Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 2

سورة آل عمران

اللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۙ الۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ ؕ﴿۲﴾

Allah - there is no deity except Him, the Ever-Living, the Sustainer of existence.

اللہ تعالٰی وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، جو زندہ اور سب کا نگہبان ہے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah! None has the right to be worshipped but He, the Ever Living, the One Who sustains and protects all that exists. We mentioned the Hadith in the Tafsir of Ayat Al-Kursi (2:255) that mentions that Allah's Greatest Name is contained in these two Ayat, اللّهُ لا إِلَـهَ إِلاَّ هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ (Allah! None has the right to be worshipped but He, the Ever Living, the One Who sustains and protects all that exists) (2:255) and (3:2) We also explained the Tafsir of, Allah! La ilaha illa Huwa, Al-Hayyul-Qayyum, in the Tafsir of Ayat Al-Kursi. Allah's statement,

آیت الکرسی اور اسمِ اعظم آیت الکرسی کی تفسیر میں پہلے بھی یہ حدیث گزر چکی ہے کہ اسم اعظم اس آیت اور آیت الکرسی میں ہے اور الم کی تفسیر سورۃ بقرہ کے شروع میں بیان ہو چکی ہے جسے دوبارہ یہاں لکھنے کی ضرورت نہیں ، آیت ( اَللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ ڬ لَا تَاْخُذُهٗ سِـنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ ۭ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ ۭ مَنْ ذَا الَّذِيْ يَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ۭ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَمَا خَلْفَھُمْ ۚ وَلَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَاۗءَ ۚ وَسِعَ كُرْسِـيُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ۚ وَلَا يَـــــُٔـــوْدُهٗ حِفْظُهُمَا ۚ وَھُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ ) 2 ۔ البقرۃ:255 ) کی تفسیر بھی آیت الکرسی کی تفسیر میں ہم لکھ آئے ہیں ۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ نے تجھ پر اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کو حق کے ساتھ نازل فرمایا ہے جس میں کوئی شک نہیں بلکہ یقینا وہ اللہ کی طرف سے ہے ، جسے اس نے اپنے علم کی وسعتوں کے ساتھ اتارا ہے ، فرشتے اس پر گواہ ہیں اور اللہ کی شہادت کافی وافی ہے ۔ یہ قرآن اپنے سے پہلے کی تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور وہ کتابیں بھی اس قرآن کی سچائی پر گواہ ہیں ، اس لئے کہ ان میں جو اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے اور اس کتاب کے اترنے کی خبر تھی وہ سچی ثابت ہوئی ۔ اسی نے حضرت موسیٰ بن عمران پر توراۃ اور عیسیٰ بن مریم پر انجیل اتاری ، وہ دونوں کتابیں بھی اس زمانے کے لوگوں کیلئے ہدایت دینے والی تھیں ۔ اس نے فرقان اتارا جو حق و باطل ، ہدایت و ضلالت ، گمراہی اور راہِ راست میں فرق کرنے والا ہے ، اس کی واضح روشن دلیلیں اور زبردست ثبوت ہر معترض کیلئے مثبت جواب ہیں ، حضرت قتادہ حضرت ربیع بن انس کا بیان ہے کہ فرقان سے مراد یہاں قرآن ہے ، گو یہ مصدر ہے لیکن چونکہ قرآن کا ذِکر اس سے پہلے گزر چکا ہے اس لئے یہاں فرقان فرمایا ، ابو صالح سے یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے توراۃ ہے مگر یہ ضعیف ہے اس لئے کہ توراۃ کا ذِکر اس سے پہلے گزر چکا ہے واللہ اعلم ۔ قیامت کے دن منکروں اور باطل پرستوں کو سخت عذاب ہوں گے ۔ اللہ تعالیٰ غالب ہے بڑی شان والا ہے اعلیٰ سلطنت والا ہے ، انبیاء کرام اور محترم رسولوں کے مخالفوں سے اور اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی تکذیب کرنے والوں سے جناب باری تعالیٰ زبردست انتقام لے گا ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

2۔ 1 حَیُّ اور قَیُوم اللہ تعالیٰ کی خاص صفات ہیں جن کا مطلب وہ ازل سے ابد تک رہے گا اسے موت اور فنا نہیں قیوم کا مطلب سارے کائنات کا قائم رکھنے والا، محافظ اور نگران، ساری کائنات اس کی محتاج وہ کسی کا محتاج نہیں۔ عیسائی حضرت عیسیٰ کو اللہ یا ابن اللہ یا تین میں سے ایک مانتے تھے گویا ان کو کہا جا رہا ہے جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی اللہ کی مخلوق ہیں، وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے اور ان کا زمانہ ولادت بھی تخلیق کائنات سے بہت عرصہ بعد کا ہے تو پھر وہ اللہ یا اللہ کا بیٹا کس طرح ہوسکتے ہیں نیز ان پر موت بھی نہیں آنی چاہیے تھی لیکن ایک وقت آئے گا کہ وہ موت سے بھی ہمکنار ہوں گے اور عیسائیوں کے بقول ہمکنار ہوچکے۔ احادیث میں آتا ہے کہ تین آیتوں میں اللہ کا اسم اعظم ہے جس کے ذریعے سے دعا کی جائے تو رد نہیں ہوتی۔ ایک یہ آل عمران کی آیت۔ دوسری آیت الکرسی اور تیسری سورة طہٰ (ابن کثیر تفسیر آیت الکرسی)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٢] اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ حقیقی الٰہ وہی ہوسکتا ہے جو ہمیشہ سے زندہ و قائم ودائم ہو اور پوری کائنات کے انتظام کو سنبھالنے والا اور اس نظام میں قدرت و تصرف کے پورے اختیار رکھتا ہو۔ جس الٰہ میں یہ صفات نہ پائی جائیں وہ الٰہ نہیں ہوسکتا۔ اس معیار کے مطابق تمام معبودان باطل خواہ وہ جاندار ہوں، موجود ہوں یا فوت ہوگئے ہوں اور خواہ بےجان ہوں سب کی نفی ہوگئی۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اللّٰهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ : یہ اس سورت کا دعویٰ ہے اور وفد نجران کو دعوت کی مناسبت سے اس کے اثبات پر زور دیا گیا ہے۔ الْـحَيُّ الْقَيُّوْمُ : یہ اسمائے حسنیٰ اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ حیات اور قیومیت اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتیہ میں سے ہیں۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، اسے موت اور فنا نہیں۔ ” الْقَيُّوْمُ “ کا مطلب ہے ساری کائنات قائم رکھنے والا، محافظ اور نگران، ساری کائنات اس کی محتاج وہ کسی کا محتاج نہیں۔ عیسائی عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ یا اللہ کا بیٹا یا تین میں سے ایک مانتے تھے۔ گویا ان سے کہا جا رہا ہے کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کی مخلوق ہیں، وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہیں اور ان کی پیدائش کا زمانہ بھی کائنات کے پیدا ہونے سے بہت بعد کا ہے، پھر ان پر موت بھی آئے گی اور عیسائیوں کے بقول تو ان پر موت آچکی، تو جب نہ ان کی حیات ہمیشہ، نہ انھیں قیومیت حاصل تو وہ اللہ یا اللہ کا بیٹا کیسے بن گئے ؟

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

The first verse of this section presents a rational proof of the Oneness of Allah; the second verse, the reported proof 1, followed by an answer to some doubts nursed by dis¬believers towards the later part. 1. In the terminology of Islamic theology, a proof based on rational argument is called rational proof while a proof based on a verse of divine book or on a declaration made by an authority or a report narrated by a trustworthy person is called a reported proof. The first word, Alif Lam Mim (الم ) at the head of the first verse be-longs to the special set of words used by the Qur&an which are words of hidden meaning and are known as Mutashabihat متشبھات ، the real meaning of which is a secret between Allah and His Messenger (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، and the details of which appear a little later in the section. In the words لا إله إلا ھو (Allah: there is no god but He) which follow immediately, the doctrine of the Oneness of Allah has been put forth as a categorical declaration. It means that there is absolutely nothing worthy of wor¬ship other than Allah. Then come the words الْحَيُّ الْقَيُّومُ (the Alive, the All-Sustaining) which lay out a rational proof of the Oneness of Allah. The essence of the argument is that worship means to present oneself before somebody in utter submission and humility. It, therefore, requires that the one who is being worshipped must occupy the highest point of honour and power and who has to be most perfect from all angles. From this it is obvious that anything which cannot sustain its own being, rather is dependent upon somebody else for its very existence, could hardly claim to have any honour or power in its own right. Therefore, it is crystal clear that all things in this world which have no power to come into being by themselves, nor can they sustain it - be they idols carved in stone, or water, or trees, or angels and apostles - none of them is worthy of worship. The only Being worthy of worship is the One who has always been Alive and Present and shall always live and sustain. Such a Being is none but Allah; there is none worthy of worship but Him.

