Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 22

سورة آل عمران

اُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ فِی الدُّنۡیَا وَ الۡاٰخِرَۃِ ۫ وَ مَا لَہُمۡ مِّنۡ نّٰصِرِیۡنَ ﴿۲۲﴾

They are the ones whose deeds have become worthless in this world and the Hereafter, and for them there will be no helpers.

ان کے اعمال دنیا وآخرت میں غارت ہیں اور ان کا کوئی مددگار نہیں ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

They are those whose works will be lost in this world and in the Hereafter, and they will have no helpers.

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ۝ ٠ ۡوَمَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِيْنَ۝ ٢٢ حبط وحَبْط العمل علی أضرب : أحدها : أن تکون الأعمال دنیوية فلا تغني في القیامة غناء، كما أشار إليه بقوله : وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] والثاني : أن تکون أعمالا أخروية، لکن لم يقصد بها صاحبها وجه اللہ تعالی، كما روي : «أنه يؤتی يوم القیامة برجل فيقال له : بم کان اشتغالک ؟ قال : بقراءة القرآن، فيقال له : قد کنت تقرأ ليقال : هو قارئ، وقد قيل ذلك، فيؤمر به إلى النار» «1» . والثالث : أن تکون أعمالا صالحة، ولکن بإزائها سيئات توفي عليها، وذلک هو المشار إليه بخفّة المیزان . وأصل الحبط من الحَبَطِ ، وهو أن تکثر الدابة أكلا حتی ينتفخ بطنها، وقال عليه السلام : «إنّ ممّا ينبت الربیع ما يقتل حبطا أو يلمّ» «2» . وسمّي الحارث الحَبَطَ «3» ، لأنه أصاب ذلك، ثم سمي أولاده حَبَطَات . ( ح ب ط ) الحبط حبط عمل کی تین صورتیں ہیں ۔ ( 1) اول یہ کہ وہ اعمال دینوی ہوں اس لئے قیامت کے دن کچھ کام نہین آئیں گے اسی کیطرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ۔ وَقَدِمْنا إِلى ما عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْناهُ هَباءً مَنْثُوراً [ الفرقان/ 23] اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ اور جو انہوں نے عمل کئے ہوں گے ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی خاک کردیں گے ۔ ( 2 ) اعمال تو اخروی ہو لیکن انہیں اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے نہ کیا گیا ہو جیسا کہ مروی ہے کہ قیامت کے دن آدمی لایا جائے گا اور اس سے پوچھا جائے گا کہ تو کس قسم کے عمل کرتا رہا وہ جواب دے گا کہ میں قرآن پاک پڑھتا رہا تو اس سے کہا جائے گا کہ تونے قرآن اس لئے پڑھا تھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو لوگ تجھے قاری کہتے رہے حکم ہوگا کہ اس دوزخ میں لے جاؤ ۔ ( 3 ) تیسری صورت یہ ہے کہ اعمال صالحہ کئے ہوں گے لیکن ان کے بالمقابل گناہ کا بارا ستقدر ہوگا کہ اعمال صالحہ بےاثر ہوکر رہ جائیں گے اور گناہوں کا پلہ بھاری رہے گا اسی کی طرف خفۃ المیزان سے اشارہ فرمایا گیا ہے ۔ اصل میں حبط کا لفظ حبط سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ جانور اتنا زیادہ کھا جائے کہ اس کا پیٹ اپھر جائے ۔ حدیث میں ہے (70) ان مما ینبت الربیع مایقتل حبطا او یلم بعض اوقات موسم ربیع کی گھاس یا پیٹ میں ابھار کی وجہ سے قتل کردتی ہے اور یا بیمار کردیتی ہے ۔ ایک شخص حارث کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ وہ نفخ بطن سے مرگیا تھا تو اس کا نام الحدث الحبط پڑگیا اور اس کی اولاد کو حبطات کہا جاتا ہے ۔ عمل العَمَلُ : كلّ فعل يكون من الحیوان بقصد، فهو أخصّ من الفعل لأنّ الفعل قد ينسب إلى الحیوانات التي يقع منها فعل بغیر قصد، وقد ينسب إلى الجمادات، والعَمَلُ قلّما ينسب إلى ذلك، ولم يستعمل العَمَلُ في الحیوانات إلّا في قولهم : البقر العَوَامِلُ ، والعَمَلُ يستعمل في الأَعْمَالِ الصالحة والسّيّئة، قال : إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] ( ع م ل ) العمل ہر اس فعل کو کہتے ہیں جو کسی جاندار سے ارادۃ صادر ہو یہ فعل سے اخص ہے کیونکہ فعل کا لفظ کبھی حیوانات کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں جن سے بلا قصد افعال سر زد ہوتے ہیں بلکہ جمادات کی طرف بھی منسوب ہوجاتا ہے ۔ مگر عمل کا لفظ ان کی طرف بہت ہی کم منسوب ہوتا ہے صرف البقر العوامل ایک ایسی مثال ہے جہاں کہ عمل کا لفظ حیوانات کے لئے استعمال ہوا ہے نیز عمل کا لفظ اچھے اور بری دونوں قسم کے اعمال پر بولا جاتا ہے ، قرآن میں : ۔ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحاتِ [ البقرة/ 277] جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے دنا الدّنوّ : القرب بالذّات، أو بالحکم، ويستعمل في المکان والزّمان والمنزلة . قال تعالی: وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] ، وقال تعالی: ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] ، هذا بالحکم . ويعبّر بالأدنی تارة عن الأصغر، فيقابل بالأكبر نحو : وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَ وعن الأوّل فيقابل بالآخر، نحو : خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] دنا ( دن و ) الدنو ( ن) کے معنی قریب ہونے کے ہیں اور یہ قرب ذاتی ، حکمی ، مکانی ، زمانی اور قرب بلحاظ مرتبہ سب کو شامل ہے ۔ قرآن میں ہے :۔ وَمِنَ النَّخْلِ مِنْ طَلْعِها قِنْوانٌ دانِيَةٌ [ الأنعام/ 99] اور کھجور کے گابھے میں سے قریب جھکے ہوئے خوشے کو ۔ اور آیت کریمہ :۔ ثُمَّ دَنا فَتَدَلَّى[ النجم/ 8] پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھے ۔ میں قرب حکمی مراد ہے ۔ اور لفظ ادنیٰ کبھی معنی اصغر ( آنا ہے۔ اس صورت میں اکبر کے بالمقابل استعمال ہوتا هے۔ جیسے فرمایا :۔ وَلا أَدْنى مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْثَرَاور نہ اس سے کم نہ زیادہ ۔ اور کبھی ادنیٰ بمعنی ( ارذل استعمال ہوتا ہے اس وقت یہ خبر کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے ۔ جیسے فرمایا :۔ أَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ [ البقرة/ 61] بھلا عمدہ چیزیں چھوڑ کر ان کے عوض ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو۔ اور کبھی بمعنی اول ( نشاۃ اولٰی ) استعمال ہوتا ہے اور الآخر ( نشاۃ ثانیہ) کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے جیسے فرمایا :۔ کہ اگر اس کے پاس ایک دینا بھی امانت رکھو ۔ خَسِرَ الدُّنْيا وَالْآخِرَةَ [ الحج/ 11] اس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی آخرت آخِر يقابل به الأوّل، وآخَر يقابل به الواحد، ويعبّر بالدار الآخرة عن النشأة الثانية، كما يعبّر بالدار الدنیا عن النشأة الأولی نحو : وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوانُ [ العنکبوت/ 64] ، وربما ترک ذکر الدار نحو قوله تعالی: أُولئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ [هود/ 16] . وقد توصف الدار بالآخرة تارةً ، وتضاف إليها تارةً نحو قوله تعالی: وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ [ الأنعام/ 32] ، وَلَدارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِلَّذِينَ اتَّقَوْا[يوسف/ 109] . وتقدیر الإضافة : دار الحیاة الآخرة . اخر ۔ اول کے مقابلہ میں استعمال ہوتا ہے اور اخر ( دوسرا ) واحد کے مقابلہ میں آتا ہے اور الدارالاخرۃ سے نشاۃ ثانیہ مراد لی جاتی ہے جس طرح کہ الدار الدنیا سے نشاۃ اولیٰ چناچہ فرمایا { وَإِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَهِيَ الْحَيَوَانُ } ( سورة العنْکبوت 64) ہمیشہ کی زندگی کا مقام تو آخرت کا گھر ہے لیکن کھی الدار کا لفظ حذف کر کے صرف الاخرۃ کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے جیسے فرمایا : ۔ { أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ } ( سورة هود 16) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اور دار کا لفظ کبھی اخرۃ کا موصوف ہوتا ہے اور کبھی اس کی طر ف مضاف ہو کر آتا ہے چناچہ فرمایا ۔ { وَلَلدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِلَّذِينَ يَتَّقُونَ } ( سورة الأَنعام 32) اور یقینا آخرت کا گھر بہتر ہے ۔ ان کے لئے جو خدا سے ڈرتے ہیں ۔ (6 ۔ 32) { وَلَأَجْرُ الْآخِرَةِ أَكْبَرُ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ } ( سورة النحل 41) اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ۔ اگر وہ اسے جانتے ہوتے ۔ نصر النَّصْرُ والنُّصْرَةُ : العَوْنُ. قال تعالی: نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] وَما لَهُمْ فِي الْأَرْضِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 74] ، وَكَفى بِاللَّهِ وَلِيًّا وَكَفى بِاللَّهِ نَصِيراً [ النساء/ 45] ، ما لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ [ التوبة/ 116] ( ن ص ر ) النصر والنصر کے معنی کسی کی مدد کرنے کے ہیں ۔ قرآن میں ہے : ۔ نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ [ الصف/ 13] خدا کی طرف سے مدد نصیب ہوگی اور فتح عنقریب ہوگی إِذا جاءَ نَصْرُ اللَّهِ [ النصر/ 1] جب اللہ کی مدد آپہنچی

