Surat ur Room

Surah: 30

Verse: 11

سورة الروم

اَللّٰہُ یَبۡدَؤُا الۡخَلۡقَ ثُمَّ یُعِیۡدُہٗ ثُمَّ اِلَیۡہِ تُرۡجَعُوۡنَ ﴿۱۱﴾

Allah begins creation; then He will repeat it; then to Him you will be returned.

اللہ تعالٰی ہی مخلوق کی ابتدا کرتا ہے پھر وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا پھر تم سب اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے ۔

Tafseer Ibn-e-Kaseer by

Amam Ibn-e-Kaseer

Allah said: اللَّهُ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ ... Allah originates the creation, then He will repeat it, Just as He was able to create it in the first place, so He is also able to repeat it. ... ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ then to Him you will be returned. on the Day of Resurrection, when each will be requited according to his deeds. Then Allah says: وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ يُبْلِسُ الْمُجْرِمُونَ

اعمال کے مطابق فیصلے فرمان باری ہے کہ سب سے پہلے مخلوقات کو اسی اللہ نے بنایا اور جس طرح وہ اس کے پیدا کرنے پر اس وقت قادر تھا اب فناکر کے دوبارہ پیدا کرنے پر بھی وہ اتنا ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ قادر ہے تم سب قیامت کے دن اسی کے سامنے حاضر کئے جانے والے ہو ۔ وہاں وہ ہر ایک کو اسکے اعمال کا بدلہ دے گا ۔ قیامت کے دن گنہگار ناامید رسوا اور خاموش ہوجائیں گے ۔ اللہ کے سوا جن جن کی دنیا میں عبادت کرتے رہے ان میں سے ایک بھی ان کی سفارش کے لئے کھڑا نہ ہوگا ۔ اور یہ انکے پوری طرح محتاج ہونگے لیکن وہ ان سے بالکل آنکھیں پھیر لیں گے اور خود ان کے معبودان باطلہ بھی ان سے کنارہ کش ہوجائیں گے اور صاف کہدیں گے کہ ہم میں انمیں کوئی دوستی نہیں ۔ قیامت قائم ہوتے ہی اس طرح الگ الگ ہوجائیں گے جس کے بعد ملاپ ہی نہیں ۔ نیک لوگ تو علیین میں پہنچا دئے جائیں گے اور برے لوگ سجین میں پہنچا دئیے جائیں گے وہ سب سے اعلیٰ بلندی پر ہونگے یہ سب سے زیادہ پستی میں ہونگے پھر اس آیت کی تفصیل ہوتی ہے کہ نیک نفس تو جنتوں میں ہنسی خوشی سے ہونگے اور کفار جہنم میں جل بھن رہے ہونگے ۔

Ahsan ul Bayan by

Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)

111یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ پہلی مرتبہ پیدا کرنے پر قادر ہے، وہ مرنے کے بعد دوبارہ انھیں زندہ کرنے پر بھی قادر ہے، اس لئے کہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی مرتبہ سے زیادہ مشکل نہیں ہے۔ 112یعنی میدان محشر اور موقف حساب میں جہاں وہ عدل و انصاف کا اہتمام فرمائے گا۔

Taiseer ul Quran by

Abdul Rehman Kilani

[١٠] اس کی تشریح کے لئے دیکھئے سورة النمل کی آیت نمبر ٦٤ کا حاشیہ نمبر ٦٩ اور سورة العنکبوت کی آیت نبر ١٩ کا حاشیہ نمبر ٣١

Tafseer al Quran by

Abdul Salam Bhatvi

اَللّٰهُ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهٗ ۔۔ : پچھلی آیات کا حاصل یہ ہے کہ اللہ سبحانہ دوبارہ زندہ کرنے اور آخرت برپا کرنے پر قادر ہے۔ اب یہی بات صراحت کے ساتھ بطور دعویٰ ذکر فرمائی اور اس طرح فرمائی کہ اس کی دلیل بھی ساتھ ہے، چناچہ فرمایا : (ۧاَللّٰهُ يَبْدَؤُا الْخَــلْقَ ) اب تک جو خلق بھی پیدا ہوئی ہے وہ اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہے اور وہ اب بھی ہر لمحے جو چاہتا ہے نئی سے نئی مخلوق پیدا کر رہا ہے اور کرتا رہے گا۔ یہ بات تم بھی مانتے ہو کہ دوسرے کسی نے نہ خلق کی ابتدا کی، نہ کر رہا ہے، نہ کرے گا اور نہ کسی میں جرأت ہے کہ یہ دعویٰ ہی کرے۔ جب یہ حق ہے تو یہ بھی حق ہے کہ وہ اس خلق کو دوبارہ بھی پیدا کرے گا، کیونکہ اس کے لیے پہلی دفعہ پیدا کرنا اور دوبارہ پیدا کرنا یکساں ہے۔ پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے، تاکہ ہر شخص کو اس کے عمل کی جزا ملے، جیسا کہ فرمایا : (لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۢ بِمَا تَسْعٰي) [ طٰہٰ : ١٥ ] ” تاکہ ہر شخص کو اس کا بدلا دیا جائے جو وہ کوشش کرتا ہے۔ “