پہلی آیت میں ارشاد ہے (الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم) اس میں لفظ الم تو متشابہات قرآنیہ میں سے ہے جس کے معنی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان ایک راز ہیں جس کی تفصیل اس رکوع کی آخری آیتوں میں آتی ہے اس کے بعد (اللہ لا الہ الا ھو) میں مضمون توحید کو ایک دعوے کی صورت میں پیش کیا گیا ہے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ایسے ہیں کہ ان کے سوا کوئی معبود بنانے کے قابل نہیں۔ اس کے بعد (الحی القیوم) سے توحید کی عقلی دلیل بیان کی گئی جس کی تشریح یہ ہے کہ عبادت نام ہے اپنے آپ کو کسی کے سامنے انتہائی عاجز و ذلیل کر کے پیش کرنے کا اور اس کا مقتضیٰ یہ ہے کہ جس کی عبادت کی جائے وہ عزت وجبروت کے انتہائی مقام کا مالک اور ہر اعتبار سے کامل ہو، اور یہ ظاہر ہے کہ جو چیز خود اپنے وجود کو قائم نہ رکھ سکے اپنے وجود اور اس کی بقاء میں دوسرے کی محتاج ہو اس کا عزت وجبروت میں کیا مقام ہوسکتا ہے اس لئے بالکل واضح ہوگیا کہ دنیا میں جتنی چیزیں ہیں نہ خود اپنے وجود کی مالک ہیں اور نہ ہی اپنے وجود کو قائم رکھ سکتی ہیں وہ خواہ پتھر کے تراشیدہ بت ہوں یا پانی اور درخت ہوں یا فرشتے اور پیغمبر ہوں ان میں کوئی بھی لائق عبادت نہیں لائق عبادت وہی ذات ہو سکتی ہے جو ہمیشہ سے زندہ موجود ہے اور ہمیشہ زندہ و قائم رہے گی اور وہ صرف اللہ جل شانہ کی ذات ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢) اور (رب کریم) زندہ جاوید ہیں، تمام چیزوں کے سنبھالنے والے ہیں

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢ (اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ الاَّ ہُوَ لا الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ) یہ الفاظ سورة البقرۃ میں آیت الکرسی کے آغاز میں آ چکے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک اسم اعظم ہے ‘ جس کے حوالے سے اگر اللہ سے کوئی دعا مانگی جائے تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔ یہ تین سورتوں البقرۃ ‘ آل عمران اور طٰہٰ میں ہے۔ (١) آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تعینّ کے ساتھ نہیں بتایا کہ وہ اسم اعظم کون سا ہے ‘ البتہ کچھ اشارے کیے ہیں۔ جیسے رمضان المبارک کی ایک شب لیلۃ القدرجو ہزار مہینوں سے افضل ہے ‘ اس کے بارے میں تعین کے ساتھ نہیں بتایا کہ وہ کون سی ہے ‘ بلکہ فرمایا : (فَالْتَمِسُوْھَا فِی الْعَشْرِ الْاَوَاخِرِ فِی الْوِتْرِ ) (٢) اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو “۔ تاکہ زیادہ ذوق و شوق کا معاملہ ہو۔ اسی طرح اسم اعظم کے بارے میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشارات فرمائے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ یہ تین سورتوں سورة البقرۃ ‘ سورة آل عمران اور سورة طٰہٰ میں ہے۔ ان تین سورتوں میں جو الفاظ مشترک ہیں وہ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ہیں۔ سورة البقرۃ میں یہ الفاظ آیت الکرسی میں آئے ہیں ‘ سورة آل عمران میں یہاں دوسری آیت میں اور سورة طٰہٰ کی آیت ١١١ میں موجود ہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

1. For explanation see Surah 2, n. 278 above.

سورة الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :278 یعنی نادان لوگوں نے اپنی جگہ چاہے کتنے ہی خدا اور معبود بنا رکھے ہوں ، مگر اصل واقعہ یہ ہے کہ خدائی پوری کی پوری بلا شرکت غیرے اس غیر فانی ذات کی ہے ، جو کسی کی بخشی ہوئی زندگی سے نہیں ، بلکہ آپ اپنی ہی حیات سے زندہ ہے اور جس کے بل بوتے ہی پر کائنات کا یہ سارا نظام قائم ہے ۔ اپنی سلطنت میں خداوندی کے جملہ اختیارات کا مالک وہ خود ہی ہے ۔ کوئی دوسرا نہ اس کی صفات میں اس کا شریک ہے ، نہ اس کے اختیارات میں اور نہ اس کے حقوق میں ۔ لہٰذا اس کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ شریک ٹھیرا کر زمین یا آسمان میں کہاں بھی کسی اور کو معبود ( الہ ) بنایا جا رہا ہے ، ایک جھوٹ گھڑا جا رہا ہے اور حقیقت کے خلاف جنگ کی جارہی ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:2) الحی۔ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں ہے۔ حیاۃ سے صفت مشبہ کا صیغہ القیوم قائم بالذات۔ ہر شے کو قائم رکھنے والا۔ دیکھو (2:255)

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 الحیی القیوم یہ اسماء حسنی صفات باری تعالیٰ ہیں۔ حیات اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتیہ میں سے ہے۔ حدیث میں ہے کہ دو آیتوں میں اسم اعظم ہے جس کے واسطہ سے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے تو اللہ تعالیٰ دعا رد نہیں فرماتے۔ شروع آیتہ الکرسی اللہ لا الہ الا ھو الحیی القیوم وشروع آیتہ آل عمران۔ بعض ورایات میں تین آیتیں مذکو رہیں اور تیسری آیت سورت طہ کی ہے یسعنت الوجوہ اللحی القیوم۔ (ابن کثیر )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