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٢٢) ایسے لوگوں کی سب نیکیاں ضائع ہوگئیں اور ان کو آخرت میں بھی اس پر کوئی ثواب نہیں ملے گا۔ خیبر والوں میں سے بنی قریضہ اور بنی نظیر نے زانی کے سنگسار کرنے سے انکار کیا تھا، اس کا اللہ تعالیٰ ذکر فرماتے ہیں۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ٢٢ (اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِز ) ۔ قریش کو یہ زعم تھا کہ ہم خدام کعبہ ہیں اور ہمارے پاس جو یہ لوگ حج کرنے آتے ہیں ہم ان کو کھانا کھلاتے ہیں ‘ پانی پلاتے ہیں ‘ ہماری ان خدمات کے عوض ہمیں بخش دیا جائے گا۔ فرمایا وہ سارے اعمال حبط ہوجائیں گے۔ اگر تو صحیح صحیح پورے دین کو اختیار کرو گے تو ٹھیک ہے ‘ ورنہ چاہے خیرات اور بھلائی کے بڑے سے بڑے کام کیے ہوں ‘ لوگوں کی فلاح و بہبود کے ادارے قائم کردیے ہوں ‘ اللہ کی نگاہ میں ان کی کوئی حیثیت نہیں۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

20. They have spent their efforts and energies in a manner leading to catastrophic results in this world and the Next. 21. No power can make these misdeeds either bear good fruit or prevent them bearing evil fruit. The powers upon which the wrong-doers rely for support in this world and in the World to Come will not be of any help to them.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :20 یعنی انہوں نے اپنی قوتیں اور کوششیں ایسی راہ میں صرف کی ہیں جس کا نتیجہ دنیا میں بھی خراب ہے اور آخرت میں بھی خراب ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :21 یعنی کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو ان کی اس غلط سعی و عمل کو سپھل بنا سکے ، یا کم از کم بد انجامی ہی سے بچا سکے ۔ جن جن قوتوں پر وہ بھروسہ رکھتے ہیں کہ وہ دنیا میں یا آخرت میں یا دونوں جگہ ان کے کام آئیں گی ، ان میں سے فی الواقع کوئی بھی ان کی مددگار ثابت نہ ہوگی ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:22) حبطت۔ ماضی واحد مؤنث غائب۔ وہ اکارت ہوگئے۔ وہ مٹ گئے۔ وہ ضائع ہوگئے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

4۔ دنیا میں غارت ہونا یہ کہ ان کے ساتھ معاملہ اہل اسلام کا سا نہ ہوگا، اور آخرت میں یہ کہ ان کی مغفرت نہ ہوگی۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

کافروں کے اعمال اکارت ہیں : پھر فرمایا (اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ مَا لَھُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ ) کہ ان لوگوں کے سارے اعمال دنیا و آخرت میں اکارت چلے گئے دنیا میں ان کے جان و مال محفوظ نہ رہے اور کسی طرح کی مدح اور تعریف کے مستحق نہ ہوئے اور آخرت میں بھی ان کے اعمال نے کچھ کام نہ دیا کیونکہ ان اعمال کا کوئی ثواب نہ ملا اور ان کے اعمال عذاب دفع کرنے کا ذریعہ نہ بن سکے، آخرت میں ان کا کوئی مددگار نہ ہوگا جو کسی طرح کی مدد یا سفارش کرسکے۔ جو اعمال برے ہوں ان پر تو ثواب ملنے کا کوئی سوال ہی نہیں جو اعمال نیکی کے نام سے کیے ہوں ان کے حبط ہونے کا تذکرہ فرمایا، کافر کی کوئی نیکی آخرت میں فائدہ نہیں دے سکتی۔ (من روح المعانی)

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

32:۔ اُولئِکَ کا اشارہ مذکورہ صفات شنیعہ (کفر بآیات اللہ، قتل انبیاء (علیہم السلام) وقتل آمرین بالقسط) کے حاملین کی طرف ہے۔ اور دنیا میں اعمال کے بےنتیجہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں وہ ان تمام حقوق سے محروم رہیں جن کا ایک مسلمان مستحق ہوتا ہے۔ مثلاً مال وجان کی حفاظت اور استحقاق مدح وغیرہ اور آخرت میں اعمال کے ضائع ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ آخرت میں ان کے اعمال بےاثر ثابت ہونگے۔ اور دفع عذاب اور جلب ثواب کا سبب نہیں بن سکیں گے۔ ای اولئک المتصفون بتلک الصفات الشنیعۃ الذین بطلت اعمالھم وسقطت عن حیز الاعتبار وخدلت عن الثمره فی الدنیا حیث لم تحقن دمائھم واموالھم ولم یستحقوا بھا مدحا وثناء وفی الآخرۃ حیث لم تدفع عنہم العذاب ولم ینالوا الیھا الثواب (روح ج 3 ص 109)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

ف 1۔ بلا شبہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس کی آیات اور اس کی ہدایت کو ماننے سے انکار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبروں کو ناحق جانتے ہوئے قتل کر ڈالتے ہیں اور خدا کی مخلوق میں سے جو لوگ عدل و راستی اور حق و انصاف کی تعلیم و ترغیب دیتے ہیں ان کو بھی قتل کر ڈالتے ہیں ۔ سوائے پیغمبر ایسے لوگوں کو درد ناک عذاب کی خوش خبری دے دیجئے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعمال دنیا و آخرت دونوں میں ضائع ہوگئے اور ان کے تمام اعمال صالحہ غارت ہوگئے اور ان کا کوئی حامی و مدد گار نہ ہوگا یعنی عذاب کے وقت ۔ ( تیسیر) مطلب یہ ہے کہ خصائل مذکورہ بنی اسرائیل میں سے فرقہ یہود کے ہیں اور اگرچہ یہ کام سابقہ لوگوں نے کئے تھے لیکن حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ کے یہودی بھی اپنے اسلاف کی ان حرکات شنیعہ کو پ سندیدہ نگاہ سے دیکھتے تھے اس لئے ان افعال کی نسبت تمام یہود کی طرف صحیح ہے اور یہود کے یہ خلف صرف یہی نہیں کہ اپنے اسلاف کی ان نازیبا حرکات کو پسند کرتے تھے بلکہ نبی آخر الزمان ؐ کے قتل کی سازش بھی کیا کرتے تھے ۔ اس لئے پہلے اور پچھلے سب ہی مورد الزام قرار پائے۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب کا مستحق کون ہوگا ۔ آپ نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی نبی کو قتل کر دے یا ایسے شخص کو قتل کر دے جو بھلائی کا حکم کرے اور بری باتوں سے روکے ، پھر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی۔ ویقتلون النبین بغیر حق ویقتلون الذین یا مرون بالقسط من الناس پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ابو عبید ہ (رض) ! بنی اسرائیل نے تینتالیس 34 پیغمبروں کو ایک دن دوپہر تک قتل کردیا پھر ان کی جگہ ان کے متعبین میں سے ایک سو بارہ عالموں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خدمت اپنے ذمہ لے لی ۔ لیکن ا ن بنی اسرائیل نے ان سب علماء اور صوفیاء کو بھی شامل تک قتل کر ڈالا ۔ ان ہی لوگوں کا وہ واقعہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔ بعض روایات میں ایک سو ستر ہیں ۔ بغیر حق کا مطلب یہ ہے کہ یہود جانتے تھے کہ انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کا قتل کرنا حرام ہے اور نبی کا قتل کرنا بہر حال ناحق ہے اس لئے ہم نے ترجمہ اور تیسیر میں ناحق جانتے ہوئے ترجمہ کیا ہے اور ہم یہ بات سورة بقرہ میں بتا بھی چکے ہیں۔ اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ وہ صرف نبیوں کو ہی قتل نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے جانشین علماء اور زہاد کو بھی قتل کردیا کرتے تھے۔ گویا ہدایت کی تمام راہیں اور سب دروازے ہی مسدود کرنے کے درپے تھے اور ہمیشہ اہل باطل کا یہی دستور رہا ہے کہ انہوں نے پیغمبر کے بعد علماء حق کو قتل کیا ہے اور ان کے اثر کو زائل کرنے کی ہمیشہ کوشش کی ہے تا کہ حق کی مخالفت میں ان اہل باطل کو آسانیاں مہیا ہوجائیں اور کوئی جائز و ناجائز کہنے والا باقی نہ رہے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی آواز بند ہوجائے۔ حبطت کے معنی ہم سورة بقرہ میں بیان کرچکے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ ان حرکات کے باعث ان کے تمام نیک اعمال برباد ہوگئے ۔ دنیا میں بھی ان کی تمام کوششیں بیکار گئیں اور کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہو اور آخری میں بھی ان کے بھلے اعمال کا ان کو کوئی پھل نہیں ملا اور عذاب کے وقت ان کا کوئی حمایتی بھی نہیں نکلا جو ان کی کچھ مدد کرتا اور ہر کافر کے کفر کا انجام یہی ہوا کرتا ہے ۔ عذاب کی خبر کو بشارت سے تہکما ً ذکر فرمایا ہے جس طرح ایک ذی اقتدار سزا دیتے وقت کہا کرتا ہے کہ میں تم کو بشارت دیتا ہوں تم کو جیل بھیجا جائے گا یا سخت سزا دی جائے گی۔ آگے یہود کے ایک اور واقعہ کا ذکر ہے کسی موقع پر اثنائے گفتگو میں یہود نے کسی بات کا دعویٰ کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ ہماری کتاب میں ایسا ہی لکھا ہے ہوسکتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہودی کہہ کر توریت کی طرف نسبت کی ہو۔ جیسا کہ حضرت عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ زانی کو رجم کرنے کے سلسلہ میں کوئی غلط مسئلہ توریت کا نام لے کر بیان کردیا ہو جیسا کہ کلبی نے بواسطہ ابو صالح حضرت ابن عباس (رض) سے نقل کیا ہے۔ بہر حال اس بات پر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مطالبہ کیا کہ توریت لائو اور جو کچھ تم کہتے ہو وہ توریت میں دکھائو اس پر ان لوگوں نے توریت لانے سے انکار کردیا جس نے یہ غلط بیان کی اس کا نام ابن صور یا نعیم بن عمرو تھا ۔ بہر حال نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے۔ ( تسہیل)