Maarif ul Quran by

Mufti Muhammad Shafi

خلاصہ تفسیر اللہ تعالیٰ خلق کو اول بار بھی پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ بھی اس کو پیدا کرے گا پھر (پیدا ہونے کے بعد) اس کے پاس (حساب کتاب کے لئے) لائے جاؤ گے اور جس روز قیامت قائم ہوگی ( جس میں اعادہ مذکور ہونے والا ہے) اس روز مجرم (یعنی کافر) لوگ (باز پرس کے وقت) حیرت زدہ رہ جائیں گے (یعنی کوئی معقول بات ان سے نہ بن پڑے گی۔ اور ان کے (تراشے ہوئے) شریکوں میں سے (جن کو شریک عبادت بناتے تھے) ان کا کوئی سفارشی نہ ہوگا اور (اس وقت خود) یہ لوگ (بھی) اپنے شریکوں میں سے منکر ہوجائیں گے (کہ واللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ ) اور جس روز قیامت قائم ہوئی اس روز (علاوہ واقعہ مذکورہ کے ایک واقعہ یہ بھی ہوگا کہ مختلف طریقوں کے) سب آدمی جدا جدا ہوجائیں گے۔ یعنی جو لوگ ایمان لائے تھے اور انہوں نے اچھے کام کئے تھے وہ تو (بہشت کے) باغ میں مسرور ہوں گے اور جن لوگوں نے کفر کیا تھا اور ہماری آیتوں کو اور آخرت کے پیش آنے کو جھٹلایا تھا وہ لوگ عذاب میں گرفتار ہوں گے (یہ معنی ہیں جدا جدا ہونے کے، جب ایمان و عمل صالح کی فضیلت تم کو معلوم ہوگئی) سو تم اللہ کی تسبیح (اعتقاداً و قلباً بھی جس میں ایمان آ گیا اور قولاً و لساناً بھی جس میں اقرار و دیگر اذکار آگئے اور عملاً و ارکاناً بھی جس میں تمام عبادتیں عموماً اور نماز خصوصاً آگئیں، غرض تم اللہ کی تسبیح ہر وقت کیا کرو (اور خصوصاً ) شام کے وقت اور صبح کے وقت اور (اللہ کی تسبیح کرنے کا جو حکم ہوا ہے تو وہ واقع میں اس کا مستحق بھی ہے، کیونکہ) تمام آسمانوں اور زمین میں اسی کی حمد ہوتی ہے (یعنی آسمان میں فرشتے اور زمین میں بعض اختیار اور بعض اضطراراً اس کی حمد وثناء کرتے ہیں۔ کقولہ تعالیٰ وَاِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّايُسَبِّحُ بِحَمْدِهٖ پس جب وہ ایسا محمود الصفات کامل الذات ہے تو تم کو بھی ضرور اس کی تسبیح کرنی چاہئے) اور بعد زوال (بھی تسبیح کیا کرو) اور ظہر کے وقت (بھی تسبیح کیا کرو کہ یہ اوقات تجدد نعمت و زیادت ظہور آثار قدرت کے ہیں ان میں تجدید تسبیح کی مناسب ہے بالخصوص نماز کے لئے یہی اوقات مقرر ہیں، چناچہ مَسَا میں مغرب و عشاء آگئی اور عَشِی میں ظہر اور عصر دونوں داخل تھے مگر ظہر صراحۃً مذکور ہے اس لئے صرف عصر مراد رہ گئی، اور صبح بھی تصریحاً مذکور ہے اور اس کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہے، کیونکہ اس کی ایسی قدرت ہے کہ) وہ جاندار کو بےجان سے باہر لاتا ہے اور بےجان کو جان دار سے باہر لاتا ہے۔ (مثلاً نطفہ اور بیضہ سے انسان اور بچہ اور انسان اور پرندہ سے نطفہ اور بیضہ) اور زمین کو اس کے مردہ (یعنی خشک) ہونے کے بعد زندہ (یعنی تازہ و شاداب) کرتا ہے اور اسی طرح تم لوگ (قیامت کے روز) قبروں سے نکالے جاؤ گے۔

Mufradat ul Quran by

Imam Raghib Isfahani

رکوع نمبر 5 اَللہُ يَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُہٗ ثُمَّ اِلَيْہِ تُرْجَعُوْنَ۝ ١١ الله الله : قيل : أصله إله فحذفت همزته، وأدخل عليها الألف واللام، فخصّ بالباري تعالی، ولتخصصه به قال تعالی: هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا [ مریم/ 65] . وإله جعلوه اسما لکل معبود لهم، وکذا اللات، وسمّوا الشمس إِلَاهَة «3» لاتخاذهم إياها معبودا . وأَلَهَ فلان يَأْلُهُ الآلهة : عبد، وقیل : تَأَلَّهَ. فالإله علی هذا هو المعبود «4» . وقیل : هو من : أَلِهَ ، أي : تحيّر، وتسمیته بذلک إشارة إلى ما قال أمير المؤمنین عليّ رضي اللہ عنه : (كلّ دون صفاته تحبیر الصفات، وضلّ هناک تصاریف اللغات) وذلک أنّ العبد إذا تفكّر في صفاته تحيّر فيها، ولهذا روي : «تفكّروا في آلاء اللہ ولا تفكّروا في الله» وقیل : أصله : ولاه، فأبدل من الواو همزة، وتسمیته بذلک لکون کل مخلوق والها نحوه، إمّا بالتسخیر فقط کالجمادات والحیوانات، وإمّا بالتسخیر والإرادة معا کبعض الناس، ومن هذا الوجه قال بعض الحکماء : اللہ محبوب الأشياء کلها «2» ، وعليه دلّ قوله تعالی: وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلكِنْ لا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ [ الإسراء/ 44] . وقیل : أصله من : لاه يلوه لياها، أي : احتجب . قالوا : وذلک إشارة إلى ما قال تعالی: لا تُدْرِكُهُ الْأَبْصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصارَ [ الأنعام/ 103] ، والمشار إليه بالباطن في قوله : وَالظَّاهِرُ وَالْباطِنُ [ الحدید/ 3] . وإِلَهٌ حقّه ألا يجمع، إذ لا معبود سواه، لکن العرب لاعتقادهم أنّ هاهنا معبودات جمعوه، فقالوا : الآلهة . قال تعالی: أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنا [ الأنبیاء/ 43] ، وقال : وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ [ الأعراف/ 127] وقرئ : ( وإلاهتك) أي : عبادتک . ولاه أنت، أي : لله، وحذف إحدی اللامین .«اللهم» قيل : معناه : يا الله، فأبدل من الیاء في أوله المیمان في آخره وخصّ بدعاء الله، وقیل : تقدیره : يا اللہ أمّنا بخیر «5» ، مركّب تركيب حيّهلا . ( ا ل ہ ) اللہ (1) بعض کا قول ہے کہ اللہ کا لفظ اصل میں الہ ہے ہمزہ ( تخفیفا) حذف کردیا گیا ہے اور اس پر الف لام ( تعریف) لاکر باری تعالیٰ کے لئے مخصوص کردیا گیا ہے اسی تخصیص کی بناء پر فرمایا :۔ { هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا } ( سورة مریم 65) کیا تمہیں اس کے کسی ہمنام کا علم ہے ۔ الہ کا لفظ عام ہے اور ہر معبود پر بولا جاتا ہے ( خواہ وہ معبود پر حق ہو یا معبود باطل ) اور وہ سورج کو الاھۃ کہہ کر پکارتے تھے کیونکہ انہوں نے اس کو معبود بنا رکھا تھا ۔ الہ کے اشتقاق میں مختلف اقوال ہیں بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( ف) یالہ فلاو ثالہ سے مشتق ہے جس کے معنی پر ستش کرنا کے ہیں اس بنا پر الہ کے معنی ہوں گے معبود اور بعض نے کہا ہے کہ یہ الہ ( س) بمعنی تحیر سے مشتق ہے اور باری تعالیٰ کی ذات وصفات کے ادراک سے چونکہ عقول متحیر اور دو ماندہ ہیں اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرالمومنین حضرت علی (رض) نے فرمایا ہے ۔ کل دون صفاتہ تحبیرالصفات وضل ھناک تصاریف للغات ۔ اے بروں ازوہم وقال وقیل من خاک برفرق من و تمثیل من اس لئے کہ انسان جس قدر صفات الیہ میں غور و فکر کرتا ہے اس کی حیرت میں اضافہ ہوتا ہے اس بناء پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے (11) تفکروا فی آلاء اللہ ولا تفکروا فی اللہ کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں غور و فکر کیا کرو اور اس کی ذات کے متعلق مت سوچا کرو ۔ (2) بعض نے کہا ہے کہ الہ اصل میں ولاہ ہے واؤ کو ہمزہ سے بدل کر الاہ بنالیا ہے اور ولہ ( س) کے معنی عشق و محبت میں دارفتہ اور بیخود ہونے کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ سے بھی چونکہ تمام مخلوق کو والہانہ محبت ہے اس لئے اللہ کہا جاتا ہے اگرچہ بعض چیزوں کی محبت تسخیری ہے جیسے جمادات اور حیوانات اور بعض کی تسخیری اور ارادی دونوں طرح ہے جیسے بعض انسان اسی لئے بعض حکماء نے کہا ہے ذات باری تعالیٰ تما اشیاء کو محبوب ہے اور آیت کریمہ :{ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ } ( سورة الإسراء 44) مخلوقات میں سے کوئی چیز نہیں ہے مگر اس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتی ہے ۔ بھی اسی معنی پر دلالت کرتی ہے ۔ (3) بعض نے کہا ہے کہ یہ اصل میں لاہ یلوہ لیاھا سے ہے جس کے معنی پر وہ میں چھپ جانا کے ہیں اور ذات باری تعالیٰ بھی نگاہوں سے مستور اور محجوب ہے اس لئے اسے اللہ کہا جاتا ہے ۔ اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا :۔ { لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ } ( سورة الأَنعام 103) وہ ایسا ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے ۔ نیز آیت کریمہ ؛{ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ } ( سورة الحدید 3) میں الباطن ، ، کہہ کر بھی اسی معنی کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ الہ یعنی معبود درحقیقت ایک ہی ہے اس لئے ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس کی جمع نہ لائی جائے ، لیکن اہل عرب نے اپنے اعتقاد کے مطابق بہت سی چیزوں کو معبود بنا رکھا تھا اس لئے الہۃ صیغہ جمع استعمال کرتے تھے ۔ قرآن میں ہے ؛۔ { أَمْ لَهُمْ آلِهَةٌ تَمْنَعُهُمْ مِنْ دُونِنَا } ( سورة الأنبیاء 43) کیا ہمارے سوا ان کے اور معبود ہیں کہ ان کو مصائب سے بچالیں ۔ { وَيَذَرَكَ وَآلِهَتَكَ } ( سورة الأَعراف 127) اور آپ سے اور آپ کے معبودوں سے دست کش ہوجائیں ۔ ایک قراءت میں والاھتک ہے جس کے معنی عبادت کے ہیں الاہ انت ۔ یہ اصل میں للہ انت ہے ایک لام کو تخفیف کے لئے خذف کردیا گیا ہے ۔ اللھم بعض نے کہا ہے کہ اس کے معنی یا اللہ کے ہیں اور اس میں میم مشدد یا ( حرف ندا کے عوض میں آیا ہے اور بعض کا قول یہ ہے کہ یہ اصل میں یا اللہ امنا بخیر ( اے اللہ تو خیر کے ساری ہماری طرف توجہ فرما) ہے ( کثرت استعمال کی بنا پر ) ۔۔۔ حیھلا کی طرح مرکب کرکے اللھم بنا لیا گیا ہے ۔ ( جیسے ھلم ) بدأ يقال : بَدَأْتُ بکذا وأَبْدَأْتُ وابْتَدَأْتُ ، أي : قدّمت، والبَدْءُ والابتداء : تقدیم الشیء علی غيره ضربا من التقدیم . قال تعالی: وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسانِ مِنْ طِينٍ [ السجدة/ 7] ( ب د ء ) بدء ات بکذا وابتدءات میں نے اسے مقدم کیا ۔ اس کے ساتھ ابتدا کی ۔ البداء والابتداء ۔ ایک چیز کو دوسری پر کسی طور مقدم کرنا قرآن میں ہے { وَبَدَأَ خَلْقَ الْإِنْسَانِ مِنْ طِينٍ } ( سورة السجدة 7) اور انسان کی پیدائش کو مٹی سے شروع کیا ۔ خلق الخَلْقُ أصله : التقدیر المستقیم، ويستعمل في إبداع الشّيء من غير أصل ولا احتذاء، قال : خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] ، أي : أبدعهما، ( خ ل ق ) الخلق ۔ اصل میں خلق کے معنی ( کسی چیز کو بنانے کے لئے پوری طرح اندازہ لگانا کسے ہیں ۔ اور کبھی خلق بمعنی ابداع بھی آجاتا ہے یعنی کسی چیز کو بغیر مادہ کے اور بغیر کسی کی تقلید کے پیدا کرنا چناچہ آیت کریمہ : ۔ خَلْقِ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ [ الأنعام/ 1] اسی نے آسمانوں اور زمین کو مبنی بر حکمت پیدا کیا میں خلق بمعنی ابداع ہی ہے عود الْعَوْدُ : الرّجوع إلى الشیء بعد الانصراف عنه إمّا انصرافا بالذات، أو بالقول والعزیمة . قال تعالی: رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] ( ع و د ) العود ( ن) کسی کام کو ابتداء کرنے کے بعد دوبارہ اس کی طرف پلٹنے کو عود کہاجاتا ہی خواہ وہ پلٹا ھذایۃ ہو ۔ یا قول وعزم سے ہو ۔ قرآن میں ہے : رَبَّنا أَخْرِجْنا مِنْها فَإِنْ عُدْنا فَإِنَّا ظالِمُونَ [ المؤمنون/ 107] اے پروردگار ہم کو اس میں سے نکال دے اگر ہم پھر ( ایسے کام ) کریں تو ظالم ہوں گے ۔ رجع الرُّجُوعُ : العود إلى ما کان منه البدء، أو تقدیر البدء مکانا کان أو فعلا، أو قولا، وبذاته کان رجوعه، أو بجزء من أجزائه، أو بفعل من أفعاله . فَالرُّجُوعُ : العود، ( ر ج ع ) الرجوع اس کے اصل معنی کسی چیز کے اپنے میدا حقیقی یا تقدیر ی کی طرف لوٹنے کے ہیں خواہ وہ کوئی مکان ہو یا فعل ہو یا قول اور خواہ وہ رجوع بذاتہ ہو یا باعتبار جز کے اور یا باعتبار فعل کے ہو الغرض رجوع کے معنی عود کرنے اور لوٹنے کے ہیں اور رجع کے معنی لوٹا نے کے

Ahkam ul Quran by

Amam Abubakr Al Jassas

Tafseer Ibn e Abbas by

by Ibn e Abbas

اللہ تعالیٰ انسان کو پہلی بار نطفہ سے پیدا کرتا ہے اور اس کو قیامت کے دن پھر پیدا کرے گا اور پھر تم قیامت کے دن اس کے سامنے لائے جاؤ گے۔

Bayan ul Quran by

Dr Israr Ahmed

آیت ١١ (اَللّٰہُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ ) ” یہ الفاظ قرآن حکیم میں بار بار آئے ہیں۔ یُعِیْدُہٗ فعل مضارع ہے اور اس لحاظ سے اس میں حال اور مستقبل دونوں زمانوں کے معنی پائے جاتے ہیں۔ اگر اس کا ترجمہ فعل حال میں کیا جائے تو دنیا میں مخلوقات کی بار بار پیدائش (reproduction) مراد ہوگی ‘ جیسے ایک فصل بار بار کٹتی ہے اور بار بار پیدا ہوتی ہے ‘ جبکہ فعل مستقبل کے ترجمے کی صورت میں اس کا مفہوم عالم آخرت میں انسانوں کے دوبارہ جی اٹھنے تک وسیع ہوجائے گا۔

Tafheem ul Quran by

Abdul Ala Maududi

13 Though this thing has been put forward as a claim, it contains the basis of the claim too. Commonsense testifies that the One Who can originate creation, can reproduce the same creation far more easily. The origination of the creation is an actuality, which exists before everybody, and the disbelievers and the mushriks also admit that this is the work of Allah alone: Now it will be clearly absurd on their part to think that God Who has originated this creation, cannot reproduce it."

سورة الروم حاشیہ نمبر : 13 یہ بات اگرچہ دعوے کے انداز میں بیان فرمائی گئی ہے مگر اس میں خود دلیل دعوی بھی موجود ہے ۔ صریح عقل اس بات پر شہادت دیتی ہے کہ جس کے لیے خلق کی ابتدا کرنا ممکن ہو اس کے لیے اسی خلق کا اعادہ کرنا بدرجہ اولی ممکن ہے ۔ خلق کی ابتدا تو ایک امر واقعہ ہے جو سب کے سامنے موجود ہے ۔ اور کفار و مشرکین بھی مانتے ہیں کہ یہ اللہ تعالی ہی کا فعل ہے ۔ اس کے بعد ان کا یہ خیال کرنا سراسر نامعقول بات ہے کہ وہی خدا جس نے اس خلق کی ابتدا کی ہے ، اس کا اعادہ نہیں کرسکتا ۔

Aasan Tarjuma e Quran by

Mufti Taqi Usmani

4: جو لوگ اِس بات کو ناممکن سمجھتے تھے کہ اِنسان کے مرنے اور گلنے سڑنے کے بعد اسے دوبارہ کیسے زندہ کیا جائے گا، یہ اُن کا جواب ہے۔ یعنی ہرچیز کا قاعدہ یہ ہے کہ اُسے پہلی بار بنانا زیادہ مشکل ہوتا ہے، لیکن جب کوئی چیز ایک مرتبہ بنالی جائے تو دوبارہ اُسی جیسی چیز بنانا اِتنا مشکل نہیں ہوتا۔ یہ آیت بتارہی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہی تمام چیزوں کو پہلی بار پیدا فرمایا ہے، اِس لئے اﷲ تعالیٰ کے لئے اُنہیں دوبارہ پیدا کردینا کیا مشکل ہے؟

Ahsan ut Tafaseer by

Hafiz M. Syed Ahmed Hassan

Anwar ul Bayan by

Muhammad Ali

(30:11) یبدؤا۔ مضارع واحد مذکر غائب بدء یبدؤ بدء (فتح) مصدر سے ابتدائی تخ (رح) یق کرتا ہے۔ یعنی عدم سے وجود میں لاتا ہے۔ نیست سے ہست کرتا ہے۔ ابتداء (افتعال) آغاز۔ یعیدہ۔ مضارع واحد مذکر غائب اعادۃ (افعال) مصدر وہ اعادہ کرتا ہے یا کرے گا۔ وہ دوبارہ پیدا کرتا ہے یا کرے گا۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب۔ الخلق کی طرف راجع ہے۔ ترجعون۔ مضارع مجہول جمع مذکر حاضر۔ رجع یرجع رجع مصدر (ضرب) سے تم لوٹائے جاؤ گے۔

Ashraf ul Hawashi by

Muhammad Abdahul-Falah

3 ۔ کیونکہ جس کے لئے پہلی بار پیدا کرنا ممکن ہے اس کے لئے دوبارہ پیدا کرنا بدرجہ اولیٰ ممکن ہے۔

Asrar ut Tanzil by

Muhammad Akram Awan

آیات 11 تا 19 اسرارومعارف خالانکہ یہ ظاہر و باہر ہر شے کو اللہ پیدا فرماتے ہیں اور عدم سے وجود میں لاتے ہیں وہ یقینا اسے دوبارہ پیدا کریں گے اور اسی کی بارگاہ میں سب کو حاضر ہونا ہے آج انکار بھی کرتے ہیں تو کیا ہوا کل جب قیامت ہوجائے گی تو انہوں نے قیامت کی جو امیدین باندھ رکھی ہیں دم توڑ جائیں گی حتی کہ جن کو انہوں نے اللہ کا شریک ٹھہرایا وہ ان کی سفارش تک نہ کرسکیں گے بلکہ ان سے ناامید ہو کر یہ خود انکا انکار کردیں گے کہ ہم نے انہیں کبھی شریک مانا ہی نہ تھا۔ اور جب قیامت قائم ہوگی تو لوگ الگ الگ قسموں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ نیک و بد مومن و کافر جدا جدا ہوں گے۔ سو جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام کیے تو بہترین باغات میں ان کا استقبال اور مدارات ہوگی اور جن لوگوں نے کفر کا راستہ اختیار کیا اور اللہ کی آیات کا انکار کیا نیز قیام قیامت کے منکر تھے وہ سب عزاب میں جمع کیے جائیں گے۔ ذکردوام : لہذا اس کامیابی کو پانے کے لیے یاد الہی کو دائمی طور پر اپنا لینا چاہیے کہ اسی کا ذکر کرتے ہوئے سو جاؤ اور رات گزارو جب اٹھو تو اسی کو یاد کرنے لگو اس لیے ساری کائنات میں صرف وہی ایک ذات ہے جس کے لیے سب تعریفیں ہیں لہذا نہ صرف صبح شام بلکہ دن ڈھلے اور رات کے ڈھلنے کے وقت بھی اسے یاد کرتے رہا کرو اور اس کی پاکی بیان کیا کرو اس میں سب نمازیں تسبیحات تلاوت اور سب نیک اعمال شامل ہیں نیز اصل مراد ذکر قلبی ہے تاکہ کوئی لمحہ غفلت نہ آئے۔ اس کی قدرت کے دلائل تو روشن ہیں کہ مردہ سے زندہ کو پیدا کرتا ہے اور مادہ سے حیوان بناتا ہے ایسے ہی حیات سے بھرپور جسموں کو موت سے ہمکنار کردیتا ہے جس طرح سارا روئے زمین خشک ہو کر مردہ ہوجاتا ہے پھو اسکے انگ انگ سے حیات پھوٹنے لگتی ہے ایسے ہی تم لوگ بھی زندہ کیے جاؤ گے۔

Baseerat e Quran by

Muhammad Asif Qasmi

لغات القرآن آیت نمبر (اا تا 19 ) ۔ الخلق (تخلیق۔ پیدائش) ۔ یعید (وہ لوٹائے گا) ۔ یبلس (وہ ناامید ہوتا ہے) ۔ روضتہ (باغ۔ باغیچہ) ۔ یحبرون (حبر) (خوش کئے جائیں گے) ۔ تمسون (تم شام کرتے ہو) ۔ تصبحون (تم صبح کرتے ہو) ۔ عشی (رات کا وقت) ۔ تظھرون (تم دوپہر کرتے ہو) ۔ تشریح : آیت نمبر (11 تا 19 ) ۔ ” جو لوگ دنیا کے عیش و آرام اور بےفائدہ مشغلوں میں پڑ کر کفروشرک کی راہوں کو اختیار کرچکے ہیں ان کی سمچھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جب سارے انسان مر کھپ جائیں گے۔ ان کے وجود کے ذرات کائنات میں بکھر جائیں گے تو وہ دوبارہ زندہ کیسے پیداکئے جائیں گے ؟ حالانکہ ایسی سوچ رکھنے والے اگر ذرا بھی غور و فکر سے کام لیں تو یہ بات بہت واضح اور روشن ہے کہ جس اللہ نے خلق اور تخلیق کی ابتداء کی ہے، جس نے انسان اور کائنات کو وجود بخشا ہے اس کے لئے یہ کیا مشکل ہے کہ وہ کائنات میں بکھرے ہوئے ذرات کو جمع کر کے پھر سے انسان کو زندہ کر دے۔ یہ ایک ایسی کھلی ہوئی سچائی ہے جس پر یقین کرنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔ انسانوں کی دوبارہ پیدائش میں شک کرنے والے جب آخرت میں پہنچیں گے تو وہ سخت بدحواش ہوجائیں گے کیونکہ زندگی بھرجس سچائی کو وہ کھٹلاتے رہے تھے آج ان کے سامنے ہوگی۔ ان کی بدحواسی اور مایوسی اس وقت اور بھی بڑھ جائے گی جب ان کے وہ سہارے ٹوٹ جائیں گے جن سے وہ اس بات کی امیدیں باندھے ہوئے تھے کہ وہ آخرت کی زندگی میں ان کے کام آئیں گے۔ ان کی سفارش کریں گے۔ ان کو ہر طرح کی آفتوں سے بچالیں گے کیونکہ وہ بت کہہ اٹھیں گے کہ الہٰی ! ہمیں نہیں معلوم کہ یہ ہماری عبادت و بندگی کیوں کرتے تھے۔ ان کے گناہوں اور کفروشرک سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے۔ غیر اللہ کے اس کو رے جواب سے مشرکین سخت مایوس ہوجائیں گے کہ اب ان کی طرف سے بولنے والا اور سفارش کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ شرمندگی کے عالم میں خود ان بتوں پر لعنت بھیجنا شروع کردیں گے۔ یہ وہ وقت ہوگا جب سارے انسان دو گرو ہوں میں تقسیم ہوجائیں گے۔ اہل ایمان اور اہل کفر۔ وہ لوگ جو اللہ پر ایمان لائے۔ انہوں نے عمل صالح کئے ہوں گے وہ تو جنت کے عیش و آرام کے ساتھ خوش و خرم اور مسرور ہوں گے۔ لیکن وہ لوگ جنہوں نے کفرو شرک کی روش اخیتار کر کے اللہ کی آیتوں کا انکار اور اللہ کے سامنے حاضری اور ملاقات کو زندگی بھر جھٹلایا ہوگا وہ اپنے اعمال کے مطابق پکڑ کر اللہ کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔ ان آیات میں دوسرے بات یہ ارشاد فرمائی گئی ہے کہ آخرت میں کامیاب ہونے والے وہ لوگ ہوں گے جو صبح و شام اور راتوں کی تنہائیوں میں اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کر کے اپنے دلوں کو زندہ کرتے رہتے ہیں۔ فرمایا کہ زمین و آسمان میں کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے جو اس کی حمد وثناء نہ کررہی ہو ۔ اونچے اونچے پہاڑ، بہتے دریا، سر سبز و شاداب نباتات، خوبصورت کھیت، چہچہاتے پرندے، ہوائیں، فضائیں اور ہر ایک جان دار اور بےجان ہر وقت اس کی تسبیح کر رہا ہے یہ اور بات ہے کہ ہم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی تسبیح اور حمد و ثنا کر رہا ہے۔ علماومفسرین نے فرمایا ہے کہ انسانوں کی تسبیح اور حمد و ثنا کا اعلی ترین نمونہ ” نماز “ ہے کیونکہ نماز کا قیام اور ادائیگی اللہ کی سب سے بہتر اور اعلیٰ تسبیح اور حمد و ثنا ہے۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات اور عمل سے یہ بات ثابت ہے کہ ہر روز پانچ وقت کی نمازیں ادا کرنا ہر مسلمان عاقل و بالغ پر فرض ہے اور اس کی کسی حالت میں (سوائے مخصوص حالات کے) معافی نہیں ہے۔ اسی بات کو صحابہ کرام (رض) نے اپنے عمل سے ثابت فرمایا اور اس پر پوری امت متفق ہے۔ اس آیت میں پانچوں وقت کی تسبیح یعنی نماز کے اوقات کا اظہار ہے۔ اس کے علاوہ سورة ہود اور سورة طہ میں بھی نمازوں کے پانچوں اوقات کو بتایا گیا ہے۔ آخر میں اللہ نے اپنی قدرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ کی ذات بےعیب ہے۔ وہ اللہ کی ذات بےعیب ہے۔ وہ اللہ اس کائنات کے نظام کو اپنی مرضی سے چلا رہا ہے وہ زندہ کو مردہ سے زندہ کو پیدا کر رہا ہے۔ اسی طرح وہ وقت دور نہیں ہے جب وہ تمام مرنے والوں کو دوبارہ زندہ کر کے قبروں سے نکال لائے گا اور پھر ہر ایک سے اس کے کئے ہوئے اعمال کا حساب لے گا۔

Bayan ul Quran by

Maulana Ashraf ali Thanvi

Fahm ul Quran by

Mian Muhammad Jameel

فہم القرآن ربط کلام : کفار کی نافرمانی کا ایک سبب یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کو یوں ہی پیدا کیا ہے اس لیے مرنے کے بعد ہم نے دوبارہ پیدا نہیں ہونا، یہاں ان کے باطل عقیدہ کا جواب دیا گیا ہے۔ جس ” اللہ “ نے انسان کو پہلے سے تیار شدہ نمونے کے بغیر پیدا کیا ہے دوسری مرتبہ اسے پیدا کرنا اس کے لیے کیسے مشکل ہوگا ؟ ہر انسان کو نہ صرف دوبارہ پیدا کیا جائے گا بلکہ سب نے اپنے رب کی بارگاہ میں پیش بھی ہونا ہے۔ جب یہ دن قائم ہوگا تو اس دن مجرم ہ کے بکے رہ جائیں گے، نہ صرف ہ کے بکے ہوں گے بلکہ ہر طرف سے مایوس ہوں گے۔ پہلے بھی عرض کی جا چکی ہے کہ قرآن مجید کا تیسرا بڑا عنوان قیام قیامت اور اس میں حساب و کتاب کا مسئلہ ہے، جس کا منکرین قیامت بلا دلیل انکار کرتے ہیں، قرآن مجید قیامت برپا ہونے کے مختلف دلائل دیتا ہے یہاں انسان کی اپنی تخلیق کا حوالہ دیتے ہوئے قیامت قائم ہونے کا ثبوت دیا ہے کہ اے انسان اپنی طرف دیکھ اور اس پر غور کر جس رب نے تجھے پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے کیا اس کے لیے تجھے دوبارہ پیدا کرنا مشکل ہے ؟ کیوں نہیں نہ صرف وہ تجھے دوبارہ پیدا کرے گا بلکہ تم نے اس کی بارگاہ میں حاضر ہو کر اپنے اپنے اعمال کا حساب دینا اور نیکی کی جزا اور برائی کی سزا پانا ہے۔ تفسیر بالقرآن جس رب نے انسان کو پہلی دفعہ پیدا کیا ہے وہی اسے دوبارہ پیدا کرے گا : ١۔ پہلے اور دوبارہ پیدا کرنے والا اور زمین و آسمان سے تمہارے لیے روزی کا بندوبست کرنے والا ” اللہ “ کے سوا کوئی اور الٰہ ہے ؟ (النمل : ٦٤) ٢۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرما دیں اللہ ہی نے مخلوق کی ابتداء کی اور وہی دوبارہ پیدا کرے گا پھر تم کہاں بہک گئے ہو ؟ (یونس : ٣٤) ٣۔ ” اللہ “ ہی نے مخلوق کو پیدا کیا، پھر وہ اسے دوبارہ پیدا کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔ (الروم : ١١) ٤۔ وہ کہتے ہیں ہمیں کون دوبارہ زندہ کرے گا ؟ فرما دیجیے جس نے پہلی بار پیدا کیا تھا وہی پیدا کرے گا۔ (بنی اسرائیل : ٥١) ٥۔ ہم نے زمین سے تمہیں پیدا کیا اسی میں لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ اٹھائیں گے۔ (طٰہٰ : ٥٥)

Fi Zilal al Quran by

Sayyid Qutb Shaheed

اللہ یبدوا الخلق ۔۔۔۔ ترجعون (11) یہ بہت ہی واضح اور سادہ حقیقت ہے اور اس کے دونوں اجزاء اور دونوں کڑیوں کے درمیان ربط مکمل واضح ہے کیونکہ کسی چیز کا پہلی بار بنانا اور اس کا دوبارہ بناناقابل فہم بات ہے ۔ اس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں ہے۔ تخلیق میں یہی دو حلقے ہوتے ہیں ، ان کے درمیان یہی تعلق ہوتا ہے اور انسان کی تخلیق کے بعد اس کے خالق کے سامنے دوبارہ پیش ہونا ایک لازمی اور معقول امر ہے۔ وہی پہلی بار تخلیق کرنے والا ہے اور وہی دوسری بار تخلیق کرنے والا ہے۔ اور یہ اس لیے کہ اچھا اور برا کام کرنے والوں کو وہ پوری پوری جزاء اور سزا دے۔ بعث بعد الموت پر یہ دلیل دینے کے بعد اب یہاں بعث بعد الموت کا ایک منظر پیش کیا جاتا ہے۔ اس میں اہل ایمان اور اہل کفر کے انجام کی ایک جھلک دکھائی جاتی ہے ، جسکے اندر شریکوں اور عقیدہ شرک کے بودے پن کو اچھی طرح ظاہر کیا گیا ہے۔

Anwar ul Bayan by

Maulana Aashiq illahi Madni

Jawahir ur Quran by

Moulana Ghulamullah Khan

11:۔ یہ حشر و نشر کے اثبات پر عقلی دلیل ہے۔ یعنی جو اللہ تعالیٰ انسانوں کو پہلی بار پیدا کرسکتا ہے وہ ان کو دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے۔ اس لیے قیامت کے دن وہ سب کو دوبارہ زندہ کرے گا اور سب اس کے سامنے حساب کتاب کے لیے حاضر ہوں گے۔

Kashf ur Rahman by

Ahmed Saeed Dehlvi

11۔ آگے آخرت اور وہاں کی سزا جزا کا بیان ہے ارشاد ہوتا ہے اللہ تعالیٰ ہی مخلوق کو پہلی بار پیدا کرتا ہے پھر وہی اس کو دوبارہ پیدا کرے گا پھر تم سب اسی کی طرف لوٹائے جائو گے۔ یعنی جس نے پہلی بار پیدا کیا ہے وہی اعادہ فرمائے گا تمام خلق کا پھر تم سب کی بازگشت اسی کے حضور میں ہوگی ۔