2۔ حی وقیوم کے صفات لانے میں اشارہ ہے معبودان باطلہ کے معبود نہ ہونے کی دلیل عقلی پر کیونکہ ان میں یہ صفتیں نہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : سورة البقرۃ کا اختتام ایمان کے بنیادی ارکان اور اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگنے کی دعا پر ہوا ہے۔ سورة آل عمران کی ابتداء میں بتلایا گیا ہے کہ جس اللہ پر تم نے ایمان لانا ہے۔ وہ ہمیشہ قائم دائم اور زندہ جاوید رہنے والا ہے۔ اسی نے لوگوں کی ہدایت کے لیے پہلے تورات و انجیل نازل فرمائی اور اب اپنے بندوں کی رہنمائی کے لیے قرآن مجید نازل کیا ہے۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ نافرمانوں سے سخت انتقام لے گا۔ حروف مقطعات کے بعد اس عظیم سورة کی ابتدا توحید باری تعالیٰ سے ہوتی ہے۔ یہاں توحید کے دو ایسے پہلو نمایاں کیے گئے ہیں۔ جن میں جلالت وجبروت کے لہجے میں اللہ تعالیٰ کے ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے کا بیان ہوا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ جب کچھ نہیں تھا تو اللہ تعالیٰ کی ذات موجود اور قائم تھی۔ جب ہر چیز ختم ہوجائے گی تو اس وقت بھی اس کی ذات کبریا موجود اور قائم ہوگی گویا کہ وہ ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والی ذات ہے اور کائنات کو اپنی حکمت اور مرضی کے مطابق قائم رکھے ہوئے ہے۔ جس طرح اور جس وقت تک چاہے ہر چیز کو قائم رکھنے والا ہے ان اوصاف میں اس کا کوئی شریک اور ساجھی نہیں۔ جب کائنات میں کوئی ہستی اس جیسی نہیں تو سب کا وہی معبود ومسجود ہونا چاہیے اور ہے۔ اسی ذات اعلیٰ نے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس پر کتاب حق نازل فرمائی اور اسی نے اس سے پہلے تورات اور انجیل نازل فرمائی تھیں جو اپنے اپنے دور میں لوگوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ تھیں۔ اب قرآن مجید نازل فرمایا جو پہلی کتابوں کے من جانب اللہ ہونے کی تصدیق اور ان میں لوگوں نے جو ترمیم واضافے کیے ان کی نشاندہی کرتا ہے تاکہ لوگوں کے سامنے حق اور باطل واضح ہوجائے اس امتیاز اور حق کو پہچاننے کے باوجود جو لوگ اللہ تعالیٰ کے ارشادات کا انکار کرتے ہیں ان کے لیے شدید ترین عذاب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان سے اس جرم کا بدلہ لینے پر غالب ہے۔ قرآن مجید کے بنیادی اور مرکزی اوصاف میں ایک خوبی یہ ہے کہ یہ پہلی کتابوں کے حقیقی مضامین کی تصدیق کرنے کے ساتھ قیامت تک کے لیے حق و باطل کے درمیان حد فاصل اور نگران کی حیثیت رکھتا ہے۔ ” اور ہم نے تیری طرف حق کے ساتھ کتاب نازل کی جو اپنے سے ماقبل کتب کی تصدیق کرنے والی اور ان پر نگران و نگہبان ہے۔ “ [ المائدۃ : ٤٨] گویا کہ حق و باطل کا فیصلہ کرنا لوگوں کی عقل و دانش اور کسی پارلیمنٹ کے اختیار پر نہیں بلکہ قرآن لوگوں کی رہنمائی کا ضامن اور صحیح و غلط میں تمیز کرنے کا معیار ہے۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لَایُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتّٰی یَکُوْنَ ھَوَاہُ تَبْعًا لِّمَا جِءْتُ بِہٖ ) [ مشکوٰۃ : باب الاعتصام بالکتاب والسنۃ ] ” حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدمی جب تک اپنی خواہشات میری لائی ہوئی شریعت کے تابع نہ کردے تب تک وہ ایمان والا نہیں ہوسکتا۔ “ مسائل ١۔ اللہ ہی اکیلا معبود اور وہی ہمیشہ زندہ و قائم رہنے والا ہے۔ ٢۔ اس نے تورات، انجیل اور قرآن مجید نازل فرمایا۔ ٣۔ اب تورات اور انجیل نہیں صرف قرآن ہی ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ ٤۔ قرآن مجید پہلی کتب آسمانی کی تصدیق کرتا ہے۔ ٥۔ انکار کرنے والوں کے لیے سخت ترین عذاب ہوگا۔ ٦۔ اللہ تعالیٰ سخت بدلہ لینے والا ہے۔ تفسیر بالقرآن فرقان کا مفہوم : ١۔ قرآن فرقان ہے۔ (الفرقان : ١) ٢۔ معجزات فرقان ہیں۔ (الانبیاء : ٤٨) ٣۔ بدر کا معرکہ فرقان ہے۔ (الانفال : ٤١) ٤۔ فرقان سے مراد قوت فیصلہ بھی ہے۔ (الانفال : ٢٩) ٥۔ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والی کتاب یعنی قرآن مجید کو فرقان کہا گیا ہے۔ (البقرۃ : ١٨٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یوں اس سورت کا آغاز ان منکرین اسلام اہل کتاب پر تنقید سے ہوتا ہے ‘ جو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کا انکار کررہے تھے ‘ حالانکہ وہ اپنے دین کی بنیاد پر اور اہل کتاب ہونے کے ناطے نبوت ‘ رسالت ‘ کتب سماوی اور وحی الٰہی کے تصور سے واقف تھے ‘ اس لئے ان کا فرض تھا کہ سب سے پہلے اسلام لاتے اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصدیق کرتے بشرطیکہ ان کی تصدیق صرف دلیل اور حجت کے اطمینان پر موقوف ہوتی۔ اس فیصلہ کن حملے میں ‘ ان تمام شبہات کی بیخ کنی کردی جاتی ‘ جو اہل کتاب کے دلوں میں پائے جاتے تھے ‘ یا جنہیں وہ جان بوجھ کر مومنین کے دلوں میں ڈالنا چاہتے تھے ‘ اس لئے ان کا پروپیگنڈا کرتے تھے ۔ اس تنقید میں ان راستوں اور ان دروازوں کی نشان دہی کردی گئی ہے جن کے ذریعہ یہ شبہات داخل ہوتے تھے ۔ اس لئے یہاں انسدادی طور پر بتادیا گیا کہ اللہ کی آیات سے متعلق سچے مومنوں کا موقف کیا ہے اور ان کے بارے میں مخالفین اور منحرفین کی سوچ کیا ہے ۔ سورت کے اس آغاز میں سچے اہل ایمان کا تعلق باللہ ‘ اللہ کے دربار میں ان کی عاجزی اور ان کی التجاؤں کی ایک خوبصورت تصویر کشی کی گئی ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ کی صفات کے بارے میں یہ تصور رکھتے ہیں ۔ اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ…………… ” اللہ وہ زندہ جاوید ہستی ہے ‘ جو نظام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے۔ “ یہ خالص اور صاف ستھری توحید دراصل ایک مسلمان کے عقیدہ اور تمام غیر مسلموں کے عقائد کے درمیان ایک خط امتیاز کھینچ دیتی ‘ جن میں ملحدین اور مشرکین بھی شامل ہیں اور منحرفین اہل کتاب بھی شامل ہیں چاہے یہودی ہوں یا نصاریٰ ہوں ‘ اپنے تصورات اور عقائد کے اختلاف کے مطابق ‘ غرض توحید ایک مسلم اور تمام غیر مسلموں کے عقائد کے درمیان ایک خط امتیاز ہے ‘ اس لئے کہ یہاں نظام زندگی کا تعین تصور حیات اور عقائد پر ہوتا ہے ۔ یہ عقیدہ ہی جو نظام زندگی کا تعین کرتا ہے ۔ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ‘ خدائی میں اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے ‘ وہ زندہ ہے ‘ اور حیات اس کی ذاتی صفت ہے ۔ وہ ہر قید سے آزاد ہے ، زندہ مطلق ہے ‘ وہ القیوم ہے ‘ اس کائنات کو اسی نے تھاما ہوا ہے ‘ زندگی اس کی وجہ سے قائم ہے ‘ ہر موجود اس کی وجہ سے موجود ہے ۔ پھر وہ سب کو قائم رکھے ہوئے ہے ۔ اس لئے اس کے بغیر کائنات میں نہ کوئی ہستی موجود رہ سکتی ہے اور نہ موجود ہوسکتی ہے۔ یہ ہے خط امتیاز ایک تصور حیات اور عقیدہ میں اور یہی فرق ہے ایک مسلم کے طرزعمل اور نظام زندگی میں بمقابلہ ایک غیر مسلم ‘ اس سے اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں اسلامی تصور توحید اور اسلامی عقائد اور ان کے عقائد باطلہ اور عقائد جاہلیت کے اندھیروں کے درمیان بھی امتیاز ہوجاتا ہے ۔ جاہلیت کے تصورات میں مشرکین عرب کے اس وقت کے تصورات بھی شامل ہیں اور یہود ونصاریٰ کے وہ منحرف شدہ تصورات بھی جن کے وہ قائل تھے ۔ قرآن کریم نے یہودیوں کے بارے میں ‘ یہ بات نقل کی ہے کہ وہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کو ابن اللہ کا مقام دیتے تھے ‘ قرآن کریم نے یہودیوں کے جس باطل عقیدے کا ذکر کیا ہے آج یہودی جس کتاب مقدس کے قائل ہیں اس میں موجود ہے ‘ مثلاً سفر تکوین اصحاح ششم میں ذکر ہے۔ ” جب روئے زمین پر آدمی بہت بڑھنے لگے اور ان کی بیٹیاں پیدا ہوئیں ‘ تو خدا کے ” بیٹوں “ نے آدمی کی بیٹیوں کو دیکھا کہ وہ خوبصورت ہیں اور جن کو انہوں نے جنا ان سے بیاہ کرلیا۔ تب خداوند نے کہا کہ میری روح انسان کے ساتھ ہمیشہ مزاحمت نہ کرتی رہے گی کیونکہ وہ بھی تو بشر ہے اس کی عمر ایک سو بیس برس ہوگی ۔ ان دنوں میں زمین پر جبار تھے اور بعد میں جب خداوند کے بیٹے انسانوں کی بیٹیوں کے پاس گئے تو ان کے لئے ان سے اولاد ہوئی ۔ یہی قدیم زمانے کے سورما ہیں جو بڑے نامور ہوئے۔ “ مسیحی تصور ات میں جو خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں ‘ قرآن کریم نے ان کا قول نقل کیا ہے کہ ” اللہ تینوں میں سے ایک ہے “ اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثٌ ثَلَاثَة……………اور ان کا یہ قول اِنَّ اللّٰہَ ھُوَ المَسِیحُ ابنُ مَریَمَ……………” کہ اللہ مسیح بن مریم ہیں “ اور یہ کہ انہوں نے حضرت مسیح اور ان کی والدہ کو اللہ کے سوا دوالٰہ بنالیا تھا۔ اور انہوں نے اپنے احبار اور رہبان کو بھی اللہ کے علاوہ رب بنالیا تھا ‘ مشہور مصنف آرنلڈ اپنی کتاب تبلیغ اسلام میں لکھتے ہیں : ” ظہور اسلام سے تقریباً ایک سو سال پہلے قیصر یوستینیان روسی سلطنت میں اتحاد پیدا کرنے میں بظاہر کامیاب رہا تھا ‘ مگر اس کی وفات کے بعد سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے ‘ کیونکہ دارالسلطنت اور صوبجات کے درمیان ایک مشترکہ قومیت کا جذبہ بالکل باقی نہیں رہا تھا ۔ ہرقل نے کوشش کی تھی کہ شام کے ملک کو مرکزی حکومت کے ساتھ دوبارہ وابستہ کرے اور اسے اس میں کسی قدر کامیابی بھی ہوئی تھی ‘ مگر بدقسمتی سے اس نے مصالحت کے لئے جو طریقے اختیار کئے ‘ ان سے اختلاف رفع ہونے کی بجائے اور شدید ہوگیا ‘ لوگوں کے دلوں میں مذہبی تعصبات نے قومی جذبے کی جگہ لے رکھی تھی لہٰذا قیصر نے کوشش کی کہ دین مسیحی کی تفسیر وتشریح ایسے طریق پر کرے جس سے مخالف فرقوں کے باہمی مناقشات مٹ جائیں اور جو لوگ دین سے منحرف ہوچکے ہیں ان کو آرتھوڈوکس ‘ کلیسا اور مرکزی حکومت کے ساتھ متحد کردیں ۔ خلقیدونہ کے مقام پر مسیحی علماء کی جو مجلس ٤٥١ ء میں بیٹھی تھی اس نے اس عقیدے کا اعلان کیا تھا کہ ” حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے دو اقنوم تسلیم کرنے چاہئیں ‘ اس طور پر کہ ان میں کوئی اختلاط یاتبدیلی یا تقسیم یا علیحدگی نہیں ہے ۔ ان کی فطرتوں کا جو اختلاف ہے جو ان کے اجتماع سے باطل نہیں ہوجاتا بلکہ ہر اقنوم کے خواص برقرار ہیں اور ایک ذات اور ایک وجود میں موجود ہیں ۔ مگر اس طرح نہیں کہ یہ خواص دوہستیوں میں منقسم یا الگ الگ ہوں بلکہ وہی ایک بیٹا ہے ، اکلوتا ، کلمۃ اللہ مگر مونوفرائٹ (Monophysites) فرقے نے اس عقیدے کو رد کردیا کیونکہ وہ لوگ اس بات کے قائل تھے کہ ” مسیح کی ذات میں صرف ایک اقنوم ہے ‘ یہ ذات مرکب ہے جس میں تمام ربانی اور انسانی صفات شامل ہیں ۔ مگر وہ وجود جس میں یہ صفات ہیں ‘ اس میں دوئی نہیں ہے بلکہ وہ ایک مرکب وحدت ہے ۔ “ اس فرقے کے لوگ خاص طور پر شام ‘ مصر اور رومی سلطنت کے باہر ملکوں میں آباد تھے ۔ چناچہ ان دونوں فرقوں کے درمیان اس مسئلے پر دوصدیوں تک گرماگرم مباحثہ جاری رہا ‘ یہاں تک کہ ہرقل نے آکر فریقین کے درمیان مونوتھیلتزم (Monotheletism) کے عقیدے کے ذریعے سے مصالحت پیدا کرنی چاہی ۔ اس عقیدے کا مفہوم یہ تھا کہ اقانیم کی دوئی کو تسلیم کرتے ہوئے مسیح کی واقعی زندگی میں ذات کی وحدت کو قائم رکھا جائے ‘ اس لئے کہ ایک واحد ذات میں حرکت وعمل کے دوسلسلے قابل قبول نہیں ہوسکتے ۔ چناچہ مسیح ‘ جو ابن اللہ ہیں ‘ ایک ہی ذریعے اور وسیلے سے انسانی اور ربانی دونوں قسم کے نتائج پیدا کرتے ہیں ‘ یعنی کلمہ مجسم میں ایک ہی مشیئت کارفرما ہے۔ “ ” مگر ہرقل کا بھی وہی انجام ہوا جو بہت سے صلح کرانے والوں کا ہوا کرتا ہے ‘ کیونکہ نہ صرف مناظرے کی آگ اور بھڑک اٹھی بلکہ لوگوں نے قیصر پر بےدینی کا الزام لگایا اور دونوں فرقوں کو مورد عتاب بننا پڑا۔ “ ایک دوسرے مسیحی مسٹر کینن ٹیلر لکھتے ہیں کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے وقت مشرقی عیسائیوں کی حالت یہ تھی کہ یہ لوگ درحقیقت مشرکین تھے ‘ وہ شہداء کے ایک طبقے کی پوجا کرتے تھے ۔ اسی طرح عیسائی پیروں اور فرشتوں کی عبادت کرتے تھے ‘ اور ان کا کم سے کم جو شرکیہ عقیدہ تھا وہ یہ ہے کہ بقول ان کے وہ ان الہٰوں کی بندگی محض اس لئے کرتے ہیں کہ کی بندگی کی وجہ سے انہیں قرب الٰہی حاصل ہوتا ہے۔ مَا نَعْبُدُهُمْ إِلا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَى …………… غلط اعتقادات اور تصورات کے اس جنگل اور ڈھیر میں ‘ جن کی طرف اس سے قبل ہم اشارہ کرچکے ہیں ‘ اسلام آیا اور اس نے اسلامی نظریہ حیات اور اسلامی عقیدے کا فیصلہ کن ‘ صریح اور واضح ممتاز تصور دیا۔ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ…………… ” نہیں کوئی الٰہ مگر اللہ ‘ وہی زندہ ہے اور وہی ہے جو تھامنے والا ہے ۔ “………یہ عقیدہ اور یہ تصور حیات ایسا تھا کہ اس نے فریقین کے راستے جدا کردئیے ۔ دونوں کا طرز عمل اور دونوں کا طریق زندگی جدا کردیا ………جس شخص کے نظریہ اور شعور میں یہ ہو کہ اللہ ایک وحدہ لاشریک ہے اور اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ہے ۔ وہ زندہ ہے اور اس کے سوا اس مفہوم میں کوئی زندہ نہیں ہے ‘ تمام دوسرے موجودات کا وجود اس کے ساتھ قائم ہے۔ اور وہی ہے جو تمام موجودات اور تمام زندوں کو تھامے ہوئے ہے ………جس شخص کا یہ عقیدہ ہو اور ان صفات کے ساتھ ہو ‘ اس کا نظام زندگی اور طرز حیات یقیناً اس شخص سے مختلف ہونا چاہئے جس کی ذہنی دنیا پر غلط اور وہم پرستانہ تصورات کے بادل چھائے ہوئے ہوں جن کا اوپر ہم نے ذکر کیا ۔ اس قسم کے غلط تصورات کے حامل شخص کی زندگی پر وہ اثرات مرتب نہیں ہوسکتے ۔ جو اس شخص کی زندگی پر ہوسکتے ہیں ایسے خدا کا قائل ہو جو اس کی زندگی میں فعال اور متصرف ہے اور علی کل شیئ قدیر ہے۔ یہ صرف توحید خالص کی برکت ہے جس کے نتیجے میں ایک انسان صرف ایک ہی الٰہ کی بندگی کرسکتا ہے ۔ ایسے تصور میں کوئی شخص کسی غیر اللہ سے کوئی امداد طلب نہیں کرتا ۔ وہ صرف اللہ سے نصرت کا طلبگار ہوتا ہے ۔ نہ وہ غیر اللہ سے نظام حیات اور نظام قانون اخذ کرتا ہے ‘ نہ وہ اخلاق وآداب غیر اللہ سے اخذ کرتا ہے ۔ نہ وہ اجتماعی اور اقتصادی نظام اغیار سے لیتا ہے ۔ غرض ایک موحد اپنی زندگی کے کسی بھی شعبے میں غیر اللہ سے کچھ اخذ نہیں کرتا اور نہ ہی حیات بعد الممات کے تصور میں غیر اللہ کو اہمیت دیتا ہے ۔ رہے وہ کھوٹے ‘ ٹیڑھے ‘ پیچیدہ شرکیہ جاہلی عقائد تو ان کے حاملین کا ایک رخ ہوتا ہے نہ ان کو قرار وثبات حاصل ہوتا ہے ‘ نہ ان میں حدود حلال و حرام ہوتے ہیں ‘ نہ ان میں صحیح اور غلط کے اندر کوئی تمیز ہوتی ہے ‘ نہ نظام اور شریعت میں ‘ نہ آداب واخلاق میں ‘ نہ طرزعمل اور سلوک میں ‘ غرض یہ تمام امور تب طے ہوتے جب کسی شخص کے عقیدے اور نظریے میں ان کی جہت طے ہوتی ہے ‘ اس کے بعد ایک انسان ‘ اس مصدر ‘ اس جہت کی طرف متوجہ ہوکر اس کی بندگی اور اطاعت کرتا ہے۔ اور جب اسلام نے طے کردیا کہ …………… اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُتو اس طرح ایک مسلمان اللہ وحدہ کی طرف متوجہ ہوگیا اور اس طرح اس کے اور دوسرے عقائد والوں کے راستے جدا ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ اس اعتقادی جدائی کی وجہ سے اسلامی نظام زندگی کا مزاج بالکل علیحدہ ہوگیا ہے ۔ اسلامی زندگی ‘ اپنے تمام عناصر ترکیبی کے ساتھ پوری کی پوری اسلامی تصور حیات سے تشکیل پاتی ہے ۔ اور اسلامی تصور حیات ایک خالص اور مکمل توحید پر مبنی ہے اور یہ عقیدہ توحید اس وقت انسانی ضمیر میں مستقلاً قرار نہیں پکڑتا جب تک اس کے کچھ عملی آثار زندگی میں مرتب نہ ہوں ‘ مثلاً زندگی کے ہر شعبے میں عقیدہ توحید کے ساتھ انسانی نظام شریعت بھی اللہ تعالیٰ سے اخذ کرے اور زندگی کی ہر سرگرمی اور تگ ودو میں ذات خداوندی کی طرف متوجہ ہو۔ توحید خالص کے بیان کے بعد ‘ ایسی جامع توحید کہ اللہ کی ذات میں بھی اس کا کوئی شریک نہ اور اس کی صفات میں کوئی شریک نہ ہو ‘ اب اس منبع اور مصدر کا بیان ہوتا ہے جس سے کہ ایک مسلمان اپنا دین اخذ کرتا ہے۔ جہاں سے کتب سماوی اور رسولوں کی تعلیمات نازل ہوتی ہیں ۔ یعنی جہاں سے ہر دور اور ہر زمانے میں انسانوں نے اپنے نظام زندگی اخذ کیا ہے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

الحی القیوم کی تفسیر : (اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ) اس میں اولاً اللہ جل شانہ کی توحید بیان فرمائی اور بتایا کہ اللہ کے سوال کوئی معبود نہیں ہے اس سے تمام مشرکین کی تردید ہوگئی۔ ثانیاً اللہ جل شانہ، کی دو بڑی اہم صفات ذکر فرمائیں یعنی الحی القیوم۔ حَیٌّ: یعنی زندہ جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ قَیُّوْمُ جو ساری مخلوق کو قائم رکھنے والا ہے اسی نے سب کو پیدا فرمایا۔ وہی سب کی پرورش فرماتا ہے اسی نے سب کا وجود باقی رکھا ہے وہ جب چاہے گا سب کو فنا کر دے گا۔ اور وہ خود ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ ظاہر ہے کہ جو ذات ان صفات سے متصف ہے وہی عبادت کے لائق ہے اور جس کا وجود پہلے نہ تھا بعد میں وجود ملا اور وہ وجود اسے خالق ومالک جل مجدہ نے بخشا اور اپنی بقا میں وہ اپنے خالق ومالک کا محتاج ہے وہ کسی طرح بھی معبود نہیں ہوسکتا۔ معبود صرف وہی ہے جو حی ہے اور قیوم ہے جو لوگ معبود ان باطلہ کو مانتے ہیں اور ان کی پرستش کرتے ہیں وہ دیکھتے ہیں کہ یہ چیزیں اپنی بقا میں خالق تعالیٰ شانہ، کی محتاج ہیں اور پہلے ان کا وجود بھی نہ تھا اور انہیں دنیاوی چیزوں کی حاجت ہے یہ سب باتیں دیکھتے اور سمجھتے ہوئے ان باطل معبودوں کی عبادت کرتے ہیں یہ ان کی حماقت ہے۔ لفظ الحی القیوم باری تعالیٰ شانہ کی صفات میں ذکر فرما کر تمام مشرکین کی پوری پوری تردید ہوگئی۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi