Surat Aal e Imran

Surah: 3

Verse: 42

سورة آل عمران

وَ اِذۡ قَالَتِ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یٰمَرۡیَمُ اِنَّ اللّٰہَ اصۡطَفٰکِ وَ طَہَّرَکِ وَ اصۡطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۴۲﴾

And [mention] when the angels said, "O Mary, indeed Allah has chosen you and purified you and chosen you above the women of the worlds.

اور جب فرشتوں نے کہا ، اے مریم! اللہ تعالٰی نے تجھے برگزیدہ کر لیا اور تجھے پاک کر دیا اور سارے جہان کی عورتوں میں سے تیرا انتخاب کر لیا ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

The Virtue of Maryam Over the Women of Her Time Allah tells; وَإِذْ قَالَتِ الْمَلَيِكَةُ يَا مَرْيَمُ إِنَّ اللّهَ اصْطَفَاكِ وَطَهَّرَكِ وَاصْطَفَاكِ عَلَى نِسَاء الْعَالَمِينَ And (remember) when the angels said: "O Maryam! Verily, Allah has chosen you, purified you, and chosen you above the women of the nations." Allah states that the angels spoke to Maryam by His command and told her that He chose her because of her service to Him, because of her modesty, honor, innocence, and conviction. Allah also chose her because of her virtue over the women of the world. At-Tirmidhi recorded that Ali bin Abi Talib said, "I heard the Messenger of Allah say, خَيْرُ نِسَايِهَا مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَخَيْرُ نِسَايِهَا خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِد The best woman (in her time) was Maryam, daughter of Imran, and the best woman (of the Prophet's time) is Khadijah (his wife), daughter of Khuwaylid." The Two Sahihs recorded this Hadith. Ibn Jarir recorded that Abu Musa Al-Ashari said that the Messenger of Allah said, كَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيرٌ وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ مَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَ اسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْن Many men achieved perfection, but among women, only Maryam the daughter of Imran and Asiah, the wife of Fir`awn, achieved perfection. The Six -- with the exception of Abu Dawud - recorded it. Al-Bukhari's wording for it reads, كَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ كَثِيرٌ وَلَمْ يَكْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلاَّ اسِيَةُ امْرَأَةُ فِرْعَوْنَ وَمَرْيَمُ بِنْتُ عِمْرَانَ وَإِنَّ فَضْلَ عَايِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلى سَايِرِ الطَّعَام Many men reached the level of perfection, but no woman reached such a level except Asiah, the wife of Fir`awn, and Maryam, the daughter of Imran. The superiority of Aishah (his wife) to other women, is like the superiority of Tharid (meat and bread dish) to other meals. We mentioned the various chains of narration and wordings for this Hadith in the story of `Isa, son of Maryam, in our book, Al-Bidayah wan-Nihayah, all the thanks are due to Allah. Allah states that the angels commanded Maryam to increase acts of worship, humbleness, submission, prostration, bowing, and so forth, so that she would acquire what Allah had decreed for her, as a test for her. Yet, this test also earned her a higher grade in this life and the Hereafter, for Allah demonstrated His might by creating a son inside her without male intervention. Allah said, يَا مَرْيَمُ اقْنُتِي لِرَبِّكِ وَاسْجُدِي وَارْكَعِي مَعَ الرَّاكِعِينَ

تین افضل ترین عورتیں یہاں بیان ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مریم علیہما السلام کو فرشتوں نے خبر پہنچائی کہ اللہ نے انہیں ان کی کثرت عبادت ان کی دنیا کی بےرغبتی کی شرافت اور شیطانی وسو اس سے دوری کی وجہ سے اپنے قرب خاص عنایت فرمادیا ہے ، اور تمام جہان کی عورتوں پر انہیں خاص فضیلت دے رکھی ہے ، صحیح مسلم شریف وغیرہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنتی عورتیں اونٹ پر سوار ہونے والیاں ہیں ان میں سے بہتر عورتیں قریش کی ہیں جو اپنے چھوٹے بچوں پر بہت ہی شفقت اور پیار کرنے والی اور اپنے خاوند کی چیزوں کی پوری حفاظت کرنے والی ہیں ، حضرت مریم بنت عمران اونٹ پر کبھی سوار نہیں ہوئی ، بخاری و مسلم کی ایک حدیث میں ہے عورتوں میں سے بہتر عورت حضرت مریم بنت عمران ہیں اور عورتوں میں سے بہتر عورت حضرت خدیجہ بنت خویلد ہیں ( رضی اللہ تعالیٰ عنہما ) ترمذی کی صحیح حدیث میں ہے ساری دنیا کی عورتوں میں سے تجھے مریم بنت عمران ، خدیجہ بنت خویلد ، فاطمہ بنت محمد ، آسیہ فرعون کی بیوی ہیں ( رضی اللہ تعالیٰ عنہما ) اور حدیث میں ہے یہ چاروں عورتیں تمام عالم کی عورتوں سے افضل اور بہتر ہیں اور حدیث میں ہے مردوں میں سے کامل مرد بہت سے ہیں لیکن عورتوں میں کمال والی عورتیں صرف تین ہیں ، مریم بنت عمران ، آسیہ فرعون کی بیوی اور خدیجہ بنت خویلد اور عائشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید یعنی گوشت کے شوربے میں بھگوئی ہوئی روٹی کی تمام کھانوں پر یہ حدیث ابو داؤد کے علاوہ اور سب کتابوں میں ہے ، صحیح بخاری شریف کی اس حدیث میں حضرت خدیجہ کا ذکر نہیں ، میں نے اس حدیث کی تمام سندیں اور ہر سند کے الفاظ اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں حضرت عیسیٰ کے ذکر میں جمع کر دئیے ہیں وللہ الحمد والمنۃ پھر فرشتے فرماتے ہیں کہ اے مریم تو خشوع و خضوع رکوع و سجود میں رہا کر اللہ تبارک وتعالیٰ تجھے اپنی قدرت کا ایک عظیم الشان نشان بنانے والا ہے اس لئے تجھے رب کی طرف پوری رغبت رکھنی چاہئے ، قنوت کے معنی اطاعت کے ہیں جو عاجزی اور دل کی حاضری کے ساتھ ہو ، جیسے ارشاد آیت ( وَلَهٗ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ۭ كُلٌّ لَّهٗ قٰنِتُوْنَ ) 30 ۔ الروم:26 ) یعنی اس کی ماتحتی اور ملکیت میں زمین و آسمان کی ہر چیز ہے سب کے سب اس کے محکوم اور تابع فرمان ہیں ، ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ قرآن میں جہاں کہیں قنوت کا لفظ ہے اس سے مراد اطاعت گذاری ہے ، یہی حدیث ابن جریر میں بھی ہے لیکن سند میں نکارت ہے ، حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ حضرت مریم علیہما السلام نماز میں اتنا لمبا قیام کرتی تھیں کہ دونوں ٹخنوں پر ورم آجاتا تھا ، قنوت سے مراد نماز میں لمبے لمبے رکوع کرنا ہے ، حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے کہ اس سے یہ مراد ہے کہ اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہ اور رکوع سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جا ، حضرت اوزاعی فرماتے ہیں کہ مریم صدیقہ اپنے عبادت خانے میں اس قدر بکثرت باخشوع اور لمبی نمازیں پڑھا کرتی تھیں کہ دونوں پیروں میں زرد پانی اتر آیا ، رضی اللہ عنہما و رضاہا ۔ یہ اہم خبریں بیان کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کا علم تمہیں صرف میری وحی سے ہوا ورنہ تمہیں کیا خبر؟ تم کچھ اس وقت ان کے پاس تھوڑے ہی موجود تھے جو ان واقعات کی خبر لوگوں کو پہنچاتے؟ لیکن اپنی وحی سے ہم نے ان واقعات کو اس طرح آپ پر کھول دیا گویا آپ اس وقت خود موجود تھے جبکہ حضرت مریم کی پرورش کے بارے میں ہر ایک دوسرے پر سبقت کرتا تھا سب کی چاہت تھی کہ اس دولت سے مالا مال ہو جاؤں اور یہ اجر مجھے مل جائے ، جب آپ کی والدہ صاحبہ آپ کو لے کر بیت المقدس کی مسجد سلیمانی میں تشریف لائیں اور وہاں کے خادموں سے جو حضرت موسیٰ کے بھائی اور حضرت ہارون کی نسل میں سے تھے کہا کہ میں انہیں اپنی نذر کے مطابق نام اللہ پر آزاد کر چکی ہوں تم اسے سنبھالو ، یہ ظاہر ہے کہ لڑکی ہے اور یہ بھی معلوم ہے کہ حیض کی حالت میں عورتیں مسجد میں نہیں آسکتیں اب تم جانو تمہارا کام ، میں تو اسے گھر واپس نہیں لے جا سکتی کیونکہ نام اللہ اسے نذر کر چکی ہوں ، حضرت عمران یہاں کے امام نماز تھے اور قربانیوں کے مہتمم تھے اور یہ ان کی صاحبزادی تھیں تو ہر ایک نے بڑی چاہت سے ان کے لئے ہاتھ پھیلا دئیے ادھر سے حضرت زکریا نے اپنا ایک حق اور جتایا کہ میں رشتہ میں بھی ان کا خالو ہوتا ہوں تو یہ لڑکی مجھ ہی کو ملنی چاہیے اور لوگ راضی نہ ہوئے آخر قرعہ ڈالا گیا اور قرعہ میں ان سب نے اپنی وہ قلمیں ڈالیں جن سے توراۃ لکھتے تھے ، تو قرعہ حضرت زکریا کے نام نکلا اور یہی اس سعادت سے مشرف ہوئے دوسری مفصل روایتوں میں یہ بھی ہے کہ نہر اردن پر جا کر یہ قلمیں ڈالی گئیں کہ پانی کے بہاؤ کے ساتھ جو قلم نکل جائے وہ نہیں اور جس کا قلم ٹھہر جائے وہ حضرت مریم کا کفیل بنے ، چنانچہ سب کی قلمیں تو پانی بہا کر لے گیا صرف حضرت زکریا کا قلم ٹھہر گیا بلکہ الٹا اوپر کو چڑھنے لگا تو ایک تو قرعے میں ان کا نام نکلا دوسرے قریب کے رشتہ داری تھے پھر یہ خود ان تمام کے سردار امام مالک نبی تھے صلوات اللہ وسلامہ علیہ پس انہی کو حضرت مریم سونپ دی گئیں ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

42۔ 1 حضرت مریم (علیہا السلام) کا یہ شرف و فضل اپنے زمانے کے اعتبار سے ہے کیونکہ صحیح حدیث میں حضرت مریم (علیہا السلام) کے ساتھ حضرت خدیجہ کو بھی سب عورتوں میں بہتر کہا گیا ہے اور بعض احادیث میں چار عورتوں کو کامل قرار دیا گیا ہے حضرت مریم، حضرت آسیہ (فر عون کی بیوی) حضرت خدیجہ اور حضرت عائشہ (رض) کی بابت کہا گیا ہے کہ ان کی فضیلت دیگر عورتوں پر ایسے ہے جیسے ثرید کو تمام کھانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ (ابن کثیر) اور ترمذی کی روایت میں حضرت فاطمہ (رض) بنت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی فضیلت والی عورتوں میں شامل کیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) اس کا یہ مطلب ہوسکتا ہے کہ مذکورہ خواتین ان چند عورتوں میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے دیگر عورتوں پر فضیلت اور بزرگی عطا فرمائی یا یہ کہ اپنے اپنے زمانے میں فضیلت رکھتی ہیں۔ واللہ اعلم۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ ۔۔ : اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے مریم [ کو چننے کا ذکر دو مرتبہ آیا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ محض تاکید کے لیے ہو، یا پہلے چننے سے مراد بچپن میں مریم [ کو شرف قبولیت بخشنا ہو، جو آیت : (فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ ) میں مذکور ہے اور دوسرے چننے سے مراد اللہ تعالیٰ کا انھیں عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے لیے منتخب فرمانا اور خصوصی فضیلت عطا کرنا ہو۔ عَلٰي نِسَاۗءِ الْعٰلَمِيْنَ : سب جہانوں کی عورتوں سے مراد صرف اس زمانے کی عورتیں ہیں، کیونکہ احادیث میں مریم [ کی طرح خدیجہ، فاطمہ اور عائشہ کی فضیلت میں بھی اسی قسم کے الفاظ مذکور ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مردوں میں سے بہت سے لوگ کامل ہوئے ہیں لیکن عورتوں میں سے آسیہ زوجۂ فرعون اور مریم بنت عمران ہی کامل ہوئی ہیں اور عورتوں پر عائشہ (رض) کو اس طرح فضیلت حاصل ہے جس طرح ثرید کو باقی کھانوں پر فضیلت حاصل ہے۔ “ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ : ( و ضرب اللہ مثلاً ۔۔ ) : ٣٤١١، عن أبی موسیٰ الأشعری (رض) ] انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” تمام جہانوں کی عورتوں میں تمہارے لیے مریم بنت عمران، خدیجہ بنت خویلد، فاطمہ بنت محمد اور آسیہ زوجۂ فرعون کافی ہیں۔ “ [ ترمذی، المناقب، باب فضل خدیجۃ : ٣٨٧٨ ]

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

Commentary 1. In verse 42, the sentence: وَاصْطَفَاكِ عَلَىٰ نِسَاءِ الْعَالَمِينَ (and has chosen you over women of all the worlds) refers to all women in that period of time. Therefore, the statement سیدۃ نسآءِ اھل الجنۃ فاطمۃ (Fatimah is the foremost among women of the Paradise) appearing in hadith does not con¬tradict it. 2. It will be noticed that, in the last sentence of verse 43:

خلاصہ تفسیر (اور وہ وقت بھی یاد کرنے کے قابل ہے) جبکہ فرشتوں نے ( حضرت مریم (علیہا السلام) سے) کہا اے مریم بلاشک اللہ تعالیٰ نے تم کو منتخب (یعنی مقبول) فرمایا ہے اور (تمام ناپسند یدہ افعال و اخلاق سے) پاک بنایا ہے اور (مقبول فرمانا کچھ ایک دو عورتوں کے اعتبار سے نہیں، بلکہ اس زمانہ کی) تمام جہان بھر کی بیبیوں کے مقابلہ میں منتخب فرمایا ہے (اور فرشتوں نے یہ بھی کہا کہ) اے مریم اطاعت کرتی رہو اپنے پروردگار کی اور سجدہ (یعنی نماز ادا) کیا کرو اور (نماز میں) رکوع (بھی) کیا کرو ان لوگوں کے ساتھ جو رکوع کرنے والے ہیں۔ معارف و مسائل (واصطفک علی نساء العالمین) سے مراد اس زمانے میں تمام جہان کی عورتیں ہیں اس لئے حدیث میں سیدۃ نساء اھل الجنۃ فاطمۃ کا ارشاد اس کے منافی نہیں۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

وَاِذْ قَالَتِ الْمَلٰۗىِٕكَۃُ يٰمَرْيَمُ اِنَّ اللہَ اصْطَفٰىكِ وَطَہَّرَكِ وَاصْطَفٰىكِ عَلٰي نِسَاۗءِ الْعٰلَمِيْنَ۝ ٤٢ ملك ( فرشته) وأما المَلَكُ فالنحویون جعلوه من لفظ الملائكة، وجعل المیم فيه زائدة . وقال بعض المحقّقين : هو من المِلك، قال : والمتولّي من الملائكة شيئا من السّياسات يقال له : ملک بالفتح، ومن البشر يقال له : ملک بالکسر، فكلّ مَلَكٍ ملائكة ولیس کلّ ملائكة ملکاقال : وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] ، عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] ( م ل ک ) الملک الملک علمائے نحو اس لفظ کو ملا ئکۃ سے ماخوذ مانتے ہیں اور اس کی میم کو زائد بناتے ہیں لیکن بعض محقیقن نے اسے ملک سے مشتق مانا ہے اور کہا ہے کہ جو فرشتہ کائنات کا انتظام کرتا ہے اسے فتحہ لام کے ساتھ ملک کہا جاتا ہے اور انسان کو ملک ہیں معلوم ہوا کہ ملک تو ملا ئکۃ میں ہے لیکن کل ملا ئکۃ ملک نہیں ہو بلکہ ملک کا لفظ فرشتوں پر بولا جاتا ہے کی طرف کہ آیات ۔ وَالْمَلَكُ عَلى أَرْجائِها [ الحاقة/ 17] اور فرشتے اس کے کناروں پر اتر آئیں گے ۔ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبابِلَ [ البقرة/ 102] اور ان باتوں کے بھی پیچھے لگ گئے جو دو فرشتوں پر اتری تھیں ۔ مریم مریم : اسم أعجميّ ، اسم أمّ عيسى عليه السلام» . اصْطِفَاءُ : تناولُ صَفْوِ الشیءِ ، كما أنّ الاختیار : تناول خيره، والاجتباء : تناول جبایته . واصْطِفَاءُ اللهِ بعضَ عباده قد يكون بإيجاده تعالیٰ إيّاه صَافِياً عن الشّوب الموجود في غيره، وقد يكون باختیاره وبحکمه وإن لم يتعرّ ذلک من الأوّل، قال تعالی: اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ [ الحج/ 75] الاصطفا ء کے معنی صاف اور خالص چیز لے لینا کے ہیں جیسا کہ اختیار کے معنی بہتر چیز لے لینا آتے ہیں اور الا جتباء کے معنی جبایتہ یعنی عمدہ چیا منتخب کرلینا آتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا کسی بندہ کو چن لینا کبھی بطور ایجاد کے ہوتا ہے یعنی اسے ان اندرونی کثافتوں سے پاک وصاف پیدا کرتا ہے جو دوسروں میں پائی جاتی ہیں اور کبھی بطریق اختیار اور حکم کے ہوتا ہے گو یہ قسم پہلے معنی کے بغیر نہیں پائی جاتی ۔ قرآن میں ہے : اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلائِكَةِ رُسُلًا وَمِنَ النَّاسِ [ الحج/ 75] خدا فرشتوں اور انسانوں میں رسول منتخب کرلیتا ہے ۔ طهر والطَّهَارَةُ ضربان : طَهَارَةُ جسمٍ ، وطَهَارَةُ نفسٍ ، وحمل عليهما عامّة الآیات . يقال : طَهَّرْتُهُ فَطَهُرَ ، وتَطَهَّرَ ، وَاطَّهَّرَ فهو طَاهِرٌ ومُتَطَهِّرٌ. قال تعالی: وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة/ 6] ، أي : استعملوا الماء، أو ما يقوم مقامه، قال : وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة/ 222] ، ( ط ھ ر ) طھرت طہارت دو قسم پر ہے ۔ طہارت جسمانی اور طہارت قلبی اور قرآن پاک میں جہاں کہیں طہارت کا لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بالعموم دونوں قسم کی طہارت مراد ہے کہا جاتا ہے : ۔ طھرتہ فطھروتطھر واطھر فھو طاھر ومتطھر میں نے اسے پاک کیا چناچہ وہ پاک ہوگیا ۔ قرآن میں ہے : ۔ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّهَّرُوا[ المائدة/ 6] اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو نہاکر پاک ہوجایا کرو ۔ یعنی یا جو چیز اس کے قائم مقام ہو اس کے ذریعہ طہارت کرلیا کرو ۔ اور آیت کریمہ : ۔ وَلا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّى يَطْهُرْنَ فَإِذا تَطَهَّرْنَ [ البقرة/ 222] اور جب تک پاک نہ ہوجائیں ان سے مقاربت نہ کرو ۔ نِّسَاءُ والنِّسْوَان والنِّسْوَة جمعُ المرأةِ من غير لفظها، کالقومِ في جمعِ المَرْءِ ، قال تعالی: لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] النساء والنسوان والنسوۃ یہ تینوں امراءۃ کی جمع من غیر لفظہ ہیں ۔ جیسے مرء کی جمع قوم آجاتی ہے ۔ چناچہ قرآن میں ہے : لا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ إلى قوله : وَلا نِساءٌ مِنْ نِساءٍ [ الحجرات/ 11] اور نہ عورتیں عورتوں سے تمسخر کریں ما بال النِّسْوَةِ اللَّاتِي قَطَّعْنَ أَيْدِيَهُنَّ [يوسف/ 50] کہ ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کا ٹ لئے تھے ۔ عالَمُ والعالَمُ : اسم للفلک وما يحويه من الجواهر والأعراض، وهو في الأصل اسم لما يعلم به کالطابع والخاتم لما يطبع به ويختم به، وجعل بناؤه علی هذه الصّيغة لکونه کا لآلة، والعَالَمُ آلة في الدّلالة علی صانعه، ولهذا أحالنا تعالیٰ عليه في معرفة وحدانيّته، فقال : أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] ، وأمّا جمعه فلأنّ من کلّ نوع من هذه قد يسمّى عالما، فيقال : عالم الإنسان، وعالم الماء، وعالم النّار، وأيضا قد روي : (إنّ لله بضعة عشر ألف عالم) «1» ، وأمّا جمعه جمع السّلامة فلکون النّاس في جملتهم، والإنسان إذا شارک غيره في اللّفظ غلب حكمه، العالم فلک الافلاک اور جن جواہر واعراض پر حاوی ہے سب کو العالم کہا جاتا ہے دراصل یہ فاعل کے وزن پر ہے جو اسم آلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے جیسے طابع بہ ۔ مایطبع بہ خاتم مایختم بہ وغیرہ اسی طرح عالم بھی ہے جس کے معنی ہیں ماعلم بہ یعنی وہ چیز جس کے ذریعہ کسی شے کا علم حاصل کیا جائے اور کائنات کے ذریعہ بھی چونکہ خدا کا علم حاصل ہوتا ہے اس لئے جملہ کائنات العالم کہلاتی ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ذات باری تعالیٰ کی وحدانیت کی معرفت کے سلسلہ میں کائنات پر غور کرنے کا حکم دیا ہے ۔ چناچہ فرمایا ۔ أَوَلَمْ يَنْظُرُوا فِي مَلَكُوتِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأعراف/ 185] کیا انہوں نے اسمان اور زمین گی بادشاہت پر غور نہیں کیا ۔ اور العالم کی جمع ( العالمون ) اس لئے بناتے ہیں کہ کائنات کی ہر نوع اپنی جگہ ایک مستقلی عالم عالم کی حیثیت رکھتی ہے مثلا عالم الاانسان؛عالم الماء وعالمالناروغیرہ نیز ایک روایت میں ہے ۔ ان اللہ بضعتہ عشر الف عالم کہ اللہ تعالیٰ نے دس ہزار سے کچھ اوپر عالم پیدا کئے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ ( واؤنون کے ساتھ ) اسے جمع سلامت کے وزن پر کیوں لایا گیا ہے ( جو ذدی العقول کے ساتھ مختص ہے ) تو اس کا جواب یہ ہے کہ عالم میں چونکہ انسان بھی شامل ہیں اس لئے اس کی جمع جمع سلامت لائی گئی ہے کیونکہ جب کسی لفظ میں انسان کے ساتھ دوسری مخلوق بھی شامل ہو تو تغلیبا اس کی جمع واؤنون کے ساتھ بنالیتے ہیں

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

طہارت مومن یہ کہ نجاست کفر سے محفوظ ہے قول باری ہے (واذقالت الملئکۃ یا مریم ان اللہ اصطفاک وطھرک واصطفاک علی نساء العالمین، اور جب فرشتوں نے کہا : اے مریم ! اللہ نے تجھے برگزیدہ کیا اور پاکیزگی عطاکی اور تمام دنیا کی عورتوں پر تجھ کو ترجیح دے کر اپنی خدمت کے لیے چن لیا) قول باری (واصطفاک) کے معنی یوں بیان کیئے گئے کہ اے مریم ! تجھے اللہ نے دنیا والوں کی تمام عورتوں پر فضیلت دے کر برگزیدہ بنادیا۔ حسن اور ابن جریج سے یہی تفسیر مروی ہے۔ ان دونوں کے علاوہ دوسرے مفسرین کا قول ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ مریم اللہ تعالیٰ نے دلادتمسیح کی جلیل القدرخصوصیت دے کر دنیا کی تمام عورتوں میں برگزیدہ بنادیا۔ حسن اور مجاہدکاقول ہے کہ ارشاد باری (وطھرک) کے معنی یہ ہیں کہ اللہ نے تجھے ایمان کی دولت دے کر کفر کی نجاست سے پاکیزگی عطاکی۔ ابوبکرجصاص کہتے ہیں کہ اس تفسیر کی گنجائش موجود ہے جس طرح کہ کافرپر اس کے کفر کی وجہ سے نجاست کے اسم کا اطلاق جائز ہے۔ قول باری ہے (انما المشرکون نجس، بیشک مشرکین نجس ہیں) یہاں کفر کی نجاست مراد ہے۔ اسی طرح قول باری (وطھرک) میں ایمان کی طہارت اور پاکیزگی مراد لی جاسکتی ہے۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا (المومن لیس نجبس مومن نجس نہیں ہوتا) اس سے آپکی مراد کفر کی نجاست ہے۔ اور یہ ارشاد اس قول باری کی طرح ہے (انمایرید اللہ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھرکم تطھیرا، اے اہل بیت نبی ! اللہ تعالیٰ تم سے آلودگی کو دور رکھنا اور تمھیں پوری طرح پاکیز گی عطاکرنا چاہتا ہے۔ ) یہاں ایمان اور طاعت کی پاکیز گی مراد ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ قول باری (وطھرک) سے مراد حیض اور نفاس وغیرہ کی آلود گیوں سے پاکیزگی ہے۔ فرشتوں نے حضرت مریم کی کس طرح تطہیر کی جبکہ وہ نبی نہیں تھیں اس لیے کہ ارشادباری ہے۔ (وماارسلنامن قبلک الارجالانوحی الیھم، اور آپ سے پہلے ہم صرف مردوں کو رسول بناکربھیجتے رہے جن کی طرف ہم وحی کرتے رہے) درج بالاسوال کے مختلف جوابات دیئے گئے ہیں۔ کسی کا قول یہ ہے کہ دراصل یہ حضرت زکریاعلیہ السلام کا معجزہ تھا۔ کچھ دوسروں کا یہ قول ہے کہ یہ حضرت مسیح (علیہ السلام) کی نبوت کی بنیادرکھنے کے طوپرہوا۔ جس طرح کہ ہمارے نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ آپ کی بعثت سے پہلے بدلی کا سایہ فگن ہونا اور اس قسم کے دوسرے واقعات پیش آتے رہے۔

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

(٤٢) جس وقت جبریل امین (علیہ السلام) (اور فرشتوں نے) فرمایا، اے مریم اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام اور عبادت کے لیے منتخب فرما لیا اور کفر وشرک اور تمام بری باتوں سے اور قتل وغیرہ سے پاک صاف فرما لیا اور تمام جہان بھر کی عورتوں کے مقابلہ میں تمہیں منتخب کرلیا۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) کا قصہ بیان ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زکریا ( علیہ السلام) کو شدید ضعیفی کی عمر میں ایک بانجھ اور بوڑھی عورت سے حضرت یحییٰ ( علیہ السلام) جیسا بیٹا دے دیا۔ تو کیا یہ عام قانون کے مطابق ہے ؟ ظاہر ہے یہ بھی تو معجزہ تھا۔ اسی طرح اس سے ذرا بڑھ کر ایک معجزہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی پیدائش ہے کہ انہیں بغیر باپ کے پیدا فرمادیا۔ اب اس کا ذکر آ رہا ہے۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

(42 ۔ 44) ۔ صحیح حدیثوں سے قرعہ کا جائز ہونا ثابت ہوتا ہے ١۔ بنی اسرائیل میں قرعہ ڈالنے کا طریقہ یہ تھا کہ کسی کام میں جب یہ بحث آن پڑتی کہ اس کام کو کون کرے تو وہ لوگ نہر اردن پر جاکر تورات کے لکھنے کے اپنے اپنے قلم بہتے پانی میں ڈالتے تھے۔ جس کا قلم بہاؤ کو چھوڑ کر الٹا بہے یا بہنے سے رک کر ٹھہر جائے تو وہی شخص اس کام کو کرتا تھا جب حضرت مریم کی ماں اپنی نذر کے موافق حضرت مریم کو بیت المقدس میں لائیں اور بیت المقدس کے مجاوروں سے اپنا خواب بیان کیا تو سب چاہنے لگے کہ مریم کو ہم پالیں آخر رواج کے موافق قرعہ پر فیصلہ قرار پایا اور حضرت زکریا کا قلم پانی کے بہاؤ کو چھوڑ کر الٹا بہا۔ اس لئے حضرت مریم کے پالنے کے وہی حق دار ٹھہرے حضرت مریم کو یہ خوش خبری جو دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ” پسند “ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سے پہلے خدا تعالیٰ نے یہ مرتبہ کسی عورت کو نہیں دیا اور اپنے زمانہ کی عورتوں میں وہ سب سے بلند مرتبہ کی تھیں ان کی ستھرائی کا یہ مطلب ہے کہ ان کو اور عورتوں کی طرح ہمیشہ کے حیض کی عادت نہیں تھی۔ حضرت عیسیٰ کے حمل سے پہلے صرف دو دفعہ ان کو عمر بھر میں حیض آیا تھا۔ عبادت کا حکم سن کر حضرت مریم اس قدر عبادت کیا کرتی تھیں کہ ان کے پاؤں سوج جاتے تھے قنوت کے معنی یہاں خالص دل سے عبادت کرنے کے ہیں اس قصہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وحی آسمان بھی اس طرح ثابت فرمائی ہے کہ یہ قصہ اور اس طرح کے اور قصے دنیا میں سوا اہل کتاب کے کسی دوسرے کو معلوم نہیں پھر اے نبی اللہ کے بغیر مدد اہل کتاب کے تم جو قصے ان کو سناتے ہو تو ان کے دل جانتے ہیں کہ یہ قصے تم کو آسمانی وحی کے ذریعہ سے معلوم ہوتے ہیں جس سے یہ ثابت ہوا کہ تم بلا شک اللہ کے وہ نبی خاتم النبیین ہو جن کا ذکر ان کی کتابوں میں ہے اور یہ فقط عناد سے تم کو اور اللہ تعالیٰ کے کلام کو نہیں مانتے۔

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

ف 2 اس آیت میں حضرت مریم ( علیہ السلام) کے بر گزیدہ ہونے کا دو مرتبہ ذکر ہوا ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ محض تاکید کے لیے ہو یا پہلی برگیزیدہ گی سے مراد بچپن میں حضرت مریم ( علیہ السلام) کو سرف قبولیت بخشنا ہو جو آیت : فتقبلھا ربھا بقبول حسن میں مذکور ہے اور دوسری برگزیدگی سے مراد اللہ تعالیٰ کا نہیں انہیں حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عیسیٰ ( علیہ السلام) کی پیدا ئش کے لیے منتخب فرماتا اور خصوصی فضیلت عطا کرتا ہو۔ نسا العالمین۔ سے صرف اس زمانہ کی عورتیں مراد ہیں کیونکہ احادیث میں حضرت مریم ( علیہ السلام) کی طرح حضرت خدیجہ (رض) ۔ حضرت فاطمہ (رض) اور حضرت عائشہ (رض) کی فضیلت میں بھی اسی قسم کے الفاظ مذکور ہیں۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ ‘ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا، دنیا کی بہترین عورت خدیجہ (رض) بنت خویلید ہے۔ بخاری ومسلم) دوسری حدیث میں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مردوں میں تو بہت سے لوگ کامل ہوئے مگر عورتوں میں صرف حضرت مریم ( علیہ السلام) بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون ہیں اور عائشہ کی فضیلت دوسری عورتوں پر ایسی ہے جیسی ثرمد کی بقیہ کھانوں پر۔ (بخاری ومسلم )

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 42 54 اسرارومعارف واذقالت الملئکۃ………………وارکعوامع الراکعین۔ اور وہ وقت بھی یاد کرو جب فرشتوں نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے رو در رو کہا تھا اے مریم ! بیشک اللہ نے آپ کو قبول فرمالیا ہے چھانٹ لیا ہے۔ یعنی دوامی تجلیات ذاتی کے ساتھ برگزیدہ کردیا ہے تجلیات ذاتیہ کمالات نبوت و رسالت میں سے ہے یہ کمال انبیاء کو بالذات اور بلاواسطہ حاصل ہوتا ہے اور ان کی وساطت سے خاص اور ممتاز اولیا اللہ کو نصیب ہوتا ہے اور حضرت مریم (علیہا السلام) تو صدیقہ تھیں۔ بعض منازل سلوک : صدیقیت ولایت کی انتہا ہے اور چوٹی کے اولیاء اللہ کہ یہ اعلیٰ مقامات باتباع نبی اس طرح حاصل ہوتے ہیں جیسے شاہی محل میں بادشاہ کے ساتھ کے خاص خادم بھی رہا کرتے ہیں ، کمالات نبوت و کمالات رسالت عالم امر کے دوائر میں سے تیرھواں اور چودھواں دائرہ ہے۔ اور آپ کو یا مریم پاک کردیا ہے عوارض نسوانی سے بھی اور گناہوں کی آلودگی سے بھی۔ اور جہان کی عورتوں پر آپ کو فضیلت بخشی ہے یعنی اپنے دور میں روئے زمین کی عورتوں پر۔ حدیث شریف میں ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ (رض) اور بنات رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بھی بیشمار فضائل اور محاسن وارد ہیں۔ ایک متفق علیہ حدیث میں ارشاد ہے کہ مردوں میں تو کامل بہت ہوئے ہیں مگر عورتوں میں مریم بنت عمران اور آسیہ زوجہ فرعون تھیں اور عائشہ (رض) کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسی ثرید کی فضیلت باقی کھانوں پر۔ اے مریم ! اپنے رب کے حضور کھڑی رہا کریں۔ یعنی طویل قیام کیا کریں اور نماز ادا کیا کریں باجماعت یعنی سجدہ شکر کریں اور رکوع کریں ، رکوع کرنے والوں کے ساتھ۔ یہاں والیوں ارشاد نہیں ہوا کہ عورتوں کی جماعت مردوں کے تابع ہے۔ نیز سالک کو بھی یہ جان لینا چاہیے کہ نماز باجماعت اور کثرت نوافل ، طویل قیام اور رکوع و سجود کی پوری پابندی حصول منازل کے لئے اکسیر ہے۔ ذالک ھن انباء الغیب……………اذیختصمون صاف ظاہر ہے کہ جملہ مضامین وحی الٰہی ہیں اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کا روشن ثبوت کہ نہ تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس اس وقت تک موجود تھے جب وہ قلم دریا میں ڈال رہے تھے کہ کون مریم کا کفیل ہوگا۔ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ لوہے کے قلم تھے اور دریا میں ڈالے گئے جس کا قلم بحکم الٰہی ڈوبے بھی نہیں اور بہائو کے الٹے رخ تیرے۔ وہ کفالت کرے گا۔ حضرت ذکریا (علیہ السلام) کو یہ سعادت بخشی گئی۔ قرعہ اندازی : اہل سنت کے نزدیک متعین حقوق میں قرعہ ناجائز ہے اور داخل قمار کہ ایک مشترکہ شے پر قرعہ ڈالا جائے جس کا نام نکلے وہ لے لے باقی محروم رہ جائیں۔ یہ درست نہیں۔ ہاں جن حقوق کے اسباب رائے سے طلب کرنے ہوں وہاں جائز ہے مثلاً شے مشترک کے حصے ہوگئے۔ اب کون سا حصہ ایک حصہ دار لے اور کون سا ڈھیر دوسرے کو ملے تو یہاں جائز ہوگا۔ اور نہ ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت تشریف رکھتے تھے جب وہ باہم جھگڑ رہے تھے علم کے ذرائع تو یہی ہیں کہ یا انسان خود ذدیکھے اور سنے تو یہ ممکن نہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور ان کے درمیان پانچ صدیاں حائل ہیں۔ دوسرا ذریعہ ہے کسی تاریخ سے یا کتاب سے پڑھ کر معلوم کرے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امی تھے۔ تیسرا راستہ یہ ہے کہ کسی عالم سے معلوم کرے تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی عالم کی شاگردی اور نہ صحبت اختیار فرمائی بلکہ ہر وہ شخص عالم کہ لایا اور تاقیامت کہلائے گا جو انور محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اپنا دامن بھرسکے گا تو پھر بجز وحی کے اور اللہ کی ذات کے مطلع کردینے کے اور تو کوئی راستہ نہیں ، اور نزول وحی ہی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی دلیل ہے۔ اب یہی قصہ اپنی پوری صحت اور پوری وضاحت کے ساتھ آگے سنیں۔ واذقالت الملئکۃ……………من الصلحین۔ فرمایا وہ وقت یاد کریں جب فرشتوں نے یعنی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے کہا کہ اے مریم ! اللہ آپ کو ایک کلمہ کی بشارت دیتے ہیں جو اللہ کی طرف سے ہوگا یعنی ایسا بچہ جو اللہ کے حکم سے بغیر باپ کے پیدا ہوگا اور اللہ کا کلمہ کہلائے گا جس کا نام اور لقب مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا۔ ولی اللہ کا فرشتہ سے ہمکلام ہونا : یہاں ثابت ہے کہ ملائکہ اولیاء اللہ سے کلام کرتے ہیں ، اور بڑی عجیب بات ہے کہ بنی اسرائیل کی ایک معزز ومقرب ولیہ سے تو فرشتہ کلام کرے ، اور امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اولیاء اس کے اہل نہ سمجھے جائیں بلکہ جو لوگ ایسے واقعات کا رد کرتے ہیں ، اصل میں سلوک سے واقفیت ہی نہیں رکھتے ، انہیں رد کرنے کا حق ہی حاصل نہیں ہے۔ یہ شخص دنیا وآخرت میں باعزت اور عالی مرتبت ہوگا۔ دنیا میں نبوت و رسالت سے سرفراز ہوگا اور آخرت میں جنت کے عالی منازل پر فائز ہوگا اور اللہ کا مقرب ہوگا یعنی اس کو قرب ذاتی میں دوام حاصل ہوگا اور تجلیات ذاتیہ اس کو ہمیشہ حاصل ہوں گی اور اس کے معجزات میں سے یہ ہوگا کہ گہوارے میں لوگوں سے کلام کرے گا اور پختہ کلام جسے اللہ کریم کلام فرما رہے ہیں اور پھر بڑی عمر میں لوگوں سے کلام فرمائے گا۔ بچپن میں کلام تو خرق عادت ہو کر معجزہ ہوا مگر کہولت میں کلام کیسے معجزہ ہے ؟ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا معجزہ : مفسرین کرام رحمۃ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب آپ کو آسمانوں پر اٹھایا گیا تو آپ کی عمر مبارک تیس پینتیس سال کے درمیان تھی جو جوانی کا زمانہ ہے اور کہولت عموماً چالیس سال کے بعد کی عمر پر بولا جاتا ہے آسمانوں سے نزول کے بعد پھر لوگوں سے کلام کرنا اور انہیں ہدایت کی طرف بلانا اس سے بھی بڑا معجزہ ہے جو آپ نے گہوارے میں اعلان فرمایا تھا۔ انی عبداللہ اتانی الکتاب وجعلنی نبیا۔ قالت رب ان یکون لی……………ھذا صراط مستقیم۔ حضرت مریم علیھا اسلام نے عرض کی اے میرے پروردگار ! میرے بچہ کس طرح پیدا ہوگا ؟ کہ مجھے تو کسی مرد نے چھوا تک نہیں اور بچہ تو ہمیشہ مرد اور عورت کے ملاپ سے پیدا ہوتا ہے۔ ارشاد ہوا کہ بس ایسے ہی بچہ پیدا ہوگا کہ اللہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے اور جب کسی چیز کے ہونے کا فیصلہ فرماتا ہے تو اس شے کے ہونے کا حکم دیتا ہے تو وہ فوراً ہوجاتی ہے وہ جیسے مادہ سے اور ترتیب سے پیدا کرنے پر قادر ہے اس کے خلاف پہ بھی اس طرح قادر ہے۔ اللہ سے بچنے کو لکھنا سکھائے گا اور دانش عطا فرمائے گا نیز تورات اور انجیل کے علوم عطا فرمائے گا ، اور بنی اسرائیل کے پاس عظیم الشان رسول بنا کر بھیجے گا۔ یہاں ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کرام (علیہم السلام) جملہ علوم براہ راست اللہ تعالیٰ سے حاصل کرتے ہیں۔ دانش اور دانشور : دانش اس علم کا نام ہے جسے انبیاء اللہ سے لے کر مخلوق میں تقسیم فرماتے ہیں اسی طرح دانشور وہ لوگ ہیں جن کے سینے علوم انبیاء سے لبریز ہوتے ہیں نہ کہ دور حاضرہ کے بےدین مفکر ، جن کی فکریں بھی الجھی ہوئی ہیں۔ فرمایا وہ اعلان فرمائیں گے کہ اے بنی اسرائیل ! میں تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے معجزات لے کر مبعوث ہوا ہوں جن میں سے ایک یہ ہے کہ تمہارے سامنے مٹی سے پرندے کی صورت بنائوں گا پھر اس پر پھونک ماروں گا تو اللہ کی اجازت سے وہ پرندہ بن جائے گی زندہ سلامت۔ یعنی یہ پھونک مارنا معجزہ ہے۔ اظہار کرامت : انبیاء کرام (علیہ السلام) کا معجزہ بطور کرامت اولیاء اللہ میں پایا جانا برحق ہے مگر اثبات دین کے لئے اور نہ پیسہ بٹورنے کے لئے ، اور چونکہ اللہ کے حکم سے صادر ہوتا ہے تو ایسے کلمات جو ناجائز ہوں یعنی جن کا پڑھنا فساد عقیدہ اور فساد عمل میں مبتلا کرنے والا ہو ، ہرگز نہ پڑھنے چاہئیں نیز ان پر اللہ کی طرف اثر مرتب نہیں ہوتا۔ یہ اور بات ہے کہ اتفاقاً اللہ کی طرف سے ہو اور لوگ منسوب بےدین جھاڑ پھونک والوں سے کردیں۔ نیز میں مادر زاد اندھوں اور کوڑھ کے ہیبت ناک مرض میں مبتلا لوگوں کو تندرست کردوں گا ، اور اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کردوں گا۔ چونکہ مردوں کو زندہ کرنا تو ہم الوہیت پیدا کرنے والا تھا ، مکرر فرمایا اللہ کے اذن سے ، اس کے حکم سے یعنی فعل اللہ کا ہوگا صادر میرے ہاتھ پہ ہوگا۔ صاحب تفسیر مظہری نے تین ایسے نام گنوائے ہیں جو بعد مرگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے زندہ ہو کر پھر صاحب اولاد ہوئے اور کافی دیر زندہ رہ کر مرے۔ حالانکہ برزخ کے منکشف ہونے کے بعد انسان کا دنیا میں دوبارہ جینا بسنا اور مکلف زندگی گزارنا ممکن نہیں ، کہ ایمان بالغیب تو رہا نہیں سب کچھ تو وہ دیکھ چکا ، بھلا وہ کیوں نہ عذاب وثواب ، قبر یا جنت و دوزخ کو مانے گا ؟ مگر ہر کام اور ہر بات میں مستثنیات ملتی ہیں جن سے قدرت الٰہی کا ظہور ہوتا ہے کہ اللہ جس طرح چاہے کرسکتا ہے۔ مستثینات : خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش انسان کے عمومی طریقہ پیدائش میں ایک استثنائی صورت ہے ایسے ہی ان کے معجزات اندھوں ، کو ڑھوں کا تندرست ہونا ، مُردوں کا زندہ ہونا یا پھر دنیا میں نظر کریں تو دیکھیں کہ پرندوں میں چمگاڈر ، جس کے پر گوشت منہ میں دانت ، سینے پہ چھاتیاں اور پھر اس کو حیض ہوتا ہے اور وہ بیٹھنے میں الٹی لٹکتی ہے۔ ایک جانور میں کس قدر استثنائی صورتیں ہیں ایسے ہی دیکھ لیں جس ذی روح کی ناک میں پانی گھسے وہ بلبلا اٹھتا ہے مگر ہاتھی پہلے بھرتا ہی سونڈ ہے پھر منہ میں انڈیلتا ہے۔ ہر جانور کا نیچے کا جبڑا حرکت کرتا ہے مگرمچھ کا اوپر کا جبڑا حرکت کرتا ہے۔ سب جانور کے دو پھیھپڑے مگر سانپ کا ایک ہوتا ہے۔ سب جانور بچے دے کر بقائے نسل کا سبب بنتے ہیں مگر خچر کا نر بھی بانجھ ، مادہ بھی بانجھ ، اس کے باوجود نسل قائم ہے۔ ایسی ہی بیشمار جانور اور واقعات ملتے ہیں جو عام قاعدہ سے ہٹ کر صادر ہوتے ہیں اور اللہ کی قدرت پر شہادت دیتے ہیں نیز جو کچھ تم کھاتے ہو اور جو گھروں میں بچا کر رکھتے ہو ، میں اس کے بارے تمہیں بتادوں گا۔ جو کچھ لوگ کھاتے اور دوسرے وقت کے لئے بچا کر رکھتے ، حضرت اس کے بارے بتادیا کرتے۔ ان تمام خوارق میں آپ کے دعویٰ نبوت کی بہت بڑی دلیل ہے اگر تمہیں ایمان لانے کی توفیق ہے تو ایمان لائو ، نیز میں کوئی انوکھا رسول مبعوث نہیں ہوا ہوں پہلے تو رات موجود ہے اللہ کا رسول لایا تھا میں بھی اس کی تصدیق کرتا ہوں۔ یعنی میری دعوت بھی وہی ہے۔ انبیاء کرام (علیہم السلام) اصول دعوت میں آدم (علیہ السلام) سے لے کر آقائے نامدار حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک متفق ہیں سب کی دعوت ایک ہے اور ہر نبی نے دوسرے انبیاء کی تصدیق بھی کی ہے ہاں ! طریقہ عبادات یعنی بعض ارکان عبادت میں یا بعض ان چیزوں میں فرق ہے جو پہلے تم پر تورات نے حرام کردی تھیں ، میں حلال کرتا ہوں۔ یہ بھی میری وجہ سے تم پر اللہ کا انعام ہے کہ تمہاری عادتوں کے باعث تم پر سختی کی گئی مثلاً گوشت حلال اور چربی حرام یا جسم کے دوسرے حصے حلال اور جانور کی پیٹھ کا گوشت حرام۔ تو ایسے امور میں تبدیلی کوئی اختلاف نہیں ہوتا۔ احکام الٰہی میں نسخ ہوتا رہتا ہے کہ ایک حکم ایک وقت کے لئے تھا جب اس کا وقت پورا ہوگیا تو اس کی جگہ دوسرا حکم آگیا اپنے وقت پر دونوں صحیح اور درست ثابت ہوتے ہیں خود قرآن مجید میں نسخ موجود ہے۔ نیز میں تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لئے ایک بڑی نشانی یعنی انجیل لایا ہوں۔ یہاں کتاب کے ساتھ صفت ربوبیت کا اظہار اس بات پہ دلیل ہے کہ جس طرح ستھری اغذیہ جسم کی صحت اور بقا کے لئے ربوبیت باری کا مظہر اور ضروری ہیں۔ اسی طرح خلوص نیت سے اللہ کی کتاب کی تلاوت ، اس کا سمجھنا اور اس پر عمل روح کی صحت اور ابدی زندی کی ضرورت ہے۔ اللہ کی گرفت سے ڈرتے رہو کہ میری مخالفت تو عذاب الٰہی کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ میری بات تسلیم کرو ، اللہ ہی میرا بھی اور تمہارا بھی رب ہے خالق ، مالک ، رازق حتیٰ کہ جملہ ضروریات کا کفیل وہی ہے۔ یہاں اس عقیدہ کا بطلان بھی واضح ہوگیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اللہ کے بیٹے ہیں ، نہیں ! بلکہ اس کے بندے اور نبی ہیں باعبدوہ میں عمل کا حکم ہے کہ صحت عقیدہ کی دلیل مامورات ومنہیات کی پابندی ہے اور یہی سیدھا راستہ ہے جیسے حدیث پاک میں ارشاد ہے قل امنت ثم استقم۔ یعنی اقرار توحید اور تعمیل اوامرو نواہی ، دونوں کو جمع رکھنا ہی راہ ہدایت ہے۔ فلما احسن عیسیٰ……………واللہ خیر المنکرین۔ جب تمام معجزات اور دلائل دیکھنے کے بعد بھی ان کی عادات میں تبدیلی نہ آئی۔ ان کی باتوں اور حرکات سے عیسیٰ (علیہ السلام) کو کفر کی بو آئی تو فرمایا کہ کون ہے جو اللہ کی راہ میں میرا معاون ہو یعنی اس ساری محنت کا پھل کیا کچھ لوگ تم میں ایسے بھی ہیں جو معیت باری کے طلب گار ہوں اور اس کی راہ پر میرے ساتھ چلیں۔ تو کچھ برگزیدہ اشخاص جنہیں حواری کہا گیا ہے ، جیسے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جاں نثاروں کو صحابی (رض) کہا جاتا ہے ، انہوں نے عرض کی ہم ہیں ! ہم اللہ کے دین کی خدمت کے لئے موجود ہیں اور اللہ کی ذات اور جملہ صفات پر ایمان رکھتے ہیں جب انبیاء کی شہادت کا وقت آئے تو آپ بھی ہمارے فرمانبردار ہونے کے گواہ رہیے گا ، اور اے اللہ ! اے ہمارے پروردگار ! ہم تیری توحید ، تیرے انبیاء کی صداقت پہ ایمان لائے۔ تیرے رسول یعنی عیسیٰ (علیہ السلام) کی اطاعت کی۔ تو ہمیں مومنین کاملین کی فہرست میں شامل فرمالے ! شاھدین سے مراد جملہ عقائد کی صداقت پہ گواہی بھی ہے اور حضرت ابن عباس (رض) کا ارشاد ہے ، کہ انہوں نے یہ تمنا کی تھی کہ ہمیں امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں شمار فرما کہ روز حشر تمام انبیاء کرام (علیہ السلام) کی تبلیغ رسالت کی شاہد ہوگی۔ پس کافروں نے خفیہ چال چلی۔ لفظ مکر اردو میں صرف سازش کے معنوں میں آتا ہے مگر عربی میں خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں اگر تدبیر بھلائی کے لئے ہوگی تو اچھے معنوں میں آئے گا۔ اگر برائی کے لئے ہوگی تو اس کے معنوں میں استعمال ہوگا۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نقصان پہنچانے کی سازش کی۔ بادشاہ کے کان بھرے کہ یہ شخص ملحد ہوگیا ۔ انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نقصان پہنچانے کی سازش کی۔ بادشاہ کے کان بھرے کہ یہ شخص ملحد ہوگیا ہے تورات کو بدل کر دین کو برباد کرنا چاہتا ہے اور اس کی گرفتاری اور قتل کا حکم حاصل کیا۔ ادھر اللہ کی حکمت اپنا کام کررہی تھی جسے وہ قتل کرنا چاہتے تھے اللہ کو اسے بچانا منظور تھا اور اللہ ہی سب سے بہترین تدبیریں کرنے والے ہیں۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر 42 تا 44 اصطفٰک (اس نے (اے مریم) تجھے چن لیا) طھرک (تجھے پاک باز بنایا) نساء العالمین (جہان بھر کی عورتیں) اقنتی (تو اطاعت کر) انباء الغیب (غیب کی خبریں) نوحیه (ہم اس کو وحی کرتے ہیں) لدیھم (ان کے پاس) یلقون (وہ ڈالتے ہیں) اقدم (قلم) یکفل (کفالت کرے گا، ذمہ دار ہوگا) یختصمون (وہ جھگڑتے ہیں) ۔ تشریح : آیت نمبر 42 تا 44 حضرت مریم پر باطل پرستوں نے جو الزامات لگائے تھے اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مریم ایک انتہائی پاک باز، نیک سیرت اور دنیا کی عورتوں میں ایک عظیم خاتون ہیں، اللہ نے ان کو نہ صرف برگزیدہ بنایا تھا بلکہ اللہ کی عبادت و بندگی میں بھی ان کا اعلیٰ مقام ہے۔ یہ وہ امتیاز ہے جو دنیا میں بہت کم عورتوں کو نصیب ہوا ہے۔ لہٰذا ان جیسی بلند سیرت خانون پر کسی طرح کا اتھام اور الزام ایک بدترین بات ہے۔ حضرت مریم کی پرورش کے سلسلہ میں قرعہ اندازی کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ حضرت مریم کی والدہ ماجدہ نے ان کو اللہ کے لئے ہیکل کی نذر کردیا تھا، چونکہ وہ لڑکی تھیں اس لئے یہ مسئلہ اپنے اندر بڑی نزاکتیں رکھتا تھا کہ ہیکل کے عبادت گذاروں میں سے وہ کس کی زیر نگرانی رہیں۔ قرعہ اندازی کی گئی تو ہر مرتبہ حضرت مریم کے خالو حضرت زکریا (علیہ السلام) کا نام نکلا اور بالاخر وہ ان ہی زیر نگرانی پرورش پاتی رہیں۔ یہاں اس کو بھی واضح کردیا گیا ہے کہ حضرت مریم جن کی تربیت حضرت زکریانے کی وہ اپنے وقت کے عظیم پیغمبروں میں سے ہیں جو اس اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ حضرت مریم کی نیکی اور سچائی کو پیغمبری کے دامن میں پرورش پانے کا موقع ملا جو خود ان کی ایک بہت بڑی عظمت کی دلیل ہے۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

1۔ فرشتوں کا کلام کرنا خواص نبوت سے نہیں۔ 2۔ لفظ نساء سے جو کہ خاص ہے بالغہ کے ساتھ ظاہرا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کہنا فرشتوں کا حضرت مریم (علیہا السلام) کے جوان ہونے کے بعد تھا اور اس بنا پر اصطفاء کے مکرر لانے کی یہ توجیہہ ہوسکتی ہے کہ پہلا اصطفاء بچپن کا ہو، اور اصطفاء ثانی جوانی کا ہو۔

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : خطاب کا رخ حضرت مریم [ کی طرف ہوتا ہے۔ سلسلۂ کلام یہاں تک پہنچا کہ حضرت مریم [ کی والدہ جو حضرت عمران (علیہ السلام) کی بیوی اور عیسیٰ (علیہ السلام) کی نانی ہیں انہوں نے نذر مانی تھی کہ اللہ تعالیٰ اسے بیٹا عطا فرمائے گا تو وہ اس کو اللہ تعالیٰ کی نذر کر دے گی لیکن بیٹے کے بجائے مریم پیدا ہوئی تو اس نے مریم کو ہی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف کردیا جو مسجد اقصیٰ کے متصل ایک حجرے میں اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہتی تھی۔ جب حضرت مریم [ سن بلوغت کو پہنچی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے ملائکہ نے یہ پیغام دیا کہ اے مریم ! اللہ نے تجھے منتخب فرمالیا ہے گناہوں، حیض ونفاس اور لوگوں کے الزامات سے پاک کردیا ہے اور تجھے دنیا کی عورتوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے لہٰذا اے مریم ! اپنے رب کی تابعدار بن جا، اس کے حضور سجدہ ریز ہوتی رہو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرتی رہو۔ (عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ جَعْفَرٍ قَالَ سَمِعْتُ عَلِیًّا (رض) یَقُوْلُ سَمِعْتُ النَّبِیَّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یَقُوْلُ خَیْرُنِسَاءِھَا مَرْیَمُ ابْنَۃُ عِمْرَانَ وَخَیْرُ نِسَاءِھَا خَدِیْجَۃُ )[ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب وإذ قالت الملائکۃ یامریم ] ” حضرت عبداللہ بن جعفر کہتے ہیں میں نے حضرت علی (رض) سے سنا وہ کہتے تھے میں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا کہ عورتوں میں مریم بنت عمران (علیہ السلام) اور خدیجہ (رض) بہترین عورتیں ہیں۔ “ (عَنْ أَبِیْ سَعِیْدٍ (رض) قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَاطِمَۃُ سَیِّدَۃُ نِسَاءِ أَھْلِ الْجَنَّۃِ ) [ مسند احمد : کتاب باقی مسند المکثرین، باب مسند أبی سعید الخدری ] ” حضرت ابو سعید (رض) فرماتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہے۔ “ (عَنْ أَبِیْ مُوْسَی الْأَشْعَرِیِّ (رض) قَالَ قَال النَّبِیُّ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فَضْلُ عَاءِشَۃَ عَلَی النِّسَآءِ کَفَضْلِ الثَّرِیْدِ عَلٰی سَآءِرِ الطَّعَامِ کَمُلَ مِنَ الرِّجَالِ کَثِیْرٌ وَّلَمْ یَکْمُلْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَرْیَمُ بْنَتُ عِمْرَانَ وَآسِیَۃُ امْرَأَۃُ فِرْعَوْنَ ) [ رواہ البخاری : کتاب أحادیث الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ إذ قالت الملائکۃ یا مریم إن اللہ یبشرک ] ” حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عورتوں میں عائشہ کی فضیلت ایسے ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کی ہے ‘ مردوں میں کامل لوگ بہت ہیں لیکن عورتوں میں مریم بنت عمران اور آسیہ زوجۂ فرعون کے علاوہ کوئی کامل نہیں۔ “ علامہ رازی نے امام اوزاعی کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت مریم [ اس قدر نماز میں طویل قیام کرتی کہ ان کے پاؤں سے خون رسنا شروع ہوجاتا۔ واقعہ کے بیان میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ میرے پیغمبر ! یہ غیب کی خبریں ہیں جو تمہارے سامنے بیان کی جارہی ہیں کیونکہ تم اس وقت موجود نہیں تھے جب لوگ مریم کو اپنی کفالت میں لینے کے لیے باہم جھگڑتے ہوئے قلموں کے ذریعے قرعہ اندازی کر رہے تھے۔ اہل علم نے لکھا ہے کہ اس زمانے میں مذہبی لوگوں میں رواج تھا کہ جب کسی بات کا فیصلہ نہ ہوپاتا تو وہ ان قلموں کو پانی میں پھینکتے جن کے ذریعے تورات کی کتابت کی جاتی تھی جس کا قرعہ نکلتا اس کا قلم پانی کے بہاؤ کی طرف بہنے کے بجائے وہیں ٹھہرا رہتا یا الٹا چلنا شروع ہوجاتا۔ اس طرح حضرت زکریا (علیہ السلام) کا نام نکلا جو رشتہ میں حضرت مریم [ کے خالو لگتے تھے۔ حضرت مریم [ کی کفالت پر یہ لوگ اس لیے جھگڑتے تھے کہ حضرت مریم [ کو اللہ تعالیٰ نے ابتدا میں ہی اپنے ہاں ایک مقام سے نوازا تھا۔ وہ بچپن میں نہایت ہی معصوم، شرم وحیا کا مجسمہ اور حسن و جمال کی پیکر تھی۔ ان کے وجود کی برکات اور کرامات لوگ دیکھ چکے تھے۔ مسائل ١۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم [ کو ہر قسم کے عیب سے پاک اور عورتوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ ٢۔ حضرت مریم [ عبادت گزار اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبردار تھی۔ ٣۔ یہ غیب کی خبریں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر وحی فرمائی ہیں۔ تفسیر بالقرآن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حاضر وناظر نہیں ہیں : ١۔ مریم [ کی کفالت کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حاضر نہ تھے۔ (آل عمران : ٤٤) ٢۔ اخوان یوسف کے مکر کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود نہ تھے۔ (یوسف : ١٠٢)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

یہ برگزیدگی کیا تھی ؟ وہ یہ کہ اللہ براہ راست اس کے اندر اپنی ایک روح ڈالنے والے تھے ۔ جس طرح اللہ نے حضرت آدم کے جسد خاکی میں سب سے پہلے روح ڈالی تھی ۔ اور پھر یہ خارق العادۃ واقعہ پوری انسانیت کے سامنے پیش کیا گیا اپنے خاص طریقے کے مطابق ‘ فی الواقع یہ تاریخ انسانیت کی ایک منفرد برگزیدگی ہے ۔ اور بلاشبہ ایک عظیم واقعہ ہے ………لیکن آج تک اس عظیم واقعہ کا انسانیت کو صحیح علم نہ تھا ۔ یہاں صفائی کی طرف اشارہ کرکے یہ تاثر دیا گیا کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش کے بارے میں یہودی جو شبہات پھیلاتے تھے اور جو رکیک حملے کرتے تھے ‘ وہ قابل مذمت ہیں ۔ وہ حضرت مریم کی پاکیزگی میں شکوک و شبہات پھیلاتے تھے اور ان کی دلیل یہ تھی کہ آج تک تاریخ انسانیت میں ایسی خارق العادۃ پیدائش کا واقعہ نہیں ہوا ہے۔ اس لئے یہ یہودی (اللہ انہیں غارت کرے) کہتے تھے کہ اس واقعہ کے پیچھے کوئی ناپسندیدہ راز ہے۔ یہاں آکر معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی عظمت کا کیا مقام ہے ‘ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام کا منبع صافی کس قدر بلند اور قابل اعتماد ہے ۔ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اہل کتاب ‘ بشمول نصاریٰ قسم قسم کے الزامات عائدکر رہے تھے ۔ آپ کی تکذیب کررہے تھے ۔ آپ کے دشمن تھے اور جدل وجدال پر ہر وقت آمادہ رہتے تھے ۔ اسلام کی حقانیت کے خلاف شبہات پھیلاتے تھے ۔ لیکن دیکھئے وہ اپنے رب کی جانب سے یہ پیغام لاتے ہیں کہ حضرت مریم (علیہا السلام) کی حقیقت یہ ہے اور یہ کہ وہ تمام دنیا کی عورتوں پر فضیلت رکھتی ہیں ۔ یوں اسلام حضرت مریم کے مقام کو بلند آفاق تک اونچا کردیتا ہے ۔ لیکن موقعہ ومحل ایسا ہے کہ حضرت مریم کے پیروکار آپ کے ساتھ بحث ومناظرہ کے لئے آئے ہوئے ہیں ۔ اور حضرت مریم (علیہ السلام) کی تعظیم کو آپ کے لئے جواز بناتے ہیں کہ وہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہ لائیں ۔ اور حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دین کی تکذیب کریں۔ کیا سچائی ہے یہ ‘ کس قدر عظمت ہے یہ اسلام کی ‘ اس سے بڑی دلیل اور کیا ہوسکتی ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سچے ہیں اور ایک سچے منبع سے فیض یاب ہیں ۔ آپ پر وحی لانے والے بھی سچے ہیں ۔ وہ سچائی سے اپنے رب سے لیتے ہیں ۔ وہ حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے حق میں جو سچائی پاتے ہیں اس کا اعلان کردیتے ہیں ۔ اگر آپ اللہ کے سچے رسول نہ ہوتے تو وہ ان حالات میں اپنے دشمنوں کے متعلق اس سچائی کا اظہار نہ کرتے ۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

فرشتوں کا حضرت مریم کو بتانا کہ اللہ نے تمہیں چن لیا اس سے پہلے رکوع کی ابتداء میں فرمایا تھا کہ آل عمران کو اللہ تعالیٰ نے منتخب فرما لیا پھر اسی ذیل میں حضرت مریم کی پیدائش اور نشوونما اور حضرت زکریا کی دعا اور حضرت یحییٰ کا پیدا ہونا بیان فرمایا اب اسی سلسلہ کے تتمہ کا بیان شروع ہو رہا ہے۔ حضرت مریم کا منتخب فرمانا پھر ان کے بیٹے عیسیٰ (علیہ السلام) کی خوشخبری دینا اور ان کو رسالت سے سر فراز فرمانا اور ان کے بعض معجزات کا ذکر فرمانا۔ یہ باتیں اس رکوع میں مذکور ہیں۔ اصطفک کی تفسیر کرتے ہوئے صاحب روح المعانی لکھتے ہیں اختارک من اول الامرو لطف بک و میزک علی کل محررو خصلک بالکرامات السنیۃ یعنی شروع ہی سے اللہ نے تجھے چن لیا اور تیرے ساتھ مہربانی فرمائی اور تجھے ان تمام لڑکوں پر امتیاز بخشا جن کو بیت المقدس کی خدمت کے لیے آزاد کیا جاتا ہے اور بڑی بڑی کرامات کے ساتھ تجھے مخصوص فرمایا، اور طھرک کے بارے میں لکھتے ہیں ای من الادناس و الاقذار التی تعرض للنساء مثل الحیض والنفاس حتی صرت صالحۃ لخدمۃ المسجد یعنی اللہ نے تجھے ان گندگیوں سے پاک فرمایا جو عورتوں کو پیش آجاتی ہیں جیسے حیض اور نفاس یہاں تک کہ تو مسجد کی خدمت کے لائق ہوگئی اور بعض حضرات نے فرمایا کہ طھرک بالایمان عن الکفر و بالطاعۃ من المعصیۃ یعنی تجھے ایمان دیا اور کفر سے پاک رکھا اور طاعت میں لگایا اور گناہوں سے پاک رکھا اور بعض حضرات نے اس کا مطلب بتاتے ہوئے یوں فرمایا ہے کہ (نَزَھَکِ عَنِ الْاَخْلاَقِ الذَّمِیْمَۃِ وَ الطَّبَاع الرَّدِّیَّۃِ ) یعنی تجھے برے اخلاق سے اور بری طبیعتوں سے پاک صاف کردیا۔ اس کے بعد صاحب روح المعانی لکھتے ہیں کہ اولیٰ یہ ہے کہ عموم پر محمول کیا جائے اور مطلب یہ ہے کہ ہر طرح کی گندگیوں سے تجھے اللہ نے پاک کردیا۔ اقذار حسیہ معنویہ قلبیہ قالبیہ سب سے صاف اور ستھری بنا دیا۔ حضرت مریم کی فضیلت : پھر فرمایا (وَ اصْطَفٰکِ عَلٰی نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَ ) اور تجھے جہانوں کی عورتوں کے مقابلہ میں منتخب فرما لیا۔ عموم الفاظ کے پیش نظر بعض حضرات نے فرمایا کہ دنیا کی تمام عورتوں پر حضرت مریم کو فضیلت دی گئی اور بعض حضرات نے فرمایا کہ اس سے ان کے اپنے زمانہ کی عورتیں مراد ہیں۔ روایات حدیث میں حضرت مریم بنت عمران حضرت آسیہ (فرعون کی بیوی) اور حضرت خدیجہ بنت خویلد ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سب سے پہلی اہلیہ) اور حضرت فاطمہ بنت سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت عائشہ (رض) کے فضائل وارد ہوئے ہیں۔ ان فضائل کی وجہ سے بعض حضرات نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور بعض حضرات نے توقف کیا ہے اور بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ ان کے فضائل مختلف جہات سے ہیں۔ حضرت سیدہ فاطمہ (رض) کی فضیلت : حضرت فاطمہ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جگر گوشہ تھیں اس حیثیت سے ان کو سب پر فضیلت حاصل ہے اور صحیح بخاری میں ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے۔ مجھے وہ چیز ناگوار ہوتی ہے جو اسے ناگوار ہو۔ اور وہ چیز مجھے ایذا دیتی ہے جو اسے ایذا دے (مشکوٰۃ المصابیح صفحہ ٥٧٨ از بخاری و مسلم) نیز صحیح بخاری صفحہ ٥١٢: ج ١ میں ہے کہ آنحضرت سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مرض وفات میں حضرت فاطمہ سے فرمایا اما ترضین ان تکونی سیدۃ نساء اھل الجنۃ او نساء المومنین (کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ جنت والی عورتوں کی سردار ہوگی یا یوں فرمایا کہ مومنین کی عورتوں کی سردار ہوگی) حضرت خدیجہ (رض) کی فضیلت : حضرت خدیجہ (رض) اس اعتبار سے افضل ہیں کہ وہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سب سے پہلی بیوی ہیں اور سب سے پہلے انہوں نے ہی اسلام قبول کیا اور اپنا مال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر اور دین اسلام کی خدمت میں پوری طرح لگا دیا جس کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا : (وَوَجَدَکَ عَآءِلاً فَاَغْنٰی) اس کی تفسیر میں علماء لکھتے ہیں اَی بمالٍ خدیجَۃَ (یعنی اللہ نے آپ کو بےپی سے والا پایا سو آپ کو خدیجہ کے مال کے ذریعہ مال والا بنا دیا) ۔ حضرت عائشہ (رض) کی فضیلت : حضرت عائشہ (رض) کی فضیلت اس اعتبار سے دوسری تمام عورتوں کے مقابلہ میں زیادہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد انہوں نے آپ کے علوم کو تمام بیویوں سے زیادہ پھیلایا احکام و مسائل بتا دئیے بہت بڑی تعداد میں ان کے شاگرد تھے جنہوں نے ان سے علوم حاصل کیے۔ الاصابہ صفحہ ٢٦٠: ج ٤ میں ہے کہ حضرت عطاء بن ابی رباح تابعی نے فرمایا کہ حضرت عائشہ (رض) سب لوگوں سے زیادہ فقیہ تھیں۔ اور حضرت ابو موسیٰ (رض) نے فرمایا کہ جب بھی کوئی مشکل معاملہ پیش ہوا تو ہم نے عائشہ (رض) کے پاس ضرور اس کے بارے میں علم پایا۔ یہ تو حضرت خدیجہ، حضرت فاطمہ اور حضرت عائشہ (رض) کی فضیلتیں ہیں جو مختلف جہات سے ہیں اور حضرت مریم [ کی فضیلت اس اعتبار سے ہے کہ ان کی والدہ نے ان کو بیت المقدس کے لیے بطور خادم مقرر کیا اور حضرت زکریا (علیہ السلام) نے ان کی کفالت کی اور ان کے پاس غیب سے رزق آیا اور وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ بنیں۔ حضرت آسیہ کی فضیلت : اور حضرت آسیہ (فرعون کی بیوی) کی فضیلت اس اعتبار سے ہے کہ انہوں نے اس ماحول میں اسلام قبول کیا جبکہ فرعون ایمان قبول کرنے والوں کو بہت تکلیف دیتا تھا۔ زمین پر لٹا کر ہاتھوں میں کیلیں گاڑ دیتا تھا۔ اللہ تعالیٰ شانہٗ نے بطور مثال اہل ایمان کا ذکر فرماتے ہوتے سورة تحریم میں یوں ان کا ذکر فرمایا (وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِمْرَاَۃَ فِرْعَوْنَ اِِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّۃِ وَنَجِّنِیْ مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِہٖ وَنَجِّنِیْ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ ) (اور اللہ نے بیان فرمایا مسلمانوں کے لیے فرعون کی بیوی کا حال جبکہ اس نے دعا کی کہ اے میرے پروردگار میرے واسطے جنت میں اپنے قرب میں مکان بنائیے اور مجھ کو فرعون سے اور اسکے عمل سے نجات دیجیے اور مجھ کو تمام ظالم لوگوں سے نجات دیجیے) ۔ صحیح بخاری صفحہ ٥٣٢: ج ١ میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا۔ مردوں میں بہت لوگ کامل ہوئے اور عورتوں میں کامل نہیں ہیں مگر مریم بنت عمران اور آسیہ فرعون کی بیوی اور عائشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسی فضیلت ہے ثرید کی باقی تمام کھانوں پر۔ بہر حال ان پانچوں خواتین کی فضیلت بہت زیادہ ہے جو روایات حدیث سے واضح طور پر معلوم ہوتی ہے۔ کلی فضیلت کس کو حاصل ہے۔ اللہ ہی کو معلوم ہے۔

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

61 حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) چونکہ قدرت خداوندی سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور پھر بچپن میں ہی باتیں بھی کی تھیں اور پھر جب بڑے ہوئے تو ان کے ہاتھوں پر بڑے عجیب و غریب معجزے ظاہر ہوئے مثلاً مٹی کے پرندے میں جان ڈالنا، مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو تندرست کرنا، مردوں کو زندہ کرنا اور لوگون کو ان کی پوشیدہ باتیں بتانا۔ تو ان تمام چیزوں سے یہود ونصاریٰ کے دلوں میں مختلف شبہات پیدا ہوئے۔ یہودیوں نے حضرت مریم صدیقہ کے بارے میں زبان طعن دراز کی اور ان پر بدکاری کی تہمت لگائی۔ دوسری طرف عیسائیوں نے افراط سے کام لے کر حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) کو مافوق الاسباب قدرت اور تصرف واختیار کا مالک قرار دیا اور انہیں حاجت اور مشکلات میں پکارنے لگے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے یہود ونصاریٰ کے یہ تمام شبہات دور فرمائے۔ پہلے حضرت مریم صدیقہ کی عفت اور پاکدامنی کی شہادت دی کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی پیدائش محض قدرت خداوندی سے بغیر باپ کے ہوئی ہے اور حضرت مریم صدیقہ عفیفہ اور پاکدامن ہیں اس کے بعد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کا ذکر کر کے فرمایا کہ یہ تمام معجزے محض اللہ کے حکم سے ان کے ہاتھ پر ظاہر ہوئے ان کے ظہور میں ان کے تصرف اور اختیار کو کوئی دخل نہ تھا۔ اس کے ضمن میں حضرت مریم کی الوہیت کی بھی تردید فرما دی۔ اِصْطَفٰکَ تجھے باقی تمام خدام بیت اللہ پر فوقیت دی اور خصوصی خوبیوں سے ممتاز فرمایا۔ وَطَھَّرَکِ ۔ اخلاق ذمیمہ، عادات قبیحہ، کفر ومعصیت یا حیض ونفاس وغیرہ سے پاک رکھا۔ وَاصْطَفٰکِ عَلیٰ نِسَاءِ الْعٰلَمِیْنَ سے حضرت مریم کے زمانہ کی عورتیں مراد ہیں اور مطلب یہ ہے کہ اللہ نے ان کو اس زمانہ کی عورتوں پر فوقیت اور بزرگی عطا کی اس لیے اس سے ان کا حضرت فاطمۃ الزہراء حضرت عائشہ اور حضرت خدیجہ (رض) سے افضل ہونا لازم نہیں آتا۔ (والتفصیل فی روح المعانی ج 3 ص 1056)

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi