہ جو اللہ کے پاس ہے اس کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر ایمان بالآخرت موجود ہے تو پھر انسان ان تمام مرغوبات کو ‘ اپنے تمام جذبات اور میلانات کو ایک حد کے اندر رکھے گا ‘ اس سے آگے نہیں بڑھنے دے گا۔ لیکن اگر ان میں سے کسی ایک شے کی محبت بھی اتنی زوردار ہوگئی کہ آپ کے دل کے اوپر اس کا قبضہ ہوگیا تو بس آپ اس کے غلام ہوگئے ‘ اب وہی آپ کا معبود ہے ‘ چاہے وہ دولت ہو یا کوئی اور شے ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

10. The events and results of the Battle of Badr are briefly reviewed so as to bring home certain lessons to the Muslims. There are three important lessons to be learnt. First, the manner in which the believers and the unbelievers advanced to the battlefield clearly demonstrated the difference in the moral fibre of the two armies. In the army of the unbelievers, the soldiers held drinking parties and were entertained by the songs and dances of slave girls. The prevalent mood of that army was one of self-indulgence. On the other hand, piety, fear of God and moral restraint of the highest order characterized the Muslim army. The soldiers were busy in devotion and remembrance of God, to Whom they addressed all their prayers and supplication. It was obvious to anyone which army was fighting in God's cause. Second, the believers won a resounding victory against an army of unbelievers superior to them in numbers, and in the quality and the quantity of arms. So the victory clearly indicated which of the two armies enjoyed the support of God. Third, the outcome of the battle came as a shocking humiliation for those who, heedless of God's might, had been exulting in the strength of their arms and the number of their supporters. It came as a shock to such people when God subjected a tribe like the Quraysh, foremost in influence and power throughout Arabia, to an ignominious defeat at the hands of a few ill-equipped Makkan fugitives and peasants from Madina.

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(14 ۔ 15) ۔ اوپر کی آیت میں ذکر تھا کہ مال اور اولاد کے سبب سے آدمی خدا کے عذاب سے بچ نہیں سکتا اس ذکر کے بعد جہاد کا ذکر تھا کہ عذاب الٰہی سے بچنے کے لئے آدمی نیک عمل کرے اب مال اور اولاد کا ذکر پورا کرنے کے لئے دنیا میں جن چیزوں پر لوگوں کے دل زیادہ گرویدہ اور راغب ہیں پہلے آیت میں ان چیزوں کا ذکر فرما کر دوسری آیٍت میں ان چیزوں سے لوگوں کو اس طرح بےرغبت کیا ہے کہ خود دنیا کو دنیا کی ہر ایک چیز کو زوال لگا ہوا ہے اس لئے قابل رغبت جنت کی نعمتیں ہیں جن کو کبھی زوال نہیں قطع نظر زوال نہ ہونے کے زبان یا قلم میں یہ طاقت کہاں ہے کہ جنت کی چیزوں کی خوبیاں بالتفصیل بیان کرسکے اس واسطے خود اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنت کی چیزوں کے اوصاف جس مختصر مطلب خیز لفظوں میں بیان فرمائے ہیں ان کا مطلب بیان کیا جاتا ہے کہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ جنت میں وہ نعمتیں ہیں جن کا حال نہ دنیا میں کسی نے آنکھ سے دیکھا نہ کان سے سنا نہ کسی کے دل میں ان کا خیال و تصور گذر سکتا ہے ١۔ دنیا میں آدمی دنیا کی نعمتوں کی کبھی نا شکری کرتا ہے جس کے سبب سے اللہ تعالیٰ کی ناخوشنودی ہو کر دنیا کی نعمتوں میں کمی ہوجاتی ہے جنت میں شرع کی تکلیف کے نہ ہونے اللہ تعالیٰ کی نا خوشنودی کا کھٹکا جنتیوں کو نہیں اس لئے جنت کی نعمتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہمیشہ کی رضا مندی کا ذکر آیت میں فرمایا ہے اور یہ سب سے بڑھ کر ایک نعمت ہے چناچہ صحیحین میں حضرت ابو سعید خدری (رض) سے روایت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا میری ہمیشہ کی رضا مندی تمہارے لئے سب سے بڑھ کر ایک نعمت ہے ١۔ حاصل یہ ہے کہ انسان کو دنیا کی نعمتوں پر اس قدر گرویدہ نہیں ہونا چاہیے کہ جس سے دین کے کاموں میں فتور پڑ کر جنت کی نعمتوں سے محروم رہ جائے چناچہ اسی واسطے اللہ تعالیٰ نے آیت کو واللہ بصیر بالعباد پر ختم کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جنت کی نعمتیں ہر شخص کو اس کے عمل کے موافق ملیں گی۔ علماء کا اختلاف ہے کہ قنطار کس قدر مال کو کہتے ہیں مستدرک حاکم میں حضرت انس (رض) سے بسند صحیح روایت ہے کہ قنطار دو ہزار اوقیہ کا ہوتا ہے ٢۔ اور ہر اوقیہ میں چالیس درہم ہوتے ہیں مُسَوَّمَۃ چرائی کے عمدہ گھوڑے کو کہتے ہیں۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:14) زین۔ تزئین سے ماضی مجہول واحد مذکر غائب۔ وہ سنوارا گیا۔ مزین کیا گیا۔ اچھا دکھایا گیا۔ قناطیر۔ قنطار کی جمع۔ ڈھیر۔ ابنار۔ کثیر مال۔ پُل ۔ قنطار کی لفظی ساخت بلندی کے مفہوم کو چاہتی ہے اسی لئے اونچی عمارت کو قنطرۃ کہتے ہیں۔ مقنطرۃ۔ ڈھیر کیا ہوا۔ قنطرۃ مصدر باب فعللۃ رباعی مجرد۔ المسومۃ۔ اسم مفعول ۔ واحد مؤنث۔ تسویم مصدر سومۃ سے باب تفعیل نشان زدہ ممتاز۔ سیمۃ سومۃ۔ سیما علامت، نشان ۔ سوم کے معنی کسی چیز کی طلب میں جانا۔ اس مفہوم کے دو اجزاء ہیں۔ جانا اور طلب۔ کبھی صرف دوسرا جزو ملحوظ ہوتا ہے جیسے یسومونکم سوء العذاب (3:49) تمہیں سخت تکلیفیں دینے کی تلاش میں رہتے تھے۔ چرانے کو بھیجنے کے لئے بھی آتا ہے سمت (باب نصر) اسمت (باب افعال) سو مت (باب تفعیل) میں نے چرانے کے لئے بھیجا۔ قرآن حکیم میں ہے۔ شجر فیہ تسیمون (16:10) درختوں میں تم اونٹوں کو چراتے ہو یا چرانے کے لئے بھیجتے ہو۔ سائمۃ۔ چرانے والے جانور۔ ماب۔ ماب مصدر بھی ہے اور اسم زمان و مکان بھی۔ لوٹنا۔ لوٹنے کی جگہ۔ لوٹنے کا وقت اوب اور ایاب مصدر ہیں۔ ان الینا ایبھم (88:25) تحقیق ان کا لوٹنا ہماری طرف ہے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 3 اشھوات۔ یہ شہوت کی جمع ہے جس کے معنی ہیں (کسی مرغوب چیز کی طرف نفس کا کھینچ جانا) یہاں کا الشہوات سے مراد وہ چیزیں ہیں جو طبعیت کو مرغوب ہیں اور من النساء میں من بیانیہ ہے یعنی وہ چیزیں یہ ہیں۔ القناطیر کا واحد قنطار ہے۔ اس کی مقدار میں مختلف اقوال ہیں مگر سب کا حاصل یہ ہے کہ مال کثیر کو قنطار کہا جاتا ہے۔ (ابن کثیر۔ شوکانی) ہماری زبان میں اس کا ترجمہ خزانے ہوسکتا ہے اور متاع اس سامان کو کہا جاتا ہے جس سے فائدہ حاصل کیا جائے۔ مزے کا لفظ اس کا تعبیری ترجمہ ہے۔ حاصل یہ کہ انسان ان چیزوں کی محبت میں پھنس کر خدا اور اس کے دین سے غافل ہوجائے اور انہیں تفاخر اور زینت کا ذریعہ سمجھے اور غرور وتکبر پر اتر آئے تو یہ تما چیزیں مذموم۔ ورنہ اگر ان تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت خیال کرتے ہوئے ذریعہ آخرت بنایا جائے اور شریعت کی حدود میں رہ کر ان سے فائدہ اٹھا یا جائے تو یہ مذموم اور مبغوض نہیں بلکہ نہایت مرغوب اور محمود ہیں۔ اصل چیز نیت اور عمل ہے۔ اس لیے حدیث میں ایک طرف تو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد یہ ہے کہ میرے بعد مردوں کے لیے کوئی ضرر رساں فتنہ عورتوں سے بڑھ کر نہیں ہے۔ بخاری) اور دوسری طرف آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا ہے کہ دنیا متاع ہے اور اس کی بہترین متاع عورت ہے۔ اور یہ کہ دنیا میں میرے لیے عورت اور خوشبو پسندید بنادی گئی ہیں۔ بخاری وغیرہ یہی حال باقی تمام نعمتوں کا ہے۔ آیت کے آخر میں ان کو دنیاوی زندگی کا سامان قرار دیکر دنیاوی زندگی میں زہد اور آخرت میں رغبت پر زور دیا ہے۔ (ماخوذازابن کثیر وشوکانی )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 14 تا 18 زین (خوبصورت، پسندیدہ بنادی گئی) حب الشھوات (مزوں کی محبت (حب، محبت، الشھوات، حواہشیں) القناطیر (ڈھیر (قنطار، ڈھیر) المقنطرۃ (لگے ہوئے ڈھیر) ذھب (سونا) الفضة (چاندی) الخیل المسومة (پلے ہوئے گھوڑے، نشان لگے ہوئے گھوڑے) الانعام (مویشی) الحرث (کھیتی) متاع (سامان) حسن الماٰب (بہترین ٹھکانا) اء نبئکم (کیا میں تمہیں بتاؤں ؟ ) مطھرۃ (پاکیزہ ، صاف ستھری) رضوان (رضاوخوشنودی) ذنوب (گناہ (ذنب کی جمع) القٰنتین (ادب کرنے والے) المنفقین (خرچ کرنے والے) المستغرین (استغفار کرنے والے) بالاسحار (صبح کے وقت (سحر، صبح) اولوالعلم (علم والے) قائم (قائم رہنے والے ، کھڑے رہنے والے) بالقسط (انصاف کے ساتھ) تشریح : آیت نمبر 14 تا 18 سورة آل عمران کی آیت 14 سے 18 تک جن چیزوں کا تذکرہ کیا گیا ہے وہ انسان کو فطرۃ بےانتہا پسندیدہ اور مرغوب ہیں۔ فرمایا یہ جارہا ہے کہ ان چیزوں کی محبت واقعتاً ایک طبعی تقاضا ہے لیکن ان چیزوں سے بھی زیادہ اہم اللہ کی محبت اور آخرت کی زندگی ہے جو انسان کا ابدی ٹھکانا ہے۔ فرمایا گیا کہ بیشک ایک مومن ان چیزوں کو حاصل کرسکتا ہے لیکن یہ چیزیں اسی طرح دل لگانے کی نہیں ہیں کہ ایک انسان دن رات ان ہی چیزوں کے حاصل کرنے میں لگا رہے بلکہ ہونا یہ چاہئے کہ ان تمام چیزوں کو فکر آخرت کا ذریعہ بنالے۔ ان آیات سے معلوم ہوا کہ اسلام ترک دنیا کی تعلیم نہیں دیتا البتہ ایسی دنیا داری سے منع کرتا ہے جس سے انسان اللہ کی محبت اور آخرت کی فکر سے غافل ہوجائے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

6۔ یہ جو فرمایا کہ ان چیزوں کی محبت خوشنما معلوم ہوتی ہے اس کا حاصل میرے ذوق میں یہ ہے کہ محبت و میلان غالب حالات میں موجب فتنہ ہوجانے کی وجہ سے ڈر کی چیز تھی، مگر اکثر لوگ اس کو سبب ضرر نہیں جانتے، بلکہ اس میلا کو علی الاطلاق اچھا سمجھتے ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : حق سے انحراف اور قوموں کی تباہی میں دنیا پرستی کا عنصر ہمیشہ غالب رہا ہے اس لیے اس کی حقیقت بیان کی گئی ہے۔ ہدایت کے راستے میں جو چیزیں سب سے بڑی رکاوٹ بنتی ہیں۔ ان میں سر فہرست عورت، بیٹے، سونا، چاندی، سواری، مال، مویشی اور کھیتی باڑی ہے۔ ہر انسان ان میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرورت سے زیادہ محبت کرتا ہے اور یہی چیز راہ ہدایت میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ خواہشات کے میدان میں عام طور پر سب سے پہلی خواہش عورت کے ساتھ مرد کی وابستگی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بطور آزمائش آدمی کے دل میں ان چیزوں کی محبت اور رغبت پیدا فرمائی ہے تاکہ دنیا کا نظام چلتا رہے۔ اگر عورت کے ساتھ مرد کی رغبت اور محبت نہ ہو تو نسب کا سلسلہ آگے نہیں چل سکتا۔ اسی تعلق کی خاطر اور ضرورت سے آدمی بیوی کو کھلاتا پلاتا اور اس کی آسائش و آرام کا خیال رکھتا ہے۔ اگر اولاد نہ ہو تو آدمی کی دنیا سے رغبت کم ہوجاتی ہے پھر اولاد میں بیٹوں کا ذکر کیا گیا ہے کیونکہ بیٹا ماں باپ کا سہارا اور ان کے سلسلۂ نسب اور جائیداد کا وارث ہوتا ہے۔ بیٹی کی پیدائش پر باپ اپنی ذمہ داریوں میں اضافہ محسوس کرتا ہے۔ جب کہ بیٹے کو اپنا معاون اور مستقبل کا سہارا سمجھتا ہے۔ طبع انسانی کا خیال رکھتے ہوئے بیٹوں کا خاص طور پر ذکر کیا ہے۔ بیوی اور بیٹوں کے بعد دنیا کا نظام چلانے اور سہولیات حاصل کرنے کے لیے سونا اور چاندی ہمیشہ سے انسان کے لیے پر کشش سرمایۂ حیات رہا ہے۔ سونے اور چاندی کی بدولت ہی دنیا میں لین دین اور تجارت ہوا کرتی ہے۔ کاروبار کے بعد اچھی سواری آدمی کے لیے آرام کے ساتھ ساتھ باعث عزت ہوتی ہے۔ ہر دور میں گھوڑے کی سواری آدمی کے لیے شان و شوکت کا باعث سمجھی گئی ہے اور آج بھی موٹر کاروں اور مشینری کی پاور کا اندازہ کرنے کے لیے گھوڑے کی طاقت [ HORSE POWe R ] کو معیار بنایا گیا ہے۔ گھڑسواری ہمیشہ لوگوں کے لیے باعث فخر و انبساط رہی ہے۔ یہ جانور بہترین سواریوں میں شمار ہوتا ہے۔ ان چیزوں کے بعد کھیتی باڑی اور چوپایوں کی باری آتی ہے جو انسانی بقا کے لیے غلہ، رہائش، دودھ، مکھن، گوشت اور خوراک کا کام دیتے ہیں۔ دیہاتی زندگی اور زمیندار کی یہی چیزیں متاع حیات ہیں۔ اس لحاظ سے انسانی زندگی کا دارو مدار عورت، اولاد، سونا، چاندی، رہائش اور خوراک پر ہے باقی تمام نعمتیں انہی کے متعلّقات اور لوازمات ہیں۔ ان نعمتوں کی افادیت اپنی جگہ مسلّم اور انہیں دنیا کی زندگی کے بہترین اسباب اور زینت قرار دیا گیا ہے۔ لیکن آدمی کی دانشمندی یہ ہے کہ وہ عارضی زندگی اور اس کے اسباب پر نگاہ جمانے اور اکتفا کرنے کی بجائے حیات جاوداں ‘ لازوال نعمتوں اور ان کے خالق ومالک کی طرف توجہ رکھے اور دنیا کے ذریعے آخرت کے انعامات حاصل کرنے کی کوشش کرتا رہے جو رب کریم کے پاس صاحب ایمان و کردار لوگوں کے لیے محفوظ ہیں۔ (عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ (رض) أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ لَوْ أَنَّ لِإِبْنِ آدَمَ وَادِیًا مِّنْ ذَھَبٍ أَحَبَّ أَنْ یَکُوْنَ لَہٗ وَادِیَانِ وَلَنْ یَمْلَأَ فَاہُ إِلَّا التُّرَابُ وَیَتُوْبُ اللّٰہُ عَلٰی مَنْ تَابَ ) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب مایتقی من فتنۃ المال ] ” حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر آدم کے بیٹے کے پاس سونے کی ایک وادی ہو تو وہ پسند کرے گا کہ اس کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں۔ اس کے منہ کو مٹی کے علاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی۔ اللہ جس پر چاہتا ہے توجہ فرماتا ہے۔ “ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (رض) قَالَ خَطَّ النَّبِيُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مُرَبَّعًا وَخَطَّ خَطًّا فِي الْوَسْطِ خَارِجًا مِّنْہُ وَخَطَّ خُطَطًا صِغَارًا إِلٰی ھٰذَا الَّذِيْ فِي الْوَسْطِ مِنْ جَانِبِہِ الَّذِيْ فِي الْوَسْطِ وَقََالَ ھٰذَا الْإِنْسَانُ وَھٰذَا أَجَلُہٗ مُحِیْطٌ بِہٖ أَوْ قَدْ أَحَاطَ بِہٖ وَھٰذَا الَّذِيْ ھُوَ خَارِجٌ أَمَلُہٗ وَھٰذِہِ الْخُطَطُ الصِّغَارُ الْأَعْرَاضُ فَإِنْ أَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَشَہٗ ھٰذَا وَإِنْ أَخْطَأَہٗ ھٰذَا نَھَشَہٗ ھٰذَا) [ رواہ البخاری : کتاب الرقاق، باب فی الأمل وطولہ ] ” حضرت عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مربع نمالکیر کھینچی اور اس کے درمیان سے باہر نکلی ہوئی لکیر لگائی پھر اس درمیانی لکیر کے ارد گرد چھوٹی چھوٹی لکیریں کھینچیں اور فرمایا یہ انسان ہے اور یہ اس کی موت اسے گھیرے ہوئے ہے اور جو اس خانے سے باہر لکیر ہے یہ اس کی خواہشات ہیں اور یہ چھوٹی لکیریں آفات ہیں اگر ایک سے بچتا ہے تو دوسری اسے دبوچ لیتی ہے۔ اگر اس سے بچتا ہے تو اور کوئی اسے آ لیتی ہے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے عورتوں، بیٹوں، سونا، چاندی، گھوڑوں، چوپایوں اور کھیتیوں کو لوگوں کے لیے خوش نما بنایا ہے۔ ٢۔ یہ دنیا کی زندگی کے اسباب ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے پاس اس سے بہتر مقام اور انعام ہے۔

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

زُيِّنَ لِلنَّاسِ……………” میں فعل مجہول کا صیغہ استعمال کرکے اس طرف اشارہ دیا گیا ہے کہ ان چیزوں کی طرف لوگوں کا میلان بتقضائے فطرت ہے ۔ ان چیزوں کو محبوب بنادیا گیا ہے اور ان کی تزئین کرکے ان کی محبوبیت میں اضافہ کردیا گیا ہے ۔ گویا یہ حقیقت واقعہ کے ایک پہلو کی تصدیق ہے ۔ اس لئے کہ انسان کی شخصیت میں ان چیزوں کی طرف میلان اور رغبت رکھی گئی ہے ۔ یہ اس کے اصل وجود اور اس کی ذات کا حصہ ہے ۔ اس بات کی ضرورت نہیں ہے کہ انسان خواہ مخواہ اس حقیقت کا انکار کرے ۔ نہ خود انسان اپنی ذات میں ان میلانات اور رجحانات کو قابل اعتراض سمجھے ۔ اس کرہ ارض پر انسانی زندگی کی ترقی اور نشوونما کے لئے ان میلانات کا موجود ہونا ازبس ضروری ہے جیسا کہ اس موضوع پر اس سے پہلے ہم مفصل بحث کر آئے ہیں ۔ لیکن یہ بھی حقیقت واقعیہ ہے کہ انسان کی فطرت کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے ‘ جوان میلانات اور فطری رجحانات میں توازن پیدا کرتا ہے اور وہ ایک قسم کا چوکیدار ‘ جو انسان کو ان میلانات میں مستغرق ہونے سے بچاتا ہے ۔ اور یہ پہلو انسان کے عالم بالا کے ساتھ روحانی تعلق کو قائم رکھتا ہے ۔ چناچہ اس کی زندگی میں روحانی معنویت اور روحانی ہدایات پائی جاتی ہے ۔ اور یہ پہلو انسان کی روحانی زندگی کا پہلو ہے جو اس کے اندر بلندی کی استعداد پیدا کرتا ہے ۔ اس کے اندر ضبط نفس کی قوت پیدا ہوجاتی ہے ۔ اور اس کے نتیجے میں انسان ان ‘ دنیاوی مرغوبات کے استعمال میں ایک حد اعتدال پر قائم رہتا ہے ۔ ایسی حدود کے اندر جس میں نفس کی تعمیر ہو ۔ زندگی کا نشوونما ہو اور اس کے ساتھ ساتھ یہ جدوجہد بھی جاری رہے کہ انسانی زندگی کو حیوانیت کے نچلے مقام سے بلند کرکے عالم بالا کے روحانی افق تک پہنچایا جائے ۔ انسان کے دل کا تعلق عالم بالا سے قائم ہو اور اس کا ہدف دار آخرت اور اللہ کی رضامندی ہو ۔ نفس انسانی کی یہ دوسری جبلت ‘ اس کی پہلی فطری جبلت کو مہذب بناتی ہے ۔ اور اس کو تمام حیوانی ‘ آمیزشوں سے پاک کرتی ہے ۔ اور اسے ایسے حدود وقیود کے اندر بند کردیتی ہے جس کے نتیجے میں فطری میلانات سرکش نہیں ہوتے اور انسان صرف دنیاوی لذات کا گرویدہ نہیں ہوجاتا۔ اس طرح کہ انسانی ‘ روحانی قدریں دب جائیں ۔ تقویٰ اللہ خوفی اور زندگی کی اونچی اقدار کی راہیں بالکل مسدود ہوجائیں۔ زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ …………… ” لوگوں کے لئے مرغوبات نفس کو مزین بنادیا گیا ہے۔ “ بس یہ مرغوبات مستحب ہیں اور لذیذ ہیں ……………یہ مکروہ اور غلیظ نہیں ہیں ۔ انداز تعبیر ایسا ہے کہ جس سے ان مرغوبات کی غلاظت اور کراہت کا اظہار نہیں ہوتا ۔ آیت صرف ان چیزوں کے مزاج اور ان کی حقیقت کو سمجھانا چاہتی ہے ۔ اور ان کے اثرات کا اظہار مقصود ہے ۔ نیز یہاں مطلوب یہ ہے کہ ان اشیاء کی قدرومنزلت اور ان کے مقام کا تعین کردیا جائے ‘ تاکہ وہ اس مقام سے آگے نہ بڑھ سکیں ۔ نہ وہ ان اقدار پر دست درازی کرسکیں جو ان کے مقابلے میں اعلیٰ وارفع ہیں ۔ انسان صرف ان دنیاوی شہوات میں غرق ہوکر نہ رہ جائے بلکہ اس کی نظریں دار آخرت پر مسلسل لگی ہوں ‘ اگرچہ وہ بقدر ضرورت ان لذات سے بھی لطف اندوز ہوتا رہے ۔ یہاں آکر معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلام فطرت انسانی کو ایک حقیقت واقعیہ کے طور پر لیتا ہے اور فطری میلانات کا مناسب لحاظ رکھتا ہے ۔ اور وہ ان میلانات کو مہذب اور شائستہ بناتا ہے۔ اور ان کو رفعت دیتا ہے ۔ وہ کسی صورت میں بھی ان میلانات کی بیخ کنی نہیں کرتا ‘ جو لوگ آج کل علم النفس کے مضمون میں میلانات کی بیخ کنی کے نقصانات بیان کرتے ہیں یا وہ نفسیاتی الجھنوں پر بحث کرتے ہیں جو جذبات کی بیخ کنی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں ۔ وہ اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ نفسیاتی الجھن جذبات کی بیخ کنی سے پیدا ہوتی ہے ‘ وہ جذبات کے ضبط اور تہذیب سے پیدا نہیں ہوتی اور بیخ کنی کا مفہوم یہ ہے تقاضائے فطرت کو گندگی سمجھاجائے اور اس کے ارتکاب کو برا سمجھاجائے ۔ ایسا کرنے کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ایک فرد مختلف سمتوں سے مختلف قسم کے دومیلانات کے دباؤ میں آجاتا ہے ۔ ایک طرف اس کے شعور اور میلان اس کے نظریہ حیات ‘ اس کے مذہب یا اس کے رسم و رواج کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے ۔ مثلاً یوں کہ اس کا نظریہ یہ ہو کہ فطری میلانات تمام کے تمام گندے ہیں ۔ ان کا وجود ہی نہیں ہونا چاہئے ‘ اور درحقیقت وہ شیطانی میلانات ہیں ۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ کوئی نظریاتی یا کوئی مذہبی شعور کبھی بھی ان فطری رجحانات کے دبانے میں کامیاب نہیں ہوا۔ اس لئے یہ میلانات فطری ہوتے ہیں اور فطرت کے اندر اس کی گہری جڑیں ہوتی ہیں ۔ نیز ان کا تعلق بسا اوقات وظیفہ بقائے انسانیت سے ہوتا ہے ۔ ان کے بغیر بقائے انسانیت کا فرض اداہی نہیں کیا جاسکتا۔ انسانی فطرت میں ‘ اللہ تعالیٰ نے یہ میلانات یونہی عبث طور پر نہیں ودیعت کئے ۔ اس کشمکش کے نتیجے میں نفسیاتی الجھن پیدا ہوتی ہے ۔ اگر ہم ان نفسیاتی مباحث کو تسلیم بھی کرلیں تب بھی یہ بات نظر آئے گی کہ اسلام نے بہت پہلے فطرت انسانی کے ان دونوں رجحانات ومیلانات کے اندر توازن پیدا کیا ہے۔ اس نے شہوات اور لذت اور اخلاقی بلندی اور پاکیزگی کے درمیان ایک حسین توازن پیدا کرکے دونوں کو اپنے اپنے مقام پر حدود کے اعتدال کے اندر کام کرنے کی اجازت دی ہے ۔ زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِينَ وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالأنْعَامِ وَالْحَرْثِ ” لوگوں کے لئے مرغوبات نفس ‘ عورتیں ‘ اولاد ‘ سونے اور چاندی کے ڈھیر ‘ چیدہ گھوڑے ‘ مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوشنما بنادی گئی ہیں۔ “ عورتیں اور بچے انسانی خواہشات میں بہت ہی قوی اور شدید خواہشات ہیں ۔ اور ان کے ساتھ ساتھ سونے اور چاندی کے ڈھیروں کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔ زیادہ سے زیادہ دولت جمع کرنے کو وَالْقَنَاطِيرِ الْمُقَنْطَرَة…………سے بیان کیا گیا ہے ۔ اور اگر صرف مال و دولت کی مذمت مطلوب ہوتی تومِنَ الاَموَالِ……………کا لفظ ہوتا ہے مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ …………… ہوتا لیکن قناطیر مقنطرۃ یعنی مال و دولت اور سونے چاندی کے ڈھیر کے الفاظ ایک خاص شیڈو دیتے ہیں۔ اور یہ سونے اور چاندی کے زیادہ سے زیادہ ذخار کا مطلب یہ ہے کہ ایک کہ دولت کا جمع کرنا بذات خود ایک مرغوب چیز ہے ۔ رہے اس کے فوائد تو وہ سب کو معلوم ہیں یعنی یہ ڈھیر ایک انسان کے لئے ہر قسم کے شہوات کی فراہمی کا سبب بنتے ہیں ۔ عورتوں ‘ اولاد اور ڈھیر سے سونے چاندی کے ساتھ ساتھ یہاں وَالْخَيْلِ الْمُسَوَّمَةِ……………کیا ذکر کیا گیا یعنی چیدہ گھوڑے ۔ گھوڑے ‘ جس طرح آج کے اس مادی اور صنعتی دور میں بھی محبوب سواری تصور ہوتے ہیں ۔ اس دور میں نہایت ہی محبوب اور مرغوب ہوتے تھے ۔ اور یہ اس لئے کہ ان میں حسن وجال بھی ہوتا ہے۔ وہ ہر شوکت اور سریع الحرکت ہوتے ہیں ۔ ان میں ذہانت اور اپنے مالک کے ساتھ بےحد محبت بھی ہوتی ہے ۔ یہاں تک کہ جن لوگوں نے عملاً گھوڑے سواری نہیں کی ہوتی انہیں بھی اسے دیکھ کر خوب مزہ آتا ہے ۔ جب تک ان میں اس قدر زندگی موجود ہو کہ وہ ایک مضبوط اور جوان گھوڑے کو دیکھ کر خوش ہوتے ہوں۔ ان کے بعد ان مرغوبات کے ساتھ ساتھ دوسرے مویشیوں اور زرعی اراضی کا ذکر کیا ‘ مویشی اور زرعی اراضی کے درمیان چولی دامن کا تعلق ہوتا ہے ۔ اس لئے ان کا ایک ساتھ ذکر ہوا ۔ ذہن میں بھی وہ ساتھ ہوتے ہیں اور حقیقت واقعہ میں بھی ۔ مویشی اور کھیت اور تروتازہ کھیت ‘ جہاں نشوونما کا کام جاری رہتا ہے ۔ انسان کے پسندیدہ مرغوبات ہیں ۔ اس لئے کہ ان کھیتوں میں سے زندگی پھوٹ کر نکلتی ہے۔ اور یہ ایک عجیب نظارہ ہوتا ہے ۔ بہت ہی پسندیدہ اور جب اس منظر کے ساتھ یہ شعور بھی وابستہ ہوجاتے کہ اس کھیت اور اس میں چلتی جوڑی کا مالک میں بھی ہوں تو واقعی یہ ایک فطرتاً پسندیدہ منظر ہوتا ہے۔ یہاں جن مرغوبات کا ذکر کیا گیا ہے ۔ وہ مرغوبات نفس کا ایک ادنیٰ نمونہ ہے ۔ ان میں سے بعض ایسی مرغوبات ہیں جو اس سوسائٹی میں اعلیٰ ترین مرغوبات تھیں جن سے قرآن کریم اس دور میں خطاب کررہا تھا اور بعض مرغوبات ایسی ہیں جو ہر زمانے میں نفس انسانی کے لئے مرغوب ہیں ۔ اسلام ان مرغوبات کا ذکر کرتا ہے ‘ ہر ایک کی قدر و قیمت متعین کرتا ہے ۔ تاکہ یہ مرغوبات اپنی جگہ قائم رہیں اور زندگی کی دوسری قدروں پر دست درازی نہ کریں۔ ذَلِكَ مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ” یہ دنیا کی چند روزہ زندگی کے سامان ہیں ۔ “ یہ تمام مرغوبات جو پیش کی گئیں یا ان کے علاوہ جو دوسری فطرتاً پسندیدہ چیزیں ہیں یہ دنیا کی چند روزہ حیات کے لئے ساز و سامان ہیں جو اعلیٰ وارفع اور دائمی زندگی کا سامان نہیں ہیں نہ یہ ان آفاق عالیہ تک انسان کو بلند کرتے ہیں۔ یہ تو قریب ہی زمین کے اوپر زندہ رہنے کے اسباب ہیں ۔ لیکن جو شخص اس سے بہتر مرغوبات چاہتا ہے ان سب زیادہ قیمتی ‘ زیادہ بلند اور پاکیزہ مقاصد چاہتا ہے اور اس لئے چاہتا ہے کہ وہ ان مرغوبات ارضی اور شہوات نفسی میں مستغرق نہ ہوجائے اور بلندیوں تک اونچا ہونے کی بجائے زمین پر ہی پڑانہ رہے تو جو شخص فی الواقعہ اس دنیائے ادنیٰ سے کہیں بلند آشیانے کی تلاش میں ہے تو قرآن کریم اس مقام بلند تک بھی اس کی راہنمائی یوں کرتا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

لوگوں کے لیے دنیاوی مرغوبات مزین کردی گئی ہیں اس آیت کریمہ میں اجمالی طور پر انسانوں کی مرغوب چیزوں کا ذکر فرمایا ہے۔ یہ چیزیں چونکہ انسان کو مرغوب اور محبوب ہیں اور ایمان قبول کرنے کی صورت میں بظاہر ان چیزوں کا ضائع ہونا نظر آتا ہے اس لیے عموماً اہل کفر ایمان قبول نہیں کرتے۔ یہودیوں کے سامنے بھی یہی چیزیں تھیں جو ایمان سے مانع تھیں یہ انسان کی بیوقوفی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ اللہ کے دین پر چلوں گا تو نعمتیں چھن جائیں گے۔ حالانکہ ایمان کی وجہ سے نعمتیں زیادہ ملتی ہیں یہ بات اور ہے کہ کچھ دن کے لیے بطور امتحان کچھ تکلیف پہنچ جائے۔ خواہش کی چیزیں جو انسان کو مرغوب ہیں وہ بہت اچھی معلوم ہوتی ہیں ان چیزوں میں عورتیں بھی ہیں بیٹے بھی اور بھاری تعداد میں اموال بھی ہیں، (یہ اموال سونے چاندی کی صورت میں ہیں) اور ان میں نشان لگائے ہوئے گھوڑے بھی ہیں اور مویشی بھی اور کھیتیاں بھی۔ ان چیزوں سے انسان خوش ہوتے ہیں اور جس کے پاس یہ چیزیں ہوں اس کو دنیاوی اعتبار سے بڑا آدمی سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ چیزیں چند روزہ ہیں دنیاوی زندگی میں ان سے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیا جاتا ہے۔ اور آخرت میں تو صرف ایمان اور اعمال صالحہ ہی کام آئیں گے اسی کو فرمایا : (ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ اللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الْمَاٰبِ ) انسان کو چاہیے کہ اپنی آخرت کی فکر کرے ایمان صالحہ سے آراستہ ہوتا کہ دار آخرت میں اچھا ٹھکانہ نصیب ہو۔ القناطیر : یہ قنطار کی جمع ہے عربی میں قنطار مال کثیر کو کہتے ہیں پھر اس کو المقنطرہ سے موصوف فرما دیا۔ اس کا معنی یہ ہوا کہ خوب بڑے بڑے مال۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے اہل عرب کہتے ہیں ظِلٌّ ظَلِیْلٌ اور لَیْلٌ اَلَیْلٌ مبالغہ کے معنی ظاہر کرنے کے لیے القناطیر المقنطرۃ فرمایا۔ بعض روایات حدیث میں ہے کہ جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قنطار کا معنی پوچھا گیا تو آپ نے بارہ ہزار اوقیہ بتایا۔ ایک اوقیہ چالیس درہم چاندی کا ہوتا تھا (ایک درہم ٣ ماشہ ایک رتی اور ٥؍١ رتی کا) دور حاضر کے اعتبار سے القناطیر المقنطرۃ کا معنی نوٹوں کے گڈے کیا جاسکتا ہے۔ الْخَیْلِ الْمُسَوَّمَۃٌ (نشان زدہ گھوڑے) اہل عرب گھوڑوں پر کچھ نشان لگا لیا کرتے تھے اس لیے الْمُسَوَّمَۃٌ فرمایا۔ اور حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے کہ یہ لفظ تسویم سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے جانوروں کو چرا گاہ میں چرنے کے لیے چھوڑ دینا۔ اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ ایسے گھوڑے پر جو چرا گاہوں میں چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔ اور حضرت مجاہد نے الْمُسَوَّمَۃٌ کا معنی المُطَھمۃ الْحسان کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے گھوڑے جو جسمانی اعتبار سے خوب اچھی طرح صحیح اور تندرست ہوں اور خوبصورت ہوں۔ وَ الْاَنْعَام وَ الْحَرْث : پھر مویشوں کا ذکر فرمایا اور ان کو لفظ ” الانعام “ سے تعبیر کیا۔ مطلب یہ ہے کہ اونٹ گائے بکری وغیرہ بھی لوگوں کو مرغوب ہیں جس کے پاس یہ چیزیں زیادہ ہوتی ہیں عام طور سے اسے گاؤں کا بڑا اور چودھری مانا جاتا ہے جب صبح کو مویشی چرنے کے لیے جاتے ہیں اور شام کو آتے ہیں اس وقت چودھری صاحب کے نشہ کا کیا پوچھنا، اپنے جانوروں کو دیکھ دیکھ کر پوری طرح مست ہوجاتا ہے اور اپنے سامنے کسی کو نہیں سمجھتا۔ سورة نحل میں فرمایا (وَ لَکُمْ فِیْھَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَ حِیْنَ تَسْرَحُوْنَ ) آخر میں کھیتوں کا ذکر فرمایا کھیتوں اور کھیتیوں والے بھی اپنی فصل کو دیکھ دیکھ کر مست ہوتے ہیں اور خوشی میں پھولے نہیں سماتے اہل دنیا اپنی دنیا میں خوش ہیں اور اہل آخرت اپنی آخرت طرف متوجہ ہیں اہل دنیا کو آئندہ آیت میں آخرت کی نعمتوں کی طرف متوجہ فرمایا چناچہ ارشاد ہے :

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

ٖ 20 یہ عیسائیوں کے علماء اور گدی نشینوں کے مسئلہ توحید کو نہ ماننے کی وجہ ہے وہ سمجھتے تھے کہ اگر ہم نے مسئلہ توحید کو مان لیا تو یہ ساری شان و شوکت جاتی رہتی ہے اور سونے چاندی کے لبریز خزانوں سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آجکل کے بہت سے مولوی اور گدی نشین بھی حق بیان نہیں کرتے کیونکہ اس طرح دنیوی ٹھاٹھ اور اندھی آمدنی ہاتھ سے جاتی ہے۔ نیز اس میں ایک شبہ کا جواب بھی ہے۔ شبہ یہ ہے کہ اگر مشرکین مبغوض اور مستحق عذاب ہیں تو ان کے پاس اس قدر دولت کیوں ہے۔ تو اس کا جواب دیا کہ یہ دنیا کی دولت چند روزہ اور بالکل حقیر چیز ہے۔ اس کی وجہ سے تمہیں دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔ جیسے دوسری جگہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ لَایَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِیْ الْبَلَادِ مَتَاعٌ قَلِیْلٌ (آل عمران رکوع 20) نیز ارشاد ہے۔ وَاعْلَمُوْا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَھْوٌ وَّزِیْنَةٌ وَّتَفَاخُرٌ بَیْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَوْلَادِ (حدید رکوع 3) والترغیب فی حسن المرجع الی اللہ تعالیٰ فی الاخرۃ (قرطبی ج 4 ص 37)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1۔ لوگوں کے لئے اشیائے مرغوبہ جیسے عورتیں اور نرینہ اولاد اور سونے چاندی کے ڈھیر کے ڈھیر لگے ہوئے اور نشان لگے ہوئے گھوڑے اور مویشی اور زرعی زمین کی محبت خوش نما ، خوش منظر اور خوش آیند کردی گئی ہے۔ یعنی لوگوں کے لئے ان چیزوں کی محبت کو زینت دیدی گئی ہے لیکن یہ سب چیزیں دنیوی زندگی کا سامان اور جو بر تنے کی چیزیں ہیں اور اچھا ٹھکانہ اور انجام کار کی خوبی تو اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔ قنطرہ اصل میں عبور کرنے کی چیز کو کہتے ہیں جیسے پل چونکہ مال بھی انسانی زندگی کو عبور کرنے کا ذریعہ ہے اس لئے بکثرت مال کو کہتے ہیں ۔ قناطیر المقنظرہ ، ڈھیر کا ڈھیر مال ، صحابہ (رض) سے مختلف تفسیریں منقول میں ہوسکتا ہے کہ بارہ سو دینار ہوں اور ہوسکتا ہے کہ ایک بیل کی کھال بھر کر سونا ہو اور ہوسکتا ہے کہ ایک لاکھ دینار ہوں ہوسکتا ہے کہ بارہ سو مثقال ہوں اور ہوسکتا ہے کہ اسی ہزار رطل ہو چونکہ ضرورت اور حرص الگ الگ ہے اس لئے اس کی تفسیریں بھی مختلف ہیں۔ تزئین کے معنی ہم دوسرے پارے میں بتا چکے ہیں کہ آراستہ کرنے اور اچھا کر کے دکھانے کو کہتے ہیں کبھی یہ فعل خالق ہونے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے اور کبھی وسوسہ ڈالنے والے یعنی شیطان کی طرف منسوب ہوتا ہے قرآن کریم میں دونوں طرح استعمال کیا گیا ہے اور کبھی واقعی تزئین ہوئی ہے ۔ جیسے وزینا السماء الدنیا بمصابیح اور کبھی بناوٹی تزئین ہوتی ہے جیسے افمن زین لہ سوع عملہ برے اعمال میں حقیقی تزئین کہاں رکھی ہے مگر شیطان ان کو آراستہ کر کے خوش نما کردیتا ہے۔ شھوات جس کا ترجمہ خواہش کیا جاتا ہے یہاں اس سے مشتہیات محبوبات ہیں ہم نے اشیاء مرغوبہ ترجمہ کیا ہے۔ قرآن نے مبالغہ کی رعایت سے بجائے شہوات کے حسب الشھوات فرمایا یعنی شہوات تو کجا ان کی محبت بھی محبوب اور خوش منظر ہے۔ الخیل المسولمۃ موٹے اور خوش نما گھوڑے یا پلے ہوئے گھوڑے جو چراگاہ میں چرتے ہوں یا نشان دار خواہ وہ قدرتی سفید اور سیاہ نشان ہو یا داغ دے کر نشان ڈالا گیا ہو۔ انعام کا اطلاق عام طور سے گائے ، اونٹ ، بکری اور بھیڑ پر ہوتا ہے مگر امام ابوحنیفہ (رح) نے وحشی جانوروں کو بھی جیسے ہرن اور نیل گائے وغیرہ کو انعام میں داخل کیا ہے۔ انعام نعم کی جمع ہے اگرچہ نعم بھی جمع کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ حرث سے مراد زمینیں جن پر کھیتی کی جائے یا باغ لگایا جائے ۔ مطلب یہ ہے کہ فانی لذتوں سے بےرغبتی پیدا ہو اور دائمی لذتوں کا شوق حاصل ہو۔ اکثر علماء نے اس آیت کو شہوات کی مذمت پر حمل کیا ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے چونکہ یہ چیزیں اکثر فتنے کا موجب ہوتی ہیں اور انسانی قلب میں ان کی محبت بہت سی خرابیوں کا موجب ہوجاتی ہے اور کافر تو ان ہی چیزوں کو مقصود بالذات سمجھتے ہیں اس لئے ان چیزوں کی محبت کہے انہماک سے روکنا مقصود ہے تا کہ لوگ علی الاطلاق ان چیزوں کی طرف میلان نہ کریں ۔ یہ سب خواہشات انسانی فطرت کا مقتضا ہیں اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور دین حق کی تعلیم کا منشا یہ ہے کہ لوگ علی الاطلاق ان خواہشات کی محبت میں نہ پڑے رہے ہیں جو محض چندروزہ زندگی کا سامان ہیں بلکہ اس سے بہتر اور مفید چیز کی تلاش کریں جو اخروی زندگی کیلئے سو د مند ہو ، اسی لئے آخر میں فرمایا ۔ واللہ عندہ حسن الماب۔ اب آگے اس بھلائی اور خوبی کی وضاحت فرماتے ہیں اور وہ طریقہ تعلیم کرتے ہیں جس سے انسان اس بھلائی اور خوبی کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حاصل کرسکتا ہے۔ سامع کو خاص طور پر متوجہ کرنے کی غرض سے انداز بیان اچھوتا اختیار کیا ہے ، چناچہ فرماتے ہیں ۔ ( تسہیل)