Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 33

سورة آل عمران

اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰۤی اٰدَمَ وَ نُوۡحًا وَّ اٰلَ اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿ۙ۳۳﴾

Indeed, Allah chose Adam and Noah and the family of Abraham and the family of 'Imran over the worlds -

بیشک اللہ تعالٰی نے تمام جہان کے لوگوں میں سے آدم ( علیہ السلام ) کو اور نوح ( علیہ السلام ) کو ، ابراہیم ( علیہ السلام ) کے خاندان اور عمران کے خاندان کو منتخب فرمالیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Chosen Ones Among the People of the Earth Allah says; إِنَّ اللّهَ اصْطَفَى ادَمَ وَنُوحًا وَالَ إِبْرَاهِيمَ وَالَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَالَمِينَ ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِن بَعْضٍ وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ

سب سے پہلے نبی یعنی اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان بزرگ ہستیوں کو تمام جہان پر فضیلت عنایت فرمائی ، حضرت آدم کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ۔ اپنی روح ان میں پھونکی ہر چیز کے نام انہیں بتلائے ، جنت میں انہیں بسایا پھر اپنی حکمت کے اظہار کے لئے زمین پر اتارا ، جب زمین پر بت پرستی قائم ہو گئی تو حضرت نوح علیہ السلام کو سب سے پہلا رسول بنا کر بھیجا پھر جب ان کی قوم نے سرکشی کی پیغمبر کی ہدایت پر عمل نہ کیا ، حضرت نوح نے دن رات پوشیدہ اور ظاہر اللہ کی طرف دعوت دی لیکن قوم نے ایک نہ سنی تو نوح علیہ السلام کے فرماں برداروں کے سوا باقی سب کو پانی کے عذاب یعنی مشہور طوفان نوح بھیج کر ڈبو دیا ۔ خاندان خلیل اللہ علیہ صلوات اللہ کو اللہ تعالیٰ نے برگزیدگی عنایت فرمائی اسی خاندان میں سے سیدالبشر خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، عمران کے خاندان کو بھی اس نے منتخب کر لیا ، عمران نام ہے حضرت مریم کے والد صاحب کا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ ہیں ، ان کا نسب نامہ بقول محمد بن اسحاق یہ ہے ، عمران بن ہاشم بن میثا بن خرقیا بن اسیث بن ایازبن رخیعم بن سلیمان بن داؤد علیہما السلام ، پس عیسیٰ علیہ السلام بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہیں اس کا مفصل بیان سورۃ انعام کی تفسیر میں آئے گا ۔ انشاء اللہ الرحمن

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

33۔ 1 انبیاء (علیہ السلام) کے خاندانوں میں دو عمران ہوئے ہیں ایک حضرت موسیٰ و ہارون (علیہما السلام) کے والد اور دوسرے حضرت مریم (علیہ السلام) کے والد۔ اس آیت میں اکثر مفسرین کے نزدیک یہی دوسرے عمران مراد ہیں اور اس خاندان کو بلند درجہ حضرت مریم (علیہ السلام) اور ان کے بیٹے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی وجہ سے حاصل ہوا اور حضرت مریم (علیہ السلام) کی والدہ کا نام مفسرین نے حنّہ بنت فاقوذ لکھا ہے (تفسیر قرظبی و ابن کثیر) اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آل عمران کے علاوہ مزید تین خاندانوں کا تذکرہ فرمایا جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے وقت میں جہانوں پر فضیلت عطا فرمائی ان میں پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں جنہیں اللہ نے اپنے ہاتھ سے بنایا اور اس میں اپنی طرف سے روح پھونکی۔ دوسرے حضرت نوح (علیہ السلام) ہیں انہیں اس وقت کا رسول بنا کر بھیجا گیا جب لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو معبود بنا لیا انہیں عمر طویل عطا کی گئی انہوں نے اپنی قوم کو ساڑھے نو سو سال تبلیغ کی لیکن چند افراد کے سوا کوئی آپ پر ایمان نہیں لایا۔ بالآخر آپ کی بددعا سے اہل ایمان کے سوا دوسرے تمام لوگوں کو غرق کردیا گیا آل ابراہیم کو یہ فضیلت عطا کی گئی کہ ان میں انبیاء و سلاطین کا سلسلہ قائم کیا اور بیشتر پیغمبر آپ ہی کی نسل سے ہوئے حتیٰ کہ کائنات میں سب سے افضل حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بیٹے اسماعیل (علیہ السلام) کی نسل سے ہوئے۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[٣٥] اس آیت سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور ان کی امت نصاریٰ کا ذکر ہو رہا ہے۔ اس آیت میں یہ بتلایا جارہا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) انسان ہی تھے اور آدم ہی کی اولاد سے تھے۔ کوئی مافوق البشر ہستی نہیں تھے۔ پھر بعد میں یہ بتلایا گیا ہے کہ ان کی پیدائش کن حالات میں ہوئی اور کیسے ہوئی۔ بعدہ ان کی زندگی کے مختصر سے حالات اور پھر عیسیٰ (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کا اپنے ہاں اٹھا لینے کا ذکر ہے اور ساتھ ہی عیسائیوں کے عقائد باطلہ کی تردید بھی پیش کی جارہی ہے، جس وقت اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تو اس وقت کی موجودہ کائنات (آسمان و زمین، شمس و قمر، ستارے، جن اور فرشتے وغیرہ) میں فرشتے ہی تمام مخلوق سے افضل تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے حضرت آدم کو سجدہ کروایا اور حضرت آدم کو تمام جہان والوں پر فضیلت بخشی، پھر انہیں نبوت سے سرفراز فرمایا۔ پھر ان ہی کی اولاد میں نبی پیدا ہوتے رہے۔ پھر حضرت نوح کے بعد سلسلہ نبوت حضرت نوح کی اولاد سے مختص ہوگیا جو حضرت ابراہیم تک چلتا رہا۔ پھر یہ سلسلہ نبوت حضرت ابراہیم کی اولاد سے مختص ہوگیا۔ حتیٰ کہ نبی آخرالزمان بھی انہی کی اولاد سے تھے اور آل عمران کا ذکر بالخصوص اس لیے کیا کہ نسب تو مرد کی طرف سے چلتا ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بن باپ پیدا ہوئے تھے۔ البتہ ان کی والدہ حضرت مریم عمران ہی کے خاندان سے تھیں اور اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو منسوب بھی ان کی والدہ مریم ہی کی طرف کیا ہے۔ یہ عمران حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون کے والد کا نام ہے۔ انہی کی اولاد سے حضرت مریم تھیں اور اس سورت کا نام آل عمران بھی اسی نسبت سے ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت مریم کے والد کا نام بھی عمران ہو، جیسا کہ آیت کے الفاظ (قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ 35؀) 3 ۔ آل عمران :35) سے ہوتا ہے۔

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰٓي۔۔ : اوپر کی آیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع و اطاعت کا حکم دیا ہے، اب اس آیت میں آپ کی رسالت کے اثبات کے سلسلہ میں فرمایا جا رہا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعلق بھی اس خاندان نبوت سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہے (کیونکہ آپ آل ابراہیم سے ہیں) ۔ (شوکانی) عمران نام کی دو شخصیتیں گزری ہیں، ایک موسیٰ و ہارون (علیہ السلام) کے والد اور دوسرے مریم [ کے والد۔ اکثر مفسرین نے یہاں دوسرے عمران مراد لیے ہیں، کیونکہ انھی کی آل (مریم و عیسیٰ (علیہ السلام ) کا قصہ بیان کیا جا رہا ہے۔ (ابن کثیر، رازی) غالباً اس سورت کا نام بھی اسی قصہ کی بنا پر رکھا گیا ہے۔

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

In these verses a reference has been made to some past prophets to comfort the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) since disbelievers did not obey him because they doubted his prophethood. It is for their guidance that names of some past prophets have been cited to help remove such doubts. However, these prophets have been referred to very briefly as the main purpose is to mention Sayyidna ` Isa (علیہ السلام) which follows immediately because he will come again to this world and will work with the followers of the Holy Prophet (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، therefore, it is necessary for the Muslims to know his identification.

انبیاء سابقین کا تذکرہ برائے تسلی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) : جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت سے اس لئے گریز کرتے تھے کہ ان کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت و رسالت ہی میں شبہ تھا، ان کی ہدایت کے لئے ان آیات میں کچھ نظائر انبیاء سابقین (علیہم السلام) کے بیان فرماتے ہیں، جن سے یہ شبہات رفع ہوجائیں، ان انبیاء سابقین (علیہم السلام) کے تذکرہ میں حضرت آدم، نوح، آل ابراہیم، آل عمران (علیہم السلام) کا ذکر تو اجمال و اختصار کے ساتھ کردیا گیا ہے، اس کے بعد دراصل ذکر حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا کرنا ہے، اس سے پہلے ان کی نانی اور والدہ کا بھی تفصیلی تذکرہ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا نہایت مفصل ذکر کیا گیا ہے جس کی حکمت و مصلحت کا بیان مسئلہ حیات عیسیٰ (علیہ السلام) کے تحت آئے گا، خلاصہ یہ ہے کہ امت محمدیہ کو آخر زمانہ میں حضرت مسیح (علیہ السلام) کے ساتھ کام کرنا ہے اس لئے ان کی پہچان اور علامات کے بیان کرنے کا اہتمام قرآن میں سب انبیاء سے زیادہ کیا گیا ہے۔ خلاصہ تفسیر بیشک اللہ تعالیٰ نے ( نبوت کے لئے) منتخب فرمایا ہے ( حضرت) آدم (علیہ السلام) اور (حضرت) نوح ( علیہ السلام) کو اور ( حضرت) ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد ( میں سے بعضوں) کو ( جیسے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ، حضرت اسحاق (علیہ السلام) ، حضرت یعقوب (علیہ السلام) ، اور تمام انبیاء بنی اسرائیل کہ اولاد یعقوب (علیہ السلام) کی ہیں، اور ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اولاد اسماعیل (علیہ السلام) سے ہیں) اور عمران کی اولاد ( میں سے بعضوں) کو (اگر یہ عمران حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والد ہیں تو اولاد سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) ہیں، اور اگر یہ عمران حضرت مریم (علیہا السلام) کے والد ہیں تو اولاد سے مراد حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) ہیں، غرض ان حضرات کو نبوت کے لئے) تمام جہان ( کی مخلوقات) پر ( منتخب فرمایا ہے) بعضے ان میں بعضوں کی اولاد ہیں ( جیسے حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد سب ہیں، اسی طرح نوح (علیہ السلام) کی اولاد سب ہیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں اولاد عمران بھی ہے) اور اللہ تعالیٰ خوب سننے والے ہیں خوب جاننے ولے ہیں ( کہ سب کے قول سنتے ہیں سب کے احوال کو جانتے ہیں بس جس کے اقوال و احوال مناسب شان نبوت کے دیکھے ان کو نبی بنادیا) ۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

اِنَّ اللہَ اصْطَفٰٓي اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِيْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَي الْعٰلَمِيْنَ۝ ٣٣ ۙ اصْطِفَاءُ : تناولُ صَفْوِ الشیءِ ، كما أنّ الاختیار : تناول خيره، والاجتباء : تناول جبایته . واصْطِفَاءُ اللهِ بعضَ عباده قد يكون بإيجاده تعالیٰ إيّاه صَافِياً عن الشّوب الموجود في غيره، وقد يكون باختیاره وبحکمه وإن لم يتعرّ ذلک من الأوّل، قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ [ الحج/ 75] الاصطفا ء کے معنی صاف اور خالص چیز لے لینا کے ہیں جیسا کہ اختیار کے معنی بہتر چیز لے لینا آتے ہیں اور الا جتباء کے معنی جبایتہ یعنی عمدہ چیا منتخب کرلینا آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو چن لینا کبھی بطور ایجاد کے ہوتا ہے یعنی اسے ان اندرونی کثافتوں سے پاک وصاف پیدا کرتا ہے جو دوسروں میں پائی جاتی ہیں اور کبھی بطریق اختیار اور حکم کے ہوتا ہے گو یہ قسم پہلے معنی کے بغیر نہیں پائی جاتی ۔ قرآن میں ہے : اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ [ الحج/ 75] خدا فرشتوں اور انسانوں میں رسول منتخب کرلیتا ہے ۔ آدم آدم أبو البشر، قيل : سمّي بذلک لکون جسده من أديم الأرض، وقیل : لسمرةٍ في لونه . يقال : رجل آدم نحو أسمر، وقیل : سمّي بذلک لکونه من عناصر مختلفة وقوی متفرقة، كما قال تعالی: مِنْ نُطْفَةٍ أَمْشاجٍ نَبْتَلِيهِ [ الإنسان/ 2] . ويقال : جعلت فلاناً أَدَمَة أهلي، أي : خلطته بهم وقیل : سمّي بذلک لما طيّب به من الروح المنفوخ فيه المذکور في قوله تعالی: وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي [ الحجر/ 29] ، وجعل له العقل والفهم والرّوية التي فضّل بها علی غيره، كما قال تعالی: وَفَضَّلْناهُمْ عَلى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنا تَفْضِيلًا [ الإسراء/ 70] ، وذلک من قولهم : الإدام، وهو ما يطيّب به الطعام وفي الحدیث : «لو نظرت إليها فإنّه أحری أن يؤدم بينكما» أي : يؤلّف ويطيب . ( ادم ) ادم ۔ ابوالبشیر آدم (علیہ السلام) بعض نے کہا ہے ۔ کہ یہ ادیم لارض سے مشتق ہے اور ان کا نام آدم اس لئے رکھا گیا ہے کہ ان کے جسم کو بھی ادیم ارض یعنی روئے زمین کی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے اور بعض نے کہا ہے کہ یہ ادمۃ سے مشتق ہے جس کے معنی گندمی رنگ کے ہیں ۔ چونکہ آدم (علیہ السلام) بھی گندمی رنگ کے تھے اس لئے انہیں اس نام سے مسوسوم کیا گیا ہے چناچہ رجل آدم کے معنی گندمی رنگ مرد کے ہیں ۔ اور بعض آدم کی وجہ تسمیہ بیان ہے کہ وہ مختلف عناصر اور متفرق قویٰ کے امتزاج سے پیدا کئے گئے تھے ۔ جیسا کہ آیت { أَمْشَاجٍ نَبْتَلِيهِ } ( سورة الإِنْسان 2) مخلوط عناصر سے ۔۔۔۔ کہ اسے آزماتے ہیں ۔ سے معلوم ہوتا ہے۔ چناچہ محاورہ ہے جعلت فلانا ادمہ اھلی میں فلاں کو اپنے اہل و عیال میں ملالیا مخلوط کرلیا ۔ بعض نے کہا ہے کہ آدم ادام سے مشتق ہے اور ادام ( سالن وغیرہ ہر چیز کو کہتے ہیں جس سے طعام لو لذیز اور خوشگوار محسوس ہو اور آدم میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی روح ڈال کر اسے پاکیزہ بنا دیا تھا جیسے کہ آیت و نفخت فیہ من روحی (38 ۔ 72) اور اس میں اپنی روح پھونک دوں ۔ میں مذکور ہے اور پھر اسے عقل و فہم اور فکر عطا کرکے دوسری مخلوق پر فضیلت بھی دی ہے جیسے فرمایا : { وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا } ( سورة الإسراء 70) اور ہم نے انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر فضیلت دی ۔ اس بناء پر ان کا نام آدم رکھا گیا ہے اور حدیث میں ہے (8) لو نظرت الیھا فانہ احری ان یودم بینکما اگر تو اسے اپنی منگیرکو ایک نظر دیکھ لے تو اس سے تمہارے درمیان الفت اور خوشگواری پیدا ہوجانے کا زیادہ امکان ہے ۔ نوح نوح اسم نبيّ ، والنَّوْح : مصدر ناح أي : صاح بعویل، يقال : ناحت الحمامة نَوْحاً وأصل النَّوْح : اجتماع النّساء في المَنَاحَة، وهو من التّناوح . أي : التّقابل، يقال : جبلان يتناوحان، وریحان يتناوحان، وهذه الرّيح نَيْحَة تلك . أي : مقابلتها، والنَّوَائِح : النّساء، والمَنُوح : المجلس . ( ن و ح ) نوح ۔ یہ ایک نبی کا نام ہے دراصل یہ ناح ینوح کا مصدر ہے جس کے معنی بلند آواز کے ساتھ گریہ کرنے کے ہیں ۔ محاورہ ہے ناحت الحمامۃ نوحا فاختہ کا نوحہ کرنا نوح کے اصل معنی عورتوں کے ماتم کدہ میں جمع ہونے کے ہیں اور یہ تناوح سے مشتق ہے جس کے معنی ثقابل کے ہیں جیسے بجلان متنا وحان دو متقابل پہاڑ ۔ ریحان یتنا وحان وہ متقابل ہوائیں ۔ النوائع نوحہ گر عورتیں ۔ المنوح ۔ مجلس گریہ ۔ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

ال اور اہل ایک ہی چیز ہیں قول باری ہے (وال ابراھیم وآل عمران آل ابراہیم اور آل عمران کو) حضرت ابن عباس اور حسن بصری سے مروی ہے کہ آل ابراہیم وہ اہل ایمان ہیں جو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دین پر قائم ہیں۔ حسن کا قول ہے کہ آل عمران سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں اس لیئے کہ وہ حضرت مریم کے بیٹے ہیں۔ جو عمران کی بیٹی تھیں۔ ایک قول ہے کہ آل عمران سے مراد آل ابراہیم ہی ہیں جس طرح کہ قول باری ہے (ذریۃ بعضھا من بعض، یہ ایک سلسلے کے لوگ تھے جو ایک نسل سے پیدا ہوئے تھے۔ ) ان سے مراد حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون ہیں جو عمران کے بیٹے تھے۔ ہمارے اصحاب کے نزدیک لفظ آل اور لفظ اہل بیت دونوں کا مفہوم ایک ہے اس لیے اگر کوئی شخص فلاں کی ال کے لیئے وصیت کرتا ہے تو اس کی حیثیت وہی ہوگی جو فلاں کے اہل بیت کے لیے وصیت کی ہے۔ اس لیے یہ وصیت ان سب کے لیے ہوگی جو اس فلاں کے ساتھ دادا میں شریک ہوجاتے ہیں جس کی طرف یہ سب کے سب اپنے آباء کے واسطے منسوب ہوتے ہیں۔ اس لیے مثلا آل النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور اہل بیت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دونوں ایک ہی مفہوم ادا کرتے ہیں۔ البتہ سے یہ صورت خارج ہے کہ کوئی شخص ایسا ہو جس کی طرف آل منسوب ہو تو اس صورت میں اس سے مراد گھرانہ یا خاندان ہوگا جوا س کی طرف منسوب ہوگا۔ مثلا ہم کہتے ہیں آل عباس آل علی وغیرہ تو اس سے مراد عباس اور علی کی اولاد ہے جو اپنے آباء کی وساطت سے ان دونوں کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔ یہ معنی اس اصول پر مبنی ہے جو لوگوں میں متعارف ومعتاد ہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

سورة آل عمران کے نصف اوّل کا دوسرا حصہ ٣١ آیات پر مشتمل ہے۔ اس حصے میں خطاب براہ راست نصاریٰ سے ہے اور انہیں بتایا گیا ہے کہ یہ جو تم نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو معبود بنا لیا ہے اور تثلیث (Trinity) کا عقیدہ گھڑ لیا ہے یہ سب باطل ہے۔ عیسائیوں کے ہاں دو طرح کی تثلیث رائج رہی ہے ۔۔ (i خدا ‘ مریم اور عیسیٰ ( علیہ السلام) ۔۔ اور (ii خدا ‘ روح القدس اور عیسیٰ ( علیہ السلام) ۔ یہاں پر واضح کردیا گیا کہ یہ جو تثلیثیں تم نے ایجاد کرلی ہیں ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے ‘ یہ تمہاری کج روی ہے۔ تم نے غلط شکل اختیار کی ہے۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) بہت برگزیدہ پیغمبر تھے۔ ہاں ان کی ولادت معجزانہ طریقے پر ہوئی ہے۔ لیکن ان سے متصلاً قبل حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کی ولادت بھی تو معجزانہ ہوئی تھی۔ وہ بھی کوئی کم معجزہ نہیں ہے۔ اور پھر حضرت آدم (علیہ السلام) کی ولادت بھی تو بہت بڑا معجزہ ہے۔ اللہ نے آدم ( علیہ السلام) کو پیدا کیا اور ان سے نسل انسانی کا آغاز ہوا۔ چناچہ اگر کسی کی معجزانہ ولادت الوہیت کی دلیل ہے تو کیا حضرت آدم ( علیہ السلام) اور حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) بھی الٰہ ہیں ؟ تو یہ ساری بحث اسی موضوع پر ہو رہی ہے۔ آیت ٣٣ (اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفآی اٰدَمَ وَنُوْحًا وَّاٰلَ اِبْرٰہِیْمَ وَاٰلَ عِمْرٰنَ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ ) ۔ اِصطفاء کے معنی منتخب کرنے یا چن لینے (selection) کے ہیں۔ زیر مطالعہ آیت سے متبادر ہوتا ہے کہ حضرت آدم ( علیہ السلام) کا بھی اصطفاء ہوا ہے۔ اس میں ان لوگوں کے لیے ایک دلیل موجود ہے جو تخلیق آدم کے ضمن میں یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ پہلے ایک نوع (species) وجود میں آئی تھی اور اللہ نے اس نوع کے ایک فرد کو چن کر اس میں اپنی روح پھونکی تو وہ آدم ( علیہ السلام) بن گئے۔ چناچہ وہ بھی چنیدہ (selected) تھے۔ اِصطفاء کے ایک عام معنی بھی ہوتے ہیں ‘ یعنی پسند کرلینا۔ ان معنوں میں آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم ( علیہ السلام) کو اور نوح ( علیہ السلام) کو اور ابراہیم (علیہ السلام) کے خاندان کو اور عمران کے خاندان کو تمام جہان والوں پر ترجیح دے کر پسند کرلیا۔ تاریخ بنی اسرائیل میں عمران دو عظیم شخصیتوں کے نام ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والد کا نام بھی عمران تھا اور حضرت مریم کے والد یعنی حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے نانا کا نام بھی عمران تھا۔ یہاں پر غالباً حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے والد مراد ہیں۔ لیکن آگے چونکہ حضرت مریم ( علیہ السلام) اور عیسیٰ ( علیہ السلام) کا تذکرہ آرہا ہے ‘ لہٰذا عین ممکن ہے کہ یہاں پر حضرت مریم ( علیہ السلام) کے والد کی طرف اشارہ ہو۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

29. This marks the beginning of the second discourse. The period of its revelation is about 9 A.H., when a delegation from the Christian republic of Najran visited the Prophet. Najran lies between the Hijaz and Yaman, and comprised, at that time, seventy-three towns and villages. Its population can be gauged from the fact that an estimated one hundred and twenty thousand men could bear arms. The entire population was Christian and was under the hegemony of three Christian chiefs. The first of these, 'aqib, was the head of the community. The second, sayyid, looked after the collective and political affairs of the people. The third, usquf (bishop) , was their religious leader. (See Ibn Hisham, vol. 1, p. 573; Ibn Ishaq, Life of Muhammad, tr. A. Guillaume, pp. 270 f. - Ed.) When the Prophet annexed Makka, the whole of Arabia became convinced that the future of the area was bound up with him, and deputations from all parts of the peninsula began to visit him. In this connection the three chiefs of Najran came to Madina accompanied by sixty people. As they were not prepared to go to war, the alternatives before them were either to embrace Islam or to live as dhimmis (protected non-Muslim subjects of the Islamic state) . It was on this occasion that God revealed this discourse; it served as an invitation to the people of Najran to accept Islam. 30. 'Imran was the father of Moses and Aaron, and has been mentioned in the Bible as Amram.

سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :29 یہاں سے دوسرا خطبہ شروع ہوتا ہے ۔ اس کے نزول کا زمانہ سن ۹ ہجری ہے ، جب کہ نجران کی عیسائی جمہوریت کا وفد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا ۔ نجران کا علاقہ حجاز اور یمن کے درمیان ہے ۔ اس وقت اس علاقے میں ۷۳ بستیاں شامل تھیں اور کہا جاتا ہے کہ ایک لاکھ ۲۰ ہزار قابل جنگ مرد اس میں سے نکل سکتے تھے ۔ آبادی تمام تر عیسائی تھی اور تین سرداروں کے زیر حکم تھی ۔ ایک عاقب کہلاتا تھا ، جس کی حیثیت امیر قوم کی تھی ۔ دوسرا سید کہلاتا تھا ، جو ان کے تمدنی و سیاسی امور کی نگرانی کرتا تھا اور تیسرا ُسقف ( بشپ ) تھا جس سے مذہبی پیشوائی متعلق تھی ۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا اور تمام اہل عرب کو یقین ہو گیا کہ ملک کا مستقبل اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہے ، تو عرب کے مختلف گوشوں سے آپ کے پاس وفد آنے شروع ہو گئے ۔ اسی سلسلے میں نجران کے تینوں سردار بھی ٦۰ آدمیوں کا ایک وفد لے کر مدینے پہنچے ۔ جنگ کے لیے بہرحال وہ تیار نہ تھے ۔ اب سوال صرف یہ تھا کہ آیا وہ اسلام قبول کرتے ہیں یا ذمی بن کر رہنا چاہتے ہیں ۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ خطبہ نازل کیا تاکہ اس کے ذریعے سے وفد نجران کو اسلام کی طرف دعوت دی جائے ۔ سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :30 عمران حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے والد کا نام تھا ، جسے بائیبل میں ”عمرام“ لکھا ہے ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(33 ۔ 34) ۔ اوپر کی آیت میں اللہ کے رسول کی اطاعت کا ذکر تھا اس کے پورا کرنے کے لئے اس آیت میں رسولوں کے انتخاب کا سلسلہ بیان فرمایا پہلے نبی آدم (علیہ السلام) تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے بنایا۔ اور جن سے سب انبیاء اور امتوں کا سلسلہ چلا۔ لیکن آدم ( علیہ السلام) سے لے کر حضرت نوح (علیہ السلام) کے نبی ہونے تک کوئی حرام حلال کی شریعت نہیں تھی۔ چناچہ شفاعت کی صحیح حدیث میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو اول صاحب شریعت نبی فرمایا ہے ١۔ اس لئے سلسلہ انبیاء کے دوسرے اور صاحب شریعت انبیا کے اول منتخب نبی حضرت نوح (علیہ السلام) اور تیسرے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) جن کی وہ شاخیں ایک شاخ حضرت اسحاق کی جس میں بنی اسرائیل ہیں ان میں نبوت آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ تک رہی دوسری شاخ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) جس میں محمد رسول اللہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ یہ اوپر گذر چکا ہے کہ اسرائیل حضرت یعقوب کا لقب ہے۔ اس لئے بنی اسرائیل اولاد یعقوب میں پہلے نبی حضرت یوسف ہیں اور آخری نبی حضرت عیسیٰ ۔ عمران سے یہاں عمران بن ماثان حضرت مریم کے باپ مراد ہیں اور اسی سلسلہ میں بنی اسرائیل کے اکثر رئیس اور علماء ہوئے ہیں ایک عمران بن یصہر حضرت موسیٰ اور ہارون کے والد بھی ہیں۔ لیکن آیت میں عمران کے ذکر کے بعد حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ کا ذکر ہے۔ اس لئے آیت میں حضرت مریم کے والد ثانی کا ذکر معلوم ہوتا ہے ان دونوں عمرانوں کا اٹھارہ سو برس کے قریب کا فاصلہ ہے۔ اس آیت میں اہل کتاب اور مشرکین عرب دونوں کو تنبیہ ہے کہ حضرت ابراہیم کی شاخوں میں اگرچہ یہ دونوں ہیں مگر ان کے طریقہ پر دونوں میں سے کوئی بھی نہیں ہے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(3:33) اصطفی۔ اصطفاء (افتعال) سے ماضی۔ واحد مذکر غائب اس نے چن لیا۔ اس نے پسند کرلیا۔ صفو سے باب افتعال میں ت کو ط سے اور واؤ کو ی سے بدل کر اصطفی ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو چن لینا۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 4 اوپر کی آیات میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کا حکم دیا ہے اور اب اس آیت میں آپ کی رسالت کے اثبات کے سلسلہ میں فرمایا رہا ہے کہ آّنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تعلق بھی اس خاندان نبوت سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے چن لیا ہے۔ (شوکانی) عمران نام کی دو سخصتیں گذری ہیں ایک موسیٰ ( علیہ السلام) و ہارو ( علیہ السلام) کے والد اور دسرے حضرت مریم (رض) کے والد اکثر مفسرین (رح) نے یہاں عمران ثانی مراد لیا ہے کیونکہ انہی کی آل۔ حضڑت مریم ( علیہ السلام) و عیسیٰ ( علیہ السلام) ۔ کا قصہ بیان کیا جا ہا ہے۔ (ابن کثیر۔ کثیر) غالبا اس سورة کا نام آل عمران اسی قصہ پر رکھا گیا ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 33 تا 41 اصطفی (اس نے چن لیا، منتخب کرلیا) انی نذرت (بےشک میں نے منت مان لی) بطنی (میرا پیٹ) محرر (آزاد) وصعت (اس نے جنم دیا (پیدا کیا) انثیٰ (عورت ، لڑکی) سمیت (میں نے نام رکھ دیا) مریم (پاک باز، نیک) اعیذ (میں نے پناہ میں دے دیا) بقول حسن (بہترین طریقے پر قبول کرنا) انب تھا (اس نے اس کو پروان چڑھایا) کفل (وہ ذمہ دار ہوا) المحراب (عبادت کی جگہ، نماز پڑھنے کی جگہ) انی لک ھٰذا (یہ تیرے پاس کہاں سے آیا) ھنالک (اسی جگہ، اسی موقع پر) دعا (پکارا، دعا کی) ھب لی (مجھے عطا فرمادیجئے) ذریة طیبة (بہترین اولاد) سمیع الدعاء (دعا کا سننے والا) نادت (آواز دی) یصلی (وہ نماز پڑھتا ہے) یبشرک (تجھے خوشخبری دیتا ہے) سید (سرادار) حصور (پاک باز) انی یکون (کیسے ہوگا، کہاں سے ہوگا) غلام (لڑکا) بلغنی (مجھے پہنچ گیا) الکبر (بڑھاپا) امراتی (میری بیوی) عاقر (بانجھ (جس عورت کے بچہ ہونا ممکن نہ ہو) الاتکم (یہ کہ تو کلام نہ کرے گا) ثلثٰة ایام (تین دن) رمز (اشارہ) العشی (شام ، رات) الابکار (صبح، صبح تڑکے) ۔ تشریح : آیت نمبر 33 تا 41 عیسائیوں کی گمراہی کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ حضرت عیسیٰ ابن مریم کو اللہ کا بندہ اور رسول ماننے کے بجائے انہیں اللہ کا بیٹا اور اس کی الوہیت میں شریک سمجھتے تھے اس لئے نخران سے آئے ہوئے وفد کو سمجھانے کے لئے اس مضمون کو اس طرح شروع کیا گیا ہے کہ حضرت آدم ، حضرت نوح، آل ابراہیم اور آل عمران سب کے سب اللہ کے برگزیدہ اور نیک انسان تھے جن کو دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا تھا۔ وہ ایک دوسرے کی نسل سے تھے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلا آرہا ہے ان میں سے کوئی بھی اللہ کی الوہیت میں شریک نہ تھا بلکہ انسانوں کے گروہ میں سے عظیم انسان تھے۔ حضرت عیسیٰ کے تفصیلی حالات بیان کرنے سے پہلے اللہ نے آپ کی والدہ ماجدہ حضرت مریم کی پیدائش اور ان کے حالات بیان فرمائے کہ کس طرح اللہ نے ان پر اور آل عمران پر اپنی عنایات اور کرم نوازیاں کی ہیں۔ بعض وہ عیسائی جو حضرت عیسیٰ کے ساتھ حضرت مریم کو بھی الوہیت میں شامل سمجھتے تھے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا کہ مریم تو خود کتنی دعاؤں کے بعد پیدا ہوئیں اور کس طرح اور کن حالات میں ان کی پرورش میں کس طرح دوسروں کی محتاج رہیں۔ بھلا وہ جو اپنی پیدائش، پرورش اور نشوونما میں دوسروں کا محتاج ہو وہ معبود کس طرح ہوسکتا ہے۔ حضرت مریم کے والد کا نام عمران تھا۔ حضرت مریم کی والدہ نے دعا کی الہٰی اگر مجھے آپ اولاد عطا فرمادیں گے تو میں اس کو آپ کے دین کے لئے ازادرکھوں گی۔ اس زمانہ میں اس بات کو بہت بڑی نیکی سمجھا جاتا تھا کہ پیدا ہونے والی الاد کو اس طرح اللہ کے گھر اور اس کی عبادت کے لئے آزاد کردیا جائے کہ وہ زندگی کی تمام ذمہ داریوں سے الگ رہتے ہوئے صرف اسی کی بندگی میں لگا رہے۔ اس دعا میں حضرت مریم کی والدہ نے گویا اشارۃً بیٹے کی تمنا کی تھی۔ اللہ نے ان کی دعا کو قبول فرمایا اور ان کے گھر میں حضرت مریم پیدا ہوئیں۔ حضرت مریم کی پیدائش کے بعد ان کی والدہ سخت پریشان ہوئیں کہ لڑکی پیدا ہوئی ہے اس کو اللہ کے لئے میں کیسے آزاد کروں گی۔ اللہ نے ان کے دل میں اس بات کو القا فرمایا کہ اے مریم کی والدہ تمہیں معلوم نہیں ہے کہ یہ لڑکی کتنی باعظمت ہے۔ اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کا اظہار فرمائیں گے۔ حضرت مریم کچھ بڑی ہوئیں تو منت کے مطابق ان کو عبادت کے لئے مخصوص کردیا گیا اور حضرت زکریا (علیہ السلام) جو اس وقت عبادت خانہ (بیت المقدس) کے متولی بھی تھے اور حضرت مریم کے خالو بھی تھے ان کی کفالت و نگرانی میں دے دی گئیں۔ ایک علیحدہ کمرہ میں ان کو رکھا گیا۔ جب حضرت مریم جوان ہوگئیں تو حضرت زکریا (علیہ السلام) باہر سے تالا ڈال کر جایا کرتے تھے مگر جب واپس آتے تو دیکھتے کہ حضرت مریم اللہ کی عبادت میں مشغول ہیں اور ان کے پاس بےموسم کے طرح طرح کے پھل رکھے ہوئے ہیں۔ ایک دن حضرت زکریا (علیہ السلام) نے حضرت مریم سے پوچھا کہ اتنے اچھے اور تازہ بےموسم کے پھل کہاں سے آتے ہیں ؟ حضرت مریم کا جواب تھا یہ سب اللہ کی طرف سے ہے۔ حضرت زکریا نے اس جگہ ان انوارات کو محسوس کیا اور بےساختہ زبان پر یہ دعا آگئی۔ الہٰی اگر مریم کو بےموسم کے پھل دے سکتے ہیں تو میں اگرچہ بوڑھا ہوچکا ہوں اور اولاد پیدا ہونے کا ظاہری امکان بھی موجود نہیں ہے لیکن آپ کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ آپ مجھے ایک صالح بیٹا عطا فرمادیجئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا (علیہ السلام) کی دعا کو قبول فرمایا۔ ایک دن وہ محراب میں نماز ادا فرما رہے تھے فرشتوں نے اللہ کی طرف سے ان کو بیٹے کی خوشخبری دی۔ حضرت زکریا نے حیرت اور تعجب اور کچھ یقین حاصل کرنے کے لئے بےساختہ عرض کیا الہٰی میری تمنا خواہش اور دعا تو اپنی جگہ ہے لیکن کیا میرے ہاں اولاد ہوگی جبکہ میں بوڑھا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے ؟ اللہ نے فرمایا کہ ہاں اے زکریا۔ ہم دنیا کے اسباب کے محتاج نہیں ہیں ہم تمہیں یحیٰ (علیہ السلام) جیسا بیٹا دیں گے جو اللہ کے ایک کلمہ یعنی حضرت عیسیٰ کی تصدیق کرنے والے ہوں گے۔ ان میں سرداری اور بزرگی کی تمام شانیں موجود ہوں گی وہ نبوت سے بھی سرفراز ہوں گے اور ان کا صالحین میں شمار ہوگا۔ حضرت زکریا نے عرض کیا الہٰی میرے لئے اس کی کوئی نشانی مقرر کردیجئے اللہ نے فرمایا اے زکریا جب یہ واقعہ ہوگا تو تم تین دن تک سوائے اشاروں کے لوگوں سے بات نہ کرسکو گے۔ چونکہ اللہ کی یہ نعمت ہے جو تمہیں عطا کی جارہی ہے لہٰذا اس دوران تم اپنے پروردگار کو بہت یاد کرنا اور صبح وشام اسکی تسبیح کرتے رہنا یہ اسکی نعمت کا شکر ادا کرنیکے مترادف ہوگا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ اگر یہ عمران حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے والد ہیں تو اولاد سے مراد حضرت ومسی (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) ہیں اور اگر یہ عمران حضرت مریم (علیہا السلام) کے والد ہیں تو اولاد سے مراد حضرت عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام) ہیں۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : یہاں سے خطاب کا رخ عیسائیوں کی طرف کیا جارہا ہے۔ جس کی ابتدا حضرت آدم، حضرت نوح ‘ حضرت ابراہیم اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خاندانی حالات سے کی گئی ہے کہ یہ سب انسان تھے تو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کس طرح خدا بن گئے ؟ عیسائیوں کے نظریات کی اصلاح، حضرت عیسیٰ اور مریم ( علیہ السلام) کے بارے میں ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے سے پہلے دنیا کی عظیم ترین شخصیات کا اس لیے حوالہ دیا جارہا ہے کہ عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے کلمہ اور محبوب پیغمبر ہیں ‘ مگر ان شخصیات سے عظیم تر نہیں بلکہ وہ انہی کے روحانی اور نسبی فرزند ہیں۔ چناچہ عیسیٰ (علیہ السلام) کا خاندانی پس منظر اس طرح ہے کہ جب ان کے نانا حضرت عمران (علیہ السلام) کی بیوی نے اپنے رب کے حضور یہ نذر مانی کہ اے اللہ ! میرے بطن میں جو ہے میں اسے تیرے لیے وقف کرتی ہوں۔ تو میری طرف سے اسے قبول فرما۔ لیکن جب اس نے جنم دیا تو وہ بیٹے کی بجائے بیٹی تھی اس نے اپنے رب کے حضور عرض کی کہ الٰہی ! یہ تو بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا تھا جو اس نے جنم دیا ہے بلا شبہ لڑکی لڑکے کی مانند نہیں ہوسکتی۔ زوجہ عمران نے اس کا نام مریم رکھنے کے بعد دعا کی کہ الٰہی ! میں اسے اور اس کی اولاد کو شیطان لعین سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی فریاد کو خوب قبول فرمایا اور حضرت مریم (علیہ السلام) کی بہترین نشوونما فرمائی اور اس کی کفالت حضرت زکریا (علیہ السلام) کے ذمہ ٹھہری۔ حضرت مریم ع[ کی پیدائش کے بارے میں مشہور مفسر امام رازی لکھتے ہیں کہ مریم کی والدہ نہایت ہی بوڑھی ہوچکی تھیں۔ ایک دن ایک درخت کے نیچے تشریف فرما تھیں۔ کیا دیکھتی ہیں کہ ایک پرندہ اپنے بچوں کے منہ میں منہ ڈال کر دانہ کھلا رہا ہے اس منظر نے ان کی طبیعت میں عجیب احساس پیدا کیا۔ فوراً اللہ تعالیٰ کے حضور فریاد کرنے لگیں کہ الٰہی ! اگر تو مجھے بیٹا عطا فرمائے تو میں اسے تیری راہ میں وقف کروں گی جس کے نتیجے میں مریم [ پید اہوئیں۔ ” حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ آدم (علیہ السلام) کی اولاد میں ہر پیدا ہونے والے بچے کو شیطان مس کرتا ہے۔ بچہ شیطان کے چھونے کی وجہ سے چیختا ہے لیکن مریم اور عیسیٰ (علیہ السلام) اس سے مستثنیٰ ہیں۔ پھر ابوہریرہ (رض) نے اس آیت کی تلاوت کی (وَإِنِّیْ أُعِیْذُھَا بِکَ وَذُرِّیَّتَھَا مِنَ الشَّیْطَان الرَّجِیْمِ ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ واذکر فی الکتاب مریم ] (عَنْ عَاءِشَۃَ (رض) عَنِ النَّبِیِّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قَالَ مَنْ نَذَرَ أَنْ یُّطِیْعَ اللّٰہَ فَلْیُطِعْہُ وَمَنْ نَذَرَ أَنْ یَّعْصِیَہٗ فَلَا یَعْصِہٖ ) [ رواہ البخاری : کتاب الأیمان والنذور، باب النذر فی الطاعۃ ] ” حضرت عائشہ (رض) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بیان کرتی ہیں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے نذرمانی کہ وہ اللہ کی اطاعت کرے گا تو اسے پورا کرنا چاہیے اور جو اس کی نافرمانی کی نذر مانے اسے اس سے باز رہنا چاہیے۔ “ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) حضرت نوح (علیہ السلام) آل ابراہیم اور آل عمران کو منتخب کرلیا تھا۔ ٢۔ نذر پوری کرنی چاہیے۔ ٣۔ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے شیطان کے شر سے محفوظ رکھا۔ تفسیر بالقرآن اللہ تعالیٰ کے منتخب کردہ حضرات : ١۔ آدم، نوح (علیہ السلام) ، آل ابراہیم اور آل عمران۔ (آل عمران : ٣٣) ٢۔ حضرت مریم [۔ (آل عمران : ٤٢) ٣۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ۔ (الاعراف : ١٤٤) ٤۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) منفرد اور منتخب۔ (البقرۃ : ١٣٠) ٥۔ حضرت اسحاق و یعقوب (علیہ السلام) اللہ کے منتخب کردہ ہیں۔ (ص : ٤٥ تا ٤٧) ٦۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رحمۃ للعالمین اور خاتم النبیین ہیں۔ (الانبیاء : ١٠٧‘ الاحزاب : ٤٠)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

درس ٢٤ ایک نظر میں بعض وہ روایات ‘ جن میں رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور وفد نجران کے درمیان مناظرے کیا بیان آیا ہے۔ یہ کہتی ہیں کہ اس سورت میں جن قصوں کا ذکر ہوا ہے ۔ مثلاً حضرت عیسیٰ کی ولادت ‘ ان کی والدہ کی ولادت ‘ حضرت یحییٰ اور دوسرے واقعات ‘ ان شبہات کے رد میں نازل ہوئے ۔ جن کو لے کر یہ وفد آیا تھا ۔ اور ان لوگوں کے شبہات کی عمارت قرآن کریم کی اس آیت پر کھڑی کی گئی تھی جس میں کہا گیا کہ حضرت عیسیٰ کَلِمَۃُ اللّٰہِ …………ہیں جو مریم کی طرف آیا اور وہ ” اس کا روح “ ہیں نیز سورت مریم میں جن امور کا ذکر نہ ہوا تھا انہوں نے اس کے بارے میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جواب طلب کیا تھا۔ یہ بات درست بھی ہوسکتی ہے ‘ لیکن اس سورت میں جس طرح ان قصوں کو لایا گیا ہے وہ بعینہ اسی طریقہ پر ہے جس طرح قرآن کریم قصوں کو لاتا ہے۔ یعنی کچھ حقائق پیش نظر ہوتے ہیں ۔ اور ان قصوں کے ذریعے قرآن کریم ان حقائق کو ذہن نشین کرتا ہے اور وہ حقائق دراصل پوری سورت کا موضوع سخن ہوتے ہیں ‘ جو اس موضوع کے گرد گھومتے ہیں ۔ اور قصوں کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے کہ خود بخود ان سے وہ حقائق ظاہر ہوتے ہیں اور ذہن نشین ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ اور وہ حقائق زندہ حقائق بن جاتے ہیں اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ بعض حقائق اور تصورات کے قصوں کے ذریعے بڑی خوبصورتی کے ساتھ ذہن نشین کردیا جاتا ہے ‘ انسان پر ان کا گہرا اثر ہوتا ہے اور وہ زندہ صورت میں نظر آتے ہیں ۔ وہ حقائق زندہ حقائق بن جاتے ہیں اور یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ بعض حقائق اور تصورات کے قصوں کے ذریعے بڑی خوبصورتی کے ساتھ ذہن نشین کردیا جاتا ہے ‘ انسان پر ان کا گہرا اثر ہوتا ہے اور وہ زندہ صورت میں نظر آتے ہیں ۔ وہ حقائق انسان کی زندگی میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں جس طرح اسکرین پر کردار ہوتے ہیں ۔ محض فلسفیانہ اور تجریدی انداز بیان کے مقابلے میں حکایتی انداز بیان بہت ہی موثر ہوتا ہے ۔ اگر غور کریں تو ان قصوں سے بھی وہ حقائق اچھی طرح کھل کر سامنے آتے ہیں جو اس سورت کا موضوع ہیں اور یہ سورت ان حقائق پر مرکوز ہے ۔ اور جن خطوط پر اس میں بحث ہورہی ہے اسی پر یہ قصے چلتے ہیں ۔ اس لئے ان قصوں میں ‘ ان کے شان نزول کا کوئی مخصوص واقعہ نظر نہیں آتا ۔ بلکہ قصوں سے وہ واقعات لئے گئے ہیں جو اصل واقعات ہیں اور جن سے اسلام کا نظریاتی پہلو اچھی طرح واضح ہوتا ہے۔ اس سورت کا اصل مسئلہ جس طرح کہ ہم اس سے پہلے کہہ آئے ہیں ۔ عقیدہ توحید ہے ۔ یہ کہ اللہ اپنی ذات میں ایک ہے اور اس کے سوا کوئی الٰہ موجود نہیں ہے ۔ اور یہ کہ وہ واحد نگہبان ہے اور اس جہاں کو چلانے والا ہے۔ اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ اور دوسرے وہ قصص جو اس کی تکمیل میں یہاں لائے گئے ہیں وہ اس عقیدہ ٔ توحید کو اچھی طرح ثابت کرتے ہیں ۔ یہ قصص اللہ کے لئے اولاد کے تصور کی نفی کرتے ہیں ‘ اس لئے شرک کے تصور کو رد کرتے ہیں ۔ وہ ان تصورات کو بعید از قیاس اور بعید ازفہم بناتے ہیں ۔ یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس قسم کے شبہات غلط ہیں ۔ اور ایسے تصورات کھوٹے تصورات ہیں ۔ اس لئے حضرت مریم کی پیدائش کے واقعات کھول کر بیان کئے جاتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ کی پیدائش کی تصویر کھینچی جاتی ہے اور متعلقہ واقعات دیئے جاتے ہیں۔ یہ واقعات اس انداز میں لائے جاتے ہیں کہ پڑھنے والے کے ذہن میں اس کی بشریت کے بارے میں کوئی شبہ ہی نہیں رہتا ۔ اور پھر یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ اسی طرح رسول ہیں جس طرح دوسرے رسول گزرے ہیں ۔ ان کا ہی مقام ہے جو ان رسولوں کا تھا۔ ان کی طبعی حقیقت بھی وہی ہے جو ان رسولوں کی تھی ‘ یہ قصص حضرت عیسیٰ کی اور غیر معمولی پیدائش کے خارق العادت واقعہ کی ایسی تعبیر اور ایسی تشریح کرتے ہیں کہ جس سے اس اعجوبے کی دل لگتی تعبیر سامنے آجاتی ہے ۔ جس میں کوئی پیچیدگی اور کوئی لاینحل عقدہ نہیں رہتا ۔ اور اس تعبیر پر دل و دماغ بالکل مطمئن ہوجاتے ہیں اور یہ معاملہ ایک عام اور عادی معاملہ بن جاتا ہے اس میں کوئی بات خارق العادت نظر نہیں آتی اور قصے کے آخر میں جو اختتامیہ آتا ہے وہ قابل غور ہے۔ إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ ” بیشک اللہ کے نزدیک عیسیٰ کی پیدائش آدم کی طرح تھی ۔ اس کو اللہ نے مٹی سے بنایا اور پھر اس کو کہا ہوجا ‘ تو ہوگیا “ یوں دل کو یقین اور سکون نصیب ہوگیا ۔ تعجب ہوتا ہے کہ اس سادہ حقیقت کے بارے میں کیونکر شبہات پیدا ہوئے۔ اس سورت میں جو دوسرا اہم مسئلہ بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے ۔ یہ دوسرا مسئلہ بھی پہلے مسئلے یعنی عقیدہ توحید پر مبنی ہے۔ یعنی دین اسلام ہے اور اسلام کا مفہوم اتباع اور انقیاد ہے ۔ یہ بات بھی ان قصص کے اندر بڑی وضاحت سے بیان کی گئی ہے ۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل سے کہتے ہیں ” میں اپنے سے پہلے نازل ہونیوالی کتاب تورات کی تصدیق کرتا ہوں اور اس لئے کہ میں حلال کروں بعض ان اشیاء کو جو تم پر حرام قرار دی گئی تھیں ۔ “ اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ رسالت کی نوعیت کیا ہوتی ہے۔ رسول دراصل بھیجا ہی اس لئے جاتا ہے کہ وہ لوگوں کے لئے نظام زندگی تجویز کرے ۔ ان کے لئے حلال و حرام کا ضابطہ وضع کرے تاکہ اہل ایمان اسے تسلیم کریں اور اطاعت کریں ۔ اس کے بعد حواریوں کی زبانی بھی اسی مفہوم کی تائید کی گئی ۔” جب عیسیٰ (علیہ السلام) نے محسوس کیا کہہ یہ لوگ کفر پر کمر بستہ ہوگئے ہیں ‘ تو آپ نے کہا کون ہے میری مدد کرنے والا اللہ کی راہ میں ؟ حواریوں نے کہا :” ہم ہیں اللہ کے مددگار ہم اللہ پر ایمان لائے ‘ آپ گواہ رہیں کہ ہم مسلمان ہیں ۔ اے ہمارے رب ! ہم ایمان لائے اس پر جو تونے اتارا ہے اور ہم رسول کے مطیع فرمان ہوگئے ہیں۔ ہمیں بھی آپ گواہوں میں لکھ دیجئے ۔ “ اس سورت کا ایک اہم موضوع یہ تھا کہ اہل ایمان اور ان کے اللہ کے درمیان تعلق کی کیا نوعیت ہوتی ہے ۔ ان قصص میں تعلق باللہ پر بھی کافی بات ہوئی ہے ۔ ان قصوں میں ان برگزیدہ ہستیوں کے حالات بیان ہوئے ہیں ۔ جنہیں اللہ نے چن لیا تھا ‘ اور ان میں سے بعض دوسروں کی اولاد تھے ۔ ان قصوں میں بیگم عمران کے قصے میں تعلق باللہ کے موضوع پر روشنی پڑتی ہے ۔ وہ اپنی بچی کے بارے میں اپنے رب سے یوں مخاطب ہوتی ہے جیسے اسے دیکھ رہی ہو ‘ اسی طرح حضرت مریم سے حضرت زکریاعلیہ السلام کا مکالمہ ‘ حضرت زکریا کا اپنے رب کے جناب میں عاجزانہ دعا اور التجاء ‘ پھر حواریوں کا اپنے نبی کو لبیک کہا اور پھر اللہ تعالیٰ سے ملتجی ہونا ‘ یوں ان قصوں میں تعلق باللہ کے زندہ مناظر نظر آتے ہیں ۔ جب یہ قصص ختم ہوتے ہیں تو ان پر ایسا اختتامیہ آتا ہے جس میں یہ تمام حقائق دہرادیئے گئے ہیں جن کے لئے یہ قصص لائے گئے تھے ۔ اور ان حقائق کو خلاصہ کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ اس خلاصے میں عیسیٰ (علیہ السلام) کی حقیقت بیان ہوتی ہے ۔ مخلوق کا مزاج اور تخلیق میں ارادہ الٰہیہ کے دخل کے بارے میں حقائق بیان ہوئے ہیں ۔ یہ بیان خالص وجدانی بیان ہے ۔ اہل کتاب کو ان حقائق کے تسلیم کرنے کء دعوت دی گئی ہے اور ان کو پھر دعوت مباہلہ دی گئی ۔ اس سبق کے آخر میں پھر ایک جامع اور مانع بیان دیا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ آپ عام اہل کتاب کو اس حقیقت کی طرف دعوت دیں ‘ چاہے وہ مناظرہ کے لئے آئے ہوں یا نہ آئے ہوں ۔ جو اس وقت موجود تھے یا جو آج کے بعد کے ادوار میں موجود ہیں ۔ قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلا نَعْبُدَ إِلا اللَّهَ وَلا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (٦٤) کہو ‘ اے اہل کتاب ! آؤ ایک ایسی بات کی طرف جو ہمارے اور تمہار درمیان یکساں ہے ۔ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں ‘ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ‘ اور ہم میں سے کوئی اللہ کے سوا کسی کو اپنا رب نہ بنائے۔ “ اس دعوت کو قبول کرنے سے اگر وہ منہ موڑیں تو صاف کہہ دو کہ گواہ رہو ‘ ہم تو مسلم ہیں۔ “ یہاں یہ مباحثہ ختم ہوجاتا ہے ‘ اور معلوم ہوجاتا ہے کہ اسلام لوگوں سے کیا مطالبات کرتا ہے ۔ وہ زندگی کے کیا قواعد وضع کرتا ہے۔ یہاں دین اور اسلام کا مفہوم بتایا جاتا ہے ۔ ہر وہ بھدی صورت صاف ہوجاتی ہے اور وہ تحریف شدہ نظام چھٹ کر رہ جاتا ہے ۔ جس کے بارے میں اس کے ماننے والوں کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ اسلام ہے ۔ اور وہ دین ہے حالانکہ وہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ۔ غرض اس سبق کا یہ اصل موضوع تھا اور یہی موضوع اس سورت کا بھی موضوع تھا۔ جسے ان قصص نے بیان کیا ایک دلکش اور دلچسپ کہانی کی شکل میں ‘ جس میں گہرے اشارے موجود تھے ۔ قرآن میں قصص کے بیان کی غرض وغایت ہی یہ ہے ۔ اس غرض وغایت کے لئے یہ قصے مناسب اسلوب میں آتے ہیں ۔ اور مختلف سورتوں میں ان قصص کو اسی خاص اسلوب میں لایا گیا ہے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ سورت مریم میں بھی بیان ہوا ہے ۔ اور یہاں بھی یہ قصہ بیان ہوا ہے ۔ یہاں اور وہاں دونوں جگہ اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اس کے بعض حصوں کو مختصر بیان کیا گیا اور بعض تفصیلات دی گئی ہیں ۔ مثلاً سورت مریم میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ولادت کے حصے کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے ‘ جبکہ حضرت مریم کی ولادت کا ذکر وہاں نہیں تھا ۔ یہاں حواریوں کے ساتھ مفصل کلام ‘ اور ولادت کا حصہ مختصر ہے ۔ جبکہ یہاں اختتامیہ بہت ہی طویل ہے ۔ اس لئے کہ یہاں جن موضوعات پر مباحثہ تھا وہ موضوعات بہت ہی اہم تھے ۔ مثلاً عقیدہ توحید ‘ دین کا صحیح تصور ‘ وحی الٰہی اور رسالت کا تصور جبکہ یہ مسائل سورت مریم میں زیر بحث نہ تھے ۔ ان نکات سے معلوم ہوتا ہے کہ بیان قصص میں قرآن کا اسلوب کیا ہے ۔ یہ اسلوب ہمیشہ سورت کے موضوعات کے پیش نظر طے ہوتا ہے ۔ اب ہم آیات پر بحث کریں گے ۔ اس قصے کا آغاز ان لوگوں کی فہرست سے ہوتا ہے جو برگزیدہ تھے اور جنہیں اللہ نے باررسالت کے اٹھانے کے لئے چن لیا تھا۔ ابتدائے آفرینش سے یہ رسالت ایک تھی اور جس دین کو پیش کیا گیا وہ ایک ہی دین تھا۔ ان لوگوں کا انتخاب اس لئے ہوا تھا کہ وہ اقوام اور ازمنہ کی طویل ترین انسانی تاریخ میں قافلہ ایمان کے سالار ہوں ‘ اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ ایک ہی سلسلے کے تھے اور جو ایک دوسرے کی نسل سے پیدا ہوئے تھے ۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ان لوگوں کو نسب نامہ طبعی طور پر ملتا ہو اور وہ ایک دوسرے کی نسبی ذریت ہوں ۔ (اگرچہ ان سب کا نسب نامہ حضرت نوح (علیہ السلام) اور حضرت آدم (علیہ السلام) پر جاکر ملتا ہے) ان کا حقیقی نسب نامہ تو یہ ہے کہ ان سب کو اللہ تعالیٰ نے منتخب ومختار بنالیا تھا ‘ اور ان کا نسب نامہ ایک نظریاتی نسب نامہ تھا جس کے مطابق یہ قافلہ ایمانی چل رہا تھا۔ سیاق کلام میں حضرت آدم اور حضرت نوح کو بطور فرد گنوایا ہے ۔ لیکن حضرت ابراہیم اور عمران کے خاندانوں کا ذکر کیا گیا۔ اس میں اشارہ یہ ہے کہ حضرت آدم اپنی ذاتی حیثیت اور حضرت نوح اپنی ذاتی حیثیت میں قابل احترام اور برگزیدہ تھے ۔ لیکن حضرت ابراہیم اور حضرت عمران کی اولاد بھی قابل احترام تھی ۔ اور یہ احترام اور برگزیدگی اس اصول کے مطابق تھا جس کا ذکر سورة بقرہ میں ہوا ہے ۔ اور وہ قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ برکت اور احترام جو خاندان نبوت میں آتا ہے وہ محض خونی وراثت کی وجہ سے نہیں آتا بلکہ وہ نظریاتی وراثت ہے۔ وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قَالَ لا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ (١٢٤) ” اور یاد کرو جب ابراہیم کو اس کے رب نے چندباتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا تو اس نے کہا میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ “ ابراہیم نے عرض کیا :” اور کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے ۔ “ اس نے جواب دیا میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے ۔ “ بعض روایات میں آتا ہے کہ عمران حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں سے تھے ۔ تو اس صورت میں حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے اس خاص برانچ کا ذکر ایک مخصوص مقصد کے لئے کیا گیا ہے یعنی حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) کے قصوں کے لئے بطور تمہید اس کا ذکر ہوا ‘ اور یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ، حضرت یعقوب کا ذکر نہیں کیا گیا ۔ اس لئے کہ یہ حضرات بنی اسرائیل کے پیشوا تھے ‘ یعنی رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وقت اہل یہود تھے اور یہاں آئندہ بحث چونکہ نصاریٰ کے بارے میں ہونے والی تھی اس لئے حضرت موسیٰ اور حضرت یعقوب کے ذکر کی ضرورت نہ تھی ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi